امام زین العابدین (ع)کی زندگی ( ایک تحقیقی مطالعہ )
ہم فکر جماعت کی تشکیل
بہر حال ،یہ امام علیہ السلام کے بیانات کی ایک قسم تھی ۔ دوسری قسم کے بیانات وہ ہیں جن میں امام زین العابدین علیہ السلام کے مخاطب کچھ مخصوص افراد ہیں اگر چہ یہ مشخص نہیں ہے کہ یہ کن لوگوں سے خطاب ہے لیکن یہ کاملا طے ہے کہ آپ کا خطاب ایک ایسے گروہ سے ہے جو موجودہ حکومت سے بیزار اور اس کا مخالف ہے چاہے وہ جو لوگ بھی ہوں ۔اور شاید یہ کہنا بھی غلط نہ ہو کہ یہ وہی گروہ ہے جو امام علیہ السلام کی اطاعت اور حکومت اہلبیت (ع) پر یقین و اعتقاد رکھتا ہے ۔
کتاب” تحف العقول “میں خوش قسمتی سے امام علیہ السلام کے اس قسم کے بیانات کا ایک نمونہ موجود ہے ( ایک نمونہ اس لئے کہ جب ہم اس طرح کی دوسری کتابوں کی چھان بین کرتے ہیں تو ان میں بھی ایسے چند نمونوں کے سوا امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول کوئی اور چیز نہیں ملتی )پھر بھی انسان یہ محسوس کرسکتا ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی میں اس طرح کے بے انتہا نمونے پیش آئے ہوں گے مگر موجودہ حالات اور آپ (ع) کی حیات کے دوران پیش آنے والے طرح طرح کے حوادث گھٹن کی زندگی دشمنوں کے حملے ،اذیتیں ،اصحاب ائمہ کا قتل اور شہادت یہ سب اس بات کا باعث بنے کہ وہ گراں بہا آثار باقی نہ رہ سکے چنانچہ بہت ہی کم مقدار میں چیزیں ہمارے ہاتھ لگ سکی ہیں ۔
بہر حال امام علیہ السلام کا یہ بیان کچھ اس طرح شروع ہوتا ہے :
”کفانا اللّٰہ و ایاکم کید الظالمین و بغی الحاسد ین و بطش الجبارین “
خدا وند عالم ہم کو اور تم کو ظالموں کے مکر و فریب ،حاسدوں کی بغاوت و سر کشی اور جابروں کی جبر و زیادتی سے محفوظ و مامون رکھے ۔
خود خطاب کا انداز بتاتا ہے کہ امام علیہ السلام اور آپ کا مخاطب گروہ دونوں اس جہت میں شریک ہیں یعنی موجودہ حکومت و نظام کی طرف سے وہ سب کے سب خطرہ میں ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ بات ایک مخصوص گروہ سے تعلق رکھتی ہے اور اس جماعت کو لفظ مومنین یا اہلبیت کے محبین و ،مقربین سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔چنانچہ اس انداز کے خطابات ” یا ایھاالموٴمنون “ سے شروع ہوتے ہیں ۔جب کہ پہلی نوعیت کے بیانات میں ”ایھا الناس“یا بعض موارد میں” یابن آدم “سے خطاب کیا گیا ہے اور یہاں ایھا المومنون ہے یعنی امام علیہ السلام کے خطاب میں اپنے مخاطبین کے صاحب ایمان ہونے کا اعتراف موجود ہے اور یہ وہ مومنین ہیں جو اہلبیت علیہم السلام اور ان کے افکار و نظر یات پر واقعی ایمان رکھتے تھے ۔
اس منزل میں جب امام علیہ السلام اپنے اصل مطلب پہ آتے ہیں تو آپ (ع)کی گفتگو بھی اس چیز کی واضح نشان دہی کرتی ہے کہ آپ (ع)کے مخاطب مومنین ۔یعنی اہلبیت علیہم السلام سے قربت رکھنے والے افراد ہیں ۔
”لا یفتننکم الطواغیت واتباعھم من اہل الرغبۃ فی الدنیا المائلون الیھا ،المفتنون بھا المقبلون علیھا“
”یہ طاغوتی افراد اور ان کے مطیع و فرمانبردار جو دنیا کے حریص ،اس کے شیدائی ،اس پر فریفتہ و قربان اور اس کی طرف دوڑ نے والے لوگوں سے ہیں تم کو فریب میں مبتلا نہ کر دیں “
یہاں۔ مومنین سے خطاب کے وقت اصل لب و لہجہ میں ان کو شر سے محفوظ رہنے اور آئندہ ہم فکر ی کے ساتھ کام کرنے کے لئے آمادہ کیا جا رہا ہے ۔ ظاہر ہے موجودہ طاغوتی نظام کے طرفداروں اور ائمہ کے ہمنواؤں کے درمیان اندر اندر جو شدید مخالفت اور مقابلہ آرائی جاری تھی اس کی وجہ سے ائمہ علیہم السلام کے چاہنے والوں کو بڑی سخت محرومیت اور رنج و مصیبت جھیلنی پڑ رہی تھی ۔
چنانچہ امام علیہ السلام کے اس بیان میں اس نکتہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے مومنین کو اس بات سے خبردار کیا گیا ہے کہ اس دنیا کی وقتی تڑک بھڑک اور جھوٹی نمائش کے چکر میں اگر آگئے تو اس کی قیمت کے طور پر تم کو اہل طاغوت سے ہاتھ ملانا پڑے گا ۔اور یہ انداز اور لب و لہجہ نہ صرف اس بیان میں بلکہ امام علیہ السلام سے منقول اور بھی بہت سے دوسرے مختصر اقوال و روایات میں آپ مشاہدہ فرماسکتے ہیں ۔اگر آپ ان کو دیکھیں تو محسوس کریں گے کہ امام علیہ السلام نے لوگوں کو دنیا سے پر ہیز کی دعوت دی ہے ۔
دنیا سے پرہیز سے کیا مطلب ہے ؟ یعنی لوگوں کو اس لہر سے محفوظ رکھیں جو انسان کو ناز و نعم میں غرق کر دیتی ہے اور اس کے دام میں گرفتار ہو کر انسان اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور اس کی انقلابی جد و جہد سرد پڑ جاتی ہے ۔اور یہ دعوت مومنین سے متعلق خطابات میں ملتی ہے عوام الناس سے خطاب کے دوران یہ انداز بہت کم نظر آتا ہے ۔عوام سے خطاب کے وقت ،جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں زیادہ تر جولب و لہجہ اپنایا گیا ہے وہ ہے کہ : لوگو، خدا کی طرف متوجہ رہو قبر و قیامت کا دھیان رکھو ،اپنے کو کل کے لئے آمادہ کر و یا اسی طرح کی دوسری باتیں۔
ان حقائق کی روشنی میں اگر کوئی سوال کرے کہ اس دوسرے قسم کے خطابات سے امام علیہ السلام کا مقصد کیا تھا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام ایک ہم فکر جماعت تیار کرنا چاہتے ہیں امام (ع) چاہتے ہیں کہ کسی ضروری موقع کے لئے مومنین کا ایک گروہ رہے یہی وجہ ہے ان لوگوں کو اعلیٰ اقتدار کی ہوس اور جھوٹی مراعات کی چکا چوند سے محفوظ رکھیں اس دوسرے قسم کے بیان میں امام (ع) بار بار موجودہ حاکم نظام کا تذکرہ کرتے ہیں جب کہ گزشتہ قسم کے بیان میں یہ چیز اتنی وضاحت کے ساتھ نظر نہیں آتی یہاں امام سجاد علیہ السلام بڑے ہی سخت لب ولہجہ میں حکومتی مشینری کو مورد ملامت قرار دیتے ہوئے اس کو شیطان کا ہم پلہ بتاتے ہیں مثال کے طور پر فرماتے ہیں ۔
”وان الا مور الواردۃ علیکم فی کل یوم و لیلۃ من مظلمات الفتن و حوادث البدع و سنن الجور و بوائق الزمان “
تم لوگ جن امور سے ہر شب و روز دو چار رہتے ہو (یعنی) یہ ظلمت خیز فتنے نئی نئی بدعتیں ----وہ بدعتیں جو ظالم نظام کی اختراع ہیں ---- ظلم و جور پر مبنی سنتیں اور زمانہ بھر کی سختیاں ۔
” و ھیبۃ السلطان“ یہ سلطنت کا خوف و ہراس ۔
”ووسوسۃ الشیطان “ اور شیطانی وسوسے ۔
یہاں امام علیہ السلام ذکر سلطان کے فورا بعد وسوسہ شیطان کا ذکر کر تے ہیں یعنی پوری صراحت کے ساتھ حاکم وقت کا ذکر کرتے ہیں اور اس کو شیطان کا دست راست قرار دیتے ہیں ۔گفتگو کے آخر میں امام (ع) ایک نہایت ہی عمدہ جملہ ارشاد فرماتے ہیں چوں کہ یہ جملہ بڑی اہمیت کا حامل ہے لہٰذا ہم اسے یہاں نقل کر دینا چاہتے ہیں یہ جملہ اسی مطلب کی نشان دہی کرتا ہے جس کی طرف ابھی ہم اشارہ کر چکے ہیں ۔امام (ع)فرماتے ہیں :
” لتثبط القلوب عن نیتھا“
یہ حوادث جو انسانی زندگی میں شب و روز پیش آتے ہیں ۔خصوصا ایسے گھٹن کے ماحول میں دلوں کو ان کی نیت اور جہت سے موڑ دیتے ہیں ، جہاد کے شوق اور اس کے محرکات کو ختم کر دیتے ہیں ۔
-- ” وتذہلھا عن موجود الھدیٰ“
موجودہ ہدایت کو یعنی وہ ہدایت جو موجودہ معاشرہ میں پائی جاتی ہے اس کی طرف سے ذہنوں کو غافل و برگشتہ کر دیتے ہیں ۔
” ومعرفۃ اھل الحق“
(اور انسان سے ) اہل حق کی معرفت سلب کرکے فراموشی میں مبتلا کر دیتے ہیں اور اہل حق کی یاد کو ان کے دلوں میں باقی نہیں رہنے دیتے ۔
امام علیہ السلام کے اس پورے بیان میں وہی اسلوب وانداز پایا جاتا ہے جس کا ہم نے شروع میں ذکر کیا ہے یعنی لوگوں کو موعظہ و نصیحت کے انداز میں خبر دار کر رہے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس طرح کے حوادث زندگی ان کو ان کی مجاہدانہ روش سے غافل بنا دیں اور انھیں ان کے راستہ سے منحرف کردیں اور دل و دماغ اس کی یاد سے خالی ہو جائے ۔ امام علیہ السلام کے ایسے متعدد بیانات ملتے ہیں جن میں سلطان و حاکم جور کا ذکر کیا گیا ہے ۔
ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
”وایاکم و صحبۃ العاصین و معونۃ الظالمین “
ایسا نہ ہوکہ تم لوگ گناہ گاروں کی ہم نشینی اختیار کو لو اور ستم گروں کی مدد کرنے لگو۔یہاں گناہگاروں سے مراد کون لوگ ہیں؟ یہ وہی لوگ ہیں جو عبدالملک کے ظالمانہ نظام کا جز بن چکے ہیں ۔ امام علیہ السلام ان کی ہم نشینی سے منع کر رہے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم لوگ ظالموں کی مدد کا ذریعہ بن جاؤ۔
اب ان حقائق کی روشنی میں امام سجاد علیہ السلام کی تصویر پر دہٴ تخیل پر اتار کر دیکھئے کہ حضرت کی کیسی شخصیت آپ کے ذہن میں ابھر کر سامنے آتی ہے آیا اب بھی وہی مظلوم و بے زبان کمزور و بیمار امام جو امور زندگانی سے کوئی مطلب نہیں رکھتا آپ کے ذہن میں آتاہے ؟! امام علیہ السلام اپنے کچھ مومن دوستوں طرفداروں اور بہی خواہوں کو ایک جگہ جمع کرتے ہیں اور موجودہ حالات میں ان کو ظالم حکام اور درباریوں کی قریب وہم نشینی نیز اپنی مقدس مہم اور جد و جہد سے غافل و بے پرواہ ہونے سے سختی کے ساتھ منع کرتے ہیں اور ان کو اجازت نہیں دےتے کہ وہ اپنی مجاہدانہ سر گرمیوں سے منحرف ہو جائیں ۔ امام علیہ السلام ان کے ایمانی جذبات کو تر و تازہ اور زندہ و باقی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ایک روز ان کا وجود اسلامی حکومت کے قیام کی راہ میں موثر ثابت ہو سکے ۔

فلسفہ امامت ،امام علیہ السلام کی نظر میں
منجملہ ان تمام چیزوں کے جو امام علیہ السلام کے بیا نا ت کے اس حصہ میں مجھے نہایت ہی اہم اور قابل توجہ نظر آئیں حضرت (ع)کے وہ ارشادات بھی ہیں جن میں اہل بیت علیہم السلام سے وابستہ افراد کے گزشتہ تجربات کا آپ نے ذکر فرمایا --- بیان کے اس حصہ میں جناب امام سجاد (ع)لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :کیا تم لوگوں کو یاد ہے (یا تم کو اس بات کی خبر ہے )کہ گزشتہ ادوار میں ظالم و جابر حکمرانوں نے تم پر کیا کیا زیادتیاں کی ہیں --- یہاں ان مصیبتوں اور زیادتیوں کی طرف اشارہ مقصود ہے جو محبان اہل بیت (ع)کو معاویہ ،یزید اور مروان وغیرہ کے ہاتھوں اٹھانی پڑی ہیں چنانچہ امام علیہ السلام کا اشارہ واقعہ کربلا ،واقعہ حرہ ،حجر بن عدی اور رشید ہجری وغیرہ کی شہادت نیز ایسے بہت سے مشہور و معروف ،اہم ترین حادثوں کی طرف ہے جس کا اہل بیت (ع) کے مطیع و ہمنوا افراد گزشتہ زمانوں میں ایک طویل مدت سے تجربہ کرتے چلے آرہے تھے اور وہ واقعات ان کے ذہنوں میں ابھی موجود تھے ۔ امام علیہ السلام چاہتے ہیں کہ گزشتہ تجربات اور تلخ ترین یادوں کو تازہ کرکے لوگوں کے مجاہدانہ عزم و ارادہ میں مزید پختگی پیدا کریں ۔مندرجہ ذیل عبارت پر ذرا توجہ فرمایئے:
” فقد لعمری استدبرتم من الا مور الماضیۃ فی الایام الخالیۃ من فتن المتراکمۃ والانھماک فیھا ماتستد لون بہ علی تجنب الغوۃ و․․․․․“
میری جان کی قسم ،وہ گزشتہ واقعات جو تمھاری آنکھوں کے سامنے گزر چکے ہیں ---فتنوں کا ایک لامتناہی سلسلہ جس میں ایک دنیا غرق نظر آتی تھی تم لوگوں کو ان حوادث و تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے --- اور ان کو اپنے لئے درس و استدلال بناتے ہوئے زمین پر فساد پرپا کرنے والے گمراہ اور بدعتی افراد سے دوری و اجتناب کر لینا چاہئے۔
یعنی تمھیں اس بات کا بخوبی تجربہ حاصل ہے کہ اہل بغی و فساد ۔یعنی یہی حکام جور ،جب تسلط حاصل کر لیں گے تو تمھارے ساتھ کس طرح پیش آئیں گے ۔گزشتہ تجربات کی روشنی میں تم جانتے ہو کہ تمھیں ان لوگوں سے دور رہنا چاہئے ،اور ان کے مقابلہ میں صف آرائی کرنی چاہئے ۔
امام علیہ السلام نے اپنے بیان میں مسئلہ امامت کو بڑی صراحت کے ساتھ پیش کر دیا ہے ،مسئلہ امامت یعنی یہی خلافت و ولایت ،مسلمانوں پر حکومت کرنے اور نظام اسلامی کے نافذ کرنے کا مسئلہ ہے ،یہاں امام سجاد علیہ السلام مسئلہ امامت کتنے واضح انداز سے بیان کرتے ہیں جب کہ اس وقت کے حالات ایسے تھے کہ اس قسم کے مسائل اس صراحت کے ساتھ عوام میں پیش نہیں کئے جا سکتے تھے امام (ع) فرماتے ہیں :
”فقد موا امراللّٰہ وطاعتہ وطاعتہ من اوجب اللّٰہ طاعتہ “
فرمان الٰہی اور اطاعت رب کو مقدم سمجھو اور اس کی اطاعت و پیروی اختیار کرو جس کی اطاعت و پیروی خدانے واجب قرار دی ہے ۔
امام علیہ السلام نے اس منزل میں امامت کی بنیاد اور فلسفہ کو شیعی نقطہ نظر سے پیش کیا ہے خدا کے بعد وہ کون سے لوگ ہیں جن کی اطاعت کی جانی چاہئے ؟ وہ جن کی اطاعت خدا نے واجب قرار دی ہے اگر لوگ اس وقت اس مسئلہ پر غور فکر سے کام لیتے تو بڑی آسانی سے یہ نتیجہ نکال سکتے تھے کہ عبدالملک کی اطاعت واجب نہیں ہے کیوں کہ خدا کی طرف سے عبد الملک کی اطاعت واجب کئے جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،عبد الملک کا اپنے تمام ظلم و جور اور بغی وفساد کی وجہ سے لائق اطاعت نہ ہونا ظاہر ہے ۔ یہاں پہلے تو امام علیہ السلام مسئلہ امامت بیان فرماتے ہیں اس کے بعد صرف ایک شبہ جو مخاطب کے ذہن میں باقی رہ جاتا ہے اس کا بھی ازالہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں :
”ولا تقدموا الا مور الواردۃ علیکم من طاعۃ الطواغیت و فتنۃ زھرۃ الدنیا بین یدی امراللّٰہ و طاعتہ و طاعۃ اولی الامر منکم “
اور جو کچھ تم پر طاغوتوں ------عبد الملک وغیرہ ------ کی طرف سے عائد کیا جاتا ہے اس کو خدا کی اطاعت کے زمرہ میں رکھتے ہوئے خدا کی اطاعت اس کے رسول کی اطاعت اور اولی الامر کی اطاعت پر مقدم قرار نہ دو ۔
اصل میں امام علیہ السلام نے اپنے بیان کے اس ٹکڑے میں بھی مسئلہ امامت بڑی صراحت کے ساتھ پیش کر دیا ہے ۔
حضرت (ع) نے گزشتہ بیان میں بھی اور اس بیان میں بھی دو بنیادی اور اساسی مسائل پر توجہ دلائی ہے چنانچہ دونوں بیانات میں مذکورہ تین مراحل تبلیغ میں سے دو مرحلے یعنی لوگوں کے اسلامی افکار و عقائد کی یاد دہانی تاکہ لوگ عقائد اسلامی کا پاس و لحاظ کریں اور ان دینداری کا شوق پیدا ہو سکے اور اس کے بعد دوسرا مسئلہ ” ولایت امر“ یعنی نظام اسلامی میں حکومت و قیادت کا استحقاق واضح کرنا ہے ۔ امام علیہ السلام اس وقت لوگوں میں ان دونوں مسائل کو بیان کرتے ہیں اور درحقیقت اپنے مد نظر نظام علوی یعنی اسلامی و الٰہی نظام کی تبلیغ کرتے ہیں ۔

تنظیم کی ضرورت
امام علیہ السلام کے یہاں ایک تیسری نوعیت کے حامل بیانات بھی ملتے ہیں جوان دونوں سے بھی زیادہ توجہ کے مستحق ہیں ان بیانات میں حضرت (ع) کھلے طور پر لوگوں کو ایک اسلامی تنطیم کی تشکیل کی طرف متوجہ کرتے ہیں البتہ یہ بات ان ہی لوگوں کے درمیان ہوئی ہے جن کو امام (ع) کا اعتماد حاصل رہا ہے ورنہ اگر عام لوگوں کو اس قسم کی کسی جماعت کی تشکیل کی دعوت دی گئی ہوتی تو اس کا پردہ راز میں رہنا مشکل ہو جاتا اور حضرت (ع)کے لئے بڑی زحمت او رپریشانی کا سبب بن جاتا ۔خوش قسمتی سے ” تحف العقول “ میں اس نوعیت کے بیانات کا بھی ایک نمونہ موجود ہے جسے ہم یہاں نقل کر رہے ہیں ۔امام (ع) کا بیان یوں شروع ہوتا ہے ۔
”ان علامۃ الزاھدین فی الدنیا الراغبین فی الآخرۃ ترکھم کل خلیط و خلیل و رفضھم کل صاحب لایرید ما یریدون “
دنیا کے وہ زاہدین جو دنیا کے پیچھے نہیں بھاگتے اور اپنی دلچسپی آخرت پر مرکوز رکھتے ہیں ان کی پہچان اور علامت یہ ہے کہ ان کے جو دوست اور ساتھی ہم فکر و ہم عقیدہ بلکہ ہم دل اور ہم مشرب نہیں ہوتے ان کو ترک کردیتے ہیں ۔کیا یہ واضح طور ایک شیعی تنظیم کے تشکیل کی دعوت نہیں ہے ؟!
اس بیان سے لوگوں کویہ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ لوگ جو ان کے مطالبات و خیالات سے اتفاق نہیں رکھتے اور جن کے احساس و جذبات بالکل مختلف ہیں جو حکومت حق یعنی علوی نظام نہیں چاہتے وہ ان سے کنارہ کش ہو کر ان کے لئے اجنبی اور بیگانہ بن جائیں ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے یہاں آمد و رفت اور تعلقات ختم کر لیں یہ تعلقات ویسے ہی ہوں جیسے پہلے تھے یعنی ان سے ملیں لیکن احتیاط کے ساتھ ۔
امام فرماتے ہیں وہ لوگ جو تمھاری فکر و عزائم سے متفق نہ ہوں یا ہدف و مقصد سے ہم آہنگی نہ رکھتے ہوں ان کے ساتھ تمھارے معاملات اور آمد و رفت کسی اجنبی اور بیگانے کے مانند ہونی چاہئے ان سے دوستانہ تعلقات ختم کر دینے چاہئے ۔
میں سمجھتا ہوں اس طرح کے مزید بیانات خود امام سجاد علیہ السلام کے یہاں نیز دیگر ائمہ علیہم السلام کے یہاں بھی مل جائیں گے بلکہ دیگر ائمہ علیہم السلام کے ارشادات میں یہ چیزیں زیادہ مل جائے گی جہاں تک خود میری نظر ہے اس طرح کے بیانات امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام محمد باقر علیہ السلام نیزان کے بعد کے کم از کم تین چار ائمہ کے یہاں مجھے ملے ہیں حتی کہ امیر المومنین علیہ السلام کے فرمودات میں بھی منظم و مرتب اسلامی جماعت کی تشکیل کی طرف اشارے موجود ہیں ،البتہ یہاں اس تفصیل طلب موضوع پر زیادہ بحث کی کنجائش نہیںہے ۔
امام زین العابدین علیہ السلام کے کچھ بیانات و ارشادات ایسے بھی ہیں جن میں پیش کئے جانے والے مطالب کلی نوعیت کے حامل ہیں ان میں ان مخصوص پہلوؤں کو مورد بحث نہیں قرار دیا گیا ہے جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے ۔مثال کے طور پر امام سجاد (ع) کا ایک رسالہ ،حقوق سے متعلق ہے جو در اصل آپ کا ایک نہایت ہی مفصل خط ہے اور ہماری اصطلاح میں اس کو ایک مستقل رسالہ کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے ،جی ہاں !یہ کتاب جو رسالہ حقوق کے نام سے مشہور ہے حضرت (ع)کا ایک خط ہے جو آپ نے اپنے کسی محب کو لکھا ہے اور اس میں ایک دوسرے کے تئیں انسانی حقوق و ذمہ داری کا ذکر فرمایا ہے ،یقینا یہ ایک رسالہ سے کم نہیں ہے ۔امام علیہ السلام نے اس خط میں مختلف جہتوں سے لوگوں کے ایک دوسرے پر کیا حقوق ہیں ان کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے ۔مثلا خدا کے حقوق ،اعضا ؤجوارح کے حقوق ،کان کے حقوق ،آنکھ کے حقوق ،زبان کے حقوق ،ہاتھ کے حقوق وغیرہ اسی طرح اسلامی معاشرہ پر حاکم فرمانروا کے عوام پر کیا حقوق ہیں ،عوام کے حاکم پر کیاحقوق ہیں ،دوستوں کے حقوق ،پڑسیوں کے حقوق ،اہل خاندان کے حقوق ------ اور ان تمام حقوق کااس عنوان سے ذکر کیا گیا ہے جس کا ایک اسلامی نظام میں زندگی بسر کرنے والے شخص کو پاس لحا ظ رکھنا ضروری ہے گویا امام علیہ السلام نے بڑے ہی نرم انداز میں حکومت سے مقابلہ آرائی یا آئندہ نظام کا حوالہ دئیے بغیر مستقبل میں قائم کئے جانے والے نظام کی بنیادوں کو بیان کردیا ہے کہ اگر ایک روز خود امام سجاد (ع)کے زمانہ حیات میں (جس کا اگر چہ احتمال نہیں پایا جاتا تھا ) یا آپ کے بعد آنے والے زمانہ میں اسلامی نظام حکومت قائم ہو جائے تو مسلمانوں کے ذہن ایک دوسرے کے تئیں عائد ہونے والی ذمہ داریوں سے پہلے سے مانوس رہیں ۔دوسرے لفظوں میں لوگوں کو آئندہ متوقع اسلامی حکومت کے اسلام سے آشنا بنادینا چاہتے ہیں ۔یہ بھی امام علیہ السلام کے بیانات کی ایک قسم ہے جو بہت ہی زیادہ قابل توجہ ہے ۔
ایک قسم وہ بھی ہے جس کا آپ صحیفہ سجادیہ میں مشاہدہ فرماتے ہیں ظاہر ہے صحیفہ سجادیہ سے متعلق کسی بحث کے لئے بڑی تفصیل و تشریح کی ضرورت ہے ۔مناسب یہی ہے کہ کوئی اس کتاب پر باقاعدہ کام کرے ۔صحیفہ سجادیہ دعاؤں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس میں ان تمام موضوعات کو مورد سخن قرار دیا گیا ہے جن کی طرف بیدار و ہوشمند زندگی میں انسان متوجہ ہوتا ہے ۔ان دعاؤں میں زیادہ تر انسان کے قلبی روابط اور معنوی ارتباطات پر تکیہ کیا گیا ہے اس میں بے شمار مناجاتیں اور دعائیں مختلف انداز سے معنوی ارتقا ء کی خواہش و آرزو سے مملو ہیں ۔امام علیہ السلام نے ان دعاؤں کے ضمن میں دعاؤں کی ہی زبان سے لوگوں کے ذہنوں میں اسلامی زندگی کا ذوق و شعور بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
دعا کے ذریعہ جو فائدہ اٹھائے جا سکتے ہیں ان میں ایک وہ بھی ہے جسے میں بارہا ذکر کر چکا ہوں کہ دعا لوگوں کے قلوب میں ایک صحیح و سالم محرک و رجحان پیدا کردیتی ہے جس وقت آپ کہتے ہیں :
”اللہم اجعل عواقب امورنا خیرا “
”خدایا ہمارا انجام بخیر فرما “
ظاہر ہے آپ کے دل میں اس وقت انجام کار کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور آپ عاقبت کی فکر میں لگ جاتے ہیں بعض وقت انسان اپنی عاقبت سے غافل رہ جاتا ہے اپنے حال میں مست زندگی گزارتا رہتا ہے اور اس بات کی فکر نہیں کرتا کہ عاقبت کا تصور انسانی سرنوشت کے تعین میں بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے ،جب دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے یک بیک ذہن اس طرف متوجہ ہوا اور انجام کار پر نظر رکھنے کا جذبہ بیدار ہوگیا ۔اور پھر آپ اس فکر میں پڑگئے کہ ایسے امور انجام دیں جو آپ (ع) کی عاقبت بہتربنا سکیں ویسے اس کو کس طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے یہ ایک دوسری بحث ہے ۔میں تو اس مثال کے ذریعہ صرف اس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتا تھا کہ دعا کس طرح انسان کے اندر ایک صحیح اور سچا جذبہ بیدار کر دیتی ہے ۔صحیفہ سجادیہ(ع) ایک ایسی کتاب ہے جو شروع سے آخر تک دعاؤں کے جامہ میںایسے ہی اعلیٰ جذبات و افکار سے معمور ہے جن پر انسان اگر غور کرے تو صرف یہی صحیفہ سجادیہ ایک معاشرہ کی اصلاح اور بیداری کے لئے کافی ہے ۔
فی الحال اس بحث کو ہم یہیں ختم کرتے ہیں البتہ اس کے علاوہ بھی ایسی بہت چھوٹی چھوٹی رواتیں ہیں جو امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں جس کا ایک نمونہ ہم گزشتہ بحث کے ذیل میں پیش کر چکے ہیں امام علیہ السلام فرماتے ہیں :
” اولا حریدع ھٰذہ اللماظۃ لاھلھا“
” لما ظلۃ “ یعنی کتے کا بچا ہوا کھانا ،ملاحظہ فرمایئے امام علیہ السلام کا یہ بیان کتنا اہم ہے ۔آیا ایک حریت پسند ایسا نہیں ہے جو کتّے کی بچی ہوئی غذا اس کے اہل کے لئے چھوڑدے !کتّے کی بچی ہوئی غذا کا کیا مطلب ہے ؟ یہی دنیوی آرائش ،اونچے اونچے محل ،شان و شوکت اور تڑک بھڑک ۔ وہ چیزیں جن کی طرف تمام کمزور دل افراد عبدالملک کے دور میں کھنچے چلے جارہے تھے ۔اسی چیز کو امام علیہ السلام نے لفظ لماظہ سے تعبیر کیا ہے ۔وہ تمام لوگ جو عبد الملک کی غلامی یا اس کے غلاموں کی غلامی میں مشغول تھے یا جو کچھ بھی ان لوگوں کے ہاتھوں ہو رہا تھا اس سے راضی تھے ،ان سب کا مقصد یہی کتے کی بچی ہوئی غذا کا حاصل کرنا تھا امام علیہ السلام اسی لئے فرماتے ہیں کہ کتے کی بچی ہوئی غذا کے پیچھے نہ بھاگتے پھرو تاکہ مومنین کرام عبدالملک کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر اس کی طرف جذب نہ ہونے پائیں ۔
اس طرح کے نہایت ہی قابل توجہ انقلابی بیانات امام علیہ السلام کے ارشادات میں بہت ملتے ہیں جن کا ہم آگے چل کر انشاء اللہ ذکر کریں گے ۔اسی فہرت میں حضرت علیہ السلام کے اشعار بھی شامل ہیں حضرت امام سجاد علیہ السلام نے اشعار بھی کہے ہیں اور ان اشعار کے مضامین بھی اسی قسم کے ہیں انشاء اللہ ہم آگے اس سلسلے میں روشنی ڈالیں گے ۔

درباری علماء پر امام سجاد علیہ السلام کی سخت تنقید
امام زین العابدین علیہ السلام کے حالات اور طرز زندگی سے متعلق مسائل کی تشریح کرتے ہوئے ہم اپنی بحث کے اس موڑ پر آپہنچے ہیں جہاں زمین ایک ایسی عظیم اسلامی تحریک مہمیزکرنے کے لئے ہموار ہوچکی ہے ۔جس کا حکومت علوی اور حکومت اسلامی پرمنتہی ہوناممکن نظر آنے لگا ہے اس صورت حال کو بطور مختصر ہم یوں بیان کر سکتے ہیں کہ امام علیہ السلام کے طریقہ و روش میں کچھ لوگوں کے لئے ( معارف اسلامی کا) بیان و وضاحت کچھ لوگوں کے لئے خود کو منظم و مرتب کرنے کی تلقین اور کچھ افراد وہ بھی تھے جن کے لئے عمل کی راہیں معین و مشخص ہو جاتی تھیں یعنی اب تک کے معروضات کی روشنی میں امام سجاد علیہ السلام کی تصویر کاجو خاکہ ابھر کر سامنے آتا ہے اس کے تحت حضرت (ع) اپنے تیس ،پینتیس سال اس کوشش میں صرف کردیتے ہیں کہ عالم اسلام کے شدت کے ساتھ برگشتہ ماحول کو ایک ایسی سمت کی طرف لے جائیں کہ خود آپ (ع)کے لئے یا آپ (ع)کے جانشینوں کے لئے اس بنیادی ترین جد و جہد اور فعالیت کے لئے موقع فراہم ہو سکے جس کے تحت ایک اسلامی معاشرہ اور الٰہی حکومت قائم ہو سکے ۔چنانچہ اگر امام سجاد علیہ السلام کی ۲۵سالہ سعی و کوشش ،ائمہ علیہم السلام کی زندگی سے جد اکر لی جائے تو ہرگز وہ صورت حال تصور نہیں کی جاسکتی جس کے نتیجہ میں امام صادق علیہ السلام کو اولا حکومت بنی امیہ اور پھر حکومت بنی عباس کے خلاف اتنی کھلی ہوئی واضح پالیسی اپنانے کا موقع ہاتھ آیا ۔
ایک اسلامی معاشرہ وجود میں لانے کے لئے فکری و ذہنی طور پر زمین ہموار کرنا تمام چیزوں سے زیادہ لازم و ضروری ہے ۔اور یہ ذہنی و فکری آمدگی ،اس وقت کے ماحول اور حالات میں جس سے عالم اسلام دو چار تھا ،وہ کام تھا جو یقینا ایک طویل مدت کا طالب ہے اور یہی وہ کام ہے جو امام زین العابدین علیہ السلام نے تمام تر زحمت اور صعوبت و مصیبت کے باوجود اپنے ذمہ لیا تھا ۔
اس عظیم ذمہ داری کے دوش بدوش امام سجاد علیہ السلام کی زندگی میں ایک اور تلاش و جستجو جلوہ گر نظر آتی ہے جو در اصل سابق کی تیار کردہ زمین کو مزید ہموار کرنے کی طرف امام (ع) کے ایک اور اقدام کی مظہر ہے اس طرح کی کوششوں کا ایک بڑا حصہ سیاسی نوعیت کا حامل ہے اور بعض اوقات بے حد سخت شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ اس کا ایک نمونہ امام علیہ السلام کا حکومت و قت سے وابستہ اور ان کے کار گزار محدثوں پر کڑی تنقید ہے ۔ موجو دہ بحث میں اسی نکتہ پر روشنی ڈالنا مقصود ہے ۔
آئمہ علیہم السلام کی زندگی سے متعلق ولولہ انگیز ترین بحثوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسلامی معاشرہ کی فکر و ثقافت کو رنگ عطا کرنے والے افراد یعنی علماء (۱) و شعراء کے ساتھ ان بزرگواروں کا برتاؤ کیسا رہا ہے ؟ اصل میں عوام کی فکری و ذہنی تربیت و رہبری ان ہی لوگوں کے ہاتھ میں تھی ،خلفاء بنی امیہ و بنی عباس معاشرہ کو جس رخ پر لے جانا پسند کرتے تھے یہ لوگ عوام کو اسی راہ پر لگا دیتے تھے گویا خلفاء کی اطاعت اور تسلیم کا ماحول پیدا کرنا ان ہی حضرات کا کام تھا چنانچہ ایسے افراد کے ساتھ کیا روش اور طرز اپنایا جائے دیگر ائمہ علیہم السلام کی طرح امام سجادعلیہ السلام کی زندگی کا بھی ایک بڑا ہی اہم اور قابل توجہ پہلو ہے۔

حدیث گڑھنا ظالموں کی ایک ضرورت
جیسا کہ ہم جانتے ہیں خلفائے ظلم و جور کے سامنے ،اسلام کا عقیدہ رکھنے والوں پر اپنی حکومت قائم رکھنے کے لئے اس کے علاوہ کوئی دوسرا چارا ہی نہیں تھا کہ وہ جو کچھ بھی انجام دینا چاہتے ہیں اس کی طرف لوگوں کے قلبی ایمان کو جذب کریں کیوں کہ اس وقت زمانہ صدر اسلام گزرے ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے تھے لوگوں کے دلوں میں اسلام کا عقیدہ و ایمان باقی تھا اگر لوگوں کو یقین پیدا ہو جاتا کہ یہ جو ظالم کی انھوں نے بیعت کی ہے درست نہیں ہے یا یہ خلیفہ ٴ رسول اللہ (ص) کی خلافت کے لائق نہیں ہے یقینا اپنے آپ کو ان کے حوالے نہ کرتے ۔اور اگر یہ بات ہم سب کے لئے قبول نہ کریں تو بھی اسلامی معاشرے میں یقینا ایسے افراد کثرت سے پائے جاتے تھے جو پورے ایمان قلبی کے ساتھ خلفاء کے دربار کی غیر اسلامی صورت حال کو تحمل کر رہے تھے یعنی ان کا خیال تھا کہ یہی اسلامی شان ہے ۔یہی وجہ تھی کہ خلفائے جور نے اپنے دور کے زیادہ سے زیادہ دینی علماء اور محدثین کے خدمات سے استفادہ کیا اور ان لوگوں کو جو کچھ وہ چاہتے تھے اس کے لئے آمادہ کیا اور پھر ان سے کہا کہ ان کی مرضی کے مطابق خود پیغمبر اسلام (ص) اور ان کے بزرگ اصحاب سے جعلی حدیثیں روایت کریں ۔

حدیث گڑھنے کے کچھ نمونے
اس سلسلہ میں مثالیں موجود ہیں جو انسان کو لرزا دیتی ہیں ،نمونہ کے طور پر ہم یہ حدیث نقل کرتے ہیں -:
معاویہ کے زمانہ میں ایک شخص کی کعب الاحبار (۲) سے مڈبھیڑ ہو گئی ، کعب الاحبار چوں کہ معاویہ نیز دیگر شاہی امراء کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا تھا ،اس لئے اس شخص سے سوال کیا ۔کہاں سے تعلق رکھتے ہو؟
اہل شام سے ہوں ۔
شاید تم ان لشکریوں میں سے ہو جن کے ستر ہزار افراد بغیر حساب کتاب کے وارد بہشت ہوں گے !۔
وہ کون لوگ ہیں ؟
وہ سب اہل دمشق ہیں ۔
نہیں میں اہل دمشق نہیں ہوں ۔
پس شاید تو ان لشکریوں میں سے ہے کہ خدا جن کی طرف ہر روز دو بار نگاہ (لطف) کرتا ہے !!۔
وہ کون لوگ ہیں ؟
اہل فلسطین ۔
اگر وہ آدمی کہہ دیتا میں اہل فلسطین سے نہیں ہوں ،تو شاید کعب الاحبار ایک ایک کرکے بعلبک طرابلس اور شام کے بقیہ تمام شہروں کے ساکنین کے لئے حدیثیں نقل کرتا رہتا اور ثابت کر دیتا کہ یہ سب نہایت ہی صالح و شائستہ افراد ہیں ! سب کے سب اہل بہشت ہیں !!کعب الاحبار یہ حدیثیں یا تو شامی امراء کی خوشامد اور چاپلوسی میں گڑھا کرتا تھا تاکہ وہ ان سے زیادہ سے زیادہ انعام و مدد حاصل کرکے ان کا محبوب و مقرب بن سکے یا یہ کہ اس کے اس عمل کی جڑیں اس کی اسلام دشمنی میں تلاش کرنی پڑیں گی جس کا مقصد احادیث اسلامی خلط ملط کرکے اقوال پیغمبر اسلام (ص) کو مشتبہ اور ناقابل شناخت بنانا رہا ہوگا۔
تذکرہ اور رجال و حدیث کی کتابوں میں اس قسم کے بہت سے واقعات موجود ہیں ۔ ان ہی میں سے ایک اس امیر کی داستان ہے جو اپنے فرزند کو ایک مکتب میں داخل کرتا ہے اور وہاںمہتمم متکب اس کی پٹائی کر دیتا ہے ،لڑکا روتا دھوتا گھر پہنچ کر جب باپ کو اپنی پٹائی کی خبر دیتا ہے تو باپ غصہ میں بپھرا ہو ا کہتا ہے : ابھی جاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اس مہتمم مکتب کے خلاف ایک حدیث وضع کرو تاکہ مکتب کا مہتمم دوبارہ اس قسم کی غلطی کرنے کی جراٴت نہ کرے !!
اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے لئے حدیث گڑھ لینا اس قدر آسان ہو چکا تھا کہ بچوں کی آنکھوں سے ڈھلنے والے آنسوؤں کے قطرے ،خود مہتمم مکتب یا اس کے وطن و شہر کے خلاف ایک حدیث ڈھالنے کے لئے کافی ہوتے تھے ،بہر صورت یہی حالات اس بات کا سبب بنے کہ دنیا ئے اسلام میں ہی اسلام سے برگشتہ ایک خود ساختہ مخلوط و مجعول ذہنیت اور تہذیب و ثقافت پھلنے پھولنے لگی ،اور اس غلط ذہنیت کو جنم دینے والے وہی علماء اور محدثین تھے جو اپنے زمانہ کے صاحبان اقتدار و منصب کے ہاتھوں بکے ہوئے تھے چنانچہ ،ایسے سخت ترین حالات میں اس گروہ سے ٹکر لینا بہت ہی اہم اور فیصلہ کن ہے ۔
--------------------------------------------------------------------------------
(۱)۔یہاں علماء سے مراد اس زمانہ کے علمائے دین ہیں جن میں محدثین ،مفسرین قراء ، قاضی صاحبان اور زاہد منشی سب ہی شامل تھے ۔
(۲)۔کعب الاحبار ایک یہودی تھا جو دوسرے دور خلافت میں مسلمان ہو گیا ،اس کی بیان کردہ حدیثوں کے بارے میں بہت زیادہ شک و شبہ پایا جاتا ہے نہ صرف شیعوں کے درمیان بلکہ بہت سے اہل سنت حضرات بھی اس کی حدیثوں کے بارہ میں یہی گمان رکھتے ہیں البتہ بعض اہل سنت نے اس کو قبول بھی کیا ہے