ابن راوندی اپنی کتاب میں موت کا راز فاش نہ کر سکا اور جیسا کہ ہمارے مطالعے میں یہ بات آئی ہے اس نے عباسی خلیفہ المتوکل سے کہا ‘ موت کا راز کسی راستے سے افشا نہیں ہو سکتا ۔ لیکن اپنی کتاب میں موت کے بارے میں ایسے نظریات پیش کئے جو شاید آج کسی کی نظر میں کسی خاص اہمیت کے حامل نہ ہوں لیکن ساڑھے گیارہ سوسال پہلے پر کشش نظریات تھے ان میں اس نے کہا ہے کہ کوئی بھی یہبات نہیں سمجھ سکتا کہ اسکی موت کیسے واقع ہوتی ہے ۔
جب تک وہ موت کو خود نہ آزمائے اسے درک کرنے پر قادر نہیں ہو سکتا ۔ دوسروں کی موت کے مشاہدے سے انسان اپنی موت کیلئے کچھ نہیں سیکھ سکتا ‘ اور جب تک انسان موت کو اپنے اوپر نہ ازمائے اس وقت تک اسکی سمجھ میں یہ بات نہیں آ سکتی کہ موت کیسی ہوتی ہے ؟ ابن راوندی کا موت کے بارے میں دوسرا نظریہ ہے کہ کوئی بھی اپنے آپ کو مردہ نہیں سمجھ سکتا اور انسان جب تک زندہ ہے اس کیلئے محال ہے کہ وہ اپنے آپ کو مردہ گردانے اسلئے کہ اگر اسے علم ہو کہ مردہ ہے تو یہ بات اسکی دلیل ہے کہ وہ زندہ ہے اگر زندہ نہ ہوتا تو اسے مرنے کا علم کہاں سے ہوتا ؟
موت کے متعلق ابن راوندی کا تیسر نظریہ اس عرصہ کے بارے میں ہے جب انسان مردہ ہوتا ہے اور زندہ نہیں ہوتا ابن راوندی کہتا ہے کہ کسی مردے کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ وہ مردہ ہے اس نظریئے کے متعلق اس نے دیسی ہی دلیل دی ہے جو دوسرے نظریہ کے ضمن میں پیش کی ہے ۔
وہ کہتا ہے اگر مردہ یہ جان لے کہ مردہ ہے تو اس صورت میں وہ مردہ نہیں ہو گا بلکہ زندہ ہو گا ۔ ابن راوندی کہتا ہے مردہ میں اپنے آپ کو پہچاننے کا شعور نہیں ہوتا کیونکہ شعور زندہ لوگوں کی کھلم کھلا صفات میں ہے اور اگر مردہ اپنے آ کو پہچان لے اور اس بات سے اگاہ ہو جائے کہ وہ مردہ ہے تو اس صورت میں وہ زندہ شمار ہو گا نہ کہ مردہ اس وجہ سے عام عقیدہ کے بر خلاف وہ یہ نہیں دیکھ سکتا کہ اس کے رشتہ دار اس کے سرہانے کھڑے رو رہے ہیں کیونکہ اگر انہیں دیکھ لے اور ان کی گریہ و زاری سن لے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ زندہ ہے اور اگر مردہ ہوتا تو ہر گزنہ جان سکتا کہ مردہ ہے وہ نہ ہی اپنے ارد گرد کھڑے لوگوں کو دیکھ سکتا ہے اور نہ ان کے رونے کی آواز سن سکتا ہے ۔
ابن راوندی نے موت کے متعلق چوتھا نظریہ یہ پیش کیا کہ کوئی بھی مردہ اپنے آپ کو مرنے سے پہلے نہیں پہچان سکتا ۔ اس کے بقول ‘ اگر فرض کریں ابوالحسن مر جائے (ابوالحسن ‘ ابن راوندی کی کنیت تھی ) پھر اسے قبر میں رکھ کر دفن کر دیں تو اسے اس بات کا شعور نہیں ہو گا کہ وہ مرنے سے پہلے ابوالحسن تھا ‘ کیونکہ اگر جان لے کہ مرنے سے پہلے ابوالحسن کے نام سے پکارا جاتا تھا ‘ تو ضرور اس کو اپنی شناخت کا شعور ہو گا ۔ اور جو کوئی باشعور ہے مردہ نہیں کہلا سکتا ۔
موت کے بارے میں ابن راوندی کا پانچواں نظریہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا چار نظریات اس بات سے اخذ کئے گئے ہیں کہ آدمی اپنے آپ کو اس بات کا قائل نہیں کر سکتا کہ وہ ایک دن مرے گا اور اس دنیا سے اٹھ جائے گا ۔
انسان گمان کرتا ہے کہ وہ ہر گز نہیں مرے گا اور جب اسے قبر میں ڈالیں گے تو زندہ ہو جائے گا البتہ وہاں اس کی زندگی کی کیفیت اس دنیا سے مختلف ہو گی ۔ نیند ان اسباب میں سے ہے جو اس عقیدت کی تقویت کا باعث بنے ہیں ‘ انسان گمان کرتا ہے کہ جس طرح وہ اس نیند سے بیدار ہو جاتا ہے اسی طرح وہ موت کی نیند کے بعد بھی بیدار ہو جائے گا انسان جو مناظر خواب میں دیکھتا ہے وہ اس کے اس عقیدے کو مزید تقویت پہنچاتے ہیں کہ حقیق موت کا وجود نہیں ‘ کتاب الفرند کے مصنف کے بقول انسان خواب میں اپنے آپ کو مردہ دیکھتا ہے تو وہ عین زندہ ہوتا ہے یا اس کے عزیز و اقارب اپنے آپ کو مردہ دیکھتے ہیں تو وہ عین زندہ ہوتے ہیں انسان گمان کرتا ہے کہ موت کے بعد بھی اس طرح کی کیفیت ہو گی جب وہ مر جائے گا تو اپنے آپ کو زندہ دیکھتا ہے خواب میں ان طرح طرح کے مناظر کو دیکھنا انسانی جسم کے اعضاء کی وجہ سے ممکن ہے اگر یہ جسمانی اعضاء نہ ہوں تو انسان سو ہی نہیں سکتا کہ وہ خواب دیکھے ابن راوندی کو علم تھا کہ قدیم مصر میں میتوں کو مومیائی کر دیتے تھے کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ ان کا گمان ہوتا تھا کہ اگر ڈھانچہ باقی رہے تو انسان مرنے کے بعد بھی زندہ رہے گا اور اپنی پہچان کر سکتے گا جس طرح وہ سونے کے دوراب خواب میں اپنی شناخت کر سکتا ہے لیکن ابن راوندی کے بقول مصر والے جس مردے کو مومیائی کرتے تھے وہ دل کے بغیر ہوتا تھا کیونکہ اسے مومیانے سے پہلے بدن کے تمام اندرونی اعضاء باہر نکال کر دور پھینک دیتے تھے پس یہ کیسے قابل قبول ہے کہ جس مردے کا دل نہ ہو ۔ وہ اپنی پہچان کر سکتا ہے کیونکہ ابن راوندی کا خیال تھا انسان جو مناظر خواب میں دیکھتا ہے ان کا تعلق دل سے ہے انسان اپنے آپ کو دل کے احاطے میں دیکھتا اور پہچانتا ہے اور بطور کلی جسطرح یہ قدیم لوگ روحانی احساساتکا سرچشمہ دل کو سمجھتے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ جو مناظر خواب میں نظر اتے ہیں ان کا وجود دل میں ہوتا ہے جیسا کہ ہم نے ملاحظہ کیا موت کے بارے میں ابن راوندی کے نظریات اس کے اپنے زمانے یعنی تیسری صدی کے اوائل میں قابل توجہ تھے ہم نے دیکھا کہ ابن راوندی نے خلیفہ کے حکم سے مجبورہو کر اپنی اس تمام تحریر کی اصلاح کی جس میں اس نے توحید اور نبوت اور قیامت کا انکار کیا تھا گویا اس نے اپنی تحریر واپس لے لی اس کے علاوہ ابن راوندی کی کتاب میں ایک اور عنوان بھی تھا جس کی وجہ سے عباسی خلیفہ کے دارالحکومت میں اس پر کفر کا فتوی لگا عباسی خلیفہ کے دارالحکومت میں کفر کے فتوے کی بات ہم اس لئے کرتے ہیں کہ وہ علاقے جہاں جعفری مذہبی ثقافت رائج تھی کسی نے اس دلیل کی بناء پر اس پر کفر کا فتوی نہیں لگایا بلکہ جن علاقوں میں علماء جعفری مذہبی ثقافت سے روشناس تھے ان کا عقیدہ تھاکہ وہ عنوان دین کی تقویت کا باعث ہے ۔
9; دین علمی سے متصادم نہیں
جو کچھ ابن راوندی نے اپنی کتاب میں لکھا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ دین کو بہانہ بنا کر علمی ترقی میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے اور یہ موضوع اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ اس کی تربیت جعفر صادق کے ثقافتی مکتب میں ہوئی تھی امام جعفر صادق علیہ السلام کے حلقہ درس میں اس زمانے کے تمام علوم پڑھائے جاتے تھے ان میں سے بعض کی تدریس پہلی مرتبہ ایک اسلامی مکتب میں شروع ہوئی تھی چونکہ جعفر صادق کا عقیدہ تھا کہ علوم میں جتنی ترقی ہو گی دین کی تقویت کا باعث ہو گا امام جعفر صادق کے حلقہ درس میں فلسفہ پڑھایا جاتا تھا جبکہ بعض مسلمان اساتذہ فلسفہ کی تدریس سے سخت پرہیز کرتے تھے اور معتقد تھے کہ فلسفہ کی تدریس مومنین کے عقیدہ کو بگاڑنے کا باعث بنتی ہے فلسفہ کے علاوہ جعفر صادق کے حلقہ درس میں فزکس ‘ کیمیاء طب ‘ جغرافیہ ‘ ہیئت ‘ حساب اور جیومیٹری بھی دینی علوم کے علاوہ پڑھائی جاتی تھیں ابن راوندی جس نے اس ثقافتی مرکز میں تربیت پائی تھی لکھا کہ دین علمی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہوتا ہے اور اس بنا پر وہ عباسی خلیفہ کے ارالحکومت میں خلیفہ کے غضب کا نشانہ بنا اور جب اس نے خلیفہ کی تنقید کو قبول کرکے اپنی کتاب کی درستی کر لی تو متوکل نے اسے اچھے خاصے انعام سے نوازا لیکن عباسیوں کے دارالحکومت کے علماء نے اس کی کتاب کے سارے حصوں کو تنقیدہ کا نشانہ بناتے ہوئے اسے منکر دین قرار دیا انہوں نے کہا جو توحید و نبوت و قیامت کا منکر ہے کس زبان سے کہتا ہے کہ دین کو علوم کی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہیے یہ بات تو اسے زیب دیتی ہے جو دین دار ہو جدید علوم کی تواریخ میں درج ہے کہ رابرٹہوک وہ پہلا شخص ہے جس نے تین سو سال پہلے لندن کے شاہی علمی اجتماع کے بانیوں میں سے ایک بانی فرد کی حیثیت سے پہلے اجلاس میں اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے مذہب کو علمی تحقیقات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے لیکن اس موضوع کی بنیاد حضرت جعفر صادق نے دوسری صدی ہجری کے اوائل میں رکھی تھی اور ابن راوندی جو جعفری ثقافتی مکتب کا تربیت یافتہ تھا اس نے تیسری صدی ہجری کے اوائل میں اپنی کتاب میں اسے لکھا جسے عباسیوں کے دارلحکومت میں نا پسند کیا گیا دوسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں کے دوران اسلامی ممالک میں یکے بعد دیگرے اسلامی فرقے وجود میں آ رہے تھے جن میں سے اکثر ترک دنیا کی طرف مائل تھی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا عیسائیوں کی خانقاؤں کے زیر اثر ہو رہا تھا جن میں پادری حضرات زندگی بسر کر رہے تھے لیکن امام جعفر صادق جو ترک دنیا کے مخالف تھے اور کہتے تھے کسی مسلمان کو اپنی زندگی گوشہ تنہائی میں الگ تھلک رہ کر فضول ضائع نہیں کرنی چاہیے ابن راوندی نے جعفری ثقافتی مکتب کا تربیت یافتہ ہونے کی وجہ سے اپنی کتاب میں ان اسلامی فرقوں کو جو گوشہ نشینی و ترک دنیا کی طرف مائل تھے سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ عنوان عباسیوں کے دارالحکومت میں ان مذہبی فرقوں کی نہ صرف ناراضگی کا باعث بنا بلکہ وہ اس پر غضب ناک بھی ہوئے ۔
ان کے غیض و غضب کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ابن راوندی کو کافی و مرتد قرار دیا۔ اور کہا اس جیسے شخص کو کوئیحق نہیں پہنچتا کہ ان کیمذہبی روش کے بارے میں اظہار خیال کرے گوشہ نشینی سے منع کرے اسلامی مذہبی فرقوں میں ایک طرح کا اعتکاف قابل تحسین ہے یہ اعتکاف روح کی پاکیزگی اور عالی مراتب تک پہنچنے کیلئے اماہ کرنے کی خاطر انجام دیا جاتا ہے اس طرح کے اعتکاف کی جعفر صادق نے بھی اجازت دی لیکن اس اعتکاف اور گروہی صورت میں گوشہ نشینی میں امتیاز رکھا ہے مسلمانوں کے ایک گروہ کی طرف سے دنیاوی فائض سے بچنے کی خاطر گوشہ نشینی اختیار کرنا جعفر صادق کے نزدیک قابل عزت نہ تھا کیونکہ جب مسلمان دنیا سے ہاتھ کھینچ لیں گے ایک دوسرے کی تقلید میں کام کاج سے اجتناب برتنے لگیں گے اور اپنی معاشی ضروریات دوسروں کی وساطت سے پوری کرنے لگیں گے تو اسلامی معاشرہ ضعیف اور مفلس ہو جائے گا اس طرح وہ دوسری قوتوں کے زیر نگین ہو جائیں گے ۔
جس اعتکاف کو جعفر صادق نے قابل تحسین قرار دیا وہ اعتکاف پیغمبر اسلام کے غار حرا میں اعتکاف کی مانند تھا ‘ کیونکہ یہ اعتکاف پاکیزگی روح اور عالی مدارج کے حصول کیلئے تھا اس کے ساتھ ساتھ پیغمبر اسلام نے اپنا کام کاج بھی نہیں چھوڑا وہ گوشہ تنہائی میں نہیں بیٹھے اور نہ ہی اپنی معاشی ذمہ داریاں دوسروں کے سپرد کیں ۔ آپ کام کرتے اور صرف ان دنوں میں جن میں ہم آج کی مناسبت سے رخصت کے دن کہہ سکتے ہیں غار حرا میں گزارتے تھے وہاں پر وہ اپنے آپ میں گم ہو جاتے اور کوشش کرتے کہ اپنے آ کو روحانی لحاظ سے مزید بہتر بنائیں اور اپنے اندر نئی نئی نیک خصوصیات پیدا کریں لیکن بعض اسلامی فرقوں نے تنہائی اور دنیا سے ہاتھ دھونے کو اپنا پیشہ بنا لیا‘ جب ان سے کہا جاتا کہ گوشہ نشینی کیوں اختیار کر رہے ہو اور زندگی کے جہاد میں ہمارے ہم قدم بن کر کیوں نہیں چلتے ۔ اس کے جواب میں وہ کہتے تھے کہ پیغمبر اسلام نے بھی گوشہ نشینی اختیار کی تھی ۔ اگر اعتکاف انہیں پسند نہ تھا تو خود غار حرا میں کیوں معتکف ہوتے تھے ؟ یہ لوگ اس بات سے غافل تھیکہ پیغمبر اسلام کے غار حرا میں اعتکاف اور ان بعض اسلامی فرقوں کے اعتکاف میں برا فرق تھا ۔
تیسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں کے دوران جب ابن راوندی بغداد میں تھا تقریبا نوے اسلامی فرقے پائے جاتے تھے جن کی اکثریت گوشہ نشینی اور ترک دنیا کو بہت بڑی عبادت خیال کرتی تھی ان کا گمان تھا کہ انسان کو تمام عمر دنیا سے ہاتھ دھو کر کونے میں بیٹھ جانا چاہیے صاف ظاہر ہے اس صورت میں ان کی معاشی ضرویات امیر لوگ پوریکرتے تھے چونکہ یہ امیر لوگ ان میں سے ہر ایک کو فراد فراد ا مالی امداد نہیں پہنچا سکتے تھیلہذا ایسے اداروں کا قیام عمل میں آیا جو خانقاہوں سے مشابہ تھے اور ان اداروں میں سے ہر ایک اس ماہانہ رقم سے چلتا تھا جو اس کے زمانے کے حاکم یا امیر لوگ اس ادارے کو دیتے تھے جبکہ بعض عیسائی خانقاہوں کے رہائشی کھیتی باڑی کا کام بھی کرتے ہیں ۔
یہ ادارے جن میں لوگ زندگی بسر کرتے تھے انہیں اس مقام کی مناسبت سے بیت ‘ خانہ ‘ سرایا ‘ کیہ کہا جاتا تھا کبھی بھی یہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ ان اداروں کے مکینوں نے کوئی پیدواری کام کیا ہو حتی کہ انہیں انگور کی بیل کاشت کرتے ہوئے بھی نہیں دیکھا گیا ان اداروں کے بعض مکین زاہد تھے وہ چاہتے تھے کہ زندگی کے ہنگاموں سے دور رہ کر عبادت کی جائے لیکن ان میں زیادہ تعداد بد قماش لوگوں کی تھی کیونکہ ان اداروں میں رہائش اختیار کرنے کیلئے اتنا کہنا کافی ہوتا تھا کہ میں نے دنیا سے ہاتھ دھو لئے ہیں اور گوشہ نشینی اختیار کر لی ہے اس طرح ہر کوئی ان اداروں میں رہ کر اپنی معاشی ضروریات یہاں سے پوری کر سکتا تھا ۔ ان اداروں کے اکثر مکین عام خواندہ لو تھے اور یہ بات بعید نہیں کہ انہی کی وساطت سے ان اداروں میں تالیاں ‘گھنٹیاں اور دوسرے آلات موسیقی بجانے کی راہ ہموار ہوئی ہو ان گھروں کے بعض مکین اپنے مذہبی رسومات کے دوران تالیاں گھنٹیاں اور مسچ (تھالی نما آلہ موسیقی ) بجاتے تھے گھنٹایں بجانے کی رسم یقینا انہوں نے مارونی گرجوں سے لی ہے مارونی عیسائی فرقوں میں سے ایک ہے مارونی عیسائیوں کے گرجے ما سوائے لبنان کے کہیں اور موجود نہیں ہیں اس فرقے کے پیروکار پہلے آرتھوڈکس تھے اس کے بعد روم کے کلیسا سے وابستہ ہو کر کیتھولک قرار پائے لیکن رومی کلیسائی لاطینی زبان ان کے درمیان رائج نہیں بلکہ آرامی زبان ان کی مذہبی زبان کہلاتی ہے جو حضرت عیسی کے زمانے میں مشرق قریب کی بین الاقوامی زبان کا درجہ رکھتی تھی ا کے باوجود کہ مارونیوں کی زبان آرامی ہے انہیں اس زبان پر کاملا عبور نہیں اور ان کی تمام مذہبی کتب عربی میں لکھی جاتی ہیں چونکہ ان کا رسم الخط عربی ہے لہذا دائیں سے بائیں طرف پڑھا اور لکھا جاتا ہے یہ لوگ مذہبی رسومات کے دوران گرجے میں تالیاں موسیقی کے الات اور گھنٹیاں بجاتے ہیں مارونی عیسائیوں نے یہ صرف عبی رسم الخط مسلمانوں سے نقل کیا ہے بلکہ وضو کا طریقہ بھی مسلمانوں سے سیکھا ہے اور مارونی عیسائیوں کے پادری حضرات مذہبی رسومات کا آغاز کرنے سے پہلے وضو کرتے ہیں جب کہ کسی بھی عیسائی فرقے میں مذہبی رسومات سے قبل وضو کرنا رائج نہیں ابن راوندی نے جتنے بھی متنازعہ مطالب اپنی کتاب الفرند میں لکھے ہیں مثلا تصوف اختیار کرنے والے فرقوں کی مخالفت وغیرہ ان میں سے کوئی بھی اس کے دشمن پیدا کرنے کا باعث نہیں تھا ۔
یہاں پر اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ تیسری صدی ہجری کے اوائل میں تمام اسلامی فرقے جو گوشہ نشینی کی ترغیب دیتے تھے اہل تصوف نہ تھے ہم نے ان کا یکجا نام لیتے ہوئے انہیں اہل تصوف کہا ہے یہاں پر ہمارا ارادہ نہیں کہ ہم تصوف کی ماہیت پر غور و فکر کریں اور کہیں کہ کیا تصوف کے مقاصد سے ایک گوشہ نشینی اور ترک دینا بھی ہے یا نہیں ؟
اہل تصوف سے وہ لوگ مراد لئے ہیں جنہوں نے ترک دینا اور گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی خواہ ان کے افکار صوفیانہ تھے یا نہ تھے ؟
جیسا کہ ہمنے مشاہدہ کیا ابن راوندی کے توحید و نبوت سے انکار نے خلیفہ کو اس کا دشمن بنا دیا تھا اور اس اصفہانی مصنف نے محض قتل ہونے سے بچنے کیلئے مجبورا اپنی کتاب کے کچھ حصوں میں تبدیلی پیدا کی لیکن عام لوگ توحید و نبوت کے انکار کی بنا پر ابن راوندی کے مخالف نہیں ہوئے اگرچہ اسے کافر سمجھتے تھے مگر اس کے ساتھ خصوصی عداوت نہیں رکھتے تھے جب کہ تصوف کے فرقوں کی مخالفت نے ان فرقوں کی اکثریت کو ابن راوندی کا خونی دشمن بنا دیا تھا کیونکہ ابن راوندی ان کے ذریعہ معاش کو ختم کرنا چاہتا تھا اس نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ ان فرقوں کے پیروکار بیکار اور تن پرور لوگ ہیں جو کسانوں کی مانند کھیتی باڑی کرنے مزدوروں کی طرح صنعتیکام کرنے اور اس طرح کے دوسرے مشقت طلب کام انجام دینے سے گریزاں ہیں یا علماء کی مانند علم حاصل کرنے اور لوگوں کو اس عالم سے فیضیاب کرنے سے گریز کرنے والے اور مفت خورے ہیں ۔
اس نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ان تمام گھروں کو جن میں ان فرقوں کے لوگ مقیم ہیں خالی کر دینا چاہیے وہ اثاثہ جو ان گھروں کیلئے مختص ہے بیت المال میں منتقل کرکے اس سے تمام مسلمانوں کوفائدہ اٹھانے کا موقع دینا چاہیے ۔
ابن راوندی نے جو کچھ اپنی کتاب میں تصوف کے ان فرقوں کے بارے میں لکھا اس میں ان فرقوں کے پیروکاروں کی بھوک سے مرنے کی مذمت کی گئی تھی تصوف کے ان گھروں میں رہائش پذیر لوگوں کی اکثریت چونکہ ساری عمر یہاں بسر کر چکی تھی لہذا اگر انہیں یہاں سے نکال دیا جاتا تو زندہ رہنے کیلئے بھیک مانگنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ کار نہ تھا ان گھروں میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو معمر اور متقی ہونے کی بناء پر مسلمانوں میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے فرض کیا ان لوگوں کو ان گھروں سے نکال باہر کیا جاتا اور اس سے منسلک اوقاف کو بیت المال میں منتقل کر دیا جاتا تو بھی لوگ ان افراد کو بے گھر اور بھوکا نہ چھوڑتے ۔
البتہ ان میں سے وہ لوگ جو عالم تھے نہ زاہد لوگ انہیں در خور اعتنا نہیں سمجھتے تھے جبانہوں نے اپنی روزی کو خطرے میں پڑتے دیکھا تو ابن راوندی کو نہ صرف کافر بلکہ مفسد فی الارض کا لقب دیا گیا گویا ابن راوندی پہلا شخص ہے جو مسلمانوں میں اس لقب سے نوازا گیا ۔
تصوف کے ان گھروں میں ایسے پیر بھی تھے جن کے کڑ مرید تھے ان مریدوں نے ابن راوندی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جب اس نے اپنی جان خطرے میں دیکھی تو عباس صروم کے ہاں پناہ لے لیجیسا کہ ہم نے ذکر کیا عباس صروم نے جونہی ابن راوندی کی کتاب دیکھی تو ایک کافر سے دوستی کے الزام سے بچنے کی خاطر اسے اپنے گھر سے باہر نکال دیا لیکن جب ابن راوندی اپنی کتاب کی اصلاح کر چکا تو عباس صروم کے اس سے گریز کرنے کا سبب ختم ہو گیا اور چونکہ خلیفہ نے ابن راوندی کو معقول انعام اور معاوضہ عطا کر دیا تھا لہذا عباس صروم کو اسے اپنے گھر میں رکھنے میں کوئی قباحت نہ تھی ابن راوندی عباس صروم کے گھر میں چند دن مقیم رہا جو لوگ اسے قتل کرنا چاہتے تھے جب انہیں پتہ چلا کہ وہ عباس صروم کے گھر میں قیام پذیر ہے تو انہوں نے عباس صروم کو جو اس وقت خلیفہ کے دربار سے واپس گھر آ رہا تھا راستے میں روک کر کہا تم نے ایک کافر ‘ مفسد فی الارض اور واجب القتل شخص کو اپنے گھر میں ٹھہرایا ہوا ہے اور اسے پناہ دی ہے اگر تم اسے گھر سے نہیں نکالو گے تو ہم تمہارے گھر پر دھاوا بول دیں گے عباس صروم بولا ‘ مجھے کل تک کی مہلت دو ۔
جو لوگ ابن راوندی کو قتل کرنا چاہتے تھے کہنے لگے کیوں ابھی اسے گھر سے نہیں نکالتے ؟ عباس صروم نے کہا ‘ اس لئے کہ وہ میرا مہمان ہے اور ابھی دوپہر کے کھانے کا وقت ہے کیا اگر آپ کے کسی مہمان کے سامنے کھانے چنے ہوئیہوں تو اسے دستر خوان سے اٹھا سکتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ نہیں البتہ یہ شخص کافر ‘ مرتد اور واجب القتل ہے لہذا تم ہر گز اسے مہمان تصور نہ کرو اسے ابھی گھر سے نکالو تاکہ ہم اسے تمہارے گھر کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں ۔
جب عباس صروم نے دیکھا کہ وہ سب ابن راوندی کو قتل کرنے پر تلے ہوئے ہیں ان سب کے پاس خنجر اور تلواریں ہیں اس نے ان کا غصہ فرو کرنے کیلئے کہا کہ میرا مہمان ہونے کے علاوہ یہ شخص خلیفہ کا منظور نظر بھی ہے اور اس سے انعام بھی حاصل کر چکا ہے اس کے قتل کے بعد خلیفہ تمہیں سزا دے گا انہوں نے کہا ہم ہر طرح کی سزا کیلئے تیار ہیں ہم نے ارادہ کر لیا ہے کہ اس کافر کو قتل کرکے رہیں گے اگرچہ اس کے بعد خلیفہ ہمارے سر تن سے جدا کر دے ۔
جب عباس صروم نے محسوس کیا کہ وہ خلیفہ کے غضب سے بھی نہیں ڈرتے تو اس نے ان سے کہاکہ براہ مہربانی مجھے کل تک مہلت دیں میں کل اسے اپنے گھر سے نکال دوں گا عباس صروم سے پوچھا گیا کہ کل کس وقت اسے گھر سے نکالے گا ؟ بولا جونہی سورج طلوع ہو گا میں اسے اپنے گھر سے نکل جانے کیلئے کہوں گا انہوں نیپوچھا اگر وہ تمہارے گھر سے نہ نکلنا چاہے تو تم کیا کرو گے ؟
عباس صرومنے کہا میں ملازموں سے کہوں گا کہ اسے زبردستی نکال دیں انہوں نے کہا ہم کل سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی یہاں حاضر ہو جائیں امید ہے تو اپنا وعدہ وفا کرے گا عباس صروم کا ارادہ تھا کہ عصر کے وقت جا کر خلیفہ سے ابن راوندی کی حمایت کیلئے درخواست کرے لیکن عصر کے وقت اسے خلیفہ سے ملنے کا موقع نہ مل سکا جب کہ دوسری صبح اس نے خلیفہ سے دیر سے ملاقات کرنا تھی وہ چاہتا تھا کہ وہ لوگ جو ابھی ابن راوندی کے گھر سے باہر نکلنے کے منتظر ہوں گے تاکہ درندوں کی مانند اپنے شکار پر تلواروں اور خنجروں سے ٹوٹ پڑیں اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں ممکن ہے کہعباس صروم جو خلیفہ کا درباری تھا گھر کی حفاظت کیلئے اپنے گھر کے باہر پہرہ دار مقرر کر سکتا تھا لیکن اس نے ایسا س لئے بھی نہیں کیا کہ وہ جان چکا تھا کہ لوگ ابن راوندی کی موجودگی سے با خبر ہیں لہذا وہ یہ ظاہر نہیں کر نا چاہتا تھا کہ لوگ اسے اس کا کٹر حامی سمجھیں چونکہ عام لوگ ابن راوندی سے سخت متنفر تھے اور اسے مرتد کافر سے بھی برا خیال کرتے تھے کیونکہ وہ تصوف کے فرقہ والوں کو رزق سے محروم کر دینا چاہتا تھا اب اگر عباس صروم واقعی اس کی حمایت کرتا تو نہ صرف اس سے متنفر ہوتے بلکہ قریب تھا اسے قتل بھی کر دیتے عباس صروم کا آبائی شہر بھی دارالحکومت تھا اسے علم تھا کہ اس نے ساری زندگی اسی شہر میں بسر کرنا تھی چونکہ وہ خلیفہ کا درباری تھا لہذا وہ کہیں اور سکونت اختیار کرنے سے معذور تھا ۔
لیکن ابن راوندی ایک اصفہانی شخص تھا جس دن وہ بغداد سے روانہ ہوا تو عباس نے اس لئے سنجیدگی سے اس کی حمایت نہیں کی اگر وہ ایسا کرتا تو شہر کے لوگ اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے جب عباس صروم نے ابن راوندی کے دشمنوں سے ایک رات کی مہلت مانگی تو اس نے سوچا کہ ابن راوندی کو اس رات ایک خادم کی رہنمائی میں شہر سے باہر ایک باغ میں بھیج دے گا لیکن پھر اس نے یہ ارادہ ترک کر لیا چونکہ جو لوگ ابن راوندی کو قتل کرنا چاہتے تھ آخر کار انہیں پتہ چل ہی جاتا کہ عباس صروم نے ابن راوندی کو اپنے باغ میں پناہ دی تھی اس طرح وہ خود اس کے بھی جانی دشمن بن جاتے اس صورت میں وہ اسے قتل یا زخمی کر دیتے ۔
عربی مہمان نوازی کا یہ خاصہ تھا کہ جب عباس صروم نے ابن راوندی کو پناہ دی تھی تو اس کی حمایت کرے اور اسے دشمنوں کے سپرد نہ کرے لیکن جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے عباس صروم ہر گز لوگوں سے دشمنی مول لینا نہیں چاہتا تھا اسے علم تھا کہ اگر وہ سنجیدگی سے ابن راوندی کی مدد کرے گا تو لوگوں کی دشمنی کا موجب ہو گا یہی وجہ تھی کہ اس نے ابن راوندی کو راتوں رات گھر سے نکال دینے کا فیصلہ کیا جب رات کا کھانا کھا چکے تو عباس صروم نے ابن راوندی سے کہا اے ابوالحسن جیسا کہ تمہیں معلوم ہے کہ مجھ سے جہاں تک ہو سکا میں نے اپنے گھر میں گمہاری حفاظت کی ہے اس کے بعد میں تمہارے دشمنوں کے خطرے سے تمہیں نہیں بچا سکوں گا ۔
اگر آج رات تمہارے دشمن تمہیں قتل کرنے کیلئے حملہ نہ کریں تو صبح طلوع آفتا ب کے وقت ضرور حملہ کرکے تمہیں قتل کر دیں گے میں اس سلسلے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا اگر میں نے مزاحمت کی تو مجھے بھی قتل کر ڈالیں گے ۔
اگر میرے قتل سے تمہاری جان بچ سکے تو میں حاضر ہوں تاکہ تم دشمنوں کے چنگل سے نجات پاؤ لیکن مجھے علم ہے کہ میرے قتل پر ان کی پیاس نہیں بجھے گی بلکہ انکی پیاس تمہارے ہی قتل سے بجھے گی اب تمہاری نجات اسی میں ہے کہ تم اس شہر سے بھاگ جاؤ بصور ت دیگر تمہارا قتل یقینی ہے دیکھو ابھی اٹھو اور اپنی راہ لو جب تم شہر کے مشرق میں واقع صیدلہ گاؤں میں پہنچو گے تو وہاں سے ایک کاروان "رے " کی طرف جاتا ہے اس کاروان میں شامل ہو جانا اگر کل وہ کارون عازم سفر نہ ہوا تو پرسوں تک وہیں انتظار کر لینا ۔
اس زمانے میں عباسی خلیفہ کے دارالحکومت میں مشرق کی جانب سفر کرنے والا ہر کاروان رے کے نام سے پکارا جاتا تھا اگرچہ اس کاروان کی آخری منزل خراسان تھی یہ رے سے گزرتا تھا عباس صروم کو پہلے ہی علم تھا کہ ابن راوندی ضرور اسے کہے گاکہ خلیفہ سے مدد کی درخواست کیوں نہیں کرتے بالکل ایسا ہی ہوا کتاب الفرند کے مصنف نے یہی سوال پوچھا جس کے جواب میں عباس صروم نے کہا تمہارے خلاف خلیفہ کے کان بھرے ہوئے ہیں کیونکہ تم نے صوفی فرقوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان سے متعلقہ تمام گھروں کو خالی کروانا چاہیے اور اوقاف کا سرمایہ وغیرہ گھروں سے بیت المال میں منتقل کر دینا اور اگر تمہیں علم نہیں تھا تو اب جان لو کہ یہ صوفی فرقے خلیفہ کے منظور نظر ہیں ان میں سے بعض فرقوں کے پیروکاروں کیلئے وہ خود تمہارے قتل کا حکم صادر کریگا ۔
ابن راوندی نے کہاجس وقت خلیفہ نے میری کتاب ملاحظہ کی تھی صوفی فرقوں کے بارے میں میری تحریر پر کوئی قد غن نہیں لگائی تھی اور تمہارے بقول اگر وہ صوفی فرقوں کا طرف دار ہے تو اس نے مجھے اپنی تحریر میں تبدیلی کرنے کیلئے کیوں نہیں کہا ؟
عباس صروم بولا تمہارا کیا خیال ہے کہ خلیفہ نے تمہارے ساری کتاب پڑھی ہے ؟ کیا جب خلیفہ کو کتاب دی جاتیہے تو وہ ساری کتاب پڑھتا ہے وہ ایک ایسا انسان ہے جو مشرقین و مغربین کا نظام چلاتا ہے پس ایسا شخص کیسے ایک کتاب کا ایک ایک صفحہ پڑھ سکتا ہے ؟
عباس صروم نے متوکل کی شرابی نوشی کے بارے میں کچھ نہ کہا ‘ کیوں کہ ایک ایسا شخص جو رات کو شراب پئے وہ کسی طرح صبح شاب کے نشے میں دھت ‘ کتاب پڑھ سکتا ہے اور اس کی ہر ایک بحث پر اظہار خیال کر سکتا ہے متوکل صرف اس وقت کتاب پڑھتا تھا جب وہ کم نشے کی حالت میں ہوتا کیونکہ زیادہ نشہ کتاب پڑھنے میں رکاوٹ بنتا ہے متوکل کی شراب نوشی سے کوئی بھی ایسا با خبر انسان نہ تھا جسے خلیفہ کی شراب خوری کا علم نہ ہوتا لیکن عباس صروم نہیں چاہتا تھا کہ اس موضوع کو ابن راوندی اس کی زبان سے سنے لیکن ایسا نہ ہو کہ وہ ایک دن کہے کہ عباس صروم نے خلیفہ پر شراب نوشی کی تہمت لگائی ہے ۔
اسیلئے اس نے اسلامی ممالک کے امور کے انتظام و انصرام کا مسئلہ پیش کیا اور کہا کہ وہ شخل جو اتنا مصروف ہو کسی کتاب کو صفحہ بہ صفحہ کیسے پڑھ سکتا ہے ؟ اس کے بعد کہنے لگا اگر فرض کیا خلیفہ نے صوفی فرقوں سے متعلق تمہاری کتاب کا اقتباس پڑھ بھی لیا ہے اور اس پر کوئی قد غن نہیں لگائی تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ خلیفہ تم پر غضب ناک نہیں ہوا کیونکہ جس وقت تم نے کتاب خلیفہ کے سپرد کی تھی یہاں پر کوئی تمہاری کتاب کے مواد سے مطلع نہ تھا لیکن جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ تم نے صوفی فرقوں کے بارے میں کیسا مواد لکھا ہے تو لوگ مشتعل ہوگئے جو خود بھی صوفی فرقوں کو پسند کرتا ہے ہر گز ان کے مقابلے میں تمہارے حمایت نہیں کرے گا ۔
ابن راوندی نے پوچھا ایک مرتبہ پہلے بھی تم مجھے اپنے گھر سے نکال باہر کر چکے ہو کیا دوبارہ یہی چاہتے ہو اور اس طرح تم مجھے میرے دشمنوں کے حوالے کرنا چاہتیہو ؟
عباس صروم نے کہا اگر میں تمہیں تمہارے دشمنوں کے حوالے کرنا چاہتا تو تمہیں کہتا کہ یہیں رہو اور جب صبح تمہارے دشمن آتے تو دروازہ کھول دیتا تاکہ وہ تجھے قتل کر ڈالیں ۔
یا یہ کہ نوکروں سے کہتا کہ تجھے زبردستی گھر سے نکال کر تمہارے دشمنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں وہ آج بھی تمہیں قتل کرنے کیلئے حملہ کرنا چاہتے تھے لیکن میں نے ان سے کل تک کی مہلت طلب کی ہے یہ مہلت صرف تمہاری نجات کی خاطر مانگی ہے ۔
تمہاری نجات اس میں ہے کہ تم آج رات اس شہر سے باہر نکل جاؤ کل جب تمہارے دشمن آئیں گے تو میں ان سے یہ نہیں کہوں گا کہ تم فلاں طرف گئے ہو ۔
کل صبح تم صیدلہ پہنچ جاؤں گے جونہی وہں پہنچو رے کے قافلے کے ہمراہ وہاں سے چل پڑنا اور اگر قافلہ اس دن نہ جائے تو ایک دن وہیں ٹھہر کر دوسرے دن عازم سفر ہو جانا دیکھو اگر تم صیدلہ میں ایک دن قیام کرو تو اپنا نام کسی پر آشکارا نہ کرنا بلکہ کوئی دوسرا فرضی نام رکھ لینا غور سے سنو اگر وہاں بھی تم پر شک گزرا تو تمہاری خیر نہیں ۔
عباس صروم نے الفرند کے مصنف کو اس قدر تاکید کی کہ وہ اسی رات شہر سے باہر نکلنے پر آمادہ ہو گیا ابن راوندی کو امید تھی کہ عباس اسے شہر سے نکلنے کیلئے اپنا سواری کا جانور دے دے گا لیکن عباس صروم نے صاف انکار کر تے ہوئے کہا اس کے پاس کوئی جانور نہیں اور نہ وہ رات کو کسی دوسرے سے لے کر دے سکتا ہے البتہ وہ شہر سے نکلنے کے بعد دیہاتیوں کے جانور مل جائیں تو انہیں معمولی سا کرایہ دے کر ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔
ابن راوندی نے اپنے ضروری سامان میں سے جس قدر وہ اٹھا سکتا تھا اٹھایا اور شہر سے باہر نکل گیا اور جب کچھ فاصلہ طے کر چکا تو تھکاوٹ محسوس کرنے لگا حالانکہ اس کا سامان اتنا بھاری نہ تھاکیونکہ دارالحکومت میں زندگی بسر کرنے اور خلیفہ کا انعام یافتہ ہونے کی بنا پر وہ سہل پسند ہو گیا تھا ابن راوندی ان مشرقی علماء سے تھا جو کھیتی باڑی بھی کرتے اور علم بھی حاصل کرتے تھے پھر جب وہ عالم بن جاتے تو دوسروں کو پڑھاتے یہ علماء ء پیدل چلنے سے نہیں گھبراتے تھے اور تمام دن کھیتوں میں کام کرتے لیکن ذرا بھی نہیں تھکتے تھے لیکن جب کچھ عرصے کیلئے سخت کام کو ترک کر دیتے خاص طور پر اس وقت جب ان کی مالی حالت بہتر ہو جاتی تو وہ اچھا کھانا کھانے اور زیادہ تر آرام کرتے اس لئے وہ آرام طلب ہو جاتے تھے ۔
اس طرح ابن راوندی جب کچھ دیر پیدل سفر کر چکا تو اس کیلئے مزید چلنا دوبھر ہو گیا وہ اس امید پر راستے کنارے بیٹھ گیا کہ کوئی گدھا گاڑی آئے اور اس کے ذریعے بقیہ فاصلہ طے کرکے صیدلہ پہنچ جائے ۔
جب وہ شہر سے خارج ہوا تو آدھی رات کا وقت تھا ابھی اس نے تھوڑا سفر طے کیا تھا کہ اس پر غنودگی طاری ہونے لگی اس نے اپنا سامان سر کے نیچے رکھا اور پاؤں پھیلاکر سو گیا تھکاوٹ کی وجہ سے اس پر ایسی نیند غالب آئی کہ وہ ان جانوروں کی گھنٹی کی آواز بھی نہ سن سکا جو پھل اور سبزیاں لے کر اس راستے سے دارالحکومت جاتے تھے بغداد کے مشرق میں واقع دیہاتوں کودجلہ سے نکالی گئی دو نہریں سیراب کرتی ہیں ان دیہاتوں کی سبزی اور پھل کافی حد تک بغداد کی ضرورت پوری کرتے ہیں ۔
سورج کی تمازت نے ابن راوندی کو جگا دیا اسے اپنے آپ پر غصہ آنے لگا کہ اس قدر کیوں سویا ہے اسے تو اس وقت صیدلہ میں ہونا چاہیے تھا آخر اپنے آپ کو کوستا ہوا اٹھا سامنا اپنیکندھے پر لادا اور مشرق کی طرف جہاں اس کے خیال کے مطابق صیدلہ واقع تھا چل پڑا سورج کا فی بلندی پر آ گیا تھا لو چل رہی تھی ابن راوندی جو رات کی تھکاوٹ سے نالاں تھا اب سورج کی تمازت سے شاکی تھا لیکن اب پیدل چلنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا وہ پسینے میں شرابور چلتا رہا یہاں تک کہ پیچھے جانوروں کی گھنٹیوں کی آواز سنائی دی جس پر وہ رک گیا اس نے دیکھا کہ کچھ دیہاتی گدھوں پر سوار انہیں ہانکتے چلے آ رہے تھے ان میں سے ہر کوئی ایک گدھے پر سوار تھا جونہی انہوں نے ابن راوندی کو دیکھا حیرانگی سے ایک دوسرے کا منہتکنے لگے اس اصفہانی شخص نیکہا آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں ابن راوندی نے سوچا کہ شہر کے مضافاتی بستیوں کے مقیم ہوں گے جو شاید شحر چلے گئے تھے اور اب واپس گاؤں آ رہے ہیں ان میں سے ایک بولا ہم صیدلہ کے باسی ہیں اور وہیں جا رہے ہیں ابن راوندی نے کہا اپنا ایک گدھا مجھے کرایہ پر دو میں اس کے بدلے آپ کو کرایہ کے علاوہ دعائے خیر بھی دوں گا دیہاتیوں نے ایک دوسرے سے نظریں ملائیں پھر وہ جس نے کہا تھا کہ ہم صیدلہ کے رہنے والے ہیں اس کی وضع قطع سے اندازہ ہوتا تھا کہ اسے دوسروں پر برتری حاصل ہے اور دوسرے اس کے تابع ہیں وہ گدھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا سوار ہو جاؤ ایک دوسرے دیہاتی سوار نے سوار ہونے اور گدھے پر سامان لادنے میں ابن راوندی کی مدد کی پھر یہ لو گ چل پڑے ابن راوندی خوش تھا کہ اسے سواری میسر آ گئی ہے اور وہ آسانی سے صیدلہ پہنچ جائے گا ۔
راستے میں کافی نشیب و فرار تھے کبھی اوپر چڑھنا ہوتا تو کبھی نیچے اترنا پڑتا راستے میں جونہی چڑھائی آئی تو دیہاتوں میں سے ایک پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے بولا کچھ سوار اس طرف آ رہے ہیں دیہاتیوں کا سردار اپنا گدھا ابن راوندی کے نزدیک لایا اور ابن راوندی کی سرخ دستار اتار کر ایک تھیلے میں چھپا دی اور اپنی دیہاتی ٹوپی اس کے سر پر رکھ دی ابن راوندی اس کام سے متحیر ہو کر پوچھنے لگا تم نے میرے سر سے میری ٹوپی اتار کر عربی ٹوپی میرے سر پر کیوں رکھ دی ہے ؟ دیہاتی نے جوابا کہا خاموش رہو اور اگر کسی نے کوئی بات پوچھی تو تم نہ بولنا بلکہ میں اسے جواب دوں گا جب سوار نزدیک آئے تو پتہ چلا کہ فوجی نہیں ہیں وہ دیہاتی جو دوسروں سے بلند مرتبہ نظر آ رہا تھا کہنے لگا تمہاری قسمت تمہارا ساتھ دے رہی ہے ابن راوندی بولا وہ کیسے ؟ دیہاتی نے کہا یہ لوگ خلیفہ کے سپاہی نہیں ہیں لہذا نہ تو تجھے یہاں گرفتار کر سکتے ہیں اور نہ ہی قتل کر سکتے ہیں ۔
اصفہانی بولا آخر مجھے کیوں گرفتار یا قتل کریں ؟ دیہاتی کہنے لگا اپنے آ پ کو فریب نہ دو کیا تم وہی اصفہانی نہیں ہو سارا شہر جس کی تلاش میں سر گرداں ہے وہ لوگ تجھے قتل کرنا چاہتے ہیں جب ہم شہر سے آ رہے تھے تو دیکھا کہ سب تمہارے بارے میں محو گفتگو تھے ۔
اس وقت تک ابن راوندی کو گمان نہ تھا کہ دیہاتیوں نے اسے پہچان لیا ہے دیہاتی نے کہا اگر تم زبان نہیں کھول گے تو تمہارے لئے کوئی خطرہ نہیں سوار نزدیک آتے گئے خوف کے مارے ابن راوندی پر کپکپی طاری تھی ۔
دیہاتی نے محسوس کیا کہ ابن راوندی گھبرا رہا ہے تو اس نے کہا چونکہ یہ خلیفہ کے سپاہی نہیں لہذا گھبرانے کیکوئی ضرورت نہیں یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔
ابن راوندی کانپتے ہوئے بولا مجھے یہاں نقصان نہ پہنچ سکنے کی کیا وجہ ہے ؟
دیہاتی بولا ‘ اس لئے کہ یہ خلیفہ کے سپاہی نہیں اور خلیفہ کے سپاہیوں کے علاوہ کوئی شخص کسی کو شاہراہ عام پر نقصان نہیں پہنچا سکتا اور نہ ہی حملہ کر سکتا ہے اگر ایسا کرے گا تو اس کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے گا اور وہ شاہراہ عام سے باہر لیجا کر بھی ایسا کریگا تو بھی اسے یہی سزا ملے گی ابن راوندی نے کہا میں نے سنا تھا کہ راہزنوں کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹتے ہیں لیکن یہ تو راہزن نہیں ہیں ۔
دیہاتی بولا جو کوئی بھی ہوں چونکہ سرقہ بالجبر کے ملزم ہوں گے لہذا ان پر یہی الزام لگا کر انہیں سزا دی جائے گی اس کی شہادت کیلئے اس کی گواہی کافی ہے جس پر حملہ ہوا ہو بس وہ اتنا کہہ دے کہ یہ لوگ میرے سفر کے مال و متاع کو زبردستی چھیننا چاہتے تھے اگر حملہ آور سو آدمی بھی ہوں تو بھی انہیں دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹنے کی سزا ضرور ملے گی ۔
سوار مزید نزدیک ا گئے ابن راوندی نے دیکھا کہ وہ پانچ آدمی ہیں جس وقت وہ دیہاتیوں کے قریب پہنچے تو ان میں سے ایک نے پوچھا کہ اتم نے سرخ ٹوپی پہنیکسی سوار یا پیدل شخص کو نہیں دیکھا ابلیس ک کفر جس کے چہرے سے آشکارا ہو دیہاتی ہنستے ہوئے بولا ہم نے سرخ دستار دیکھی نہ کفر ابلیس سوار جو رک گئے تھے اپس میں باتیں کرنے لگے ان میں سے ایک بولا وہ کل رات اس شہر سے باہر نکلا ہو گا اس لئے ضرور اب تک صیدلہ پہنچ گیا ہو گا دوسرا بولا ہمیں صیدلہ جانا چاہیے تاکہ وہاں پہنچ کر اسے جہنم رسید کریں اگر اس کافر کو یہاں پاتے تو بھی اسے قتل نہ کر سکتے تھے ۔
سواروں میں سے ایک بولا اگر وہ صیدلہ سے چلا گیا ہو تو پھر کیا کریں گے ؟
دوسرے نے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوے کہا صیدلہ پہنچ جانے کے بعد تفتیش کریں گے آیا وہاں ہے یا نہیں ؟ اور اگر وہاں سے کوچ کر گیا ہو تو اس کا پیچھا کریں گے اور آخر کار اسے کسی نہ کسی جگہ جا لیں گے کیونکہ ضرور ہو کھانے پینے اور سونے کیلئے کسی دیہات میں رکا ہو گا ۔
اس گفتگو کے بعد سوار تیزی سے اگے نکل گئے اور دیہاتی نے ابن راوندی سے مخاطب ہو کر کہاں میں یہ گمان نہیں کرتا کہ خلیفہ سے تمہاری عدوات ہو ؟
اصفہانی بولا‘ میرے کیا مجال ہے کہ میں خلیفہ سے جو مشرقین اور مغربین کا حاکم ہے دشمنی کروں دیہاتی کہنے لگا میں نے اس لئے کہا ہے کہ خلیفہ کے سپاہی تمہاری جستجو میں نہیں لگے ہوئے ہیں ۔
پھر کہنے لگا اے عجمی شخص یہ تم نے کونسا کام کیا ہے کہ تمام شہر تمہارے کون کا پیاسا ہے اور اج شہر میں تمہارے علاوہ کوئی دوسرا موضوع گفتگو بھی نہیں یوں لگتا ہے جیسے تم نے ہر شہری کے ماں باپ اور بچوں کو قتل کیا ہے جس کی وجہ سے یہ سب تمہارے خون کے پیاسے ہیں ابن راوندی نے جواب دیا خدا کی قسم میں نے کسی شہری کو تکلیف نہیں پہنچائی دیہاتی نے اظہار خیال کیا اگر ان لوگوں کو تو نے کوئی تکلیف نہیں پہنچائی تو یہ تیرے دشمن کیسے بن گئے ہیں ہم دیہاتیوں کا مقولہ ہے کہ کوئی دشمنی کسی وجہ کے بغیر نہیں ہوتی ابن راوندی نے کہا یہ قول ایک شخص کی دشمنی کے بارے میں ہے نہ کہ ایک گروہ پارٹی کی دشمنی کے متعلق ہے میرے ساتھ لوگوں کی دشمنی بے سبب ہے یہ محض اشتعال انگیزی ہے ۔
ابن راوندی نے کہا صاف ظاہر ہے کہ تم نہیں جانتے کہ جو سوار آ رہے ہیں وہ مجھے لے جائیں دیہاتی بولا آخر کیوں میں نہیں چاہتا کہ جو سوار آ رہے ہیں وہ تجھے نہ پہچانیں ؟
ابن راوندی نے کہا میں جانتا ہوں کہ تم مجھے قتل ہونے سے بچانا چاہتے ہو دیہاتی نے اپنا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ اگر وہ تجھے قتل کرتے تو مجھے کوئی نقصان اٹھانا پڑتا ؟
ابن راوندی نے منفی جواب دیا دیہاتینے کہا میں نے یہ دستار اس لئے تمہارے سر سے نہیں اتاری کہ تم قتل ہونے سے بچ جاؤ گے بلکہ اس لئے اتاری ہے کہ یہ عربی ٹوپی تمہارے سر پر رکھی ہے کہ اس خدمت کے بدلے میں تجھ سے بدلہ یا پاداش حاصل کروں ابن راوندی نے پوچھا تم مجھ سے کیا پاداش لو گے ؟
دیہاتی نے جواب دیا کچھ نقد رقم لینا چاہتا تھا لیکن جب مجھے پتہ چلا کہ تم نے کتاب لکھی ہے اور مجھے علم ہوا کہ تم پڑھے لکھے بھی ہو اور چونکہ ہم پڑھے لکھے لوگوں کا احترام کرتے ہیں لہذا میں نے اپنا معاوضہ حاصل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا لیکن جب تم نے بتایا کہ اپنی کتاب میں صوفی فقوں سے معاندانہ رویہ اپنایاہے تو میرا خیال بدل گیا اب میں تم سے معاوضہ لینا چاہتا ہوں ابن راوندی بولا تم نے میری خدمت کی ہے میں تمہیں معاوضے کی ادائیگی کیلئے رضا مند ہوں دیہاتی کہنے لگا اگر تم صوفی فرقوں کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار نہ کرتے تو میں ہر گز تم سے معاوضہ نہ لیتا لیکن چونکہ تم نے ان فرقوں سے اظہار خصومت کیا ہے لہذا تم سے ضرور معاوضہ لوں گا ابن راوندی نے کہا میں اپنی بساط کے مطابق تمہیں معاوضہ دونگا ۔
دیہاتی نے کہا یہ گھڑ سوار گاؤں میں پہنچنے کے بعد تجھے تلاش کریں گے اور دیہاتیوں سے معلوم کرلینگے کہ انہوں نے تمہیں دیکھا ہے یا نہیں ؟
جب تم پہنچو گے تو لوگ تمہیں پہچان جائیں گے پھر اور ضرور تمہیں ان گھڑ سواروں کے حوالے کر دیں گے پھر تمہیں قتل کر دیں گے چونکہ ہمارے دیہات میں سبحانیہ فرقہ قابل احترام سمجھا جاتا ہے ابن راوندی کہنیلگا اگر تم اور تمہارے ساتھی میرا تعارف نہ کروائیں تو کوئی بھی مجھے نہیں پہچان سکے گا اور میں صیدلہ میں بھی قیام نہیں کرونگا بلکہ کارواں کے ہمراہ چل پڑوں گا ۔
دیہاتی شخص بولا ہم تمہاری نشاندہی نہیں کریں گے لیکن چونکہ ہمارے دیہات میں گھڑ سوار تمہاری تلاش میں ہیں لہذا لوگ تمہیں پہچان لیں گے ابن راوندی کہنے لگا کیا تم اپنے گھر میں مجھے پناہ نہیں دے سکتے تاکہ میں کل صبح صیدلہ کے کاروان کے ہمراہ چل پڑوں ۔
دیہاتی شخص بولا جو کاروان اج حرکت کر چکا ہے تم اس تک نہیں پہنچ سکے لہذا تم کل کے جس کی وجہ سے لوگ مشتعل ہو کر میرے پیچھے پڑ گئے ہیں اور مجھ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایک بے گناہ کو قتل کرنے کے بعد ایک دوسرے سے پوچھیں کہ اس کا قصور کیا تھا ؟
دیہاتی شخصجھاندیدہ تھا کہنے لگا لوگوں کی اشتعال انگیزی بھی کسی وجہ سے ہو گی تم نے ضروری کوئی ایسا قدم اٹھایا ہے جس سے شہری مشتعل ہوئے ہیں جب ابن راوندی جان گیا کہ دیہاتی شخص عقلمند ہے تو کہنے لگا میرا قصور یہ ہے کہ میں نے ایک کتاب لکھی ہے ۔
جب اس دیہاتی نے سنا کہ اس عجمی نے کتاب لکھی ہے تو اسے احترام کی نگاہوں سے دیکھنے لگا جب کہ کتاب لکھنا کسی کے پڑھے لکھے ہونے کی علامت ہوتیہے اور بین الغربین کے شمال اور جزیرہ کے لوگ پڑھے لکھے طبقے کا احترام کرتے تھے ۔
دیہاتی شخص بولا تم پڑھے لکھے انسان ہو اور کتاب بھی لکھ چکے ہو تو پھر لوگ تمہارے دشمن کیوں بن گئے ہیں ؟ابن راوندی نے جواب دیا شہر کے تمام لوگ میرے دشمن نہیں بلکہ ان میں سے ایک طبقہ میرا مخالف ہے ۔
دیہاتی شخص نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ ابن راوندی نے جواب دیا صرف تصوف کے فرقوں کے پیروکار میرے دشمن ہوئے دیہاتی کہنے لگا ان میں سے ایک فرقہ ہمارے گاؤں میں بھی ہے وہ لوگ اس قدر مہربان ہیں کہ کسی چیونٹی کو بھی ضرر نہیں پہنچاتے تم نے اپنی کتاب میں کیا لکھا ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ تیرے جانی دشمن بن گئے ہیں ؟
ابن راوندی نے اس دیہاتی کے فھم و ادارک کے لحاظ سے اپنی کتابی تحریر کی وضاحت کی دیہاتی بولا اب پتہ چلا کہ شہری لوگ تمہارے دشمن کیوں بن گئے ہیں کیونکہ تمام لوگ تصوف کے کسی فرقے کے پروکار ہیں اور ہم لوگ سبحانیہ فرقے کے پیروکار ہیں یہ ہمارے گاؤں کے علاوہ جزیرہ میں بھی خاصا مقبول ہے اور جب تم اپنی کتاب تصوف کے فرقوں کی نابودی کے بارے میں تحریر کر رہے تھے تو تمہیں پہلے فکر کرنی چاہیے تھی کہ جب یہ فرقے تمہارے دشمن بن جائیں گے تو سارے لوگ تمہارے دشمن بن جائیں گے کیونکہ ہر ایک کسی نہ کسی صوفی فرقے سے وابستہ ہے ابن راوندی نے اعتراف کیا کہ اپنی کتاب لکھنے سے قبل اسے یہ خیال نہیں آیا اور کہنے لگا اس کا خیال یہ نہ تھا کہ زاہد اور متقی اشخاص کو ہدف تنقید بنائے بلکہ اس کی مراد وہ لوگ تھے جو کام کی نسبت اوقاف کے گھروں میں رہنے کو ترجیح دیں حالانکہ وہ زاہد و متقی بھی نہیں ہوتے ۔
دیہاتی شخص کہنے لگا کیا تو جانتا ہے کہ میں نے تمہاری دستار تمہارے سر سے کیوں اتار یہے ؟ اور اپنی عربی تمہارے سر پر کیوں رکھ دی ہے ؟
کاروان کے ہمراہ چلے جانا لیکن میں تمہیں اپنے گھر میں ہر گز نہیں ٹھہرا سکتا کیونکہ اگر میں ایسا کروں گا تو یہ لوگ جو میرے ساتھ ہیں تم سے رقم بٹورنے کے خواہشمندہوں گے اور اگر ان میں سے ہر ایک کو رقم دو گے تو تمہارا خرچ بڑھ جائے گا اور اگر نہیں دو گے تو میں خفا ہو جاؤں گا ۔
اسکے علاوہ چونکہ تم نے صوفی فرقوں سے دشمنی برتی ہے اور میں ایک صوفی فرقے سبحانیہ کا حمائتی ہوں میرا جی نہیں چاہتا کہ تجھے اپنے گھر ٹہراؤں اور یہ خطرہ بھی ہے کہ وہ لوگ تمہاری دشمنی سے باخبر ہو کر تمہیں قتل کر ڈالیں ۔
ابن راوندی نے پوچھا پس میں کیا کرو ؟ اور کیسے رے کے کاروان کے ہمراہ عازم سفر ہو جاؤں ؟ دیہاتی شخص بولا ہمارے دیہاتی میں داخل نہ ہونا اور صیدلہ سے دور نکل کر راستے کے کنارے اج اور کل کادن گزارنا اور کل جونہی رے کا کاروان راستے سے گزرے اس میں شامل ہو جانا ۔
ابن راوندی کہنے لگا چونکہ میرے پاس سامان ہے لہذا میں پیدال سفر نہیں کر سکتا اگر یہ سامان نہ ہوتا تو پیدل چلنے میں کوئی مضائقہ نہ تھا دوسرا یہ کہ راستے میں کوئی کسی کو کرائے پر جانور بھی نہیں دیتا ۔
دیہاتی بولا کیا تم اس گدھے کو خریدنا چاہتے ہو جس پر سوار ہو ۔ ابن راوندی نے کہا اگر مناسب دام لگاؤ تو خرید لوں گا دیہاتی نے سوچا موقعے کو غنیمت سمجھ کر اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائے اور اپنے جانور کی زیادہ سے زیادہ قیمت لگائے اس نے اتنی قیمت متعین کی جسے ابن راوندی نے زیادہ گردانا اور کہنے لگا تم نے میری مجبوری سے فائدہ اٹھا کر گدھے کی قیمتی زیادہ لگائی ہے ۔
دیہاتی بولا اچھا ایسا کرتے ہیں صیدلہ پہنچنے سے قبل کسی رھگذر سے اس گدھے کی قیمت متعین کروائیں گے پھر اس نے جتنی کہی تم اس سے دس زیادہ دے دینا ابن راوندی نے اظہار خیال کیا دس زیادہ کیوں ؟ دیہاتی بولا کیونکہ میں نے ایک مرتبہ موت سے نجات دی ہے اور اب دوسری مرتبہ تمہاری جان بچانا چاہتا ہوں اگر تم اس گدھے کو نہیں خریدو گے تو تمہیں راستے میں پڑاؤ ڈالنا پڑے گا یہاں تک کہ رے کا کاروان تمہیں پہنچ آئے لیکن یہ گدھا تمہارے ساتھ ہوا تو کاروان کا انتظار کئے بغیر چل پڑو گے اور رے کا کاروان خود بخود تم سے آ ملے گا۔
ابن راوندی نے کہا ایک رھگذر کسی گدھے کی ظاہر حالت سے قیمت متعین نہیں کر سکتا ۔ اسے گدھے کو ہر لحاظ سے دیکھنا چاہیے اور دوسرا یہ کہ اگر دھے کا خریدار جان لے کہ چوری کا گدھا اس کو بیچا گیا تو وہ تین دن تک سودا منسوخ کر سکتا ہے ؟ دیہاتی کہنے لگا یقین کرو یہ گدھا جس پر تم سوار ہو چوری کا نہیں کیونکہ میں اسے پہلے سے بیچنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا آخر کار ابن راوندی نے مجبور ا گدھا خرید لیا اور جونہی وہ صیدلہ کے نزدیک گیا ان دیہاتیوں سے جدا ہونا چاہتا تھا تو دیہاتی شخص بولا کیا میرا معاوضہ بھول گئے ہو ؟ دے کر جانا ۔
ابن راوندی نے کہا چونکہ میں نے تمہارا گدھا خریدا تھا لہذا میرا خیال تھا کہ تم مزید رقم کا مطالبہ نہیں کرو گے ۔ دیہاتی بولا گدھے کی خریداری کا ارادہ کرنے سے قبل تم نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہیں معاوضہ دوں گا تو اب اپنا وعدہ وفا کرو ابن راوندی نے مجبورا کچھ رقم اس دیہاتی کو دی اور پھر دیہاتیوں سے علیحدہ ہو گیا لیکن دیہاتی نے اسے آواز دی اور کہا میں نے عربی ٹوپی تمہیں واپس کی ہے اس کا معاوضہ تو دینا بھول گئے ہو ابن راوندی نے جو اس شخص کی لالچ سے غصبناک ہو رہا تھا مجبورا وہ معاوضہ بھی ادا کیا ابن راوندی کی سوانح حیات کو اس سے زیادہ بیان نہیں کرتے کہ دیہاتی شخص کے گدھے نے اسے موت سے نجات دلائی چونکہ اس کے پاس گدھا تھا لہذا راستے میں قیام کئے بغیر چلتا رہا یہاں تک کہ کاروان آ کر اس سے مل گیا ‘ اور وہ دشمنوں کے چنگل سے بچ نکلا اس سنے سنا تھا کہ سوار ا س کے پیچھے آ رہے ہیں لہذا اس نے دوسرے راستے سفر اختیار کرکے جان بچائی۔
امام جعفر صادق کے ہاں ادب کی تعریف
ہم نے ابن راوندی کی سوانح حیات کی معمولی سی ایک جھلک دکھائی تاکہ پتہ چلے کہ جس مذہبی ثقافت کی بنیاد امام جعفر صادق نے رکھی تھی اس میں کس قدر بحث کیآزادی تھی اور ہر کسی کو اظہار خیال کی کھلی چھٹی تھی یہی ابن راوندی ایران کے علاقے عراق اور جعفر صادق کے مذہبی ثقافتی مکتب میں جو چاہتا سو لکھتا لیکن عباسی خلیفہ کے دارالحکومت میں اپنی تحریروں کے نتیجہ میں دو مرتبہ موت سے بال بال بچا ایک مرتبہ خلیفہ کے ہاتھوں اور دوسری بار لوگوں کے ہجوم کے قہر و غضب سے بچ نکلا اگر عباس صروم اسکی مدد نہ کرتا تو اس کا قتل یقینی تھا ۔
جعفر صادق کی مذہبی ثقافت کی قوت کا راز اس میں تھا کہ اسکے چار ارکان میں سے صرف ایک رکن مذہبی باقی تین ارکان ادب ‘ علم اور عرفان تھے دنیا کی تاریخ میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ کسی مذہب کے مکتب میں علم و ادب کو اتنی اہمیت حاصل ہوئی ہے جتنی جعفر صادق کی مذہبی ثقافت میں ہوئی ۔ جعفر صادق کی مذہبی ثقافت میں علم و ادب کو اس قدر اہمیت حاصل تھی کہ محقق اپنے آپ سے پوچھتا ہیکہ مذہبی ثقافت میں ادب کی اہمیت زیادہ تھی یا مذہب کی اور کیا علم کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی یا مذہب کو ۔ جعفر صادق اس بات سے اگاہ تھے اور کہا کرتے تھے کہ ایک مومن چونکہ متقین کے ایمان کا حامل ہوتا ہے پس اسے علم و ادب سے روشناس ہونا چاہیے آپ کہا کرتے تھے ایک عام شخص کا ایمان سطحی اور بے بنیاد ہے وہ چونکہ ایک عام انسان ہوتا ہے لہذا وہ اس بات سے آگاہ نہیں ہو سکتا کہ کس پر ایمان لایا ہے اور کس کیلئے ایمان لایا ہے اور اسکے ایمان کی بنیاد مضبوط نہیں ہوتی اس لئے اسکے خاتمہ کا امکان ہوتا ہے ۔
لیکن وہ مومن جو علم و ادب سے بہرہ مند ہو گا اس کا ایمان مرتے دم تک متزلزل نہیں ہو گا کیونکہ وہ ان باتوں سے آگاہ ہے کہ کس لئے اور کس پر ایمان لایاہے ؟
جعفر صادق یہ دکھانے کیلئے کہ علم و ادب کس طرح ایمان کی جڑوں کو گہرا اور مضبوط کرتا ہے دوسرے مذاہب کی مثال بھی دیتے تھے اور کہا کرتے تھے جب اسلام پھیل گیا اور جزیرہ العرب سے دوسرے ممالک تک پہنچا تو ان ممالک کے عام لوگوں نے اسلام کو جلدی قبول کر لیا لیکن جو لوگ علم و ادب سے آگاہ تھے انہوں نے اسلام کو جلدی قبول نہیں کیا بلکہ ایک مدت گذر جانے کے بعد جب ان پر ثابت ہو گیا کہ اسلام دنیا اور آخرت کا دین ہے تو پھر انہوں نے اسے قبول کیا۔
جعفر صادق نے ادب کی ایسی تعریف کی ہے جس کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ادب کی اس سے اچھی تعریف کی گئی ہو گی انہوں نے فرمایا ادب ایک لباس سے عبارت ہے جو تحریر یا تقریر کو پہناتے ہیں تاکہ اس میں سننے اور پڑھنے والے کیلئے کشش پیدا ہو یہاں پر توجہ طلب بات یہ ہے کہ جعفر صادق یہ نہیں فرماتے کہ تحریر یا تقریر اس لباس کے بغیر قابل توجہ نہیں اپ اس لباس کے بغیر بھی تقریروں اور تحریروں کو پر کشش سمجھتے ہیں لیکن آپ کے فرمانے کا مقصد یہ ہے کہ ادب کے ذریعے تحریروں اور تقریروں کو مزید پر کشش لباس پہنایا جاتا ہے ۔
کیا امام جعفر صادق کی وفات سے لیکر اب تک اس ساڑھے بارہ سو سال کے عرصے میں اب تک کسی نے ادب کی اتنی مختصر جامع اور منطقی تعریف کی ہے ؟
جعفر صادق کا ادب کے متعلق دوسرا نظریہ یہ کہتا ہے ( ممکن ہے ادب علم نہ ہو لیکن علم کا وجود ادب کے بغیر محال ہے ) علم و ادب کے رابطے کے متعلق یہ بھی ایک جامع اور مختصر تعریف ہے اور جیسا کہ امام جعفر صادق نے فرمایا ہے علم میں ادب ہے لیکن ممکن ہے ہر ادب میں علم نہ ہو ہمیں اس بارے میں کوئی علم نہیں کہ جعفر صادق علم سے زیادہ شغف رکھتے تھے یا ادب سے زیادہ لگاؤ رکھتے ؟ کیا آپ کے خیال میں شعر کی قدر و منزلت زیادہ تھی یا علم طبعیات کی بعض ایسے لوگ ہو گزرے ہیں جو علم و ادب دونوں سے برابر دلچسپی رکھتے تھے لیکن ایسے لوگوں کا شمار صرف انگلیوں پر کیا جا سکتا ہے کیونکہ انسانوں کی اکثریت کی استعداد اتنی ہی ہے کہ یا تو وہ علم سے لگاؤں رکھتے ہونگے یا ان کی دلچسپی ادب سے ہو گی ۔ جو لوگ ادب سے شغف رکھتے ہیں وہ علم کو غم و غصے کا آلہ قرار دیتے ہیں اور مادی مقاصد کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں جس کا مقصد محض ریا کاری اور لہو لعب ہے اور لم کی جانب رجوع کرنے والے کی نسبت اپنے آپ کو زیادہ با ذوق اور خوش مزاج شمار کرتے ہیں ۔
جو لوگ علمی استعداد کے حامل ہوتے ہیں وہ ادب کو بچگانہ کام یا خیالی پلاؤ پکانے والے انسانوں کا خاصہ سمجھتے ہیں اور ان کی نظر میں ادب سے لگاؤ کسی سنجیدہ اور سلجھیہوئے انسان کا کام نہیں کاروباری طقبے کی نظر میں ادب محض زندگی کو فضول بسر کرنے کا نام ہے حتی کہ یہ طبقہ ادیبوں کی عقل سلیم کو بھی شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے اس کا خیال ہے کہ اگر ادب کے متوالوں میں عقل سلیم ہوتی تو وہ ہر گز ایسے فضول کام میں زندگی نہ گنواتے اس طبقے کو چھوڑئے کیونکہ یہ نہ صرف ادب کے قائل نہیں بلکہ جب علم نے صنعت کو فروغ دیا اور صنعت نے مادی ترقی میں مدد دی تب کہیں جا کر یہ لوگ علم کی اہمیت کے قائل ہوئے یعنی اٹھارویں صدیعیسوی کے آغاز سے اس کی اہمیت اجاگر ہوئی جب کاروباری طبقے نے محسوس کیا کہ صنعتیں مادی ترقی میں ممدو معاون ہیں تو تب انہوں نے صنعتوں کی طرف توجہ دی ۔
لیکن امام جعفر صادق ان نادر روزگار افراد میں سے تھے جو علم و ادب دونوں کے متوالے تھے جعفر صادق کی تدریس کے مقام پر اوپر یہ بیت رقم تھا ۔
لیس الیتیم قلمات والدہ ان الیتیم یتیم العلم والادب
یعنی یتیم وہ نہیں جس کا باپ فوت ہو گیا ہو بلکہ یتیم وہ ہے جو علم و ادب سے بے بہرہ ہے عربوں میں جعفر صادق کی مذہبی ثقافت کے وجود میں آنے سے پہلے ادب کا اطلاق صرف شعر پر ہوتا تھا جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں دور جاہلیت میں عربوں میں ثری ادب کا وجود نہ تھا اور پہلی صدی ہجری میں عربوں کے نثری ادب کے آثار معدود ہیں ان آثار میں حضرت علی کا تہج البلاغہ خاصی اہمیت کا حامل ہے جعفر صادق کو دوسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں کے دوران نثری ادب کا شوق پیدا ہوا جیسا کہ کہاجا سکتا ہے کہ نثری ادب کو وجود میں لانے والے امام جعفر صادق تھے ۔
کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے عرب قوم میں ادبی انعام کا رواج ڈالا اگر ادبی انعام سے مراد یہ ہے کہ شاعر یا مصنف کو کوئی چیز عطا کی جائے تو یہ روایت صحیح نہیں ہے کیونکہ شعراء کو نوازنے کی رسم جزیرة العرب میں زمانے سے جاری تھی اور اسلام کے بعد بھی یہ رسم جاری رہی اور جب کوئی شعر پڑھتا اور اسے اشراف کے پا س لے جاتا تو انعام سے نوازا جاتا تھا لیکن وہ لوگ جو نثری ادب میں اضافہ کرتے تھے انہیں صلہ دینے کا رواج تھا اور نہ ہی عرب قوم نثری عبارات کو ادب کا جزو شمار کرتی تھی چہ جائیکہ نثری عبارت کا صلہ ادیب کو ملتا ایک روایت کے مطابق نثری یاد گار اور انعام و اکرام عطا کرنیکی ابتدا امام جعفر صادق سے ہوئی ۔
اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں تھی کہ جعفر صادق نے ادبی نثر کے انعام کا تعین کیا لیکن البتہ یہ بات مشکوک ہے کہ سب سے پہلے انہوں نے نثری ادیبوں کو انعام عطا کرنیکا رواج شروع کیا یا ان کے والد بزرگوار امام محمد باقر نے اس کام میں سبقت لی شروع شروع میں ادبی انعام دینے کیلئے تین ججوں کی کمیٹی تشکیل دی گئی ایک امامجعفر صادق اور دوسرے ان کے دو شاگرد ۔
اس کے بعد یہ کمیٹی پانچ ممبروں پر مشتمل ہو گئی اور اگر ان میں سے تین افراد ایک مصنف کو انعام کا حقدار قرار دیتے تو پھر مصنف انعام کا حقدار ٹھہرتا تھا ۔ جعفر صادق کی طرف سے جس عامل نے نثری ادب کی توسیع میں مدد دی وہ یہ تھا کہ انہوں نے کسی مصنف کو کسی خاص موضوع پر لکھنے کے لئے مجبور نہیں کیا اور ہر ایک اپنے ذوق کے مطابق لکھنے کیلئے آزاد تھا اور جو کچھ لکھتا بعد میں جعفر صادق کے سپرد کرتا اور آ اسے انعام کیلئے ججوں کے پینل کے سامنے پیش کر دیتے تھے اور اگر ججوں میں سے تین جج ‘ مصنف کو انعام کا حقدار قرار دیتے تو انعام اسکے سپرد کر دیا جاتا تھا جعفر صادق نے کھلے دل سے ہر قسم کی نظم و شعر کو ادب میں شامل کیا جعفر صادق کی نظر میں ادیب فقط وہ نہ ہوتا تھا جو شعر پڑھتا یا فی البدیہہ اشعار کے ذریعے اظہار خیال کرتا یا تقریر لکھتا اور پھر اسے ڑھتا بلکہ ہر وہ شخص جو کسی بھی موضوع پر نظم یا شعر میں اظہار خیال کرتا جو امام جعفر صادق کے نظریئے کے مطابق ادب کی تعریف کے لحاظ سے دلچسپ ہوتا تو اس شخص کو ادیب شمار کیا جاتا تھا اور علم و ادب کو نہ صرف مذہبی ثقافت کے لحاظ سے ضروری گردانتے بلکہ انسانی وقار کی بلندی اور انسانوں میں اچھی صفات کے فروغ کیلئے بھیعلم و ادب کو لازمی خیال کرتے تھے ۔
آپ جانتے تھے کہ ایک ایسا معاشرہ جس کے افراد ادیب و عالم ہوں اس میں دوسروں کے حقوق کی پا مالی کم دیکھنے میں آتی ہے اور اگر سب علم و ادب سے آشنا ہو جائیں تو تمام طبقوں کے باہمی تعلقات خوشگوار ہو جاتے ہیں امام جعفر صادق کی نظر میں مذہبی ثقافت جس کے چار رکن یعنی مذہب ادب علم و عرفان ہیں شیعہ مذہب کی تقویت و بقاء کیلئے بہت مفید اور موثر تھے امام جعفر صادق نے شیعہ مذہب کیلئے سن پیر کی مانند کوی بڑی عمارت تعمیر نہیں کی لیکن جو ثقافت وہ وجود میں لائے ہیں وہ سن پیر سے زیادہ دائمی ہے کیونکہ ایک مذہبی عمارت کو تباہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ سن پیر کے پہلے کلیسا کو تباہ کر دیا گیا تھا لیکن جعفر صادق کی مذہبی ثقافت کو کوئی ختم نہیں کر سکا ۔
سن پیر کا پہلا کلیسا قسطنطین (عیسائی روم کے پہلے بادشاہ) نے ۳۲۶ عیسوی میں بنانا شروع کیا اور چند سالوں کے بعد تکمیل کو پہنچا یہ کلیسا ماڈرن دور تک باقی رہا اس وقت جب ژول دوم عیسائی مذہب کے رہنما کے حکم سے اس کلیسا کو گرا دیا گیا اور جدید کلیسا کی تعمیر سروع کی گئی جو سن پیر کے نام سے روم میں پایا جاتا ہے اگر جعفر صادق مذہب شیعہ کیلئے ایک پر شکوہ عمارت تعمیر کرواتے تو ممکن تھا ایک ایسا آدمی پیدا ہوتا جو اس مذہب سے مخالفت کی بنا پر اس عمارت کو گرا دیتااور اج اس کا نام و نشان نہ ہوتا لیکن امام جعفر صادق نے شیعہ مذہبی ثقافت کی بنیاد کو اس طرح مستحکم اور مضبوط کیا کہ وہ ہمیشہ کے لئے باقی رہے اور اسے کوئی بھی تباہ نہ کر سکے اور نام و نشان نہ مٹا سکے آپ نے ثقافت کے چار ارکان کو جن کا ذکر اوپر آیا ہے تقویت پہنچائی خصوصا تین ارکان مذہب و ادب اور علم کیلئے کافی کوشش کی آ نے اس کیلئے اس قدر جدوجہد کی کہ دوسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں میں جو آپ کا تعلیم دینے کا زمانہ تھا اسلامی دنیا میں علم و ادب کی توسیع کا آغاز ہوا اور اگرچہ آپ تنہا علم و ادب کے محرک نہیں بنے لیکن آ نے سب سے پہلے اس راہ میں قدم رکھا اور دوسروں نے اس کی پیروی کی جعفر صادق علم و ادب کی توسیع اور علماء ادیبوں کو شوق دلانے کیلئے قدم آگے نہ بڑھاتے تو دوسری صدی کے دوسرے پچاس سالوں کے دوران اور تیسری صدی جری کے تمام دور اور چوتھی صدی ہجری کے ساری عرصے میں جو بڑی ادبی و علمی تحریک وجود میں آئی ہر گز وجود میں نہ آ سکتی وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ عباسی خلفاء نے علم و ادب کی ترویج میں سبقت حاصل کی وہ غلط فہمی کا شکار ہیں ۔
پہلے عباسی خلفاء کا مقصد اپنی حکومت کی بنیادیں مضبوط کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا اور ان کے بعد جو خلفاء آئے وہ زیادہ تر نفسانی خواہشات کے غلام تھے وہ کسی حد تک ہی علم و ادب کی طرف راغب ہوئے جیسا کہ ہم نے متوکل کے بارے میں مختصرا ذکر کیا ہے ۔
تیسری صدی ہجری اور چوتھی صدی ہجری میں علم و ادب کی جانب عباسی خلفاء کی توجہ کو اس زمانے کے رسم و رواج کی ضرورت سمجھا جا سکتا ہے نہ کہ علم و ادب کی طرف عباسی خلفاء کی خصوصی توجہ ‘ سنتیس ۳۸ عباسی خلفاء جنہوں نے مجموعا پانچ سو سال سے زیادہ عرصہ حکومت کی ان میں سے صرف چند ہی علم و ادب کی طرف مائل ہوئے اور باقی مادی لذتوں کے حصول کی فکر میں لگے رہے ۔
بہر کیف اس بات سے انکار نہیں کرنا چاہیے کہ انہیں چند خلفاء کی علم و ادب سے دلچسپی ‘ علم و ادب کے فروغ کا باعث بنی اگرچہ ہمیں معلوم ہے کہ انہوں نے اس زمانے کی روش کے مطابق علم و ادب سے دلچسپی کا اظہار کیاچونکہ بیت المال ان کے تصرف میں تھا اور اس کے علاوہ وہ قیمتی تحائف بھی وصول کرتے تھے جو لگا تار ان کیلئے عوام بھیجتے تھے وہ شعراء خطیبوں مصنفین اور علماء کو بڑے بڑے انعامات سے نواز سکتے تھے اور یہ انعامات دوسروں کو علم و ادب کی تحصیل کی طرف مائل کرتے تھے تاکہ وہ بھی خلیفہ کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرا سکیں اور بڑے بڑے انعامات حاصل کریں ۔
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شعراء جاہلیت کے زمانے میں عربی بدو قبائل کے سرداروں کی عادت تھی اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس فطرت ثانیا کی ابتدا خود عربوں نے کی تھی انہوں نے کسی اور قوم سے حاصل نہیں کی تھی کبھی کبھار ایسا ہوتا تھا کہ قبیلے کا سردار شاعرانہ ذوق کا حامل نہ ہوتا یا اشعار کا مفہوم نہ سمجھتا ت و بھی رسم و رواج کے مطابق وہ شاعر کے کلام کو ضرور سنتا تھا شو بہناور کے بقول چونکہ عرب بدووں کے قبائل کے سردار جب بیکار اور نکمے پن سے تنگ آ جاتے تھے تو اپنا وقت شاعروں کے نغمے سننے پر صرف کرتے تھے ۔
شو بنہاور ‘ عرب بدو قبائل کے اشعار سننے کو نہ صرف ان کی بیکاری پر محمول کرتا ہے بلکہ اس کے بقول ہر وہ کام جو انسان حصول معاش کے علاوہ انجام دیتا ہے وہ سب بیکاری میں شامل ہیں مثلا کھیلیں ‘تفریحات مہمان نوازیاں وغیرہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو فضول کاموں میں لگانا چاہتا ہے اس جرمن فلسفی نے اپنے کمرے میں اپنے سر کے اوپر ایک کتبہ نصب کیا ہوا تھا جس پر کندہ تھا کہ وہ انسان جو تمہیں دو پہر یا شام کے کھانے کی دعوت دے تمہارا سب سے برا دشمن ہے کیونکہ وہ تمہیں کام نہیں کرنے دیتا ۔
جب شاعر قبیلے کے سردار کے سمنے اپنے اشاعر پڑھتا تو وہ اسے انعام و اکرام سے نوازتا اور ادب کا تقاضا یہ تھا کہ شاعر اپنے اشعار میں قبیلے کے سردار کی شان میں چند بیت شامل کر دیتا تھا ۔
لیکن اس کی شان کے بیان کی ایک حد معین تھی اور اس طرح دور جاہلیت کے شعراء مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیتے تھے اور اپنے آ کو قبیلہ کے سردار کے مقابلے میں پست ظاہر نہیں کرتے تھے ان کی مدح میں ایسا شکر یہ ہوتا تھا جو ایک مہمان ‘ میزبان کی مہمان نوازی پر ادا کرتا ہے ۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ شعراء جو شاعروں کے اجتماعی میں شعر پڑھتے تھے لوگوں سے رقم بٹورتے تھے جب کہ ایسا ہر گز نہیں ۔
دور جاہلیت میں عربی شعراء اپنی عزت و وقار کا خاص پاس رکھتے تھے وہ قبائل کے سرداروں سے انعام لیتے اسے ایک طرح کی مزدوری سمجھا جاتا تھا اس طرح قبیلے کے رئیس کو صرف اتنا ہی حق پہنچتا تھا جتنا شاعر اپنے شعروں میں ادا کر دیتا تھا شاعر یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوتا تھا اس نے قبیلہ کے سردار کی شان میں شعر کہہ کر اس پر احسان کیا ہے لیکن سردار قبیلہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس نے شاعر کو نواز کر احسان کیا ہے وہ لوگ جو شاعروں کے اجتماع میں شعر خوانی کرتے ان کا مقصد شہرت اور مقبولیت پانا ہوتا تھا وہ لوگوں سے کسی تحفے وغیرہ کے امیدوار نہیں ہوتے تھے ۔
لیکن امام جعفر صادق کے زمانے تک کسی دور میں ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ جزیرہ عرب میں کسی شاعر نے شاعروں کے اجتماع میں سردار قبیلہ کے سامنے نثر کا کوئی قطعہ پیش کیا ہو وہ مضامین جو شعر کے قالب میں نہیں ڈھلتے عربوں کی نظر میں ادب کا حصہ نہیں تھے ۔
حتی کہ قرآن نازل ہوا اور قرآن کی نثر عرب بدوؤں کا پہلا نثری سرمایہ قرار پائی لیکن عرب قوم چونکہ قرآن کو ایک معجزہ خیال کرتی تھی لہذا وہ اسے ادب سے بالا تر شے خیال کرتی تھی اس کے باوجود کہ قران نے عربوں کو اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ نثر بھی ادبی سرمایہ قرار پا سکتی ہے پہلی صدی ہجری میں ماسوائے حضرت علی اور آ کے پوتے زین العابدین اور پھر محمد باقر کے کسی نے بھی ادبی نثر پر توجہ نہیں دی اور نہ ہی کوئی کتاب لکھی ۔
جعفر صادق کے زمانے تک جو لوگ کتاب لکھنا چاہتے تھے ان کا خیال تھا کہ انہیں اپنے افکار کو شعر ی قالب میں ڈھالنا چاہیے اور چونکہ شعر اوزان و بحروں کا محتاج ہوتا ہے اور شاعر قافیے کی رعایت کرتا تھا لہزا وہ لوگ ازادی سے اپنا مافی الضمیر بیان نہیں کر سکتے تھے ۔
جعفر صادق نے ادبی نثر کی توسیع کی مدد سے ان اسلامی مفکرین کے افکار کو پر عطا کئے جو اس وقت تک شعر کی بحروں میں قید تھے اور اس کے بعد جو کوئی کتاب لکھنا چاہتا نثر سے کام لیتا اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی ادب میں شعر کی اہمیت پر بھی کوئی اثر نہ پڑتا ۔
جعفر صادق کا فرمان جو انہوں نے اپنے بیٹھنے کی جگہ اپنے سر کے اوپر کندہ کروایا ہوا تھا کس قدر شاندار ہے کہ " یتیم وہ نہیں جس کا باپ نہ ہو بلکہ یتیم وہ ہے جو علم و ادب سے بے بہرہ ہو "
"علم " بنظر صادق
ہم نے دیکھا کہ امام جعفر صاد ق نے ادب کی کس طرح تعریف کی اور اب یہ دیکھنا ہے کہ انہوں نے علم کو کس پیرائے میں بیان کیا اور آپ کا عقیدہ تھا کہ احکام دین کے نفاذ کے بعد ایک مسلمان کیلئے علم والوں سے بڑھ کر کوئی چیز ضروری نہیں ہے جعفر صادق کی مذہبی ثقافت میں عرفان چوتھا رکن ہے البتہ آ عرفان کو واجبات میں سے نہیں سمجھتے لیکن علم و ادب کو واجبات کا جزو سمجھتے ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ یہ دینی واجبات میں سے نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے واجبات میں شمار ہوتا ہے ۔
جعفر صادق اس بات سے اگاہ تھے کہ علم و ادب نہ صرف یہ کہ شیعہ مذہب کی ثقافت کی تقویت کا باعث بنیں گے بلکہ دوسری قوموں میں مسلمانوں کی تقویت کا باعث بھی ہونگے اور اسلامی دنیا میں علم و ادب نے اس قدر ترقی کی کہ چوتھی صدی ہجری اسلامی دنیا میں علم و ادب کے سنہری دور کہلایا اور یورپ والوں نے اسلامی علم سے کافی فائدہ اٹھایا جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ متعدد علوم میں سے کوسنے علم کو دوسروں پر ترجیح حاصل ہے آپ نے فرمایا کوئی علم دوسرے علوم پر قابل ترجیح نہیں البتہ علوم سے استفادہ کرنے کے موارد میں فرق پایا جاتا ہے جس کے نتجے میں انسان کیلئے لازم ہے کہ بعض علوم کی تحصیل میں جلد کرے اور زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے اور آج کے دور میں (عہد جعفر صادق میں ) دو علوم سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے ایک علم دین اور دوسرا علم طب ‘۔
جعفر صادق کی علم دین سے زیادہ تر فقہ مراد تھی اور اپ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے زمانے میں علم قانون اور طب سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے آپ نے فرمایا ایک دن ایسا آئے گا جب انسان ان علوم سے بھی فائدہ اٹھائے گا جن سے فی الحال عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہا اور یہ بات محال ہے کہ علم انسان کیلئے سود مند نہ ہو مختصر یہ کہ انسان زمانے کی مناسبت سے علوم سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جعفر صادق کا عقیدہ تھا کہ انسان نے دنیا میں اپنی زندگی کے طویل عرصے میں صرف ایک مختصر عرصے کو علم کیلئے مخصوص کیاہے اور زیادہ تر علوم سے دور رہا ہے اور دو چیزوں نے انسان کو علوم سے دور رکھا ہے ۔
پہلی چیز مربی اور استاد کا نہ ہونا جو اسے علوم حاصل کرنے کا شوق دلائے دوسری انسان کی کاہلی چونکہ علم کو سیکھنا تکلیف کے بغیر نا ممکن ہے لہذا انسان فطرتا سہل پسند ہونے کی بنا پر علم سے دور بھاگتا ہے ۔
فرض کیا اس دنیا میں بنی نوع انسان نے دس ہزار سال گزارے ہیں تو انسان نے اس طویل عمر میں صرف ایک سو سال تحصیل علم کی طرف توجہ دی ہے اور اگر اس عرصے سے زیادہ علوم کی تحصیل پر صرف کرتا تو آج کچھ علوم کے عملی فوائد سے بہر مند ہوتا ۔
یہاں اس نکتے کی طرف توجہ بے محل نہیں کہ پہلے زمانے کے سکالرز نے عبرانیوں کے کیلنڈر سے حساب لگا کر اس دنیا کی عمر ۴۸۰۰ سال متعین کی تھی لیکن اب سکالرز نے اپنا خیال تبدیل کر لیا کیونکہ پہلے دنیا وجود میں آئی اور پھر انسان کی خلقت ہوئی ۔
لیکن جب امام جعفر صادق نے اس کی مثال دنیا چاہی تو فرمایا فرض کیا انسان نے اس دنیا میں د س ہزار سال زندگی بسر کی ہے تو اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ دنیا اور نوع بشر کی خلقت کے بارے میں عبرانیوں کے کیلنڈر سے متفق نہیں تھے ۔
اگرچہ ایک مثال ‘ دلیل شمار نہیں کی جا سکتی لیکن مثال دینا اس کے تعین کرنے کے مترادف ہے اور اگرچہ جعفر صادق کا یہ عقیدہ نہ ہوتا کہ بنی نوع انسان کی عمر ۴۸۰۰ سال سے زیادہ ہے تو آپ ہر گز دس ہزار سال عمر کے بارے میں گفتگو نہ کرتے بلکہ اس سے کم عمر کی مثال لاتے تین ہزار سال کی مثال دیتے ہم یقینا کہہ سکتے کہ زمین کی خلقت کے بارے میں جعفر صادق کی معلومات اپنے ہم عصروں سے زیادہ تھیں کیونکہ بعض اوقات ان کی گفتگو سے پتہ چلتا تھا کہ وہ تخلیق کے آغاز کی کیفیت سے مطلع ہیں ایک دفعہ اپنے شاگردوں سے فرمایا یہ بڑے بڑے پتھر جو آ پہاڑوں پر دیکھ رہے ہیں شروع میں مائع حالت میں تھے اور بعد میں یہ مائع ٹھنڈا ہو کر موجودہ صورت اختیار کر گیا ۔
اس نظریئے کی اہمیت کو ثابت کرنے کیلئے ( جو ساڑھے بارہ سو سال پہلے پیش کیا گیا تھا ) اتنا کہنا کافی ہے کہ فرانس کے انقلاب کے آغاز اور اٹھارہویں صدی عیسوی کے اختتام تک یورپ کے سکالرز اس بارے میں تذبذب کا شکار تھے کہ آیا زمین شروع میں ایک مائع سیارہ تھی یا نہیں ؟ اور اس سے ایک صدی پہلے پورے یورپ کا کوئی ایسا سکالر نہ تھا جو یہ کہتا کہ شاید زمین شروع میں ایک مائع سیارہ تھی ۔ اس زمانے میں یہ تصور پایا جاتا تھا کہ زمین اج جس حالت میں دکھائی دیتی ہے پہلے بھی اسی شکل میں موجود تھی ۔
جو کچھ جعفر صادق نے بنی نوعی انسان کی تحصیل علوم کے سلسلہ میں کاموں کا ذکر کیا ہے ۔ حقیقت کے عین مطابق ہے اور آج انسانوں کا مطالعہ کرنے والے سکالرز کا کہناہے کہ جس زمانے سے انسان نے دو پاؤں پر چلنا شروع کیا ہے اسے پانچ ہزار سال یا چار ہزار سال ہوئے ہیں اس سے پہلے ہمیں یہ توقع نہیں کرنی چاہیے انسان نے علوم کی طرف توجہ کی ہو گی کیونکہ چار ہاتھ اور پاؤں سے چلنے والے انسان کیلئے یہ بات محال تھی کہ تحصیل علم کیلئے آلہ تیار کرتا اور پھر صنعت سازی کرتا تاکہ اس راستے وہ علوم تک پہنچتا ۔
لیکن اگر انسان پانچ ہزار سال یا چار ہزار سال بعد بھی جبکہ وہ دو پاؤں پر چلتا رہا تھا اور اسکے دو ہاتھ کام کرنے کیلئے ازاد تھے ‘ آلہ بنا سکتا تھا اور اس کے ایک لاکھ سال بعد جبکہ انسان نے آگے سے استفادہ کرنا شروع کیا اور اگر اسکے بعد کے صرف ایک لاکھ سال کے دوران ہی علوم سے دلچسپی دکھاتا تو اج انسانی زندگی کے تمام مسائل اور شاید موت کا معمہ بھی حل ہو جاتا ۔
لیکن ان لاکھوں سالوں کے دوران مجموعی اعتبار سے انسان نے صرف ایک ہزار پانچ سو سال ہی علوم کی طرف توجہ مبذول کی ہے اور اس مختصر عرصہ میں بھی انسان کی علوم کی طر ف توجہ کبھی کم اور کبھی زیادہ رہی ہے ایک بات جو ہماری نظر میں نا قابل تردید ہے وہ یہ ہے کہ ڈکارٹ جسے فوت ہوئے تین صدیاں بیت گئی ہیں وہ پہلا شخص ہے جس نے علمی تحقیقی کی بنیاد ڈالی اور کہا کہ علمی حقیقت کو جاننے کیلئے جسم کو چھوٹی حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے اور اسکے بعد اسے مزید چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے اتنے چھوٹے حصے بنانے چاہیں کہ جو چیز حاصل ہو مزید اس کی تقسیم نہ ہو سکے پھر اس چھوٹے سے جسم کی تحقیق کرنا چاہیے اور اسکی خصوصیات دریافت کرنا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ فزکس اور کیمیاء کے لحاظ سے اسکی حالت کیسی ہے ؟ اور اگر ایک جسم کے چھوٹے سے چھوٹے حصے کے خواص معلوم ہو جائیں تو اس پورے جسم کے خواص معلوم کرنا کوئی مشکل نہیں ۔
عصر حاضر میں علمی ترقی نہ ہوتی ۔
یہاں اس بات سے اگاہی ضروری ہے کہ سترھویں صدی عیسوی کے بعد ٹیکنالوجی اور صنعتوں کی توسیع کی وجہ سے ڈکارٹ کا نظریہ کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہوا ۔ ڈاکرٹ سے ۲۲ صدیاں پہلے یونانی حکیم ذیم قراطیس نے یہ نظریہ پیش کیا لیکن امام جعفر صادق نے ذیم قراطیس کے نظریئے کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اشیاء کے خواص ہم اس وقت معلوم کر سکتے ہیں جب ہم کسی چیز کے چھوٹے سے ٹکڑے پر تحقیق کریں اور اس کے خواص سے ہم پورے جسم کے خواص تک پہنچ سکتے ہیں ۔
جس طرح ہم دنیا کے سمندروں کے پانی پر تحقیق نہیں کر سکتے لیکن اگر ایک سمندر کے پانیکے ایک قطرے پر تحقیق کریں تو ہم اس سارے سمندر کے خواص معلوم کر سکتے ہیں اگر صنعتی ترقی نہ ہوتی اور سائنس دانوں کو اجسام کو چھوٹے سے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنے کے ذرائع میسر نہ آتے تو ذیم قرطیس اور جعفر صادق کے قول کی مانند ڈکارٹ کا قول بھی تھیوری حد تک محدود رہتا ۔
اگر آج جب ہم سیکنڈ کا کروڑواں حصہ ایک ملی میٹر کا کروڑواں حصہ معلوم کر سکتے ہیں تو یہ صرف صنعتی ترقی کا کمال ہے ۔
|