نصیحت ‘ عقیدہ اور کردار بروئے تعلیمات جعفریہ
  فرض کیا قدیم زمانے میں آبادی زیادہ تھی لیکن آج کی مانند صنعتیں موجود نہ تھیں ‘ کہ آلودگی خطرناک شکل اختیار کر لیتی پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آریائی اقوام نے ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لئے اتنی سنجیدگی کیوں دکھائی کہ آلودگی سے احتراز کرنا اپنے مذاہب کے اصول کا جزو بنا لیا اور ہندوستان و ایران غریضہ جہان جہان آریائی اقوام آباد تھیں انہوں نے ماحول کو آلودگی سے بچانے کیلئے اپنی پوری کوشش کی ۔ اور جیسا کہ اس سے پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے کہ ان کی یہ کوشش اندیشے کا درجہ اختیار کر گئی ۔
کیا ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ آریاؤں کی ہجرت سے پہلے اس کرہ ارض پر ایک ایسا تمدن موجود تھا جس نے ماحول کو آلودہ کیا اور آلودگی کے نتیجے میں وہ تمدن مٹ گیا یا اسے شید نقصان اٹھانا پڑا ہمارا خیال ہے یہ بات عقلمندوں اوردانشوروں نے گھڑی ہے تاکہ آئندہ آنے والے لوگ زندگی کے ماحول کو آلودہ کرنے سے پرہیز کریں ۔
اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ یہ بات صرف تخیل کی حد تک نہیں بلکہ حقیقت ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ناصحوں نے صرف آریائی اقوام کو دیکھا ہے اور دوسری قوموں کا مشاہدہ نہیں کیا چونکہ ان کی نصیحت صرف آریائی اقوام تک ہی محدود ہے انہوں نے کسی دوسری قوم سے یہ اندیشہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ بھی اپنی زندگی کے ماحول کو آلودہ کر سکتی ہے اگرچہ یہ آلودگی اس درجے تک نہیں پہنچتی تھی کہ لوگوں کے لئے خطرہ پیدا ہوتا جعفر صادق (علیہ السلام ) نہ صرف علمی مسائل میں نابغہ روزگار شمار ہوتے تھے اور آپ نے یہ صرف ایسی باتیں کہیں کہ آج ہم بارہ سو سال بعد بھی ان باتوں کو سن کر حیران ہوتے ہیں بلکہ آپ ایک قابل نظریاتی انسان بھی شمار ہوتے ہیں ۔ اور آئیڈولوجی کے لحاظ سے آپ کے نظریات بارہ سو سال بعد قابل توجہ ہیں اگرچہ سترھویں صدی کے بعد دنیا میں بڑے بڑے نظریاتی لوگ پیدا ہوئے ۔
جعفر صادق (علیہ السلام ) کے نظریات میں سے ایک نظریہ یہ ہے کہ ہر شخص کا عمل اس کے عقیدے کے مطابق ہونا چاہیے اور ہر شخص کے عقیدے کو اس کے افکار کی عکاسی کرنا چاہیے جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا انسان شروع میں صدیق پیدا ہوتا ہے اور اپنے عقیدے کے خلاف کوئی عمل انجام نہیں دیتا لیکن بعد میں بعض اشخاص میں یہ بات نمودار ہوتی ہے کہ ان کا عمل ان کے عقیدے کے برعکس ہوتا ہے اور وہ جھوٹ سے کام لیتے ہیں جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ‘ چھوٹا بچہ جھوٹ نہیں بولتا اس کا عمل اس کے عقیدے کا عکاس ہوتا ہے اگر اسے کوئی اچھا لگے تو اس کی گود میں چلا جاتا ہے اور اگر اسے کوئی برا لگے تو اس سے منہ پھیر لیتا ہے جس چیز کو پسند کرتا ہے ‘ اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے اور جس چیز سے نفرت کرتا ہے اس سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے یہ علامتیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ انسان ابتدا میں صدیق ہوتا ہے اور اس کے اعمال اس کے تصور کے عین مطابق ہوتے ہیں لیکن جب بلوغت کی منزل پر آتا ہے تو بعض لوگوں کا کردار ان کی سوچ کے برعکس ہوتا جاتا ہے اور جھوٹ ‘ سچائی کی جگہ لے لیتا ہے ۔
آج حیوانات اور بشریات کے ماہرین اس بارے میں کہ انسان صدیق پیدا ہوتا اور اس کے اعمال اس کے عقیدے اور تصور سے مطابقت رکھتے ہیں جعفر صادق (علیہ السلام ) سے اگے نکل گئے ہیں ان کے بقول شروع میں انسان جھوٹ نہیں بو ل سکتا تھا اور نہ ہی اپنے عقیدے اور سوچ کے برعکس کوئی کام انجام دے سکتا تھا جو چیز اس کے جھوٹ بولنے اور اپنے عقیدے کے برعکس عمل کرنے کا سبب بنی وہ اس کی گفتگو ہے جس دن تک انسان نے بولنا نہیں سیکھا تھا وہ جس انداز سے سوچتا اسی انداز سے عمل کرتا تھا اور جھوٹ نہیں بول سکتا تھا جو کچھ اس کے باطن میں ہوتا اسے ظاہر کر دیتا ۔
بنی نوعی انسان کی اجتماعی حالت ‘ جانوروں کی اجتماعی حالت جیسی تھی ‘ مثلا جیسا کہ آج ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب دو جانور ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو اگر وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہوں تو آپس میں دوستی گانٹھ لیتے ہیں لیکن اگر ایک دوسرے کو ناپسند کرتے ہوں تو آپس میں لڑنا جھگڑنا شروع کر دیتے ہیں ۔
ہر جانو ر کا دوسرے جانور کے متعلق باطنی احساس ایسا ہے کہ گویا وہ اس جانور کے بدن پر لکھا ہوا ہے اور جو نہی اسے دوسرا جانور دیکھتا ہے تو وہ اس باطنی احساس کو فورا محسوس کر لیتا ہے شروع شروع میں انسان بھی ایسا ہی تھااور یہ ریا کاری سے کام نہیں لے سکتا تھا ‘ جو کچھ اس باطن میں ہوتا فورا اسے ظاہر کر دیتا لیکن جب اس نے بول چال سیکھی اور یہ اپنے مدعا کو اپنے کلام بیان کرنا سیکھا چونکہ کلام کرنے کے نتیجے میں اس نے اپنے تجربات دوسروں تک پہنچائے اور اسی طرح دوسروں کے تجربات سے خود سبق حاصل کیا اور یوں انسان نے اپنی معلومات میں اضافہ کیا لیکن یہی کلام جس کے ذریعے بنی نوع انسان کی ترقی کی راہیں کھلیں بنی نوع انسان کے جھوٹ بولنے ‘ ریا کاری سے کام لینے اور عقیدے اور تخیل کے برعکس کردار سازی (منفافقت )کاباعث بھی بنا ۔
موجودہ زمانے کے مشہور معروف ڈنمارکی محقق اور مصنف پالووان مولہ کے بقول انسان شروع میں اپنی زندگی سے وابستہ دو چیزوں سے مطلع نہیں رہا ۔ ایک جھوٹ اور دوسری موت ۔
اس ڈنمارکی مصنف نے مرگ ہابیل کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے جسے اہل ادب نے موجودہ زمانے کے اچھے ادبی آثار میں شمار کیا ہے ‘ یہاں اس کتاب کی تفصیل تو نقل نہیں ہو سکتی بہر کیف چند سطور کا ذکر بے محل نہیں ہے ۔
پالووان مولہ اپنے ناول میں لکھتا ہے کہ قابیل اپنے بھائی ہابیل کو قتل کرنے کے بعد رونے لگا اس پر حوا اپنے بیٹے ہابیل کی طرف گئی اور اس کے سر کو زمین سے بلند کرنے کے بعد اسے دلاسا دیا اسے یقین تھا کہ اس کا بیٹا سویا ہوا ہے سورج کے غروب ہونے سے تھوڑی دیر پہلے جب آدم صحرا سے واپس ایا تو حوا نے اسے کہا کہ معلوم نہیں یہ ہابیل نیند سے بیدار کیوں نہیں ہوتا ؟
آدم نے کہا ‘ کس وقت سویا ہے ؟ حوان نے کہا ظہر کے بعد سویا ہے آدم بولا ضرور یہ کافی تھکا ہوا ہے اس لیے اسے سونے دو تاکہ اس کی تھکاوٹ مکمل طور پر دور ہو جائے ‘ اس وقت تک ہابیل خیمہ کے باہر پڑا ہوا تھا پھر وہ اسے اٹھا کر خیمے کے اندر لے گئے اور اس کے بعد آدم اور حوا بھی سو گئے جب یہ دونوں سو کر صبح کے وقت اٹھے تو دیکھا کہ بابیل تو اسی طرح سو رہا ہے آدم نے حوا سے کہا کہ میرا خیال ہے بابیل دوبارہ درخت سے گرا ہے کای تمہیں یاد ہے کہ یہ جب پہلی مرتبہ درخت سے گرا تھا تو ایکژ دن و رات سوتا رہا تھا ‘ حتی کہ اس نے اس دوران آنکھ بھی نہیں کھولی تھی حوا نے شوہر سے کہا سورج نکل آیا ہے لہذا آپ بابیل کو خیمے سے نکال کر دھوپ پر رکھیں تاکہ سورج کی حرارت سے اس کا جسم گرم ہو چونکہ اس کے ہاتھ ٹھنڈے ہیں لہذا شاید سردی نے اس کی یہ حالت بنائی ہے ‘ آدم نے بیٹے کو اٹھایا اور خیمے سے باہر نکال کر دھوپ میں رکھ دیا لیکن ہابیل سورج کی حرارت پئہنچنے پر بھی نیند سے نہیں اٹھا آدم نے بیٹے کو آہستہ سے ہلایا اور کہا ہابیل بیدار ہو جاؤ اور کھانا کھاؤ ۔ تم کل سے سوئے ہوئے ہو اور ابھی تک کھانا نہیں کھایا ‘ کیا تمہیں بھوک نہیں لگ رہی ‘ اٹھو ‘ کھانا کھاؤ ‘ ہابیل نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ ہی آنکھیں کھولیں ۔
اس دن ہابیل سورج غروب ہونے تک دھوپ میں پڑا رہا ۔ جب شام کو آدم صحرا سے لوٹ کر گھر آیا تو اپنے بیٹے کی طویل نیند پر حیران ہوا اور حوا سے مخاطب ہو کر کہنے لگا جب پہلی دفعہ درخت سے گرا تھا تو چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد سے جاگ گیا تھا ۔ لیکن مجھے حیرانی ہو رہی ہے کہ اس دفعہ کیوں نہیں اٹھ رہا ۔ جب رات پڑ گئی تو آدم بیٹے کو اٹھا کر خیمے میں لایا اور اسے زمین پر رکھ دیا اس کے بعد آدم اور حوا دونوں سو گئے ‘ جونہی وہ صبح بیدار ہوئے انہیں خیمے سے ناگوار بو آنے لگی ۔
یہ بو ان کیلئے نئی نہ تھی کیونکہ وہ یہ بو کئی مرتبہ صحرا میں جانوروں کی لاشوں سے سونگھ چکے تھے اور ایک مرتبہ آدم نے تین دن مسلسل بارہ سینگا کا شکار کیا اور حوا کیلئے لایا ور چونکہ چند دنوں میں ان سب بارہ سینگوں کا گوشت نہیں کھا سکتے تھے لہذا جو گوشت باقی بچا اس سے بد بو آنے لگی اور اس پر حوا نے اپنے شوہر سے کہا کہ وہ اس فاسد گوشت کو خیمے سے باہر نکال کر پھینک دے اس پر آدم نے گوشت کو خیمے سے باہر نکالا اور دور صحرا میں لے جا کر پھینک دیا ۔
آدم و حوا کو اتنی سمجھ آ گئی تھی کہ جو بد بو وہ خیمے میں سونگھ رہے ہیں وہ کسی جانور کی لاش کی ہے لیکن اس خیمے میں کسی جانور کی لاش کا وجود نہ تھا جسکی بد بو وہ سونگھتے ۔ آخر کار آدم و حوا کی سمجھ میں یہ بات تو آ گئی کہ یہ بد بو ان کے اپنے بیٹے کی ہے لیکن وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ ان کا بیٹا مرد ہے اور آدم نے ایکمرتبہ پھر ہابیل کو اٹھایا اور اسے خیمے سے باہر لے ایا تاکہ اسے دھوپ میں رکھے اور حوا سے مخاطب ہو کر کہنے لگا ہابیل کا بدن بہت ٹھنڈا ہے مجھے امید ہے کہ جب اس کا بدن دھوپ میں گرم ہو جائے گا تو یہ نیند سے بیدار ہو جائے گا ۔ لیکن جب وہ بیٹے کو دھوپ میں لایا تو اس کی شکل و صورت بدل گئی تھی اور اس کا رنگ سیاہ پڑ چکا تھ اآدم نے اپنی بیوی کو آواز دی ‘ جب وہ قریب آ گئی تو اس سے کہنے لگا ‘ ہابیل کا رنگ تو سیاہ پڑ چکا ہے حوا بھی بیٹیکے رنگ میں تبدیلی کی وجہ نہ جان سکی اس دوران جبکہ بیوی خاوند دونوں ہابیل کی سیاہ صورت کا مشاہدہ کر رہے تھے اور اس سے آنے ولی بد بو پر متحیر تھے چند گدھ آسمان پر نمودار ہوئے ۔ جونہی آدم نے صحرا کا رخ کیا اور حوا بھی ذرا سی خیمے سے دور ہوئی ‘ گدھ نہایت تیز سے ہابیل تک پہنچے اور اگر آدم کی آواز پر وہ وحشت زدہ نہ ہو جاتے تو ہابیل کی تکابوٹی کر دیتے ۔
صرف قابیل ایسا سخص تھا جو انہیں یہ بتا سکتا تھا کہ ہابیل کیوں بیدار نہیں ہو رہا اور اس سے بدبو کیوں آ رہی ہے ؟ لیکن جس دن سے ہابیل گہری نیند سویا تھا اس دن سے قابیل کا کچھ اتہ پتہ نہ تھا ماں اور باپ دونوں طویل عرصے تک اس کی عدم موجودگی پر حیران نہ تھے کیونکہ بعض اوقات شکار کے تقاضے ایسے ہوتے تھے کہ اسے صحرا میں رکنا پڑ جاتا تھا اور وہ کئی کئی دن تک خیمے کو واپس نہیں لوٹتا تھا ۔
حوا نے مشاہدہ کیا کہ کچھ گدھ آ کر قریب ہی زمین پر بیٹھ گئے جونہی وہ دونوں ہابیل کو چھوڑ کر اپنے کام کام میں مصروف ہونے کا ارادہ کرتے تو وہ گدھ اڑ کر ہابیل کے قریب آ جاتے اور اس پر جھپٹنا چاہتے لیکن جب وہ دیکھتے کہ وہ دونوں پر خیمے کی طرف لوٹ آئے ہیں تو دور ہٹ جاتے ‘ غرضیکہ یہ آنکھ مچولی جاری رہی ۔
اس کے باوجود کہ ہابیل کی نعش سے بد بو آ رہی تھی پھر بھی آدم و حوا کو اس کی موت کا علم نہ تھا انہوں نے یہ بدبو صحرا میں گلے سڑے ہوئے جانوروں کی لاشوں سے سونگھی تھیا ور اتنا جانتے تھے کہ وہ جانور اب حرکت کر سکتے تھے اور نہ ہی غذا کھا سکتے تھے یعنی پہلی حالت پر کبھی بھی واپس نہیں آ سکتے تھے لیکن انہوں نے کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ انسان بھی جانوروں جیسا ہو سکتا ہے اس پر ایسا وقت آ سکتا کہ نہ تو وہ چل پھر سکے اور نہ کھا پی سکے غرضیکہ موت آدم اور حوا کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی جیسا کہ آج کرہ ارض پر انسان کی پیدائش کے کم از کم چار پانچ ملین سال گزرنے کے بعد بھی موت ہماری سمجھ میں نہیں آتی اور یہاں تک کہ وہ ممالک جہاں تعلیم یافتہ مرد اور عورتوں کی تعداد زیادہ ہے وہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ آدمی مرتا ہے بلکہ ان کا خیال ہے کہ زندہ جاوید ہے لیکن چونکہ طبعی لحاظ سے موت کے وجود کا انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ موت کے بعد انسان کا جسم گل سڑ جاتا اور ختم ہو جاتا ہییہاں تک کہ کچھ عرصے بعد اس کی ہڈیاں بھی خراب ہو جاتی ہیں پھر بھی آج کا انسان انسان کی زندگی جاوید کا معتقد ہے اور اس کی عقل اس بات کو قبول نہیں کرتی کہ انسان اپنے جسم کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے لہذا انسان کہتا ہے کہ وہ اپنی روح کے ساتھ زندہ جاوید ہے جو لوگ مادہ پرست اور روح کے وجود کے منکر ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ آدمی مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا بلکہ اس سے کچھ چیز باقی رہ جاتی ہیں اگرچہ وہ شعاعوں کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو ۔
بیلجیم کا رہنے والا میٹر لینگ جو اس صدی کے فلسفیوں میں سے ہے ‘ اگرچہ ایک مادہ پرست انسان تھا لیکن اس کا کہنا تھا کہ سینکڑوں ملین سال پہلے اگر کسی ستارے کا عکس پانی پر پڑا ہے تو وہ نہیں مٹتا تو پھر انسان کیسے مٹ سکتا ہے اور یہی مادہ پرست انسان ارواح کی حاضری کے جلسوں میں حاضر ہوتا تھا چونکہ یہ اس بات کا معتقد تھا کہ ناگزیر انسان سے کوئی چیز باقی رہ جاتی ہے اور جو چیز انسان سے باقی رہتی ہے شاید اسی کے ذریعے انسان اس جہاں میں اپنے عزیزوں اور دوستوں سے رابطہ قائم کر سکتا ہے ۔
آج سے ایک سو سال پہلے ‘ بھکاری راتوں کو سپین ‘ فرانس اور اٹلی کے گلی کوچوں میں صدا لگایا کرتے تھے کہ اے لوگو ‘ تمہاری میتیں تمہاری منتظر ہیں اور لوگ بھی معتقد تھے کہ میتیں زندہ ہیں اور انہیں غذا وغیرہ کی ضرورت ہے لہذا لوگ انہیں کچھ غذا اور تھوڑی بہت رقم دے دیتے تھے اور بعض رحم دل خواتین تو شراب کا جام بھی پلاتی تھیں کیونکہ انہیں یقین تھا کہ میتیں پیاسی ہیں اور انہیں پینے کی ضرورت ہے آج بھی فرانس ‘ سپین اور اٹلی جیسے ممالک میں لوگ اپنی میتوں کیلئے خیرات دیتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لوگ میتوں کی زندگی کے معتقد ہیں چونکہ اگر وہ یہ سمجھیں کہ وہ واقعی مردہ ہیں تو ان کیلئے خیرات نہ دیں ۔
اموات کے زندہ ہونے کے بارے میں لوگوں کا عقیدہ اس قدر پختہ ہے کہ آج کے سب سے مہذب ممالک میں بھی لوگ اپنی اموات کو سیر کرنے کیلئے فقرا میں کھانا تقسیم کرتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ اگر بھوکے کو کھانا کھلایا جائے تو ان کی متیں جنہیں غذا کی ضرورت ہے سیر ہو جاتی ہیں لہذا ہمیں اس پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ آدم اور حوا موت سے کویں مطلع نہ تھیں ؟ اس کے باوجود کہ انہوں نے ہابیل کی سیاہ صورت دیکھی تھی اور اس کے جس سیبد بو بھی سونگھی تھی پھر بھی انہیں علم نہ تھا کہ وہ مردہ ہے نہ تو تو آدم صحرا کی طرف جا سکتا تھا اور نہ ہی حوا خیمے کو واپس جا سکتی تھی حتی کہ وہ گھریلو کام کاج کرنے سے بھی عاجز تھے کیونکہ جونہی گدھ دیکھتے کہ یہ دونوں ہابیل سے دور ہو گئے ہیں تو وہ فورا حملے کیلئے چھپٹ پڑتے ‘ یہاں تک کہ حوا نے اپنے شوہر سے کہا کہ یہ بہتر نہیں کہ جیسے ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے گوشت ان جانوروں کے کام آئے اسی طرح ہابیل کو بھی مٹی کے نیچے دفن کر دیں ؟ پہلے اس بات کا تجربہ ہو چکا تھا کہ جب ان کے پاس زیادہ گوشت ہوتا تو وہ اسے محفوظ کرنے کیلئے ایک گڑھا کھود کر گوشت کو اس میں رکھنے کے بعد گوشت پر درختوں کے پتے رکھتے تاکہ گوشت کے ساتھ مٹی نہ لگے اور پھر اوپر مٹی ڈال کر اسے ڈھانپ دیتے تھے اور ایک یا دو دن بعد اسے نکال کر اپنے استعمال میں لاتے تھے ‘ حوا نے مشورہ دیا کہ ہابیل کو گدوں کی دست برو سے بچانے کیلئے اسے مٹی میں دفن کر دیا جائے ۔
آدم پتھر کی خود ساختہ کدال لایا اور زمین کھودنا شروع کر دی جب وہ تھک جاتا تو کدال حوا کو دے دیتا اور پھر وہ زمین کھودنا شروع کر دیتی حتی کہ انہوں نے اتنی کھود ڈالی اور اتنی مٹی باہر نکال دی جو ہابیل کو دفن کرنے کیلئے کافی نظر آنے لگی ۔
جب انہوں نے ہابیل کو ا گڑھے میں ڈالنا چاہا تو اسکی صورت بالکل سیاہ پڑ گئی تھی آدم اپنے بیٹے کا سیاہ چہرہ دیکھ کر سوچ میں پڑ گیا اور بیوی سے کہنے لگا مجھے ایک ایسی بات یاد آ رہی ہے جسکے بارے میں میں نے اب تک نہیں سوچا تھا ۔ حوا نے پوچھا ‘ تجھے کیا چیز یاد ائی ہے ؟
ادم نے کہا مجھے یاد ہے جس وقت ہم بہشت میں تھے خداوند تعالی نے فرمایا تھا کہ فلاں پھل ممنوع ہے اسے نہ کھانا اور کھاؤ گے تو مر جاؤ گے کیا تمہیں بھی یاد ہے ؟
حوا کہنے لگی ‘ میں تو بھول گئی تھی لیکن چونکہ اب تم نے یاد دلایا تو مجھے یادآ گیا کہ خداوند تعالی نے بہشت میں ہم سے یہ بات کہی تھی ۔
آدم کہنے لگا ‘ میرا خیال ہے ہمارا بیٹا جس گہری نیند سے بیدار نہیں ہو رہا وہ وہی ہے جسکے متعلق خداوند تعالی نے بہشت میں ہمیں بتایا ہے ۔ حوا نے خیال ظاہر کیا ‘ لیکن اس وقت تو ہابیل پیدا بھی نہیں ہوا تھا چہ جائیکہ وہ ممنوعی پھل کھاتا اور میں اور تم نے وہ میوہ کھایا ہے لہذا ہمیں موت آنا چاہیے نہ کہ ہابیل کو ‘ آدم بولا ‘ وہ ہمارا بیٹا ہے اور ہمارے عمل کی سزا بھگت رہا ہے حوا بولی میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتی ‘ ہابیل نے تو وہ پھل نہیں کھایا کہ اسے موت آ جائے ‘ آؤ دونوں مل کر اسے مٹی تلے دفن کر دیں تا کہ پرندے اس پر حملہ نہ کریں ۔ اور کل اسے مٹے کے نیچے سے نکال لیں گے ‘ شاید اس وقت تک وہ نیند سے بیدار ہو جائیگا ۔ آدم نے بیوی کیبات مان لی جب ہابیل کو گڑے میں رکھا گیا تو اسکے اوپر مٹی ڈال کر بیوی اور خاوند اپنے اپنے کام کاج میں مشغول ہو گئے ‘ جب گدوں نے دیکھا کہ نعش کو مٹی کے نیچے دفن کردیا گیا ہے تو وہ بھی اڑ گئے چونکہ وہ آدم اور حوا سے کئی ملین سال پہلے وجود میں آئے تھے لہذا انہیں علم تھا کہ موت کیا ہے اور نعش جوموت کا پھل تھی اسے کھاتے تھے اور موت کے متعلق کسی شک و شبہ میں نہیں پڑے تھے انہیں علم تھاہابیل نیند سے بیدار نہیں ہو گا اور جونہی انہوں نے ہابیل کی نعش کی بد بو سونگھی وہ سمجھ گئے کہ وہ لڑکا مردہ ہے اورہ وہ اس کا جسد کھا سکتے ہیں دوسرے دن صبح آدم نے پتھر کی کدال سے ہاتھ میں لی اور حوا کے ہمراہ اس گڑھے تک گیا جہاں انہوں نے ہابیل کی نعش رکھی ہوئی تھی آدم نے کدال سے مٹی ہٹا کر ایک طرف کی تاکہ ہابیل کو مٹی کے نیچے سے باہر نکالے ۔
آج ہم حوا اور ادم کی سادگی پر حیران ہوتے ہیں کہ وہ کیوں نہیں سمجھ سکے کہ ان کا بیٹا مردہ ہے جبکہ آج بھی جب ایک آدمی مرتا ہے تو کچھ لوگ اسکے زندہ ہو جانے کے منتظرہوتے ہیں ۔
آج موت کی علامتوں سے سب آگاہ ہیں اور ڈاکٹر ان علامتوں سے دوسروں سے زیادہ آگاہی رکھتے ہیں لیکن پھربھی کبھی کبھار ڈاکٹر ان تمام علائم کا مشاہدہ کرنے کے باوجود سوچتا ہے کہ شاید جس شخص کو وہ مردہ سمجھ رہا ہے وہ نہ مرا ہو ۔
پس ہمیں اس بات پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ کیوں آدم اور حوا ہابیل کے زندہ ہونے کی توقع رکھتے تھے جونہی انہوں نے مٹی ہٹائی اور ان کی نظریں ہابیل پر پڑیں تو انہوں نے اس میں نعش کی علامتیں دیکھیں اب اس نعش سے آنے والی بد بو تیز ہوتی گئی اس وقت حوا نے کہا میرا خیال ہے جو کچھ تم نے کہاہے وہ حقیقت ہے اور ہابیل مر چکا ہے اب ہم اسے مزید چلتا پھرتا ‘ بات چیت کرتا‘ ہنستا اور کھانا کھاتا نہیں دیکھ سکیں گے ۔
یہ اس ناول کا خلاصہ تھا جو ڈنمارکی مصنف پالووان مولہ نے پہلی موت کے بارے میں لکھا ۔ اور جیسا کہ مشاہدہ ہوا جب آدم اور حوا سمجھ گئے کہ ان کا بیٹا مردہ ہے تو وہ نہیں روئے چونکہ ابھی تک ان کے جذبات اپنے ایک عزیز کی موت پر رد عمل ظاہر کرنے کیلئے تیار نہ تھے اور مردے پر رونا انسان نے بعد میں سیکھا ہے وہ بھی تمام مردوں پر نہیں بلکہ صرف ان مردوں پر جو ان کے بہت قریبی عزیز ہوتے ہیں جبکہ بیگانوں کی موت ان کی نظر میں اس قدر اہمیت نہیں رکھتی کہ اس پر آنسو بہائیں بلکہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ اپنے نزدیک ترین عزیزوں کی موت پر بھی آنسو نہیں بہاتے اور میدان جنگ اور ہسپتالوں جیسی جگہیں بھی ہیں جہاں پر کوئی مردے پر آنسو نہیں بہا تا ۔
ہم نے کہا کہ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو فطرتا صدیق ہوتا ہے اس کا کردار اسکے عقیدے کے مطابق ہوتا ہے اور جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے آدمی جس کی تخلیق کی ابتدا کے بارے میں ابھی تک سائنس دان جاننے میں کامیاب نہیں ہو سکے اس ابتدا میں انسان جھوٹ نہیں بول سکتا تھا ۔ انسان کی پیدائش کے آغاز کے متعلق سائنس دانوں کے درمیان ساٹھ ملین سال کا اختلاف پایا جاتا ہے بعض انسان کی تخلیق کو خیال کرتے ہیں جو آج سے پینسٹھ سال یا ستر سال پہلے کا زمانہ ہے اور یہ زمانہ بڑی جسامت والی چھپکلیوں (ڈانیو سار) کے خاتمے کے فورا بعد کا زمانہ ہے انسانی بدن کا پتھر میں محفوظ ڈھانچہ یا سکیلٹن جو حال ہی میں چین میں دریافت ہوئی ہے اسکے متعلق کہا جاتا ہے کہ آج سے ساٹھ ملین سال پرانی ہے اگر اسکی قدامت اتنی ہی ہے تو جن لوگوں کے بقول انسان تیسرے عہد کے آخر میں وجود میں آیا وہ لوگ صحیح ہیں اور تیسرا عہد کرہ ارض کا وہ دور ہے جس میں زمین کی موجودہ شکل بنائی گئی ہے جس کے بعد نہ تو ہمیشہ بارش برستی اور نہ ہی پہاڑوں میں دراڑیں ڈالنے والے بڑے بڑے دریا وجود میں آئے تھے ‘ اور دریا اور سمندر تقریبا آج جیسی حالت پر تھے ‘ اس مرحلے میں انسان نے اپنے گمنام آباء و اجداد کے بعد دنیا میں قدم رکھا تھا اس زمانے میں انسن چوپایا تھا اسے بات کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا وہ کتوں کی مانند بھوں بھوں کرتا اور چنگھاڑتا تھا اس زمانے میں انسان آسانی سے آدم خور جانوروں کا نوالہ بن جاتا تھا چونکہ اس میں تیزی سے فرار ہونے کی صلاحیت نہ تھی یہاں تک کہ انسان ‘ آدمی خور جانوروں کے مقابلے میں خرگوش کی مانندبھاگنے کی صلاحیت بھی نہ رکھتا تھا ۔ اس کابدن بھیڑوں کی مانند سر سیپاؤں تک اون سے ڈھکا ہوتا تھا تاکہ وہ سردی کا مقابلہ کر سکے لیکن بھیڑ کا بدن تو کیڑوں مکوڑوں کی دسترس سے محفوظ ہے جبکہ انسان کی اون میں بیشمار کیڑے مکوڑے رہا کرتے تھے اور پہلے دور کے انسان کا کام ہی جسم کی خارش کرنا ہوتا تھا جونہی اس کا پیٹ بھرتا اور وہ اس طرف سے مطمئن ہو جاتا تو جسم کی خارش کرنا شروع کر دیتا تھا ۔ پیٹ بھرنا بھی شروع شروع میں انسان کیلئے ایک طویل کام ہوتا تھا کیونکہ انسان گھاس کھاتا تھا اور چونکہ حرارے مہیا کرنے والا گھاس کم میسر آتا لہذا انسان عام گھاس کھانے پر مجبور تھا تاکہ اپنا پیٹ بھرے ۔
اگر ڈارون کا نظریہ صحیح ہے تو انسان اپنی تخلیق کے آغاز میں زمین سے کوئی چیز اٹھا کر اسے منہ تک لے جانے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا تھا کیونکہ انسانی انگلیوں کی شکل آج کی مانند نہ تھی اور انسان اپنا پیٹ بھرنے کیلئے مجبورا بھیڑوں کی مانند چرتا تھا اور کئی ملین سال گزرنے کے بعد آدمی کی انگلیوں کی موجودہ حالت بنی تاکہ انسان کوئی چیز زمین سے اٹھا کر منہ میں ڈال سکے ۔
موجودہ زمانے کے معروف سائنس دان مارشل مائیک لودھن کے بقول انسان کا وحشتکری سے موجودہ دور میں داخل ہونے کا سبب یہی چار ہاتھ اور پاؤں سے چلنا تھا ۔ چونکہ چار ہاتھ اور پاؤں سے چلنا یا دو ہاتھوں اور دو پاؤں کو کام میں لانا انسان کے دماغ میں دو کروں کو کام میں لانے کا سبب بنا جس کے نتیجے میں آدمی کی عقل پختہ ہوئی اور اس میں ذہانت وجود میں آئی اور انسان نے نت نئے کام متمدن دور میں منتقل ہونے کیلئے انجام دیئے ہیں ذہانت اسکے لئے ضروری تھی ۔ مارشل مائیک لودھن کہتا ہے اگر علمی اور ثقافتی میدان جو ہمارے اسلاف سے پہنچتی ہے جنگ یا کسی اور بڑے المیے کے نتیجے میں ختم ہو جائے اور بالغ افراد جو کئی باتوں سے اگاہ ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں اور صرف بچے رہ جائیں اور ان کے سامنے بھی متمدن زندگی کا نمونہ نہ ہو تو انسان ایک وحشی جانور میں تبدیل ہو جائیگا اور اسطرح اپنے کام کے مرحلے تک نہیں پہنچا سکے گا کیونکہ آدمی کے دماغ کا آدھا حصہ اچھی طرح کام کرتا ہے آدھا حصہ ساکن ہے کیونکہ انسان یا تو دائیں ہاتھ سے کام کرتا ہے یا بائیں ہاتھ سے ‘ جو لوگ دائیں ہاتھ سے کام کرتے ہیں نہ صرف ان کا بایاں ہاتھ کام نہیں کرتا بلکہ بایاں ہاتھ بیکار ہوتا ہے اس بات کو وہ اس وقت محسوس کرتے ہیں جس وقت وہ فٹ بال کے گراؤنڈ میں بائیں پاؤں سے گیند کو ٹھوکر مارنا چاہتے ہیں پھر جا کر انہیں علم ہوتا ہے کہ ان کے بائیں پاؤں اور بازو میں کوئی زیادہ فرق نہیں کیونکہ وہ بائیں پاؤں سے گیند کو ٹھوکر لگانے پر قادر نہیں ۔
لیکن سوشیالوجی کے کینڈین ماہر کے بقول چونکہ انسان آغاز میں دو ہاتھ اور دو پاؤں سے چلتا تھ اور دو پاؤں سے درختوں پر چڑھتا تھا اور تمام کاموں کو دو ہاتھوں سے انجام دیتا تھا لہذا اسکے دونوں نصف کرے کام کرتے تھے جس کے نتیجے میں انسان کی ذکاوت اتنی بڑ گئی کہ اس نے اپنے آپ کو وحشی کے مرحلے سے نکال کر تمدن کے مرحلے میں پہنچا دیا بہر حال وحشتگری کے اس دور میں جب انسان گھاس پر چار ہاتھ پاؤں سے چلتا تھا آج کے انسان کی نسبت اخلاقی لحاظ سے برتر تھا ۔ وہ اسطرح کہ نہ تو جھوٹ بول سکتا تھا اور نہ ہی اپنے باطن کو چھپا سکتا تھا ۔ لیکن وہ اخلاقی قاعدے قوانین نہیں رہے اور کوئی ان پر عمل نہیں کرتا ۔ موجودہ دور میں دیکھا گیا ہے کہ جتنا ایک معاشرہ تمدن سے پسماندہ ہو گا اتنای ہی اس میں جھوٹ ریا کاری اور بناوٹ کم ہو گی ۔ وہ اقوام اب بھی نیم وحشی ہیں جو نیو گنی کے مرکز اور سمندر کے بعض جزائر میں زندگی بسر کر رہیہیں جو جھوٹ نہیں بولتے اور دوسروں کی نسبت ریا کار بھی نہیں ہیں مرکزی افریقہ کے سیاہ فام بھی انیسویں صدی کے دوسرے عشرے تک جھوٹے نہیں بولتے تھے یعنی جھوٹ نہیں بول سکتے تھے ۔ جو چیز اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے وہ ڈاکٹر لایونک اسٹون کی یادداشتیں ہیں جس نے دریائے نیل کے سرچشموں کو دریافت کیا اور جیسا کہ ہمیں معلوم ہے ان سر چشموں کی دریافت کے بعد اس نے صرف چغرافیائی نقشے اور اپنے مقالات (انگلستان کی جغرافیائی یونین ) کو بھیجے اور خود افریقہ کے مرکز سے باہر نہیں آیا اور جسطرح اس دور میں ڈاکٹر شوایٹ زر نے اپنی زندگی سیاہ فاموں کی خدمت میں صرف کی ڈاکٹر لائیونک اسٹون نے بھی اپنی عمر سیاہ فاموں کی خدمت میں وقف کر دی ‘ اسکے مقاصد میں سے ایک یہ تھا کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ بردہ فروش تاجر جو افریقی عرب تھے ۔ سیاہ فام لوگوں کو مرکزی افریقہ سے اغوا کرکے کسی اور جگہ بیچ ڈالیں ۔
ڈاکٹر لائیونک اسٹون نے افریقہ میں واقع علاقے تانکا نیکا میں سیاہ فاموں کو بردہ فروش تاجر وہاں کے سیاہ تاجر وہاں کے سیاہ فاموں کو انگلستان کے شہر سمجھ کر انہیں بردہ فروشی کیلئے اغوا نہ کریں ۔
ڈاکٹر لائیونک اسٹون کے مخالفین اور انگلستان والوں نے کہا کہ دریائے نیل کے منبعوں کو دریافت کرنے والے کا انگلستان کا پرچم نصب کرنا سیاہ فاموں کو تحفظ فراہم کرنا نہ تھا بلکہ براعظم افریقہ کے مرکز کو انگلستان کے حوالے کرنا تھا بعد میں انگلستان نے تانکا نیکا کو سرکاری طور پر اپنے قبضے میں لیکر اسے برطانیہ کی نو آبادی قرار دیا ۔
دریائے نیل کے سرچشموں کے دریافت کنندہ کا ذکر کرنے سے ہمارا کچھ اور بھی مطلب ہے اور وہ یہ ہے کہ اس نے سیاہ فاموں سے کہا ہوا تھا کہ جہاں کہیں وہ بردہ فروش تاجروں کے ہاتھ چڑھ جائیں اور وہ انہیں اغوا کرنے کی ٹھان لیں اور سیاہ فام اس کی مدد بھی نہ حاصل کر سکیں تو انہیں چاہیے کہ وہ کہیں کہ وہ انگلستان کے شہری ہیں اس طرح بردہ فروش تاجر انہیں اغوا کرنے کی جرات نہیں کر سکیں گے ۔
لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ وہ انگلینڈ کے شہری ہیں جب کہ انہیں علم تھا کہ اگر وہ یہ جھوٹ بولیں گے تو آزادی اور جان کے چھن جانے کے خطرے سے دو چار نہیں ہوں گے ۔
ڈاکٹر لائیونیک اسٹون نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ ایک تانکا نیکا سیاہ فام ہر گز جھوٹ نہیں بول سکتا اگرچہ اپنی جان کے تحفظ کیلئے بھی کیوں نہ بولنا پڑے اور ایک سیاہ فام کو اگر ہاتھ کے دو دانت (جو مرکزی افریقہ کی گراں بہا اجناس میں سے ہے ) دیئے جائیں تو تب بھی وہ جھوٹ بولنے پر آمادہ نہیں ہو گا ۔
اور اس علاقے کے سیاہ فام کی نظر میں جھوٹ بولنا ایک محال کام ہے جس سے وہ عہدہ برآ نہیں ہو سکتا ہم نیو یارک ہیرالڈٹرائبون کے نامہ نگار (وہ بھی دریائے نیل کے سرجشمے دریافت کرنے کیلئے افریقہ گیا تھا ) کی ڈائری میں دیکھتے ہیں کہ وہ لکھتا ہے کہ اگرچہ افریقہ سیاہ فاموں (جو مرکزی افریقہ میں وحشیانہ زندگی گزارتے ہیں نہ کہ وہ جو افریقہ کے سواحل پر آباد متمدن سیاہ فام ہیں ) کی جان پر بن آتی تب بھی وہ جھوٹ نہیں بولتے تھے ۔
جو لوگ دریائے نیل کے سرچشموں کی دریافت کی تاریخ سے آگاہ ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ انگریز ڈاکٹر لائیونک اسٹون جب انیسویں صدی میں دوسرے پچاس سالوں کے دوران دریائے نیل کے سرچشموں کی دریافت کیلئے مرکزی افریقہ گیا تو اس نے دس سال تک کوئی خبر بیرونی دنیا کو نہیں بھیجی اور روزنامہ نیویارک ہیرالڈ ٹرائبون کیناشر نے ایک قابل نامہ نگار سٹینلے کو ڈاکٹر لائیونک اسٹون کے ڈھونڈنے کیلئے افریقہ بھیجا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ وہ مردہ ہے یا زندہ ؟ جب یہ نامہ نگار مرکزی افریقہ پہنچا تو اس نے دریائے نیل کے سرچشمے دریافت کرنے والے شخص کو ڈھونڈ نکالا ۔
اس نامہ نگار نے دو مرتبہ افریقہ کا سفر کیا ایک مرتبہ دریائے نیل کے سرچشموں کو دریافت کرنے والے کو ڈھونڈنے کیلئے اور دوسری مرتبہ جغرافیائی معلومات حاصل کرنے کیلئے دوسری مرتبہ وہ ایک آبشار دریافت کرنے میں کامیاب ہوا جس کا نام وکٹوریہ ہے اور جو دریائے نائجیریا میں واقع ہے ۔
دوسرے سفر کے دوران اسٹینلے اپنے قافلے کا قاضی بھی تھا اور فیصلے کرتا تھا اس سنے سیاہ فاموں میں سے ایک کو قتل کرنے اور دوسروں وک دھمکی دینے کے جرم میں پھانسی کی سزا دی اس نے پھانسی کے آخری لمحات میں سیاہ فام سے کہا اگر تم وعدہ کرو کہ اس کے بعد اپنے رفقا کو اذیت نہیں پہنچاؤ گے تو میں تمہیں پھانسی کی سزا نہیں دیتا لیکن اس سیاہ فام شخص نے کہا کہ اگر وہ زندہ رہا تو اپنے رفقا کو قتل کرے گا ۔
یہ شخص جواپنے رفقاء کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا اگر جھوٹ بولتا اور کہہ دیتا کہ میں نے اپنا ارادہ ترک کر دیاہے تو وہ زندہ رہ سکتا تھا لیکن وہ جھوٹ نہیں بول سکا اور اس کی زبان جھوٹ بولنے کے لئینیں کھل سکی مرکزی افریقہ کے یہی سیاہ فام قبائل جو دریائے نیل کے سرچشمے دریافت کرنے والے ڈاکٹر لائیونک اسٹون اور امریکہ نامہ نگار اسٹینلے کیبقول جھوٹ نہیں بول سکتے تھے آج جب متمدن دور میں داخل ہوئے تو انہوں نے جھوٹ بولنا شروع کر دیا ہے ۔
جعفر صادق (علیہ السلام ) جھوٹ اور ریا کاری سے سخت متنفر تھے اور کہا کرتے تھے کہ انسان کے قول اور فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے اور ہر ایک کا عقیدہ اس کے خیالات کا عکاس ہونا چاہیے یعنی جو کچھ انسان کے باطن میں ہو وہی ظاہر میں ہو ۔
جعفر صادق (علیہ السلام ) ریا کاری یا دکھلاوے سے نفرت کرتے اور اسے کسی صورت بھی تسلیم نہیں کرتے تھے اور چونکہ ریا کار بننا پسند نہیں کرتے تھے اور نہ ہی اپنے عقیدے کو چھپاتے تھے لہذا اسی بنا پر آپ نے اپنے عقیدے پر جان قربان کر دی ۔

علم و فلسفہ کی توضیح
اب ہم اس نابغہ علمی شخصیت کے شاندار نظریات میں سے ایک اور نظریئے کا تذکرہ کرتے ہیں اور وہ ہے آپ کا حکمت اور علم کے درمیان فرق کا نظریہ
جعفر صادق (علیہ السلام ) مذہبی پیشوا ‘ عالم ‘ فلسفی حکیم اور ادیب بھی تھے اور جیس اکہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں آپ ان چاروں علوم کو اپنے حلقہ درس میں پڑھاتے تھے آپ نے حکمت اور علم کے درمیان فرق کے بارے میں ایسا نظریہ پیش کیا ہے کہ ایک ہزار دو سو پچاس سال گزرنے کے بعد اور ہزاروں فلسفیوں کے دنیامیں آنے کے بعد بھی خاص پر کشش ہے جعفر صادق (علیہ السلام ) وہ پہلے شخص ہیں جنہون نے حکمت اور علم میں فرق کی وضاحت کی آپ سے پہلے کسی نے بھی اس جانب توجہ نہیں کی تھی کہ حکمت اور علم کے درمیان فرق پایا جاتا ہے ۔
قدیم یونانی فلسفیوں کی نظر میں جو چیز معلوم ہو جاتی تھی فلسفے میں شمار ہوتی تھی جیسا کہ ہمیں معلوم ہے اسکندریہ کا مکتب جو قدیم زمانے میں دنیا کے بڑے بڑے علمی مکاتب میں شمار ہوتا تھا وہاں پر فلسفے اور علم کے درمیان کسی فرق کی نشاندہی نہیں کی گئی تھی وہ اس طرح کہ تمام علوم کو حکمت میں شمار کیا جاتا تھا ۔یہاں تک کہ علمطب بھی حکمت کا جزو تھا ۔
قدما کی نظر میں فلسفہ وہ منبع تھا جس سے علوم کے سرچشمے پھوٹتے اوروہ علم العلوم شمار کیا جاتا تھا جو فلسفے میں ماہر ہوتا وہ تمام علوم میں ماہر ہوتا تھا لیکن اگر کوی شخص صرف علم طب جانتا تو وہ یہ دعوی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ فلسفہ بھی جانتا تھا ایک فرانسیسی فلسفی ژان دو لاکروا جو ابھی زندہ ہے کے بقول قدیم یونان میں شروع شروع میں ادب اور ہنر بھی فلسفہ کا جزو شمار ہوتے تھے اور یونانیوں کا عقیدہ تھا کہ شعر موسیقی مجسمہ سازی اور ثقافتی بھی فلسفہ سے نکلتے ہیں لیکن بعد میں یونانیوں نے ادب اور ہنر کو فلسفہ سے جدا کر لیا چونکہ وہ معتقد تھے کہ تمام علوم فلسفہ سے نکلے لہذا ان کی نظر میں علم کو حکمت سیجد اکرنے ی کوئی وجہنہ تھی ۔
یہ نظریہ اس وقت تک قائم رہا جب تک جعفر صادق (علیہ السلام ) نے علم اور حکمت میں امتیاز کی نشاندہی نہ کر دی آججب کہ علم کی حدود معلوم ہو گئی ہیں ہمیں اس بات پر کوئی حیرت نہیں کہ فلسفہ کو علم سے جدا کیوں سمجھا جاتا ہے جس دن جعفر صادق (علیہ السلام )نے فلسفے کو علم سے جدا کیا ہے اسی وقت سے آپ کا نظرہ ایک انقلابی نظرہ شمار کیاگیا اور ایک حقیقی انقلابی نہ کہ مجازی کیونکہ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرق کے متعلق ایک ایسی بات کہی جس نے ہر فلسفی کو ہلاکر رکھ دیا جعفر صادق (علیہ السلام ) کا یہ نظریہ دو حصوں پر مشتمل ہے اور وہ اس طرح ہے ۔
علم کسی حتمی نتیجے تک پہنچتا ہے اگرچہ وہ نتیجہ بہت مختصر اور محدود ہی کیوں نہ ہو لیکن فلسفہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچتا ۔ جعفر صادق (علیہ السلام ) کے نظریے کے اس حصے سے ان فلسفیوں کی کاوش باطل ہو جاتی ہے جو ساری عمر لسفے کی گتھیاں سلجھانے میں صرف کر دیتے ہیں ۔
اس ارشاد کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ دنیا کے (فلاسفرو ) جو کچھ تم نے پڑھا اور کسب فیض کیا ہے وہ سب فضول تھا اور فضول ہے اور تم لوگوں نیاپنی زندگیفضول چیزوں میں ضائع کر دی ہے کیونکہ جو چیز تم نے حاصل کی ہے اس کا نہ تمہیں کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی دوسرے لوگ اس سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں جیس اکہ ہمیں معلوم ہے جس زمانے میں کسینے دوسروں کے علم کی قدروقیمت کا انکار کیا وہ تمام لوگ اور ان کے حامی اسکے دشمن بن گے اگر کوئی کسی شخص کے گھر یا کھیتی کی قدرو قیمت کا انکار کرے تو وہ اس شخص سے سخت دشمنی نہیں مول لیتا لیکن اگر کسی شخص کے علم کا انکار کیا جائے تو وہ سخت دشمن بن جاتا ہے چونکہ جن کے پاس علم ہوتا ہے وہ اس پر فخر کرتے ہیں اور وہ ہر گز اپنے علم کی بے قدری برداشت نہیں کر سکتے ۔
یہاں تک کہ عظیم انسان بھی جب سنتے کہ ان کے علم کی قدرو قیمت نہیں ہوئی تو انہیں بے حد رنج ہوتا تھا بزرگان اسلام میں سے مالکی فرقے کے بانی مالک بن انس جو چار مشہور اسلامی فرقوں مالکی شافعی حنفی اور حنبلی میں سے ایک کے بانی ہیں ۔
جب امام جعفر صادق (علیہ السلام ) کا یہ نظریہ کہ حکمت (فلسفہ ) نتیجہ حاصل کرنے کے لحاظ بے فائدہ ہے البتہ ابھی جعفر صادق (علیہ السلام ) کے نظریئے کا صرف پہلا حصہ ہی لوگوں تک پہنچا تھا جونہی اس نظریئے کو مالک بن انس کے ایک قریبی مرید ابراہیم غزی نے مالک بن انس تک پہنچایا اور ان سے کہا کہ جو کچھ آپ نے حکمت سے سیکھا ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں روایت ہے کہ وہ نیک سیرت انسان ابراہیم غزی سے اس قدر رنجیدہ خاطر ہوا کہ ابراہیم غزی کے مرنے تک اس سے نالاں رہا ۔
ب جب مالک بن انس جیا انسان اپنے علم کی قدرو قیمت پر اس قدر رنجیدہ ہوتا ہے تو دوسرے لوگوں پر کیا شکوہ مشہور فرانسیسی ہم عصر فلسفی ژزان دو لاکروا ‘ جعفر صادق (علیہ السلام ) کے نظریئے کے پہلے حصے پر اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آ کو اپنے نظریئے کے پہلے حصے کو اس طرح بیان کرنا چاہیے تھا کہ آپ کہتے اگر فلسفہ علم کی صورت میں سامنے نہ آئے تو بے سود ہے لیکن جب علم کی صورت میں سامنے آتا ہے تو اس سے مفید نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے فرانسیسی فلسفی اور محقق کہتا ہے کہ نہ صرف فلسفہ علم کی صورت میں سامنے نہ آنے کی بنا پر بے سود ہے بلکہ ہر وہ علم بھیجو صرف تھیوری کی حد تک محدود ہے یعنی اس کا عملی استعمال نہیں ہے تو وہ بے سود ہے ۔
کبھی کسی علم میں مستقل قوانین دریافت ہوتے ہیں تو جب تک ان قوانین کا عملی اجراء نہ ہو گا وہ بے سود ہیں مشہور ماہر فلکیات کپلر جس نے سورج کے گرد سیاروں کی حرکت کے تین قوانین وضع کئے فلکیات اور فزکس کے ماہرین میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو ان قوانین کو شک کی نگاہ سے دیکھتا سائنس دان جانتے تھے کہ یہ قوانین تھیوری نہیں بلکہ علم اور حقیقت ہیں ۔
لیکن نہ ہی کپلر کے قوانین سے کوئی نتیجہ برامد ہوتا ہے اور نہ نیوٹن کے دریافت کردہ قوت تجاذب کے قانون سے ہی کوئی نتیجہ نکلتا ہے ۔
لیکن ۱۹۵۷ ء عیسوی میں جب روس نے اپنا پہلا مصنوعی سیارہ خلاء میں بھیجا تو کپلر کے تین قوانین اور قانون تجازب سے نتیجہ حاصل ہونا شروع ہوا اور تمام سیارچے اور تمام خلای جہاز جو زمین یا دوسرے سیاروں کے گرد گھومتے ہیں ان قوانین کے تابع ہیں اور بنی نوع انسان کو ان قوانین کا عملی نتیجہ یہ ملا ہے کہ آج ایک ٹیلیویژن کے پروگرام کو سیاروں کی مدد سے کرہ ارض کے تمام لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے اور مصنوعی سیاروں کی مدد سے طوفانوں کے بارے میں مکمل پیشن گوئی کی جا سکتی ہے اور اسی طرح غلط جغرافیائی نقشوں کو بھی درست کیا جا سکتا ہے ۔
جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ جعفر صادق (علیہ السلام ) اپنے حلقہ تدریس میں فلسفہ بھی پڑھاتے تھے لہذا یہاں سے اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ جو شخص کہا ہے کہ فلسفہ حقیقی اور عملی مقام رکھنے کے علاوہ مذہبی پیشوا بھی تھے نے کیوں اپنے شاگردوں کو ایک عرصہ فضولیات میں مشغول رکھا جن کا کوئی عملی فائدہ نہ تھا اس موضوع کے سبب کو سمجھنے کیلئے ہمیں جعفر صادق (علیہ السلام ) کے نظریئے کے دوسرے حصے یعنی فلسفے اور علم کے فرق پر نظر ڈالناہو گی ۔
جب ہم جعفر صادق (علیہ السلام ) کے نظریئے کے دوسرے حصے کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہبات مد نظر رکھنا چاہیے کہ آپ فلسفہ و علم کے ضمن میں اس موضوع کو زبان پر لاتے ہیں نہ کہ مذہب کے ضمن میں چونکہ جعفر صادق (علیہ السلام ) ایک مذہبی پیشوا تھے بلا کسی تردید کے حقیقت کو مذہب اور اس کے مبدا جو خا ہے میں سمجھتے تھے ۔
لیکن اپنے نظریئے کے دوسرے حصے کو فلسفہ و علم کے محور پر ذکر کیا ہے اور وہ اس طرح ہے " علم دور کی حقیقت کو مد نظر نہیں رکھ سکتا جب کہ فلسفہ اس حقیقت کو مد نظر رکھتا ہے " اس نظریئے کو سطحی نظر سے نہ دیکھئے اور اس سے تیز سے نہ گزر جائے کیونکہ جب تک انسان اس نظریئے کی گہرائی میں نہ جائے سمجھ نہیں سکتا کہ اس عظیم انسان نے علم اور فلسفہ کا درمیانی فرق کس چیز کو قرار دیا ہے اور اس کے باوجود کہ وہ فلسفے کے عملی فائدے سے انکاری ہے اسے کیوں تدریس کرتا ہے ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا علم حقائق کا کھوج لگا سکتا ہے چاہے وہ حقائق کتنے ہی معمولی کیوں نہ ہوں ایک ایسا شخص جو کہتا ہے کہ علم دور کی حقیقت کا پتہ نہیں چلا سکتا لیکن فلسفہ ایسا کر سکتا ہے اور کیا دو نظریات جو علم اور فلسفہ کے فرق یعنی ایک موضوع سے متعلق میں ‘ کیا ان میں تصاد نہیں پایا جاتا ؟
جعفر صادق (علیہ السلام ) فرماتے ہیں کہ علم حقائق کا کھوج لگا سکتا ہے اور اگر بڑے حقائق کا کھوج نہ بھی لگا سکے تو چھوٹے حقائق کا پتہ چلا سکتا ہے لیکن اس حقیقت کے وجود میں لانے کا مقصد بیان نہیں کر سکتا شاید اس بات کو اس طرح بھی کیا جا سکتا ہے کہ علم آنکھ کی مانند تمام چیزوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے لیکن اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتا اور نہ ہی یہ سمجھ سکتا ہے کہ حقائق کے ادراک سے اس کا کیا مطلب ہے ؟
لیکن فلسفہ جو اس کے باوجود کہ ابھی تک کسی حقیقت تک نہیں پہنچ سکا پھر بھی دور کی حقیقت کو مد نظر رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ یہ سمجھنا چاہتا ہے کہ دنیا اور اس میں بنی نوعی انسان کیوں وجود میں آئے اور خالق کون ہے اور دنیا کو خلق کرنے کا کیا مقصد ہے ؟ اور اس دنیا میں بنی نوع انسان کا انجام اور خود دنیا کا انجام کیا ہو گا ۔
اس کلام کو ساڑھے بارہ سو سال گزر چکے ہیں آج بھی ایک ایسا امتیازی نشان ہے جو علم کو فلسفے سے جدا کرتا ہے آج بھی علم نہیں جانتا کہ کس لئے حقائق کی جستجو میں ہے اور کس منزل مقصود تک پہنچنے کا خواہاں ہے اس بات سے بھی آگاہ نہیں کہ کہاں سے ایا اور کہاں جا رہا ہے اور ایک ایسا ترازو ہے جس میں ہر چیز کو اچھی طرح تولا جا سکتا ہے لیکن اگر اس سے پوچھیں کہ اس دوڑ دھوپ اور جستجو سے تیرا مقصد کیا ہے تو جواب دینے سے عاری ہے جب کہ فلسفہ جواب دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اور کس منزل کی جانب رواں دواں ہے اگرچہ فلسفہ کے آغاز سے لے کر آج تک فلسفہ کسی ایک حقیقت کا سراغ بھی نہیں لگا سکا ۔
جو تعریف جعفر صادق (علیہ السلام ) علم فلسفہ کی بیان فرماتے ہیں اس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ انسان علم کی نسبت فلسفہ کی قدرو قیمت اک زیادہ قائل رہا ہے کیونکہ آ کے بقول ( علم دور کی حقیقت کو مد نظر نہیں رکھ سکتا جبکہ فلسفہ اس حقیقت کو مد نظر رکھتا ہے )
یہ حقیقت خداوند تعالی کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے کیونکہ جب تمام فلسفیانہ مراحل طے ہو گئے تو فلسفہ اس مرحلے میں داخل ہوتا ہے جہاں اسکے جاننے کی ضرورت ہے کہ خداوندتعالی کون ہے اور ان کا تخلیق کرنے کا مقصد کیا ہے اور اس خلقت کا آخری نتیجہ کیا ہو گا ؟
پس جیسا کہ ہم آچ فلسفہ کو سمجھتے ہیں وہ یہ ہیکہ فلسفہ جعفر صادق (علیہ السلام ) کی نظر میں ‘ خداوند تعالی کی طرف راہنمائی کرتا ہے جبکہ علم اسطرح کی رہنمائی نہیں کرتا ۔ بس اگر ہم علم کے عمومی معنی ہی مراد لیں یعنی دانائی ‘ تو اس صورت میں علم فلسفہ میں بھی شامل ہو جاتا ہے ۔
یہاں اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ جعفر صادق (علیہ السلام ) جو توحید پرست اور ایک مذہبی پیشوا تھے ( خداوند تعالی کی معرفت کو مذہب کے ذریعے جائز سمجھتے تھے نہ کہ فلسفہ کے ذریعے ہمیں معلوم ہے کہ پہلی صدی ہجری میں مذہب اسلام میں فلسفے کا وجود نہ تھا ‘ بعد میں آنے والے زمانوں میں بھی فلسفہ ہر گز دین اسلام کے اصول و فروع کا جزو نہیں بنا لیکن علما نے کوشش کی کہ دین اسلام کے فلسفہ اصول و فروغ کو فلسفے کے ساتھ مطابقت دیں اور اس سے دیں کے اصول و فروع کی تعریف کے لئے مدد لیں ۔
یہ اقدام دوسری صدی ہجری کے اوائل سے شروع ہوا اور جن لوگوں کو فلسفے میں دسترس حاصل تھی انہوں نے دین کے اصول و فروع کیتعریف کیلئے فلسفہ سے مدد حاصل کرنے کی جانب توجہ دی اور اس موضوع نے اس بات کی نشاندہی کی کہ مسلمان پہلی صدی ہجری سے زیادہ روشن فکر ہو گئے تھے کیونکہ پہلی صدی ہجری میں کسی نے فلسفے کو دین اسلام کیاصول و فروع پر تطبیق کرنے کی جانب توجہ نہیں دی تھی ‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب مسلمانوں کی دوسری اقوام سے آمیزش نے مسلمانوں کو احکام دین کی فلسفے کے نقطہ نگاہ سے تعریف کرنے کی فکر دلائی ہو ۔
وہ اسلامی دانشور جنہوں نے دوسری صدی ہجری کے آغاز سے فلسفہ کی دین کے ساتھ مطابقت پیدا کرنیکی جانب توجہ دلائی تاکہ وہ فلسفہ سے اسلام کے اصول و فروع کی تعریف و توجہ کیلئے مدد حاصل کریں انہیں متکلمین کے نام سے پکارا گیا اور ان کے علم کو علم الکلام کہا گیا اور علم کلام کے اسلام میں معنی فلسفے کی دین کے ساتھ تطبیق ہے ۔
عیسائیوں نے فلسفے کیدین پر تطبیق مسلمانوں سے سیکھی اور صلیبی جنگیں جو تقریبا دو سو سال جاری رہیں اور مسلمان دانشوروں کی کتابوں کے لاطینی زبان میں تراجم نے یورپی لوگوں کو فلسفے کو عیسائیت کے ساتھ تطبیق کی جانب توجہ دلائی اگر صلیبی جنگیں نہ چھڑتیں تو شائید یورپی سترہویں صدی عیسوی تک مسلمانوں کے علوم سے بے خبر رہتے جسطرح مشرقی سبزیوں اور پھلوں کے وہ اقسام جو اس سے پہلے یورپ میں کاشت نہیں ہوتے تھے ‘ اس براعظم میں کاشت نہ ہوئے ۔
بعض یورپی دانشوروں نے مسلمان دانشوروں کی کتابوں کے تراجم پڑھنے کے بعد بہت کوشش کی ہے کہ فلسفے کو مسیح کی تعلیمات پر تطبیق کریں اور آج ہم بلا شک و شبہ کہ سکتے ہیں کہ عقیدے کے لحاظ سے جسم اور روح کی دوئی مسلمان متکلمین سے لی گئی ہے ۔
جن لوگوں نے فلسفہ کو مذہب پر تطبیق کرنا مسلمانوں سے سیکھا ہے ان میں ایک فرانسیسی مالبرانش بھی ہے جو ۱۶۳۸ عیسوی میں پیدا ہوا ور ۱۷۱۵ ء میں فوت ہوا یہ شخص جس نے مسلمانوں سے رہنمائی لی کارتزیاں کے فلسفے یعنی ڈکارت کے فلسفے کا حامی تھا ۔
ڈکارت کا فلسفہ یورپ میں اتنی تیزی سے پھیلا کہ ۱۶۵۰ عیسوی جو ڈکارت کا وفات سال ہے تک ڈکارت کا فلسفہ تمام یورپی ممالک میں ایک قابل احترام مکتب کی حقیقت اختیار کر گیا تھا ۔
ڈکارت کے فلسفی مکتب کی بنیاد اس پر تھی کہ تمام چیزوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے ۔ ڈکارت کہتا تھا ( کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں شک نہیں کیا جا سکتا ‘ اگر کوئی ہے تو ہو خود شک ہے ) ظاہر ہے جو شخص تمام چیزوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہو عیسی کے آئین اور خداوند کے وجد کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتا ہو گا ۔ ہم یہ وضاحت اس لئے کر رہے ہیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ مسلمانوں متکلمین کے نظریات کس قدر موثر تھے کہ مالبرانش جیسا شخص جو ڈکارت کے فلسفی مکتب کا مرید تھا اس سے متاثر تھا ۔
کارتزیان کے فلسفی مکتب کو وجودمیں لانے کے لحاظ سے ڈکارت اتنا مشہور ہے کہ لوگوں کو گمان بھی نہیں کہ وہ ایک فلسفی نہیں تھا بلکہ ریاضی دان اور فوج کا افسر تھا ڈکارت نے ریاضی اور روشنی پر تحقیق کے ابرے میں چند قوانین وضع کئے جن کا نام اسکے نام پرکارتزیان کے قوانین ہے لیکن ماہرین کے علاوہ کسی اور کو ان قوانین کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں اور فلسفے میں ڈکارت کی شہرت اتنی زیادہ ہے کہ علوم ریاضی اور روشنی کا مطالعہ اسکے سامنے ماند پڑ چکا ہے ‘ ڈکارت کی موت کے وقت ‘ اسکے فلسفی مکتب کامرید ‘ مالبرانش بارہ سال کا تھا وہ جو نہی بلوغت کو پہنچا ڈکارت کے فلسفی نظرہ نے اس پر گہرا اثر ڈالا اور اسکی کتابوں میں سیایک جس کا نام "حقیقت کی جستجو ہے " ڈکارت کے فلسفے کی تحقیق کی روشنی سے متعلق لکھی گئی ہے چونکہ مالبرانش ڈکارت کے فلسفی مکتب کا پیروکار تھا ۔ فلسفے کو دین عیسی سے تطبیق کرنا چاہیے تھا لیکن اس کی روش سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ مسلمان متکلمین کے نظریات سے متاثر ہے ۔
مسلمان متکلمین نے فلسفے کیدین اسلام کے اصول اور فروع پر تطبیق کی انہوں نے اسلامی احکام کے مطابق جسم کا پیوند ٹوٹ جاتا ہیجسم ختم ہو جاتا ہے لیکن روح باقی رہتی ہے اور وہ روح ان تمام خصوصیات کی حامل ہوتی ہے جو روح اور جسم دونوں کی وابستگی کے دوراں پائی جاتیہیں اسی بنا پر روح باقی اور جاوید ہے اور ہر حیثیت سے ایک انسان اور انسانی شعور کی حامل ہے اور اکیلی روح کے ادارک اور اس کے اس وقت کے ادراک جب وہ جسم سے وابستہ تھی ‘ میں کوئی فرق نہیں ہے مگر صرف اتنا ہے کہ بعد میں وہ خوراک اور پوشاک کی محتاج نہیں رہتی یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ مسلمان متکلمین کے درمیان بھی عقیدے کا فرق پایا جاتا ہے اگر یہ فرق نہ ہوتا تو غیر معمولی بات تھی ۔ کیونکہ جب کچھ فلسفی سینکڑوں سال کی طویل مدت کے دوران فلسفے کو دین کیاصول اور فروع پر تطبیق کرتے ہیں تو ان کے درمیان فرق پیدا ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ اپنی سوچ کے مطابق فلسفے کو اسلام کے اصول اور فروع پر تطبیق کرتا ہے لہذا بعض متکلمین کے بقول روح اگرچہ باقی اور جاوید ہے لیکن جس دوران یہ جسم سے وابستہ ہوتی ہے اس دوران اس میں ادارک کی صلاحیت نہیں ہوتی۔
(علیہ السلام ) جن کا کہنا ہے کہ انسان کی موت کے بعد روح انسان کی زندگی کے دور کے اداراکات یا محسوسات کی حامل ہے ان کے بقول اگر روح اس دنیا کے ادراکات کی حامل نہیں ہو گی تو روز جزا کے دن کیسے حساب کیلئے تیار ہو گی لحذا یہ لازمی بات ہے کہ روح موت کے بعد اس دنیا کے اداراکات کی حامل ہو گی تمام مسلمان متکلمین جنہوں نے فلسفے کو دین اسلام پر تطبیق کرنے کیکوشش کی ہے انہوں نے یہ کوشش بھی کی ہے کہ ان کی تطبیق ایسی ہو جس سے دین اسلام کے اصول کا انکار نہ ہواور چونکہ اسلام کے اصول میں سے ایک قیامت بھی ہے لہذا تمام مسلمان متکلمین نے موت کے بعد روح کی بقا کو تسلیم کیاہے کیونکہ فلسفیانہ نقطہ نگاہ سے معاد یا آخرت کو تسلیم کرنیکا ایک ہی راستہ ہے اور وہ روح کی بقا ء ہے ۔
ہم یہاں اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ فلسفیانہ نقطہ نگاہ سے آخرت کو اس وقت تک تسلیم نہیں کیاجا سکتا جب تک روح کی بقاء کو تسلیم نہ کیا جائے ۔ لیکن مذہب اسلام کی رو سے ممکن ہے روح کیبقاء کے بغیر بھی قیامت کا وجود تسلیم کیاجائے ایک مسلمان جو فلسفے سے بے خبر ہے اس کا ایمان ہے کہ اگرچہ انسان مرنے کے بعد فانی ہو جاتا ہے اور اس کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی لیکن خداوند تعالی روز جزا کو موجودہ شکل و صورت میں زندہ ہونے کو تسلیم نہیں کرتا وہ کہتا ہے کہ موت کیبعد انسانی جسم کا ڈھانچہ خراب ہو جاتا ہے اور ہڈیاں ختم ہو جاتی ہیں اور مضبوط سے مضبوط ہڈیاں بھی ایک دن خاک میں مل جاتی ہیں ہوائیں اور سیلاب انسانی جسم کے ذرات کو دنیا کے اطراف میں بکھیر دیتے ہیں فلسفہ اس بات کو قبول نہیں کرتا کہ وہ بکھرے ہوئے ذرات جن کی ماہیت مکمل طور پر تبدیل ہو چکیہو ایک لمحہ میں ایک جگہ اکٹھے ہو کر اسی شکل و صورت کے انسان کا روپ دھار لیں جو اس دنیا میں موجود ہے لیکن فلسفہ روح کی بقا کو تسلیم کر سکتا ہے ۔
اہل کلام مسلمان جو فلسفہ کو دین اسلام پر تطبیق کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جو چیز انسان سے باقی رہتی ہے وہ روح ہے اور معاد روح کی بقا کے ہمراہ ہی ممکن ہے ۔ یعنی چونکہ روح باقی ہے لہذا معاد وقوع پذیر ہو سکتی ہے ۔
اہل کلام حضرات نے فلسفہ کو دین اسلام پر تطبیق کرتے ہوئے اصول دین سے منحرف ہونے سے بچنے کیلئے روح کی بقا کو تسلیم کیاہے تاکہ فلسفیانہ نقطہ نظر ( نہ کہ مذہبی ) سے اخرت یا معاد کا امکان موجود ہو جو اہل کلام فلسفے کو دین اسلام پر اس طرح تطبیق نہیں کر سکے کہ اصول دین باقی رہے تو ان پر مرتد ہونے کا فتوی لگا دیا گیا اور مسلمانوں نے انہیں مرتد کافر سمجھا ۔ یہی وہ ہے کہ جو کوئی متکلم فلسفے کو طلب ہونے کے ساتھ ساتھ قدرے خطرناک بھی ہے مختصر یہ کہ مسلمان اہل کلام حضرات کا عقیدہ تھا آدمی جسم اور روح سے تشکیل پاتا ہے ۔
جو پیوند جسم اور روح کو آپس میں جوڑتا اور پھر دونوں کو کام پر شرکت کیلئے آمادہ کرتا ہے وہ زندگی ہے جب تک وہ پیوند باقیہے آدمی زندہ ہے اور جو نہی مذکورہ پیوند ٹوٹتا ہے انسان مر جاتا ہے موت کے بعد جسم اور روح جدا ہو جاتے ہیں اور ہر ایک آزاد زندگی اختیار کر لیتا ہے لیکن جسم جلد بوسیدہ ہو کر ختم ہو جاتا ہے جبکہ روح باقی رہتی ہے ۔
مسلمان روح کی بقا کا عقیدہ رکھنے کیلئے اپنے آ کو متکلم علما کی مانند فلسفیانہ دلائل سے تھکاتے نہیں اور کہتے ہیں کہ خداوند تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے روح مجھ سے مربطو امور میں سے ہے اور چونکہ یہ خدا سے مربوط ہے لہذا یہ باقی اور جاوید ہے اب فلسفے کی عیسی کی تعلیمات پر تطبیق کے بارے میں مالبرانش کے کام پر ایک نظر ڈالتیہیں مالبرانش جو ڈکارت کا مرید تھا ‘ اصولا اسے ہر چیز میں شک کرنا چاہیے تھا لیکن وہ مسلمان متکلم علما کے نظریئے کے مطابق انسانی وجود کو روح اور جسم سے متشکل جانتا ہے ور اس بات کا معتقد ہے کہ جو پیوند جسم اور روح دونوں کے مشترکہ طورپر کام کرنے کا سبب ہے وہ زندگی ہے اور جب جسم اور روح کا پیوند ٹوٹ گیا تو ان دو میں سے ہر ایک آزاد زندگی پا لیتے ہیں حتی کہ جسم مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے ۔
اس ترتیب سے مالبرانسش کی طرف سے عیسوی دین پر فلسفے کی تطبیق کا نتیجہ ‘ مسلمان متکلمین کے فلسفے کی اسلام پر تطبیق کے نتیجے کے مطابق ہے ۔

شک اور یقین بنظر صادق (علیہ السلام )
جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ اس کے باوجود کہ جعفر صادق (علیہ السلام ) فلسفے کو علم سے برتر مانتے ہیں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ علم بعض جگہوں پر یقین تک پہنچاتا ہے لیکن فلسفہ ابھی تک شک سے باہر نہیں نکلا ہے ۔ آپ یہ نہیں فرماتے کہ علم ہمیشہ یقین تک پہنچاتا ہے بلکہ آپ فرماتے ہیں کہ علم بعض مقامات پر یقین تک پہنچاتا ہے لیکن فلسفہ اپنے وجود میں آنے کے دن سے لیکر اب تک شک سے باہر نہیں نکل سکا فلسفے کے بارے میں جعفر صادق (علیہ السلام ) کا فرمان درست ہے بشرطیکہ جو علم فلسفے سے وجود میں آئے اور جن علوم نے انسان کو بعض ایقا ن تک پہنچایا ہے انہیں غلطی سے فلسفہ نہ سمجھا جائے ۔
جس دن سییونان میں فلسفہ وجود میں آیا اس دن سے لے کر آج تک یہ بحث پائی جاتی ہے کہ یقین کیا ہے اور شک کیا ہے ؟ اور کیا بنی نوع انسان ایسے مقام تک پہنچ سکتا ہے کہ شک نہ کرے اور کیا شک اور یقین کے درمیان پایا جانے والیفرق ظاہری فرق نہیں ہے ؟
جعفر صادق (علیہ السلام ) فرماتے ہیں کہ شک جہل سے عبارت ہے اور یہ بات درست ہے ہم ریاض کے کسی قاعدے کے نتیجے کے بارے میں شک نہیں کرتے کیونکہ اس کے بارے میں ہمیں علم الیقین ہوتا ہے البتہ نفسیات کے قاعدے کے نتیجہ کے بارے میں شک کرتے ہیں کیونکہ اس کے متعلق ہمیں علم الیقین نہیں ہوتا ۔
نفسیات کے قاعدے کا نتیجہ ریاضی کے قاعدے کے نتیجے کی مانند نہیں ہے کہ ہم اس کے بارے میں علم الیقین رکھیں ( مثلا دو کو دو سے ضروب دی جائے تو چار ہوتے ہیں )
نفسیات کے قوانین کا مسئلہ اس قدر استثنائیہے کہ یہ کہا جا سکت اہے علم نفسیات حقیقی معنوں میں قوانین نہیں رکھتا ‘ عادات و اطوار طرز فکر اور سلیقے کے لحاظ سیہر انسان انفرادی حیثیت کا حامل ہے اور دو افراد ایسے نہیں مل سکتے جن کی عادات و اطوار طرز فکر اور سلیقہ ایک دوسرے سے ملتا جلتا ہو ‘ لہذا نفسیات کے متعلق ایسے قواعد وضع نہیں ہو سکتے جن کا اطلاق تمام افراد پر ہو سکے ۔
لوگوں میں نسلی اور قومی فرق کے علاوہ ایک معاشرے میں لوگوں کے درمیان عادات و اطوار اورطرز فکر میں بھی بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے اور اگر لوگوں کے ایک گروہ کے درمیان فکر مشابہت مشاہدہ کیجاتی ہے تو وہ اس لئے کہ وہ اشخاصاپنی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنا چاہتے ہیں وہ اس طرح کہ وہ ان افراط کی طرز زندگی اختیار کرکے ان کے ساتھ اپنے نظریہ اور سلیقے کی مطابقت پیدا کر لیتے ہیں جن کی پیروی سے ان کی زندگی کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں ۔
ایک خاندان کے قریب ترین ا فراد مثلا باپ ‘ بیٹا ‘ ماں اور بیٹی میں شکل و صورت ‘ طرز فکر اور سلیقے کی شباحت نہیں پائی جاتی۔
بیوی اور خاوند کے درمیان بھی عادات و اطوار اور طرز فکر اور سلیقے کی مشابہت نہیں پائی جاتی حتی کہ عاشق اور معشوق میں بھی عادات و اطوار اور سوچ کے انداز کے لحاظ سے مشابہت نہیں پائی جاتی اور اسی وجہ سے عاشقوں کی آپ بیتی کا آغاز شیریں ہوتا ہے نہ کہ انجام ‘ اگر داستان گو ‘ عاشقوں پر بیتی ہوئی داستان انجام کا ذکر نہ کریں اور صر ف یہی کہیں کہ ا ن کی زندگی میں خوشی ہی خوشی تھی اور ان کے ہاں بہت سے بیٹے پیدا ہوے اور پھر اگر داستان گو ان کے انجام کا بھی تذکرہ کرے تو سامع سمجھتا ہے کہ شروع میں وہ کچھ اور نظر آتے تھے اور آخر میں کچھ اور بن گئے یعنی عاشقوں کے آغاز اور انجام میں زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔
بیسویں صدی کے اوائل میں ایک فرانسیسی فلسفی برکسون جو بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے کے بقول وحشی اور اور نیم وحشی اقوام پر نفسیات کے قواعد صادق آتے ہیں ۔
برکسون کے بقول ‘ وحشی اقوام میں لوگ ہر چیز کے بارے میں ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں یعنی ان کی سوچ میں مشابہت پائی جاتی ہے اور چونکہ ان کی معلومات اور مفادات کی حدود محدود ہوتی ہے لہذا ان کی سوچ مختلف نہیں ہو سکتی لیکن جونہی وہ ترقی کرتے ہیں اور نیم وحشی ہو جاتے ہیں تو ان کی معلومات میں اضافہ ہو جاتا ہے اور انکے مفادات کی حدود میں بھی وسعت آ جاتی ہے ۔
ایک نفسیات دان جب کسی قبیلے کیلئے نفسیات کے قواعد وضع کرتا ہے تو اسے یقین ہو سکتا ہے کہ یہ قواعد قبیلے کے تمام افراد کیلئے ہیں ۔ لیکن ممکن ہے وہ ایک نیم وحشی قبیلے کے تمام افراد کیلئے مشترکہ قواعد وضع نہ کر سکے بہر کیف ہم نفسیات کے سارے قواعد کا انکار نہیں کرتے بشرطیکہ نفسیات دان یہ دعوی نہ کرے کہ جو قواعد وہ وضع کر رہا ہے وہ تمام افراد کیلئے ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نفسیات کے قواعد لوگوں کے ایک گروہ پر تو صادق آ سکتے ہیں لیکن نفسیات کا کوئی قاعدہ ایسا نہیں جو تمام انسانوں پر صادق آ سکے ۔
مثال کے طور پر نفسیات کے قواعد میں سے ایک قاعدہ لوگوں میں ترجیح کے نتائج ہیں اس طرح کہ اگر ایک کارخانے میں مزدوروں کا ایک گروہ کام میں مشغول ہے اور ان کا کام کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے مساوی ہے لیکن ان میں سے کچھ مزدور دوسروں کی نسبت دو گنا مزدوری پاتے ہیں تو اس ترجیح کی وجہ سے اکثر مزدوروں میں سیکام سے لگن کم ہو جائے گی کیونکہ وہ دیکھیں گے کہ جو مزدوری ان چند مزدوروں کو ملتی ہے اس پر ان کا حق نہیں بنتا ہم تصور کرتے ہیں کہ ترجیح کے اثرات تمام معاشروں میں ایک جیسے ہیں اور یہ نفسیات کا وہ قاعدہ ہے جو ہر جگہ صادق آتا ہے جبکہ ایسے معاشرے ہو گزرے ہیں اور شاید آج بھی موجود ہوں جن پر ترجیح اثر انداز نہ ہوتی ہو ۔
انگریز مصنف ولز جو ۱۹۲۶ عیسوی میں ۷۹ سال کی عمر میں فوت ہوا اور لوگ اسے جہانوں کی جنگ اور زمانے کی مشین کے مصنف کے نام سے پہچانتے ہیں اور اب جبکہ ولز نے تقریبا ایک سو ساٹھ کتابیں مختلف موضوعات کے بارے میں لکھی ہیں اپنی کتاب سیاحت نامے میں لکھتا ہے ہندوستان کے شہر امرتسر میں انگریزوں کی طرف سے ایک کارخانہ چلایا گیا تھا (اس زمانے میں ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی )جس کے کچھ مزدوروں کو دوسرے مزدوروں سے زیادہ اجرت ملتی تھی جبکہ نہ تو ان کے کام کے گھنٹے ان سے زیادہ تھے اور نہ وہ دوسروں سے زیادہ ماہر تھے ‘ ان کا کام کیفیت اور کمیت کے لحاظ سے ا یک جیسا تھا۔
لیکن وہ لوگ جو اضافی تنخواہ سے محروم تھے ۔ وہ اس پر مکمل طور پر راضی تھے اور ان میں زیادہ اجرت پانے والے سے کوئی حسد نہیں پائی جاتی تھی اور وہ کہتے تھے ہر کوئی اپنی قسمت لیتا ہے اور اگر اس کی قسمت میں دوسرے کم حصہ لکھا ہو تو اسے دوسروں سے حسد نہیں کرنا چاہیے ۔
ممکن ہے اس طرح کی سوچ کو کوتاہ اندیشی کا نام دیا جائے لیکن اگر لوگوں کے درمیان عادات و اطوار اور سوچ کا فرق نہ ہو تو ہم کبھی نہیں کہہ سکتے کہ نفسیات کے قواعد تمام لوگوں پر لاگو نہیں ہو سکتے اور یہ عادات و اطوار اور سوچ کا فرق ہے جس کی وجہ سے ہم کہتے ہیں کبھی ہزار افراد کے درمیان بھی نفسیات کا ایک قاعدہ لاگو نہیں ہو سکتا ۔
مثال کے طور پر علم الجمال لاطنی میں جسے اسٹہ ٹیک کہا جاتا ہے ۔
اس علم میں خوبصورتی کی پہچان کیلئے کچھ قواعد وضع کئے گئے ہیں لیکن تمام یورپی اقوام ان قواعد سے متفق نہیں ہیں چہ جائیکہ دوسری قومیں ان سے متفق ہوں ۔ یورپی لوگوں میں کچھ علم الجمال کے ماہر ایسے ہیں جو جنوبی سوڈان میں بسنے والے بلند قامت لوگوں کو دنیا کے خوبصورت ترین لوگ قرار دیتے ہیں۔
ایک امریکی سیاح انتھونی ہل نیوگنی کے قبائل کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ وہاں پر کومپیانامی ایک قبیلہ ہے جس کے مرد ایک طرح کا رقص کرتے ہوئے ایک اژدھا سے کھیلتے ہیں اور وہ اژدھا رقاص کے سر کو اپنی منہ میں ڈال کر نگلنا چاہتا ہے اور رقاص نے اپنے آپ کو اس کا لقمہ بننے سے بچانا ہوتا ہے اور یہ اژدھا جس کا نام بو آ ہے دنیا کا سب سے لمبا سخت ترین سانپ ہے اگرچہ زہریلا نہیں ہوتا لیکن اگر کمر کے گرد لپٹ جائے تو کمر کے اوپر کی ہڈیوں کو پیس کر رکھ دے رقاص کو جسمانی طور پر طاقتور ہونے کے علاوہ ایک عرصے تک اس قسم کے سانپوں کے ساتھ مشق کرنا ہوتی ہے تاکہ رقص کے دوران اپنے آپ کو اس سانپ سے جس کی بڑی اقسام کا آغاز بو آسانپوں کی چھوٹی اقسام سے کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ اپنی مشق کیلئے بڑے سانپوں کا انتخاب ہیں تاکہ قبیلے کے جشن میں برے سانپ کے ساتھ رقص کر سکیں ۔
اس قبیلے کے مرد اور عورتیں اپنے آپ کو دنیا کے خوبصورت ترین افراد خیال کرتیہیں اور یورپی خوبصورت سفید فام لوگوں کو اچھا خیال نہیں کرتے ۔ امریکی سیاح انتھونی ہل کے بقول کومپیا کا یہ عقیدہ کہ وہ دنیا کے خوبصورت ترین لوگ ہیں اس قدر دو ٹوک اور پختہ ہے کہ گمان بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اس زمانے میں کوئی قائل کر سکے کہ دنیا میں ایسی اقوام ہیں جو خوبصورتی میں ان کی برابری کر سکتی ہیں چہ جائیکہ انہیں یہ کہا جائے کہ ان سے زیادہ خوبصورت اقوام موجود ہیں ۔
اگر ایک فرانسیسی سے پوچھا جائے کہ دنیا میں خوبصورت ترین چیز کیا ہے تو وہ بے دھڑک جواب دے گا ایفل ٹاور اور یہی سوال اگر ایک اٹالین سے کریں تو وہ کہے گا کہ اٹلی میں ناپل کی بندرگاہ کا علاقہ جب انسان اور دوسروں جانداروں اور چیزوں کی خوبصورتی کے بارے میں انسان کا نظریہ اتنا مختلف ہو تو علم الجمال کے عام قواعد جو ہر حیثیت سے مکمل ہوں کیسے وضع ہو سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ریاضی کے قواعد اور ہر وہ قاعدہ جو اس زمرے میں آتا ہے پہلے زمانے میں اس پر یقین نہیں کیا جاتا تھا کہ وہ علم الیقین تک پہنچ سکتا ہے جعفر صادق (علیہ السلام ) کی نظر میں جس چیز کے علم الیقین ہونے میں کوئی شک نہیں وہ دین اسلام کے اصول ہیں جو سارے کے سارے خداوند کی طرف سے ہیں ۔
آپ کا عقیدہ ہے کہ خدا ایک اور دنیا کا خالق اور محافظ ہے اور دنیا کو اپنے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق چلا رہا ہے جعفر صادق (علیہ السلام ) فرماتے ہیں جو لوگ خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں نادان ہیں اور ایسے نادان ہیں کہ گویا جاہل مطلق ہیں ۔
جعفر صادق (علیہ السلام ) فرماتے ہیں وہ گونگے اور بہرے ہیں کہ نہ تو کوئی چیز دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی سن سکتے ہیں اور چونکہ دیکھنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم ہیں لہذا نہ خود اپنی عقل کو خالق کے وجود کی معرفت حاصل کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں اور نہ دوسروں کی راہنمائی سے خداوند تعالی کی معروف سے بہر ہ مند ہو سکتے ہیں ان کی زندگی کھانے اور سونے اور دوسری حیوانی خواہشات تک محدود ہوتی ہے ان کی زندگی کا اپنی حیوانی خواہشات کو تسکین پہنچانے کے علاوہ کوئی مقصد نہیں ہوتا اور اسی طرح ان کے دن اور رات گزرتے رہتے ہیں ان کی زندگی میں ہر گز یہ سوچ پیدا نہیں ہوتی کہ وہ کسی چیز کو سمجھیں اور یہی لوگ جس کے ابرے میں خداوند تعالی نے فرمایا ہے کہ وہ حیوان یا ان سے بھی بد تر ہیں وہ خدا کی چاندار اور اپنے سمیت بے جان مخلوق کا مشاہدہ نہیں کرتے تاکہ انہیں پتہ چلے کہ خداوند تعالی نے پھر مخلوق کو ایسی خصوصیات سے نوازا ہے جو صرف اس سے مربوطہے اور یہ خصوصیات اس لئے پیدا کی گئی ہیں کہ وہ مخلوق باقی رہے اور اگر درخت جاندار رہے تو وہ افزائشی نسل کے ذریعے اپنی نسل کو ختم ہونے سے بچاتا ہے خداوند تعالی نے اپنے علم اور طاقت کے ذریعے ایسے جانور پیدا کئے ہیں جو گرمیوں کی گرم ترین حرارت کو گرم علاقوں اور صحراؤں میں برداشت کر لیتے ہیں اور انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور سرد علاقوں میں رہنے والے ایسے جانور بھی پیدا کئے ہیں جو خداوند تعالی کے علم اور قدرت سے سردیوں کے تمام عرصے کے دوران سو رہتے ہیں اور بھوکے پیاسے بھی نہیں ہوتے اور اس طویل خوابیدگی کے عرصے میں وہ کمزور بھی نہیں ہوتے موسم میں دھڑکتا ہے لیکن یہی جانور جب سردیوں میں چھ سات مہینوں کے لئے سو جاتے ہیں تو ان کا دل ساٹھ ستر مرتبہ فی گھنٹہ سے زیادہ نہیں ڈھڑکتا ۔
یہی جانور موسم گرما میں جب جاگ رہے ہوتے ہیں تو دو ہزار چار سو یا دو ہزار پانچ سو مرتبہ فی گھنٹہ کے حساب سے سانس لیتے ہیں لیکن جب سردیوں کے موسم میں سوتے ہیں تو ان کا سینہ پچیس مرتبہ فی گھنٹہ سے زیادہ نہیں چلتا اگر کوئی ان جانوروں کی خوابیدگی کے موقع پران کے قریب جائے اور انکے جسم پر ہاتھ رکھے تو شدید سردی کا احساس کرتا ہے ان کی سردی برف کی مانند معلوم ہوتی ہے بہر کیف وہ جانور زندہ ہوتے ہیں اور کئی کئی مہینے زندہ رہتے ہیں یہاں تک کہ سردیاں ختم ہو کر بہار شروع ہو جاتی ہے لیکن اگر انسانی جسم کا درجہ حرارت عام درجہ حرارت کا آدھا ہو جائے تو آدمی مر جائے گا ۔
یہ خداوند تعالی ہی ہے جس نے سرد علاقوں میں پائے جانے والے جانوروں کو چھ یا سات ماہ سونے کی صلاحیت بخشی ہے اور ان کے جسم کی سردی برف کی مانند ہو جاتی ہے اور پھر بھی وہ زندہ رہتے ہیں لیکن ایک بے وقوف جاہل مطلق اور بابینا و بہرہ ہے کہ خداوند تعالی کی اس قدرت کا مشاہدہ نہیں کرتا اور چونکہ وہ سننے کی طاقت نہیں رکھتا لہذا وہ دوسروں سے خدا کی ان نشانیوں اور قدرت کیبارے میں نہیں سن سکتا ۔
سرد علاقوں کے ان جانوروں کے مقابلے میں خداوند تعالی نے اونٹ جیسا گرم علاقوں کا جانور پیدا کیا ہے جو بیابانوں میں زندگی گزارتاہے اور اس کی غذا سخت اور خشک کانٹے ہوتے ہیں گھاس کھانے والا جانور ا گر خشک گھاس کھائے اور اسے پینے کیلئے پانی بھی نہ ہو تو وہ ہلاک ہو جائے گا ۔ اونٹ ایک یسا جانور ہے جو بیابان سے خشک کانٹیکھاتا ہے لیکن اسے پیاس نہیں لگتی یہاں تک کہ وہ اپنے سوار کو وہاں تک پہنچا دیتا ہے جہاں پانی ہوتاہے ۔
ایک بے شعور شخص نہیں جانتا کہ خداوند تعالی نیاپنے علم اور قدرت سے اونٹ کو ایسی صلاحیت بخشی ہے کہ وہ گرم بیابانوں میں بھی تھکاوٹ اور پیاس کا احساس نہیں کرتا اگر اونٹ پر سوار شخص بیابان میں راستہ گم کر دے اور وہ بھی کڑکڑی دھوپ اور پیاس کا عالم ہو تو اس صورت میں اگر اونٹ پر سوار شخص مہار ڈھیلی چھوڑ دے اور اونٹ کو دائیں یا بائیں نہ موڑے تو اونٹ اسے پانی تک پہنچا دے گا کیونکہ اونٹ پانی کی نمی کو دور دراز سے محسوس کر لیتا ہے اور سمجھ جاتا ہے کہ پانی کا چشمہ کہاں ہے ؟
اونٹ میں پانی کی نمی کو محسوس کرنے کی صلاحیت اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ وہ بڑے بڑے کنوؤں سے خارج ہونے والی نمی کو دور دراز سے محسوس کر لیتا ہیاور اگر اس کے تھکے ماندے سوار میں صبر ہو تواسے کنوئیں تکپہنچا دیتا ہے لیکن انسان دور سیپانی کی موجودگی کا اس وقت تک پتہنہیں چلا سکتا جب تک وہ پانی کے چشمے کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لے ۔
یہ توانائی جو انسان میں نہیں لیکن اونٹ میں پائی جاتی ہے خدانے اپنے علم اور قدرت سے اس جانو ر کو ودیعت کی ہے تاکہ جب وہ گرم بیابانوں میں پیاساہو تو اپنے اپ کو پانی تک پہنچا کر سیراب ہو سکے اگر اونٹ کو صحرا میں چرنے کیلئے کھلا چھوڑ دیا جائے تووہ ہرگز پیاسا نہیں ہوتا جو چیز اس کو پیاسا کرتی ہے وہ انسان کا اس پر سامان لادنا یا سوار ہونا اور اسے بیابانوں میں سفر کرانا ہیورنہ آزاد حالتمیں وہ جانتا ہے کہ کون سی جگہ پانی کے نزدیک ہے جہاں اسے چرنا چاہیے اگر وہ اپنے سوار کا فرمان بردار ہو اور اسے سمجھ میں آيے کہ اس نے اپنے سوار کے ساتھ بے آب و گیاہ بیابان میں ایک لمبا سفر کرنا ہے جسمیں ممکن ہے کئی دن و رات تک بغیر پانی پئے سفر کرنا پڑے تو وہ احتیاطا اس قدر پانی پی لیتا ہے جو اس کے کئی دن و رات کیلئے کافی ہو ۔
خداوند عالم نے اونٹ کو یہ استعداد اپنے علم اور قدرت سے عطا کی ہے تاکہ وہ گرم اور خشک صحراؤں میں زندہ رہ سکے اور اس کی نسل پانی کی قلت اور پیاس کی وجہ سے ختم نہ ہو لیکن ایک نادان یہ بات نہیں سمجھ سکتا وہ خیال کرتا ہے کہ اونٹ خود بخود پیدا ہو کر ان صلاحیتوں کا حامل ہو گیا ہے جعفر صادق (علیہ السلام ) کے نظریہ کے مطابق جب تک کوئی جہل مرکب میں گرفتار نہیں ہو گا وہ خداوند تعالی کا انکار نہیں کرے گا اور جو کوئی عقل رکھتا ہے اور دانا ہو جو اگرچہ اس کی دانائی ایک حد تک ہی محدود کیوں نہ ہو وہ سمجھتا جاتا ہے کہ خداوند تعالی کے وجد میں شک جائز نہیں ہے ۔
جعفر صادق (علیہ السلام ) نے ساڑھے بارہ سو سال پہلے دنیا کے نظام کے بارے میں وہ بات کہی ہے جو موجودہ زمانے کے طبعیات دانوں کے نظریئے سے ذرا بھی مختلف نہیں ہے ۔
جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا جب آپ دنیا کے حالات میں بد نظمی پائیں اور مشاہدہ کریں کہ اچانک طوفان آ گیا ہے اور سیلاب آ گیا ہے یا زلزلہ گھروں کو برباد کر رہا ہے تو ان باتوں کو آپ دنیاکی بد نظمی پر محمول نہ کریں اور اس بات سے آگاہ رہیں کہ یہ غیر متوقع واقعات ایک یا کئی مستقل اور نا قابل تغیر قواعد کی اطاعت کا نتیجہ ہیں اور ان قواعد سے ثابت ہے کہ مزکورہ واقعات وقوع پذیر ہوتیہیں اج طبعیات دان (یعنی وہ سائنس دان جو صرف ریاضی کے قواعد کی پیروی کرتے ہیں اور انکے علاوہ دوسرے قواعد کا علم نہیں سمجھتے یہی عقیدہ رکھتے ہیں اور جعفر صادق (علیہ السلام ) اس لحاظ سے قابل احترام ہیں کہ انہوں نے ساڑھے بارہ سوسال پہلے یہ نظریہ پیش کیا تھا ۔
طبیعات دانوں اور جیولوجسٹس کے بقول طوفان زلزلہ اور اتش فشان پہاڑوں کا پھٹنا غیرمعمولی واقعات سے نہیں ہیں بلکہ فطری قوانین کے تابع ہیں اور زلزلہ ہماری نظر میں غیر معمولی اس لئے ہے کہ ہم اس کے قانون سے مطلع نہیں ہیں ۔
بنی نوع انسان کی نظر میں ہزاروں سال کے دوران غیر متوقع واقعات میں ایک واقعہ آب و ہوا کی تبدیلی تھا اور انسان اسے دنیا میں بد نظمی سمجھتا تھا اس کا خیال تھا کہ گرمیوں کے درمیان آب و ہوا فورا تبدیل نہیں ہونی چاہیے لیکن آج آب و ہوا کی تبدیلی انسان کی نظر میں غیر متوقع نہیں ہے اور دنیا کی بد نظمی سے عبارت نہیں ہے چونکہ انسان آب و ہوا کی تبدیلی کے قانون کو سمجھ چکا ہے اور اگرچہ اس قانون کو اچھی طرح نہیں سمجھ سکا لیکن پھر بھی کہ وہ کرہ ارض کے گرد چکر لگانے والے مصنوعی سیاروں کی مدد سے آب و ہوا کی تبدیلی کی پیش گوئی کر لیتا ہے ۔
زلزلے کا وقوع پذیر ہونا اور آتش فشاں کا بھٹنا بھی آب و ہوا کی تبدیلی کی مانند ہے اور جس دن انسان ان دو کے قوانین سے آگاہی حاصل کر لے گاتو وہ یہ پیش گوئی کر سکے گا کہ زلزلہ کس جگہ اور کہاں پر ائے گا اور کونسا آتش فشاں کس وقت لاوا اگلے گا ۔
جعفر صادق (علیہ السلام ) نے اپنے شاگردوں سے فرمایا کہ لوگوں کو دنیا میں بد نظمی نظر اتی ہے وہ دراصل ایک یا چند مستقل اور نا قابل تغیر قواعد کے تحت ہے ۔
دنیا کے قواعد کے مستقل اور نا قابل تغیر ہونے کی تمام فلسفی تائید کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ تبدیلیاں جو انسان کو نظر آتی ہیں وہ صرف اس کی نظر اور عقل کا دھوکہ ہے جب کہ خداوند تعالی کے نزدیک دنیا کی کسی چیز میں کوئی تبدیلی وجود میں نہیں آتی خداوند تعالی دانائے مطلق ہے اور اس نے جو قانون بنایا ہے وہ ابدی ہے خدا کی معرفت رکھنے والے فلاسفر کے نظرییے کی بنا پر تبدیلیاں بشریقوانین میں وجود میں آتی ہیں وہ انسان کی جہالت کی بنا پر وجود میں آتی ہیں کیونکہ آدمی یہ پیش گوی نہیں کر سکتا کہ پچاس سال بعد اس کی اجتماعی یا انفرادی حالت کیا ہو گی ؟ وہ قوانین کو صرف موجودہ زمانے کیلئے بناتا ہے اور جب پچا سال بعد دنیاکے حالات بدلتے ہیں تو انسانبھی قوانین کو تبدیل کر دیتا ہے لیکن خدا وند تعالی نے کائنات کے تمام قوانین کو ایک لمحے میں اور ہمیشہ کیلئے وضع کیا ہے چونکہ وہ دانا ہے لہذا اس نے ابد تک رونما ہونے والے تمام واقعات کی پیش گوئی کی ہے اور وہ ایسے قوانین وضع کرتا ہے جن کو آئندہ پچاس سال کے بعد بھی تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اسے معلوم ہے کہ پچاس سال بعد کون کون سے واقعات رونما ہوں گے اور خیال ہے کہ اس نے تمام پیغمبروں کو بھیجنے سے قبل پیش گوئی کر لی تھی اور اسے شروع ہی میں معلوم تھا کہ زمانے کے تقاضے کے مطابق کون سے پیغمبر کو کس دور میں بھیجنے نہ صرف خدا کی معرفت رکھنے والے فلاسفر کائنات کے قوانین کو مستقل اور نا قابل تغیر جانتے ہیں بلکہ وہ فلاسفر جو خدا پر ایمان نہیں رکھتے وہ بھی معتقد ہیں کہ دنیا کے قوانین مستقل ہیں مٹرلینک جوایک لاوین فلسفی تھا اور خدا کا معتقد نہ تھا اس کا کہنا تھا کہ دنیا اگر ایک مرتبہ ویران ہو جائے اور اربوں کہکشائیں جن میں سے ہر ایک اربوں سورج کی حامل ہے بھی تباہ ہو جائیں تو کائنات مین یہ تباہی بھی غیر متوقع نہیں بلکہ ایک خاص قانون کے تحت ہے اور جو کوئی اس قانون سے آگاہ ہو وہ پیش گوئی کر سکتا کہ دنیا کس وقت ویران ہو جائے گی گذشتہ زمانے میں جعفر صادق (علیہ السلام ) کے علاوہ کسی نے بھی غور نہیں کیا کہ دنیا کے قوانین مستقل اور نا قابل تغیر ہیں ۔
گذشتہ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ جہان میں موجود ہر قانون تبدیل ہوتا ہے اور جب ارسطو آیا تو اس نے اس گذشتہ عقیدہ کو اپنے فلسفے کے زمرے میں شاکل کرکے فلسفے کے قواعد کا حصہ بنا لیا اور اس کے بعد دنیا کے قواعد میں تبدیل ہر جگہ ایک نا قابل تردید حقیقت قرار پا گئی ۔
ارسطو نے کہا دنیا دو چیزوں سے وجود میں ائی ہے ایک مادہ اور دوسری شکل لیکن یہ دونوں نا قابل تقسیم ہیں اور ایک دوسرے جدا نہیں ہوتے ۔
یہاں تک ارسطو کا نظریہ اس بات کی نشاندہی نہیں کرتا کہ وہ دنیا کے قوانین میں تبدیلی کا معتقد ہے لیکن اس کے بعد ارسطو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ دنیا کے قوانین میں تبدیلی کا معتقد ہے چونکہ اس کے بقول شکل کو مادہ پر تطبیق کرنے کیلئے ضروری ہے کہ شکل حرکت کرتی ہو اور اس میں تبدیلی واقع ہوتی ہو کیونکہ شکل کی حرکت اور تبدیلی کے بغیر اسے امدے پر تطبیق نہیں کیا جا سکتا اور چونکہ یہ حرکت اور تبدیلی موجود ہے لا محالہ دنیا کے قوانین بھی تبدیل ہوتے ہیں ۔
یہ نظریہ ارسطو کے دوسرے نظریات کی مانند سترہویں صدی کے عشرے تک علم کے ارکان میں سے تھا اور کوئی سائنس دان اس کے انکار کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور جس شخص سے تھا اور کوئی سائنس دان اس کے انکار کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور جس شخص نے ارسطو کے نظریات کو باطل قرار دیا وہ ڈکارت تھا جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے اور جو ۱۷۵۰ عیسوی میں فوت ہوا ارسطو کا استاد افلاطون تھا لیکن ہم دنیا کے قوانین کے بارے میں افلاطون کے نظریئے سے صحیح معنوں میں مطلع نہیں ہیں ۔
ہم جانتے ہیں کہ افلاطون کے نظریات آئندہ نسلوں کیلئے مکالے کی صورت میں باقی ہیں اور ان میں دنیا کے قوانین میں تبدیل کے متعلق کوئی اشارہ نہیں ہے اور یہ مضوع افلاطون کی نظریات کے قدرو قیمت کا باعث نہیں بنتا جب تک انسانی تمدن باقی ہے افلاطون کو قدیم زمانے کے عظیم مفکروں میں شمار کیا جائے گا اس کے بیان کے اسلوب کی خوبصورتی جو انسانی تمدن کے وجود تک باقی رہے گی اسے خراج تحسین پیش کرتی رہے گی افلاطون یونان کے اشراف میں سے تھا جب کہ ارسطو کے باقی شاگردوں کا شمار اشرف میں سے ہوتا تھا جس وقت افلاطو کہتا ہے کہ جب ایک قوم خوش بخت ہو جاتی ہے تو اس قوم کی خوشبختی میں اس کا فلسفی پیش پیش ہوتا ہے اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ اس کی قوم کو خوشبختی تک پہنچانے میں اس کا بڑا ہاتھ ہے ۔
مختصر یہ کہ ڈکارت کے زمانے تک سائنس دانوں کا عقیدہ یہ تھا کہ دنیا کے قوانین مستقل نہیں ہیں اور یہ تغیر پذیر ہیں عام لوگوں کو اس سے کوئی واسطہ نہ تھا کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کرتے کہدنیا کے قوانین ثابت یا نا قابل تغیر ہیں یا تغیر پذیر ہیں سترھویں صدی عیسوی کے بعد ستاروں کے بارے میں سائنس دانوں کی تحقیقات روز بروز بڑھتی گئیں یاد رہے کہ ان تحقیقات کی ابتدا کرنے والے کوپرنیک اور کپلر تھے ان کے بعد گلیلیو اور نیوٹن نے ان میں خاطر خواہ اضافہ کای فلکیات کے ماہرین رفتہ رفتہ اس نتیجے پر پہنچنے کہ کائنات اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے جس قدر قدما کا تصور تھا انیسویں صدی عیسوی میں جب وہ ہماری کہکشاں سے آگے دوسری کہکشاؤں کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوئے تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کہکشاؤں میں سے ہر ایک کے کئی کئی سورج ہیں اور انہوں نیکہکشاؤں کو ان کے متعدد سورجوں کے ہمراہ دیکھا تو یہ نتیجہ اخذ کیا گویا یہ کہکشائیں ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے کیلئے وجود میں آئی ہیں اور کائنات اس قدر بڑی اور مضبوط و مستقل قوانین کی حامل ہے کہ اگر کائنات میں ایک طرف ایک سورج تباہ ہو جائے تو سب سے قریب ترین ستاروں پر بھی اس کا کوئی نا خوشگوار اثر نہیں پڑے گا چہ جائیکہ دور دراز واقع ستاروں پر اثر انداز ہو گویا دنیا پر قوانین مستقل ہیں اور بعض سورجوں کا تباہ ہونا قوانین کے ماتحت ہے ۔
جس وقت زمین کی عمر کے بارے میں بات کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ زمین کی عمر انداز پانچ ارب سال ہے تو ہمیں حیرانی ہوتی ہے اور یہ رقم ہمیں بہت بڑی نظر آتی ہے جب کہ نجومیوں کے حساب کے مطابق ایک کہکشاں کو اپنے مطاف کے ارد گرد ایک جکر پورا کرنے میں ایک سال کا عرصہ لگتا ہے کہاں ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ دنیا کی پیدائش کو دس ہزار سال ہوئے ہیں اور دنیا میں آدم کی پیدائش کو چھ ہزار سال ہو چکے ہیں ۔
کہکشاؤں کی اپنے مدار کے ارد گرد گردش یہ ظاہر کرتی ہے کہ دنیا کی عمر اس سے کہیں زیادہ ہے جو اس صدی کے شروع میں خیال کیجاتی تھی کیونکہ اس صدی کے آغاز میں بھی تک کہکشاؤں کی گردش کی طرف متوجہ ہوئے تھے اور انہیں وسیع خلا میں ثابت ستاری خیال کیا جاتا تھا اب فلکیات کے ماہرین اس بات کے قائل ہو چکے ہیں کہ کہکشائیں اپنی وضع کی مناسب سے متحرک ہیں اور اپنے ارد گرد بھی گردش کر رہی ہیں ۔
کہکشاؤں کی اپنی مطاف کے اردگرد گردش کی مدت کی طوالت فرضی ہے نہ کہ علمی کہکشاں کی اپنے مطاف کے اردگرد گردش کی مدت کا حساب لگانے کیلئے اس کے گھومنے کا مدار دریافت کرنا ہو گا اور یہ جاننا ہو گا کہ جس مدار میں کہکشاں اپنے مدار کے ارد گرد چکر لگاتی ہے وہ کتنا وسیع ہے ۔
اس مدار کی طوالت معلوم کرنے کیلئیمدار سے ایک قوس کھینچی جائے تاکہ جیومیٹر کے قواعد کے مطابق مدار کا قطر معلوم ہو سکے اگر بنی نوعی انسان مزید پانچ سو سال اس دنیا میں رہے تو بھی وہ کہکشاں کے مدار کی ایک قوس ( یعنی دائرے کے قطر کے ایک جزو ) کو حاصل نہیں کر سکتا ۔ چہ جائیکہ کہ وہ اس کے ذریعے تمام مدار کا حساب لگائے دنیا میں اس قدر کہکشائیں ہیں کہ آج تک ان کی تعداد معلوم نہیں ہو سکی اور صرف اندازا کہا جاتا ہے کہ دنیا میں ایک سو ارب کہکشائیں پائی جاتی ہیں اور کوئی نجوم اس اندازے پر اعتماد نہیں کرتا ا اعتماد نہ کرنے کی وجہ کے دو اسباب ہیں ۔
پہلا یہ کہ ابھی تک عام ٹیلی سکوپس اور ریڈیو ٹیلی سکوپس کی دیکھنے کی طاقت اتنی نہیں کہ بنی نوع انسان کا ئنات کی گہرائیوں کا چھی طرح مشاہدہ کر سکے ۔
آج کی دنیا کی سب سے بڑی ریڈیو ٹیلی سکوپ اجرام فلکی کو نو ہزار ملین نوری سال پر فاصلے تک دیکھ سکتی ہے اور اس کے دیکھنے کی طاقت نو ہزار ملین نوری سال سے زیادہ نہیں ہے اور ایک اندازے کے مطابق اگر ایک ایسی ریڈیو ٹیلی سکوپ بنا لی جائے جس کے دیکھنے کی طاقت بیس ارب یا تیس ارب نوری سال ہو تو ایسی کہکشاؤں کا پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو ابھی تک دریافت نہیں ہو سکیں دوسرا یہ کہ جو انیسویں صدی کے دوسرے عشرے اور بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں بنینوعی انساننے چھوٹی دنیا یعنی ذرے کی دنیا کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور معلوم کیا کہ ذرے کے اندر ایسے قوانین حکم فر ما ہیں کہ جو ہمیشہ لاگو رہتے ہیں ایٹم میں پایا جانیوالا الیکٹران ہر تین کیٹریلین مرتبہ فی سیکنڈ کی رفتار سے ایٹم کے ارد گرد چکر لگاتا ہے اور کوئی واقعہ اس گردش کو نہیں روکتا ۔
لوہے کے ایک ذرے میں الیکتران ہر سیکنڈ میں تین کیڑیلین مرتبہ ایٹم کے مرکزکے گرد چکر لگاتا ہے اگر لوہے کو پگھلایا جائے تو پھر بھی پگھلے ہوئے لوہے کیایٹم کے الیکٹانوں کی گردش تین کیڑیلین مرتبہ فی سیکنڈہو گی ۔
حتی کہ اگر لوہے کو اس قدر گرم کیا جائے کہ وہ گیس میں تبدیل ہو جائی تو پھر بھی الیکٹران کی ایٹم کے مرکز کے ارد گرد رفتار تین کیڑ یلین مرتبہ فی سیکنڈ ہو گی ۔
اس دائمری اور عجیب و غریب حرکت میں خلل ڈالنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ایٹم کی توڑ پھوڑ کی جائے اس صورت میں الیکٹران مرکز سے دور ہٹ جائے گا لیکن اس صورت میں بھی الیکٹران کی حرکت ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ الیکٹران ایک دوسرے مرکز کے گرد گھومنا شروع کر دے گا ۔
جس قانون کے تحت الیکٹران تیزی سے ایتم کے مرکزے کے ارد گرد گھومتا ہے اس قانون کیتحت زمین سورج کے ارد گرد چکر لگاتی ہے اور سوج ستاروں کے مجموعہ کے ارد گرد جسے ہر کول کہا جاتا ہے چکر لگاتا ہے اور یہ مجموعہ کہکشاں کے ارد گرد اور کہکشاں کسی دوسرے چیز کے ارد گرد جس سے ہم آگاہ نہیں ہیں لیکن اس میں کوئی شک و شبہ نہیں چکر ضرور لگاتی ہے کیونکہ کہکشاں کی حرکت عملی لحاظ سے ثابت ہو سکتی ہے اور اجرام فلکی کی گردش کی مدت اس قدر طویل ہے کہ ستاروں کے مجموعے کو کہکشاں کے اردگر د ایک چکر کاٹنے کی مدت کو دیکھنے کیلئے ہمارے سورج کی عمر ناکافی ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ علم فلکیات کی مانند کوئی ایسا علم نہیں ہے جس سے انسان خداوند تعالی کے وجود اور مستقل اور نا قابل تغیر قوانین کی موجودگی کا قائل ہوتا ہے اور یہ بات صحیح بھی ہے ۔
کہکشائیں جس چیز کے گرد گردش کر رہی ہیں وہبھی کسی چیز کے گرد گھوم رہی ہوگی کیونکہ آج تک سائنس دان نے آسمان پر جو چیز بھی دریافت کی ہے وہ ضرور کسی دوسری چیز کے گرد گھوم رہی ہے لہذا گمان یہ ہے کہ کہکشایں جس چیز کے ارد گرد گردش کر رہی ہیں وہ چیز ضرور کسی دوسری چیز کے ارد گرد گردش کر رہی ہو گی ۔
کہکشائیں اج ہم دیکھتے ہیں شاید دوسری کہکشاؤں کو دیکھنے میں حائل ہوں جو ان کے پیچھے واقع ہیں ۔
جس وقت ضد مادہ کا وجود ثابت ہوا یہ نظریہ ایجاد ہوا کہ یہ جہان جو ایک سو ارب کہکشاؤں پر مشتمل ہے اس کے علاوہ دوسرا جہاں بھی موجود ہے جس کی وسعت اس جہاں کے مساوی ہے یا وہ اس سے بھی زیادہ وسیع ہے کہ جس کی وسعت کا اندازہ اج نہیں لگایا جا سکتا اس ہمزاد کی مانند کہ جس کیبارے میں قدما کا عقیدہ تھا کہ ہر زندہ وجود کا ایک ہمزاد ہوتا ہے لیکن اس ہمزاد کا دیکھنا محال ہے اسی طرح آج ضد مادہ کے حجات کا تصور پیدا ہو گیا ہے لیکن اس جہان کو ابھی تک کسی ذریعے سے محسوس نہیں کیا جا سکا اس طرح ضد مادہ کی دنیا میں لاگو فزکس اور کیمیا کے قوانین کو بھی نہیں سمجھا جا سکتا کہ آیا وہ اس جہاں کے قوانین کی مانند ہیں یا ان کی کوئی اور شکل ہے سائنس دان ان کے متعلق صرف نظریات پیش کرتے ہیں جو علمی افسانوں کے مانند ہیں اگرچہ علمی افسانوں میں مذکور بعض نظریات علمی حقیقت کا روپ دھار گئے ہیں ۔
مثال کے طور پر ایک انگریز مصنف رابرٹ کلارک جو علمی افسانوں کا مصنف تھا اس نے ۱۹۴۸ عیسوی میں ایک علمی افسانہ لکھا جس میں اس نے ایک ایسے سیارے اک ذکرکیا تھا جو لندن کے اوپر چھتیس ہزار کلو میٹر پر واقع تھا چونکہ زمین کے ارد گرد اس سیارے کی حرکت زمین کی چوبیس گھنٹوں کے دوران اپنی حرکت کے مساوی تھی لہزا اس کے باوجود کہ وہ سیارہ زمین کے ارد گرد گردش بھی کر رہا تھا ہمیشہ لندن کے اوپر واقع ہوتا ہے ۔
۱۹۴۸ ء عیسوی میں سیاروں کو زمین کے مدار میں چھوڑنے اور ان سیاروں کی کرہ ارض کیارد گرد حرکت کا خیال صرف علمی افسانوں تک محدود تھا اور کسی حکومت نے سیاروں کو خلا میں زمین کے ارد گرد چکر لگانے کیلئے بھیجنے کے متعلق سوچا بھی نہ تھا ۔
بہر کیف رابرٹ کلارک نے اپنے علمی افسانے میں اس مستقلا زمین کے ارد گرد خلا میں چکر لگانے والے سیارے کا ذکر کرتے ہوئے کہا سیارہ زمین کے اوپر چھبیس ہزار کلو میٹر بلندی پر واقع ہے اس تاریخ کے دس سال بعد روسی حکومت نے جیو فزکس کی سالگرہ۱۹۵۷ عیسوی کے موقع پر اس سال اکتوبر کے مہینے میں پہلا مصنوعی چاند جس کا وز ن ۸۳ کلو گرام اور چھ سو گرام تھا خلا میں بھیجا اور اس کا نام اسپوت نیک رکھا گیا ۔
ابھی تک سائنس دان بڑے مصنوعی سیارے بنانیکی جانب متوجہ نہیں ہوئے تھے ان کا خیال بھی نہ تھا کہ ایک مصنوعی سیارے کو زمین سے چھتیس ہزار کلو میٹر کی بلند پر خلا میں بھیج کر خلا کے ایک مقام کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ساکت کیا جائے اج دنیا میں تین اقسام کے مصنوعی سیارے پائے جاتے ہیں اور یہ تینوں مسلسل زمین کے ارد گرد گردش کرنے کے علاوہ خلا میں مستقل طور پر ایک ساکن مقام بھی رکھتے ہیں اور انہیں ساکن سیاروں کی وجہ سے ٹیلیویژن کیایک پروگرام کو کرہ ارض کے تمام باشندوں تک پہنچایا جا سکتا ہے اس بڑی ایجاد کی پیش گوئی کو عملی مرحلہ میں داخل ہونے سے پہلے ایک ایسے شخص نے پیش کیا اور اپنے علمی افسانے میں لکھا تھا جو کسی یونیورسٹی کا فارغ التحصیل نہ تھا اس کے پاس صرف کالج کی سند کے علاوہ کچھ نہ تھا ۔
یہاں یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ رابرٹ کلارک نے تاریکی میں تیر پھینکا اور اتفاق سے وہ نشانہ پر جا لگا ۔
چونکہ اس نے چھتیس ہزار کلو میٹر کی رقم کے علاوہ اپنے علمی افسانے میں کچھ دوسری چیزوں کا بھی ذکر کیا ہے جنہیں آج کے ساکن مصنوعی سیاروں میں ٹیلی اسٹار کا نام دیا گیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیلی اسٹارز کے بنانے اور انہیں استعمال میں لانے کیلئے مذکورہ سائنس دانوں نے اس مصنف کے افسانے کو کام میں لایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خصوصا روس میں علمی افسانوں کو جہاں عوام جوش و خروش سے پڑھتے ہیں وہاں سائنس دان بھی ان علمی افسانوں کا مطالعہ پورے انہماک سے کرتے ہیں چونکہ یہ بات تجربے سے ثابت ہو چکی ہے کہ ان میں دلچسپی سے ڑھے جانے والے ایسے افسانے بھی ہو سکتے ہیں جو عملی مرحلے میں داخل ہو سکیں سوویت یونین میں مصنوعی چاند کو خلا میں بھیجنے سے کئی سال پہلے اس کا ذکر علمی افسانوں میں آ چکا تھا اور اس ملک میں آج ایسے علمی افسانوں کے مصنفین کیلئے انعام مخصوص کیا گیا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ جو کچھ علمی افسانوں میں ضد مادہ دنیا کے متعلق لکھا جاتا ہے اے مہمل نہیں سمجھنا چاہیے اور شاید ان افسانوں میں ایسی سوچ پائی جاتی ہو تو جو حقیقت کے مطابق ہو جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ جو کچھ مصنفین اپنے علمی افسانوں میں ضد مادہ کے بارے میں لکھتے ہیں وہ ان کی اپنی سوچ ہوتی ہے بعض گذشتہ فلاسفر کہتے تھے کہ انسان کسی ایسی چیز کو اپنے ذہن میں مجسم نہیں کر سکتا جو دنیا میں موجود نہ ہو ۔
مثال کے طور پر اگر انسان اپنے ذہن میں کسی ایسے جانور کو مجسم کرے جس کے ہزاروں سر ہوں تو اس فلسفی نظریہ کے مطابق یہ اس بات کی دلیلہے کہ وہ جانور دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں موجود ہو جب کہ عقل کسی ایسے جانور کے وجود کو بھی تسلیم بھی نہیں کرتی جس کے دو سر ہوں ۔
اس نظریہ کی بنا پر جو کچھ علمی افسانے لکھنے والے مصنفین ضد مادہ دنیا کے بارے میں لکھتے ہیں وہ موجو د ہے اور اگر یہ ضد مادہ اس دنیا میں نہ بھی ہو تو کسی دوسری جگہ ہو گا ۔
فزکس کیمسٹری کے قوانین کے اسی نظرہ کی بنا پر ضد مادہ دنیا علمی افسانوں میں مذکورہ پائی جاتی ہے اور اگرچہ ضد مادہ ہماری دنیا میں نہ سہی کسی دوسری جگہ پائی جاتی ہو گی جو کچھ ہم سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ دنیا اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے جتنی وہ ریڈیو ٹیلی سکوپ کی ایجاد سے پہلے یعنی تیس سل قبل خیال کی جاتی تھی اس باتکی تصدیق کرنا چاہیے کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام ) کا یہ فرمان کہدنیا میں مستقل اور نا قابل تغیر قوانین لاگو ہیں درست ہے اور دو علم یعنی فزکس اور فلکیات دوسرے علوم سے زیادہ اس بات کی تائید کرتے ہیں ۔
ہماری عقل کہتی ہے کہ اگر عظیم جہان میں مستقل اور نا قابل تغیر قونین نہ ہوتے اور قوانین لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہوتے رہتے تو دنیا باقی نہ رہتی ۔
بیسوی صدی کی پہلی دھائی کے طبعیات دانوں میں ایک فرانسیسی شہزادہ ڈوبری بھی ہے ۔
اس شخص نے فزکس کے میدان میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں کہ سائنس دانوبں کے لئے اس کا نما کسی تعارف کا محتاج نہیں یہ پہلا شخصہے جس نے اس بات کی نشاندہی کی کہ الیکٹران شعاعوں کا جزو ہیں اور طبعیات میں اسے ۱۹۲۹ عیسوی میں نوبل انعام سے نوازا گیا ۔
شہزاد ڈوبروی فلسفی نہ تھا کہ اپنے عقلی تخیل کی با پر کوئی بات کہتا وہ ایک طبعیات دان شمار ہوتا تھا اور اس طرح کے افراد جب تک کسی چیز کو ثابت نہ کر سکیں اس کے متعلق بات نہیں کرتے اس نے کہا تھا کائنات میں ایک چیز کبھی تبدیل نہیں ہوتی اور وہ ہے قانون ‘ اس کی مراد یہ ہے نہ فقط اس زمین پر اور نہ صرف تمام نظام شمسی میں بلکہ تمام کائنات میں قدرت کے قوانین میں کوئی تبدیل نہیں آتی اسکے بقول اگر ایک دن ایسا آئے کہ بنی نوعی انسان ایک ایسے ریڈیو ‘ ٹیلی ویژن میں کوئی تبدیلنہیں آتی اسکی بقول اگر ایک دن ایسا آئے کہ بنی نوعی انسان ایک ایسے ریڈیو ‘ ٹیلی ویژن سکوپ کو ایجاد کرے جس کے ذریعے وہ سزمین سے ایک سو ارب نوری فاصلے پر واقع اجرام فلکی کا بھی مشاہدہ کر سکے تو وہاں پر بھی فطرت کے قوانین مستقل ہونگے ۔
اس بات کو سب تسلیم کرتی ہیں کہ جس چیز کا وجود نہیں ہے اس کو عقل نہیں مانتی اور جس چیز کو عقل نے تسلیم کر لیا یہ اسکی دلیل ہے کہ وہ موجود ہے ۔
شہزادہ ڈوبروی یہ نہیں کہتا کہ فلاں قانون میں تبدیل نہیں آئی بلکہ اس کے قبول قانون کے علاوہ کائنات میں ہر چیز تبدیل ہوتی ہے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ کئانت نیست و نابود ہو جائے تو کیا اس پر حاکم قوانین باقی رہیں گے ۔
لیکن یہاں یہ سوال اچھی طرح گڑھا ہوا نہیں کیونکہ فزکس کہتی ہے کہ کوئی چیز ختم نہیں ہوتی اور نہ ہی مٹتی ہے بلکہ اس میں صرف تبدیل رونما ہوتی ہے لہذا دنیا ہر گز ختم نہیں ہوتی چہ جائیکہ اس پر حاکم قوانین کا خاتمہ ہو ۔ بلکہ ممکن ہے کائنات میں تبدیلی رونما ہو اور اس صورت میں وہ تبدیل بھی کائنات کے نا قابل تغیر قوانین کے مطابق ہو ۔
اسطرح اس دور کا ایک دوسرا عظیم نوبل انعام یافتہ طبیعات دان امام جعفر صادق (علیہ السلام ) کے اس فرمان کی تصدیق کرتا ہے کہ دنیا کے قواعد ثابت اور مستقل ہیں ۔

"انسان خود اپنی عمر گھٹاتا ہے "
امام جعفرصادق (علیہ السلام ) کے توجہ طلب نظریات میں سے ایک نظریہ انسان عمر کی لمبائی کے متعلق ہے آپ نے فرمایا انسان اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ لمبی عمر گزارے اور وہ خود اپنی عمر کو کم کرتا ہے اگر انسان دین اسلام کے قوانین پر عمل کرے اور ممنوعہ چیزوں سے پرہیز کرے اور کھانے پینے میں قرانی احکامات کے مطابق عمل کرے تو وہ لمبی عمر پائے گا ۔
انسانی عمر کی لمبائی کا مسئلہ دو چیزوں سے وابستہ ہے ایک صحت کا خیال رکھنا اور دوسرا سیر ہو کر کھانے سے پرہیز کرنا ۔
پہلی صدی عیسوی میں رومی شاہنشاہیت کے شہر روم میں لوگوں کیاوسط عمر بائیس سال تھی کیونکہ رومی شہنشاہیت میں صحت کے قوانین کا لحاظ نہیں رکھ اجاتا تھا اور روم کے اشراف اس قدر غذا کھاتے تھے کہ قے کرنے لگتے اور عام لوگ جہاں تک ہو سکتا غذا کھانے میں اشراف کی پیروی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے روم کے اشراف کے محلوں میں ڈایننگ ہال کے ساتھ ایک کمرہ ہوتا تھا جس کا نام ومی ٹوریم یعنی قے کرنے کی جگہ تھا اور اگر غذا کھانے کے بعد قدرتی طور پر قے نہ آئے تو وہ لوگ قے لانے والیدوائی کھاتے تاکہ انہیں قے ائے کیونہ قے نہ آں ے کی وجہ سے ممکن تھا وہ مر جاتے ۔
بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں انگلستانا ور فرانس جیسے ممالک میں جو بچہ پیدا ہوتا توقع ہوتی تھی کہ وہ اوسطا پچاس سال زندگی بسر کرے گا کیونکہ صحت کی حالت قدیم رومی شہنشاہیت سے بہت بہتر تھی اور لوگ رومی باشندوں کی مانند غذا کھانے میں افراط سے کام نہیں لیتے تھے ۔
آج یورپی ممالک میں صحت میں بہتری کی وجہ سے دنیا میں آنے والے ہر بچے کی اوسط عمر ۶۸ سال ہے اور ہر بچی کی اوسط عمر ۷۸ سال ہے اس طرح عورتوں کی اوسط عمر مردوں کی اوسط عمر سے زیادہ ہے ۔
اگر سرطان کی بیماری قابل علاجقرار دیجائے اور دل یا دماغ کے دورے یا خون کی بیماریوں پر قابو پا لیا جائے تو کیا انسان کی اوسط عمر بہت زیادہ ہوجائے گی ؟
ریکارڈ شدہ اعداد و شمار اس سوال کا منفی جواب دیتے ہیں جب سرطان قابل علاج ہو جائے گی اور دل اور دماغ کی مہلک بیماریوں پر قابو پا لیا جائے گا تو بھی انسان کی اوسط عمر میں صرف دو سال کا اضافہ ہو گا چونکہ جو چیز اوسط عمر کی حد کو بڑھاتی ہیوہ ایک با چند بیماریوں کا علاج نہیں بلکہ کھانے اور پینے کی تمام چیزوں سمیت صحت کے اصولوں کا خیال رکھنا ہے جس دن بنی نوعی انسان تمام بیماریوں کے علاج پر قادر ہو گا تو بھی بڑھاپے سے مر جائے گا موجودہ دور میں سرطان حرکت قلب یا حرکت دماغ کا رک جانا یا ایڈز جیسی بیماریاں مہلک بیماریا کہلاتی ہیں ان کے علاوہ کسی بیماری کو مہلک نہیں کہا جاتا پھر بھی لوگ متعددی بخار جیسی بیماریوں سے بھی مر جاتی ہیں چونکہ بڑھاپا موت کا سبب بنتا ہی اور جب بڑھاپے کے نتیجے میں انسانی اعضاء فرسودہ ہو جاتے ہیں تو قابل علاج بیماریاں موت کا سبب بن جاتی ہیں مگر یہ کہ بڑھاپا جو چند بیالوجسٹوں کے مطابق ایک بیامری ہے اس کا علاج کیاجائیاس زمانے میں پیش آنے والے مسائل میں سے ایک مسئلہ ماحول کی آلودگیہے جو جعفر صادق (علیہ السلام ) کے نظریئے کی تصدیق کرتا ہے یہ آَودگی بعض جگہوں پر کما ور بعض جگہوں پرزیادہ ہوتی ہے اقوام متحدہ کی صحت کی تنظیم نے امریکہ اور میکسیکو کے چند شہروں کی تحقیق کے بعد یہ رپورٹ پیش کیہے کہ امریکہ اور میکسیکو کے بعض شہروں کی آب و ہوا اتنی آلودہ ہے کہ ان شہرون میں زندگی بسر کرنے والے مرد عورتیں اور بیچے اس طرحزندگی گزار رہیہیں کہ ہر چوبیس گھنٹے میں بیس عد د سگریٹ والے دو پیکٹ یعنی چالیس سگریٹ پیتے ہیں ۔
اقوام متحدہ کی مذکورہ تنظیم کی رپورٹ کے مطبق وہی برے اثرات جو دن اور رات میں چالیس سگریٹ پینے والے کے پھیپھڑوں اور دوسرے اعضاء پر پڑتے ہیں اس شہر کی آب و ہوا کے ذریعے اس کے باشندوں پر بھی ڑتے ہیں ۔
لہذا امریکہ اور میکسیکو کے شہروں کی آب و ہوا اس قدر آَودہ ہے کہ وہاں کے لوگ دوسری بیماریوں کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کے سرطان میں بھی مبتلا ہیں ان کے سرطان میں مبتلا ہونے کے امکانت اس قدر زیادہ ہیں جتنے سگریٹ پینے والے شخص کے ہو سکتے ہیں ۔
جو اعداد و شمار کی رو سے ہزار میں سے سڑھے سات سے آٹھ تک ہیں ‘ ماحول کی آلودگی کے علاوہ جو چیز انسانوں کی عمر کو کم کرنے کا سبب بنتی ہے وہ آواز ہے ۔
اب تک ڈاکٹروں کا یہی خیال تھا کہ صرف زندگی کے ماحول ہی میں آلودگی پیدا ہو سکتی ہے انہیں یہ خیال نہ تھا کہ آواز بھی انسان کی زندگی پر برے اثرات ڈال سکتی ہے ۔
لیکن اب انہوں نے غور کیاہے کہ لگاتار آواز سے انسان کی عمر میں کمی واقعی ہوتی ہے یہ خوش فہمی کہ انسان آواز کا عادی ہو جاتا ہے اور پھر اس سے اسے تکلیف نہیں پہنچتی صحیح نہیں ہے انسان اپنی عمر کے کسی مرحلے میں آواز کا عادی نہیں ہوتا اور آواز کی لہریں بچپن سے لے کر عمر کے آخری دن تک اس کے اعصاب اور جسم کے خلیات کو تکلیف پہنچاتی ہیں مشہور فرانسیسی انجینئر کامی راجرون جو دوسری جنگ عظیم سے قبل فرانس کی نیوی کی بڑی جنگی کشتیاں جن کا نام ریشلیو اور زان بار تھا بنانے کے کارخانے کا انچارج تھا اس کے عقیدہ کیمطابق لگا تار آواز سے جسم کے خلیات پر وہ اثرات پڑتے ہیں جو اثرات آکسیجن لوہے پر ڈلاتی ہے اور جس طرح آکسیجن آہستہ آہستہ لوہے کو زنگ آلود کرکے ختم کر دیتی ہے اسی طرح لگا تار آواز بھی جسم کے خلیات کو فرسودہ کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں انسان کی عمر کم ہو جاتی ہے ۔
یہی انجینئر کہتاہے کہ شہر میں ایک اچھا گھر وہ ہے جس کے در و دیوار ایسے بنائے گئیہوں کہ باہر سیآ نے والی کسی قسم کیآواز گھر کے مکینوں کے آرام میں مخل نہ ہوتی ہو ۔
کامی راجرون کہتا ہے کہ چونکہ آج کی زندگی کی حالت ایسی ہے کہ لگا تار آواز سے پیچھا چھڑانا مشکل ہے لہذا اس کا ایک حل ہے کہ آواز کو روکنے والے مصالح کو درو دیوار میں اتعمال کیا جائیا س طرح کا مصالحہ اب امریکہ کے بازاروں میں دستیاب ہے ۔
اس شخص کے نظریئے کے مطابق اگر سارے مکان میں مذکورہ مصالحہ استعمال نہ کیا جا سکے تو بھی دو تین کمروں میں ایسے مصالحے کا استعمال کیا جائے تاکہ انسان کم ااز کم آرام کے اوقات میں وہاں لگا تا ر اوازوں کے بے ہنگم شور سے محفوظ رہ سکے ۔
اس شخص کے بقول ہمیشہ کیآواز کے اثرات میں سے ایک اثر انسان پر اچانک جنون کی کیفیت ہے ہمیشہ کی آواز سے انسانی اعصاب فرسودہ ہو جاتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ صابر اور نرم دل اشخاص جن کی زندگی کا ایک حصہ صبر اور نرم دلی میں گزارا ہے اچانک جنون کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس کے دو ٹوک اثرات میں سے ایک اثر ہمیشہ کی تھکاوٹ ہے اور یہ تھکاوٹ بے حوصلگی اور خواہ مخواہ لڑائی جھگڑے پر اتر آنے کا باعث بنتی ہے ۔
وہ افراد جن پر یہ اثرات پڑتے ہیں وہ اپنی اس بیماری سے آگاہ نہیں ہوتے اور جب وہ ڈاکٹر سے رجوعی کرتے ہیں اور ڈاکٹر ان کا معائنہ کرتاہے تو ان کے جسم کے حقیقی اعضا میں کوئی خرابی دکھائی نہیں دیتی ۔
کامی راجرون کا کہنا ہے کہ لگا تار آواز آدمی کو تھکا دینے اور بے حوصلہ کرنے کے علاوہ پانچ سے سے دس سال تک (اشخاص میں فرق کے لحاظ سے) انسان کی عمر کو کم کر دیتی ہے اور اگر انسان کے پاس گاڑی ہو تو ان شہروں میں یا وہاں پر جہاں لگا تار آوازیں سنائی دیں رہائش اختیار نہیں کرنا چاہیے ۔
غیر متوازن خوراک جو آج کے مشینی دور کی پیدوار ہے بھی انسانی عمر میں کمی واقع کرے ولے عوامل میں سے ایک ہے اور یہ بات جعفر صادق (علیہ السلام ) کے اس نظریئے کی تائید بھی کرتی ہے کہ آپ نے فرمایا انسان کی عمر طویل ہیبشرطیکہ وہ خود اسے کم نہ کرے یورپی ممالک اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور ہرا س ملک میں جہاں مشینی زندگی کا دور دورہ ہے یہ مشینی زندگی اس بات کا باعث بنی ہے کہ لوگ اپنے آپ کو زیادہ تر مصنوعی غذاؤں کے ذریعے سیر کریں ۔
امریکہ میں لوگوں کا ایک طبقہ ہے جو اچھی غذا کھاتے ‘ مویشی وغیرہ چراتے اور ہر جگہ کوبوائے کے نام سے مشہور ہوئے ہیں ۔
یہ لوگ تازہ دودھ پیتے ‘ دودھ کی ملائی اور کھانا کھاتے اور ہمیشہ شہروں سے دور وسیع و عریض صحراؤں میں زندگی بسر کرتے تھے ان کی اوسطا جوانی کی طاقت اسی سال یا پچاسی سال تک باقی رہتی تھی یہی مضبوط کاؤبوائے جو پچاسی سال تک گھوڑے کی پشست پر سوار تھے اور صحرا میں گائے کے ریوڑوں کے ساتھ سفر کرتے تھے آج جونہی پچاسی سال کی عمر کو پہنچتے ہیں خراب غذا سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں چونکہ وہ مخصوص غذائیں جو بدن میں یوریا اور یورک ایسڈ جیسی رطوبتوں کی زیادتی کاباعث بنتی ہیں انہوں نے کھانا شروع کر دی ہیں جس کے نتیجے میں وہ پٹھوں کی اور ہڈیوں کے شدید درد میں مبتلا ہوئے اور اس کے علاوہ ان میں ایسی بیماریوں نے جنم لیا ہے جو خون کی بد نظمی کی صورت میں لاحق ہوتی ہیں اور یہ بیماریاں بھی ناقص غذاؤں کی وجہ سے جنم لیتی ہیں اور ان لوگوں کوپچاس ال کی عمر میں ہی کام کے قابل نہیں چھوڑتیں جب کہ اس صدی کے شروع میں ایک کاؤ بوائے پچاس سلا کی عمر میں جوانی کی انتہا کو چھو رہا ہوتا تھا۔
الاسکا جو امریکی ریاستوں میں سیایک ہے وہاں اس صدی کے آغاز میں کوئی بیمار نہ ہوتا تھا وہاں کے باشندوں کی بیماری دانتوں کا درد ہوتا تھا وہ درد بھی عمر کے آخری حصے میں ہوتا تھا کیونکہ مرد عورتیں اپنے دانتوں کو ستر ‘ اسی سال تک محفوظ رکھتے تھے چونکہ وہ عام غذا کھاتے اور ہمیشہ کام میں مشغول رہتے تھے۔
الاسکا کے لوگوں کی خوراک دودھ بارہ سنگے کا گوشت اور سفید مچھلی جو دریائے الاسکا سے کافی مقدار میں شکار کی جاتی تھی وہاں کے گڈریوں کے گلوں میں ہزار بارہ سنگے ہوتے تھے لیکن انہیں ان کو گھاس مہیا کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی حتی کہ الاسکا کی سخت سردی میں بھی جب برف ہر جگہ کو ڈھانپ لیتی تھی انہیں اس سلسلہ میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی تھی وہ جانور اپنے دو پاؤں جن کے سم تیز ہوتے ہیں کہ ساتھے برف کو ہٹا کر ایک گہرا گڑھابنا لیتے تھے اور اس ٹھنڈے علاقے کی خاص گھاس جو سرد علاقوں میں گرمیوں میں اگتی اور جلدی خشک ہو جاتی ہے کھاتے تھے امریکی مصنف ایلن رولیس اونس جسکی الاسکا کے لوگوں کی زندگی کی حالت اور خاص طور پر قطبی بارہ سنگھے کے متعلق تحقیقات کو مستند سمجھا جاتا ہے اور وہ ۱۹۶۰ عیسوی میں فوت ہوا کہتا ہے کہ وہ ۱۹۳۵ عیسوی میں خزاں کے موسوم میں بارہ سنگوں کی مسومی ہجرت کا شاہد تھا اور پانچ دن تک وحشی بارہ سنگوں کے ٹکرانے سے بجلی کی سی آواز سنائی دیتی اور یہی بارہ سنگے تھے جنہیں الاسکا والوں نے قابو کیا ہوا تھا اور لوگ اب ان کے دودھ اور گوشت کو استعمال کرتے تھے ۔ یہی مصنف بیان کرتا ہے کہ الاسکا میں کوئی ڈاکٹر نہیں کیونکہ ڈاکٹر کو معلوم ہے وہاں جا کر بیکار پڑے رہیں گے کیونکہ وہاں کوئی بیمار نہیں پڑتا اور صرف چند دانتوں کے ڈاکٹر کام کر رہے ہیں الاسکا میں مردوں کی اوسط عمر نوے سال اور عورتوں کی سو سال ہے ۔
یہ تحریر ۱۹۳۵ عیسوی (یعنی تقریبا آج سے ساٹھ ستر سال قبل ) کی ہے اور بہت پہلے کی نہیں ہے یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہیں ہے کہ ڈاکٹر اور ماہرین صحت کے بقول انسان کو لمبی عمر گزارنے اور ہمیشہ صحت مند رہنے کیلئے زیادہ تر نباتاتی غذا کھانا چاہیے اور خصوصا جوانی کے بعد حیوانی چربی اور چربی والے گوشت سے پرہیز کرنا چاہیے اور تیس سال کیعمر کے بعد انسان کیلئے بہترین غذا فروٹ اور سبزی ہے ۔لیکن جیسا کہ ایلن روس نے لکھا ہے الاسکا والے تمام عمر فروٹ اور سبزی کھاتے کیونکہ الاسکا کی ٹھنڈی آب و ہوا میں فروٹ اور سبزی پیدا نہیں ہوتی تھی اور نہیں ہوتی ہے ۔اور سوائے لیشن گھاس کے کسی قسم کی گھاس نہیں اگتی یہ گھاس بیل پر مشتمل ہوتی ہے لیکن اس کا پوداقدرے بڑا ہوتا ہے اور آج تک کوئی بھی الاسکا کی کھلی آب و ہوا میں سبزی کاشت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا چہ جائیکہ فروٹ پیدا ہو صرف حالیہ سالوں کے دوران الاسکا میں گرم خانے بنائے گئے ہیں جن میں سبزی اور پھل پیدا کئے گئے ہیں ۔
الاسکا میں آب و ہوا اس قدر ٹھنڈی ہے کہ گرمیوں کے موسم میں بھی گوشت کو فریج میں رکھنے کی ضرورت نہیں صرف اتنا کافی ہے کہ اسے ایسے کمرے میں رکھ دیا جائے جہاں دھوپ نہ پڑے اور اموات کو دفن کرنے کیلئے قبر کھودنا گرمیوں کے موسم میں بھی مشکل ہے کیونکہ زمین کو جب تھوڑا سا کھودا جاتا ہے تو نیچے برف ملتی ہے اور سردیوں کے مسوم میں توزمین پتھر کی مانند سخت ہو جاتی ہے جسے کھودنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔
مختصر یہ کہ گذشتہ زمانے میں الاسکا کے لوگ ساری عمر نہ پھل کھاتے اور نہ سبزی کھاتے تھے ان کی غذا صرف دودھ بارہ سنگے کا گوشت اور سفید مچھلی ہوتی تھی بہر حال وہ ایک صدی تک زندہ رہتے تھے ۔ اب تک الاسکا کے لوگوں کی طویل عمر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ لوگ جو بارہ سنگے کے گوشت مچھلی اور دود ھ کے علاوہ کچھ بھی نہیں کھاتے ممکن ہے ان کی عمر بھی لمبی ہو اور لمبی عمر کیلئے ضروری نہیں کہ انسان سبزی اور پھل ہی کھائے ۔
لیکن ہمیں آب و ہو کی تاثیر کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے شاید الاسکا کے لوگوں کے طویل عمر کا راز ان کی آب و ہوا کی تاثیر ہو ابھی تک کسی نے اس موضوع پر تحقیق نہیں کی کہ علم کی رو سے پتہ چلے کہ الاسکا کے لوگوں کی طویل عمر وہاں کی آب و ہوا کی وجہ سے ہے یا نہیں ؟ لیکن ہمیں اتنا معلوم ہے کہ الاسکا کے لوگ مسلسل ٹھنڈی آب و ہوا میں رہتے تھے اور گزر اوقات کیلئے کافی تگ و دو کرتے تھے جس کی وجہ سے انہیں کافی مقدارمیں پروٹین کی ضرورت ہوتی تھی تاکہ حرارے حاصل کریں ۔

ماؤں کو حکیمانہ نصیحت
جعفر صادق کی علمی فوقیت کے اظہار ات میں سے ایک یہ تھا کہ آپ نے ماؤں کو وصیت کی کہ اپنے شیر خوار بچوں کو اپنے بائیں طرف سلائیں ۔
صدیوں سے اس تاکید کو بے محل اور فضول کیا جاتا رہا جس کی وجہ یہ تھی کہ کسی نے تاکید پر غور نہیں کیا تھا اور بعضوں نے اس پر عمل کرنے کو خطرناک سمجھا ان کا خیال تھا کہ ار شیر خوار بچے کو ماں کی بائیں جانب سلاد یا جائے تو ممکنہے کہ ماں سوتے میں کروٹ بدلے اور بیٹے کو اپنے جسم کے نیچے کچل دے ۔
محمد بن ادریس شافعی جو ۱۵۰ ہجری میں جعفر صادق (علیہ السلام ) کی پیدائش کے دو سال بعد غزہ میں پیدا ہوئے اور ۹۹ ہجری میں قاہرہ میں فوت ہوئے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ماں کو اپنے بچے کو بائیں طرف سلانا چاہیے یا دائیں طرف ۔
تو انہوں نے جواب دیا دائیں اور بائیں میں کوئی فرق نہیں ماں اپنے بچے کو جس طرف آسان سمجھے اس طرف سلائے بعض لوگوں نے جعفرصادق (علیہ السلام ) کے فرمان کو عقل سلیم کے خلاف قرار دیا چونکہ ان کے خیال میں دایاں بائیں سے زیادہ محترم ہے ان کا خیال تھا کہ مان اپنے بچے کو دائیں جانب سلائے تاکہ بچہ اس کے دائیں جانب کرامت سے بہرہ مند ہو سکے ۔
جعفر صادق (علیہ السلام ) کی اس وصیت کو نہ تو مشرق میں کوئی اہمیت دی گئی اور نہ ہی مغرب میں کسی نے اس کی قدرو قیمت کو جانا ۔ حتی کہ علمی احیاء کے دور میں جب کہ دانشور ہر علمی موضوع پر اچھی طرح غور کر رہے تھے کسی نے جعفر صادق (علیہ السلام ) کے قول کو خاطر خواہ اہمیت نہ دی اور نہ ہی یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ آپ کا یہ فرمان علمی نقطہ نظر سے سود مند ہے یا نہیں ؟
سولہویں ‘ سترہویں اور اٹھارویں صدی عیسوی کے ادوار جو علمی احیا کے ادوار کہلاتے ہیں گزر چکے تھے اور انیسویں صدی عیسوی پہنچ آئی تھی اور اس صدی کی دوسری دھائی میں امریکہ کی کورنیل یونیورسٹی قائم ہو کر کام کرنا شروع کر چکی تھی عزراکورنیل جو کورنیل یونیورسٹی کا بانی تھا اور جس نے بچپن میں کافی مشکلات جھیلی تھیں نے فیصلہ کیا کہ اس یونیورسٹی میں شیر خوار اور تازہ پیدا ہونے والے بچوں پر تحقیق کیلئے ایک انسٹیٹیوٹ قائم کیا جائے اور اس انسٹیٹیوٹ نے پہلے ہی سال تدریس شروع کر دی اور اسے میڈیکل کالج سے منسلک کر دیا گیا ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے کہ اس یونیورسٹی میں تازہ پیدا ہونے والے اور شیر خوار بچوں پر تحقیق کا کام جاریہے بعید ہے کہ نوازائیدہ اور شیر خوار بچوں کے متعلق کوئی موضوع ایسا ہو جس پر اس انسٹیٹیوٹ میں تحقیق نہ ہوئی ہو دنیا میں کوئی ایسا علمی مرکز نہیں ہے جس میں تازہ پیدا ہونے والے اور شیر خوار بچوں کے بارے میں اس مرکز جتنی معلومات کا ذکیرہ ہو یہاں تک کہ تازہ پیدا ہونے والے اور شیر خوار بچوں کے اشتہارات اور سائن بورڈ پر تک بھی اس انسٹیٹیوٹ میں تحقیق ہوتی تھی ۔
اس بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں اس انسٹیٹیوٹ کے محقیقین نے دنیا کے عجائب گھروں میں پائے جانے والے نو مولود بچوں کے متعلق سائن بورڈوں پر نگاہ ڈالی تو انہیں پتہ چلا کہ ۴۶۶ سئن بورڈوں میں سے اکثریت ایسی ہے جن میں ماؤں نے بچے کو بائیس جانب بغل میں لیا ہوا ہے ان میں سے ۳۷۳ سائن بورڈوں پر ماؤں نے بچے کو بائیں جانب بغل میں لیا ہوا ہے اور صرف ۹۳ سائن بورڈ ایسے ہیں جن میں ماؤں نیبچے کو دائیں طرف بغل میں لیا ہوا ہے ۔
اس بنا پر عجائب گھروں میں پائے جانے والے اسی فیصد سائن بورڈ ایسے تھے جن میں ماؤں نے بچے کو بائیں بغل میں لیا ہوا تھا نیویارک کی ریاست میں کورنیل یونیورسٹی سے منسلک چند زچہ خانے ایسے ہیں جو حقیقی کے مرکز سے وابستہ ہیں اور وہاں پر کام کرنے والے ڈاکٹر صاحبان اپنے معائنے اور تحقیق کی رپورٹیں مذکورہ مرکز کو بھجتے رہتے ہیں ان ڈاکٹروں کی طرف سے ۔
ایک طویل مدت تک بھیجی جانے والی مذکورہ رپورٹوں کے مطابق پیدائش کے بعد پہلے دنوں میں جب نو مولود ماں کی بائیں جانب سوتا ہے تو اسے دائیں جانب سونے کی نسبت زیادہ آرام ملتا ہے اور اگر اسے دائیں طرف سلایا جائے تو جلد ہی جاگ اٹھتا ہے اور رونے لگتا ہے ۔
مذکورہ تحقیقی مرکز کے محقیقین نے اپنی تحقیق کا دائرہ کار صرف سفید فام امریکنوں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ انہوں نے سیاہ فام اور ریڈ انڈین بچوں پر بھی تحقیق کی ہے اور طویل تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس موضوع کا تعلق رنگ و نسل سے نہیں دنیا کی تمام اقوام کے بچوں میں یہ خاصیت موجود ہے کورنیل یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز نے اس موضوعپر مسلسل تحقیق کی تھی اس مرکز کے ڈاکٹروں نے نا معلوم شعاعوں کے ذریعے جنین کا حاملہ عورت کے پیٹ میں معائنہ کیا لیکن ان کی معلومات میں کوئی خاص اضافہ نہ ہوا یہاں تک کہ ہو لو گرافی ایجاد ہو گئی ۔
ہو لو گرافی کی ایجاد کے بعد اس تحقیقی مرکز کے ڈاکٹروں نے ہو لو گرافی کے ذریعے ماں کے پیٹ میں جنین کی تصویر لی ‘ انہوں نے دیکھا کہ ماں کے دل کی دھڑکن کی آوازوں کی لہریں جو تمام بدن میں پھیلتی ہیں جنین کے کانوں تک پہنچتی ہیں ۔
اس مرحلے کے بعد ڈاکٹروں نے یہ معلوم کیا کہ کیا ماں کے دل کی دھڑکنوں کا وقفہ بھی جنین میں رد عمل ظاہر کرتا ہے یا نہیں ؟
چونکہ ڈاکٹر صاحبان مان کے دل کی دھڑکن کو ہلاکت کے اندیشے سے نہیں روک سکتے تھے لہذا نہوں نے اس تحقیق کو ممالین یعنی دودھ دینے والے جانوروں پر جاری رکھا انہوں نے جو نہی ماں کے دل کی دھڑکن رو کی انہوں نے دیکھا کہ جنین میں رد عمل پیدا ہوا ۔
جب انہوں نے یہ تجربات بار بار دھرائے تو انہوں نے یقین کر لیا کہ ممالین جانوروں کے دل کی دھڑکن کو روکنے سے ان کے جنین میں رد عمل ظاہر ہوتا ہے اور ماں کی موت کے بعد جنین بھی ہلاک ہو جاتا ہےکیونکہ ماں کے دل سے نکلنے والی ایک بڑی شریان جنین کو خون پہنچاتی ہے جو اس کی غذا بنتا ہے اور جب دل ساکن ہوجائے گا تو جنین کو غذا نہیں پہنچے گی اور وہ ہلاک ہو جائے گی ۔
کورنیل یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز کے سائنس دانوں نے متعدد تجربات سے یہ اخذ کیا ہے کہ بچہ نہ صرف یہ کہ ماں کے پیٹ میں اس کے دل کی دھڑکنوں کو سننے کا عادی ہو جاتی ہے بلکہ ان دھڑکنوں کا اس کی زندگی سے بھی گہرا تعلق ہے اگر یہ دھڑکن رک جائے تو بچہ ماں کے پیٹ میں بھوک سے مر جائے ۔
ماں کے دل کی دھڑکن سننے کی جو عادت بچے کو پیدائش سے پہلے ہوتی ہے وہ اس میں اس قدر نفو کر جاتی ہے کہ بچہ پیدائش کے بعد اگر ان دھڑکنوں کو نہ سنے تو پریشان ہو جاتی ہے بچہ ان دھڑکنوں کی بخوبی پہچان رکھتا ہے جس وقت بچے کو مان کی بائیں جانب سلایا جاتا ہے تو بچہ ان دھڑکنوں کو سن کر پر سکون رہتا ہے لیکن چونکہ دائیں جانب دل کی دھڑکنیں سنائی نہیں دیتیں لہذا بچہ مضطرب ہو جاتا ہے ۔
اگر کورنیل یونیورسٹ کا بانی نو مولود اور شیر خوار بچوں پر تحقیق کا یہ مرکز قائم نہ کرتا تو اس موضوع پر ہر گز تحقیق نہ ہوتی اور یہ معلوم نہ ہو سکتا کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام ) نے یہ کیوں فرمایا کہ مائیں اپنے شیر خوار بچوں کو بائیں طرف رکھیں اور سلائیں ؟ اور اس میں کیا مصلحت اور فوائد مضمر ہیں ۔
ان میں جس جس کمرے میں نو مولود لیٹیہوتے ہیں وہاں ایک مشین رکھی ہوتی ہے جس سے ماں کے دل کی دھڑکنوں جیسی آواز سنائی دیتی ہے یہ آواز ایک ریسیور کے ذریعے ہر بچے کے کان تک پہنچائی جاتی ہے بالغ انسان چاہے مرد ہو یا عورت عموما اس کا دل ایک منٹ میں ۷۲ بار دھڑکتا ہے کورنیل یونیورسٹی سے وابستہ تحقیقی انسٹی ٹیوٹ میں قائم شیر خوار بچوں کی پرورش کے مذکورہ مراکز میں اگر ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنیں ایک سو دس سے بیس ہو جائیں تو ایک کمرے میں موجود تمام بچے رونے لگتے ہیں پس سائنس دانوں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنیں ۷۲ دھڑکنیں فی منٹ ہونا چاہیے تاکہ بچے پیرشان نہ ہوں اور رونے نہ لگیں ۔ مذکورہ مراکز میں چند مرتبہ یہ تجربات دھرائے گئے ہیں ۔
کچھ نو مولودوں کو ایک ایسے کمرے میں رکھا گیا جہاں ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنیں ان کے کانوں تک نہیں پہنچتی تھیں اور کچھ نو مولودوں کو ایک دوسرے کمرے میں رکھا گیا جہاں وہ ماں کے دل دل مصنوعی دھڑکنیں سن سکتے تھے اس دوران یہ معلوم ہو اکہ وہ نو مولود جن کے کانوں تک ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنیں پہنچ رہی تھیں حالنکہ دونوں کمروں والے بچوں کی غذا ایک جیسی تھی لیکن وہ کمرہ جہاں ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنیں سنائی دے رہی تھیں اس کے بچے زیادہ بھوک کا اظہار کرتے ہوئے غذا کھاتے تھے اور جب کہ اس کے برعکس دوسرے کمرے والے کم بھوک والے ہوتےتھے ۔
کورنیل یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز سے وابستہ شیر خوار بچوں کی پرورش کے مراکز میں ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنوں کی شدت کے لحاظ سے بھی تحقیق کی گئی ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر یہ دھڑکنیں ماں کے دل کی قدرتی دھڑکنوں کی آواز سے زیادہ شدید ہوں تو بچے مضطرب ہو کر رونے لگتے ہیں ۔
کورنیل یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز کے ایک ڈاکٹر نے دنیا کے براعظموں کا سفر کرکے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ مختلف ممالک میں مائیں اپنے بیٹوں کو اٹھائے ہوئے کسی طرف گود میں لیتی ہیں ؟
یہ ڈاکٹر جس کا نام ڈاکٹر لی سالک بیان کیا جاتا ہے اور ابھی تک کورنیل یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز میں کام میں مشغول ہے اس کے بقول دنیا کے تمام براعظموں میں مائیں اپنے بیٹوں کو بائیں طرف کی بغل میں لیتی ہیں اور وہ خواتین جو اپنے بیٹوں کو دائیں طرف والی بغل میں لیتی ہیں ان میں سے اکثر بائیں ہاتھ سے کام کرنے والی ہیں۔
خصوصا جب وہ ٹوکری اٹھاتی ہیں تو اپنے بچوں کو دائیں طرف والی آغوش میں لیتی ہیں تاکہ وہ بائیں ہاتھ سے ٹوکری اٹھا سکیں ۔
ڈاکٹر لی سالک نے تحقیقی مرکز سے منسلک بچوں کی پرورش گاہ میں زچہ خواتین سے جو پیدائش کے بعد وہاں سے چلی جاتی ہے اور نو مولودوں کو بائیں طرف بغل میں لیتی ہیں سوال کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آ اپنے بچے کو بائیں بغل میں کیوں رکھتی ہیں ؟
لیکن ابھی تک کسی خاتون نے ڈاکٹر لی سالک کو جواب نہیں دیا کہ چونکہ دل سینے کے بائیں حصے میں واقع ہے اور بچوں کیلئے اس کی دھڑکنوں کا آواز سننا مفید ہے مائیں اس بات سے آگاہ نہیں کہ وہ بچے کو بائیں طرف رکھنے کو کیوں ترجیح دیتی ہیں پھر بھی وہ بچے کو بائیں طرف بغل میں رکھتی ہیں ۔
یہاں تک کہ افریقہ کے سیاہ فام قبائل کی عورتیں جب بچے کو پیٹھ پر نہیں اٹھاتیں تو اسے بائیں جانب بغل میں رکھتیہیں اور افریقہ کے تمام سیاہ فام قبائل میں خواتین کو علم ہے کہ بچے کو بائیں طرف سینے پر رکھنے سے اس کی بھوک بڑھتی ہے اور وہ خوب دودھ پیتا ہے جب کہ دائیں طرف کے اثرات اس کے برعکس ہیں ڈاکٹر لی سالک نے ماؤں سے سنا ہے کہ رات کو بچہ جب بھوکا ہوتا ہے تو اندھیرے میں حیران کن تیزی سے مان کے پستان کو تلاش کرکے اس پر منہ رکھ کر دودھ پینا شروع کر دیتا ہے ۔
انہیں تعجب ہے کہ بچہ روشنی کے بغیر ہی ماں کے پستان کو ڈھونڈ کر اس سے دودھ پینا شروع کر دیتا ہے۔
ڈاکٹر لی سالک نے ماؤں کو بتایا کہ رات کی تاریکی میں ماں کے پستان سے دودھ پینے میں ماں کے دل کی دھڑکن بچے کی مدد کرتی ہے اور جب بچہ ماں کے دل کے دھڑکنے کی آواز سنتا ہے تو فورا پستان کو ڈھونڈ کر دودھ پیتا ہے ۔

ہرشے متحرک ہے
امام جعفر صادق (علیہ السلام ) کے اہم نظریات میں ایک اورنظریہ اشیاء کی حرکت کے متعلق ہے آپ نے فرمایا جو کچھ موجود ہے حرکت کر رہا ہے حتی کہ جمادات بھی متحرک ہیں اگرچہ ہماری آں کھیں ان کی حرکات کو نہیں دیکھ سکتیں لیکن کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو متحرک نہ ہو ۔
یہ بات جعفر صادق (علیہ السلام ) کے زمانے میں قابل قبول نہیں نہ آيی تھی جب کہ آج نا قابل تردید حقیقت ہے اور کائنات میں کوئی ایسا جسم نہیں جو متحرک نہ ہو علم اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ کیا حرکت کے بغیر بھی کسی چیز کا وجود ہو سکتا ہے تصور کی بھی کوئی طاقت کسی سکن جسم کا اتہ پتہ نہیں بتا سکتی جو نہی حرکت رکی تصور کی وہ طاقت جسے حرکت کو فرض کرنا تھا ختم ہو گئی چونکہ جس لمحے حرکت رک جاتی ہے انسان مر جاتا ہے ۔
جعفر صادق (علیہ السلام ) نے ساڑھے بارہ سو سال پہلے اس حقیقت کو بیان کیا اور فرمایا تھا کہ جس لمحے حرکت رک جاتی ہے انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے ۔
لیکن موت کے بعد بھی ایک دوسری طرف سے حرکت جاری رہتی ہے ورنہ ادمی کا جسد خراب نہ ہو ہم زمانے میں تبدیلی کو صرف حرکت کے زیر اثر احساس کرتے ہیں اور اگر ہمارے وجود میں دائمی حرکت نہ ہو تو ہم ہرگز لمبائی چوڑائی اور بلندی وغیرہ کو استنباط نہیں کر سکتے تاکہ مکان کا کھوج لگائیں ہر ساکن جسم میں دو قسم کی دائمی حرکت موجود ہوتی ہے پہلی حرکت جو ایٹم کیاندر ہے اور گذشتہ صفحات میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ الیکٹران ایٹم کے مرکز کے ارد گرد ایک سیکنڈ میں تین کیٹریلین مرتبہ چکر لگاتا ہے دوسری حرکت مالیکیولوں کی دائمی ارتعاش ہے اور ہر جسم کے مالیکیول سردی ہوچاہے گرمی ہو صفر سے دس کیٹریلین مرتبہ فی سیکنڈحرکت کرتے ہیں ۔
فرانسیسی ڈرامہ نویس مولیر جو فرانسیسی کامیڈی کا بانی ہے اس نے اپنے ایک ڈرامے کے ہیرو کے متعلق کہا کہ وہ زندہ تھا لیکن حرکت نہیں کر رہا تھا ۔
یہاں تک کہ مولیر خود بھی متعجب تھا کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک چیز حرکت نہ کرے اور وہ زندہ ہو ۔
آج یہ مذاق قابل قبول نہیں ہے اگر کوئی جسم ساکن ہوتو وہ مردہ ہے اور جعفر صادق (علیہ السلام ) کے بقول موت کے بعد بھی اس کے اندر حرکت جاری رہتی ہے لیکن دوسری شکل میں اور وہ حرکت دنیا کے آخری دن تک باقی رہتی ہے اگرچہ انسانی جسم سے بچنے والے ذات مادہ نہ رہیں اور توانائی میں تبدیل ہو جائیں اس صورت میں وہ توانائی کی شکل میں حرکت جاری رکھیں گے جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا جو کچھ ہے خالق کا گرویدہ ہے یہ نظریہ آج تک عرفانینظریہ سمجھا جاتا رہا نہ کہ علمی نظریہ ۔
جعفر صادق (علیہ السلام ) جن عرفا میں سے تھے ( لیکن آپ کا مخصوص عرفان دین اسلام پر مبنی تھا ) ان کا کہنا تھا کہ آدمی کی تخلیق کا یہ مقصد ہے کہ وہ آخر کار خداوند تعالی سے مل جائے ۔
وقت کے گزرنے کے ساتھ تصوف و عرفان کے گوناں گوں فرقے وجود میں آئیا ور یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نظریہ کے کچھ پیروکاروں نے بے باکی دکھائی اور خدا تک پہنچنے کے نظریئے کو خدا ہونا بنا لیا اور یہ وہی نظریہ ہے جو مشرق و مغرب کے عرفا میں وحدت وجود کے نام سے پھیل چکا ہے اور حتی کہ اپسی نوزا کی مانند ایک فلسفی بھی وحت وجود کے عرفانی مکتب کا پیرو کار بن گیا اور اس نے اپنے فلسفے کو وحدت وجود کی بنیاد پر لکھا اور چھپوا دیا ۔
عرفا کہتے تھے کہ چونکہ خدا کے علاوہ کوئی چیز موجود نہیں ہے لہذا جو کچھ ہے یعنی جسم اور روح درخت اور حیوانات اور چار عناصر سب خدا ہیں پس انسان بھی خدا ہے لیکن عرفان و تصوف و فلسفے کی تاریخ کے دوران اس نظریہ کا صرف ایک مرتبہ ڈنکا بجا اور وہ بھی ہالینڈ کے اپسی نوزا کی طرف سے سترھویں صدی کے نصف کے دوران میں ۔
اس وقت اپسی نوزا کی کتابوں کو نہیایت تیز ی سے جمع کیا گیا اور کتابیں چھاپنے والوں نے اس کی کتاب چھاپنے سے صاف انکار کر دیا چونکہ انہیں علم تھ اکہ ایسا کرنا ان کیلئے خطرناک ہے ۔
صوفیاء اور عرفان جو وحدت وجود کے قائل تھے نے اس نظریئے کو اصلاحات اور تعبیرات کی گھتی میں اس طرح الجھا دیا کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس سے کچھ بھینہیں سمجھ سکتا تھا جعفر صادق (علیہ السلام ) کی مذہبی ثقافت میں توسیع کی بعد مشرقی ممالک میں گوناگوں مسائل پر بحث آزاد ہو گئی تھی لیکن پھر بھی وحدت وجود کے حامیوں کو کھلم کھلا اپنا نظرہ بیان کرنے کی جرات نہیں ہوئی کیونکہ ان کے بعض خلفاء اور حکام متعصب تھے اور اس بات کا امکان تھا کہ وہ وحدت وجود کے نظریہ کے حامیوں کو قتل کر دیتے جو کوئی اس نظریئے کا حامی ہوتا اگر وہ قتل نہ بھی کیا جاتا تو مذہبی علما اس پر کفر کا فتوی ضرور لگاتے اورجس پر یہ فتوی لگ جاتا وہ جذام کے مریض سے بھی بد تر سمجھا جاتا اسے آبادی سے باہر نکال کر دور دراز مقام پر پہنچا دیا جاتا ۔
چونکہ جذام کے مریضوں پر رحم کھایا جاتا تھا انہیں زمین اور کھیتی باڑی کا سازو سامان مہیا کیا جاتا تاکہ وہ خود کاشت کریں اور اپنے لئے غلہ پیدا کریں جس پر ایک دفعہ کفر کا فتوی لگ جاتا تو اس پر کسی قسم کا رحمنہ کھایا جاتا اگر وہ کہیں کام کر رہا ہو تا تو اسے وہاں سے نکژال دیا جاتا اور کوئی اس کو کام نہ دیتا اگر وہ سودا گر ہوتا تو نہ اس سے کوئی سودا سلف کریدتا اور نہ اس کو سودا بیچتا اگر وہ صنعتکار ہوتا تو کوئی اس سے کسی چیز کے بنانے کیلئے رجوع نہ کرتا جب وہ اپنے گھر سے باہر آتا تو لوگ اسے تکلیف پہنچاتے اور اس پر عرصہ حیات اس قدر تنگ کر دیا جاتا کہ اس کیلئے گھر سے نکلنا محال ہو جاتا یہاں تک کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر ہجرت بھی نہ کر سکتا تھا یہی وجہ تھی کہ وحد ت وجود کے نظریے کے پیروکاروں نے اپنے نظریئے کو اصطلاحات اور تعبیرات کے لفافے میں اس طرح بند کیا کہ ان کے سوا کسی دوسرے کوخبر نہ ہوتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور مذہبی علماء ان کے اس کہنے کی بنا پر ان پر کفر کا فتوی نہیں لگا سکتے تھے ۔
صوفیا اور عرفا نے اپنی گفتگو کیلئے میکدہ ‘ ساقی ‘ ‘معشوق ‘ مینا ‘ ساغر اور مئے وغیرہ کی اصطلاحات ایجاد کر لیں اور جب فارسی زبان میں عرفانی شاعری کا رواج ہو ا تو ہ اصطلاحیں جوں کی توں شعر کی زبان میں داخل ہو گئیں اب وہ لوگ جو صوفی اور عارف نہیں تھے جو کچھ عارفوں نے شعروں میں کہا وہ ان کی سمجھ میں نہیں آیا اس طرح صوفیا اور عرفا کفر کے فتوی سیبچ گئے جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ تصوف اور عرفانی سوچ نے تیسری صدی سے زور پکڑا اور اس وقت صوفیا اور عرفا نے یہ خیال کیا کہ جعفر صادق (علیہ السلام ) کا یہ عرفان کہ ہر چیز خدا کی طرف لوٹتی ہے وحدت وجود کا عقیدہ ہے اور اپ کا بھی یہی عقیدہ تھا ۔
جب کہ جعفر صاد ق (علیہ السلام ) وحدت وجود کے معتقد نہ تھے اور مخلوق کو خالق سے جداجانتے تھے دین اسلام کے اصول کے مطابق آپ کا عقیدہ تھا کہ کائنات میں جو کچھ ہے خالق کا تخلیق کیا ہوا ہے بعد میں آنے والے زمانوں میں جب علوم کی درجہ بندی اس طرح کی گئی کہ عرفان اور فلسفہ کو علوم سے جدا کیا گیا علماء نے جعفر صادق (علیہ السلام ) کے اس نظریئے کو کہ ہر چیز خدا کی طرف لوٹتی ہے کہ عرفانی نظریہ سمجھا ہے نہ کہ علمی لیکن آج علماء پر علوم کے میدان میں یہ حقیقت واضح ہوئی ہے کہ جو کچھ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا تھا اس کا تعلق علم سے ہے نہ کہ عرفان سے
ابھی اس بارے میں دو ٹوک الفاظ میں اظہار خیال کرنا قبل از وقت ہے تمام چیزں صرف ایک چیز (جعفر صادق (علیہ السلام ) کے بقول خدا کی طرف پلٹی ہیں ۔
لیکن یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ہر دفعہ جب الیکٹران سے شعاع نکلتیہے تو وہ شعاع ایک طرف کو جاتی ہے اور جب تک اس کے راستے میں مقناطیسی قوت حائل نہ ہو وہ اطراف میں نہیں پھیلتی البتہ وہ اس صورت میں اطراف میں پھیلتی ہے جب برقی اور مقناطیسی لہر کا جزو شمار ہوں کہ اس صورت میں وہ اطراف میں پھیلتی ہیں یہی لہریں ہیں جن سے ٹیلی فون ‘ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کام کرتے ہیں ۔
ہم الیکٹرانوں کی ایک ہی سمت میں حرکت کو قطب نما کی سوئی کے ذریعے محسوس کر سکتے ہیں جو ہمیشہ شمال کی جانب رہتی ہے کہا جاتا ہے کہ کرہ زمین میں قطب نما شمالی قطب کے مقناطیسی میدان کی طرف کھنچا رہتا ہے اور اسی بنا پر قطب نما کی سوئی شمال کی جانب رہتی ہے ۔
قطب نما مسلمانوں کی ایجاد ہے اور جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ اس ایجاد نے سمندری سفر میں کافی مدد کی ہے اگر قطب نما ایجاد نہ ہوتا تو نہ تو پرتگال کا باشندہ واسکوڈے گاما پندرھویں صدی کی دوسری دھائی میں کشتی کے ذریعے جنوبی افریقہ ‘ ہندوستان پہنچ سکتا تھا اور نہ اٹیلی کا کرسٹوفرکولمبس اپنے زمانے میں کشتی کے ذریعے امریکہ دریافت کر سکتا تھا اور نہ پرتگالی ماجیلان اسپین کے بادشاہ کے خرچ پر کشتی کے ذریعے دنیا کے اطراف میں چکر لگا سکتا تھا اس طرحاس نے نا قابل تردید طور پر ثابت کیا ہے کہ زمین گول ہے جیسا کہ ہم مانتے ہیں کہ آج بھی قطب نما جہازرانی کیلئے انتہائی ضرورت ہے اس کے باوجود کہ ہوائی جہاز کا رابطہ ایئر پورٹ کیساتھ مسلسل قائم رہتا ہے اور کنٹرول ٹاور سے اسے ہدایات ملتی رہتی ہیں کوئی ہوائی جہاز قطب نما سے بے نیا زنہیں ۔
جب خلائی جہاز چاند پر پہنچے تو ان کے قطب نما کی سوئی اس طرح شمال کی جانب مڑی رہی اس پر سائنس دانوں نے گمان کیا کہ قطب نما ابھی تک زمینی مقناطیس کے زیر اثر ہے دوسرے ستاروں کی جانب جانے والے خلائی جہازوں میں قطب نما ابھی تک زمینی مقناطیس کے زیر اثر ہے دوسرے ستاروں کی جانب جانے والے خلائی جاہزوں میں قطب نما کچھ عرصہ کیلئے ناکارہ رہنے کے بعد ستاروں کے شمالی علاقے کی نشاندہی کرتا ہے ( اسے زمین کا شمال نہ سمجھا جائے ) اور اس طرح جیسے ہر جگہ شمال کی جانب رخ کرنے والی ایک مقناطیسی سوئی موجود ہے اور دوسرے سیاروں مثلا مریخ زہرہ اور مشتری کی جانب جانے والے خلافئی جہازوں میں کوئی دوسر چیز سامنے آئے جس سے ابھی تک لوگوں کو اطلاع نہیں ہے ۔ البتہ چونکہ آج اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی کی مانند علمی معلومات رکھنے والے ان معلومات کو مفت لوگوں کے حوالے نہیں کرتے اس دور میں بعض علمی معلومات فوجی رازوں کا حصہ ہیں اور جو حکومتیں اپنے خلائی جہازوں یا مصنوعی سیاروں کی مدد سے یہ معلومات حاصل کر لیتی ہیں وہ انہیں ظاہر نہیں کرتیں ۔
ہمیں معلوم ہے کہ دوسرے سیاروں کی جانب سفر کرنے والے خلائی جہاز جن کو سفر میں کئی ماہ لگتے ہیں قطب نما کے بغیر سفر کرتے ہیں ۔
اس کے باوجود کہ چاند زمین سے نزدیک ہے چاند کی طرف سفر کرنے والے اپالو کو قطب نما کی ضرورت پیش نہیں آئی چونکہ قطب نما جب زمین کے مقناطیسی فیلڈ سے دور ہوتا ہے اس میں گڑ بڑ شروع ہو جاتی ہے اور وہ کسی خاص سمت کی نشاندہی نہیں کرتا ۔
بعض اوقات زمین پر بھی برقی فیلڈ کی موجودگی کی وجہ سے قطب نما فضا میں گڑ بڑ کرنے لگتا ہے اور قطب نما کی سوئی ہر لمحے مختلف سمتوں کی نشاندہی کرتی ہے چونکہ آج تمام بہر جہاز فولاد سے بنائے جاتے ہیں لہذا قطب نما کو ان میں اس طرح فٹ کیا جاتا ہے کہ وہ بحری جہاز کی دھات سے کوئی ربطہ نہ رکھتا ہو ورنہ اس میں خلل پڑ سکتا ہے اور یہاں تک کہ بعض اوقات ستر درجے تک غلطی کر جاتا ہے (قطب نما پر لگے ہوئے کل درجے تین سوساٹھ ہیں )۔
اگر کرسٹو فرکولمبس کے امریکہ کی جانب سفر کرنے والے بحری جہاز لکڑی کے بنے ہوئے نہ ہوتے اور لوہے کے بنے ہوتے تو وہ اٹالین کشتی ران ہر گز امریکہ دریافت نہ کر سکتا قطب نما کی غلطی اسے کسی اور سمت میں لے جاتی۔
موجودہ زمانے کے مشہور طبیعات دانوں میں سے ایک پروفیسر ڈاش ہے جو واشنگٹن یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے یہ شخص جو ماہر فلکیات بھی ہے کائنات کے بارے میں ایک ایسا نظریہ رکھتا ہے جس سے جعفر صادق (علیہ السلام ) کے اس نظریئے کی تائید ہوتی ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہے اس نے خالق کی طرف لوٹنا ہے ہم سب جانتے ہیں کہ علم نے انیسویں صدی سے لے کرآج تک کائنات کی صورت و حرکت کی وضاحت کرنے پر توجہ دی ہے اور اس ضمن میں تین علماء کی جانب سے متعدد نظریات پیش کئے گئے ہیں لیکن یہ تمام نظریات صرف تھیوری کی حد تک محدود رہے ہیں ۔
علم کائنات میں موجود بعض قوانین مثلا قوت تجاذب کے قانون سورج کے اردگر د سیاروں کے گھومنے کا قانون اور آزاد اجسام کے گرنے کے قانون کی جانب توجہ دی ہے اور یہ تمام قوانین انیسویں صدی عیسوی میں پہلے دریافت ہو چکے تھے ۔
سائنس دانوں نے جو کچھ آج تک کائنات کی شکل و صورت اور حرکات ( محسوس ہونے والی حرکات کے علاوہ ) کے بارے میں کہا ہے اس کا تعلق تھیور ی سے ہے ۔