میں غریب سے بھی غریب ہوں مرے پاس دستِ سوال ہے
میں غریب سے ھی غری ہوں مرے پاس دستِ سوال ہے
اے قسیم راحتِ دو جہاں مری سانس سانس محال ہے
تو خدائے پاک کا راز داں تیرا ذکر زینتِ دو
iiجہاں
تیرے وصف کیا میں کروں یاں تیری ات ات کمال
iiہے
میں ہوں ے نوا تو ہے ادشہ میرا تاجِ سر تیری خاکِ پا
میں ہوں ایک ھٹکی ہوئی صدا تری ذات حسنِ مآل
iiہے
تو ہی فرش پر تو ہی عرش پر تیرا یہ ھی گھر تیرا وہ ھی
iiگھر
جہاں ختم ہوتا ہے ہر سفر تیرا اس سے آگے جمال
iiہے
تیری ذات عالی شہ عر کہاں میں کہاں یہ مری
iiطل
جو ملا، ملا وہ ترے س مرا اس میں کیسا کمال
iiہے
نہیں تیرے عد کوئی نی ہوئی ختم تجھ پر
iiپیمری
تیری ذاتِ حسن و جمال کی نہ نظیر ہے نہ مثال
iiہے
میں یہ کیوں کہوں کہ غری ہوں شہ دوسرا کے قری
iiہوں
میں تو آس روشن نصی ہوں غمِ مصطفےٰ مری ڈھال
iiہے
سر جھکایا قلم نے جو قرطاس پر پھول اس کی زباں سے بکھرنے لگے
سر جھکایا قلم نے جو قرطاس پر پھول اس کی زاں سے کھرنے
iiلگے
مدحتِ مصطفےٰ تیرا احسان ہے تجھ سے کیا کیا مقدر سنورنے
iiلگے
یہ تو ان کی عنایات کی ات ہے ورنہ کیا ہوں میں کیا میری اوقات
iiہے
جس کا دنیا میں پرسان کوئی نہ تھا اس کے دامن میں تارے اترنے
iiلگے
یونہی مجھ پر کرم اپنا رکھنا سدا اے مرے چارہ گر اے شہ
iiدوسرا
تیری چشمِ کرم جس طرف کو اٹھی اس طرف نور سینوں میں ھرنے
iiلگے
قط و ادال غوث و ولی متقی س کی محسن ہے نورِ تجلی
iiتیری
روشنی تیرے کردار کی پا کے س سینہ ٔ سنگ کو موم کرنے
iiلگے
عشق سچا اگر ہو تو دیدار کی قید کوئی نہیں فاصلے کچھ
iiنہیں
ہو گئی جن کے دل کو صارت عطا لمحہ لمحہ وہ دیدار کرنے
iiلگے
کچھ عج وضع سے کر رہے ہیں سر تیرے عشاق س اپنے شام و
iiسحر
جیتا دیکھا کسی کو تو جینے لگے مرتا دیکھا کسی کو تو مرنے
iiلگے
اے خدا آس کو وہ عطا نعت کر جو منور کرے س کے قل و
iiنظر
ے سہاروں کو تسکین جو خش دے غم کے ماروں کے جو زخم ھرنے لگے
لب کشائی کو اذنِ حضوری ملا چشمِ بے نور کو روشنی مل گئی
ل کشائی کو اذنِ حضوری ملا چشمِ ے نور کو روشنی مل
iiگئی
ہاتھ اٹھاوں میں ا کس دعا کے لیے انکی نست سے ج ہر خوشی مل
iiگئی
ذوق میرا عادت میں ڈھلنے لگا زاویہ گفتگو کا دلنے لگا
ساعتیں میری پرکیف ہونے لگیں دھڑکنوں کو مری ندگی مل
iiگئی
ناز اپنے مقدر پہ آنے لگا ہر کوئی ناز میرے اٹھانے لگا
دھل گیا آئینہ میرے کردار کا ج سے ہونٹوں کو نعتِ نی مل
iiگئی
ان کی چشمِ عنایت کا اعجاز ہے ورنہ کیا ہوں میں کیا میری پرواز
iiہے
خامیاں میری نتی گئیں خویاں زندگی کو مری زندگی مل
iiگئی
میری تقدیر گڑی نائی گئی ات جو ھی کہی کہلوائی
iiگئی
میں نے تو صرف تھاما قلم ہاتھ میں جانے کیسے کڑی سے کڑی مل
iiگئی
زندگی ج سے ان کی پناہوں میں ہے ایک تاندگی سی نگاہوں میں ہے
مجھ کو اقرار ہے اس کے قال نہ تھا ذاتِ وحدت سے جو روشنی مل
iiگئی
مدحتِ مصطفےٰ ہے وہ نورِ میں جس کا ثانی دو عالم میں کوئی
iiنہیں
آس اس کی شعاعوں کے ادراک سے راہ ھٹکوں کو ھی رہری مل
iiگئی
اپنی اوقات کہاں، ان کے سبب سے مانگوں
اپنی اوقات کہاں، ان کے س سے
iiمانگوں
ر ملا ان سے تو کیوں ان کو نہ ر سے
iiمانگوں
ان کی نست ہے ہت ان کا وسیلہ ہے
iiہت
کیوں میں کم ظرف نوں ڑھ کے طل سے
iiمانگوں
جس ضیا سے صدا جگ مگ ر ہے دنیا من
iiکی
اس کی ہلکی سی رمق ماہِ عر سے مانگوں
آندھیاں جس کی حفاظت کو رہیں سرگرداں
پیار کا دیپ وہ ازارِ اد سے
iiمانگوں
کوئی اسلو سلیقہ نہ قرینہ مجھ
iiمیں
سوچتا ہوں انھیں کسی طور سے، ڈھ سے
iiمانگوں
کارواں نعت کا اے کاش رواں یوں ہی
iiرہے
اور میں نِت نئے عنوان اد سے
iiمانگوں
آس آاد رہے شہر مری الفت
iiکا
ہر گھڑی اس کی خوشی دستِ طل
iiسے
|