شیعی ثقافت کی اہمیت اور آزادی
  امام جعفر صادق علیہ السلام شیعہ مکتب کیلنے جس ثقافت کو سامنے لانے وہ اس زمانے کی دوسری مذہبی ثقافتوں کی نسبت اس لحاظ سے ممتاز حیثیت کی حامل تھی کہ اس میں بحث کی آزادی تھی اور اسی وجہ سے اس ثقافت میں توسیع ہونی اور اسے فروغ حاصل ہوا ۔
گذشتہ صفحات میں ہم نے ذکر کیا کہ کیتھولک مذہب کی ثقافت تقریبا ایک ہزار سال تک جمود کا شکار ہی آج کے آرتھوڈکس مذہب کی ثقافت اور دوسری صدی عیسوی میں انطاکیہ میں اس مذہب کی ثقافت میں کوئی فرق نہیں ۔
لیکن شیعہ مکتب کو جعفر صادق نے ایسے خطوط پر استوار کیا کہ ابھی دوسری صدی ہجری اختتام کو نہیں پہنچی تھی کہ اس میں توسیع ہو گئی تھی ۔
شیعی ثقافت کا دامن نہ صرف یہ کہ خود وسیع ہوتا گیا بلکہ تمام اسلامی فرقوں کیلئے مباحثات میں کسی حد تک آزادی کے قائل ہونے کیلئے نمونہ ثابت ہوئی ۔
بعض لوگوں نے تصور کیا تھا کہ مذہب کے بارے میں بحث کی آزادی ‘ اسکندریہ کے علمی مکتب میں شروع ہوئی ‘ جبکہ ایسا نہیں ہے ۔ اسکندریہ کے علمی مکتب میں فلسفہ کے بعد ‘ علم نجوم و فزکس و کیمیاء و طب و فارمیسی اور کسی حد تک میکانکس کے بارے میں توجہ یا رغبت کا اظہار کیا جاتا تھا لیکن مذہب کے بارے میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا جاتا تھا ۔
اسکندریہ کے علمی مکتب کے سائنس دانوں کا ایک گروہ یہودی یا عیسائی تھا لیکن انہوں نے مذہبی مسائل کو کبھی علمی مباحثات میں داخل نہیں کیا ْونکہ اسکندریہ کا علمی مکتب ایک لا مذہب مکتب شمار ہوتا تھا ۔ لہذا یہ علمی مکتب مذہبی بحثوں میں نہیں پڑنا چاہتا تھا ۔
ہمیں معلوم ہے کہ اسکندریہ کے علمی مکتب کا آغاز اسکندریہ کی لائبریری سے ہوا اور ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ اسکندریہ کا کتابخانہ بطلیموس اول یعنی مصر کے بادشاہ نے قائم کیا یہ بادشاہ 258 قبل مسیح میں فوت ہوا ‘ یہاں اس بات کا تفصیلات ذکر ضروری نہیں ہے کہ سلسلہ بطالیہ کے بادشاہوں نے 150 مصر پر حکومت کی ان کا پہلا بادشاہ بطلیموس اول تھا جو یونانی الاصل تھا اور یہ بادشاہ یونان کے خداؤں کی پرستش کرتے تھے ۔
لیکن مصر کے بادشاہ ہونے کے باوجود ان کا مذہبی عقیدہ اسکندریہ کے علمی مکتب کی بحثوں کا موضوع نہ بنا اور وہ پہلا دانشور جو اسکندریہ کے علمی مکتب سے باہر آیا اس کا نام شکاک تھا جو پیرون کے نام سے مشہور ہوا ۔
پیرون مستقل طور پر اسکندریہ کا باسی نہ تھا لیکن اس علمی مکتب کے تربیت یافتہ لوگوں میں سے تھا اور اس مکتب نے اسے متاثر کیا اور شکی المزاج بنا دیا اس نے کہہ دیا کہ سائیاک وجود نیا میں نہیں ہے جسطرح محال ہے کہ ایک نظریہ پیش کیا جائے اور اس کو کسی دوسری نظریہ کے ذریعے مسترد نہ کیا جاسکے ۔
کہا جاتا ہے کہ اسکندریہ کے مکتب نے پیرون کو جس نے 370 قبل مسیح نوے سال کی عمر میں اس جہاں فانی کو الوداع کہا ‘ شکی المزاج نہیں بنایا بلکہ شک و شبہ کا مادہ پیرون کے اندر موجود تھا لیکن اسکندریہ کے اس مکتب میں علمی بحث کی آزادی کی وجہ سے اس کے شک و شبہ کو تقویت ملی یہاں تک کہ پیرون مکمل طور پر حقیقت کے وجود کا منکر ہو گیا اور اگر مصر کے سلسلہ بطالیہ کے بادشاہون کا دین اسکندریہ کے مکتب میں داخل ہوتا تو پیرون اتنی دیدہ دلیری سے ہر حقیقت پر شک کا اظہار نہ کر سکتا چونکہ بطالیہ بادشاہوں کے مذہب میں یونانی خداؤں کا وجود ایک ایسے حقیقت تھا جس میں شک و شبے کی گنجائش نہ تھی ۔
یہاں پر پیرون کے فلسفے کے متعلق بحث نہیں کرتے کیونکہ اسطرح ہم اپنے اصلی مقصد سے ہٹ جائیں گے ہمارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اسکندریہ کے علمی مکتب میں مذہبی بحث ہوتی تھی ۔ کیونکہ وہ مکتب علمی بحثوں کے لحاظ سے لا مذہب تھا ۔
بحث کی آزادی اس وقت شروع ہوئی جب جعفر صادق نے شیعی ثقافت کی مذہبی مسائل میں بنیاد رکھی اس ثقافت میں مذہبی بحثیں ‘ عام علمی مباحث میں داخل ہوئیں اور صدیوں بعد نوبت یہاں تک پہنچی کہ شیعہ مذہب کے دانشور اس مذہب کو علمی قوانین کے ذریعے ثابت کرنے لگے ۔
شیعہ مکتب کی ابتداء کا اثر دوسرے مذاہب پر بھی پڑا اور وہ بھی اپنے مذاہب کو علمی دلائل کے ذریعے ثابت کرنے لگے عیسی اور موسی کے مذاب کی طرح دین اسلام بھی جب آیا تو اس نے کسی دوسری چیز پر تکیہ کئے بغیر علمی دلائل کے ذریعے اپنی حقانیت کو ثابت کرنیکا آغاز کیا ۔
آج جبکہ دین موسی آئے ہوئے تیس صدیاں دین عیسی کو بیس صدیاں اور اسی طرح اسلام کو چودہ سو سال ہو چکے ہیں اہل بصیرت گروہ کا عقیدہ ہے کہ دین کا علمی استدال سے کوئی تعلق نہیں اس کا تعلق قلب و نظر سے ہے نہ کہ علم سے ۔
تمام آرتھوڈ کسی مذہبی پیشوا اس نظریئے کے حامی ہیں اور کیتھولکی مذہبی پیشواؤں کی اکثریت دین کو علم سے جدا کرنے کی قائل ہے ۔ البتہ اس مفہوم میں نہیں کہ دین ایک نظریہ نہیں جسے علم کے ذریعے ثابت نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس مفہوم میں کہ جب کبھی احکام دین عام استدال سے ثابت نہ ہوں تو یہ دین کے ناقص ونے کی دلیل نہیں کیونکہ عیسائی مذہب کا سر چشمہ عشق ہے نہ کہ علم ‘ اور دوسرے الفاظ میں اس مذہب کا سر چشمہ عشق ہے نہ کہ عقل ‘ اسی وجہ سے عیسائی مذہب کے مدارس جنکو آج انگریز زبان میں سیمزی اور فرنسیسی زبان میں سیمینر کہا جاتا ہے ان میں علوم نہیں پڑھائے جاتے تھے کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ دین اک سر چشمہ علم نہیں ہے ۔
&قرون وسطی میں کلاسیکل مذہبی دروس کے علاوہ ‘ عیسائی فقہ کو بھیمذکورہ مدارس کے دروس میں قانون کے نام پر داخل کیا ‘ اور ابھی تک عیسائی مذہب کے مدارس میں خصوصا کیتھولک مذہب کے مدارس میں قانون پڑھایا جاتا ہے ۔
لہذا عیسائی مذہب کے مدارس میں جو اور علم پڑھایا جاتا ہے وہ علم قانون یا قانون مذہبی ہے ۔ قرون وسطی کے دوران فزکس و کیمسٹری و نجوم و حساب و ہندسہ و طب و میکانکس عیسائی مذہب کے مدارس میں نہیں پڑھائے جاتے تھے اور فلسفہ بھی نہیں پڑھایا جاتا تھا ۔ کیونکہ فلسفہ پڑھانے کو عیسائی مذہب کے مدارس میں سود مند نہیں سمجھا جاتا تھا ۔
&شیعہ ثقافت جسے امام جعفر صادق نے رائج کیا پہلا ایسا مکتب ہے جس میں مذکورہ بالا علوم پڑھائے جاتے تھے جعفر صادق خود ان علوم کو پڑھاتے اور فلسفہ کی تدریس سے بھی پہلو تہی نہیں کی جاتی تھی ۔
جس فلسفہ کو جعفر صادق (ع) تدریس کرتے تھے وہ اس کلاسیکل فلسفہ کی اطلاعات پر مشتمل تا جو اس وقت تک مدینہ تک پہنچ چکی تھیں ۔
جس زمانے میں جعفر صادق (ع) فلسفہ پڑھاتے تھے اس زمانے تک یونانی حکماء کی کتابوں کا سوریانی زبان سے عبی زبان میں با محاورہ ترجمہ نہیں ہوا تھا ۔
باور کیا جاتا ہے کہ یونانی حکماء کے فلسفیانہ نظریات بھی مصر کے راستے بعض قبطی دانشورں کے ذریعے جو ابھی تک اسکندریہ کے آزاد بحث والے مکتب کے پیرو تھے ‘ مدینہ تک اور جعفر صادق (ع) تک پہنچے اور اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ وہ (بظاہر ) مکتب اسکندریہ کے آزاد بحث کرنیوالے مکتب کے پیرو کار تھے اسی مذہب کے پیروکار تھے اور اسی مذب کی پیروی کرتے ہوئے فلسفہ کو مضر خیال کرتے تھے ۔ بہر کیف ‘ قبطی علماء کی تعداد جو فلسفے سے دلچسپی رکھتی تھی ‘ کچھ زیادہ نہ تھی اور ان کی توصیف کے ساتھ ہم انداز کہہ سکتے ہیں کہ فلسفہ ان کی وساطت سے مدینے پہنچا ‘ اسلام میں جعفر صادق (ع) سے پہلے کسے استاد نے بھی فلسفے کو اپنے دروس میں (باقاعدہ ) داخل نہیں کیا جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعد میں فلسفہ شیعہ میں اور دوسری اسلامی فرقوں کے مدارس کے دورس کے مواد میں شامل ہو گیا ۔ اور اس کی ابتداء کا سہرا امام جعفر صادق کے سر ہے ۔
جعفر صادق کے دورس کے فلسفیانہ مباحث‘ سقراط افلاطون اور ارسطو کے فلسفیانہ نظریات تھے اور چونکہ جعفر صادق فلسفے کی تدریس کے بانی تھے ‘ لہذا آپ کے بعد آنیوالے ادوار میں شیعہ مدارس میں فلسفے کی تدریس کا رواج پڑ گیا ‘ سارے اسلامی فرقوں میں فلسفہ پڑھایا جاتا تھا لیکن اتنا عام نہیں تھا اور علاوہ دوسری اسلامی فرقوں میں فلسفہ پر توجہ نہیں دی جاتی اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مذہب پر اثر انداز نہیں ہوتا ۔ گذشتہ صفحات میں سے ایک میں ہم نے اشارہ کیا ہے کہ جعفر صادق عرفان بھی پڑھاتے تھے آپ کا عرفان ‘مشرق کے عرفان اور اسکندریہ کے مکتب کے عرفان سے متعلق تھا لیکن آپ ان دونوں مکاتب سے ایک جدید عرفانی مکتب وجود میں لائے جسے آپ کے پیروکار جعفری عرفان کا نام دیتے ہیں جعفر ی عرفان میں اور مشرقی اور مکتب اسکندریہ کے عرفان میں یہ فرق ہے کہ جعفری عرفان میں دنیاوی امور پر بھی ‘ اخلاقی امور پر اور تزکیہ نفس کی مانند توجہ دی جاتی ہے ۔
جعفر صادق نے اپنے عرفان میں صرف اخروری امور پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دنیاوی امور اخلاق و تزکیہ نفس کا بھی سہارا لیا ہے گوایا انہوں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جو کوئی دنیوی امور اخلاقی و تزکیہ نفس کے میدان جہاد میں جدوجہد کرے گا اسے آخرت میں اسکی اچھی جزا ملے گیا ور اس دنیا کی زندگی ایک کھیتی کے مانند ہے کہ جو کچھ یہاں بوئیں گے دوسری دنیامیں وہی کاٹیں گے اور جنہوں نے اس دنیا میں اپنے دنیوی و اخلاقی فرائض اادا کئے انہیں دوسری دنیا میں اپنے متعلق خوف و خظر نہیں ہونا چاہیے اور انہیں اس بارے میں فکر نہیں کرنا چاہیے کہ انہوں نے آخرت کیلئے توشہ مہیا نہیں کیا ۔ جعفر عرفان میں دوسرے مکاتب فکر کی مانند مبالغہ آرائی نہیں ہے اور خالق و مخلوق کی وحدت بھی نہیں پائی جاتی۔ آپ کے عرفان میں اگر انسان نیکو کار ہو گا تو خدا کے قریب ہو جائے گا لیکن اس سے ملحق نہیں ہو گا کیونکہ مخلوق خالق سے ملحق نہیں ہو سکتی اس بات کا امکان ہے کہ مخلوق اور خالق کے درمیان فاصلہ کم ہو جائے لیکن یہ فاصلہ مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکتا ۔
جعفر صادق کے حلہ درس میں آزادانہ اظہار خیال کیا جاتا تھا جس میں ہر شاگرد استاد پر اس حد تک تنقید کر سکتا تھا کہ استاد کے نظریئے کو مسترد بھی کر سکتا تھا ۔
جعفرصادق نے اپنا نظریہ شاگردوں پر ٹھونسا نہیں بلکہ انہیں آزادی تھی کہ استاد کے نظریئے کو قبول کریں یا مسترد کر دیں ۔
جعفر صادق کے درس کا اثر تھا کہ شاگرد آپ کے نظریئے کو قبول کر لیتے تھے ۔ جو لوگ جعفر صادق کے حلقہ درس میں حاضر ہوتے تھے انہیں علم تھا کہ مادی لحاظ سے ان کا درس سود مند نہیں ‘ بلکہ شہر مدینہ کے باہر ایک عرصے تک اگر کوئی شخص اپنے آپ کو جعفر صادق کے مریدوں میں سے ظاہر کرتا تو ممکن تھا کہ اس کی جان خطرے میں پڑ جائے کیونکہ اموی حکام جعفر صادق کے مردوں کو دشمن نگاہوں سے دیکھتے تھے ۔اگرچہ انہیں معلوم تھا کہ ان میں اس دور میں دشمنی کرنیکی جرات نہیں لیکن پھر بھی ان کا خیا ل تھا کہ یہ لوگ پہلی فرصت میں اپنی دشمنی کو ظاہر کر دیں ۔
جو لوگ جعفر صادق کے حلقہ درس میں شریک ہوتے تھے انہیں بخوبی علم تھا کہ وہ کسی مقام پر فائز نہیں ہو سکتے کیونکہ جعفر صادق اموی حکام و خلیفہ کی مانند دینوی مصب پر براجمان نہیں تھے کہ اپنے مریدوں اور شاگردوں کو کوئی رتبہ دیتے ۔ وہ لوگ جانتے تھے کہ جب جعفر صادق کے اپنے پاس مال و متاع نہیں ہے تو وہ دوسری کون کیسے نوازیں گے ۔
جو چیز امام جعفر صادق کے شاگردوں کو انکے درس کی طرف کھینچ لاتی تھی وہ آ پ کی قوت کلام اور آپ گفتگو پر ایقان تھا اور چونکہ امام جعفرصادق جو کچھ فرماتے تھے اس پر ان کا ایمان ہوتا تھا ‘ اس لئے آپکے کلمات شاگردوں پر اثر کرتے تھے ۔
جعفر صاد ق جو کچھ کہتی تھے اس پر ان کا ایمان تھا لہذا اپنی زندگی میں سلوہویں صدی عیسوی کے بعد کی صورتحال سے جیسے ایتھوپیا سے موسوم کیاجاتا ہے ‘ میں دخل نہیں دیا ۔
آپ نے اپنے شاگردوں کو ہر گز ایک ایسی آئیڈیل حکومت کے قیام کی جانب راغب نہیں کیا جسے عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا تھاجس زمانے میں آپ کے والد گرامی درس دیتے تھے ‘ وہ شاگرد جومحمدد باقر کے حلقہ درس میں حاضر ہوتے تھے وہ دینوی مصب تک پہنچے اور قاضی بننے کے امیدوار ہوتے تھے ۔
چونکہ ولید بن عبالملک اموی خلیفہ نے اس بات سے اتفاق کی اتھا جو لوگ آج کی اصطلاح میں فارغ التحصیل ہوں گے ۔ ان میں سے چند لوگوں کو جج منتخب کیا جائے گا ۔
لیکن جو لوگ جعفر صادق کے حلقہ درس میں شریک ہوتے تھے وہ اس بات کے امیدوار نہیں ہوتے تھے اور صرف معررفت کے حصول کیلئے علم حاصل کرتے تھے ۔
&اعراب کے مصر میں داخل ہونے اور مکتب اسکندریہ کے خاتمے میں سے پہلے مکتب اسکندریہ اور مکتب امام جعفر صادق دونوں میں اظہار خیال کی آزادی ہوتی تھی لیکن ان دونوں مکاتب میں یہ فرق تھا کہ مکتب اسکندریہ میں مذہبی بحث درمیان میں نہیں لائی جا تی تھی جبکہ جعفر صادق کے درس میں مذہب پر بحث ہوتی تھیا ور شاگردوں کو اس بات کی اجازت تھی کہ وہ استاد کے مذہبی نظریات پر بھی تنقید کریں ۔
اسی آزادی بحث کا اثر تھا کہ شیعی ثقافت طاقت ور اور وسیع ہوتی گئی اس لئے کہ اس میں زبردستی نہیں تھی اور جو شخص اسے قبول کرتا وہ صدق دل سے قبول کرتا تھا ‘ چونکہ اس ثقافت میں جبرو کراہ نہیں تھا اسلئے جو کوئی اسے قبول کرتا وہ مادی مفاد یا شان و شوکت کیلئے نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے مذہب شیعہ کا گرویدہ ہونے کے باعث اسے قبول کرتا تھا ۔
مشرقی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ صفویہ دور سے پہلے مشرق میں کوئی شیعہ سلطنت نہیں تھی اور اگرچہ آل بویہ سلاطن نے شیعہ مذہب کو پھیلانے کیلئے اقدامات کئے لیکن انہوں نے جبر و اکراہ سے کام نہیں لیا بلکہ شیعی ثقافت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جس میں کربلا کے اکسٹھ ہجری کے واقعات کا ذکر بھی ہوتا تھا ‘ اس مذہب کی تبلیغ و اشاعت کرتے تھے ۔
&آل بویہ کے شیعہ سلاطین کی کوئی مستقل حکومت دیکھنے میں نہیں آئی البتہ اس کے بعد صفویوں نے مضبوط حکومت کی بنیاد ڈالی ۔
بہر کیف شیعہ مذہب ‘ مشرقی ممالک میں ان ادوار کی حکومتوں کی مخالفت کے باوجود ترقی کرتا رہا اگرچہ اس کی ترقی اتنی تیز نہیں تھی پھر بھی چونکہ ایک مضبوط اور وسیع ثقافت کا حامل تھا لہذا سینکڑوں سال تک سلاطین اور حکام کی دشمنی کے مقابلے میں پائیدار رہا حالانکہ حکومت و طاقت نہ ہونے کے علاوہ اس کے پاس مادی وسائل کی بھی کمی تھی ۔بعض اقوام ایسی گزری ہیں جو صدیوں تک بغیر حکومت کے زندہ رہیں حالانکہ ان کے مساتھ مسلسل دشمنی کا برتاؤ کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ قومین مادی وسال رکھتی تھیں مثلا قرون وسطی میں کہ یہودی کہ نہ صرف عام لوگ بلکہ حکام حتی کہ بعض سلطاین بھی ان سے قرض لیتے تھے ۔ اور چونکہ مادی لحاظ سے وہ ان کے محتاج ہو تے تھے لہذا انہیں آزاد نہیں پہنچاتے تھے اور قرون وسطی میں یورپ کے بعض شہریوں کے حملوں میں یہودی الگ زندگی گزارتے تھے ۔
جعفر صادق کے ہزار سال بعد جب خطہ یورپ نے قون وسطی کی تاریکیوں سے نجات پائی اور اس خطے کے لوگوں کے نظریات میں جلائی آئی تو پھر بھی لاطینی یورپ کے ممالک مثلا فرانس ‘ اٹلی و سپین و پرتکال میں یہ حالت تھی کہ جب کوئی شخص کیتھولکی مذہب کی فروعات پر تنقید کرتا تو انتہائی سخت سزا دی جاتی تھی چہ جائیجہ وہ مذہب کے اصوول پر تنقید کرتا ۔
برونو ‘ ایک اٹالین پادری نے کیا کہا تھا جو اسے زندہ جلا ڈالا گیا۔ اس شخص کو 1600 عیسوی میں اس لئے جلا ڈالا گیا کہ یہ اصول و فروع کے لحاظ سے کیتھولکی مذہب سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ برونو نے کہا تھا کہ عقل آ جانے کے بعد دنیا اور زندگی کے بارے میں انسان وہ عقیدہ اپنا لیتاہے جو عقل و فہم کے مطابق ہو ۔
یہی سادہ اور اسان فہم عقیدہ اسے زندہ جلانیکا باعث بنا جس وقت برونو کو جلا گیا اس کی عمر باون سال تھی اور جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا اس وقت سے اسے مرتد قرار دینے اور جیل بھیجنے تک وہ بغیر کسی مبالغے کے محتاجوں کی مدد اور بیواؤں کی دسگیری اور بیماریوں کے علاج معالجے کے طرف توجہ دیتا رہا ۔
جیسا کہ چیونٹی کی سب سے بڑی خوشی اور لذت یہ ہے کہ اپنی غذا کا دوسری کو دے دیتی ہے اور خود بھوکی رہتی ہے ۔
چیور دانو برونو کو بھی اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنے اور دوسروں کو آرام پہنچانے میں خوشی محسوس ہوتی تھی جس دن سیبرونو ڈومینکی مذہبی فرقے کا روحانی پیشوا بن ااس وقت سے جیل خانے تک ایک دن بھی ایسا نہیں گذرا کہ کوئی حاجت مند اس کے ہاں نہ آیا ہو اور برونو نے اسے نا امید واپس بھیج دیا ہو وہ جہاں رہتا اس کا گھر ہمیشہ کھلا رہتا یہاں تک کہ راتوں کو بھی اس کے گھر کا دروازہ کھلا رہتا اور جب کبھیکوئی حاجت مند رات کو اس کے گھر آتا برونو نیند سی بیدار ہو کر اپنی استطاعت کے مطابق اس کی حاجت روائی کرتا ۔
جو نہی برونو کو لائے اور اپنے تیر کا نشانہبنایا تمام تماشائی دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اور جلاد جس کے پاس جلتی ہوئی مشعل تھی اس نے اسے جیل سے لکڑی کے ڈالے ہوئے انبار کے نزدیک کر دیا تاکہ لکڑی کا انبار نورا آگ پکڑ سکے اور وہ شخص جس نے اپنی زندگی محتاجوں اور درد مندوں کی خدمت کے لئے وقف کر دی تھی درناک اھوں اور سسکیوں کے درمیان دم توڑ گیا اور اس کے گوشت کی بو فضا میں پھیل گئی اس کی ساری عمر کی نیکو کاری اسے درد ناک موت سے نہ بچا سکی ۔
آج ہمارے خیال کے مطابق برونو نیجو کچھ کہا وہ منطقی اور قابل قبول ہے ۔
لیکن سولہویں صدی عیسویکے آخر میں عقیدیکی تفتیش کرنے والی تنظیم نے کہا برونو کے اظہار خیال کو عیسی کی ذہانت کی مخالفت قرار دیا اور اس کا فیصلہ اس طرح دیا کہ ہر عیسائی کو بالغ و عاقل ہونے کے بعد دنیاکے متعلق " عہد عتیق اور عہد جدید " (دو کتابیں ) کے مطابق عمل کرنا چاہیے نہ کہ اپنی عقل و فہم کے مطابق اور چونکہ برونو نے کہا ہے کہ آدمی اپنی عقل و فہم کے مطابق دنیاوی فیصلے کرتا ہے لہذا وہ مرتد ہے اورا س کے ارتداد کی وجہ شیطان کا اس کے جسم میں حلول کر جانا ہے پس اسے جلانا چاہیے تاکہ شیطان اس کے جسم سے خارج ہو ۔
لیکن شیعہ ثقافت میں مختلف مسائل کے متعلق اس قدر آزادی سے بحث کی جاتی تھی کہ تیسری صدی ہجری کے پہلے دور میں ابن راوندنی جیسا انسان اسلامی دنیا میں نمودار ہوا ۔

ابن راوندی کا تعارف و کردار
احمد بنی یحیی بن اسحا ق راوندی ‘ راوند جو کاشان و اصفہان کے درمیان قصبہ ہے کا رہنے والا تھا راوند ایک بڑا قصبہ تھا جس میں ایک مدرسہ بھی تھا اور احمد بن یحیی المعروف بہ ابن راوندی نے اسی قصبے میں ابتدائی تعلیم پائی اور مزید تحصیل علم کیلئے رے(شہر ) کا رخ کیااس کا رے کی طرف جانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ابھی تک اصفہان جوبعد میں مشرق کے دارالعلوموں میں سے ایک قرار پایا اس وقت علمی حیثیت کا حامل نہیں تھا وگرنہ ابن راوندی اصفہان جاتا جو اس کے زیادہ نزدیک پڑتا تھا اور اس زمانے میں جب کہ موجودہ زمانے کی مانند رابطے کے تیز رفتار ذرائع نہیں تھے ایک طالب علم کیلئے مکتب کا نزدیک ہونا خاصی اہمیت رکھتا تھا ۔
بہر کیف ابن راوندی تحصیل علم کیلئے رے گیا اور وہاں حصول علم میں ایسی کامیابی حاصل کی کہ تمام استادوں کو حیرت میں ڈال دیا اس کے استاد اس کی تعریف کرنے لگے ہمیں افسوس ہے کہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس نے رے کے کس مدرسے میں تعلیم حاصل کیاور وہاں اس کے استاد کون تھے اس نے انیس یا بیس سال کی عمر میں اپنے زمانے کے تمام علوم سیکھ لئے اور کوئی ایسا علم باقی نہ رہا جس سیوہ آگاہ نہ ہوتا وہ واجبات دینی پر بھر پور توجہ دیتا تھا اس نے اپنی پہلی کتاب رے میں تعلیم کے دوران " الابتداء والا عانہ "
کے نام سیلکھی اس کتاب میں اور اپنی دوسری کتاب جسے اس نے الا سماء والا حکام کے نام سے موسوم کیا اس نے اپنے کٹر مسلمان ہونے کی نشاندہی کی ہے لیکن ان کے بعد ایسی کتب لکھیں جن میں اس نے نہ صرف فروع دین اسلام کو تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ اصولو دین پر بھی حملہ کیا ۔
اس نے شروع میں شیعوں کے آئمہ جن میں جعفر صادق بھی ہیں جو اس کی پیدائش سے پچاس سال پہلے اس جہان فانی سے کوچ کر گئے تھے سے بھی عقیدت کا اظہار کیا تھا لیکن نہ صرف اس نے شیعہ کا انکار کیا بلکہ اسلام کے اصولوں کی مخالفت کی بنیاد بھی ڈالی اور یکے بعد دیگرتوحید کی مخالفت میں چند کتابیں لکھیں جن میں اس نے کوشش کی ہے کہ خالق کی وحدت کا اں کار کرے اور توحید کو دین میں متزلزل کر دے اپنی کتابوں میں اس نے اس طرح دکھایا ہے کہ خداوند تعالی کی صفات اس کی ذات سے جدا ہیں ۔
تمام توحید مذاہب جن میں اسلام بھی شامل ہے اس بات کے معتقد ہیں کہ ہر وہ شخص جو مومن ہے خداوند تعالی کی صفات کو اس کی ذات سے جدا نہیں سمجھتا ۔
ہر وہ شخص جو وحدت خداوندی کا قائل ہے اسیخداوند تعالی کی صفات کو اس کی ذات کا جزو جاننا چاہیے یعنی خداوند تعالی کا علم اس کی ذات سے جدا نہیں ہے اور دونوں ایک ساتھ وجود میں آئے ہیں یہ اس صورت میں ہے کہ جب ہم فرض کریں کہ خدوند تعالی وجود میں آیا اور ایک موحد ایسا فرض نہیں کرتا کیونکہ ہر توحید پرست کے عقیدے کے مطابق خداوند تعالی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے ا ۔
توحید پرست سوچ بھی نہیں سکتا کہ خدوند تعالی وجود میں آیا ہے کیونکہ اگر وہ ایسا خیال کرے تو لا محالہ اس کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ وہ کب وجود میں آیا ۱ اور کس نے اسے پیداکیا ۱ ایک توحید پر ست خدوندتعالی کے بارے میں اس طرح خیال کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اس کی صفت اس کی ذات سے جدا نہیں ہے یعنی ہر وہ صفت جو خدا میں پائی جاتی ہیوہ اسکے ساتھ ہی وجود میں آئی ہے (ا گر موحد یہ فرض کرے کہ خدا وجود میں آیا ہے )
ابن راوندی نے توحید کو جو دین اسلام کی پہلی اصل ہے ‘ متزلزل کرنے کیلئے کہا خدا جس وقت وجود میں آیا عالم نہیں تھا اور وجود میں آنیکے بعد خدان نے علم کو کو اپنے لئے پیدا کیا ۔
ابن راوندیکا یہ کہنا اس باتکی نشاندہی ہے کہ ابن راوندینے صفات خدا کو اس کی غیر ذات قرار دیا ہے جس کے نتیجہ میں وہ مشرک ہو گیا تھا کیونکہ جو شخص خدا کی صفات کو اس کی ذات سے جدا سمجھے مشرک ہے جیساکہ ہم نے ذکر کی اہے ابن راوندی جعفر صادق کی وفات کے نصف صدی بعد پیدا ہوا اور جعفر صادق موجود نہ تھے جو اسے جواب دیتے البتہ دوسری نسل کے شاگرد جو اس وقت زندہ تھے اور آپ کے حلقہ درس میں حاضر ہو چکے تھے انہوں نے ابن راوندی کو جواب دیا کہ اگر خداوند تعالی دانا نہ ہو تا تو اسے کیس معلوم ہوتا کہ وہ اپنے علم کو وجود میں لائے ۔
کیا یہی بات خدا کی دانائی پر دلالت کیلئے کافی نہیں ہے کہ اس نے درک کر لیا کہ اسے دانا بننا چاہیے ؟
چونکہ ایک نادان وجود کو اس بات کا علم نہیں ہو سکتا کہ اسے دانائی کی ضرورت ہے اور کسی وجود کا دانا بننے کیلئے کوشش کرنا بھی اس کی دانائی کی دلیل ہے ۔
ابن راوندی نے نہ صرف علم کی صفت کو خدا سے جدا جانا بلکہ کہا کہ خدا کی دوسری صفات بھی اس سے جدا ہیں۔
ابن راوندی کے بقول خدا میں وہ تمام صفات جن کو اس سے نسبت دی جاتی ہے موجود نہ تھیں اور بعد میں جب خود وجود میں آیا تو اس نے صفات کو پیدا کیا اگر ابن راوندی قرون وسطی میں یورپ میں یہ بات زبان پرلاتا تو اسے موت کی سزا دی جاتیاور آگ میں جلاتے یا دوسرے طریقے سے ہلاک کر دیا جاتا ۔
لیکن تیسری صدی کے پہلے پچاس سالوں کے دوران کسی نے بھی اس کو اذیت نہیں پہنچائی اس کی کتابوں کو دیابرد کیا نہ ہی انہیں جلایا اور صرف اس کو جواب دیتے رہے۔
جو ثقافت جعفر صادق وجود میں لائے وہ آزاد بحث کی اس قدر شیدائی تھی کہ راوندی کی تکیفر اس نیان سنی کر دیاور اسے فلسفیانہ بحثوں کا حصہ شمار کیا اور کسی نے بھی اس کے مرتد ہونے پر اسے گرفتار نہیں کیا اور نہ اس کی مذمت کرکے اسے کیفر کردار تک پہنچایا ۔
خدائی صفات کو اس کی ذات سے جدا ماننے کے بعد ابن راوندی ایک مرتبہ توحید کا بھی منکر ہوا جب اس شخص نے خداکا انکار کیا اور کہا کہ خدا نہیں ہے تو اسکے کافر اور مرتد ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رہی اسلام کے مطابق کوئی انسان اگر مرتد ہو جائے تو وہ واجب القتل ہوتا ہے بہر کیف اس کے باوجود بھی کسی نے ابن راوندی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی البتہ اس کے سوالوں کے جوابات دیتے رہے ۔
تیسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں کے دوران بغداد نسبتا جدید شہر اور اس کی تعمیر کو ایک صدی سے زیادہ عرصہ نہیں گزارا تھا بلکہ وہ عالم اسلام کی ثقافت و علم کا مرکز بنتا جا رہا تھا کوئی ایسا دن نہ گزرتا تھا کہ بغداد میں ایک جدید کتاب مکمل نہ ہوتی ہو یا دوسری جگہوں سے کوئی دانشور آ کر کتاب کی تقریب رونمائی نہ کراتا ہو ۔
لوگوں میں کتب بینی کا اس قدر شوق تھا کہ تقریبا ہزار کاتب بغدا میں کتابیں لکھنے کیلئے بیٹھے ہوئے تھے ۔
لوگوں کو کتابیں پڑھنے کا بے حد شوق تھا جب کہ کتابوں کے مصنفین اپنی کتابوں کی متعدد کاپیاں لوگوں کے ہاتھوں فروخت کرنے کیلئے تیار کرنے سے قاصر تھے ۔
لہذا اپنی کتابوں کو کاتبوں کے حوالے کر دیتے اور جب ایک کاتب کو کوئی کتاب موصول ہوتی تو چونکہ وہ کم عرصے میں اسے نہ لکھ سکتا تھا لہذا اسے کاتبوں کے گرو میں تقسیم کر دیا ۔
مثال کے طور پر اگر ایک کتاب کے پانچ سو صفحات ہوتے تو اسے پانچ کاتبوں کے درمیان تقسیم کرنے سے ہر ایک کے حصے میں ایک سو صفحا آتے یا اسی دن دس کاتبوں کے درمیان تقسیم کرنے سے ہر ایک کے حصے میں پچاس صفحات لکھنے پڑتے تاکہ جتنا جلدی ممکن ہو کتاب مکمل ہو جائے ۔
اتفاق سے کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی کتاب کی مانگ اس قدر زیادہ ہوتی کہ اس کتاب سے پچاس سو کاپیاں تیار کرنا پڑتیں اس صورت میں پانچ سو صفحات کی ایک کتاب کو سو کاتبوں میں تقسیم کر دیتے اور ہر ایک کے حصے میں پانچ صفحات آتے اس طرح ہر کاتب پچاس یا سو کاپیاں تیار کرتا جو نہی یہ کاپیاں تیار ہوتی جاتیں تو انہیں کاتبوں سے لے کر اکٹھا کرتے اور کتابوں کی شکل دیتے جاتے اور پھر خریداروں کو فروخت کر دیتے یوں ان لکھنے والوں کا طقبہ بغداد میں وجود میں آ گیا تھا اس طبقے کو " صف الورقہ " کہا جاتا تھا چونکہ کاتبوں کو وراق کہا جاتا تھا تیسری صدی ہجری میں بغداد میں وراق کا اطلاق کاتب پرہوا تھا اور چوتھی صدی ہجری میں اس اصطلاح کا اطلاق جلدیں بنانے والوں پر ہونے لگا کیونکہ کتابوں کو لکھنے کے بعد دوبارہ اکٹھا کیا جاتا تھا اور انہیں کتابی شکل دیتے تھے شاید ہمارا خیال ہو کہ یہ لوگ خلفا بنی عباسی کیدارالحکومت میں تنگ دستی کی زندگی بسر کر رہے ہوں گے کیونکہ آج کل کے معاشرے میں کوئی بھی کاتب اگر فقط اس فن پر اکتفا کریگا تو اس کی معاشی حالت اچھی نہیں ہو سکتی فرانسیسی میں ایسے شخص کو طنزا " گرات پاسے " یعنی کاغذ خراش کہا جاتا ہے اور انگریز میں اسکریچ کہا جاتا ہے جس کا مفہوم بھی کاغذ خراش ہے ۔
یورپ میں نویں صدی عیسوی میں ان کاتبوں کے علاوہ ایک اور طبقہ وجود میں آیا جن کا کام موسیقی کی دھنیں لکھنا ہوتا تھا ۔
ژزان ۔ زاک روسو مشہور فرانسیسی مصنف نے ایک عرصے تک اسی کام کو ذریعہ معاش بنائے رکھا اسیہر صفے کے عوض تین شاہی (سکے کا نام ) ملتے تھے جو اس زمانیمیں ایک معقصول رقم ہوتی تھی کتابیں لکھنے والے کاتب روسو کے زمانے میں آسودہ حال نہیں تھیچونکہ چھاپہ خانے قائم تھے اور کاتبوں کرنے کا موقع بہت کم میسر اتا (البتہ صرف وہ کاتب جن کا رسم الخط اچھا ہوتا ) کیونکہ بعض کابتوں کا رسم الخط واجبی سا ہوتا تھا اس کے بعد کچھ عرصے بعد موسیقی کی دھنوں کے کاتب بھی دوسروں کے مانند بد حالی کا شکار ہو گئے کیونکہ اس کے بعد موسیقی کی دھنوں کو بھی چھاپا جانے لگا ۔
موجودہ زمانے میں یورپ اور امریکہ میں کوئی بھی کتب نویسی کو ذریعہ معاش نہیں بنا سکتا چونکہ اب کتابوں اور موسیقی کی دھنوں کی چھپائیہوتی ہے ۔
اور دوسر یہ کہ کاغذ خراش کا جو مفہوم فرانسیسی اور انگریز میں ہے امریکہا ور یورپ میں موجود نہیں ہے لیکن کاغذ خراش کی ایک دوسری قسم جو قدیم زمانے میں ناپید تھی پائی جاتی ہے وہ گاست روبتر ہے یعنی قابل رحم اور نفرت انگیزمصنف گاست روبتر وہ شخص جو کتاب لکھتا ہے اور دوسرای اسے اپنے نام اور پتے کے ساتھ شائع کروات ہے گاست روبرجس کے انگریز ی میں لفظی معنی قابل نفرت اور قابل رحم مصنف ہیں وہ شخص جو کتاب لکھتا اور تکلیف اٹھاتا ہے تاکہ دوسرا اسے اپنے نام سے شائع کروائے تو وہ مصنف انگریز رسم و رواج کے مطابق حیرت انگریز کام کرتا ہے لیکن دوسری طرف وہی شخص قابل رحم بھی ہے کیونکہ اگر وہ تنگدست نہ ہوتا تو ہر گز یہ کام نہ کرتا ۔
فرانسیسی ایسے مصنف کیلئے انگریزوں کی مانند سخت الفاظ اسعمال نہ کرتے بلکہ قدرے ملامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے مصنف کے لئینگر (سقر کے وزن پر ) یعنی سیاہ فام کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔
نگر کی اصطلاح فرانسیی میں سیاہ فام غلاموں اور کنیزوں کیلئے مخصوص ہے چونکہ جو شص اس لئے کتاب لکھے تاکہ دوسری کے نام سے شائع ہو تو وہ ایک طرح اپنی تذلیل کرتا ہے فرانسیسی اسے بھی نگر کہتے ہیں قدیم زمانے میں کوئی بھی اس لیے کتاب نہیں لکھتا تھا کہ دوسرا اسے اپنے نام سے شائع کروائے اور یہ کہ تمام کتابیں ہاتھ سے لکھی جاتیتھیں بغداد تیسری صدی ہجری کے پہلے نصف عرصے میں علم کا مرکز بن گیا تھا اور جو کاتب کتابیں لکھنے پر مامور ہوتے تھے وہ معاشرے کامحترم طبقہ شمار کئے جاتے تھے جب بغداد میں کہا جاتا کہ فلاں شخص وراق ہے یعنی وہ کتابوں کی کاپیاں تیار کرتا ہے تو لا محالہ ان لوگوں کے ذہن میں ایک شخص کا خیال آتا تھا اور بغداد میں وراقوں کا احترام عربوں کی فطرت صفات میں سے تھا جو وہ ایک لکھنے والے کیلئے بجا لاتے تھے ۔
مکتوب یعنی لکھا ہوا عربوں کی نظر میں نہ صرف محترم ہوتا بلکہ مقدس بھی سمجھا جاتا تھا کہا جاتا ہے کہ مکتوب اس لئے عربوں کے ہاں قابل احترام ہے کہ ان کی مذہبی کتاب قران بھی مکتوب ہے لیکن قبل از اسلام عربوں کے پاس کوئی کتاب نہیں تھی عرب کا ایک بدو بھی مکتوب کا احترام کرتا تھا ۔
عرب کے بدو مکتوب کو اپنے ماحول اور تصورات سے مافوق الفطرت چیز خیال کرتے تھے اور مکتوب کا اس قدر احترام کرتے کہ ان کے خیال میں ان کے خدا بھی مکتوب کے زیر اثر ہیں اور انکے خداؤں ( جن میں سے بعض کے مجسمیکعبہ میں موجود تھے جبکہ بعض کے موجود نہیں تھے ) کی سر نوشت کاتعین بھی المکتوب کرتا جیسا کہ ہمیں معلوم ہے مشہور بدو عربی قبیلے ایک خدا یا چند خداؤں کو جن کے مجسمے کعبے میں لٹکے ہوتے یا مجسمے نہ ہوتے پوجا کرتیتھے اور قبل از اسلام ان قبیلوں کے درمیان جنگ کا اصلی سبب وہ اختلاف ہوتا تھا جو خداؤں کی پرستش کی بنیاد پر پایا جاتا تھا اور یہ جنگیں اس قدر طویل ہوتی تھیں کہ عام قبائل تھک جاتے اسی لئے انہوں نے آپس میں طے کیا کہ سال کے چار مہینوں کا احترام کرتے ہوئے اس دوران جنگ بندی کی جائے تاکہ دوسری کام سر انجام دے سکیں ۔
لیکن اسکے باوجود کہ ہر قبیلہ ایک یا چند خداؤں کی پرستش کرتا تھا جو دوسری قبیلوں کے خدؤں سے مختلف ہوتے تھے پھر بھی عرب کے تمام قبائل المکتوب کے ا حترام کے قائل تھے۔
اسلام کی آمد کے بعد جن لووں نے قرآن کی تفسیر کی انہوں نے المکتوب کااطلاق ان چیزوں پر کیا جو ازلی واہدی لوح پرلکھی ہوئی ہیں ۔
لیکن قبل از اسلام جبکہ ابھی قران نازل نہیں ہواتھ ایک بدو عرب ازلی اور ابدی لوح کا وہ تصور نہیں رکھتا تھا جو قراں کے بعض مفسرین نے بیان کیا ۔ بہر کیف اس کا عقیدہ تھا کہ المکتوب ایک ایسی عظیم چیز ہے کہ خدا بھی اس کے زیر اثر ہیں چونکہ بدو عرب المکتوب کا احترام کرتے تھے۔ بدو عرب ناخواندہ تھے لیکن جب کبھی کاف یا لام کا حرف سنتے تو اسے احترام سے زبان پر لاتے اور قسم کھانا چونکہ ان کا تکیہ کلام ہوتا تھا عربستان کے صحرانشین شاید دن میں دس بار سیزیادہ قسم کھاتے تھے وہ کبھی حروف تہجی کی بھی قسم کھاتے حالانکہ وہ ناخواندہ ہوتے تھے اور کاف یا لام کی شکل کیسیہے ؟ انہیں اس بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا تھا ۔ وراق بغداد میں کتابت کے ذریعے اپنی معاش کاسامنا فراہم کرتے تھے وہ عربوں کی المکتوب کے متعلق اس فطری اور اجتماعی روایتی عقیدے سے فائدہ اٹھاتے تھے ۔ وہ خصوصا ایسی کتاب لکھتے جو عربوں کی نظرمیں دوسری تحریروں کی نسبت زیادہ جچتی ۔
آج اس زمانے کو گیارہ صدیاں اور اسلام کو آئے ہوئے چودہ سو سال ہوچکے ہیں عرب ممالک میں خصوصا مصر میں کتابیں اور اخبار کثرت سے چھاپے جاتے ہیں بعض اخبارات ایسے بھی ہیں جنکے ایک شمارے کی جمعہ کے دن کی تعداد پانچ لاکھ کاپی ہے ۔
کتابوں ‘ رسالوں اور اخبارات کی کثرت اشاعت کے سبب عرب ممالک میں المکتوب کا احترام ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن ابھیتک تمام عرب ممالک میں المکتوب محترمہے کیونکہ مذہبی اور علمی کتابیں مکتوب ہی تو ہیں اور دوسرا یہ کہ عرب ممالک میں المکتوب سے مراد لوح ازلی و ابدی پر لکھی ہوئی عبارت ہے اور عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ جو کچھ مکتوب یعنی لکھا ہوا ہے وہ ہو کر رہے گا آدمی اس میں رخنہ اندازی نہیں کر سکتا ۔
تیسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں میں وراقوں نے عباس خلفا کی کتابوں کے متعلق توجہ سے بھی فائدہ اٹھایا کوئی ایسا مصنف نہیں ہوتا تھا اگرچہ درمیانے درجے کی کتاب لکھتا اور عباسی خلفاء اسکی قدر دانی نہ کرتیاور ان کی معقول امداد سے بہرہ مند نہ ہوتا جو کوئی خلیفہ کی مدد سے بہرہ مند ہوتا اسے اتنا سرمایہ ہاتھ لگتا تھا کہ ساری عمر آسودہ حالی میں گزار سکتا تھا ۔
ایسے زمانے کو اگر مصنفین اور وراقوں کا سنہری دور کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہو گا ‘ ابن راوندی نے بغداد میں قدم رکھا ۔ دو چیزوں نے اس دمی کو بغداد جانے پر مائل کیاایک جیسا کہ ہمنے ذکر کیابغداد علمی مرکز بنتا جا رہا تھاور ابن راوندی جیسے شخص نے محسوس کر لیا تھا کہ اسے بغداد جا کر دانائی کے اس مرکز سے تحصیل کرنا چاہیے دوسرا یہ کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ عباسی خلیفہ کی طرف سے مالی اعانت کی امید میں اس نے بغداد کا رخ کیا ہو گا ۔
ابن راوندی جب بغداد پہنچا تو گمنام نہ تھا بلکہ اس کی دو کتابیں الاتبداء و الاعادہ اور االاسماء والا حکام کے ناموں سے بغداد کے علمی مرکز میں پہلے ہی سے پہنچ چکی تھیں ہم بتا چکے ہیں کہ ان کتابوں میں اس نے اپنے آپکو ایک کٹر مسلمان ظاہر کیا ہے بہر کیف اس کی شہرت بغداد میں اتنی نہیں تھی جتنی اراک (ایران کا ایک شہر) میں تھی ۔ اور خود اسے بھی اس بات کا بخوبی علم تھا ۔
لہذا بغداد کوچ کرنے سے قبل اس نے بغداد کے فضلا میں سیایک شخص عباس صروم کے لئے اپنے ایک جاننے والے کا پیغام بھی پلے باندھ لیا تاکہ جب خلفائیعباسیہ کے دارالحکومت میں داخل ہو تو کوئی راہنمائی کرنے والا بھی ہو ۔ بغداد میں داخل ہونے کے بعد اسنے مسافر خانے میں قیام کیابغداد جو خلفائے عباسیہ کا دارالحکومت تھا ابھی چوتھی
او رپانچویں صدی ہجری کی مانند پر شکوہ نہیں ہوا تا ابن راوندی کو عباس صروم کے ڈھونڈنے میں چند دن لگے اور اگر وہ چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں بغداد آتا تو جب تک اسکے ہمراہ اس کا صحیح پتہ نہ ہوتا تو شائد وہ چند مہینوں میں بھی اس تلاش نہ کر سکتا کیونکہ چوتھی صدی ہجری میں بغداد اتنا پھیل گیا تھا کہ قافلے والے شہرکے طول کا دجلہ کے کسی ایک ساحل کے ساتھ ساتھ ایک دن میں چکر نہیں لگا سکتے تھے۔
جب ابن راوندی عباس صروم سے ملا تو اس نے اپنی کتاب جو الفرند کے نامس یموسوم ہے اسے دکھائی اور کہا میرے پاس اس کتاب کی صرف ایک کاپی ہے اسلئے میں اس کی مزید کاپیاں تیار کروانا چاہتا ہوں ۔ عباس صروم نے کتاب کا ایک حصہ پڑھنے کے بعد حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا اے ابوالحسن (ابن راوندی کنیت) یہ کتاب جو تم نے تحریر کی ہے کیا کسی کی نظروں سے گزری ہے ؟ ابن راوندینے کہا " ایران کے شہر اراک میں اس کتاب کی کئی کاپیاں تیار کی گئیں اور بہت سے لوگ اسے پڑھ چکے ہیں ۔
عباس صروم نے حیران کن لہجے میں کہا نجانے تم آج تک کیسے زندہ ہو ؟
ابن راوندی نے کہا کیا تم اس لئے حیران ہو رہے ہو کہ میں آج تک زندہ ہوں ؟
صروم نے جواب دیا اس لئے کہ تو نے جو کچھ اس کتاب میں لکھا ہے کفر ہے اور جو مسلمان ایسے کلمات لکھے یا زبان پر لائے وہ کافر ہو جاتا ہے۔
ابن راوندی نے کہا یہ کلمات کفرنہیں بلکہ حقائق ہیں ۔ صروم نے اسے تاکید کی کہ ایسی بات زبان پرنہلاؤ تم نے اس کتاب میں دین اسلام کے اصول یعنی توحید نبوت اور معاد کا انکار کیا ہے ابن راوندی نے کہا آپ کا خیال درست نہیں اگر آپ میری کتاب کو غور سے پڑھیں تو سمجھ جائیں گے کہ میں نے توحید کا انکار نہیں کیا۔
میرا مقصد خدا پرستی کو اس خلوص کے ساتھ پہنچانا ہے جس کے وہ لائق ہے‘ اور میں ہر قسم کے خرافات سے ہٹ کر خدا پرستی کا قائل ہوں ۔
اس کے بعد ابن راوندی نے صروم سیایک خوش خط کاتب جس کو وہ جانتا ہو کا اتہ پتہ پوچھا تاکہ وہ اس کتاب کے کاپی تیار کروا کر خلیفہ کی خدمت میں پیش کر سکے۔
صروم نے کہا میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ اس کام کو چھوڑ دو کیونکہ ممکن ہے یہ کام تمہارے لئے خطرناک ثابت ہو ۔ ابن راوندی بولا میں نے سنا ہے خلیفہ روشن خیال انسان ہے اور کتابوں کی قدر و منزلت جانتا ہے جونہی وہ اس کتاب کو دیکھے گا مجھے معقول انعام دے گا اور میں حج کے سفر پر روانہ ہوجاؤنگا ۔ عباس صروم نیکہا میں تجھے مطلب بصری (کاتب )سے ملواتا ہوں پھر تو جان اور تیرا کام ‘ اور جب کتاب تیار ہو جائے تو خود جا کر خلیفہ کے حضور پیش کر دینا اور مجھے درمیان میں نہ لانا ۔ ابن راوندی نے کہا مرد کو بہادر ہونا چاہیے صروم بولا میں بہادر نہیں ہوں ۔ ابن راوندی نے کہا اگر مرد میں بعض اچھی صفات نہ پائی جائیں تو کوئی حرج نہیں لیکن شجاعت کی صفت مرد میں ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ مرد کی ذاتی صفت ہے اور یہ شہد میں مٹھاس کی مانند ہے کیا شہد میں شیرنی نہ پائی جائے تو اسے شہدکہا جا سکتا ہے؟
صروم جو ابن راوندی کی اس بحث و تکرار سے تنگ آ چکا تھا کہنے لگا اگر تو بغداد میں پردیسی نہ ہوتا تو میں تمہیں کہہ دیتا کہ میرے گھر میں قدم نہ رکھنا ۔ ابن راوندی اسکی اس بات پر سخت ناراض ہوا وہ جب صروم کے گھر سے نکلا تو اس نے مصمم اردہ کر لیا کہ پھر کبھی بھی اسکے گھر کا رخ نہیں کریگا حالنکہ پہلے وہ اس سے کچھ رقم عارتیا حاصل کرنے کی آس لگائے ہوئے تھا ۔
اسی دن ابن راوندی نے مطلب بصری کا پتہ ادھر ادھر سے حاصل کیا اور آخر کار اسے ڈھونڈ ھ نکالا اور چونکہ معاش کی فکر کتاب کو خلیفہ کی خدمت میں پیش کرنے سے زیادہ اہم تھی اسلئے مطلب بصری سے درخواست کی کہ وہ اسکے لئے کوئی کام تلاش کرے مطلب بصری نیاسے بٹھایا اور اسکے ہاتھ میں کاغذ کا ٹکڑا پکڑاتے ہوئے کہا لکھو تاکہ میں تمہارا خط دیکھوں ابن راوندی کا خط دکھوں ابن راوندی کا خط مطلب بصری کو پسند نہ آیا اس نے کہا تمہارا خط اچھا نہیں ہے لیکن میرے پاس بعض کتابیں ہیں جنہیں مجھے لکھنے کی فرصت نہیں لہذا میں انہیں تمہارے حوالے کرتا ہوں مگر یہبات یاد رکھنا کہ تمہاری مزدوری ایک خوش خط کاتب کے برابر نہیں ہو گی ۔ ابن راوندی بولا مجھے اتنی ہی مزدوری چاہیے جس میں میرا گزر بسر ہو سکے اس سے زیادہ کی لالچ نہیں ۔
مطلب بصری نے اسیایک کتاب دی تاکہ وہ اس کی نقل اتارے اور اسے کہا کہ تمہیں کتاب کے صفحات کی مناسبت سے معاوضہ دیا جائیگا ۔
تیسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں میں جب ابن راوندی بغداد میں وارد ہوا تو اس زمانے میں اسلام میں فلسفہ اجاگر ہو رہا تھا ۔ اور عربی مترجم فلسفے کی کتب کو شریانی زبان سے عربی مین ڈھال رہے تھے ‘ جونہی کوئی کتاب ترجمہ ہو جاتی ‘ کاتبوں کے ہاں پہنچ جاتی تاکہ وہا س کی فروخت کیلئے مزیدکاپیاں تیار کریں ۔ مطلب بصری فن کتابت میں کمال کا ماہر تھا وہ اسطرح کہ مصنف سیکتاب خرید لیتا اور اسے کہتا کہ اسکی کتاب کی دس یا بیس کاپیاں بیچ ڈالے گا اور باقی دس یا بیس کاپیوں پر اس کاکوئی حق نہیں ۔ چونکہ بغداد میں کتابیں زیادہ مقدار میں لکھی جاتی تھیں ایک خواندہ شخص اگر کاتب بننا چاہتا تو وہ اگرچہ ابن راوندی کی مانند پردیسی ہی کیوں نہ ہوتا عباسی خلیفہ کے درالحکومت میں بھوکا نہ رہتا ۔
ابن راوندینے مطلب بصری کو خدا حافظ کہنے سے قبل اس سے کتاب تحریر کرنے کیلئے کچھ کاغذ لئے اس زمانے کا دستور یہ تھا کہ کاغذ کا صاحب کتاب یا وہ کانب جو دوسروں کی نسبت بڑا شمار کیاجاتا تھا کاتب کے حوالے کرتا تاکہ کتاب ایک ہی قسم کے کاغذ پر لکھی جائے اور کتاب کے صفحات بھی ایک ہی سائز کے ہوں ۔
یاد رہیکہ کتاب کوموجودہ شکل میں لکھنے کی ابتداء کتابخانہ اسکندریہ سے ہوئی پھر وہاں سے بغداد منتقل ہوئی اور کتاب کے رواج کا سبب بنی اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ کتاب کو رواج دینے کی ضرورت نے اسکندریہ کے کتابخانے میں کتاب کو وموجدہ شکل میں تبدیل کر دیا وہ گر نہ پہلے کتابیں بحت ضخیم ہوتی تھیں اور جب تک ان کو تقسیم در تقسیم نہ کیا جاتا ان سے کاپیاں بنانا کاتبوں کے بس کا کام نہیں ہوتا تھا ۔
جسطرح کہ ہمیں معلوم نہیں کہ حساب کے چار عملوں کے قواعد کا موجد کون ہے اسیطرح ہمیں اس بار میں کوئی علم نہیں کہ وہ پہلا شخص جسے اسکندریہ کے کتب خانے میں کتاب کو علیحدہ علیحدہ اوراق پرلکھ کر پھر انہیں آپس میں یکجا کرکے کتابی شکل دینے کا خیال آیا کون تھا ؟
جو کوئی تھا گوٹمبر گ سے صدیوں پہلے علیحدہ علیحدہ صفحات پر کتاب لکھنے کے ذریعے کتاب کو رواج دینے کا سبب بنا ‘ اس نے دعویبھی نہیں کیا کیونکہ اگر دعوی کرتا تو شاید اس کا نام باقی رہتا جسطرح گوٹمبر گ نے دعوی کیا کہ اسکی ایجاد سے اسٹراسبرگ میں ناخواندہ کوئی نہ رہے گا ۔
اسٹراسبرگ میں ناخواندہ کوئی نہیں رہیگا اور آج ہم اسے پہچانتے ہیں ‘ ابن راوندی جس مسافر خانے میں قیام پذیر تھا وہی اس کا گھر ٹھکانہ تھا اس نے وہیں پر کتابوں کی کاپیاں یا نسخے تیار کرنے شروع کئے جب کتاب کا مقدمہ لکھنے کیبعد اس نے متن لکھنا شروع کیا تو مئولف کا کہا اسے پسند نہ آیا اور مئولف کی غلطی کو آشکار کرنیکیلئے کتاب کے حاشیے میں مئولف کے نظریئے کو مسترد کرتے ہوئے اپنا نظریہ رقم کر دیا۔
اس دن رات گئے تک ‘ کئی مرتبہ ابن راوندی نے نہایت وضاحت کے ساتھ مئولف کا کہا مسترد کیا اور کتاب کے صفحات کے حاشئے پرنوٹ لکھا ۔
دوسری صبح وہ ان صفحات کو لیکر اجرت طلب کرنیکی غرض سے مطلب بصری کے ہاں پہنچا ۔ مطلب بصری نہایت غور سیان صفحات کو دیکھتا رہا تاکہ یہ جان سکے کہ اس نے صفائی سے لکھا ہے یا نہیں ؟ تو اس نے اس دوران چند صفحات کے حاشیوں میں اصل متن سے اضافی عبارت لکھی ہوئی پائی ۔ وہ اس اضافی عبارت کو دیکھنے پر نہایت متحیرانہ لہجے میں استفسار کرنے لگا میں نے اس عبارت کو اصل کتاب کے صفحات کے حاشیوں میں نہیں پایا ۔
ابن راوندی بولا ‘ یہ عبارت میں نے لکھی ہے مطلب بصری نے پوچھا تم نے کس لئے لکھی ہے ؟ ابن راوندی نے جواب دیا اس لئے کہ کتاب کے مئولف نے غلطی کی ہے اور میں نے اسکی غلطی کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھا ہے اکہ یہ معلوم ہو سکے کہ صحیح نظریہ کونسا ہے؟
کہا جاتا ہے کہ مئولفین کی بد بختی کا آغاز اس دن سے ہوا جب دانشور لوگ مجبورا کاتب بنے اور نسخے یا کاپیاں تیارکرنے لگے ۔ جب تک کاتب اہل دانش نہیں تھے اور وہ کسی کتاب کے بارے میں نہیں جان سکتے تھے کہ اس کے متن میں جو کچھ رقم ہے صحیح ہے یا نہیں ؟ وہ جو کچھ دیکھتے وہی لکھ دیتے اور خود اظہار خیال نہیں کرتے تھی لیکن جس دن سے دانشور کاتب بننے شروع ہوئے اسی دن سے مئولفین کی بد بختی کے دور کا آغاز ہوا کیونکہ وہ مئولفین کے غلط نظریئے کو مسترد کرتے ہوئے کتاب کے حاشیے میں صحیح راستے کی نشاندہی کر دیتے تھے ۔
بغداد میں تیسری صدی ہجری کے دوران اگر کوئی دانشور کاتب بنا ہے تو بھی نہایت محدود عرصے کیلئے اگر کوئی اجنبی دانشور بغداد میں وارد ہوتا اور کسی سے اس کی آشنائی نہ ہوتی یا ابن راوندی کی مانند اس کا میزبان اس کیآؤبھگت نہ کرتا تو مجبورا اسے کتابت کرنا پڑتی ۔
لیکن ایک دانشور کی کتاب کی مدت محدود ہوتی تھی اور جونہی اس کی پہچان ہو جاتی اس کا ذریعہ معاش فراہم ہو جاا تو وہ کتابت کو ترک کر دیتا چونکہ خلیفہ اور بزرگان شہر ‘ علم کی قدرو منزلت سے آگاہ تھے وہ ایک عالم سے نہایت عزت و احترام سے پیش آتے تھے۔
چوتھی صدی ہجری میں اگر بغداد میں ایک عالم کتابت کرنیکا محتاج ہوتا تو ایک طویل مدت تک وہ کتابت نہ کرتا یاخلیفہ اس انعام وغیرہ سے نوازتا اور وہ نہایت آرام سے بغداد ی کسی دوسری جگہ زندگی بسر کرتا ۔ لیکن پانچویں صدی سے خلفائے عباسی کی علم سے بے اعتنائی کے نتیجے میں عالموں کا بازار بے رونق ہوگیا تھا ہم یہ نہیں کہتیکہ ابن راوندی پہلا کاتب ہے جس نے ایسی کاب پر حاشیہ لکھا جو اسے نقل اتارنے کیلئے دی گئی تھی
لیکن مطلب بصری نے پہلی مرتبہ ایک ایسے کاتب کیساتھ کام کیا جس نے کتاب پر حاشیہ رقم کیا ۔ جن کاتبوں کے ساتھ ابھی تک مطلب مصریکا واسطہ پڑ چکا تھا وہ اہل علم نہیں تھے کہ وہ کتاب کے مفاہیم کو مسترد کرتے ہوئے صفحات کے حاشیے میں اپنا نظریہ رقم کرتے ۔
اسی لئے جو کچھ صفحات کے حاشیے میں مطلب مصری کی نظر سے گزار اس پر وہ سخت متعجب ہوا اور ابن راوندینے کہا تو نے اپنا کام خود بڑھا لیا ہیا ور اگر میرے لئے کام کرکے اپنا معاوضہ طلب کرنا چاہتے ہو تو ان صفحات کو حاشیہ لکھے بغیر دوبارہ لکھو اور اسکے بعد بھی اس کتاب کے صفحات میں اور ہرا س کتاب کے صفحات میں جو تمہیں بعد میں دی جائے کچھ بھی نہ لکھو ۔
ابن راوندی جو آج وارق سے کچھ رقم حاصل کرنے کی امید میں آیا تھا ‘ ناچار خالی ہاتھ لوٹا کیونکہ وہ عابس صروم کے ہاں بھی مستعار لینے کیلئے نہیں جا سکتا تھا ۔
اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ مزید ایک دن و رات بھوک برداشت کرے اور جہاں تک ہو سکے لکھے تاکہ مطلب بصری سے زیادہ سے زیادہ رقم حاصل کر سکے ۔ اس دن ابن راوندی رات گئے تک لکھتا رہا تایکی چھا جانے کے بعد اس نیمسافر خانیکے مالک سے اس وعدے پر چراغ لیا کہ دوسرے دن وہ تیل کی قیمت ادا کرے گا ۔ چونکہ وہبھوک سے سو نہیں سکتا تھا اس لئے وہ لکھتا رہا حتی کہ چراغ خود بجھ گیا‘
صبح ہوتے ہی وہ اپنے لکھے ہوئے اوراق لئے مطلب بصری کے ہاں پہنچاا ور چند سکے اس سے مزدوری لی اس کے بعد ہر شب و روز وہ کتابت کرتا اور دوسرے دن وراق کی خدمت میں پیش کرکے اپنی مزدوری لیتا ۔
جب ابن راوندی عباس صروم کے گھر سے چلا تھا تو عباس صروم کو یقین ہو چکا تھا کہ وہ اپنی کتاب براہ راست یا بالواسطہ طور پر خلیفہ کی خدمت میں پہنچائے گا ۔
جیسا کہ ہم نے دیکھا ‘ عباس صروم اس کتاب کے مشاہدے سے متنفر ہوا جس کے نتیجے میں ابن راوندی آئندہ کبھی بھی اس کے گھر کا رخ نہیں کرے گا ۔ عباس صروم باطنی طور پر خوش ہوا کہ اسے ایک مرتد کے فتنے سے نجات ملی ‘اور اگر یہ شخص کوئی بڑی مصیبت لایا تو اس پر اس کا اثر نہیں پڑے گا ۔
لیکن ایک دن بعد ‘ اسے دوست کی وصیت یاد آئی ۔ اس وصیت میں کہا گیا تھا کہ عباس صروم سے جہاں تک ہو سکے ابن راوندی کی مدد کریاور اگر وصیت لکھنے والا جان لیتا کہ صروم نے ابن راوندی سے ایسا سلوک کیاتھا کہ وہ شخص غضب کے عالم میں اس کے گھر سے چلا گیا تھا ‘ تو وہ ضرور رنجیدہ ہوتا ۔ اور ضروم سے کہتا تجھے کم از کم اتنا تو شعور تھا کہ ایک ایسے انسان کو جو اجنبی اور بغداد میں حال ہی میں وارد ہوا ہے اور اس شہر میں اس کا آشنا بھی کوئی نہیں ‘ دربدر کی ٹھوکریں کھانے کیلئے چھوڑ دینا شرافت نہیں ۔
اس کے باوجود کہ عباس صروم ابن راوندی سے خفا ہو کر چلے جانے سے سخت پشیمان ہوا اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ ابن راوندی کا ٹھکانہ کون کون سی سرائے میں ہے وہ اسے واپس اپنے گھر لانے کیلئے اس کے کچھ نہیں گیا کیونکہ وہ اس کے کام کے انجام سے خاصا ہراساں تھا اسے ڈر تھا کہ کہیں اس کا وبال اس کے سر پر نہ آ پڑے ۔
عباس صروم اس بات سے پوری طرح آگاہ تھا کہ اگر ابن راوندی کی کتاب خلیفہ تک پہنچ گئی اور اس نے اس کے کچھ صفحات پڑھے یا کسی سے پڑھوائے تو فورا اس شخص کے قتل کا حکم صادر کرے گا اور اگر وہ اس کا میزبان بنا اور اسکی کتاب کو منظر عام پر لایا تو خلیفہ ضرور اسے بھی سزا کا حقدار ٹھہرائے گا اور اگر قتل نہ بھی کیا تو دوسرے ذرائع سے آزار پہنچائے گا اس کے بعد اسے خیال آیاکہ جونہی یہ کتاب خلیفہ کی ں طروں سے گزرے گی تو وہ اس شخص کی گرفتاری کا حکم دے گا اور قتل کرنے سے قبل اس سے پوچھیں گے کہ دارالحکومت میں وارد ہونے کے بعد اس نے کیا کام کیا ؟ اس کے دوست کون لوگ ہیں ؟ اور وہ یقینا اس کا نام زبان پر لائے گا کیونکہ اس شہر میں وہ کسی دوسرے کو نہیں جانتا تھا پس اسی بنا پر اگر ابن راوندیاس کے گھر میں قدم نہ بھی رکھے تو بھی وہ اس کے کفر کے خطرے سے محفوظ نہیں عباس صروم ‘ المعتصم بااللہ کی خلافت کے زمانے میں خلیفہ کا ہم مشرب تھا اور خلیفہ کے ہم مشرب لوگوں کا انتخاب ان لوگوں سے ہوتا تھا جنکی ظاہری حالت پر کشش ہوتی تھی۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں المعتصم ہارون الرشید کا بیٹا 227 ھ میں فوت ہوا اور اکثر عباسی خلفا کی مانند جوانی میں اس دارافانی سے کوچ کر گیا ۔ اور اسی سال الواثق عباسی خلافت کے تخت پر متمکن ہوا اس نے عباس صروم کو خواندہ ہونے کی وجہ سے کاتب کی اسامی پر فائز کیا اور عباس جو اسی دن تک آج کی اصطلاح میں چپراسی تھا ‘ ورکرز کی صفت میں شامل ہو گیا ۔ جب عباس صروم کاتب ہو گیا تو اس نے خلیفہ کے تمام ان درباریوں کی خوشامد شروع کر دی جن کے متعلق اس کا خیال تھا کہ ایک دن بڑے مرتبے پر فائز ہوں گے عباس صروم جن لوگوں کی خوشامد کرتا تھا متوکل بھی ان میں سے ایک تھا ۔ الواثق خلافت کے پانچ سال اور نو ماہ کے بعد 236 ھ قمری میں اس جہان فانی سے کوچ کر گیا اور متوکل اس کی جگہ خلیفہ بنا ۔ اس نے عباس ضروم سے آشنائی کی وجہ سے اس کا مرتبہ اس قدر بلند کر دیا کہ اس کا شمار درباری امرا میں ہونے لگا ابن راوندی 236 ھ میں المتوکل عباسی کی خلافت کے زمانے میں بغداد میں وارد ہوا ۔
کا سال شیعوں کی عزاداری کا سال ہے اس سال متوکل نے حکم دیا کہ حسین بن علی شیعوں کے تیسرے امام کی قبر مسمار کر دی جائے کیونکہ شیعہ دور داز سے حسین کی قبر کی زیارت کرنے آتے ہیں جس کی وجہ سے متوکل حسد کی آگ میں جلتا تھا ۔
اگرچہ المتوکل فاضل اور ادب پرور خلیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی معاملوں میں عدل و انصاف کا خیال رکھتا تھا ‘ شیعوں کے ہاں وہ بہت بد نام ہے اور شیعوں کے نزدیک وہ دوسری تمام عباسی خلفا سیزیادہ نا پسندیدہ ہے حالانکہ ن میں سے بعض نے شیعوں کے آئمہ کو بھی شہید کیا ہے شیعوں کا کہنا ہے کہ وہ تمام عباسی خلفا کی نسبت گھٹیا ترین ہو گزر ا ہے چونکہ اس نے ایک مردے پر حملہ کیا اور ایک ایسے انسان کی قبر کو مسمار کیا جو اپنا دفاع نہیں کر سکتا تھا ۔
المتوکل چونکہ امام حسین سے بغض رکھتا تھا ‘ اس لئے وہ شیعوں کا بھی دشمن تھا ۔ خلیفہ کے دارالحکومت میں بسنے والے شیعہ کوشش کرتے تھے کہ اپنے آپ کو شیعہ ظاہر نہ کریں ۔ المتوکل اپنے دو پیش روؤں الواثق اور المعتصم کی مانند بہت شراب پیتا تھا اور عباس صروم نے پیشن گوئی کی تھی کہ اس کی عمر پہلے دو خلفا کی مانند کم ہوگیاس لئے متوکل کیبعد جن لوگوں کے خلفیہ بننے امکان تھا اس نے ان کی خوشامد کرنا شروع کر دیا انہیں تحائف وغیرہ بھیجنے لگا ۔ لیکن جس دن تک المتوکل خلیفہ تھا عباس صروم کو اپنا رتبہ دربار میں محفوظ رکھنا تھا اسلئے وہ ابن راوندی کے کفر سے آلودہ ہو کر اپنے عہدے کو داؤ پر نہیں لگا سکتا تھا ‘ خاص طور پر اس لئے کہ وہ اصفہانی شخص شیعہ بھی شمار ہوتا تھا ۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ ابن راوندینے بظاہر اپنے کتاب میں توحید اور نبوت کانہ صرف انکار کیا ہے بلکہ یہ بھی دکھایا ہے کہ وہ کسی توحیدی مذہب کا قائل نہیں ہے لیکن چونکہ وہ اصفہان سے آیا تھا اور اس کے بعد جب مشہور ہو گیا تو لوگوں نے ا سے شیعہ سمجھلیا ۔ اگر عباس صروم ابن راوندی کے ساتھ اپنے تعلقات کا راز فاش کر دیتا تو وہ خلیفہ کے غیض و غضب کا نشانہبنتا ۔ اور اگر وہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا اور اس کی کوئی مدد نہ کرتا تو بھی اچھی بات نہیں تھی کیونکہ اس کے دوست نے اس کی سر پرستی کی سفارش کی تھی۔
آخر کار اس کے ذہن میں آیا کہ ابن راوندی کو خلیفہ کیہاں مرگی کیمریض کے طور پر متعارف کرایاجائے اور اسیمرگی کا مریض بتانے کے دو فائدے تھے ایک یہ کہ اگر خلیفہ جان لیتا کہ ابن راوندی‘ عباس صروم کے گھر گیا تھا وہ عباس صروم پر غضبناک نہ ہوتا اور عباس کہہ سکتا تھا کہ جونہی اس پر مرگی کا حملہ ہوا اس نے اسے گھر سے نکال باہر کیا تھا اسے مرگی کا مریض ثابت کرنے کا دوسرا فائدہ یہ تھا کہ اگر خلیفہ ابن راوندی کی کتاب دیکھ لیتا تو اس کے قتل کا حکم صاد نہ کرتا کیونکہ اسلامی شریعت میں مرگیکا مریض جو کچھ لکھے یا کہے ا س سیباز پرس نہیں کی جاتی۔ عباس صروم اپنی پہلی فرصت میں ابن راوندی کا نام خلیفہ تک پہنچانا چاہتا تھا کہ وہ مرگی کا مریض ہے لیکن چند دنوں تک اسے فرصت نہ مل سکی ۔
وہ اور خلیفہ کے تمام دربار ی اس بات سے آگاہ تھے کہ صبح کے وقت خلیفہ سے بات چیت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ دن اور رات میں کسی شرابی کیلئے بد ترین لمحات صبح کا وقت ہوتا ہے چونکہ ہر شرابی صبح کے وقت سو کر اٹھنے کے بعد نشے کا احساس کرتا اور اس قدر سستی محسوس کرتا ہے کہ کسی کے ساتھ بات بھی نہیں کر سکتا جبکہ اس کے برعکس جو کوئی شراب کا عادی نہیں ہوتا صبحکا وقت اس کے لئے دن و رات میں سب سے اچھا وقت ہوتا ہے اور چونکہ انسان رات کو آرام کرتا ہے اس لئے صبح اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ کام کا آغاز کرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہییہی وجہ تھی کہ صبح کے وقت کوئی بھی المتوکل سے بات چیت نہیں کر تا تھا اور کبھی کبھار وہ شراب کے نشے میں اس قدر مد ہوش ہوتا تھا کہ ظہر سے قبل اس کے لئے شراب کا دستر خوان بچھاتے تھے اسطرح وہ دوبارہ شراب پیکر رات کی شراب کا نشہ کافور کرتا اور ظہر کے بعد سو جاتا تھا اور جب عصر کے وقت سو کر اٹھتا تو کام کرنے کے قابل ہوتا اور اسی وقت وہ مملکت کے امور نمٹاتا یا پھر جن لوگوں سے ملاقات کرنا چاہتا ان سے ملاقات کرتا تھا ۔
علماء کو وہ عصر کے وقت ملتا لیکن شعراء کو رات کے وقت جبکہ المتوکل شراب خوری میں مشغول ہوتا اس کے حضور میں حاضر ہوتے تھے ۔ المتوکل جیسا کہ کہا گیا ہے اہل علم و ادب اور نیک خو انسان تھا لیکن شراب خوری کیوجہ سے اس کی عمر کا ایک حصہ برباد ہو گیا تھا ۔
اس دوران میں جبکہ عباس صروم المتوکل سے ابن راوندی کے متعلق بات کرنے کیلئے کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھا ۔ ابن راوندی جس مسافر خانے میں قیام پذیرتھا وہاں مطلب بصری وراق کیلئے کتاب کے نسخے یا کاپیاں تیار کر رہا تھا اور روزانہ جو کچھ لکھتا وراق کے پاس لے جاتا اور اپنی مزدوری پاتا مزدوری حاصل کرنے کے چند دنوں بعد ابن راوندی کی معاشی حالت اس سے کہیں بہتر ہو گئی جب وہ شروع شروع میں بغداد میں آیا تھا لیکن روحانی طور پر وہ کافی رنجیدہ ہوا کیونکہ اس نے دیکھا کہ اسے جو کتاب دی گئی ہے اس میں غلطیاں ہیں اور وہ ان غلطیوں کی اصلاح نہیں کر سکتا اسے اس بات کی اجازت نہیں کہ اپنا نظریہ کتاب کے حاشے میں لکھے ۔
یہ اصفہانی شخص تیسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں کے دوران معروف شخصیت ہو گزرا ہے اگرچہ اس کی عمر زیادہ طولانی نہ تھی اور تقریبا چالیس سال تھی پھر بھی اس نے اپنے پیچھے ایسی یادگاریں باقی چھوڑی ہیں جو اس کے ہم عصر جن کی عمر ستر یا اسی سال تھی نہیں چھوڑ سکے۔
ابن راوندی پہلی صدی ہجری میں کے تمام متاولہ علوم سے واقف تھا چونکہ اس زمانے کے علوم آج کی مانند پھیلے ہوئے نہیں تھے اور ایک شخصاپنے زمانے کے متاولہ علوم کو سیکھ سکتا تھا جبکہ آج کے دور میں انسان صرف ایک ہی علم کااحاطہ کرسکتا ہے ۔
پہلی صدی ہجری کے دوران مشرق میں ایسے انسان پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے زمانے کیتمام علوم زیر کر لئے تھے لیکن ان میں بہت کم ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنے معاصرین کے مقابلے میں ما فوق الفطرت استعداد کا مظاہرہ کیا ہے انہوں نے ایسی چیزوں کے متعلق غور و فکر کیاہے جو ان کے ہم عصر لوگوں کی عقل سے باہر تھیں ان میں سے ایک ابن راوندی بھی تھا جسے ریاضی اور طب جیسے علوم پر دسترس حاصل تھی ۔ ابن راوندی وہ پہلا انسان ہے جس نے کہا کہ ہمارا بدن تمام عمر ایسے دشمنوں میں گھرا ہوتا ہے جو ہمیں ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن اس جسم کے اندر ایسی چیزیں پیدا ہو جاتی ہیں جو ان دشمنوں کو دور کرتی ہیں اور انہیں ہم پر قابو پانے نہیں دیتیں یہ نظریہ اس قدر توجہ طلب ہے کہ نہصرف یہ کہ قدیم زمانے میں کسی نے اس کے متعلق نہیں سوچا بلکہ اس بیسویں صدی کے شروع میں بھی ڈاکٹروں نے اس موضوع کے بارے میں غورو فکر نہیں کیا انہیں اس بات کا علم نہ تھا کہ ہمارا جسم خود بخود ایسی چیزیں وجود میں لاتا ہے کہ دشمن جو ہمارے اردگرد موجود ہیں اور مسلسل ہم پر حملے کرتے ہیں یہ چیزیں ان کے خلاف ہمار دفاع کرتی ہیں اس صدی کے آغاز میں ڈاکٹروں نے صرف سفید جسیموں کو جو ہمارے خون میں پائے جاتے ہیں دفاع کا واحد ذریعہ قرار دیا تھا اور جس چیز سے ہمارا بدن دشمنوں کو دور بھگارنے کے لئے اپنا احاطہ کرتا ہے اس کے متعلق انہیں کوئی اطلاع نہ تھی یہاں تک کہ 1940 ھ عیسوی تک بھی ڈاکٹر اس نظرہ سے واقف نہ تھے ۔
لہذا کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ابن راوندی کو مرگی کا مریض قرار دینے کے بعد اس کے اسی نظریئے کو اس کی مرگی کے مریض ہونے کی سند کے طور پر پیش کیا گیا تیسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں کے دوران علم طب وہی تھا جو بقراط سے مشرق اور مغرب تک پہنچا ہے اس علم میں علم طب کی اساس آدمی کی چار فطرتوں پر رکھی گئی ہے اور ان چار فطرتوں اک توازن صحت کی ضمانت ہے اور اگر یہ توازن برقرار نہ رہے تو انسان بیمار پڑ جاتا ہے اور اگر اس توازن کا بگاڑ شدت اختیار کر جائیتو انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے ۔
بس اسی لئے ہر قسم کی بیماری خود انسان کے اندر پائی جاتی ہے باہر سے اس کا تعلق نہیں البتہ بعض ایسے محرکات جو بیماری کا باعث بن سکتے ہیں مثلا سردی گرمی اور اس طرح کی دوسر ے ماحول کی تبدیلیاں وغیرہ کوئی بھی عقلمند انسان اس زمانے میں اس بات کو قبول کرنے کیلئے تیار نہ تھا کہ ہمارا جسم ساری عمر دشمنوں کے حملوں کا نشانہ بنا رہتا ہے یہ نظریہ انیسویں صدی میں پاسٹر نے پیش کیا اور جب سفید جسیموں کو دریافت کر لیا گیا تو یہ معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ آیا جس میں مدافعت کرنے والی کوئی اور چیز بھی ہے یا نہیں ۔
1940 عیسوی کے بعد مدافعین کی دریافت آہستہ آہستہ توجہ طلب بنی بہر کیف ڈاکٹروں نے 1950 عیسوی میں ہی یقین کر لیا تھا کہ ہمارے بدن میں جسیموں کے علاوہ بھی مدافعت کرنے والے خلیات ہیں جنہیں انٹی باڈیز ۔
انٹی باڈیز کا نام دیا جاتا ہے یا فرانسیسی میں انٹی کور کہا جاتا ہے اور ان کا کام یہ ہے کہ بیماری کے جراثیم جب ہمارے جسم پر حملہ کرتے ہیں خصوصا کسی دوسرے جسم کے جراثیم تو یہ انہیں ختمکرتے ہیں یہاں اس بات کا ذکر کرنے کیلئے کہ انٹی باڈیز انگریز ی یا انٹی کور فرانسیسی کے وجود کا نظریہ کس قدر جدید ہے یہ بھی بتاتے چلیں کہ 1950 عیسوی کے بعد بھی جب اس دفاعی وسیلہ کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا ۔
ڈاکٹر ز علاج معالجے میں اس پر کم توجہ دیتے تھے یہاں تک کہ ڈاکٹر رابرٹالن گود امریکی نے جو سرطان کا سپیشلست تھا‘ نے ثابت کیا کہ اگر ہمارا بدن انٹی باڈیز یا انٹی کور نہ بنائے تو تمام انسان سرطان کا شمار ہو جائیں کیونکہہر مرد و عورت کے جسم میں بچپن سے لیکر زندگی کے آخری دن تک ہر دن دس سے لیکر ایک ہزار تک سرطانی جراثیم پیدا ہوتے ہیں اور اگر دفاعی کا یہ وسیلہ نہ ہو تو سرطانی جراثیم بہت تیزیسے نشو و نما پاتے ہیں اور ان کی تعداد کئی ملین تک پہنچ سکتی ہے۔
لیکن چونکہ یہ دفاعی وسیلہ جسم میں موجود ہے اس لئے جونہی سرطانیخلیہ وجود میں آتا ہے اس دفاعی وسیلے کے ذریعہ وہ ختم ہو جاتا ہے اور اسیدو حصوں میں تقسیم ہونے کی مہلت نہیں ملتی جس سے جراثیموں کی افزائش نسل رک جاتی ہے ڈاکٹر رابرٹ گوڈ کہتا ہے بوڑھوں کا جوانوں کی نسبت سرطان میں زیادہ مبتلا ہونے کا سبب یہ ہے کہ ان
کے جسم میں جوانوں کے مقابلے میں کم انٹی باڈیز پیدا ہوتے ہیں اور یہ دفاعی وسیلہ سرطانی خلیوں کو جسم میں افزائش نسل سے نہیں روک سکتا ۔
ڈاکٹر رابرٹ کے بقول عموما جو کوئی سرطان کی بیماریمیں مبتلا ہوتا ہے اس کے جسم میں انٹی باڈیز کافی مقدار میں نہیں بنتی جو ڈاکٹر سرطان کے بیمار کا علاج کرنا چاہے تو اسے پہلے اس دفاعی وسیلے کو بیماری شخص کے جسم میں پہلے سے زیادہ مقدار میں انٹی باڈیز پیدا کرکے تقویت پہنچانی چاہیے۔
کیا حیرت کی بات نہیں کہ ایک عالم نے ساڑھے گیارہ سو سال پہلے ایک ایسا طبی راز پا لیا تھا کہ بیسویں صدی عیسوی کے ڈاکٹر اس صدی کے پہلے چالیس سالوں کے دوران اس کا مطالعہ کرنے اور اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کیلئے تیار نہ تھے ؟
جو کچھ ابن راوندینے ایک ہزار ایک سو پچاس سال پہلے کہا تمام دنیاکے ڈاکٹر اس پر متفق ہیں اور ہر میڈیکل کالج میں اس نظریہ کو جانا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آدمی ساری عمر خطرناک دشمنوں کے نرغے میں رہتا ہے جنہوں نے اس کو ختم کرنیکی ٹھانی ہوئی ہے ‘ یہ مائیکروب وائس اور سرطانی خلیات کی مانند دوسری خلیات ہیں ۔
ابن راوندی نے طب کے متعلق ایک دوسرا نظریہ بھی پیش کیا جس کے طرفدار آج موجود ہیں وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی لا علاج بیماریمیں مبتلا ہو اور ڈاکٹر دداؤں سے اس کا علاجنہ کر سکیں تو اسے چاہیے کہ وہ اسے ایک دوسری بیماری میں مبتلا کریتو پہلی بیماری ختم ہو جائیگی ا ورموت کا خطرہ ٹل جائے گا ۔ اور ڈاکٹر جب پہلی بیماری کا علاج کر لے تو پھر وہ دوائی سے دوسری بیماری کا علاج بھی کرسکتا ہے ۔ یہ نظریہ بھی تیسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں کے دوران ابن راوندی کی جنونی یادگاروں میں شمار کیا جاتا ہے ‘ ڈاکٹر صاحبان نے صدیوں بعد اس پر غور کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ جو کوئی کسی لا علاج مرض میں مبتلا ہوتا ہے اگر وہ کسی دوسری بیماری میں مبتلا ہوجائے تو اس کی پہلی بیماری آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے ۔
کئی تجربات سیابن راوندی کے اس نظریہ کی تصدیقہو چکیہے لیکن یہ تجربات اتفاقا سامنے آتے ہیں مثلا اتفاق سے ایسا ہوا کہ کوئی شخص کسی لا علاج بیماری میں مبتلا تھا تو اسی دوران وہ ایک دوسری بیماری میں مبتلا ہو گیا اور اس طرح موت کا خطرہ ٹل گیا ۔
لیکن ڈاکٹر کسی بیمار کا معالجہ کرنے کیلئے اس میں جدید بیماری نہیں پیدا کر سکے ۔ انیسویں صدی عیسوی میں عملی طور پر اس قسم کا علاج کیا گیا کیونکہ مائیکروب اور ٹاکسین کی دریافت کے بعد ڈاکٹروں نے مائیکروب یا ٹاکیسن کو جسم میں داخل کرنے سے جسم میں بیماری پیدا کی اور انیسویں صدی عیسوی کے آخر میں ایک امریکی ڈاکٹر ویلیم کالی نیجو سرجن بھی تھا سرطانی مریضوں کے علاج کیلئے ابن راوندی کے نظریہ کی پیروی کی جس کے بارے میں ہم نے ذکر کیا کہ صدیوں بعد اس نظریہ کی تائید کی گئی ۔
ویلیم کالی پہلے ٹاکسین کو سرطانی مریضوں کی جسم میں داخل کرکے انہیں بیماری میں مبتلا کرتا اور جب وہ جدید بیماری میں مبتلا ہو جاتے تو سرطان کی علامتیں آہستہ آہستہ ختم ہو نے لگتیں حتی کہ سرطان مکمل طور پر ختم ہو جاتا اس طرح ڈاکٹر و یلیم کالی نے دو سو سے زیادہ سرطانی مریضوں کو موت کے چنگل سے چھڑایا یہ وہ لوگ تھے کہ اگر انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جاتا تو ایک سال کے بعد سرطان کی بیماری سے مر جاتے لیکن ویلیم کالی کے علاج معالجے کی وجہ سے انہوں نے طبعی عمر گزاری انہوں نے زندگی کی اکہتر بہاریں دیکھیں حالنکہ وہ سرطان کی بیماری میں چالیس یا پینتالیس سال کی عمر میں مبتلا ہو چکے تھے ان میں سے جو جلدی فوت ہوئے تھے وہ بھی چار یا پانچ سال تک زندہ رہے تھے ۔
بہر کیف ویلیم کالی کے طرز علاج نے بتا دیا کہ ابن راوندی کا نظریہ معتبرہ ہے اور اگر ایک لا علاج مریض کا علاج نہ کیا جائے اور اسے کسی دوسری بیماریمیں مبتلا کیا جائے تو یہ بات مریض کی طویل عمر کا باعث ہو گی ۔
لیکن ویلیم کالی کے بعد ڈاکٹروں نے اس کی روش کو نہیں اپنایا اس لئے کہ ان کا خیال تھا کہ پہلی بیماری کا دوسری بیماری کو مریض کے جسم میں داخل کرنے کے ذریعے معالجہ کرنا ایک چھوٹی خرابی کا علاج بڑی خرابی کے ذریعے کرنا ہے اور ڈاکٹر صاحبان کا اعتقاد ہے کہ اگر دوسری بیماری معمولی ہو تو وہ پہلی بیماری سے نجات نہیں دلا سکتی ۔
پس مریض کے جسم میں ایک غیر معمولی بیماری پیداکرنا ہو گی تاکہ پہلی بیماری ختم ہو اور اس وقت دوسری بیماری سے مریض کی موت واقع ہو جائے گی۔
مختصر یہ کہ ڈاکٹر ویلیم کالی کے بعد اس کا طریقہ علاج ترک کر دیا گیا اور دوبارہ سرطان کی بیماری ایک لا علاج بیماری بن گئی ۔ حتی کہ ڈاکٹر رابرٹ آلن گوڈ امریکی جو ابھی بقید حیات ہے ‘ آیا اور آج کل وہ سرطانی مریضوں کا علاج ابن راوندی کے نظریہ کی اساس پر کرتا ہیوہ ان مریضوں میں تپ دق کی بیماری پیداکرتا ہے اس کے بقول اس بیماری کو پیدا کرنے کے نتیجے میں انٹی باڈیز جو سرطان کے خلاف جسم کا دفاع کرتی ہیں زیادہ فعال ہو جاتی ہیں ۔
جونہی تپ دق کا مرض اجاگر ہوتا ہے سرطان کی بیماری خلیات بتدریج جسم سے ختم ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ کروڑوں خلیات میں سے بدن میں پچاس ہزار یا چالیس ہزار خلیات سے زیادہ باقی نہیں رہتے۔
رابرٹ آلن گوڈ کے طرز علاج کو سمجھنے کیلئے ایک میڈیکل کی کتاب لکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ڈاکٹر جو احتمال ہے کہ مستقبل میں سرطان کے مریضوں کا مکمل طور پر معالجہ کر سکے گا کیسے مریضوں کا علاج کرتا ہے اور سرطانی خلیوں کی تعداد کو کم کرکے پچاس ہزار تک پہنچا دیتا ہے۔
لیکن اس علاج کی بنیاد ابن راوندی کینظریہ پر ہی ہے اور یہ قابل ڈاکٹر اپنے مریضوں کے جسم میں تپ دق پیداکرکے ان کے سرطان کو اس طرح کم کرتا ہے کہ اپنی امید سے زیادہ زندہ رہتا ہے اور اس طرح کا علاج چھوٹی خرابی کو کسی بڑی خرابی کے ذریعے دور کرنا نہیں کیونکہ تپ دق کا مرض آج جکل قابل علاج ہے جبکہ سرطان کی بیماری لا علاج ہے ۔

کیا ابن راوندی کیمیا دان تھا ؟
ابن راوندی ‘ جیسا کہ اس سے پہلے ذکر کیا گیا ہے طب میں معقول نظریات رکھتا تھا چونکہ جعفر صادق کی دوسری یا تیسری نسل کے شاگردوں میں سے تھا اس لئے کیمیا سے بھی واقف تھا اور جیسا کہ کہا جاتا ہے کیمیا دان شمار ہوتا تھا ۔
جب قدیم کیمیا دانوں کی بات ہو رہی ہو تو یہ گمان نہیں کرنا چاہیے کہ وہ سونا یا چاندی بنانے کا کامکرتے تھے قدیم کیمیا دان آج کے کیمیا دانوں کی مانند عناصر کی ترکیب اور تجزیہ میں لگے رہتے تھے اور ان میں سے کوئی بھی سونا یا چاندی بنانے کا قصد نہ رکھتا تھا ۔ لیکن ان کے مقلدین اور وہ لوگ جو علم اور معلومات نہ رکھتے تھے جب انہوں نے ایک کیمیان دان کے کاموں کو دیکھا تو انہوں نے گمان کر لیا کہ اس کا کام سونا بنانا ہے اور پھر وہ بھی سونا بنانے کی طرف متوجہ ہو گئے اور ایک مدت گزرنے اور سرمایہ صرف کرنے کے بعد جب وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو انہوں نے ایسا کام شروع کر لیا جس سے ان کی گزر اوقات کا سلسلہ ہونے لگا ۔
کیمیا دانوں نے ایسی چیزیں بنائیں جن کی صنعتی لحاظ سے قدرو قیمت سونے سے بھی زیادہ تھی لیکن کوئی بھی کیمیا دان آج تک سونا نہیں بنا سکا ۔ یورپ کے کیمیا دانوں میں سے ایک کیمیا دان جس کا نام نیکولا فلامل ہے نے قرون وسطی میں کیمیا گری کے متعلق ایک کتاب لکھی ہے۔
یہ شخص جو چودھویں صدی عیسوی کے دوسرے پچاس سالوں کے دوران ہو گزرا ہے اس نے ابن راوندی کے مرنے کے 610 سال بعد اس کے بقول سونا بنایا ‘ اپنی کتاب میں یوں رقم طراز ہے (میں نے بتاریخ 17 جنوری 1382 عیسوی کو سفید چونے کو شراب کیجو ہر یعنی الکحل کے ساتھ شیسیکے ایک دیگچے میں دھیمی آنچ پر رکھا اور جب کسی حد تک ابلا تو اس کا رنگ پہلے سیاہ اور پھر برف کی مانند سفید (لیکن دھندلا ) ہو گیا اور اس کے بعد سخت ہو گیا اور زرد رنگ کی صورت اختیار کر گیا مین نے اسے ایک ایسے دیگچے میں جس میں پارہ تھا ‘ ڈال دیا اور جب پارہ گرم ہوا تو جو کچھ میں نے اس میں ڈالا تھا پارہ میں حل ہو ا تو ایک غیر شفاف زرد رنگ کا سنہری سیال وجود میں آیا پھر میں نے اس دیگچے کو چولہے سے اتار لیا تاکہ ٹھنڈا ہو جائے اور اس کے ٹھنڈا ہونے کے بعد اسیایک پیالے میں ڈالا جس میں پارا تھا اور جب دوبارہ گرم کیا تو سب کچھ پارے میں حل ہو گیا پھر اسے جب تھنڈا کرکے میں نے دیکھا تو وہ سب کچھ سونا بن چکا تھا اور سونا بھیایسا کہ عام سونے سے زیادہ نرم اور لچکدار تھا یہ جو کچھ میں نے عرض کیا حقیقت ہے ۔
شاید نیکو لا فلامل نے اس ساریطریقہ کار کی تکمیل کے بعد زرد رنگ کی کوئی چیز حاصل کر لی ہو لیکن جو کچھ اس نے دیگچے میں دیکھا تھا وہ سونا نہیں تھا آج بھی اگر کوئی اس تجربے کی حالتوں کو جانچنا چاہے تو وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ اس طرح سونا نہیں بنتا کیونکہ پارہ ایک مائع دھات ہے اور آگ پر رکھنے سے یہ جلد ہی بخارت بن کر اڑ جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ابن راوندی کیمیا دان تھا وہ سونا بناتا تھا لیکن جس وقت وہ سنار ہو گا بغداد میں داخل ہونے کے بعد مطلب بصری کتابوں کے نسخے قلیل مزدوری پانے کیلئے تیار نہ کرتا ہو گا ۔
ابن راوندی اصفہانی ‘ جو تیسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں میں ہو گزرا ہیکو ہالینڈ کے اراسم یا اراسموس کی شبیہ قرار دیا گیا ہے‘ جو سولہویں صدی عیسوی میں ہو گزرا ہے حالانکہ ان دونوں کو ایک دوسرے کی شبیہ قرار دینا بعیداز قیاس ہے ‘ اراسم یا اراسمو س کو ابن راوندی کی شبیہ نہیں قرار دیاجا سکتا اور نہ ہی ابن راوندیکو اراسموس (ہالینڈی ) کی شبیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
اراسم یا اراسموس ‘ جسے لوگ "دیوانگی کی مدح " اور امال جیسی کتابوں کے مصنف کے عنوان کے طور پر جانتے ہیں یہ ایک دیندار آدمی تھا جبکہ ابن راوندی نے خود اپنی کتاب الفرند میں اپنے بے دین ہونے کا اعتراف کیاہے ۔
اگرچہ اراسم کو مرتد ٹھہرایا گیا ہے جبکہ عیسائی علمائنے اس الزام کو اس پر لاگو نہیں جانا ہالینڈی اراسم پر تہمت لگانے کی وجہ یہ تھی کہ اس نے عیسائیوں کی مذہبی کتب کو یونانی متن سے براہ رست ترجمہ کیا اور بغیر کسی تبدیلی کے عیسائی مومنین کی خدمت میں عہد قدیم اور عہد جدید سمیت عیسائی مذہب کی کتب پیش کر دیں۔ اراسم سے پہلے عیسائیوں کی مذہبی کتب جن میں عہد قدیم اور عہد جدید شامل تھیں ‘ دولگات کہلاتی تھیں ۔
وولگات ‘ لاطینی زبان میں تھیں ‘ ان میں غلطیوں کے ساتھ ساتھ اضداد بھی پائی جاتی تھیں اراسم نے قدیم عیسائی مذہبی کتابوں کا متن جو قدیم یونانی زبان میں تھا ‘ حاصل کیا اور اسے ترجمہ کیا اور چونکہ گوٹنبرگ نیچھاپہ خانہ ایجاد کر لیا تھا لہذا اراسم نے عتیق عہد اور عہد جدید کو چھپوایا اور جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ عہد جدید میں چار اقسام کی انجیل شامل ہے جب اراسم کا ترجمہ کتابی شکل میں عیسائی مومنین کے ہاتھ لگا تو وہ حیران اور مسرور ہوئے ۔ کیونکہ اس میں اضاداد یا
تناقصات نہیں تھے اور بے مقصد و بے معنی نکات سے بھی مبرا تھی ۔ ان چار اقسام کی انجیل کے سابقہ متن میں مصنفین کی شخصیت کا اچھی طرح احساس نہیں ہوتا تھا جبکہ جدید متن جو اراسم ہالینڈینے ترجمہ کیا ہے میں ان چار انجیلوں کے مصنفین کی شخصیت کا بخوبی احساس ہوتا تھا اور قاری یہ سمجھتا تھا کہ ان چار انجیلوں کے مصنفین میں سیکوئی معلم اور وزارت تعلیم میں مبصر رہا ہو گا اور دوسرا کوئی ماہر قانون دان رہا ہو گا وغیرہ وغیرہ ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اراسم بے معنی اور بے مفہوم عیسائی مذہبی کتب کے مطالب کو واضح نہ کرتا اور اصل یونانی متن کے ترجمے کے ساتھ غلطیوں کی تصیح نہ کرتا تو پروٹسٹنٹ مذہب وجود میں نہ آتا ارسم نے پروٹسٹنٹ مذہب کی ایجاد میں ذرا بھی حصہ نہیں لیا ۔ لیکن اس کا ترجمہ پروٹسٹنٹ مذہب کو وجودمیں لانے کا باعث بنا اراسم کے ترجمے کی تقسیم کے بعد ایک گمنام مذہبی شخص (جسے آج سب لوتر کے نام سے جانتے ہیں )ارسم کا ترجمہ پڑھنے سے قبل اس بات کا خیال نہیں آیا تھا کہ عیسائی مذہب میں ایک جدت وجود میں لائے اسے یہ فکر اراسم کا ترجمہ پڑھنے سے پیدا ہوئی ۔
بہر حال لوتر نے اراسم کو جو خط لکھا ہے اس کیمطابق لوتر نیاراسم کی عیسائی مذہب کو اصلاح کی فکر کو جلا بخشی اور اس طرح پروٹسٹنٹ تحریک وجود میں آئی ۔
جب لوتر نے اراسم کے ترجمے کو مد نظر رکھتے ہوئے چار انجیلوں کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا اور تہمت لگائی کہ اس نے عیسائی مومنین کے درمیان تفرقہ ڈالنے کیلئے اپنے علم کو عہد عتیق اور عہد جدید کے ترجمے کیلئے استعمال کیاہے ۔
لیکن روشن خیال مذہبی پیشواؤں نے اس تہمت کو در خور اعتنا نہیں سمجھا اور آورین ششم جو کیتھولک مذہب کا پوپ اور سربراہ تھا نے اراسم کو ایک خط لکھا اور کہا ‘ مجھے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہیکہ تم عہد عتیق اور عہدہ جدید کے ترجمے کے ذریعے عیسائیت کی خدمت کرنا چاہتے تھے لیکن اگر تم چاہتے ہو کہ دوسری بھی تمہاری تہمت پر شبہ نہ کریں تو پروٹسٹنٹ مذہب کے متعلق اپنے نظریات کا علی الاعلان اظہار کر دو ۔
اراسم ‘ لوتر اور جدید مذہب کے دوسرے پیروکاروں سے کشمکش نہیں مول لینا چاہتا تھا لیکن جب اسے پوپ کا خط ملا تو اس نے کتابی صورت میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا " میں عیسائیت کے متعلق لوتر اور اس کے مریدوں کے نظریات کو تسلیم نہیں کرا "
لیکن اس کے باوجود کہ اراسم نے اپنی کتاب میں لوتر اورا س کے مریدوں کے نظریات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اس بیسویں صدی عیسوی میں ابھی تک بعض ایسے لوگ موجود ہیں جن کے بقول اراسم نے پروٹسٹنٹ مذہب کا بیج بویا اور اس کے ترجمے نے لوتر کو پروٹسٹنٹ تحریک وجود میں لانے کی طرف متوجہ کیا ۔
اس ساری بحث سے ہمارا مقصد یہ دکھانا تھا کہ ابن راوندی کو اراسم سے تشبیہ دنا درست اور عہد جدید کا قدیم یونانی متن سے ترجمہ کرنے کا مقصد کیتھولک مذہب میں تفرقہ اندازی تھا ‘ پھر بھی ان دونوں کو ایک دوسرے سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔
ایک دن ابن راوندی کتاب کے رقم شدہ صفحات کو مطلب بصری کے ہاں لیکرپہنچا تاکہ اس سے اپنا معاوضہ حاصل کرے تو اس نے مطلب بصری کے پاس ایک شخص کو موجودپایا جب اس کتاب کے صفحات مطلب بصری کے ہاتھوں پہنچے تو اس شخص نے ان پر ایک نظر ڈالی تو ایک صفحے کے مطالب اسے جانے پہچانے لگے اس نے وراق سے کہا گویا یہ میری کتاب ہے ۔ مطلب بصری نے کہاہاں آپ ہی کی کتاب ہے ‘ میں نے اس کے نسخے تیار کرنے کیلئے ابوالحسن (ابن راوندی ) کو دی تھیاس شخص نے ابن راوندی پر ایک نگاہ ڈالی اور کہا کہاں کے باسی ہو ؟
ابن راوندی نے اپنا وطن بتایا ‘ اس شخص نے ابن راوندی کے خط پر ایک سرسری نظر دوڑاتے ہوئے کہا تم خوش خط نہیں ہو مطلب بصری نے کتاب کے مولف کو باور کرانے کیلئے کہا ابن راوندی ایک عام سا کاتب ہے کہا کہ یہ اس کتاب کی کاپیاں تیار کر رہا ہیجو تم سیخریدیہے۔
مولف کتاب نے حقارت میز لہجے میں کہا اگر ایسا ہے تو پھر کوئی حرج نہیں ایک خرب خط آدمی بھی میری کاپیاں تیار کر سکتا ہے جب ابن راوندی نے دیکھا کہ اس کو حقارت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے تو چونکہ اس نے مولف کا نام کتاب میں دیکھا تھا ۔ پوچھا کیا صمصام کوفی تم ہی ہو؟اس شخص نے کہا جی
ہاں ‘ ابن راوندی بولا ‘ تمہاری کتاب میں غلط ملطہ مطالب کی بھر مار ہے ۔ صمصام کوفی نے پوچھا ‘ تم کون ہوتے ہو جو میری کتاب کے مطالب کے بارے میں اظہار خیال کرو ؟ ابن راوندی نے کہا میں نے خوشخطی سیکھنیکیلئے علم حاصل کیالہذا میں کتاب کے مطالب کے کچھ حصے کی غلطیوں کی شناخت کر سکتا ہوں ۔
صمصام کوفی نے کاہ ‘ ان میں ایک غلط مطلب مجھے بتاؤ ۔ ابن راوندی نے جواب دیا ان میں سے ایک غلطی وہ ہے جو اس حصے میں موجود ہے جس سے میں نے کل دن اور رات میں نسخہ تیار کیا ہے ‘ پھر اسنے وہ صفحات جو مطلب بصری کو دیئے تھے اس سے واسپ لے کر ایک صفحہ صمصام کافی کے ہاتھ میں تھمایا اور کہا پڑھو ۔
صمصام کافی نے اسے پرھا اور کہا یہ مفہوم تمہیں کیوں غلط لگا ؟ ابن راوندی نے کہا ‘ اس لئے کہ تم نے اس صفحے میں لکھا ہے کہ آدمی اپنے کام میں خود مختار نہیں اور اگر آدمی اپنے کام میں خود مختار نہ ہو تو وہ کیسے جزا یا سزا کا مستوجب ہے ؟
صمصام کوفی نے کہا میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا کیا کہنا چاہتے ہو ابن راوندی بولا میرا مطلب یہ ہے کہ اگر میں اپنے کام میں خود مختار نہیں ہوں اور جو کچھ میں انجام دوں وہ کسی دوسرے کے اختیار میں ہو تو اسکی سزا یا جزا مجھے کیوں ملتی ہے ؟
اس دوران ایک دوسرا مولف ایا جو نہی وہ صمصام کوفی اور ابن راونی کی بحث میں مطلع ہوا تو اس بحث میں شامل ہو گیا اس طرح یہ بحث و مباحثہ طول کھینچ گیا اس بحث کاموضوع ایک نہ ختم ہونے والا موضوع ہے کیونکہ جس دن سے حکمت وجود میں آئی ہے اس دن سے لیکر آج تک جو لوگ انسان اور جب تک حکمت باقی ہے جبر اور ختیار کے ان طرفداروں کے درمیان شاید یہ بحث جار ی رہے گی۔
اس بنا پر ہم اس مقام پر اس پرانی بحث کو جو ابن راوندی اور اس کے مخالفین کے درمیان ہوئی نہیں دہراتے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ اس بحث کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا ۔
لیکن اس مباحثے سے جان گئے کہ معلومات کے لحاظ سے ابن راوندی کو دوسروں پر برتری حاصل ہے ہو یونانی حکماء کو جانتا ہے اور جبرو اختیار کے بارے میں ان کے نظریات سے بھی بخوبی آگاہ ہے مطلب بصری‘ اگرچہ ایک وارق تھا لیکن چونکہ اس نے عمر کا کافی حصہ کتابوں کے نسخے تیار کرنے میں گزارا تھا اس بات کو سمجھتا تھا ۔ کہ ابن راوندی ان دو مولفین کے مقابلے میں علم و دانش کے لحاظ سے برتر ہے اور ابن راوندی محض کاتب ہونے کے باوجود دوسرے دو افراد سے بہتر سوجھ بوجھ رکھتا ہے اور نہایت قوی دلائل پیش کرتا ہے وہ اس کے دلائل کو رد نہیں کر سکتے ۔
جس دن مطلب بصری نے دیکھا کہ ابن راوندی نے کتاب پر حاشیہ لکھا اس نے ان حواشی کو پڑھا ہی نہیں تھا کہ وہ اس کی قابلیت کا اندازہ کر سکتا وہ محض حواشی کو دیکھتے ہی آگ بگولا ہو گیا جس کی وجہ سے اس نے غصے میں آ کر کہاکہ ابن راوندی کو اپنے آپ سے کوئی چیز نہیں لکھنا چاہیے ورنہ اسے کتابوں کے نسخے تیار کرنے سے محروم کر دیا جائے گا ۔
لیکن اس دن جب اس نے سنا کہ ابن راوندی کیا کہتا ہے تو اس کی علمی برتری اس پر آشکار ہو گئی کیونکہ جولوگ کتابوں کے نسخے تیار کرنے میں عمر صرف کر دیتے تھے وہ کتاب شناس ہونے کے علاوہ علماء کی وقعت سے بھی آگاہ ہو جاتے تھے آج کتابوں کے نسخے نہیں تیار کرتا کتابیں یا تو چھپتی ہیں یا ان کی فوٹو کاپی کی جاتی ہے بہر کیف آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کتاب کے ساتھ ایک عمر گزارتے ہیں تو آخر وہ عالم شناس اور کتاب شناس کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں چاہے وہ پرانی کتابیں بیچنے والے ہی کیوں نہ ہوں ۔
اس بحث میں صمصام کوفی ‘ ابن راوندیکے سامنے نہ ٹھہر سکا اور کسی کام کا بہانہ کرکیوہاں سے چلتا بنا ۔ اس طرح دوسرے مولف نے بھی صمصام کوفی کے جانے کے بعد فرار ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔ ان دونوں کے جانے کے بعد مطلب بصرینے ابن راوندی سے کہا تم اصفہان میں کیا کرتے تھے ؟
ابن راوندینے کہا میں وہاں مدس تھا مطلب بصرینے کہا میں جانتا ہوں تو ایک عالم ہے اور میں شرط کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جب تیرے حالت سدھر جائی گی تو مجھے فراموش نہیں کرے گا تمہاری مدد کرنے کو تیار ہوں چونکہ میں نے چند ایسے اشخاص کی بغداد میں آنے کے بعد مدد کی جن کا یہاں جاننے والا کوئی نہ تھا لیکن جب وہ اونچے مقامات پر فائز ہوئے تو مجھے بھول گئے جب کبھی میں ان کے ہاں جاتا تھا مجھے درخور اعتنا نہیں گردانتے تھے جب وہ میری کوئی مدد کرنا چاہتے تو صرف مجھے کتاب دے دیتے تاکہ میں اس کی کاپی تیار کروں ابن راوندی نے اپنا اظہار خیال کرتے ہوئے بتایامیں وہ انسان نہیں ہوں کہ کوئی مشکل اوقات میں میری مدد کرے تو جب میرے حالات سدھر جائیں اسے بھول جاؤں ۔
مطلب بصری کہنے لگا سبھی یہ وعدہ کرتیہیں مگر اس پر عمل کم ہی کرتے ہیں اور جونہی تنگدستی فراخ دستی میں جھونپڑی محل اور فقیرانہ لباس شاہانہ لباس میں تبدیل ہوتاہے اس بات کو فراموش کر دیتے ہیں کہ تنگدستی کے وقت ‘ دوسروں کے ساتھ کیا وعدہ کیا تھا ؟ اور اگر سابقہ محسنوں میں سے کوئی اسکے گھر کا رخ کریتو دربان کہتا ہے کہ میرا صاحب تجھے نہیں جانتا اگر وہ گھر کے مالک سے ملنے پر اصرار کرے تو غلام گھر سے باہر آ کر اس کی ایسی مرمت کرتے ہیں کہ اسے چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا ہے ۔
ابن راوندی نے کہا اے مطلب بصری اگر کوئی کسی سے نیکی کرنا چاہے تو وہ اس کی اس قدر اتمام حجت نہیں کرتا اسے اطمینان ہو جائے کہ اس کی نیکی کا بدلہ چکا دے گا میں تم سے کوی غیر معمولی مدد نہیں چاہتا اور یہ تمہاری مرضی ہے کہ میری اعانت کر و یا نہ کرو مطلب بصری نے کہا اس کے باوجود کہ مجھے یقین نہیں ہے کہ تم میری نیکی کا صلہ چکا دو گے میں تمہیں ایک عالم سمجھ کر تمہاری مدد کرتا ہوں تم ایک کتاب چاہے وہ چھوٹی ہی کیوں نہ ہو کسی دلچسپی موضوع پر لکھو بہتر یہ ہے کہ وہ حکمت کے متعلق ہو تاکہ میں اپنے سارے وسائل بروئے کارلاتے ہوئے خلیفہ کی خدمت میں پیش کروں اس طرح خلیفہ تمہاری طرف متوجہ ہو گا اور تمہیں انعام و اکرام سے نوازے گا اس کے ساتھ تمہیں ایسے کام پر لگائے گا کہ پھر تمہیں معاش کے بارے میں کوئی فکر نہ رہے گی لیکن جب تک تم کچھ لکھ کر خلیفہ کی خدمت میں پیش نہیں کرو گے دوبار خدمت میں رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔
ابن راوندی بولا میرے پاس ایک کتاب لکھی ہوئی تیار ہے تم اسے اپنے وسائل کو بروئے کارلا کر خلیفہ کی خدمت میں پیش کر سکتے ہو مطلب بصری نے پوچھا کیا تمہاری کتاب کا موضوع حکمت ہے ابن راوندی نے اثبات میں جواب دیا اپنا معاوضہ حاصل کرکے جانے لگا تو مطلب بصری کو بات یاد آئی اور اس نے پوچھا کیا تمہاری کتاب کی صرف ایک ہی کاپی ہے؟
ابن راوندی نے کہا ہاں ‘ مطلب بصری کہنے لگا اس سے قبل کہ تمہاری کتاب کو خلیفہ تک پہنچاؤں تم اس سے ایک عدد کاپی تیار کر لو کیونکہ جو کاپی تم خلیفہ کی خدمت میں پیش کرو گے وہ اگر اسے پسند آئی تو اس کی لائبریری میں جمع ہو جائے گیاور وہ تمہیں پھر واپس نہیں ملے گی ۔ ابن راوندی نے کہااس بات کو چھوڑیئے کیونکہ اس کتاب کا متن میرے پاس موجود ہے اگر خلیفہ نے میرے کتاب خرید لی تو میں اسے دوسری کاپی تیار کر لو ں گا ۔
ابن راوندی کی کتاب " الفرند" حکمت کے متعلق تھی لیکن ایسی حکمت کے متعلق کہ کتاب کے بعض ابواب میں تریخ اور جغرافیہ سے بھی مدد لی گئی تھی ۔
آج یہ کتاب موجود نہیں ہے لیکن اس کے کچھ اقتباسات مغرب کے مسلمان علمائکی کتابوں میں ہوتے ہیں جن سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ یہ خاصی دلچسپ کتاب شمار کی جاتی تھی ۔
دوسرے دن ابن راوندی نے اپنی کتاب مطلب بصری کو دی اور دوسری کتاب کا وہ حصہ جو مزید نسخے تیار کرنے کیلئے اسے ملا تھا اس نے وہ بھی مطلب بصری کی خدمت میں حاضر کرکے اپنا معاوضہ حاصل کیاجیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں جب ابن راوندی نے اپنی کتاب الفرند عباسصروم کی خدمت میں پیش کی تھی تو اس شخص نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کتاب کی تصنیف اور اس کے دوسرے لوگوں تک پہنچنے کے بعد تم کیسے زندہ ہو ؟ عباس صروم کو اس بات کا حق تھا کہ وہ ابن راوندی کیزندہ رہ جانے پر حیرت کا اظہار کرے ۔ چونکہ امام جعفر صادق نے شیعہ مکتب میں آزادی بحث ایجاد کر دی تھیاس لئے ابن راوندی کو اس بات کا احساس نہ تھا کہ شیعی ثقافت کی بنیاد امام جعفر صادق نے رکھی تھیاور اسے وسعت بخشی تھی اس میں کسی شخص کو روایتی طریقوں کے خلاف بات کرنے کے جرم میں واجب القتل قر ار دیا جا سکتا ہے بے شک اس آزادی بحث سے شیعی ثقافت کی جریں مضبوط ہوئیں ۔
ابن راوندی کا عباس صروم سے رجوع کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اسکے ذریعے خلیفہ کے دربار تک رسائی حاصل کرکے خلیفہ سے بہر مند ہوجس وقت عباس صروم نے اسے اپنے ہاں سے نکال دیاتو ابن راوندی نے اسے عباس صروم کے حسد پر معمول کیا ۔ اگر ابن راوندی اس بات کا قائل ہو جاتا کہ واقعی عباس صروم نے اس سے حقیقت بیان کی ہے اور اس کی جان خطرے میں ہے تو وہ اپنی کتاب کو ہر گز خلیفہ تک پہنچانے کیلئے مطلب بصری کے حوالے نہ کرتا ۔
عملی حسد ہر زمانے میں رہا ہے اور بعض ادوار میں اس قدر زیادہ تھا کہ استاد سکھانے میں لیت و لعل سے کام لیتے تھے اور اپنا سار ا علم اپنے شاگروں کو نہیں سکھاتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ علم میں پیشرفت کرکے استاد کی جگہ لے لیں ۔
خاص طور پر جب کوئی عالم خلیفہ یا کسی اور حاکم کے دربار سے وابستہ ہو جاتا تھا ‘ اس کا علمی حسد بہت بڑھ جاتا تھا اور اگر حاسد میں طاقت ہوتی تو وہ محسود کو سرے سے مٹا دیتا تھا تاکہ خلیفہ کے دربار یا کسی دوسرے دربار میں مقبول نہ ہو جائے گذشتہ ادوار میں کوئی بھی استاد یہ تنقید نہیں کرت تھا کہ کیوں اس نے اپنے علم کا فلاں حصہ اپنے شاگردوں کو نہیں سکھایا ۔
اگر کوئی اس کی بھلائی کیلئے زبان کھولتا اور استاد سے اس بارے میں پوچھتا تو وہ اعتراض کرنے والے کو خاموش کرنے کیلئے دو ٹوک الفاظ میں وضاحت کر دیتا اور کہتا کہ میں نے اس لئے نہیں سکھایا کہ میرے شاگرد نا اہل تھے اور میں نہیں چاہتا تھا کہ میرا علم نا اہل ہاتھوں میں پہنچے اس وضاحت کو سب قبول کر لیتے تھے ۔
ابن راوندی کو اس میں کوئی شک نہ تھا کہ عباس صروم کا خلیفہ سے متعارف کرانے کے ضمن میں اسکی مدد سے پہلو تہی کرنے کی واحد وجہ حسد تھی اور چونکہ اس نے مطلب بصری کو حاس د نہیں پایا تھا لہذا اس نے کتاب اسکے حوالے کی تاکہ خلیفہ کی خدمت میں پیش کرے ۔
ہمیں معلوم نہیں کہ مطلب بصری نے کسی ذریعے سے ابن راوندی کی کتاب خلیفہ کی خدمت میں پہنچائی چونکہ تاریخ اس بارے میں خاموش ہے اس زمانے کے تمام دوسرے کتابوں کی مانند مطلب بصری نے بھی ابن راوندی کی کتاب نہ پڑھی اور اگر وہ اسے پڑھتا اور سمجھتا کہ ابن راوندی نے اپنی کتاب میں کیا لکھا ہے ۔ تو وہ اسے عباسی خلیفہ کے دربار میں پہنچانے سے گریز کرتا کیونکہ اس کتاب نے جس طرح ابن راوندی کو مشکل میں ڈالا تھا ممکن تھا کہ مطلب بصری کو بھی مشکل میں پھنساتی ۔
چونکہ مطلب بصری جیسا شخص جو مصروف کاتب تھا اور چند دوسرے کاتب بھی اسکی وساطت سے بادشاہ کے درباری علماء کی کتابوں کے نسخے تیار کرتے تھے لہذا خلیفہ کے دربارے علماء کے ایک گروہ سے اسکی جان پہچان تھی اور زیادہ احتمال یہی ہے کہ اس نے انہی میں سے کسی کی وساطت سے ابن راوندی کی کتاب خلیفہ کی خدمت میں پیش کی ۔
جس وقت یہ کتاب خلیفہ کے ہاتھوں میں پہنچی اس وقت تک عباس کو فرصت مل چکی تھی کہ وہ خلیفہ سے کہے کہ ابن راوندی مرگی کا مریض ہے المتوکل نے ان لوگوں کی مانند کتاب کو درمیان سے کھولا جو کسی کتاب کو پڑھنا نہیں چاہتے بلکہ صرف چند جملے پڑھ کر یہ اندازہ لگانا چاہتے ہیں کہ کتاب میں کیا لکھا ہے ‘ جب وہ کچھ سطریں پڑ چکا تو کتاب میں اسکی دلچسپی بڑھ گئی جس چیز نے خلیفہ کی توجہ کو مرکوز کیا وہ کاشمر میں ایک درخت کا تذکرہ تھا جسے زرد تشی نہایت محترم شمار کرتے تھے اور اس کے بارے میں معتقد تھے کہ اسے زردشت نے کاشت کیا ہے جب المتوکل نے کاشمر کے اس درخت کا تذکرہ آخر تک پڑھ ا تو غضب میں آ گیا ۔
جیسا کہ ہم نے کہا ہے ابن راوندی نے تاریخی اور جغرافیائی مباحث کو اپنی کتاب میں فلسفیانہ نتائج حاصل کرنے کیلئے رقم کیا اور سرو کے اس درخت کے بارے میں بحث سے اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ وہ درخت ذات باری تعالی کی طرف متوجہ کرنے کا سبب بنا اور نہ صرف زردشتی اس کی پوجا کرتے تھے بلکہ مسلمان بھی کاشمر کے اس سرو کی پرستش کرتے تھے ۔
جب متوکل کو کاشمر میں سرو کے اس درخت کے متعلق علم ہوا تو غضبناک ہو گیا اور کہنے لگا مجھے ہر گز اس بات کا علم نہ تھا کہ میری قلمروئے خلافت میں کسی درخت کی پوجا ہوتی ہے ۔
میرازدشتیوں سے کوئی تعلق نہیں وہ جسے چاہیں اسکی پوجا کریں لیکن میں ہر گز برداشت نہیں کر سکتا کہ کاشمر کے مسلمان کسی درخت کو اپنا معبود جانیں اور اسکی پوجا کریں اور اگر یہ درخت اس طرح پایا جاتا ہے جس طرح اس کتب میں اس کا تذکرہ ہو اہے تو اسے اکھاڑ پھینکا جائے اور اگر اس بات کا احتمال ہو کہ اسکی جڑیں ہری ہو جائینگی اور ایک مرتبہ پھر یہ درخت بن جائیگا تو اسکی جڑوں کو بھیاکھاڑی پھینکیں تا کہ دوبارہ ہرا نہ ہو سکے اس لحاظ سے ابن راوندی پہلا شخص تھا جس نے متوکل کو یہ درخت اکھاڑنے کی فکر دلائی متوکل نے طاہر بن عبداللہ بن طاہر والئی خراسان کو اس درخت کے متعلق اطلاع دی طاہر بن عبداللہ بن طاہر متوکل کے مقربین میں سے تھا اور متوکل کی زندگی کے آخری ایام تک اس کا وفا دار رہا ۔
اس حاکم خراسان نے عربوں کے تسلط کے بعد پہلی ایرانی بادشاہت قائم کی جو صفاری خاندان کی تھی حالانکہ یہ خود بھی ا س بات سے آگاہ نہ تھا ۔ چونکہ طاہر بن عبداللہ بن طاہر نے خراسان کی حکومت کا کچھ حصہ یعقوب لیث کے حوالے کر دیا تھا اسی کے نتیجہ میں بادشاہت کیلئے راہ ہموار ہوئی البتہ یہ بحث ہمارے موضوع سے میل نہیں کھاتی ۔
جونہی طاہر بن عبداللہ بن طاہر کو خلیفہ کا خط موصول ہوا اس نے درخت کے بارے میں تحقیق کی تو پتہ چلا کہ وہ درخت کا شمر میں موجود ہے اور زردشتی و مسلمان دونوں اس کا احترام کرتے ہیں اس نے خلیفہ کو لکھ بھیجا کہ ایک ایسا درخت موجود ہے جسے لوگ قابل احترام گردانتے ہیں لیکن کوئی بھی اس کی پوجا نہیں کرا خیال کای جاتا ہے کہ حاکم خراسان کی اس درخت کے بارے میں رپورٹ سے بادشاہ مطمئن ہو گیا اور درخت اکھاڑنے سے باز رہا ۔
کیونکہ اگر قزوینی کی تالیف آثار البلاد کو سند مانا جائے تو جس وقت کاشمر سرو کے اس درخت کے ٹکڑے جب خلیفہ کے دارالحکومت میں بھیجے گئے تو متکول اپنے بیٹے المستنصر کے ہاتھوں قتل ہو چکا تھا ۔ اور ابن راوندی ۲۳۶ ہجری میں بغداد میں وارد ہوا جبکہ متوکل اپنے بیٹے کے ہاتھوں ۲۴۷ ہجری قمری میں قتل ہوا اور ان دو تاریخوں کے درمیان گیارہ سال کا عرصہ ہے ابن راوندی کی کتاب قاعدے کی رو سے ۲۳۶ ھ میں یا اس کے ایک سال بعد خلیفہ کیہاتھوں میں پہنچی ہو گی اور کاشمر کے درخت کو۲۴۷ ھ میں اس سے ایک سال قبل ۲۴۶ ھ میں اکھاڑا گیا ہو گا ۔
تحقیق کی رو سے ہمیں معلوم نہیں کہ کاشمر کا درخت کس تاریخ کو اکھاڑا گیا لیکن اسلامی تواریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جس وقت اس درخت کی لڑی دارالحکومت بغداد میں پہنچی متکول زندہ نہ تھا تو اصولا یہ درخت متوکل کے قتل کے سال یا اس سے ایک سال پہلے اکھاڑا گیا ہو گا مسلمان مورخین کے بقول وہ درخت اس قدر بڑا تھا کہ اسکی شاخیں ایک وسیع رقبے کا حاطہ کئے ہوئے تھیں اسکی شاخیں پانچ سو گز لمبی اور اتنی ہی چوڑی تھیں ۔
مسلمان مورخین کے بقول ہزاروں پرندے پورا سال اس درخت پر گھونسلے بنائے رکھتے تھے چونکہ پرندے مخصوص موسم میں گھونسلے بناتے اور انڈے دیتے ہیں لہذا پرندوں کا سارا سال گھونسلے بنائے رکھنے والی روایت صحت کے اعتبار سے مشکوک ہے اور دوسرا زمین کے نصف خشک حصی میں (جس میں کاشمر بھی شامل ہے ) خسکی کے پرندے صرف موسم بہار میں گھونسلے بناتے اور انڈے دیتے ہیں ۔
اگر مسلمان مورخین کسی شہر کے بارے میں ایسی بات کہتے کہ کاشمر میں اتنا بڑا شہر تھا تو بات بنتی تھی لیکن اتنیبڑے درخت کے وجود کو عقل تسلیم نہیں کرتی جیسا کہ بعض مسلمان مورخین نے یہاں تک مبالغے سے کام لیا ہے کہ ایک فوج اس درخت کے سائے میں استراحت کرتی تھی ۔
نا معلوم راویوں کے حوالے سے اس درخت کیمتعلق اور بھی کئی روایات مشہور ہیں ان میں سے ایک روایت یہ ہے کہ جب متوکل نے والئی خراسان کو اس درخت کے اکھاڑنے کا حکم صادر کیا تو اسکے درباری جادو گر نے اسے منع کرتے ہوئے کہا جس دن یہ درخت اکھاڑا جائیگا تمہاری زندگی ختم ہو جائیگی اور ویسا ہی ہوا ۔ یعنیوہ درخت اکھاڑا گیا متوکل اپنے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہو گیا اور اسکی عمر نے وفا نہ کی کہ وہ کاشمر کے سرو کے اس درخت کو جسے بغداد لایا گیا تھا دیکھ سکتا یہ روایت قابل قبول نہیں کیونکہ عباسی خلفاء کے ہاں جادوگر نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی وہ جادو گری کے معتقد تھے اور اگر جادوگر ہوتے بھی تو ایسی بات منہ سے نہیں نکال سکتے تھے کیونکہ کسی جادو گر کو جرات نہ ہوتی تھی کہ وہ عباسی خلفاء کو جنکی اکثریت شرابی تھی کہہ سکتے کہ تمہاری زندگی کا چراغ گل ہو جائیگا ۔
متوکل وہ خوش قسمت خلیفہ تھا جسکی عمر شرابی ہونے کے باوجود دوسرے عباسی خلفاء سے زیادہ تھی وہ چالیس سال سے زیادہ عرصے تک زندہ رہا اور اگر قتل نہ ہوتا تو شاید پچاس بہاریں دیکھتا ‘ عباسی خلفاء کی اکثریت شراب خوری میں افراط برتنے کی بنا پر جوانی ہی میں موت کے گھاٹ اتری ۔
جادو گری چوتھی صدی ہجری کے بعد عباسیوں کے دربار خلافت میں داخل ہوئی بہرکیف کوئی بھی خلیفہ جادو گری کا معتقد نہ تھا البتہ کبھی کبھی دل بہلانے کیلئے جادو گر سے رجوع کرتے تھے دوسری روایت یہ ہے کہ جس وقت زرد شتی مذہب کے خراسانی پیشوا الحراق نے سنا کہ متوکل نے کاشمر کے سرو کے درخت کو اکھاڑنے کا حکم دیا ہے تو اس نے کہا یہ شخص قتل ہو جائیگا اور اسکی نسل برباد ہو جائیگی ۔
بعید ہے کہ زردشتی مذہب کے پیشوا کا نام الحراق ہو
جو ایک عربی نام ہے اور اگرچہ متوکل قتل ہوا لیکن اسکی نسل برباد نہیں ہوئی اور مزید چار سو سال تک عباسیوں کی خلافت قائم رہی ان میں سے بعض روایات مجہول ہیں اور بعض قابل اعتماد نہیں جو بات قابل قبول ہے وہ یہ ہے کہ اگر ابن راوندی کی کتاب متوکل کے ہاتھوں میں نہ پہنچتی تو کاشمر میں سرو کا درخت نہ کاٹا جاتا اس درخت کے محل و قوع کے بارے میں اختلافی روایات ملتی ہیں ۔

المتوکل اور ابن راوندی
جس دنمتوکل نے ابن راوندی کی کتاب کھول کر اس میں کاشمر میں سرو کے درخت کا تذکرہ پڑھا عباس صروم خلیفہ کے حضور میں حاضر تھا بولا اے امیر المومنین ‘ اس کتاب کا مصنف مرگی کا مریض ہے متوکل نے کہا ‘ میں اس کتاب میں اس کے مرگی کا مریض ہونے کیکوئی علامت نہیں پاتا ہوں اور جو کچھ کتاب میں لکھا ہوا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شخص جنرل نالج رکھتا ہے ۔
عباس صروم بولا اگر امیر المومنین کتاب کے دوسرے حصوں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو جائیگا کہ یہ شکص مرگی کا مریض ہے اور اس کے بیانات کو در خور اعتنا نہیں سمجھنا چاہیے لیکن اس دن خلیفہ نے کتا کے کافی حصے کا مطالعہ کر لیا تھا اور وہ مزید اسے پڑھنے کی سکت نہیں رکھتا تھا لہذا اس نے شراب پینے کو ترجیح دی آخر کار عباس صروم نیمتوکل کے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ ابن راوندی مرگی کا مریض ہے تاکہ اگر ابن راوندی (جو بغداد ا چکا تھا ) اس کے دربار سے منسلک ہو جائے تو عباس صروم کو اس سے کوئی خطرہ نہ ہو ۔
جیسا کہ ہمیں معلوم ہے اکثر عباسی خلفاء کی روش ایسی تھی کہ وہ اطرح طرح کے حرام کاموں کا ارتکاب کرتے تھے لیکن اگر کوئی دو سرا ان کاموں کا مرتکب ہوتا تو اسے حد لگاتے یا قتل کر دیتے تھے اور اپنے اعمال سے یہ ظاہر کرتے تھے کہ خلیفہ پر اسلامی تعزیرات لاگو نہیں ہوتیں اور وہ ان تعزیرات سے بے نیاز ہے ۔
عباسی خلفاء نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے میں اس قدر بے باک تھے کہ فسق و فجور میں مبتلا ہونے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے تھے اور اپنے اپ کو عوام و خواص سے اس قدر برتر جانتے تھے کہ حرام اعمال کا علی الاعلان ارتکاب کرتے تھے لوگ انہیں دیکھتے رہتے لیکن ان پر اعتراض نہیں کر سکتے تھے ۔ کیونکہ ایک طرف تو لوگ ان سے خوف کھاتے اور دورا وہ اعمال کا اتنی مرتبہ تکرار کرتے کہ لوگ اسے ایک معمولی بات شمار کرتے تھے لوگ نہ تو ان کے ان اعمال سے متحیر ہوتے اور نہ ہی متنفر ہوتے تھے کچھ دنوں بعد خلیفہ کو ابن راوندی کی کتاب کھولنے کا خیال آیا اور ایک ایسی چیز پر اس کی نگاہ پڑی کہ اسے پڑھتے ہی وہ طیش میں آ کر بولا کیا اس کتاب کا مصنف اسی شہر میں ہے ؟
جس شخص کی وساطت سے یہ کتاب خلیفہ تک پہنچی تھی اس نے کہا ہاں ۔
متوکل نے کہا کیا تم اسے جانتے ہو اس شخص نے کہا میں اسے نہیں جانتا خلیفہ نے سوال کیا اگر تم اسے نہیں جانتے تو کیسے اس کتاب کو اس سے لے کر میرے لئے لائے ہو اس شخص نے جواب دیا میں نے یہ کتاب اس شخص سے نہیں لی بلکہ کاتب مطلب بصری سے لی ہے اس نے مجھ سے درخواست کی کہ اس کتاب کو خلیفہ کی خدمت میں پہنچا دو کیونکہ اس کتاب کا مصنف جو ایک تنگ دست انسان ہے شاید خلیفہ کی توجہ اس کی طرف مبذول ہو جائے اور خلیفہ اس کی کچھ مدد کرے
خلیفہ نے سوال کیا ‘ کیا تو نے یہ کتاب پڑھی ہے ؟ اس شخص نے کہا نہیں اے امیر المومنین ‘ کیونکہ اس کے مصنف سے میریذاتی تعلقات نہ تھے کہ میں اس کی تحریر کو پڑھتا ۔ اور محض مطلب بصری کی درخواست پر اس کتاب کو آپ کے لئے لایا ہوں خلیفہ نے کہا ‘ مطلب بصری کو حاضر کرو ۔
وہ شخص جس وقت مطلب بصری کو لانے کیلئے آیا تو اسے خیال آیا کہ اسے مطلب بصری کو نہیں بتانا چاہیے کہ خلیفہ اس کی کتاب پڑھنے سے غضب ناک ہوا ہے کیونکہ اس صورت میں وہ شہر چھوڑ کر بھاگ نکلے گا ۔
لہذا اس نے مطلب بصری سے کہا ‘ خلیفہ کو تمہاری کتاب پسند ائی ہے اور اس نے تمہیں یاد کیا ہے مطلب بصری خوشی خوشی چل پڑا کیونکہ جب اس نے سنا کہ خلیفہ نے کتاب پسند کی ہے تو اسے یقین ہو گیا کہ اسے انعام و اکرام سے نوازنا چاہتا ہے کاتب کو یہ خیال نہ آیا کہ خلیفہ نے کتاب کے مصنف کو کیوں نہیں بلایا اور اسے کیوں بلایا ہے ؟ چونکہ خلیفہ کا انعام مصنف کو ملنا چاہیے تھا نہ کہ اسے وہ اس بات سے خوش تھا کہ خلیفہ کا انعام اس کے ذریعے ابن راوندی کو ملے گا ایسی صورت میں یہ فطری امر ہے کہ ابن راوندی انعام کا کچھ حصہ قدر دانی کے طور پر اسے دیدے گا کاتب جب خلیفہ کے حضور میں آیا تو خلیفہ نے سوال کیا تو نے یہ کتاب پڑھی تھی یا نہیں ؟ خلیفہ کے سوالیہ لہجے سے مترشح تھا کہ خیر نہیں ‘ کاتب نے صاف کہہ دیا کہ اس نے کتاب نہیں پڑھی ۔ خلیفہ نے پوچھا ‘ تم نے یہ کتاب پڑھے بغیر کیوں بھیجی ہے ؟ اور اس کے بھیجنے میں تمہارا کیا مقصد تھا ؟ مطلب بصری کہنے لگا ‘ اس کتابکا مصنف ایک اصفہانی ہے جو اس شحر میں حال ہی میں وارد ہوا ہے وہ میرے لیے کتابت کرتا ہے چونکہ وہ تنگ دست ہے لہذا اس نے مجھ سے درخواست کی کہ میں اس کی کتاب کو خلیفہ کی خدمت میں پیش کروں کہ شاید امیر المومنین کے بندہ پرور دستر خون سے اس کی مراد بر ائے متوکل نے کہا چونکہ تم ایک کاتب ہو اور تم نے اس کتاب کا مطالعہ نہیں کیا لہذا میں اس شرط پر تمہیں چھوڑتا ہوں کہ کتاب کے مصنف کو میرے حضور میں حاضر کرو ۔
مطلب بصری جب خلیفہ کے دربار سے باہر نکلنے لگا تو جس شخص کو اس نے کتاب دی تھی اسے کہنے لگا تم نے مجھے کیوں نہیں کہا کہ خلیفہ غضب ناک ہوا ہے تم نے مجھے فریب کیوں دیا ؟
مطلب بصری نے اس شخص کے کہنے سے تجربہ حاصل کیا اور جب وہ ابن راوندی کے مسافر خانے کی طرف جا رہا تھا تو اپنے آپ سے کہنے لگا میں اسے یہ نہیں بتاؤں گا خلیفہ ناراض ہوا ہے بلکہ میں اسے خلیفہ کے انعام و اکرام بتلاؤں گا تاکہ وہ آنے پر مائل ہو سکے اور پس و پیش نہ کرے ۔
یہاں پر اس بات کا ذکر زائد از بحث ہے کہ ابن راوندی مسافر خانے میں بیٹھا کتابت میں مشغول تھا جب اسے اطلاع دی گئی کہ بادشاہ نے اس کی کتاب پسند کی ہے اور اسے دربار میں طلب کیا ہے تاکہ انعام و اکرام سے نوازے تو وہ کس قدر خوش ہوا ۔
لیکن جونہی وہ چلنے کیلئے اٹھا پریشانی کے آثار اس کے ماتھے پر نمایاں تھے ۔اس نے ایک سرد اہ بھری ‘ مطلب بصری نے پوچھا تمہیں کیا ہوا ہے ؟ وہ اصفہانی شخص بولا میں اس پرانے لباس اور پھٹے ہوئے جوتوں کے ساتھ کس طرح خلیفہ کی خدمت میں جاؤں ۔ مطلب بصری نے جواب دیا تم خلیفہ کے دربارے میں جانے سے پہلے اپنے جوتے اتار لینا اور پھر کوئی بھی تمہارے پھٹے پرانے جوتے نہیں دیکھ سکے گا ۔
ابن راوندی نے کہا ‘ میں اپنے پرانے لباس کو تو اپنے جسم سے جدا نہیں کر سکتا ۔ خلیفہ اور اس کے حواری اسے ضرور دیکھ لیں گے مطلب بصری کہنے لگا ‘ تمہارا پرانا لباس تمہارے عالم ہونے کی سند ہے کیونکہ حقیقی علماء تنگ دست ہوتے ہیں اس لئے وہ نیا لباس نہیں خرید سکتے
دوسرا یہ کہ اگر میں خلیفہ سے کہتا کہ اصفہان کا امیر ترین میندار آیا ہے اور ا کے حصور میں حاضر ہونا چاہتا ہے تو کیا تمہیں اس بات کا حق تھا کہ اپنے پرانے لباس کا رونا روتے اور نادم ہوتے ؟
لیکن میں نے خلیفہ سے کہا ہے کہ تم ایک تنگ دست انسان ہو اور اسے علم ہے تم سرائے میں رہتے ہو اور کتابوں کے نسخے تیار کرکے گزر بسر کرتے ہو ۔ خلیفہ کے دربار میں کوئی بھی نہ تو تمہارے پرانے لباس پر اظہار تعجب کریگا اور نہ ہی تمہیں حقارت کی نظر سے دیکھے گا اس حوصلہ افزائی کے بعد ابن راوندی ۔ مطلب بصری کے ہمراہ خلیفہ کے محل کی جانب چل پڑا ۔
جیسا کہ ہم نے کہا ‘ خلیفہ رات کو شراب پیتا تھا ‘ اور دوپہر تک شراب میں مد ہوش رہتا تھا وہ شرابی جو پچاس یا ساٹھ سال تک لگا تار راتوں کو شراب پیتے ہیں اکثر دوپہر تک وہ شراب کے نشے میں مخمور رہتے ہیں البتہ اس کا انحصار گذشتہ رات کی مقدار شراب پر ہے اگر وہ کم پئیں گے تو کم خمار آئے گا زیادہ پینے کی صورت میں زیادہ خمار ہو گا ۔
خلیفہ نے اس رات بہت تھوڑی شراب پی تھی لہذا اس دن شراب کا کم نشہ تھا کیونکہ اگر شراب کا خمار زیادہ ہوتا تو وہ ابن راوندی کی کتاب کو ہر گز نہ کھول سکتا ۔ ابن راوندی خلیفہ کے حضور میں آیا اور سلام کے بعد با ادب کھڑا ہو گیا خلیفہ نے سامنے پڑی ہوئی کتاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس اصفہانی شخص سے پوچھا کیا یہ کتاب تم نے لکھی ہے ابن راوندی بولا ہاں اے امیر المومنین ۔
خلیفہ نے کہا ‘ اگر مجھے یہ نہ بتاتے کہ تم مرگی کے مریض ہو تو میں ابھی جلاد کو بلا کر تمہارا سر تن سے جدا کرا دیتا راوندی کا رنگ اڑ گیا اس کے زانو کانپنے لگے ‘ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر خوف کے عالم میں اس کی زبان گنگ ہو گئی ۔
خلیفہ بولا ‘ تمہاری کتاب تمہارے ہاتھوں میں دیتا ہوں تاکہ تم خود پڑھو اور ساری سنیں کہ تم نے اس کتاب میں کیا لکھا ہے ؟ تاکہ تمہارے واجب االقتل ہونے میں کسی کو شک و شبہ نہ ہو ۔ کتاب ابن راوندی کے ہاتھ میں دی گئی تاکہ اس نے جو کچھ اس صحفہ میں لکھا ہے اسے رھے ۔ ابن راوندی نے جو کچھ لکھا تھا پڑھنے لگا تو حاضر مجلس میں بعض فرط و حشت سے کانپنے لگے کیونکہ ایسے الفاظ بھی تک کسی کی زبان سے ادا نہیں ہوئے تھے ۔
اصفہانی شخص خاموش ہوا تو متوکل بولا دوبارہ پڑھو اس طرح ابن راوندی نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا جو بحث وہ پڑ ھ رہا تھا اسکا تعلق خداوند تعالی سے تھا جب وہ بحث پڑھ چکا تو خلیفہ بولا لوگو تم نے سنا یہ کہتا ہے کہ انسانی زندگی میں سب سے بڑا افسانہ خداوند تعالی کا اعتقاد ہے اور انسان اس افسانے میں مگن ہو گیا ہے انسان اسے نسل در نسل منتقل کرتا چلا ا رہا ہے اس کے بعد خلیفہ نے سوال کیا کیا تمہاری یہ کتاب کسی نے پرھی ہے ابن راوندی نے اثبات میں جواب دیا خلیفہ نے وہی بات کہی جو عباس صروم نے کہی تھیاور تعجب کرنے لگا کہ اس کتاب کو لوگوں نے پڑھا تھا لیکن ابن راوندی کو قتل نہیں کیا عبا صروم کی مانند المتوکل بھی اس بات سے آگاہ نہ تھا کہ امام جعفر صادق کی ایجاد کردہ ثقافت میں ہر طرح کی بحث کی آزادی ہے کسی کو بھی محض اس وجہ سے آزاد نہیں پہنچاتی تھے کہ وہ مخالف مذہبی بحث پیش کرتا ہے ۔
امام جعفر صادق کے ثقافتی مکتب کے پیروکار ابن راوندی کے بغداد سفر کرنے سے پہلے اسے ان باتوں کا جواب دے چکے تھے اور یہ بات بھی خلیفہ پر مخفی تھی اس کا خیال تھا کہ کسی نے بھی ابن راوندی کو جواب نہیں دیا۔
بعض کا خیال ہے کہ کتاب الفرند ( ابن راوندی کی تصنیف ) خلیفہ کے ہاتھوں میں پہنچنے سے قبل عراق اور ایران کے مرکزی علاقوں میں کسی کے ہاتھوں میں نہیں پہنچی تھی ‘ کیونکہ پرانے وقتوں میں دستور تھا کہ جو کوئی اپنی کتاب خلیفہ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا اسے اس کی تازگی کو محفوظ رکھنے کیلئے کسی دوسرے کے ہاتھوں میں نہیں دیتا تھا شاید ایسا ہی ہوا ہو اور کتاب الفرند کو خلیفہ سے قبل کسی نے نہ دیکھا ہو لیکن جو کچھ ابن راوندی نے اس کتاب میں لکھا اس میں کوئی نئی بات نہیں تھی کیونکہ ان مطالب کو وہ دوسری کتابوں میں لکھ چکا تھا اور جعفر صادق کی مذہبی ثقافت کے پیروکار اسے جواب دے چکے تھے بہر حال اس بارے میں تحقیق نہیں ہوئی کہ خلیفہ کے ہاتھوں میں پہنچنے سے پہلے عوام نے یہ کتاب پڑھی تھی یا نہیں ؟
لیکن جو نظریات ابن راوندی نے کتاب ‘ الفرند ‘ میں درج کیے تھے وہ اس کی دوسری کتابوں میں بھی پائے جاتے تھے اور اسے ان کا جواب مل چکا تھا ۔
خلیفہ نے اس کے بعد اس اصفحانی شخص سے پوچھا ( تم خدا کے وجود کے قطعی منکر ہو اور تم نے لکھا ہے کہ خدا پر ایمانی بنینوعی انسان کا سب سے بڑا افسانہ ہے جو ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچتا ہے تمہارا کائنات کی خلقت کے بارے میں کیا خیال ہے یہ کائنات کیسے وجود میں آئی ہے ؟ یہ بات کیسے ممکن ہے کہ مخلوق ‘ خالق کے بغیر ہی وجود میں آ جائے ؟
ابن راوندی خاموش ہو گیا اور خلیفہ بولا ‘ میرا جواب دو ‘ تم جو خدا کے وجود کا انکار کرتے ہو ‘ کس چیز کا جواب اثبات میں دیتے ہو ؟ اور کیا کوئی انکار کرے تو اسے اثبات نہیں کرنا چاہیے پھر بھی ابن راوندی خاموش رہا خلیفہ بو لا ‘ اگر میرے سوال کا جواب نہیں دیتے تو میں حکم دونا کہ تمہیں کوڑے لگا کر بات کرنے پر مجبور کیاجائے ۔
ابن راوندی نے کہا اے امیر المومنین میں خدا کا منکر نہیں ہوں ۔
خلیفہ بولا ‘ تم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ انسانی زندگی کا سب سے ۶را افسانہ مبدا (پروردگار) کے بارے میں ہے تو کیا یہ جملہ جو تمہاری زبان سے ادا ہوا ہے جسے سب نے سنا ہے یہ خدا کا انکار نہیں ؟
ابن راوندی نے کہا ‘ مجھے اس جملے کی اصلاح کرنا چاہیے مجھے لکنا چاہیے کہ نوع بشر کی زندگی کا سب سے برا افسانہ مبدا (باری تعالی کے متعلق تصور ہے ۔
خلیفہ نے پوچھا ‘ تمہارے اس قول کا کیا مطلب ہے ؟ ابن راوندی نے جواب دیا ‘ میرے قول کا مطلب یہ ہے کہ بنینوع انسان نے مبدا (خالق ) کے متعلق جو تصورات قائم کئے ہیں وہ افسانے کی صورت اختیار کر گئے ہیں انسانی زندگی میں یہ سب سے بڑا افسانہ ہے کیونکہ ادمی مبدا (خالق کائنات ) کو پہچان سکتا ہے اور نہ اسکے اوصاف در ک کر سکتا ہے ۔
&#اس سنے عباس صروم سے مخاطب ہو کر کہا یہ وہ شخص ہے جس کے بارے میں تمہارا کہنا ہے کہ مرگی کا مریض ہے اب مرگی کا مریض اس طرح گفتگو کر سکتا ہے ؟
پھر ابن راوندی سے مخاطب ہو کر کہا میں تمہاری اس بات کو قبول کرتا ہوں ‘ خادم کو حکم دیا کہ قلم اور ساہی لا غرضیکہ قلم اور ساہی لائی گئیاور خلیفہ نے ابن راوندی کو حکم دیا کہ اپنی کتاب کی اصلاح کرے اس شخص نے اپنی تحریر کی اس طرح اصلاح کی انسانی زندگی کا سب سے بڑا افسانہ خالق کائنات سے نسبت کا تصور ہے اور پھر یہ خلیفہ کو دکھایا ۔ خلیفہ بولا ‘ یہ تم اعتراف کرتے ہو کہ خدا پر ایمان ہے اور اسے خالق کائنات اور کائنات کا نظام چلانے والا سمجھتے ہو ۔
ابن راوندی سے کتاب لی اور اس کے دوسرے حصے پر نگا ڈالی جو نبوت کے بارے میں تھا ابن راوندی نے اپنی کتب میں نبوت سے انکار کیا تھا اور جعفری مذہب کے ثقافتی پیروکاروں نے اس حصے کا جواب بھی اسے دے دیا تھا مگر متوکل ان کے جوابات سے آگاہ نہ تھا ۔ عباسی خلیفہ نے نبوت کے متعلق اقتباس بھی مصنف کو پڑھنے کیلئے دیا اس نے اسے اتنی بلند آواز سے پڑھا کہ حاضرین مجلس نے اچھی طرح سن لیا ۔ ابن راوندی نے اپنی بحث سے جو نتیجہ نکالا تھا وہ منفی پہلو کا حامل تھا اس کا کہنا تھا کہ نبوت کا حقیقی اور صحیح معنوں میں کوئی وجود نہیں ہے چونکہ اگر خلاق کائنات خدا ہی ہے جیسا کہ لوگوں کا عقیدہ ہے تو وہ مجبور نہیں ہے کہ لوگوں کی ہدایت کیلئے ایک شخص کا انتخاب کرے اور اسے اپنا رسول بنا کر بھیجے بلکہ جس طرح درخت جانور اور انسان خود بخود ترقی کرتے ہیں اور درخت پھل دیتے ہیں اس طرح انسان بھی خود بخود ہدایت حاصل کرتے ہیں ۔
ابن راوندی نے اپنے لکھے ہوئے مواد کے اثبات کیلئے پودوں اور جانوروں کی مثالیں بھی دی ہوئی تھیں اور لکھا تھا جس طرح گندم کا پودا اور کھجور کا درخت بغیر کسی بنی کے بڑا ہوتا ہے اور پھل دیتا ہے اگر خالق کائنات چاہتا تو انسان کو بھی گندم کے پودے اور کھجور کے درخت کی مانند رشد کرتا اور بغیر کسی بنی کے پھل لاتا ۔
جب وہ سب کچھ پڑ چکا تو متوکل نے کہا ‘ تیری یہ تحریر ثابت کرتیہے کہ تو انبیاء کا منکر ہے کیونکہ تیرا قوال ہے کہ اصلی اور حقیقی معنوں میں انبیاء کا وجود نہیں ہے یعنی خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے نہیں بلکہ انہوں نے خود نبوت کا دعوی کیاہے ۔

ابن راوندی خاموش رہا
خلیفہ بولا ‘ بول ‘ ورنہ میں حکم دونگا کہ تمہیں زبردستی بولنے پر مجبور کیا جائے اس سے پہلے کہ ابن راوندی اپنی کتاب خلیفہ کی خدمت میں پیش کرتا ‘ جعفری ثقافت کے پیروکاروں کے ایک گروہ نے نبوت کے متعلق بھی اسے جواب دیدیا تھا ۔
انہوں نے لکھا تھا کہ ابن راوندی نے پودوں ‘ جانوروں اور انسان کی تربیت کو ایک جیسا فرض کیا ۔اور جب دیکھتا ہے کہ پودے اور حیوان خود بخود تربیت پاتے اور پھل لاتے ہیں تو اسے خیال آتا ہے کہ آدمی بھی خود بخود پرورش پاتا اور درجہ کمال تک پہنچتا ہے ۔
نباتات اور حیوانات کی دنیا میں بھی ایسے ہیں جو پرورش کے بغیر پھل نہیں لاتے اور ختم ہوجاتے ہیں اور انسانی دنیا میں تو پرورش واجبات ہی سے ہے بلکہ پیدائش کے دن سے لیکر عمر کے آخری دن تک انسان تربیت کا محتاج ہے ۔
انسانی زندگی ‘ پودوں اور جانوروں کے مقابلے میں اپنی مخصوص نوعیت کی حامل ہے ۔ جس کا تقاضا ہے کہ انسان کی اجتماعی تربیتکی جائے اور انبیاء اس اجتماعی تربیت کے ذمہ دار ہیں انسانی معاشروں میں انبیاء کے بغیر کوئی ایسا اجتماعی ڈسپلن ‘ جس سے تمام انسان بہرہ مند ہوں وجود میں آنا محال ہے اور اگر کوئی ڈسپلن وجود میں آ ہی جائے تو وہ استحصالی ڈسپلن ہو گا اس مین جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج ہو گا ۔ اس صورت میں انسانی معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھانے کیلئے انبیاء کا وجود نا گزیر ہے تاکہ انسان کی اجتماعی زندگی میں عدل و انصاف قائم ہو ۔
ابن راوندی نے جعفری ثقافتی مکتب کے علماء کے نظریات ( جو انہوں نے اس کے نظریہ نبوت کی رو میں پیش کئے تھے ) فراموش نہیں کیا تھا اور جب اس نے اپنے آپ کو خطرے میں گھرا ہوا پایا تو اس نے اپنی جان بچانے کیلے ان اقوال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا اے امیر المومنین میں نے جو کچھ نبوت کے متعلق اس کتاب میں درج کیا ہے ‘ وہ تمام موجودات کے متعلق ایک حکم کلی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ متوکل نے پوچھا ‘ تمہارا کیا مطلب ہے ؟
ابن راوندی نے جواب دیا ‘ میرا مطلب یہ ہے کہ خالق کائنات انسان کو بھی پودوں اور جاروں کی مانند خلق کر سکتا تھا تاکہ انہیں تربیت کیلئے انبیاء کی حاجت نہ ہوتی ۔
خلیفہ نے کہا ‘ اے شخص ‘ اگر تیرے کہنے سے مراد یہ تھا تو تم نے نبوت کا انکار کیوں کیا ہے ؟ تم اپنی کتاب میں لکھ سکتے تھے کہ پودوں اور جانوروں کو نبی کی ضرورت نہیں ۔
کیونکہ ان دو طبقات کی زندگی خاص اصول و ضوابط کے تحت رواں دواں ہے جبکہ انسان انبیاء کے بغیر کبھی بھی ہدایت نہیں پا سکتا اور کیا تمہیں اس بات کا اعتراف ہے کہ اپنی کتاب میں تم نے نبوت کا انکار کیا ہے ؟
ابن راوندی نے کہا ‘ میں نے ایک کلی حکم صادر کیا ہے اور نبوت کا انکار کیا ہے ؟
خلیفہ بولا ‘ تم نے نبوت کا انکار کیا ہے اس میں شک و شبہ کوئی گنجائش نہیں کہ دیگر تمام حاضر نے سنا ہے کہ تمہارے کہنے سے مراد نبوت کا انکار ہے تمہاری سزا قتل ہے ‘ اگر تم اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہو تو اپنی عبارت سے توبہ کرو تو تمہاری جان بخشی ہو سکتی ہے ورنہ میں ابھی حکم دیتا ہوں کہ تمہارا سر تن سے جدا کر دیا جائے۔
ابن راوندی اپنی جان بچانے کی خاطر توبہ کرنے پر مجبور ہو گیا اس نے اعتراف کیا کہ نبوت پر اس کا ایمان ہے خلیفہ بولا ‘ اسے دوبارہ قلم اور روشنائی دی جائے تاکہ یہ اپنی کتاب کی اصلاح کرے ‘ ابن رواندی نے لکھا ‘ انسان کو اپنی خاص وضع قطع کی بنا پر پودوں اور جانوروں کے برعکس پیغمبر کی احتیاج ہے اور پیغمبر کے بغیر یہ ہدایت اور سیدھی راہ نہیں پا کستا ۔
جعفری ثقافتی مکتب کے علمائنے توحید اور نبوت کے متعلق ابن راوندی کے نظریات رد کئے تھے لیکن وہ اسے اپنی تحریر کی اصلاح پر مجبور نہیں کر سکے تھے کیونکہ ان کا کام زبردستی قائل کرنا نہ تھا ۔
لیکن متوکل چونکہ طاقتور تھا اس لئے اس نے ابن راوندی کو توحید و نوبت کے بارے میں اپنی عبارت کی اصلاح پر مجبور کیا اس طرح اس کی کتاب ایسی شکل میں وجود میں آئی کہ جو اسے پڑھتا ‘ یہ گمان کرتا تھا کہ مصنف توحید و نبوت کا معتقد ہے ۔
ابن راوندی نے جس طرح اپنی کتاب میں توحید و نبوت کا انکار کیا تھا اسی طرح قیامت کابھی قائل نہ تھا اور اسے ایک افسانہ خیال کرتا تھا خلیفہ بولا ‘ جو کوئی توحید و نبوت پر ایمان لائے اسے آخرت پر بھی ایمان لانا چاہیے کیونکہ خداوند تعالی اور پیغمبروں کا فرمان ہے کہ قیامت ہے ‘ پس تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ اگر تم توحید و نبوت پر ایمان لائیہو تو قیامت کو بھی قبول کرو ۔ بصورت دیگر تمہارا سر قلم کر دیا جائیگا ۔
ابن راوندی خلیفہ کے فرمان کے مطابق اپنی کتاب کی اصلاح کر کر چکا تو اس نے یہ کتاب دوبارہ خلیفہ کی خدمت میں پیش کی اب متوکل نے کتاب کے دوسرے حصے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ‘ تم نے بنی نوعی انسان کے فطری تباہ کار ہونے کے بارے میں جوکچھ کہا ہے اس میں صحت نہیں ہے ابن راوندی نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ بنی نوع بشر کا ہر فرد اپنی ذات میں تباہ کار یا تخریب کار ہے کیونکہ کوئی بھی ایسا انسان نہیں ملتا جو اپنے دل میں کم از کم ایک ا نسان کی موت کا خواہشمند نہ ہو ۔ اور بعض انسان تو ہزاروں افراد کی موت کے خواہشمند ہوتے ہیں ۔
ابن راوندی نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ جس کا کوئی دشمن ہو تو وہ اس دشمن کی موت چاہتا ہے اور جو کوئی کسی دوسرے کے ساتھ حسد کرتا ہے اسی طرح وہ بھی اپنے محسود کی موت کا آرزو مند ہوتا ہے اور ہر ملازم شخص باطن میں دوسرے ملازم کی موت کا آرزو مند ہوتا ہے تاکہ اس کے رقیب کی موت سے اس کیلئے راستہ صاف ہو جائے اور ہر جوان بیٹا اپنے باپ کی موت کا خواہشمند ہوتا ہے تاکہ اس کی میراث پر قبضہ جمائے اور ہر نائب اپنے سینئر کی موت چاہتا ہے تاکہ اس کی موت کے بعد وہ اس کی جگہ لے اور ہر مقروض قرض خواہ کی موت کا طالب ہوتا ہے تاکہ وہ قرض دینے سے بچ جائے اس تباہ کارانہ فطرت کے ساتھ ساتھ انسانوں میں شدید خود پرستی بھی پائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جو کوئی دوسرے کی موت کی خبر سنتا ہے باطن میں خوش ہوتا ہے کہ دوسرا مر گیا اور وہ زندہ ہے اور کوئی بھی ایسا انسان نہیں جو مرنے کیلئے تیار ہو اس کے باوجود کح وہ معاشرے میں دوستوں اور عزیزوں کو یکے بعد دیگرے مرتے دیکھتا ہے اپنے اپ کو موت سے محفوظ خیال کرتا ہے وہ گمان کرتا ہے کہ وہ مرنے سے مستثنی ہے اور عزرائیل ہر گز اس کے گھر میں داخل نہیں ہو گا ۔
متوکل نے ابن راوندی سے کہا تو اس کتاب میں تمام انسانوں کو بلا امتیاز مساوی طور پر فطرتا تباہی پھیلانے والے قرار دیا ہے میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ بعض لوگ اندرونی طور پر دوسروں کی موت کے خواہاں ہوتے ہیں لیکن سب لوگ ایک جیسے نہیں ہیں ‘ ماں اور باپ کا جی نہیں چاہتا کہ ان کا بیٹا مرے اور اگر اتفاقا ایسا ہو جائے تو وہ ساری عمر بیٹے کی موت سے غمگین رہتے ہیں اور تم کس طرح والدین کو دوسرے لوگوں کی مانند فطرت تباہ کار قرار دے سکتے ہو ابن راوندی نے کہا وہی مان باپ جو اپنے بیٹے کی موت کا صدمہ برداشت نہیں کر سکتے اگر ان کا بیٹا مر جائے تو ساری عمر اس کے غم میں ماتم کرتے ہیں لیکن کسی اور شخص کی موت کے خواہشمند ہوتے ہیں اور میں نہایت جرات سے کہتا ہوں کہ خلیفہ کے حضور بیٹھے ہوئے تمام حاضرین دل کی گہرائیوں میں کم از کم ایک شخص کی موت کے خواہشمند ہیں اور ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو اس بات سے مبرا ہو ۔
لیکن محال ہے کہ کوئی ایسا شخص پایا جائے جو اپنی زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ دوسرے کی موت کا خواہاں نہ ہو ا ہو خلیفہ خاموش ہو گیا اور پھر ابن راوندی کے کتاب کے دوسرے حصے کی طرف متوجہ ہو ا جو دھر کے متعلق تھا ‘ اور کہا کہ تم نے اسی کتاب میں لکھا ہے کہ دہر کا وجود نہیں اور ہم ہیں کہ دھر کو اپنے لئے خود وجود میں لاتے ہیں خلیفہ عباسی اور اصفہانی مصنف کی گفتگو کو درک کرنے کے بعد یہاں پر اس بات کی وضاحت کر دینی ضروری ہے کہ قدیم مشرقی مصنفین کی اصطلاح میں سرشت یا فطرت کو دھر کا نام دیا جاتا تھا۔
جیسا آج ہم کہتے کہ بنی انسان سرشت میں زندگی گزار رہاہے اور قدیم مشرق والے کہتے تھے کہ انسان دھر میں زندگی گزار رہا ہے ۔
آج ہم کہتے ہیں کہ فطرت ہمارا احاطہ کئے ہوئے ہے جبکہ قدیم مشرق والے کہتے تھے کہ دھر نوع انسانی کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔
بعض لوگوں کا تصور غلط ہے کہ دھر امان یا مکان کے معنوں میں مستعمل ہے اور نہ ہی یہ جہاں کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جبکہ جہان سرشت یا فطرت ایک ہی چیز کا نام ہے متوکل کہنے لگا ‘ تم اپنی کتاب میں دھر کی مانند واضح اور آشکار ا چیزوں کے منکر ہوئے ہو ۔ تمہارا کہنا ہے کہ دھر کا اپنا کوئی وجود نہیں اور یہ ہم ہیں کہ دھر کو وجود میں لاتے ہیں ۔
جیسا کہ تم نے ایک مرتبہ خود بھی سن لیا مجھے کہا گیا تھا کہ تو مرگی کا مریض ہے لیکن جب میں نے تم سے بات چیت کی تو پتہ چلا کہ تم تو بہت عقلمند انسان ہو لیکن اب جبکہ میں تمہاری کتاب کے دھر کے متعلق باب کو دیکھتا ہوں تو مجھے گمان ہوتا ہے کہ کہیں تمہارے متعلق مرگی کا مریض ہونے کی افواہ درست تو نہیں ؟
میرا خیال ہے کہ یہ افواہ بے بنیاد نہیں ہے کیونکہ تم نے لکھا ہے کہ دھر کا وجود نہیں ہے کیونکہ ایک عاقل انسان جو عالم ہونے کا دعوی بھی کرے دھر جیسی چیز جو خداوند تعالی کے بعد سب سے بڑی چیز ہے کا انکار نہیں کر سکتا ابن راوندی بولا اے امیر المومنین دھر کا وجود ہمارے ذہنی تصور کی اختراع ہے نہ حقیقی صورت میں پایا جاتا ہے خلیفہ نے کہا اپنی بات کی وضاحت کرو وہ اصفہانی شخص بولا میرا مطلب یہ ہے کہ ہامرے پاس دھر کو جس صورت میں درک کرتے ہیں اس کی اصلی صورت نہیں جس طرح ایک مادر زاد نابینا مختلف رنگوں میں امتیاز نہیں کر سکتا اس کے سامنے رنگوں کی کتنی ہی تعریف کیوں نہ کی جائے وہ زرد اور بزر رنگ کی شناخت نہیں کر سکے گا اگر ہم آ دم کے بیٹے اس دنیا میں مادر زاد نابینا اتے اور کوئی چیز دیکھ یا سن نہ سکتے تو دھر کے متعلق ہمارا تصور ہمارے موجودہ تصور سے قطعی مختلف ہوتا میں اپنی کتاب میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ دھر اپنی ذات میں اس صورت میں نہیں جس میں اسے ہم دیکھتے یا اس کی آوازیں ہوا یا دریا کی موجوں یا آسمانی بجلی کی مانند سنتے ہیں یہ ہماری آں کھیں اور کان ہیں جو دھر کو اس موجودہ صورت میں دیکھتے اور سنتے ہیں ۔
میں نے لکھا ہے اور میرا عقیدہ بھی ہے کہ دھر اس صورت میں نہیں ہے جس میں ہم اس کا تصورت کرتے ہیں یہ صرف ہماری اختراع ہے ہماری آنکھ کا ڈھیلا جو محدب ہے اگر مقعد ہوتا تو دھر کو دوسری صورت میں دیکھتا خلیفہ بولا اگر دھر کو دوسری شکل و صورت میں بھی دیکھتے تو بھی اس کے وجود کا انکار نہیں کر سکتے تھے ‘ پس کسی اور شکل و صورت میں بھی اس کا مشاہدہ ناگزیر تھا اگر ہم مادر زاد اندھے بھی ہوتے تو بھی دھر کا احساس کرتے اور ہمار ا یہ احساس اس بات کا ثبوت ہے کہ دھر کا وجود ہے جبکہ تم نے اپنی کتاب میں اس کے وجود کا انکار کیا ہے ابن راوندی نے کہا اے امیر المومنین اگر کوئی شخص میرے دھر کے بارے میں اقتباس کو غور سے پڑھے تو معلوم ہو گا کہ میں نے دھر کا انکار نہیں کیا بلکہ میں نے کہا ہے کہ بنی نوع انسان میں سے ہر ایک نے دھر کا اپنا اپنا تصور رکھا ہے متوکل نے اظہار خیال کای تو نے ابھی مجھے کہا تھا کہ دھر کا کوئی مستقل اور ذاتی وجود نہیں ہے اور اب تم خود اس بات کا انکار کر رہے ہو ۔
ابن راوندی نے اظہار خیال کیا ‘ میں یہ کہتا ہوں کہ دھر کوئی شے نہیں کہ تمام بنی نوع انسان اسے ایک ہی صورت میں دیکھیں اور اس سے ایک ہی آواز سنیں ۔
متوکل نے کہا ‘ اگر اس صفت کے ساتھ ہر شخص دنیا کے آغاز سے اج تک اور آج سے دنیا کے خاتمے تک دھر کو ایک ہی صورت میں دیکھے البتہ جو آواز وہ سنے وہ دوسری آواز سے مختلف ہو تو پھر بھی کوئی چیز موجود ہے وگرنہ لوگ اسے مختلف شکلوں میں نہ دیکھتے ۔
آخر کار خلیفہ نے اس اصفہانی شخص سے اپنی تحری کی اسطرح اصلاح کروائی کہ دھر مستقلا اور فی الذاتہ موجود ہے لیکن اس بات کا امکان ہے کہ ہر شخص اسے منفرد شکل میں دیکھے اس کے بعد خلیفہ نے راوندی کی کتاب کے ایک دوسرے حصے کے بارے میں بحث کی اور کہا مجھے معلوم ہے کہ تو نے موت کے راوندی کی کتاب کے ایک دوسرے حصے کے بارے میں بحث کی اور کہا مجھے معلوم ہے کہ تو نے موت کے متعلق فیثا غورث کے قول کا تکرار کیا ہے اور کہاہے کہ جب میں ہوں تو موت نہیں اور جب موت آئے میں نہیں لہذا میرا موت سے کوئی تعلق نہیں کہ میں اس کا سبب تلاش کروں اور تحقیق کروں کہ موت کیا ہے ؟
ابن راوندی نے محسوس کیا کہ خلیفہ ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو گیا جو اس کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ۔ ممکن ہے وہ اسے الٹا لٹکا دے ۔ خلیفہ نے اظہار خیال کہ یہ نظریہ جو تم نے بیان کیا ہے ایک مشرک کا نظریہ ہے اور تمہیں کسی مشرک کے نظریہ کو اپنے نظریہ کی بنیاد نہیں قرار دینا چاہیے مجھے معلوم ہے کہ کچھ عرصے سے یونانیوں کے نظریات ہماری کتابوں میں رقم ہو رہے ہیں لیکن وہ نظریات اقوال کی نقل ہیں انہیں کسی نظریہ یا عقیدہ کی بنیاد قرار نہیں دینا چاہیے البتہ فقط اس صورت میں کہ وہ ہمارے مذہب قونین سے مطابقت رکھتے ہوں ۔
ابن راوندی اسی طرح خاموش رہا ‘ خلیفہ بولا ‘ تم ایک مسلمان ہو تم نے تسلیم کیاہے کہ توحید و نبوت اور معاد کے قائل ہو ۔ تم کیسے کہتے ہو کہ تمہارا موت سے کوئی نہیں اور اس کے بارے میں تحقیق نہیں کرنا چاہیے ؟
شاید تو نہیں جانتا کہ ایک مسلمان اگر موت سے بے تعلق ہو اور اسکے بارے میں تحقیق سے گریز کرے ‘ تو اس کا ایمان سالم نہیں رہتا کیونکہ معاد جو اصول دین میں سے ہے اس کا تعلق موت کے بعد زندگی سے ہے ۔
ابن راوندی نے کہا اے امیر المومنین میں نے اپنی کتاب میں مذہب کی رو سے موت کے متعلق اظہار خیال نہیں کیابلکہ جو کچھ میں نے عرض کیا ہے ایک حکیمانہ نظریہ ہے ۔
خلیفہ بولا‘ فیثا غورث چونکہ مشرک تھا اس لئے اس پر کوئی قد غن نہیں کہ اس نے موت سے لا تعلقی کا اظہار کیوں کیا ؟ لیکن تمہیں ہر گز نہیں لکھنا چاہیے کہ تمہیں موت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ تمہیں تو اس بارے میں تحقیق کرنا چاہیے ابن راوندی نے جواب دیا موت ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں تحقیق نہیں ہو سکتی متوکل کہنے لگا ‘ آخر اسکی وجہ کیا ہے ؟ ابن راوندی نے سوال کیا اے امیر المومنین ایسا کونسا طریقہ ہے جس کے ذریعہ موت کے بارے میں تحقیق ممکن ہے ؟
جس دن سے انسان خلق ہوا ہے اس دن سے لیکر آج تک اس نے کوشش کی ہے کہ موت کا راز جانے لیکن ابھی تک اسے کوئی ایسا ذریعہ ہاتھ نہیں لگا جو موت کا راز جاننے کا سبب بنے متوکل نے کہا موت کا راز اس طرح معلوم کیا جا سکتا ہے کہ وہ کون سا توازن ہے جس کی وجہ سے زندگی رواں دواں رہتی ہے اور کون سا عدم توازن ہے جو موت کاباعث بنتا ہے ابن راوندی خلیفہ کی باتوں سے حیران رہ گیا کیونکہ جوکچھ متوکل نے کہا وہ صرف ایک عالم ہی کہہ سکتا تھا اور ابن راوندی کو خلیفہ کی زبان سے ایسی گفتگو کی توقع نہیں تھی ۔ اس کے بعد ابن راوندی نے کہا کہ اے امیر المومنین اس راستے کو ڈھونڈنا ڈاکٹروں کا کام ہے اور انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جو توازن زندگیکو جاری رکھنے کا ضامن ہے وہ اس قسم کا توازن ہے اور وہ عدم توازن جو موت کا باعث بنتا ہے وہ کون سا عدم توازن ہے متوکل نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہر عالم اس راستے میں تحقیق کر سکتا ہے اورنہ صرف ڈاکٹروں پر موت کا راز افشاء کرنے کا انحصار ہے بلکہ علمائے دین بھی موت کا راز معلوم کر سکتے ہیں ابن راوندی نے پوچھا کس ذریعے سے ؟
خلیفہ نے جواب دیا قرآنی آیات میں گہرے غور و فکر کے ذریعے سے ابن راوندی نے کہا ۔ اے امیر المومنین قرآنی آیات میں صرف چند مواقع پر موت کے بارے میں ذکر ہوا ہے لیکن وہ بھی اس صورت میں نہیں کہ محض آیات قرآن آیات کی تلاوت سے موت کا راز معلوم کیا جا سکتا ہے بلکہ میرے کہنے کا مقصد یہہے کہ انسانی آیات قرآنی کی گہرائی میں جا کر موت کا راز پا سکتا ہے متوکل کے قول سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے کے مسلمان اس بات کے معتقد تھے ۔
کہ آیات قرآنی ظاہری معنوں کے علاوہ باطنی معنوں کی بھی حامل ہیں ۔ اور ہر کوئی ان معنیتک رسائی حاصل کر سکتا ہے ان معنی کو جاننے کیلئے قرانی علم کا سمجھنا ضروری ہے ۔ ایک روایت کے مطابق یہ نظریہ دوسری صدی ہجری کے شروع میں وجود میں آیا اور تیسری و چوتھی اور اس کے بعد آنے والی صدیوں کے دوران اسلامی ممالک میں فروغ پانے کے ساتھ ساتھ مضبوط تر ہوتا چلا گیا اور مسلمانوں کے روحانی علماء نے یقین کر لیا کہ قرآن ظاہری معنوں کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ باطنی معنی بھی رکھتا ہے ۔
قرانی تفاسیر کا سر چشمہ بھی یہی نظریہ ہے لیکن مفسرین قرآن شازو نادر ہی ان آیات کے باطنی معنوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں بعض کا خیال تھاکہ اس بات پر ایمان لانا کہ آیات قرآنی باطنی معنی بھی ہوں گے اس عقیدے کیبنیاد پر یہ نظریہ پایا جاتا ہے کہ جو مسلمان قران آیات کے باطنی معنی جانتا ہو وہ علم و روحانی طاقت کے لحاظ سے پیغمبر اسلام کے برابر ہو گا البتہ چونکہ پیغمبر کے بعد کوئی نبی نہیں ائیگا لہذا وہ نبی نہیں ہو سکتا اور شیعہ معتقد ہیں کہ جو کوئی قرآنی آیات کے باطنی معنی جانتا ہو وہ علم و روحانی طاقت کے لحاظ سے آئمہ کی مانند ہو گا ۔
ذیم قراطیس کے زمانے میں ایٹم ایک نا قابل تقسیم ذرہ تھا لیکن آج وہ تقسیم در تقسیم ہو چکا ہے امام جعفر صادق سے پوچھے جانے والے سوالوں میں سے ایک سوال یہ تھا کہ دانائے مطلق کون ہے اور کس وقت آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ سب کچھ سیکھ چکا ہے ؟
جعفر صادق نے فرمایا اس سول کے دو حصے ہیں ایک یہ کہ کون دانائے مطلق ہے " اس کا جواب یہ ہے کہ خداوند تعالی کی ذات کے علاوہ کوئی بھی دانائے مطلق نہیں کسی انسان کیلئیمحال ہے کہ وہ دانائے مطلق ہو ۔ کیونکہ علم اس قدر وسیع ہے کہ کوئی بھی انسان تمام علوم کو نہیں سیکھ سکتا اگرچہ اس کی عمر ہزاروں سال کیوں نہ ہو اور اگر وہ اس تمام عمر کے دوران تحصیل علم میں مشغو ل رہے تو بھی انسان تمام علوم کا عالم نہیں بن سکتا شاید ہزار ہا سال زندگی کو تحصیل علم کیلئے وقف کرنے کے بعد اس دنیا کے علوم سے آگاہی کر لے لیکن اس دنیا کے علاوہ اور بھی جہان ہیں جہاں اس دنیا کے علوم بے وقعت ہیں اگر کوئی شخص اس دنیا کے علوم سیکھنے کے بعد دوسرے جہانوں میں وارد ہو تو وہ جاہل ہے اسے اس دنیا کے علوم سیکھنے کیلئے شروع سے پڑھنا ہو گا ۔
یہی وجہ ہے کہ خداوند تعالی کی ذات کے علاوہ کوئی بھی دانائے مطلق نہیں کیونکہ انسان تمام حقیقتوں سے آگاہی حاصل نہیں کر سکتا ۔ امام جعفر صادق نے سوال کے دوسرے حصے کے جواب میں فرمایا۔ آ نے یہ پوچھا ہے کہ انسان کس وقت علم سے غنیہو جاتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے پہلے سوال کے جواب میں کہا کہ اگر انسان کی عمر ہزاروں سال ہو اور وہ مسلسل تحصیل علم میں مشغول رہے تو بھی وہ مام علوم پر عبور نہیں حاصل کر سکتا پس اسی بنا پر کوئی شخص یہ احساس نہیں کر سکتا کہ وہ علم سے غنی ہے ہاں البتہ جا ہل یہ احساس کرتے ہیں کہ وہ علم سے غنی ہیں اور اپنے آپ کو علم سے بے نیاز خیال کرتے ہیں جعفر صادق سوچھا گیا کہ دوسری دنیاؤں کے علم سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا یہ جہان جس میں ہم زندگی بسر کرتے ہیں کے علاوہ اور جہان بھی ہیں جن میں سے اکثر ان جہان سے بڑے ہیں اور ان جہانوں میں ایسے علوم ہیں جو اس جہاں کے علوم سے شاید مختلف ہیں جعفر صادق سے پوچھا گیا کہ دوسرے جہاں وں کی تعداد کیا ہے آپ نے جواب دیا خداوند تعالی کے علاوہ کوئی بھی دوسرے جہانوں کی تعداد سے مطلع نہیں ہے آپ سے پوچھا گی کہ دوسرے جہانوں کے علوم اور اس جہانوں کے لعوم میں کیا فرق ہے ؟ کیا وہاں کا علم سیکھا نہیں جا سکتا ؟ اور اگر سیکھا جا سکتا ہے تو کیسے مناسب ہے کہ وہ علوم اس دنیا کے علوم سے مختلف شمارکئے جائیں ؟ جعفر صادق نے فرمایا دوسرے جہانوں میں دو قسم کے علوم ہیں جن میں سے ایک قسم اس دنیاکے علوم کے مشابہ ہے اور اگر کوئی اس جہان سے ان جہانوں میں جائے تو ان علوم کو سیکھ سکتا ہے لیکن شاید یعنی دوسرے جہانوں میں ایسے لعوم پائے جائیں کہ اس دنیا کے لوگ انہیں درک کرنے پر قادر نہ ہوں کیونکہ ان علوم کو اس دنیا کے لوگوں کی عقل نہیں سمجھ سکتی ۔ جعفر صادق کا یہ قول بعد میں آنے والی نسلوں کے علماء کیلئے ایک معمہ بنا رہا بعض نے اسے قابل قبول نہیں سمجھا اور کہا کہ امام جعفر صادق کا یہ کہنا بلاوجہ ہے ان لوگوں میں سے ایک ابن راوندی اصفہانی بھی ہے جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے اس سنے کہا انسانی عقل ہر اس چیز کو درک کر سکتی ہے جسے علم کہتے ہیں چاہے اس دنیا کے علوم ہوں یا دوسرے جہانوں کے علوم ہوں لیکن امام جعفر صادق کے شاگردوں نے آپ کے اس قول کو قبول کیا او اس بات کے قائل ہو گئے کہ بعض دوسرے جہانوں میں ایسے علوم ہیں جن کی تحصیل انسانی بس کا روگ نہیں کیونکہ انسانی عقل ان علوم کو درک نہیں کر سکتی لیکن اس صدی میں آئن سٹائن کے نظریہ ‘ نسبتیت نے فزکس میں ایک جدید اور بے مثال باب کا اضافہ کیا اور اسکے بعد یا ضد ماہ کی تھیوری محض تھیوری کی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے علم کے مراحل میں داخل ہوئی اور سائنس دان اس حقیقت سے آشنا ہو گئے کہ ضد مادہ موجود ہے جعفر صادق کا یہ قول ہے کہ بعض دوسرے جہانوں میں شاید ایسے علوم پائے جاتے ہیں جن کو سیکھنا انسانی دسترس سے باہر ہے سمجھ میں آتا ہے کیونکہ ضد مادہ کی دنیا میں ہمارے قوانین فزکس کے علاوہ دوسے قوانین فزکس لاگو ہوتے ہیں اور اس سے بھی بڑ کر یہ کہ منطق اور استدلال کے وہ قوانین جنہیں وضع کرنے پر ہماری عقل قادری ہے دوسرے جہان میں یہ قوانین قابل اجراء نہیں ہیں ضد مادہ ایک ایسی دنیا ہے جس میں الیکٹران پر مثبت اور پروٹان پر منفی چارج ہے جبکہ ہماری دنیا میں ایٹم کے الیکٹران پر منفی اور پروٹان پر مثبت چارج ہے ایک ایسی دنیا جہاں الیکٹرانوں پر مثبت اور پروٹانوں میں منفی چار ج ہو نہ معلوم وہاں کون سے طبیعاتی قوانین کی حکم فرمائی ہو گی ہماری منطق اور استدلال میں کل جزو پر برتر ہے لیکن ممکن ہے کہ اس دنیا میں جزو کو کول پر برتری حاصل ہو اور ہماری سوچ اس موضوع کو سمجھنے اور قبول کرنے سے قاضر ہے ہماری دنیا میں جب ہم کسی بھاری جسم کو پانی میں ڈالتے ہیں تو ارشمیدس کے قانون کے مطابق وہ پانی میں ہلکا ہو جاتا ہے لیکن اس دنیا میں ممکن ہے کوئی جسم اگر پانی یا کسی مائع میں ڈبویا جائے تو بھاری ہو جائے اس دنیا میں پاسکل کے قانون کی رو سے اگر کسی برتن میں پڑے ہوئے مائعکے ایک نقطے پر دباؤ ڈالا جائے تو یہ دباؤ مائع کے تمام نقاط پر بڑے گا اسی قانون کی مدد سے آمد ر رفت کے ذرائع اور خاص طور پر بھاری ذرائع کو روکنے کیلئے بریکوں میں تیل استعمال ہوتا ہے کیونکہ جو بھی ڈرایور اپنا پاؤں بریک کے پیڈل پر رکھتا ہے تو وہ بریک آئل پر تھوڑا دباؤ ڈالتا ہے اس کا یہی دباؤ سارے بریک آئل پر پڑتا ہے پھر یہ دباؤ ہزار گنا زیادہ گاڑی کے پہیوں پر پرٹا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک لمحے میں رک جاتی ہے ۔
لیکن ممکن ہے فزکس کا یہ قانون صند مادہ دنیا میں موثر نہ ہو اور جو دباؤ مائع کے ایک نقطے پر ڈالا جائے تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ اس جہان کے اجنبی طبعیاتی قوانین سے بتدریج سمجھوتہ کر لے جس طرح چاند پر جانے والے خلا بازوں کویہاں بے وزن زندگی گزارنے کی تربیت دی جاتی ہے تاکہ جب وہ چاند پر پہنچیں تو بے وزن رہنا ان کی عادت بن چکی ہو ۔ لیکن ضد مادہ دنیا میں جو چیز انسان کے لیے نا قابل قبول ہے وہ منطق اور استدالال کے قوانین کی مخالفت ہے ۔
اگر انسان دوسری دنیا میں جز کی کل پر برتری دیکھے اور مشاہدہ کرے کہ اس دنیا کے لوگ اعداد کی ضرب و تقسیم و تفریق و جعم کے قوانین کا لحاظ نہیں کرتے اور اگر محسوس کرے کہ اس دنیا میں پانی گرم کرنے سے جمتا ہے ‘ سردی ‘ پانی کو بخارات میں تبدیل کرتی ہے جبکہ وہاں خلا بھی نہیں تو وہ انسان ان نئی باتوں کو سمجھنے سے قاصر ہو گا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں جعفر صادق کا اس بات پر مبنی نظریہ کہ بعض ایسے جہان ہیں جن کیعلوم کا حصول انسان کے بس کی بات نہیں قابل قبول دکھائی دیتا ہے ۔
جعفر صادق کے قوال نے یونان میں علم کے متعلق کی گئی قدیم فلسفیانہ بحث کو زندہ کر دیا وہ بحث یہ تھی کہ کیا علم فی نفسہ (یا بذاتہ ) وجود رکھتاہے یا ہم جو کچھ اخذ کرتے ہیں وہی ہے یعنی ایک دوسرے کی پیروی کا نام ہے یونان کے بعض حکیموں کا کہنا ہے کہ اکیلے علم کا وجود نہیں اور علم ایک ایسی چیز ہے جسے ہم اشیاء اور احوال سے درک کرتے اور اس کے قواعد معلوم کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ مادر زاد نابینا رنگوں کے بارے میں کچھ نہیں جان سکتا اور مادر زاد بہرہ علم موسیقی کو درک نہیں کر سکتا ان کا کہنا ہے کہ صرف ایک یا دو حواس ظاہری تمام علوم کے حصول میں حائل نہیں ہو سکتے ۔ بلکہ باطنی حواس میں کمی علوم کے ادراک میں رکاوٹ بنتی ہے اور ایک دیوانہ شخص کسی قسم کا علم حاصل نہیں کر سکتای اگرچہ اس کے ظاہری حواس میں کوئی خرابی نہ ہو ۔ اس گروہ کی مخالفت میں کچھ یونانی حکما نے کہا کہ اکیلا علم بھی موجود ہے چاہے انسان اسے درک کرے یا نہ انہوں نے کہا وہ علم جو دنیا میں چار موسم وجود میں لاتا ہے چاہے انسان ان چار موسموں کو درک کرے یا نہ اور ایسا علم جو سورج چاند کو زمین کے ارد گرد گھماتا ہے مووجد ہے خواہ آدمی آں کھیں رکھتے ہوں یعنی سورج اور چاند کو دیکھ سکیں یا مدر زاد اندھیہوں اور سورج اور چاند کا مشاہدہ نہ کر سکیں ۔ زیم قراطیس جس کا کہنا تھا کہ دنیا ایٹم سیبنی ہے اس کا عقیدہ تھا کہ علم کی دو قسمیں ہیں ایک وہ علوم جنہیں سیکھا جا سکتا ہے اور دوسرے ایسے علوم جن کے قواعد اور تفصیلات کو نہیں سمجھا جا سکتا ۔ ان مجہول علوم میں ایک ایٹم کا علم ہے اور دوسرا خداؤں کے بارے میں ہے ۔ زیم قراطیس کے ایک صدی بعد اس پر تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ تیرا کہنا کہ ایٹموں کا علم مجہول علم ہے اور تو کہتا ہے کہ آدمی اس کی تفصیلات کو نہیں جان سکتا۔ پھر تم کیسے کہتے ہو کہ دنیا ایٹموں سے بنی ہے یہ تو اسے کہنا چاہیے جو ایٹموں کے علم کے قواعد اور تفصیلات سے آگاہ ہو خود زیم قراطیس تو نہ تھا کہ جواب دیتالیکن اسکے پیروکاروں نے کہا کہ اسکی عقل نے سمجھ لیا تھا کہ دنیا ایٹموں سے بنی ہے لیکن زیم قراطیس کے حواص ایٹموں کو نہیں دیکھ سکے اور اگر ان کی آواز ہے تو اسے نہیں سن سکے یہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں آدمی اپنی عقل سے ہی سمجھ سکتا ہے نہ کہ حواس خمسہ کی مدد سے ۔
اپنے استاد کے مخالفوں کو خاموش کرنے کیلئے زیم قراطیس کیمریدوں کے پاس ایک موثر ذریعہ بھی تھی انہوں نے کہا کہ خداؤں کو نہ تو ظاہری حواس کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے اور نہ باطنی حواس کے ذریعے ان کا وجود د معلوم کیا جا سکتا ہے جس طرح ہم باطنی حواس کے ذریعے اپنی بیماری کا پتہ لگاتے ہیں جبکہ ہم اسے دیکھتے ہیں اور نہ ہی اس کی آواز سنتے ہیں ۔ زیم قراطیس بھی اپنی عقل کے ذریعے اس تک پہنچا کہ دنیا ایٹموں سے وجود میں آئی ہے اگر وہ ایٹموں کے علم کے قواعد اور تفصیلات کو نہیں سمجھ سکا تو اس پر تنقید نہیں کی جانی چاہیے ہمارے کہنے سے مراد یہ ہیکہ یونانی حکما میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے علم کی دو قسمیں بتائیں ایک وہ علوم جنہیں انسان کی عقل درک کر سکتی ہے اور دوسرے وہ جنہیں درک کرنا انسان کی دسترس سے باہر ہے اس ساری بحث سییہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ پہلے جعفر صادق نے فرمایا کہ علم لا محدود ہے ۔ اور دوسرا ان کا عقیدہ تھا کہ وہ علوم جو دوسرے جہانوں میں پائے جاتے ہیں انہیں اس عقل کے ذریعے جس سے وہ اس دنیا کے علوم سے آگاہی حاصل کرتا ہے ۔
ان جہانوں کے علوم کا ادارک نہیں کر سکتا اور اج جب کہ آين سٹائن کے نظریہ نسبت اور ضد مادہ کے نظریئے جس کے بارے میں ہم نے کہا کہ تھیوری سے گزرنے کے بعد عملی مرحلہ میں داخل ہو گیا ان دونوں نظریات کے ذریعے پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ ساڑھے بارہ سو سال پہلے جعفر صادق نے کس قدر صحیح نظریہ پیش کیا تھا ۔ عباسی دور کے ایک مشہور مورخ ابن ابی الحدیدہ جس نے جعفر صادق کے بارے میں بحت کچھ رقم کیا اور وہ عباسیوں کی خلافت کے خاتمی کے ایک سال قبل ہلاکو خان کے ہاتھوں ۶۵۵ ہجری قمری میں ستر سال یا اونہتر سال کی عمر میں اس دنیا سے کوچ کر گیا ۔ اس کا نام عزالدین عبدالحمید بن محمد تھا ۔ اس مورخ کا کہنا ہے جعفرصادق کی مت کے بعد ایک عرصے تک یعنی تقریبا ڈیڑھ صدی یا دو صدی بعد تک ربستان بین النہرین ‘ عراق ‘ عجم ‘ خراسان اور فارس میں جتنے استاد بھی پڑھاتے تھے امام جعفر صادق کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے تھے کہ جعفر صادق سے اس طرح حکایت کرتے ہیں پھر یہی مورخ کہتا ہے کہ اہل سنت و الجماعت کے فرقوں کے استاد بھی پڑھانے کے دوران جعفر صادق کا قول نقل کرتے اور کہتے تھے کہ ان سے ان اس طرح مروی ہے ایک دن ابن صلقمی نے ابن الحدید سے پوچھا کہ گذشتہ مسلمانوں میں سب سے قابل علم کون تھا اس نے جواب دیا جعفر صادق چونکہ ج۳ صادق کو سب سے بڑا مسلمان عالم سمجھا جاتا ہے اس لیے محقق کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی معلومات سے آگہی حاصل کرے ۔ شیعہ مورخین کی کتابوں میں جعفر صادق کے علوم کی تعداد ایک سو سے پانچ سو تک درج ہے اور دوسرا یہ کہ بعض شیعہ مورخین نے جعفر صادق کے معجزات کے ابرے میں شیعہ مورخین کا عقیدہ اس بات کا موجب بنا کہ ان مورخین نے جعفر صادق کی سوانح حیات کو آ کے معجزوں تک ہی محدود رکھا یا پھر بعض شیعہ مورخین نے اپنی کتابوں کے بیشتر صفحات میں ان ہی معجزات کی تشریح کیہے ان معجزات کی تعداد اور شیعہ مورخین کی کتابوں کے حوالے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کوئی ایسا دن نہیں گذرا کہ جعفر صادق سے ایک معجزہ و قوع پذیر نہ ہوا ہو ۔ جعفر صادق کے معجزات کا ایک حصہ دور صفویہ کے مشہور عالم علامہ مجلسی کی کتاب حار الانوار میں درج ہے لیکن جیسا کہ آ پ کو معلوم ہے کہ علامہ مجلسی نے اپنی تحریر کو دوسرے ذرائع سے اقتباس کیا ہے ایک شیعہ مولف جس نے جعفر صادق کے معجزات کی تشریح کی ہے اور اس نے مشہور کتاب من لا یحضر الفقیہ بھی لکھی ہے اور اس کا شمار بزرگ شیعہ علما میں ہوتا ہے ابو جعفر محمد (بابویہ قمی ) ہے ‘ ابن بویہ چوتھی صدی ہجری میں ہو گزارا ہے یعنی زمانے کے لحاظ سے وہ جعفر صادق کے نزدیک تھا ۔ امام جعفر صادق کے معجزات کی شرح لکھنے کے علاوہ ابن باویہ قمی نے عیون الاخبار الرضا ‘ (امام علی رضاء کے معجزات کی شرح ) کے نام سے بھی ایک کتاب لکھی ہے چونکہ شیعہ مورخین جعفر صادق کی امامت کے قائل تھے لہزا انہوں نے اپ کے علوم کی تعداد پانچ سو لکھی ہے حالانکہ انہوں نے ان علوم کا نام نہیں لیا۔
ایک تاریخی محقق کیلئے یہ بات قابل قبول نہیں کہ جعفر صادق پانچ سو علوم پر دسترس رکھتے اور پڑھاتے تھے ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جعفر صادق کے دور میں علوم کی تعداد آج کے دور سے کہیں کم تھی اور آج کی مانند نہ تو سائنسی ترقی ہوئی تھی اور نہ ہی صنعت و حرفت میں توسیع ہوئی تھی کہ ایک علم سے تھوڑی مدت میں دوسرے علوم جنم لیتے ۔
مثال کے طور پر ایٹم کے بارے میں علم مختصر سی مدت یعنی۱۹۴۰ ۔۱۹۸۰ کے درمیان اس قدر وسیع ہوا ہے کہ آج ایک انسان اپنی ساری عمر بھی صرف کر دے تو ایٹمی مطالعہ میں تھیوری اور پریکٹیکل دونون طرح سے ماہر نہیں ہو سکتا ۔ اگر وہ ایٹمی مطالعے کے نظریاتی پہلو کو لے تو وہ عملی لحاظ سے پیچھے رہ جائیگا اور اگر عملی پہلو لے تو نظریاتی پہلو پر عبور حاصل نہیں کر سکے گا ۔
یہی مثال جنگ کے بارے میں بھی صادر آتی ہے امریکہ میں جنگی ہوائی جہازوں کیبارے میں ایک جدید ٹیکنیک وضع کی گئی ہے جس کے مطابق پائلٹ کے بغیر بھی یہ جہاز اڑ سکیں گے ۔ اس طرح جنگ کی یہ روش فضائی جنگوں کی ٹیکنیک کو تبدیل کر دے گی اور فضائی جنگوں میں ایک نئی ٹیکنیک وجود میں آئے گی لیکن پہلے زمانے میں ایسا ہر گز نہیں ہوتا تھا یعنی علوم و صنعت میں اتنی تیزی سے انقلاب برپا نہ ہوتا تھا آج جب کہ اصولی اور فروعی علوم سمیت علوم کی کل تعداد ایک ہزار سے زیادہ نہیں ہے لیکن ساڑھے بارہ سو سال قبل علوم کی تعداد پانچ سو بھی نہ تھی ۔
مگر شیعہ مورخین نے لکھا ہے کہ جعفر صادق پانچ سو علوم کے ماہر تھے اور یہ سب پڑھاتے تھے بظاہر اس کی دو وجوہات ہیں چونکہ شیعہ مورخین امام جعفر صادق کو اپنا امام سمجھتے ہیں اور شیعہ عقائد کے مطابق انکا ایمان ہے کہ امام اس دنیا میں (نوع انسانی میں ) دانائے مطلق ہے یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ دانائے مطلق پیغمبر اور اس کے بعد امام ہے خداوند تعالی کی دانائی کے بارے میں کسی حد کے قائل نہیں اور خدا وند تعالی کو دانائے مطلق سمجھتے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ اس کا علم اس کی ذات کی مانند لا محدود ہے اور علم خداوند تعالی کے علم سمیت تمام صفات کو اس کی ذات کا جزو سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خداوند تعالی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اس کا آغاز و انجام نہیں ہے اسی طرح اس کا علم بھی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اور وہ ہر گز حدود کا پابند نہیں ۔