عشق س عشق مصطفےٰ iiمانگوں اور تجھ سے نہ کچھ خدا iiمانگوں
اس دعا سے ڑی دعا کیا iiہے اس سے ڑھ کر میں کیا دعا iiمانگوں
میرے سوزِ جگر کے چارہ iiرساں! تجھ سے ہر زخم کی دوا iiمانگوں
زندگی مجھ کو خشنے والے ii! زندگی کا میں مدعا iiمانگوں
اپنے آپے سے ہو کے اہر iiآج تجھ سے میں تیرا دل را مانگوں
لوگ کہتے ہیں جن کو ے iiسایہ ان کے سائے کا آسرا iiمانگوں
جاں ھی جائے تو آس دے کر میں ان کے کوچے کی خاک پا iiمانگوں
پھول نعتوں کے سدا د ل میں کھلائے رکھنا
پھول نعتوں کے سدا د ل میں کھلائے iiرکھنا اپنی ہر سانس کو خوشو میں سائے iiرکھنا
ان کے ارشاد دل و جاں سے مقدم iiرکھنا ان کی سیرت پہ سدا سر کو جھکائے iiرکھنا
جانے کس پہر دے پاؤں وہ اتریں دل iiمیں اشک پلکوں پہ سرِ شام سجائے iiرکھنا
چاہتے ہو تمہیں آقا کی غلامی مل iiجائے فصل سینے میں محت کی اگائے iiرکھنا
روشنی اتنی ہے منزل ھی دھواں لگتی iiہے آپ رہر ہیں مجھے راہ دکھائے iiرکھنا
آرزو ہے! مرا خطہ یونہی آاد iiرہے ار رحمت کے سدا اس پر جھکائے iiرکھنا
آس ہو جائے گی آقا کی زیارت ھی iiنصی ان کی راہوں میں نگاہوں کو چھائے رکھنا
زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں روشن
زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں iiروشن ظہورِ مصطفےٰ سے ہو گئے دونوں جہاں iiروشن
گئی جن راستوں سے تھی سواری کملی والے iiکی انہی رستوں کا ا تک ہے غار کارواں iiروشن
نصیوں پر میں اپنے ناز جتنا ھی کروں کم iiہے ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم، کہاں روشن؟
ستاروں سے پرے کے ھی مناظر دیکھ لیتی iiہیں جن آنکھوں میں نی کے پیار کی ہیں جلیاں روشن
خدا سے آشنائی کا کسے معلوم تھا iiرستہ وہ آئے تو ہوئے ہیں راستوں کے س نشاں iiروشن
خدا نے خش دی ج سے سعادت نعت گوئی iiکی ہوئیں اس دن سے میرے دل کی ساری ستیاں روشن
مقدر کے اندھیرے آس اس کا کیا گاڑیں iiگے ہے جس کے پاس یادِ مصطفےٰ کی کہکشاں iiروشن
فضا میں خوشبو بکھر گئی ہے لبوں پہ میرے سلام آیا
فضا میں خوشو کھر گئی ہے لوں پہ میرے سلام iiآیا مناؤ خوشیاں زمین والو! فلک سے خیر الانام آیا
تمام راہیں ہوئیں وہ روشن جہاں سیرے تھے تیرگی iiکے جھکے ہیں کیا کیا اٹھے ہوئے سر یہ کون ذی احترام iiآیا
جو زم ہو شاہِ دوسرا کی وہاں اد کا لحاظ iiرکھنا لند اپنی صدا نہ کرنا کلامِ حق میں پیام iiآیا
نہ کوئی پانی پہ قتل ہوگا نہ کوئی زندہ گڑے گی iiیٹی جہالتوں کو مٹانے والا شفیق ہر خاص و عام iiآیا
درود کی ڈالیاں اترنے لگی ہیں مکہ کی وادیوں iiمیں لاسِ خاکی میں نورِ یزداں مثالِ ماہِ تمام iiآیا
ولی ولی کی نی نی کی وہ پیاس ھی ہے وہ آس ھی ہے ولی ولی کا قرار آیا نی نی کا امام iiآیا
|