سوادِ عشق نی کیا کمال ہوتا
iiہے
دیارِ روح میں حسن و جمال ہوتا ہے
جو اس چراغ کا پروانہ ن کے رہ جائے
اسے نہ کھال نہ جاں کا خیال ہوتا
iiہے
سخاوتوں کے خزانے نثار ہوتے
iiہیں
عقیدتوں کا سفر لازوال ہوتا
iiہے
پھر ایک ار زیارت سے جاں مشرف ہو
لوں پہ شام و سحر یہ سوال ہوتا
iiہے
تمام وقت کے حاکم اسے سلام کریں
تمہاری راہ میں جو پائمال ہوتا
iiہے
گزر کے اس کی محت کے امتحانوں
iiسے
کوئی حسین (ع) تو کوئی لال ہوتا
iiہے
نی کا ہو کے جسے آس موت آ
iiجائے
وہ شخص مرتا نہیں لازوال ہوتا
iiہے
لوں نام نبی قلب ٹھہرجائے ادب سے
لوں نام نی قل ٹھہر جائے اد
iiسے
صد شکر یہ اعزاز ملا ہے مجھے ر سے
دنیا ہی دل دی ہے مرے ذوق نے
iiمیری
میں صاح کردار ہوا تیرے س سے
اے سرورِ کونین تیرے در کے
iiتصدق
ملتا ہے یہاں س کو سوا اپنی طل
iiسے
احسان ترا کیسے ھلا دوں شہِ
iiوالا
پہچان ہوئی ر کی ہمیں تیرے س
iiسے
مشکل کوئی مشکل نہیں ٹھہری مرے
iiآگے
مدحت شہِ لولاک کی ہاتھ آئی ہے ج
iiسے
اے خالقِ کونین دعا ہے مری تجھ
iiسے
ٹوٹے نہ کھی راطہ اس عالی نس
iiسے
کرتا نہیں دنیا میں اصولوں کا وہ سودا
ہے آس محت جسے سلطانِ عر
iiسے
نبی کی چشمِ کرم کے صدقے فضائے عالم میں دلکشی ہے
نی کی چشمِ کرم کے صدقے فضائے عالم میں دلکشی
iiہے
گلوں میں کلیوں میں رنگ و نگہت ہے چاند تاروں میں روشنی
iiہے
جو آپ آتے نہ اس جہاں میں وجودِ کونین ھی نہ ہوتا
س آپ کے دم قدم سے آقا جہاں کی محفل سجی ہوئی
iiہے
ہوا ہے ظلمت کا چاک سینہ گرے ہیں جھوٹے خدا زمیں
iiپر
کرن نوت کی پھوٹتے ہی جہاں کی قسمت دل گئی ہے
کمالِ اہلِ ہنر سے اعلیٰ خیال اہلِ نظر سے
iiالا
مثال جس کی کہیں نہیں وہ جمال حسنِ محمدی ہے
شیر ھی ہیں نذیر ھی ہیں سراج ھی ہیں منیر ھی
iiہیں
رؤف ھی ہیں رحیم ھی ہیں انہی کی دو جگ میں سروری
iiہے
کہیں پہ یٰسین کہیں پہ طہٰ کلام حق ہے ترا
iiقصیدہ
تری ہر اک ات حکم ری خدا کا تو لاڈلا نی ہے
خدا سے جو مانگنا ہے مانگو ہے آس ہر سو عطا کی
iiارش
خدا نہ ٹالے گا ات کوئی کہ آج میلاد کی گھڑی
iiہے
دیوانہ وار مانگیے رب سے اٹھا کے ہاتھ
دیوانہ وار مانگیے ر سے اٹھا کے
iiہاتھ
آئیں گے پھول نعت کے تم تک صا کے ہا
iiتھ
لکھنے سے پہلے نعت کے آنکھیں ہوں ا
iiوضو
آئیں گے ت ہی غی سے گوہر ثنا کے ، ہا
iiتھ
نتی نہیں ہے ات عطا کے نا
iiکھی
آتا نہیں ہے کچھ ھی سوائے عطا کے ہا
iiتھ
اک چشم التفات ادھر ھی ذرا
iiحضور(ص)
امت کی سمت ڑھ گئے مکر و ریا کے ہا
iiتھ
الفت ملی ہے آپ کی س کچھ عطا
iiہوا
ا کیا کمی رہی جو اٹھائیں دعا کے ہا
iiتھ
سیلا عشقِ شافعِ محشر ہے میرے
iiگرد
"دیکھے تو مجھ کو نار جہنم لگا کے
iiہاتھ"
وہ فیصلے خدا کی رضا آس ن
iiگئے
جن فیصلوں کے حق میں اٹھے مصطفےٰ کے ہا
iiتھ
فنا ہو جائے گی دنیا مہ و انجم نہیں ہوں گے
فنا ہو جائے گی دنیا مہ و انجم نہیں ہوں
iiگے
تیری مدحت کے چرچے پھر ھی آقا کم نہیں ہوں
iiگے
ہر اک فانی ہے شے اور ذکر لا فانی تیرا ٹھہرا
تیری توصیف ت ھی ہو گی ج آدم نہیں ہوں
iiگے
توسل سے انھی کے در کھلیں گے کامرانی
iiکے
وہ جن پر ہاتھ رکھ دیں گے انہیں کچھ غم نہیں ہوں گے
کروڑوں وصف تیرے لکھ گئے اور لکھ رہے ھی
iiہیں
کروڑوں اور لکھیں گے مگر یہ کم نہیں ہوں
iiگے
خدا کے گھر کا رستہ مصطفےٰ کے گھر سے جاتا
iiہے
وہاں سے جاؤ گے تو کوئی پیچ و خم نہیں ہوں گے
کریں گے کس طرح سے سامنا وہ روز محشر
iiکا
تاؤ آس جن کے سرورِ عالم نہیں ہوں گے
|