آپ سے کیے جانے والے دوسرے سوالات
  جابر نے پوچھا ‘ بشری عقل کے الہی عقل سے موازنے سے آپ کی کیا مراد ہے ؟
جعفر صادق نے جواب دیا ‘ میں بشری عقل کا الہی عقل سے موازنہ نہیں کر سکتا اور کوئی انسان اس موازنے پر قادر نہیں ‘ صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ الہی عقل بشری عقلسے اس قدر برتر ہے جس کا قیاس کرنا ممکن نہیں اور اس کی برتری وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتی یہ بات میں نے اس لئے کہی کہ بتاؤں میں اپنی عقل کے مطابق کائنات کے وجود میں آنے کے سبب کو مد نظر رکھتا ہوں نہ کہ ایسی عقل کے مطابق جس سے میں بے خبر ہوں ۔ جابر نے اظہار خیال کای میں آپ کا مقصد نہیں سمجھا جعفر صادق نے فرمایا میرا مطلب یہ ہے کہ میری عقل یہ کہتی ہے کہہر چیز کی تخلیق کا کوئی سبب موجود ہوتا ہے اور میری عقل کسی ایسے معلول ؟ جس کا سبب یا علت بیان کی گئی ہو ’ کو تسلیم نہیں کرتی جس کی علت موجود نہ ہو کیونکہ بشری عقل ہے اور شاید عقل الہی کے وسیع احاطے میں علت کا مسئلہ سر ے سے موجود نہ ہو اور خالق کی عقل ضروری نہ سمجھتی ہو کہ ایک ایسی علت وجود میں آئے جس سے کوئی معلول نمودار ہو اور اس طرح کیا حادثہ وجود میں آئے ۔
ہماری عقل علت و معلول کے رابطے کو اس قدر ضروری خیال کرتی ہے کہ اس رابطے کے باہر مخلوقات کی پیدائش کو سمجھنے سے قاصر ہے اور جو نہی کسی تخلیق کو دیکھتی ہے فورا اس کی علت تک پہچنے کی کوشش کرتی ہے اور شاید خداوند تعالی کی مشینری میں جو خداوند تعالی کے ارادے کی مطیع ہے تخلیقات بغیر کسی علت کے وجود میں آتی ہوں اور کسی علت کے موجود ہونے کی ضرور تنہ ہو تاکہ کوئی مخلوق وجود میں آئے اور لہذا شاید یہ کائنات کسی علت کے بغیر وجود میں آئی ہے ۔
جابر نے اظہار خیال کای ‘ آپ نے جو کجھ کہا ہے میں اچھی طرح سمجھ گیا ہوں لیکن اس کے باوجود کہ ہماری عقل ‘ عقل بشری ہے اور عقل الہی کا ہماری عقل سے کسی طور موازانہ ممکن نہیں ہمارے پاس اس عقل کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ خداوند تعالی کے بارے میں غور و فکر کیلئے کوئی دوسرا ذریعہ استعمال کریں ۔ اور خصوصا کائنات کی تخلیق کے سبب کے بارے میں فکر کریں میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ خداوند تعالی نے ہمیں زیادہ طاقتور عقل کیوں نہ دی تاکہ اسے اچھی طرح ہم پہچان سکیں چونکہ جیسا کہ آپ نے کہا خدا کی مشینری تک رسائی نہیں ہے اور اس سلسلے میں ہمیں چون و چرا کا بھی حق حاصل نہیں یہ ہماری عقل جو خداوند تعالی کی معرفت کیلئے ہمار ا واحد وسیلہ ہے ہمیں کہتی ہے کہ کائنات اور جو کچھ اس میں ہے کسی علت کے بغیر وجود میں نہیں آیا اور ہم اس علت کیجستجو میں ہیں ۔
جعفر صادق نے اظہار خیال فرمایا ہماری عقل کے مطابق وہ علت خداوند تعالی کے کرمس ے عبارت ہے تاکہ مخلوقات ایجاد ہوں اور زندگی کی نعمت سے بہرہ مند ہوں اور اگر اس کے لاوہ کوئی علت موجود ہو تو وہ خدا ہی جانتا ہے اور بس ۔
جابر نے کہا ‘ جو کچھ آ اپ نے فرمایا ہے اس سے میں یہی سمجھا ہوں کہ خداوند تعالی ازلی و ابدی ہے اس کا کوئی مبدا اور منتہی نہیں ہے کائنات کو مستقل قوانین کے تحت چلا رہا ہے جعفر صادق نے فرمایا ہاں اے جابر ۔
جابر نے پوچھا ‘ اس طرح تو کائنات کی انتہا تک دنیا میں کوئی نیا واقعہ رونما نہیں ہو گا ؟ جعفر صادق نے جواب دیا ہاں اے جابر ‘ خدا کیلئے کوئی نیا واقعہ رونما نہیں ہوتا اور اس کی مثال میں نے گندم کاشت کرنے والے دھقان کی مثال سے دی ہے لیکن کائنات کی مخلوقات جس میں انسان بھی شامل ہیں ان کیلئے ہر رونما ہونے والا واقعہ نیا ہوت اہے حتی کہ موسموں کی تبدیلی بھی ان کیلئے نئی ہوتی ہے کیونکہ انہیں دو بہاریں ہر لحاظ سے مختلف دکھائی دیتی ہیں جابر نے پوچھا کیا یہ ممکن ہے کہ کائنات کی مخلوقات میں کوئی اس دنیا کیلئے خداوند تعالی کے وضع کردہ قوانین کی پیروی نہ کرے اور نا فرمانی کر بیٹھے ۔
جعفر صادق نے جواب دیا ‘ نہیں اے جابر ‘ کائنات کی مخلوق میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جو اس کائنات کیلئے خداوند تعالی کے وضع کردہ قوانین کی نا فرمانی کرے اگرچہ وہ ایک چیونٹی کیوں نہ ہو ای اس سے بھی کوئی چھوٹا ذرہ ہو وہ مخلوقات بھی خدا کی تسبیح کرتی ہیں جو ہماری نظر میں بے جان ہیں لیکن ان کی زندگی میں پایا جانے والا جوش و خروش ہماری زندگی سے کہیں زیادہ ہے یہ سب مخلوقات خد اکے وضع کردہ قوانین کی پیروی کرتی ہیں ۔
جابر نے سوال کیا ‘ بیمار ی کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟ کیا بیماری کو خداوند تعالی انسان پر نازل کرتا ہے یا یہ کہ کسی حادثے کے نتیجے میں رونما ہوتی ہے ۔
جعفر صادق نے فرمایا ‘ بیماریوں کی تین اقسام ہیں بیماریوں کی ایک قسم وہ ہے جو مشیت الہی سے رونما ہوتی ہے ان میں بڑھاپا بھی شامل ہے کوئی بھی اس بیماری سے بچ نہیں سکتا یہ ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے بیماریوں کی دوسری قسم وہ ہے جو آدمی کی جہالت یا ہوس کے نتیجے میں رونما ہوتی ہے جبکہ خداوند تعالی فرماتا ہے کہ کھانے اور پینے میں اسراف سے کام نہ لو اگر آدمی کھانے پینے میں اسراف نہ کرے اور چند لقمے کم کھائے اور چند گھونٹ کم پیئے توبیماری کا شکار نہیں ہو گا بیماریوں کی تیسری قسم وہ ہے جو جسم کے دشمنوں سے عارض ہوتی ہیں اور وہ انسانی بدن پر حملہ کرتے ہیں لیکن جسم اپنے پورے وسائل کے ساتھ ان کا مقابلہ کرتا اور اگر جسمانی قوت ان دشمنوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے تو انسان بیمار پڑ جاتا ہے لیکن جب انسان بیمار پڑ جاتا ہے پھر بھی بدن مقابلہ کرتا ہے اور بدن کے اس مقابلے کے نتیجے میں بیماری ختم ہو جاتی ہے اور بیماری شفایاب ہو جاتا ہے ۔
جابر نے پوچھا جسم کے دشمن کون ہیں جعفر صادق نے جواب دیا جسم کے دشمن اتنی چھوتی مخلوق ہے جو بہت زیادہ چھوٹی ہونے کی وجہ سے دیکھائی نہیں دیتی یہ مخلوق جسم پر حملہ کرتی ہے اور جسم میں بھی ایسی چھوٹی مخلوق موجود ہے جو بہت زیادہ چھوٹی ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آتی اور جسم کے دشمنوں کے خلاف اس کا دفاع کرتی ہے جابرنے پوچھا بیماری پیدا کرنے والے جسم کے دشمن کون سے ہیں جعفر صادق نے جواب دیا ان کی اقسام کی تعداد بہت زیادہ ہے اس طرح بدن کا دفاع کرنے والے بھی مختلف اقسام کے ہیں لیکن جو چیز انہیں تشکیل دیتی ہے وہ محدود ہے جابر نے کہا آپ کی بات میری سمجھ میں نہیں آئی ان کی اقسام کیسے زیادہ ہیں اور جو چیز انہیں تکیل دیتی ہے وہ محدود ہے جعفر صادق نے فرمایا جوکتاب تم پڑھ رہے ہو وہ ہزاروں کلمات کی حامل ہے اور اس کتاب میں ہر کلمہ حروف سے لکھا گیا ہے لیکن جو چیز کلمات کو تشکیل دیتی ہے وہ حروف تجہی کے محدود حروف ہیں اور حروف تہجی کے چند گنے چنے حروف کے ساتھ ہزارون کلمات لکھے جا سکتے ہیں جن میں سے ہر ایک یا ان کلمات کا ہر دستہ مخصوص معنوں کا حامل ہے ۔
ہمارے جسم کے دشمن اور ان دشمنوں کے خلاف دفاع کرنی والے تمہاری کتاب کے ہزاروں کلمات کی مانند ہیں لیکن سب محدود ہیں جو چند گروہوں سے تشکیل پاتے ہیں( جس طرح حروف تہجی سے کلمات تشکیل پاتے ہیں)جابر نے کہا اب میں سمجھا کہ آپ کا کیا مطلب ہے جعفر صادق نے فرمایا میں تمہیں اچھی طرح سمجھانے کیلئے ایک اور مثال دیتا ہوں جانوروں میں زیادہ تر ایسے ہیں جن کی ہڈیاں گوشت اور خون ہے اور ہر طبقے کے جس جانور کا تم مشاہدہ کرو گے تو دیکھو گے کہ وہ ہڈیاں گوشت اور خون رکھتا ہے لیکن کیا ان تین مادوں سے تشکیل پانے والے تمام جانور ایک دوسرے سے مشابہ ہیں اونٹ کی ہڈیاں گوشت اور خون ہے اور بلی بھی ہڈیوں گوشت اور خون کی حامل ہے لیکن اونٹ اور بلی کے درمیان کوئی شباہت نہیں ہے ان میں سے ایک گھاس کھانے والا ہے اور دوسرا گوشت خور ہے جبکہ ان کے بدن کو تشکیل دینے والے مواد کی جنس بنیاد ی طور پر ایک ہی ہے میں نے بنیادی طور پر اس لئے کہا کہ بلی کے گوشت کی جنس اونٹ کے گوشت کی جنس سے مختلف ہے لیکن بنیادی طور پر دونوں گوشت ہی ہیں ہمارے جسم کے دشمن اور وہ جو ہمارے جسم کے دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہیں بنیادی لحاظ سے تھوڑے سے مواد سے تشکیل پاتے ہیں لیکن ان کی اقسام زیادہ ہیں ۔
جابر نے پوچھا دنیا کب وجود میں آئی ؟ جعفر صادق نے جواب دیا یہ خدا جانتا ہے جابر نے اظہار خیال کیا لیکن یہودیوں کے بقول اب اسکی پیدائش ۴۷۶۲ واں سال گزر رہا ہے جعفر صادق نے فرمایا خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ دنیا کب معرض وجود میں آئی اور عقل کہتی ہے کہ جہاں یہودیوں کی اس روایت سے کہ دنیا کا ۴۷۶۲ واں سال ہے کہیں زیادہ پرانی ہے جابر نے پوچھا کیا ان کے پیغمبر نے نہیں کہا کہ کائنات آج سے ۴۷۶۲ سال پہلے وجود میں آئی ؟ جعفر صادق نے فرمایا نہیں اے جابر اور یہ قول یہودی راویوں کا ہے نہ ان کے پیغمبر کا اور اگر کوئی عالم انسان صحراؤں پہاڑوں دریاؤں اور سمندروں پر نظر ڈالے تو اسے اندازہ ہو گا کہ کائنات کی عمر ۴۷۶۲ سال سے کہیں زیادہ ہے جابر نے پوچھا اگرچہ انداز ہی سہی لیکن کیا آپ کائنات کی عمر بتا سکتے ہیں جعفر صادق نے جواب دیا نہیں اے جابر میں انداز بھی نہیں بتا سکتا کہ کائنات کو وجودمیں آئے کتنا عرصہ ہو چکا ہے صرف خدا ہی جانتا ہے کہ کائنات کب وجود میں آئی دنیا کی بعض اقوام دنیا کو یہودیوں کی اس روایت کے برعکس کہیں زیادہ پرانی سمجھتی ہیں ہندوستان والوں کے بقول دنیا کی عمر کے بیس ہزار سال گزر چکے ہیں چینی دنیا کو اس سے کہیں زیادہ قدیم سمجھتے ہیں ان کے بقول دنیا کی عمر ایک لاکھ سال ہے یعنی یہودی راویوں کی روایت سے بیس گنا سے بھی زیادہ ۔
مصر میں ایک عمارت ہے جس کے بارے میں مصریوں کا کہنا ہے کہ آج سے چھ ہزار سال پہلے بنائی گئی اور اگر مصریوں نے درست اخذ کیا ہو تو وہ عمارت اس وقت بنائی گئی جب دنیا کے آغاز کو تقریبا ایک ہزار تین سو سال رہتے تھے اس طرح قدیم مصریوں نے ایک ایسی دنیا میں عمارت بنائی جو ابھی تک وجود میں نہیں آئی تھی اور یہ بات قابل قبول نہیں ہے ۔
جابر نے پوچھا اس دنیا کا خاتمہ کب ہو گا؟ کہ اس کے بعد جہان باقی نہیں رہے گا جعفر صادق نے جواب دیا ایسا زمانہ ہر گز نہیں آئے گا کہ جہاں موجود نہ ہو کیونکہ جو چیز ایک دفعہ وجود میں آ جاتی ہے فنا نہیں ہوتی صرف اس کی شکل تبدیل ہوتی ہے جابر نے پوچھا کہا جاتا ہے کہ دنیا کے اختتام پر سورج اور چاند کی روشنی ختم ہو جائے گی کیا یہ حقیقت ہے ؟ جعفر صادق نے فرمایا ممکن ہے ایسا زمانہ آئے کہ سورج ماند پڑ جائے اس صورت میں چاند بھی ماند پڑ جائے گا اور جاند سورج سے روشنی نہیں حاصل کر سکے گا تو وہ دنیا کا خاتمہ نہ ہو گا بلکہ دنیا کے ایک اور دور کا آغاز ہو گا جابر نے پوچھا ‘ کیا ممکن ہے بنی نوعی انسان کی زندگی میں ایسی رات آئے جس کے بعد سورج طلوع نہ ہو جعفر صادق نے فرمایا نہیں اے جابر کیوں کہ خداوند تعالی دنیا کو مستقل قوانین کے تحت چلا رہا ہے اور ان قوانین کے تحت سورج کو ہر روز طلوع ہونا چاہیے ۔
لیکن اگر ایسا دن آئے کہ سورج ماند پڑ جائے کہ وہ بھی خداوند تعالی کے اس کائنات کو چلانے کیلئے وضع کردہ قوانین کے مطابق ہے تو پھر طلوع نہیں ہو گا جابر نے پوچھا آپ سورج کے ماند پڑنے کے وقت کی قیاس آرائی کر سکتے ہیں ؟ جعفر صادق نے فرمایا صرف خداوند تعالی بتا سکتا ہے کہ سورج کب ماند پڑے گا ؟ لیکن میرا نظریہ یہ ہے کہ یہ واقعہ اتنا جلدی وقوع پذیر نہیں ہو گا اور شاید بیابان کی ریت کے ذرات کی تعداد کیبرابر سال گذر جائیں تب کہیں جا کر سورج ماند پڑے اور اس وقت کائنات کی زندگی میں نئے دور کا آغاز ہو گا جابر نے پوچھا جو لوگ دنیا کے مال و متاع کو سمیٹنے میں حرص سے کام لیتے ہیں دوسرے جہان میں ان کی کیا حالت ہو گی ؟ کیا وہ جنت میں جائیں گے ؟
جعفر صادق نے جواب دیا زندگی گزارنے اور کاندان کی کفالت کیلئے جدوجہد ضروری ہے اور وہ لوگ جو اپنی زندگی کے وسائل مہیا کرنے کیلئے کام کرتے ہیں خدا کی اچھی مخلوق ہیں اور ایسا کم ہوا ہے کہ ان لوگوں میں حرص پائی جائے چونکہ یہ لوگ زحمت کش ہوتے ہیں اپنی اور اپنے خاندان کی روزی کے حصول میں کوشاں رہتے ہیں لہذا ان کے پاس حریص بننے کا کوئی وسیلہ نہیں ہوتا ۔
جن لوگوں کو مال جمع کرنے کی حرص ہوتی ہے وہ دوسرے طبقے کے لوگ ہیں اور جو چیز انہیں حریص بناتی ہے وہ کم مدت میں زیادہ مال و دولت کا میسر آنا ہے اور چونکہ صرف تکلیف اٹھا کر اور حلال روزی کما کر تھوڑی مدت میں زیادہ مال و دولت اکٹھی نہیں کی جا سکتی لہذا اس قسم کے لوگ ناجائز ذرائع استعمال کرکے نہایت ہی کم مدت میں زیادہ مال کما لیتے ہیں ایسے لوگ جب ایک مرتبہ تجربہ کر لیتے ہیں کہ نہایت ہی قلیل مدت میں بہت سا مال جمع کیا جا سکتا ہے تو وہ بار بار یہ عمل دھراتے ہیں اور آکر کار ان میں مال جمع کرنے کی اتنی حرص پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ زندگی کے آخری حصے تک اسی کام میں لگے رہتے ہیں ان کا بہترین مشغلہ مال جمع کرنا ہوتا ہے یہی لوگ ہیں جن کے بارے خداوند تعالی نے فرمایا ہے کہ "الذی جمع مال و عددہ " ان کی زندگی کی سب سے بری لذت مال جمع کرنا اور زرو جواہر کو گننا ہے مال جمع کرنے کیلئے حریص ہونے کا ایک خاصہ یہ ہے کہ حریص انسان اپنے مال کا کچھ حصہ محتاجوں کی فلاح و بہبود کے کاموں پر خرچ نہیں کر سکتا اور نہ صرف یہ کہ محتاجوں کیلئے مال خرچ نہیں کر سکتا بلکہ محتاجوں اور مسکینوں کو ان کی موجودہ زندگی کا مستوجب سمجھتا ہے اس کے ضمیر میں یہ بات جاگزین ہو جاتی ہے کہ اگر خدا کسی کو محتاج نہ بنانا چاہے تو ہو محتاج نہیں ہوتا پس اسے کسی محتاج کی مدد کیلئے ہاتھ نہیں بڑھانا چاہیے کیونکہ حریص شخص کے نظریئے کے مطابق کسی محتاج کی مدد مشیت الہی کیبر خلاف ہے ۔
دنیا میں اس طرح کے لوگ کسی چیز سے اتنی لذت نہیں اٹھاتے جتنی وہ سیم و زر کو گننے میں اٹھاتے ہیں یا اس میں کہ ان کے پاس وسیع و عریض اراضی ہو ۔
دوسرے جہان میں ان کی حالت وہی ہو گی جو کلام خدا میں بیان کی گئی ہے لیکن وہ لوگ جو روزی کمانے کیلئے مشقت کرتے ہیں اور اپنی حلال کمائی سے کچھ رقم جمع کرتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت کام آ سکے تو ایسے لوگ ہر گز حریص نہیں کہلاتے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قناعت پسند ہوتے ہیں اور انہیں اپنے پسماندگان کے مستقبل کی فکر ہوتی ہے وہ یہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ چلے جائیں اور اپنے پسماندگان کیلئے کوئی چیز چھوڑ کر نہیں جائیں گے تو ان کے پسماندگان فقرو فاقے کا شکار ہو جائیں گے ۔ اس قسم کے افراد جو اپنے برھاپے کی فکر کریں یا اس خیال سے کہ ان کی موت کے بعد ان کی بیوی بچے فقرو فاقے کا شکار نہ ہوں ایسے لوگوں کو خدا وند تعالی اجر عنایت فرمائے گا اور اگر ان سے کوئی ایسا عمل سر زد نہ ہوا ہو جسکی وجہ سے وہ سزا کے مستحق ہوں تو وہ موت کے بعد جنت میں جائیں گے ۔
زندگی میں قدم قدیم پر یہی لوگ کام انجام دیتے ہیں یہی لوگ زراعت کرتے ہیں یہی لوگ بھیڑ بکریاں پالتے ہیں پھل دار درختوں کی پرورش کرتے ہیں اور گھر بناتے ہیں اور اپنی قوم کی صنعتی ضروریات پوری کرتے ہیں اگر مسلمان ہوں تو جہاد کے موقع پر مجاہد فی سبیل اللہ بن جاتے ہیں اور میدان جنگ میں جا کر قتل ہو جاتے ہیں ۔ لیکن وہ لوگ جو حریص ہیں اور تما م عمر مال جمع کرنے کے علاوہ کوئی کام اور آرزو نہیں رکھتے وہ اپنی قوم کیلئے کوئی مفید کام نہیں کرتے اگر جہاد پیش آئے تو میدان جنگ میں نہیں جاتے کیونکہ اپنی وسیع و عریض اراضی غلے سے بھرے ہوئے گوداموں کو اور بے تحاشا مال و دولت کو چ۹وڑ کر میدان جنگ میں نہیں جا سکتے چونکہ انہیں معلوم ہے کہ وہاں قتل ہونے کا خطرہ ہے اسی لئے خداوند تعالی نے اپنے کلام میں فرمایا ہے کہ وہ حریص کو پسند نہیں کرتا ۔
حتی کہ اگر ایک حریص موت سے پہلے اپنا تمام مال و متاع اپنے پسماندگان کی ضرورت کے علاوہ محتاجوں میں تقسیم کر دے تو بھی بعید ہے کہ خداوند تعالی اسے جنت میں بھیج دے چونکہ جیسا کہ تجربہ کیا گیا ہے مال جمع کرنے کی حرص وہاں سے شروع ہوتی ہے کہ جہاں شروع ہی سے انسان نہایت کم مدت میں ناجائز طریقے سے بہت زیادہ مال اکٹھا کرنا شروع کرتا ہے اور یہ بات انسان کو بار بار اسی طریقے سے اتنا ایا اس سے زیادہ حاصل کرنے کا شوق دلاتی ہے لہذا چونکہ مال ناجائز طریقے سے اکٹھا ہوتا رہا تو یہ گناہ خدا کی قربتکی خاطر مال خرچ کرنے سے دور نہیں ہو گا کیونکہ اس سے لوگوں کے صرف ایک گروہ کو فائدہ پہنچے گا ۔
جابر نے پوچھا ‘ کیا جانوروں کا خدا پر ایمان ہے ؟ جعفر صادق نے فمایا کسی شک و شبہ کے بغیر جانور خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور اگر خدا پر ایمان نہ رکھتے ہوں تو ان کی زندگی منظمنہ ہو جاتی کہا جتا ہے کہ فطرت جانوروں کی زندگ کو منظم کرتی ہے اور یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس خو کو کون جانوروں کی فطرت میں شامل کرتا ہے اگر جانور خالق پر ایمان نہ رکھتے تو کیا یہ ممکن تھا کہ جانوروں کی بعض انواع جن کی منظم اجتماعی زندگی سے تم مطلع ہو ایسی منظم زندگی کی حامل ہوتیں ؟ کیا خداوند تعالی کے علاوہ کوئی خالق ہے جو جانوروں کی بعض انواع کی اجتماعی زندگی کو اس قدر منظم کرے کہ ان میں سے ہزاروں ایک لمحے میں ایک مخصوص کام کریں اور ساری زندگی ان سے ذرا سی کوتاہی سرزد نہ ہو ؟
کیا خالق کے ایمان کے بغیر جانوروں کی بعض اقسام جن سے تو مطلع ہے ایسی منظم و مرتب اجتماعی زندگی بسر کر سکتے ہیں ؟ جبکہ ان کا کوئی سردار کمانڈر نہیں ہوتا اور ان میں مرتبے کے لحاظ سے کوئی بھی دوسرے پر فوقیت نہیں رکھتا ۔ اجتماعی زندگی گزارنے والے جانوروں کی بعض اقسام اپنے فرائض انجام دینے میں اس قدر کوشاں ہوتی ہیں کہ وہ جانور جو جوانی ہی میں مر جاتے ہیں اور اگر وہ کم دوڑ دھوپ کریں تو وہ اپنی حیوانی زندگی کی نسبت سے طویل عمر گزاریں گے ۔ میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو جانور سماجی زندگی بسر کرتے ہیں اور انسان جو دائمی لگاتار محنت کے نتجے میں جوانی میں ہی فوت ہو جاتے ہیں وہ اس محنت سے خود فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ جس معاشرے میں وہ زندگ بسر کرتے ہیں وہ معاشرہ ان کی محنت سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔
کیاممکن ہے کہ ایک خالق پر ایمان لائے بغیر اور اس خالق کو اپنی تقدیر میں موثر جانے بغیر اس معاشرے کے راستے میں جس میں وہ زندگی گزار رہے ہیں اس قدر فدا کاری کریں ۔ اے جابر جان لو کہ یہ بات محال ہے کہ ایک چیز موجود ہو لیکن وہ ایک خالق کی اطاعت نہ کرے اور اس خالق کی اطاعت اس پر ایمان کی دلیل ہے ۔
نہ فقط انسان جانورون اور درخت خالق کی فرمانبرداری کرتے ہیں بلکہ جمادات بھی خالق کے فرمانبردار ہیں اور اگر فرمانبردار نہ ہوتے تو باقی رہنے کیلئے وجود میں نہ آتے جابر نے پوچھا انہوں نے خداوند تعالی کی صفات تک رسائی کہاں سے حاصل کی ؟ جعفر صادق نے فرمایا ‘ انہوں نے قرآن سے خداوند تعالی کی کی صفات تک رسائی حاصل کی جابر نے اظہار خیال کیا ‘ میرا مقصد وہ قرآن نہیں جس پر میرا عقیدہ ہے بلکہ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اسلام سے قبل خداوند تعالی کی صفات تک کیسے رسائی حاصل کی ؟ جعفر صادق نے فرمایا خدا کی وہ صفات بتاؤ جن کی انہوں نے معرفت حاصل کی ہے وہ کون کونسی ہیں ؟ جابر نے کہا ‘ اسلام سے قبل توحید پرست اقوام کو معلوم تھا کہ خداوند تعالی کا جسم نہیں ہے اور وہ کسی چیز سے وجود میں نہیں آیا اور دیکھا نہیں جاتا اور لا مکان ہے یا کسی مکان میں نہیں سماتا واحد ہے اور لا شریک ہے اسکی صفات اسکی ذات پر زائد نہیں بلکہ اسکی ہر صفت اسکی ذات کا جزو ہے وہ دانا اور توانا ہے وغیرہ وغیرہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیسے ان لوگوں نے خداوند تعالی کی صفات کی معرفت حاصل کی ؟ جعفر صادق نے فرمایا ‘ ان میں سے بعض صفات جن کا تم نے ذکر کیا ‘ قرآن میں آئی ہیں اور میں قرآن کے حوالے سے تصدیق کرتا ہوں کہ وہ خداوند تعالی کی صفات میں سے ہیں لیکن اگر کوئی صفت خداوند تعالی سے منسوب کی جائے اور وہ قرآن میں ذکر نہ کی گئی ہو تو میں اسکی تصدیق نہیں کرتا ۔
جابر نے کہا کیا اپ کی عقل تسلیم کرتی کہ وہ صفات خداوند تعالی کی صفات ہیں ؟ جعفر صادق نے فرمایا میری عقل ایک انسانی عقل ہے وہ خدا کی صفات کو درک نہیں کر سکتی اور وہ لوگ جنہوں نے قرآن سے قبل خدا کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے خدا کی بعض صفات کو مثبت اور بعض کو منفی قرار دیا انہوں نے خود بخود قیاس کیا ہے ۔ جابر نے کہا میں آپ کا مقصد نہیں سمجھا ؟
جعفر صادق نے فرمایا میں مثال دیتا ہوں تاکہ تم میرا مطلب سمجھ جاؤ اسلام سے قبل ایک شخص خداوند تعالی کی صفات معلوم کرنا چاہتا تھا ‘ اس کا خیال تھا کہ خداوند تعالی پرندوں کی مانند پرواز کر سکتا ہے اور اسکی پرواز کو وہ اسکی مثبت صفات میں شمار کرتا تھا ۔ وہ شخص پرواز کرنے کو کیوں خدا وند تعالی کی مثبت صفات میں شمار کرتا تھا ؟ اس کا جواب یہ ہے چونکہ خود وہ پرواز نہیں کر سکتا تھا لہذا اس کا خیال تھا کہ خداوند تعالی پرواز کرنے پر قادر ہے یا یہ کہ ایک شخص کا خیال تھا کہ خداوند تعالی پانی کی مچھلی کی طرح پانی میں زندہ رہنے پر قادر ہے اور خداوند تعالی کے پانی میں زندگی بسر کرنے کو وہ خدا کی مثبت صفات میں سے خیال کرتا تھا اور جو چیز اسے اس فکر میں لگائے رکھتی تھی وہ یہ تھی کہ وہ خود مچھلی کی مانند پانی میں زندگی بسر نہیں کر سکتا تھا تیسرے کا خیال تھا کہ خداوند تعالی کا جسم نہیں ہے اور جو چیز اسے اس فکر میں لگائے رکھتی تھی وہ یہ تھی کہ وہ خود جسم رکھتا تھا لہذا وہ جسم نہ رکھنے کو خداوند تعالی کی صفات (منفی صفات ) میں سے جانتا تھا ایک دوسرے کا خیال تھا کہ خداوند تعالی لا مکان ہے چونکہ خود وہ لا مکان نہیں بن سکتا تھا اور ہر حالت میں کسی مکان میں سمایا ہوتا تھا ۔ لہذا مکان نہ ہونے کو یہ خداوند تعالی کی منفی صفات میں سے شمار کرتا تھا ایک شخص جھوٹا تھا اس کا خیال تھا کہ خداوند تعالی سچ بولنے والا ہے کیونکہ خود وہ سچ نہیں بولا سکتا تھا لہذا وہ سچ بولنے کو خداوند تعالی کی مثبت صفات میں سے شمار کرتا تھا خلاصہ یہ کہ تمام وہ لوگ جنہوں نے خدا کی مثبت یا منفی صفات کو مد نظر رکھا انہوں نے وہ صفات جو خود ان میں موجود نہیں تھیں یا ان تک وہ رسائی حاصل نہیں کر سکتے تھے انہیں انہوں نے خدا کی صفات کا جزو سمجھا اور یہی وجہ ہے کہ اسلام سے قبل جتنی صفات بھی خداوند تعالی کی توصیف میں بیان کی گئی ہیں عام طور پر مثبت یا منفی صفات ہیں انہیں میں خداوند تعالی کی صفات کا جزو خیال نہیں کرتا ہوں مگر یہ کہ ان کا ذکر قرآن میں آیا ہے ہو کیونکہ انسانی عقل خداوند تعالی کی صفات اور خصوصیات کو درک کرنے پر قادر نہیں ۔
جابر نے کہا اس طرح تو جو کجھ قبل از اسلام خدا کی صفات کے متعلق کہا گیا بے بنیاد ہے ۔ جعفر صادق نے فرمایا ‘ وہ صفات مستثنی ہیں جنکی اسلام نے تصدیق کی ہے باقی تمام صفات اسی دلیل کی بنا پر بے بنیاد ہیں جابر نے کہا جو کچھ آپ نے بیان فرمایا میں اچھی طرح سمجھ گیا ہوں لیکن کیا ہم خداوند تعالی کی صفات کو درک کرنے کیلئے عقل کے علاوہ کوئی حربہ استعمال کر سکتے ہیں ۔
یہی عقل جسکی وجہ سے ہم خداوند تعالی کے وجود کے قائل ہیں اور اسے اس جہان کا اور اپنا خالق سمجھتے ہیں اسی عقل کی وساطت سے ہمیں خداوند تعالی کی صفات تک رسائی حاصل کرنا چاہیے ہمارے پاس کوئی دوسرا وسیلہ نہیں ہے جس کے ذریعے ہم جان سکیں کہ وہ کن صفات کا مالک ہے جعفر صادق نے فرمایا کیا تم نے پالتو بھیڑ دیکھی ہے ؟ جابر نے کہا خود میرے پاس ایک پالتو بھیڑ تھی جعفر صادق نے فرمایا ۔
چونکہ تم نے خود ایک بھیڑ کو پالا ہے لہذا تمہیں معلوم ہے کہ وہ تمہیں پہچانتی ہے اور جب تم اسے اشارہ کرتے ہو تو وہ تمہاری طرف آتی ہے اور تمہارے ہاتھ سے گھاس اور دوسری چیزیں جو اس کی پسند اور ذائقے کے مطابق ہوتی ہیں انہیں کھا جاتی ہے وہ تمہارے اور دوسرے لوگوں میں فرق کرتی ہے جب تم اسے اشارے سے بلاتے ہو تو وہ دوڑے ہوئے آتی ہے اور تمہارے ہاتھ سے گھاس اور دوسری چیزیں جو اسکی طبیعت اور ذائقے کے مطابق ہوتی ہیں کھاتی ہے وہ تمہیں خوب پہچانتی ہے اور اگر کوئی دوسرا اسے بلائے تو اسکی طرف نہیں جاتی جونہی تم اسے اشارہ کرتے ہو وہ دوڑ کر تم تک پہنچتی ہے چونکہ وہ تمہیں پہچانتی ہے اور اسے معلوم ہے کہ تم دوسرے سے مختلف ہو ۔
جابر نے جعفر صادق کی گفتگو کی تصدیق کی جعفر صادق نے فرمایا کہ وہ بھیڑ جو تمہیں پہچانتی ہے اور تمہارے حکم کی تعمیل کرتی ہے کیا تمہارے صفات کو درک کرتی ہے ؟ کیا اس جانور کیلئے یہ بات جاننے کا امکان ہے کہ اس کے بارے میں تمہارا کیا ارادہ ہے ؟ وہ تمہیں پہچانتی ہے اور تمہارے حکم کی تعمیل کرتی ہے اسے جو شعور عطا ہوا ہے اسکے ذریعے وہ تمہاری شناخت کرنے پر قادر ہے لیکن اس بات پر قادر نہیں کہ تمہاری صفات اور ارادوں حتی کہ خود اس کے بارے میں تمہارے ارادوں سے مطلع ہو سکے اس مثال سے تم یہ سمجھ سکتے ہو کہ خدا کی پہچان کے لحاظ سے ہماری عقل کی حدود کہاں تک ہیں ۔ ہم خدا کو پہچانتے ہیں اسے اپنا خالق سمجھتے ہیں اور اسکے فرمان کی اطاعت کرتے ہیں لیکن اسکی صفات تک رسای حاصل نہیں کر سکتے ہماری عقل اسی قدر محدود ہے کہ اسے پہچانیں اور اسکے حکم کی تعمیل کریں لیکن اس بات پر قادر نہیں ہیں کہ یہ جان سکیں وہ کون ہے ؟ اور اس نے اس جہان کو کیوں خلق کیا ہے اور اس دنیا کا خاتمہ کیا ہو گا اس کی نسبت ہماری عقل کی کیفیت پالتو بھیر کی مانند ہے جو تم سے مانوس ہے ۔ کیا تمہاری بھیڑ جانتی ہے کہ تم کب پیدا ہوئے ؟ کیا وہ گھر جس میں بھیڑ رہتی ہے اسے معلوم ہے کہ تم نے کب بنایا تھا ؟ کیا اسے معلوم ہے کہ وہ گھر کب تک باقی رہے گا کیا اسکے لئے یہ بات جاننا ممکن ہے کہ تم نے اس گھر کی بناوٹ میں کیسا میٹیریل استعمال کیا ہے؟ اور اسے بنانے والے کون تھے ؟
اسکے باوجود کہ وہ تمہیں پہچانتی اور تمہارے حکم کی تعمیل کرتی ہے ان میں سے کسی مسئلے سے آگاہ نہیں ‘ ہم بھی جو انسانی عقل کے ذریعے خداوند تعالی کی پرستش کرتے ہیں ان میں سے کسی مسئلے سے آگاہ نہیں ہیں مگر صرف اس حد تک کہ جہاں تک قرآن ہماری راہنمائی کرتا ہے جابر نے کہا میں جو اپنی انسانی عقل کے ذریعے اپنے خدا کی عبادت کرتا ہوں مجھ میں اور اس بھیڑ میں ایک فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ میری صفات جاننے کیلئے تڑپ نہیں رکھتی جبکہ میں اپنے خداکی صفات جاننے کا متلاشی ہوں ۔
جعفر صادق نے فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہے کہ تمہاری پالتو بھیڑ تمہاری صفات سے اگاہی حاصل کرنے کی متلاشی نہیں ؟ تمہیں کہاں سے معلوم ہے کہ وہ جانور جب تم گھر میں نہیں ہوتے ہو تو تمہاری فکر نہیں کرتا اور تمہیں اچھی طرح پہچاننے کی سعی نہیں کرتا ؟ تمہیں کیسے یقین ہے کہ تمہاری ہاتھ پال بھیڑ تمہاری شناخت کی متلاشی نہیں ہے ؟ لیکن کا حیوانی شعور ایسا ہے کہ وہ تمہاری صفات تک رسائی حاصل نہیں کر سکتیا ور تمہاری زبان کو نہیں سمجھ سکتی لیکن صرف ایک حد تک ‘ تجھے یہ سب معلوم ہے اور اسی وجہ سے جب کبھی اپنی پالتو بھیڑ سے بات چیت کرنا چاہتے ہو تو اس سے ایسی زبان میں بات کرتے ہو کہ وہ تمہارا مدعا سمجھ سکے اور حقیقت میں اے جابر تم اس سے خود اسکی زبان میں مخاطب ہوتے ہو کیونکہ تمہیں معلوم ہے کہ اگر تم اس سے کسی دوسری زبان میں بات کرو گے تو وہ نہیں سمجھ سکے گی کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو ؟
اے جابر ‘ یہ تصور نہ کرو کہ چونکہ خداوند تعالی عربی میں کلام کرتا ہے لہذا اسنے قرآن کو عربی میں نازل کیا ہے خداو ند تعالی دانا و توانائے مطلق ہے تمام زبانوں سے آگاہ ہے اور اس سیبر کر یہ کہ اسے اپنا مطلب سمجھانے کیلئے زبان کی احتیاج نہیں ہے۔
یہ ہم ہیں کہ جنہیں اپنے جیسے انسانوں کو مدعا سمجھنے کیلئے زبان کی ضرورت ہوتی ہے اور خداوند تعالی نے قرآن کو عربی میں اسلئے نازل کیا ہے کہ اس کا پیغمبر عرب تھا اور عرب قوم میں زندگی بسر کر رہا تھا لہذا قرآن کو ایک ایسی زبان میں نازل کیا کہ اس ک پیعمبر اور وہ قوم جس میں وہ رہ رہا ہے اسے سمجھیں اور اسی لئے قران بنی نوعی انسان کی فہم و فراستکی حدود میں نازل ہوا اور جس طرح تم اپنی پالتو بھیڑ سے اسکی زبان میں گفتگو کرتے ہو خداوند تعالی نے بھی بنی نوع انسان کی زبان میں ہم سے کلام کیا نہ کہ اپنی فہم و فراست کے مطابق چونکہ اگر خالق اپنے فہم و ادارک کے مطابق ہم سے کلام کرتا تو ہم اسکے کلام سے کچھ بھی سمجھ نہ پاتے جس طرح اگر تم اپنے فہم و ادارک کے مطابق اپنی بھیڑ سے گفتگو کرو تو وہ تمہارے کلام کو سمجھنے سے قاصر رہے گی ۔
جابر نے کہا میری مشکل یہ ہے کہ خداوند تعالی نے اپنی زبان جیسی زبان مجھے کیوں نہیں دی ؟ تاکہ میں اسکی زبان سے خداوند تعالی سے کلام کروں ؟ اور اسکے کلام کو مکمل طور پر یعنی اسکے فہم و ادارک کے مطابق سمجھ سکوں اور مجھے کیوں ایسی عقل نہیں دی کہ میں خداوند تعالی کی صفات کی معرفت حاصل کر سکوں اور یہ جانوں کہ ماضی میں اسکے کیا کام تھے اور آئندہ کیاہوں گے تاکہ میری اس سے نسبت بھیڑ کے مالک کی نسبت کی مانند نہ ہو ؟

نیک و نحس گھڑیوں کے متعلق مفضل بن عمر کے استفسارات
امام جعفر صادق کا ایک شاگرد مفضل بن عمر ہے جس کی باقیات میں جعفر صادق کے دورس کے آثار ملتے ہیں ایک دن مفضل بن عمر نے اپنے استاد سے پوچھا ‘ سعد و نحس اوقات جن کا تعین قسمت دیکھنے والے اور نجومی کرتے ہیں کی کیا حقیقت ہیں ؟
جعفر صادق نے فرمایا ‘ جادوگری کو باطل قرار دے کر اس کی مذمت کی گئی ہے اور خداوند تعالی نے جادو کو منع کیا ہے مفضل بن عمر نے کہا ‘ سعد و نحس اوقات کو اکثر نجومی متعین کرتے ہیں اور وہ جادوگر نہیں ہیں جعفر صادق نے اظہار فرمایا وہ نجومی جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ سعدو نحس اوقات کا تعین کرتے ہیں وہ جادوگر ہیں ار دوسرے جادوگروں کی مانند انہیں بھی باطل قرار دیکر ان کی مذمت کی گئی ہے اور خداوندتعالی نے ہر قسم کی جادوگری سے منع فرمایا ہے ۔مفضل بن عمر نے پوچھا پس وہ تمام لوگ جو قدیم زمانے سے آج تک سعد و نحس اوقات کے معتقد رہے ہیں کیا ان کا عقیدہ باطل تھا ؟
جعفر صادق نے جواب دیا ہاں اے مفضل ‘ لیکن انسان کی زندگی میں موافق و ناموافق اوقات ہیں مفضل بن عمر نے اظہار خیال کیا اگر ایس اہے تو نجومیوں کے معین کرد سعد و نحسن اوقات میں اور ان میں کیا فرق ہے ؟ جعفر صادق نے جواب دیا نجومیوں کے متعین کردہ سعد و نحسن اوقات جادو گری کے ذریعے معین کئے اجتے ہیں لیکن موافق و نا موافق اوقات کا تعلق انسان کے مزاج سے ہے اس کا جادوگری سے کوئی تعلق نہیں ہر کسی کو چند دنوں میں ایک مرتبہ یا کبھی ایک رات دن میں مزاج کے لحاظ سے موافق اور ناموافق حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسکی وجہ یہ ہیکہ انسان میں خون و بلغم و سودا و صغرا ہمیشہ ایک حال میں نہیں ہوتا دن و رات کے اوقات میں ان کی مقدار میں فرق پڑتا ہے اسی طرح انسانی جسم کے بعض اندرونی اعضا دن و رات کے اوقات میں ایسے کام انجام دیتے ہیں جو متشابہ نہیں ہوتے قدیم زمانے میں لوگوں کی اس موضوع سے واقفیت تھی جن میں سے ایک حکیم بقراط بھی ہے جس نے کہا کہ جگر انسانی جسم میں چند کاموں کو انجام دیتا ہے لیکن ان کاموں کو ایک لمحے میں انجام نہیں دیتا بلکہ جگر کی طر ف سے ہر کام کو انجام دینے میں وق لگتا ہے وہ اس طرح کہ جگر کی طرف سے وہ کام ترتیب دے دیئے جاتے ہیں لیکن ہمارے مزاج کے حالات پر وہ چند دنوں یا کبھی ایک رات و دن میں موثر واقع ہوتے ہیں تمہیں بتانے کیلئے کہ کس طرح سعد و نحس اوقات ہمارے وجود میں ہیں نہ کہ اس صورت میں جس طرح جادوگر کہتے ہیں تمہیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ دن و رات میں خون کا گاڑھا ہونا ممکن ہے پانچویں حصے یا حتی کہ چوتھائی حصے تک ہی ہو ۔
ان معنوں میں کہ ہمارے خون کا گاڑھا پن صبح سو کر نماز کیلئے اٹھنے پر اس وقت سے پانچواں یا چوتھا حصہ کم ہو جس میں ہم روز مرہ کے کاموں سے تھک کر سونے کا ارادہ کرتے ہیں یہ موضوع ہماری حالت پر موثر واقع ہوتاہے اور کبھی ہمیں بے نشاط اور کبھی کم نشاط کر دیتا ہے جسکے نتیجے میں رات و دن میں خون کے گاڑھے پن کی کمی کے موقع پر ممکن ہے ہم خوش و خرم ہوں اور اسی طرح خون کے گاڑھے پن کی زیادتی کی وجہ سے بے نشاط ہو جائیں جو لوگ سانس کی تنگی کا شکار ہیں اگر سانس کی تنگی کی دوائی آدھی رات کو کھائیں تو یہ دوائی دن کی نسبت زیادہ موثر ثابت ہو گی کیونکہ رات کو ان میں ایسی کیفیت وجود میں آتی ہے جو دوائی کے اثر کو دوگنا کر دیتی ہے اس قسم کے لوگوں کیلئے دوائی کھانے کیلئے آدھی رات ایک سعد گھڑی ہے چونکہ یہ گھڑی سانس کی تنگی کو دور کرنے میں موثر مدد کرتی ہے اور اگرچہ ایک دوائی کھانے سے آدھی رات کو سانس کی تنگی کا علاج نہیں ہوتا لیکن رات کی تکلیف رفع ہو جاتی ہے اور جو شخص سانس کی تنگی میں گرفتار ہے سو سکتا ہے ۔
بعض غذائیں جو ہم کھاتے ہیں ہمارے لئے سعد ہیں اور بعض نحس وہ غذائیں جنکے کھانے سے جسم بیمار نہیں ہوتے یا ہم اپنے آپ کو بوجھل محسوس نہیں کرتے اور ہمارے کام میں مانع نہیں ہوتیں اور ان کے کھانے سے ہم طاقت محسوس کرتے ہیں اور ہلکے بھی رہتے ہیں ایسی غذاؤں کو سعد کہا جا سکتا ہے لیکن وہ غذائیں جنکے کھانے کے بعد ہم بھاری پن اور بوجھ محسوس کرتے ہیں اس طرح کہ ہم کام نہیں کر سکتے ایسی غذائیں نحس ہیں چونکہ انہوں نے ہم پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں ۔ اے مفضل سعد و نحس کا مسئلہ ہمری زندگی میں اس طرح ہے اور ہمارے مزاج سے وابستہ مسائل کے حدود سے باہر سعد و نحسن کا وجود نہیں مفضل نے پوچھا کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ستاروں کی تعداد بتا سکیں ؟ جعفر صادق نے جواب دیا‘ خداوند تعالی کے علاوہ کوئی بھی ستاروں کی تعداد سے آگاہ نہیں ؟مفضل نے پوچھا کیا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا کہ ستاروں کی تعداد کتنی ہے ؟
جعفر صادق نے جواب دیا انداز ا بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ستاروں کی تعداد کتنی ہے مفضل نے پوچھا آسمان کا روشن ترین ستارہ کونسا ہے ؟ جعفر صادق نے فرمایا ‘ کیا تیرا مطلب آسمان کے ستارون کی حقیقی روشنی ہے یا وہ روشنی جو ہم تک پہنچتی ہے ؟
مفضل نے کہا میں سوال نہیں سمجھا ‘ جعفر صاد ق نے اظہار خیال فرمایا ‘ میرا مطلب یہ ہے کہ ہم سیاروں کو ستارون سے زیادہ چمک دار اور روشن دیکھتے ہیں چونکہ وہ ہمارے زیادہ نزدیک ہیں لیکن ستاروں کی روشنی سیاروں سے کہیں زیادہ ہے مفضل نے پوچھا ‘ سیاروں میں کونسا سب سے زیادہ روشن ہے ؟
جعفر صادق نے فرمایا ‘ سیاروں میں سب سے زیادہ روشن زہرہہے اور تم سال کے بعض مہینوں میں اسے اس قدر روشن دیکھو گے کہ تم محسوس کرو گے کہ یہ دوسرا چاند ہے جبکہ زہرہ بھی چاند کی مانند سورج سے روشنی حاصل کرتا ہے ‘ اسکی اپنی روشنی نہیں ہوتی ۔ لیکن چاند کی روشنی زہرہ کی روشنی جتنی نہیں ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ خداوند تعالی نے زہرہ کی زمین کو ایسے مادے یا مواد سے بنایا ہے جو روشنی کو آینے کی مانند منعکس کرتی ہے اورجس مواد یا مادے سے چاند بنایا گیا ہے وہ زہرہ کی مانند منعکس کرنے کی استعداد نہیں رکھتا ۔ مفضل نے پوچھا ‘ زہرہ کے بعد سبے روشن سیارہ کونسا ہے ؟
جعفر صادق نے جواب دیا ‘ اسکے بعد مشتری تمام سیاروں سی زیادہ روشن ہے اور بعض لوگ اسے غلطی سے زہرہ خیال کرتے ہیں ۔ مفضل نے پوچھا ‘ ستاروں میں کونسا ستارہ زیادہ روشن ہے ؟ جعفر صادق مسکرا کر کہنے لگے اے مفضل ہمارے اباء و اجداد جو صحراؤن میں زندگی بسر کرتے تھے وہ آسمان کے روشن ستاروں کو بخوبی پہچانتے تھے اور راتوں کو راستے طے کرنے دوران بیابان میں ستارں کی مدد سے راستہ معلوم کرتے تھے لیکن چونکہ ہم اپنے آباؤ اجداد کی مانند صحراؤں میں زندگی بسر نہیں کرتے لہذا ہمیں ستاروں کی شناخت نہیں اور جان لو کہ آسمان پر سب سے درخشندہ ستارہ شعر اے یمانی ہے اور یہ ستارہ ہمارے صحرائی زندگی بسر کرے والے آباؤ اجداد کے نزدیک مشہور تھا انہیں معلوم تھا کہ یہ ستارہ سال کے کس ماہ میں آسمان کے کونسے مقام سے طلوع کرتا ہے اور اس کا نام بھی انہوں نے ہی رکھا ہے شعرائے یمانی کے بعد آسمان کا سب سے زیادہ روشن ستارہ سماک رامع ہے اور اس ستارے کو بھی ہمارے صحراؤں میں زندگی بسر کرنے والے آ۶اء و اجداد بخوبی پہچانتے تے اس ستارہ کے نام کا انتخاب بھیانہوں نے ہی کیا تھا اگر تجھے آسمان کے تمام ستاروں کو درخشندگی کے مرتبے کے لحاظ سے پہچاننے میں دلچسپی ہے تو میں بطلیموس کی فراہم کردہ ستاروں کی اس تصوریر کو تمہارے اختیار میں دونگا جس میں نہ صرف یہ کہ ستاروں کے ناما ور ان کی تصاویر ہیں بلکہ آسمان پر ان کا مقام اور ہر شکل کے تمام کوائف اور ان کا ایک جدول بھی اس میں موجود ے اور اس میں آسمان کے درخشندہ ترین ستاروں کا ذکر بھی ان کی درخشندگی کے لحاظ سے درج ہے مفضل نے کہا اگر یہ مجموعہ آپ مجھے عنایت فرمائیں تو آپ کی بڑی مہربانی ہو گی جعفر صادق نے مدرسے کے خادم کو کہا جاؤ اور اس کتاب کو لے آؤ اتنے میں وہ گیا اور کتاب لیکر آ گیا اور جب جعفر صادق کو اطمینان ہو گیا کہ یہ وہی کتاب ہے تو انہوں نے اسے مفضل کو دے دیا ۔
مفضل نے کتاب لے لی اور جعفر صادق نے کہا بطلیموس نے اس پر غور نہیں کیا کہ ستاروں میں سے ہر ایک ستارہ روشن ہے اور بعض تو ان میں سے اتنے روشن ہیں کہ ان کی روشنی سورج سے زیادہ ہے اور اس موضوع سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا حجم اور مادہ سورج سے کہیں زیادہ ہے۔ شعرائے یمانی اور سماک رامع ان میں سے ہر دو سورج سے کہیں زیادہ بڑے ہیں لیکن چونکہ یہ دونوں بہت زیادہ دور ہیں لہذا ہم ان کی روشنی کو اچھی طرح سے نہیں دیکھ پاتے اور اگر سورج بھی اس طرح دور ہوتا تو اسے بھی ہم آسمان کے کسی ساکن ستارے کی مانند دیکھتے مفضل کو جب کتاب ملی اور اس نے کتاب کے صفحات پر نگاہ ڈالی تو کہا کتاب کے بارے میں فرمایئے جعفر صادق نے فرمایا کتاب کے متعلق بحث ایک طویل بحث ہے چونکہ یہ کتاب قدیم زمانے میں وجود میں ائی اور حتی کہ اس موجودہ شکل میں یہاں تک پہنچی اور گذشتہ زمانے میں پہلے تو خط بھی نہ تھا کہ کتاب ہو سکتی اور دوسرا یہ کہ کاغذ نہ تھا جس پر لکھا جاتا اور اس سے بھی بڑ ھ کر یہ کہ بنی نوعی انسانی نہیں جانتا تھا کہ کوئی قابل ملاحظہ بات لکھے اور کتابی شکل میں لائے ۔
پہلی کتاب پیغمبروں نے لکھی اور یہ فطری بات ہے کہ انہوں نے اس زمانے میں کتاب لکھنے کی ابتدا کی جب آدمی نے تحریر کیلئے خط ایجاد کر لیا تھا جب خط ایجاد ہوا تو مصریوں کی مانند بعض اقوام نے خط کو درخت کے پتوں پر لکھا وہ اس طرح کہ کسی مخصوص درخت کے پتے جو مصر میں اگتا ہے انہیں لیکر آپس میں جوڑ لیا جاتا تھا اور پھر ان پر لکھا جاتا تھا اور جب ان کی سیاہی خشک ہو جاتی تو انہیں نلکی کی مانند لپیٹ لیا جاتا اور پھر کتاب کی شکل میں لے آتے تھے قدیم مصر میں جن کتابوں پر لکھا جاتا ہے ان میں بعض کی لمبائی چالیس کنال تک بھی تھی ۔
چونکہ بعض اقوام مصریوں کی مانند اس درخت کے پتوں تک رسائی نہیں رکھتی تھں تو وہ لکھنے کیلئے جانوروں کے چمڑے اور خصوصا بکری اور بھیڑ کے چمڑے کا انتخاب کرکے اس پر لکھتے تھے اور جب اپنے لکھے ہوئے کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے باقی رکھنا چاہتے تو پتھر پر کندہ تھے تاکہ وہ آب و ہوا کے زیر اثر مٹ نہ جائے ۔ مفضل نے پوچھا ‘ تحریر کیلئے کاغذ کیسے ایجاد ہوا ؟
جعفر صادق نے فرمایا کاغذ چینیوں کی ایجاد ہے ان لوگوں نے ریشم سے کاغذبنایا اسکے ایک عرصے بعد ہم عربوں سمیت دوسریا قوام نے چینیوں سے کاغذ تیار کرنا سیکھا لیکن ابھی تک ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ریشم سے کاغذ کیسے بنایا جاتا ہے اسی وجہ سے اب بھی اعلی کوالٹی کا کاغذ چین سے برامد کیا جاتا ہے اور ہمارے تاجر یہ کاغذ کشتیوں کے ذریعے چین سے لا کر اس شہر اور دوسرے شہروں میں بیچتے ہیں اور چونکہ یہ کاغذ یہاں تک پہنچتے پہنچتے کافی مہنگا پڑ جاتا ہے لہذا درس کے موقع پر ہم حتی الامکان تختی سے استفادہ کرتے ہیں ۔ مفضل نے پوچھا ‘ یہاں پر ریشم سے کاغذ کیوں نہیں بنایا جا سکتا ؟
جعفر صادق نے جواب دیا ‘ کیونکہ ریشم سے کاغذ بنانے کیلئے ریشم کے کیڑے پالنے پڑتے ہیں اور یہاں پر اس جانب اتنی توجہ نہیں دی جاتی کیونکہ شہتوت جسکے پتے ریشم کے کیڑوں کی خوراک ہیں یہاں بہت کم پائے جاتے ہیں ریشم کے کیڑے پالنے کے بعد ریشم سے کاغذ بنانے کا طریقہ بھی جاننا چاہئے تاکہ ریشم کا غذ تیار ہو سکے اور چین میں ریشم سے کاغذ بنانے کی روش کو غیروں سے پوشیدہ رکھا جاتا ہے غیروں کو ہر گز ریشم سے کاغذ بنانے کی جگہوں پر ملازم نہیں رکھا جاتا تاکہ غیر لوگ ریشم سے کاغذ بنانے کا طریقہ معلوم نہ کر لیں جس طرح چینیوں نے چینی کے برتن بنانے اور ان پر بیل بوٹے ڈالنے کے سارے مراحل اغیار سے چھپا رکھیہیں اسکے باوجود کہ سب جانتے ہیں چینی کے برتن ایک قسم کی مٹی سے تیار ہوتے ہیں جو بھٹی میں پکائی جاتی ہے لیکن ابھی تک اغیار کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان برتنوں کی مٹی کہاں سے حاصل کی جاتی ہے اور کیسے پکائی جاتی ہے اور ان برتنوں پر نقش و نگار کیسے بنائے جاتے ہیں اور کس مواد سے بنائے جاتے ہیں ؟ کہ جب وہ برتن بھٹی میں ڈالیجاتے ہیں تو ان کے رنگ کی جلا باقی رہتی ہے اور نہایت گرم آگ جو مٹی کو پکا کر ایک مضبوط برتن کی شکل دے دیتی ہے چینی کے ان برتنوں کے نقش و نگار کی جلا کو ختم نہیں کر سکتی اور جس طرح چینی اغیار کے مزدوروں کو اپنے ریشم سے کاغذ بنانے والی جگہوں میں کامکرنے کی اجازت نہیں دیتے اسی طرح اغیار کو چینی کے برتن بنانے کی جگہوں پر بھی کام نہیں کرنے دیتے اور میں نے سنا ہے کہ اس قسم کے برتن بنانے کے کارخانے والدین سے اولاد کو وراثت میں ملتے ہیں اور ان میں کام کرنے والے تمام مزدور یا ان کے دوست ہوتے ہیں یا عزیز وغیرہ ان پر اس کارخانے کے مالک کو پورا اعتماد ہوتا ہے کہ وہ چینی کے برتنوں کی ساخت کے رازوں سے پردہ نہیں اٹھائیں گے ۔

کرامات امام جعفر صادق علیہ السلام
علامہ عبدالرحمن ملا جامی رحمت اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب " شواہد النبوت " میں آئمہ طاہرین علیہما السلام کی اکثر کرامات کا ذکر کیا ہیملا جامی ایسے عاشق رسول اور حب دار آل رسول تھے کہ مروی ہے کہ آپ جب بارگاہ رسالت میں حاضر ہونے کیلئے آئے تو حضور اکرم نے والی مدینہ کو خواب میں حکم دیا کہ
" میرے عاشق کو شہر کے باہر روک لیا جائے ورنہ جس جذب وکیف میں وہ آ رہا ہے مجھے اس کی دل دہی کیلئے گنبد خضری سے باہر آنا پڑے گا "
اس واقعہ سے علامہ جامی کی عظمت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ملا جامی نے امام جعفر صادق کی کرامات بھی بیان کی ہیں ان میں چند کو بحوالہ کتاب " ذکر اہل بیت " مولفہ محمد رفیق بٹ صاحب اس کتاب کی زینت نانے کا شرف حاصل کیا جاتا ہے ۔

کرامت نمبر ۱
ایک دن منصور نے اپنے دربان کو ہدایت کی کہ حضرت امام جعفر صادق کو میری پاس پہنچنے سے پہلی شہید کر دینا اسی دن حضرت جعفر صادق تشریف لائے اور منصور عباسی کے پاس آ کر بیٹھ گئے منصور نے دربان کو بلا اس نے دیکھا کہ حضرت جعفر صادق تشریف فرما ہیں جب آپ واپس تشریف لے گئے تو منصور نے دربان کو بلا کر کہا میں نے تجھے کس بات کا حکم دیا تھا دربا ن بولا خدا کی قسم میں نے حضرت جعفر صادق کو آپ کے پاس آتے دیکھا ہے نہ جاتے بس اتنا نظر آیا کہ وہ آپ کے پاس بیٹھ گئے تھے ۔

کرامت نمبر ۲
منصور کے ایک دربان کا بیان ہے کہ میں نے ایک روز اسے غمگین و پریشان دیکھا تو کہا اے بادشاہ ‘ آپ متفکر کیوں ہیں بولا میں نے علویوں کے ایک بڑے گروہ کو مروا دیا ہے لیکن ان کے سردار کو چھوڑ دیا ہے میں نے کہا وہ کون ہے ؟ کہنے لگا وہ جعفر بن محمد ہے میں نے کہا وہ تو ایسی ہستی ہے جو اللہ تعالی کی عبادت میں محو رہتی ہے اسے دنیا کا کوئی لالچ نہیں خلیفہ بولا مجھے معلوم ہے تم اس سے کچھ ارادت و عقیدت رکھتے ہو میں نے قسم کھا لی ہے کہ جب تک میں اس کا کام تمام نہ کر لوں آرام سے نہیں بیٹھوں گا چنانچہ اس نے جلاد کو حکم دیا کہ جونہی جعفر بن محمد آئے میں اپنے ہاتھ اپنے سر پر رکھ لوں گا تم اسے شہید کر دینا ۔ پھر حضرت جعفر صادق کو بلایا میں آپ کے ساتھ ساتھ ہو لیا میں نے دیکھا کہ آپ زیر لب کچھ پڑ ھ رہے تھے جس کا مجھے پتہ نہ چلا لیکن میں نے اس چیز کا مشاہدہ ضرور کیا کہ منصور کے محلوں میں ارتعاش پیدا ہو گیا وہ ان سے اس طرح باہر نکلا جیسے ایک کشتی سمندر کی تندو تیز لہروں سے باہر آتی ہے اس کا عجیب حلیہ تھا وہ لرزہ براندام برہنہ سر اور برہنہ پاؤ حضرت جعفر صادق کے استقبال کیلئے آیا اور اپ کے بازو پکڑ کر اپنے ساتھ تکیہ پر بٹھایا اور کہنے لگا اے ابن رسول اللہ آپ کیسے تشریف لائے ہیں ؟ آپ نے فرمایا تو نے بلایا ر میں آ گیا پھر کہنے لگا کسی چیز کی ضرور ہو تو فرمائیں آپ نے فرمایا مجھے بجز اس اس کے کسی چیز کی ضرورت نہیں کہ تم مجھے یہاں بلایا نہ کرو میں جس وقت خود چاہوں آ جایا کروں گا آپ اٹھ کر باہر تشریف لے گئے تو منصور نے اسی وقت جامہائے خواب (رات کو سونے کا لباس ) طلب کئے اور رات گئے تک سوتا رہا یہاں تک کہ اس کی نما قضا ہو گئی بیدار ہوا تو نماز ادا کرکے مجھے بلایا اور کہا جس وقت میں نے جعفر بن محمد علیہ السلام کو بلایا تو میں نے ایک اژدھا دیکھا جس کے منہ کا ایک حصہ زمین پر تھا اور دوسرا حصہ میرے محل پر وہ مجھے فصیح و بلیغ زبان میں کہہ رہا تھا مجھے اللہ تعالی نے بھیجا ہے اگر تم سے حضرت جعفر صادق کو کوئی گزند پہنچی تو تجھے تیرے محل سمیت فنا کر دوں گا اس پر میری طبعیت غیر ہو گئی جو تم نے دیکھ ہی لی ہے میں نے کہا یہ جادو یاسخر نہیں ہے یہ تو اسم اعظم (قرآن کریم ) کی خاصیت ہے جو حضور نبی کریم پر نازل ہو اتھا چنانچہ آپ نے جو چاہا وہی ہوتا رہا ۔

کرامت نمبر ۳
ایک راوی کا بیان ہے کہ ہم حضرت جعفر صادق کے ساتھ حج کیلئے جا رہے تھے کہ راستے میں ایک کھجور کے سوکھے درختوں کے پاس ٹھہرنا پڑا حضرت جعفر صادق نے زیر لب کچھ پڑھنا شروع کر دیا جس کی مجھے کچھ سمجھ نہ آئی اچانک آپ نے سوکھے درختوں کی طرف منہ کرکے فرمایا اللہ نے تمہیں ہمارے لئے جو رزق و دیعت کیا ہے اس سے ہماری ضیافت کرو میں نے دیکھا کہ وہ جنگلی کھجوریں آپ کی طرف جھک رہی تھیں جن پر ترخوشے لٹک رہے تھے آپ نے فرمایا آؤ اور بسم اللہ کر کے کھاؤ میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کھجوریں کھا لیں ایسی شیریں کھجوریں ہم نے پہلے کبھی نہ کھائی تھیں اس جگہ ایک اعرابی موجود تھا اس نے کہا آپ جیسا جادوگر میں نے کبھی نہیں دیکھا امام جعفر صادق نے فرمایا ہم پیعمبروں کے وارث ہیں ہم ساحرو کاہن نہیں ہوتے ہم تو دعا کرتے ہیں جو اللہ تعالی قبول فرما لیتا ہے اگر تم چاہو تو ہماری دعا سے تمہاری شکل بدل جائے اور تم ایک کتے میں متشکل ہو جاؤ اعرابی چونکہ جاہل تھا اس لئے کہنے لگا ہاں ابھی دعا کیجئے آپ نے دعا کی تو وہ کتا بن گیا اور اپنے گھر کی طرف بھاگ گیا حضرت جعفر صادق نے مجھے فرمایا اس کا تعاقب کرو میں اس کے پیچھے گیا تو وہ اپنے گھر میں جا کر بچوں اور گھر والوں کے سامنے اپنی دم ہلانے لگا انہوں نے اسے ڈنڈا مار کر بھگا دیا واپس آیا تو تمام حال کہہ سنایا اتنے میں وہ بھی آگیا اور حضرت امام جعفر صادق کے سامنے زمین پر لوٹنے لگ ااس کی آنکھوں سے پانی ٹپکنے لگا حضرت جعفر صادق نے اس پر رحم کھا کر دعا فرمائی تو وہ شکل انسانی میں آ گیا پھر آپ نے فرمایا اے اعرابی میں نے جو کچھ کہا تھا اس پر یقین ہے کہ نہیں ؟ کہنے لگا ہاں جناب ایک بار نہیں اس پر ہزار بار ایمان و یقین رکھتا ہوں ان کے جد مصطفے کو بھی لوگ جادو گر کہا کرتے تھے (معاذ اللہ) اور ان کی آل پاک کے بارے میں بھی یہی خیال کرنے لگے فرق صرف یہ تھا کہ وہ کافروں میں سے ہوتے تھے اور یہ منکرین میں سے تھا اس پر بھی خوشی ہے کہ کتابننے کے بعد راہ راست پر تو آ گیا ۔

کرامت نمبر ۴
ایک آدمی آپ کے پاس دس ہزار دینا لے کر آیا اور کہا میں حج کیلئے جا رہا ہوں آپ میرے لئے اس پیسے کوئی سرائے خرید لیں تاکہ میں حج سے واپسی پر اپنے اہل و عیال سمیت اس میں رہائش اختیا ر کوں حج سے واپسی پر وہ حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا میں نے تمہارے لئے بہشت میں سرائے خرید لی ہے جس کی پہلی حد حضور پر دوسری حضرت علی پر تیسری حضرت حسن پر اور چوتھی حضرت حسین پر ختم ہوتی ہے اور یہ لو میں نے پروانہ لکھا دیا اس نے یہ بات سنی تو کہا میں اس پر خوش ہوں چنانچہ وہ پروانہ لے کر اپنے گھر چلا گیا گھر جاتے ہی بیمار ہو گیا اور وصیت کی اس پروانے کو میری وفات کے بعد قبر میں رکھ دینا لواحقین نے تدفین کے وقت اس پروانے کو بھی قبر میں رکھ دیا دوسرے دن دیکھا کہ وہی پروانہ قبر پر پڑا ہوا تھا اور اس کی پشت پر یہ مرقوم تھا کہ امام جعفر صادق نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہو گیا ۔

کرامت نمبر ۵
ابن جوزی نے کتاب " صفتہ الصفوہ " میں لیث بن سعد سے بہ اسناد خود روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں موسم حج میں مکہ معظمہ نماز عصر ادا کر ہا تھا فراغت کے بعد میں کوہ ابوقبیس کی چوٹیپر چڑ ھ گیا کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں ایک شخص بیٹھا ہوا ہے اور دعا مانگ رہا ہے ابھی اس کی دعا ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ میں نے وہاں ایک گچا انگوروں کا اور نئی چادریں پری ہوئی دیکھیں اس وقت انگور کہیں بھی دستیاب نہ تھے جب صفا و مروہ پر پہنچے تو اسے ایک شخص ملا جس نے کہا اے ابن رسول میرا تن ڈھاپنئے اللہ تعالی آپ کا تن ڈھانپے گا انہوں نے دونوں چادریں اسے دے دیں میں نے پوچھا یہ چادریں دینے والے کون ہیں ؟ تو اس نے کہا یہ جعفر بن محمد ہیں ۔
امام جعفر صادق نے فرمایا اللہ کے قول " وکان ابوھما صالحا " کے مطابق ہمارا اسی طرح پاس لحاظ رکھو جیسے ان دو یتیموں کا پاس لحاظ حضرت خضر نے کیا تھا کیونکہ ان کا باپ صالح تھا ۔