مقدمہ(از: سیّد شاکر القادری)
درویش منش، سادہ طبیعت اور دھیمے لب و لہجے میں بات کرنے والے سعادت حسن آس سے میری جان پہچان آج سے کم و بیش تیس سال پہلے ہوئی جب و ہ مدنی میلاد پارٹی اور بزم چراغِ مصطفےٰ اٹک کے لیے ان کی فرمائشی دھنوں پر نعتیں لکھا کرتے تھے۔ اس وقت سے ان کی نعت گوئی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سے بڑی اور کیا سعادت ہو سکتی ہے کہ ان کے جذبے نے اظہار کے لیے شعر کا جو روپ دھارا وہ محض لذت گفتار اور وصفِ لب و رخسار سے متشکل نہیں ہوتا بلکہ جذبے کی شدت،فکر کی سچائی اور احساس کی شیفتگی سے عبارت ہے۔سعادت حسن اس نے اپنے فنی سفر کے لیے سعادت ابدی کا وہ راستہ منتخب کیا ہے جس پر چلنے والا مسافر کبھی بھی گم کردہ راہِ منزل نہیں قرار پا سکتا۔ انہوں نے نعت گوئی کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔میں یہاں پر یہ تاثر نہیں دینا چاہتا کہ سعادت حسن آس نے غزل بالکل نہیں کہی، انہوں نے غزل کو بھی ذریعۂ اظہار بنایا ہے تاہم ان کی غزل میں بھی ایسے معنوی حوالے مل جاتے ہیں جن کا تاثر ہمیں مولائے کائنات (ص) کی جانب کھینچ کر لے جاتا ہے۔
نعت کا موضوع بظاہر بڑا آسان، عام فہم اور سادہ لگتا ہے لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہے۔ اس میں ذرہ بھر کوتاہی کی گنجائش نہیں۔ذرا سی لغزش ہوئی اور نعت گو کے سارے اعمال اکارت ہوئے اور ضلالت و گمراہی کے عمیق گڑھے اس کا مقدر بن گئے۔عرفی جیسا خود پسند اور متکبر شاعر بھی جب اس میدان میں آتا ہے تو کانپ اٹھتا ہے اس کے نزدیک نعت گوئی تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے:
عرفی مشتاب این رہِ نعت است نہ صحراست آہستہ کہ رہ بر دمِ تیغ است قدم را |
مولانا احمد رضا خان بریلوی کے نزدیک نعت گوئی انتہائی مشکل کام ہے۔ گویا تلوار کی دھار پر چلنا ہے ذرا سا آگے بڑھے تو الوہیت کی حدود میں داخل ہو گئے اور ذرہ برابر بھی کمی کی تو تنقیص ہو گئی۔ گویا نعت شریف میں دونوں جانب سخت حد بندی ہے۔مجید امجد کے خیال میں جناب رسالت مآب (ص) کی تعریف میں ذرا سی لغزش نعت کو حدود کفر میں داخل کر سکتی ہے۔ ذرا سی کوتاہی مدح کو قدح میں بدل سکتی ہے۔ ذرا سا شاعرانہ غلو ضلالت کے زمرے میں آ سکتا ہے اور ذرا سا عجز بیان اہانت کا باعث بن سکتا ہے۔
یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ" نعت کے اشعار میں فنی محاسن و معائب تلاش کرنا اس مقدس جذبے کی توہین ہے جو اس کی تخلیق کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے"۔ لیکن موضوع کے احترام کا یہ تقاضہ ہرگز نہیں کہ کلام کی بے کیفی و بے رونقی کی پردہ پوشی کی جائے اور ناقد، شاعر کی باز پرس میں صرف اس لیے متامل ہو کہ نعت عقیدت کا اظہار ہے۔ اس طرح شاعر کو فنی کمزوریاں چھپانے کے لیے اپنے معتقدات کی آڑ مل جاتی ہے۔ فارسی کا یہ مقولہ"نعت گو پوچ گو" ایسے ہی شعراء پر صادق آتا ہے جو عقیدت کے نام پر بے کیف اور بے تاثیر اشعار تخلیق کرتے رہتے ہیں۔
میرے اس موقف کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ سید و سرور ِعالم(ص) پر نازل ہونے والی کتاب قرآن حکیم بھی معجز نما فصاحت وبلاغت، شوکتِ الفاظ،حسنِ بیان، اثرو نفوذ اور معنوی کیف و کم کے اعتبار سے رہتی دنیا تک ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ خود سرورِ عالم (ص) کے اقوال کے بارے میں آپ(ص) کا ارشادِ عالی ہے" انااوتیت بجوامع الکلم" مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں،جن کے الفاظ کم اور معانی وسیع ہیں، اور بہترین کلام وہی ہوتا ہے جو مختصر ہونے کے باوجود وسیع معانی کا حامل بھی ہو اور زور دار بھی۔چنانچہ آپ (ص) کی احادیث مبارکہ ،کلام موزوں، ایجاز کلام، نظمِ بیان، حسنِ ترتیب اور خوش اسلوبی جیسی خوبیوں سے مالامال ہیں اور آپ(ص) کے اکثر و بیشتر ارشادات عربی ادب میں ضرب الامثال بن چکے ہیں۔
آپ(ص) نے دوسرے لوگوں کے ایسے موزوں اور برجستہ کلام کی بھی تعریف فرمائی ہے جو واقعیت و صداقت کے خلاف نہ ہو اور یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ مشرکین مکہ کے مخالف شعراء کی جانب سے خلاف واقعہ ، غلط، گمراہ کن اور نفس و شیطان کی انگیخت پر کی گئی ہجویات پر مبنی شاعری کی موثر اسلوب اور شاعرانہ حسن و ادا کے ساتھ تردید کرنے کا حکم بھی آپ(ص) نے جاری فرمایا،چنانچہ حضرت حسان بن ثابت مخالفین کے مطاعن،تنقیصی ہزلیات و ہجویات سے سرورِ عالم(ص) کا دفاع کرنے پر مامور ہوئے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مدح سرور عالم(ص) اپنی تمام تر فنی خوبیوں، بیان کی مرصع کاری اور معانی کی وسعت و صداقت کے ساتھ ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ وہ نظم کی صور ت میں ہو یا نثری انداز میں۔
جہاں تک نعت گوئی کے آداب کا تعلق ہے تو اس ضمن میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ نعت گوئی جس قدر والہانہ عقیدت و شیفتگی کا تقاضا کرتی ہے اسی قدر ادب و احترام کی بھی متقاضی ہے۔
"با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار"
کامیاب نعت گوئی کے لیے جہاں سوز و گداز، تڑپ، عشق اور سرشاری کی ضرورت ہے وہاں حد درجہ احتیاط، حفظِ مراتب اور شریعت کی پاسداری کی بھی ضرورت ہے۔
ادب گاہیست زیرِ آسمان از عرش نازک تر نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید این iiجا |
میرے نزدیک نعت گوئی کا سب سے بڑا تقاضا وہ ادب و احترام ہے جو سرورِ کائنات (ص) کی ذات ستودہ صفات کے لیے مخصوص ہے جس کی تاکید قرآن حکیم نے ان الفاظ میں کی ہے:
"لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی"
یعنی( اے ایمان والو!) اپنی آواز کو نبی (ص) کی آواز سے بلند نہ کرو۔ (الحجرات:۴۹)
اس ضمن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ قول بھی ملاحظہ ہو کہ ہم رسول اللہ (ص) کی مجلس میں ایسے بیٹھتے تھے کہ"کان علے رؤسنا الطیر"گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں (کہ سر اٹھانے سے ان کے اڑنے کا احتمال ہو۔)
بارگاہ رسالت کا ادب و احترام ہمارے ایمان کا خاصہ ہے لہذا ضروری ہے کہ اظہارِ نعت اور اس کی پیشکش میں ادب رسالت کو باتمام و کمال ملحوظ خاطر رکھا جائے کیونکہ سرورِ کائنات (ص) کے ادب و احترام میں ذرا سی بے احتیاطی نعت گو کے افکار و خیالات تو کیا اس کے ایمان و اعمال تک کو ضائع کر دیتی ہے۔
ہزار بار بشویم دہن ز مشک و گلاب ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبیست |
احترامِ رسالت ہی سے متعلقہ ایک اور نازک معاملہ جو نعت گو شاعر سے حد درجہ احتیاط اور ذمہ داری کا متقاضی ہے۔ وہ لفظوں کا انتخاب ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سرورِ کائنات(ص) کی توجہ اور رعایت حاصل کرنے کے لیے"راعِ۔ن۔َا" کا لفظ بولا کرتے تھے جبکہ منافقین اور یہودی اس لفظ کے ذریعہ نعوذ باللہ آپ (ص) کو "رعونت" سے متہم کرتے لیکن وہ اسے بولتے اس طرح جس سے یہ ابہام پیدا ہو کہ وہ" راعنا" کہتے ہیں جس کے معنی ہیں "ہماری رعایت فرمایئے" لیکن اللہ تبارک و تعالی تو دلوں کے احوال جانتا ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے اس بات کے انسداد کے لیے ارشاد فرمایا:
یا ایھا الذین آمنوا لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا واسمعوا و للکافرین عذاب الیم" یعنی اے اہل ایمان گفتگو کے وقت پیغمبر (ص) سے "راعنا "نہ کہا کرو،" انظرنا" کہا کرو۔ اور خوب سن رکھو، اور کافروں کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے۔(بقرہ:۱۰۴)
اس حکمِ ربانی کے ذریعہ تمام مومنین کو ہر ایسے قول یا فعل سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے جس میں غلط اور صحیح ملتبس ہو جانے کا اندیشہ ہو اور حق و باطل کا امتیاز واضح نہ ہو سکے ، لہذا کسی بھی قول یا فعل سے اگر اہانتِ رسول یا نقصِ ادب کا شائبہ تک پیدا ہوتا ہو اس سے بچنا چاہیے اور محض نیک نیتی کو اس کے جواز کے لیے آڑ نہیں بنانا چاہیے۔ مسلمانوں کی ہر بات اور ہر فعل کو صاف ، واضح اور بیّن ہونا چاہیے۔ بالخصوص نعتیہ شاعری کا دامن اس قسم کے کسی التباس سے آلودہ نہیں ہونا چاہیے۔اسی ضمن میں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ تشبیہات و استعارات فن شعر گوئی کا لازمہ ہیں اور ان کے بغیر اچھا شعر تخلیق نہیں ہوتا۔ نعت گو کے لیے لازم ہے کہ وہ تشبیہ اور استعارہ کے معاملہ میں بھی اس پاکیزہ اور مقدس موضوع کے جملہ آداب اور احترامات کو ملحوظ رکھے، ایسی تشبیہات اور استعاروں سے گریز کرے جن سے نعت گوئی کی پاکیزگی، شائستگی اور تقدس مجروح ہوتے ہوں۔
نعت گوئی میں سرور کائنات (ص) سے خطاب کی روایت شروع ہی سے موجود ہے۔ چنانچہ امام زین العابدین علیہ السلام کی مشہور عالم نعت کا یہ شعر:
یا رحمۃ للعالمیں ادرک لزین العابد iiین محبوس ایدی الظالمیں فی الموکب والمزدحم |
نبی اکرم (ص) سے خطاب کی یہ روایت آج تک تسلسل کے ساتھ جاری ہے اس معاملہ میں بھی اس بات کا پورا پورا خیال رہنا چاہیے کہ کوئی ایسا پیرایۂ خطاب استعمال نہ کیا جائے جس سے شانِ رسالت مآب میں گستاخی کا شائبہ بھی پیدا ہوتا ہو۔غرض یہ کہ نعت گوئی میں ادب و احترام کے بہت سے پہلو ہیں جو موضوع، زبان و بیان، انتخاب الفاظ، درست تشبیہات و استعارات کا استعمال اور اندازِ خطاب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تمام چیزوں کا اہتمام ہی نعت کی مجموعی فضا اور تاثر کو پاکیزگی سے مزین کرتا ہے۔
مدح رسالت مآب میں تخلیق ہونے والے شعری سرمایہ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اسے نعت کے دو مختلف اسالیب میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ایک رسمی اور دوسرا حقیقی۔ اول الذکر اسلوبِ نعت محض ایک شعری روایت کے طور پر اپنایا گیا اور مختلف شعراء نے اپنے دواوین کی ترتیب میں حمد و نعت سے آغاز کرنا ضروری سمجھا۔ اس روایت کے پس منظر میں وہ حدیث مبارکہ کار فرما ہے جس میں کہا کیا ہے کہ کوئی بھی مہتمم بالشان کام جس کا آغاز اللہ تعالیٰ کی تعریف اور مجھ ((ص)) پر درود بھیجنے سے نہ کیا جائے وہ یکسر ناقص اور خیر و برکت سے محروم ہے۔ اس کے بر عکس دوسرے اسلوبِ نعت میں محض ایک رسم نہیں نباہی گئی بلکہ اس میں پوری دلچسپی کے ساتھ اہتماماً سرورِ کائنات (ص) کی سیرت طیبہ، تعلیمات، معجزات اور عادات و خصائل غرضیکہ جملہ متعلقات سیرت کو والہانہ انداز میں بیان کیا گیا جس کی بنا پر یہ انداز نعت جذب و مستی اور اظہارِ محبت کا موثر ذریعہ بن گیا۔
"آسمان " کے شاعر سعادت حسن آس کے ہاں حمدِ ربِ کائنات تو شاید رسمی انداز میں موجود ہو لیکن مدحِ سرورِ کائنات (ص) کے معاملہ میں ایسا بالکل نہیں۔ انہوں نے محض حصول برکت و ثواب کے لیے نعت گوئی نہیں کی بلکہ ثنائے محمد(ص) کو حرزِ جاں بنا کر اپنی تمام تر توانائیاں اس کے لیے وقف کر دی ہیں۔
پھول نعتوں کے سدا دل میں کھلائے iiرکھنا اپنی ہر سانس کو خوشبو میں بسائے iiرکھن
میں جن کو روح کے قرطاس پہ محسوس کرتا ہوں وہ جذبے کاش کاغذ پہ اتر جائیں تو اچھا ہو |
یہی وجہ ہے کہ ان کی نعت سادہ اور عام فہم ہونے کے باوجود کیف و سرور اور دلکشی کی کیفیت رکھتی ہے۔ سعادت حسن آس کی نعت جہاں سرور کائنات (ص) کے جمال ظاہری و باطنی، صورت و سیرت ،اخلاق و اوصافِ حمیدہ، اور معجزات کے بیان وغیرہ سے عبارت ہے وہاں عشقِ سرور عالم(ص) کے والہانہ تجربہ و واردات سے بھی مملو ہے۔
نصیبوں پر میں اپنے ناز جتنا بھی کروں کم iiہے ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم کہاں روشن |
عشقیہ اور تعریفی اندازِ نعت کے ساتھ ساتھ ان کی نعت میں گہری مقصدیت بھی پائی جاتی ہے اور وہ نعت کو محض سرورِ عالم(ص) کی ذات اقدس کے ساتھ اپنی جذباتی وابستگی کے اظہار کا ذریعہ نہیں سمجھتے بلکہ اسے عصرِ موجود میں درپیش مسائل کو دیکھتے ہوئے کسی نہ کسی مقصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ ابتدائے اسلام ہی سے نعت کو دفاعِ رسولِ خدا (ص) اور تبلیغ اسلام جیسے اعلی و ارفع مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک صنفِ نعت کو حصولِ مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے یہ مقاصد خواہ ذاتی نوعیت کے ہوں یا اجتماعی،معاشی ، معاشرتی ، ملی اور آفاقی۔ سعادت حسن آس کی نعت میں بھی ہمیں واضح طور پر ایک مقصدیت نظر آتی ہے جس کا عکس ان اشعار میں نمایا ں ہے:۔
ان کے ارشاد دل و جاں سے مقدم رکھنا ان کی سیرت پہ سدا سر کو جھکائے iiرکھن
کرتا نہیں دنیا میں اصولوں پہ وہ iiسوا ہے آس محبت جسے سلطانِ عرب سے
میں نے پورے کیے کیا حقوق iiالعباد اور مٹائے ہیں کیا جگ سے فتنے iiفساد
کیا مسلماں میں پیدا کیا iiاتحاد ،کون سے مان لے کر مدینے iiچلا
آس کیا منہ دکھاؤں گا سرکار کو، اپنے ہمدرد کو اپنے غمخوار iiکو
کیوں گراؤں میں فرقت کی دیوار کو ، کس لیے ہجر کے زخم سینے iiچل
چھوڑ دو فرقہ بندی خدا را اس نے جاں کتنے بندوں کی لی ہے ہر مسلمان ماتم کناں ہے گنگ انسانیت کی زباں iiہے
خدا کے گھر کا رستہ مصطفےٰ کے گھر سے جاتا iiہے وہاں سے جاؤ گے تو کوئی پیچ و خم نہیں ہوں iiگے |
سرور عالم (ص) سے استغاثہ و استمداد روزِ اول ہی سے نعت کے اجزائے ترکیبی میں ایک اہم جزو کے طور پر شامل رہا ہے چنانچہ گزشتہ صفحات میں سیدنا حضرت امام زین العابدین کے مشہور نعتیہ قصیدہ کا ایک شعر نقل ہو چکا ہے جس میں وہ اپنے نانا(ص) کے حضور رفع مشکلات و مصائب کے لیے فریاد کناں ہیں۔اردو نعتیہ ادب میں مولانا حالی کی نظم بہت مشہور ہے جس کا مطلع ہے:
اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے امت پر تری آ کہ عجب وقت پڑا iiہے |
سعادت حسن آس بھی جب کسی ملی، معاشرتی یا سماجی سانحے سے دوچار ہوتے ہیں تو ان کے احساس کی شدت دربارِ رسالت میں استغاثے کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور وہ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں۔
اک چشم التفات ادھر بھی ذرا iiحضور(ص) امت کی سمت بڑھ گئے مکر و ریا کے ہاتھ
کشمیر ہو، عراق، فلسطیں کہ کوئی iiملک ہر کلمہ گو تو آس جڑا ہے حضور(ص) iiسے
بنام مصطفےٰ ہو امن یا رب پھر کراچی میں مرے کشمیر کے بھی دن سدھر جائیں تو اچھا ہو
ظلم و ستم کے ہر سو چھانے لگے ہیں بادل پھر دیکھتا ہے رستہ ہر کارزار iiتیرا
کشمیر بھی تمہاری چشم کرم کا iiطالب اقصیٰ کی آنکھ میں بھی ہے انتظار iiتیرا |
آخر میں یہ بات بہ تکرار کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ خواجۂ دو جہاں(ص) کے حضور حمد و ثنا کے گلدستوں کو جس قدر بھی قرینے، سلیقے اور حسنِ اہتمام کے ساتھ پیش کیا جائے وہ کم ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ثنائے خواجہ (ص) کا حق ادا ہو سکتا ہی نہیں ورنہ غالب جیسے آفاقی شاعر کو یہ بات نہ کہنا پڑتی:
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد iiاست |
سعادت حسن آس نے بھی نعتِ سرور عالم(ص) کے پھولوں کو خیال و فکر، عقیدت و محبت،عشق و شیفتگی اور ادب و احترام کے دل کش رنگوں سے مزین کرنے کے ساتھ ساتھ فنی و تیکنیکی محاسن سے آراستہ کرنے پر حتی المقدور توجہ دی ہے تاہم اس انتخاب نعت کا قاری اگر کہیں زبان و بیان، اسلوب اور فنی نکتہ نگاہ سے تشنگی یا عدم سیرابی محسوس کرتا ہے تویہ سیرابی ممکن ہی نہیں کیونکہ" لفظوں کے مقدر میں کہاں اتنی رسائی" لفظ تو درماندہ و عاجز ہیں اور سرورِ کائنات (ص) کی مدح سرائی اندازۂ حرف و خیال سے ماورا، البتہ بہتری کی گنجائش تو موجود رہتی ہے۔
چاندنی، شفق، شبنم، کہکشاں، صبا ، خوش بو آس کیا لکھے تجھ کو سب سے ماورا ہے iiتو |
سید شاکر القادری
۵/ اپریل۲۰۰۶ء
بمقام اٹک شہر
|