''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں
حضرت محمد مصطفےٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
مصنف: سید غافر حسن رضوی چھولسی "ھندی"
ماخذ:شیعہ نیٹ
حرف آغاز
ہمارا موضوع، اخلاق وسیرت حضرت ختمی مرتبت ۖ ہے یعنی ہم حضور سرورکائنات ۖ کی سیرت پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں لیکن دل ودماغ حیران وپریشان ہیں کہ آخر اس شخصیت کی سیرت پر روشنی کس طرح ڈالیں، جوخود آفتاب ہوبلکہ جس کی ڈیوڑھی پر آفتاب بھی سجدہ کرتا ہو، ماہتاب اس کے اشاروں پر چلتا ہو، ہماری گنہگار زبان یا ہمارا نا قص قلم، اس عقل کامل کی مدح وثنا کس طرح کرے، جس کی تعریف میں کل ایمان، امیر کائنات علی ابن ابی طالب ٭ رطب اللسان ہیں، جس کی تعریف سے قرآن کریم مملو ہے،جس کی تعریف خدا وند عالم کرتا نظر آتا ہے،جس کو خدا وند عالم نے آسمانوں کی سیر کرائی اور براق جیسی سواری کے ذریعہ ایک رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا اور قرآن کریم اس واقعہ کو اس طرح بیان کرتا ہے(سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الیٰ المسجد الاقصیٰ) (١)
یعنی پاک وپاکیزہ ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ کو سیر کرائی راتوں رات، مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ۔
وہ پیغمبر کہ جو محبت و الفت کا ایک جہان ہے اور کہیں تو اتنی زیادہ محبت کا اظہار کیا کہ انسانی عقل سوچنے پر مجبور ہو گئی ایک مرتبہ آپ ۖ وضو فرمارہے ہیں ،آپ ۖکی نگاہوں نے دیکھا کہ ایک بلی ہے کہ جوپیاس کی شدت سے زبان نکالے ہوئے ہے حضور ۖ نے وضو چھوڑ کر وہ پانی بلی کے سامنے رکھہ دیا تاکہ وہ اس پانی کے ذریعہ اپنی پیاس بجھا سکے۔
……………………………………
(١)سورۂ اسراء/١
حضور ۖ دشمن کے مقابلہ میں پہاڑ سے بھی زیادہ مستحکم ومضبوط تھے اور دوست کے ساتھ پانی سے بھی زیادہ نرم ورواں ،اپنے ذاتی حق کے متعلق، اپنے جانی دشمن کو بھی معاف کردیتے تھے اور جب انصاف وقانون کی بات آتی ہے تو فرماتے ہیں ''خدا کی قسم اگر میری پارۂ جگر ''فاطمہ زہرا '' بھی یہ کام انجام دیتی تو میں اسے بھی وہی سزا دیتا جو معبود نے مقرر فرمائی ہے۔
جس زمانہ میں ایسا نفسا نفسی کا عالم تھا کہ ایک شخص کے قتل ہوجانے پر پورا قبیلہ انتقام کے لئے قیام کرتا تھا اور نہ جانے کتنے بے گناہ انسانوں کو جان سے ہاتھہ دھونا پڑتا تھااور بے رحمی اس درجہ تک پہونچ چکی تھی کہ معصوم بچوں پر بھی رحم نہیں کیا جاتا تھا، ایسے دورمیں حضور ۖ فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے حیوان کو اذیت دے گا (چاہے وہ حج کے راستے میں ہو) وہ عادل نہیں ہے اور اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہے چونکہ جو انسان حیوان کو تکلیف دیتا ہے وہ سنگدل ہوتا ہے اور سنگدل کی گواہی قبول نہیں کی جا سکتی (١)
یہاں ایک سوال سراٹھاتا ہے کہ آخر حضور ۖ کو کیا ضرورت تھی کہ ایسے احکام نافذ کریں؟تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ چونکہ حضور ۖ کا یہ وظیفہ تھا کہ زندہ انسانوں کے لبادہ میں مردہ مجسموں کو نعمت حیات سے مالا مال کریںاور خود خدافرماتا ہے (فأ ستجیبوا للہ وللرسول اذا دعاکم لما یحییکم)(٢)
یعنی جب تمھیں اللہ ورسول حیات کی طرف دعوت دیں تو تمھارا یہ وظیفہ ہے کہ ان کی آواز پر لبیک کہو، چاہے کتنے ہی سنگدل سہی خدا ورسول کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑے گا ورنہ زمرۂ اسلام سے خارج۔
اور دوسری جگہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے (من یطع الرسول فقد اطاع اللّٰہ) (٣)
یعنی جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی، (ما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ) (٤)
رسول ۖ اپنی ھواوھوس سے کچھہ کلام نہیں کرتے بلکہ یہ تو وہی کہتے ہیں جو وحی کہتی ہے۔
……………………………………
(١)سیرہ پیامبر اکرم ۖ: ص١٦،١٧
(٢)سورۂ انفال/٢٤
(٣)سورۂ نساء/٨٠
(٤)سورۂ نجم / ٣ ،٤
اس رسول کی شان میں کیا کہا جائے جس کی ولادت نے دنیائے کفر کو تہ وبالاکردیا، فارسی آتشکدہ گل ہوگیا، قیصرو کسریٰ کے کنگرے ٹوٹ ٹوٹ کر گر گئے ۔
عظمت اتنی زیادہ کہ خدانے اپنا مہمان بنایا اور انکساری اس حد تک کہ غلاموں کے ساتھہ کھانا کھا رہے ہیں، کیا حضور ۖ کی عظمت کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ براق جیسی سواری کے ذریعہ آسمانوں کی سیر کرائی گئی؟ اور انکساری یہ کہ...... بغیر زین کے خچر پر سواری کریں۔
آپ ۖکی عظمت یہ ہے کہ جبرئیل امین خدا کا سلام لیکر نازل ہوتے ہیں اور انکساری اس درجہ تک کہ مکہ کے بچّوں کو سلام کرنے کا موقع نہیں دیتے، جدھر سے بھی حضور ۖ کا گذر ہوتا تھا، بچّے چھپ جاتے تھے کہ ہم حضور ۖ کو سلام کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ حضور ہمیں پہلے ہی سلام کر لیں(١)
……………………………………
(١)سیرۂ پیامبر اکرم: ص١٦ تا ١٨
|