آئن سٹائن کا نظریہ نسبیت
  آئن سٹائن کے حامی کہتے ہیں کہ کائنات کے بارے میں آئن سٹائن کا نظریہ نسبیت ریاضی کے اوزان کی بنیاد پر ہے لیکن ریاضی کا ایک ورق ایک ترازو کی مانند ہے اور جب ترازو کی درمیانی ڈنڈیایک افقی خط پر رک جاتی ہے تو ہم تصدیق کرتے ہیں کہ دونوں پلڑوں میں وزن برابر ہے لیکن ترازو کی درمیانی ڈنڈے کا افقی خط پر ٹھہرنا اور ترازو کے دو پلڑوں کا برابر ہونا دو پلڑوں میں رکھی گئی چیزوں کا تعین نہیں کر سکتا اگر ہمیں یہ علم نہ ہو کہ ترازو کے دو پلڑوں میں گندم ہے یا پتھر کا کوئلہ تو ہم ترازو کی درمیانی ڈنڈی کے افقی خط کو دیکھ کر ہرگز اندازہ نہیں لگا سکتے کہ پلڑوں میں کیاہے ؟ ریاضی کے اوزان جیسا کہ کہاگیا ہے کہ صحیح ہیں اور ریاضی بشری علوم میں سے ہے وہ واحد علم ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن ریاضی کے اوزان سے صرف اس بات کا علم ہو سکت اہے کہ فلاں چیز جو ہم نے پلڑے میں رکھی ہے وہ اس قدر ہے البتہ اس کا علم نہیں ہو سکت کہ جو چیز پلڑوں میں موجود ہے وہ کیسی ہے لہذا اس کے باوجود کہ ریاضی کے اوزان کے درست ہونے میں کوی شک و شبہ نہیں پھر بھی یہ بات قابل قبول نہیں کہ آئن سٹائن نے اپنے پلڑوں میں جو کچھ رکھا وہ حقیقت ہے ۔
دوسرا یہ کہ آين سٹائن نے اپنے نیست کی تھیوری میں کائنات کے قطر کو تین زہار ملیکن نوری سال لکھا ہے جب کہ آج کل کی ریڈیو ٹیلی اسکوپس کی اطلاع کے مطابق اجرام فلکی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ان کا زمینس ے فاصلہ نو ہزار ملین نوری سال ہے ۔
سائنس دانوں نے ستایس اینٹینوں (ریڈیو ‘ ٹیلی سکوپ کے انیٹینوں) پر مشتمل ‘ ریڈیو ‘ ٹیلی ویژن سکوپ بنائیہے جو تین شاخوں والے انگریزی کے حرف وائی یا فرانسیسی کے ایگرگ پر رکھی گئی ہے ان تین شاخون کا درمیانی فاصلہ اکیس کلو میٹرہو گا ۔
اس ریڈیو ٹیلی سکوپ کے مجموعہ کی کل طاقت ریڈیوٹیلی سکوپ کے دور بین کے یونٹ کے برابر ہے جس کا قطر تیس کلو میٹر ہے جب ریڈیو ٹیلی سکوپ کے مجموعے نے کام شروع کیا تو ممکن ہے ثابت ہو کہ کائنات کی وسعت جو نو ہزار ملین نوری سال نظر آتی ہے اس سے زیادہ ہو ۔
جو بات مسلم ہے وہ یہ ہے کہ آئن سٹائن کی نیست کی تھیوری کا وہ حصہ جس میں اس نے کہا ہے کہ کائنات کا قطر تین ہزار ملین نوری سال ہے صحیح نہیں ہے ۔
۱۸۱۴ عیسوی میں جب انگریزوں نے امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن پر حملہ کرکے تباہی پھیلائی اس زمانے میں واشنگتن یونیورسٹی کے طبیعات کے استاد نے ایک نظریہ پیش کیا جو یہ ہے جب سے ریڈیو ٹیلی ویژن سکوپس نے انسانی بینائی کے میدان میں وسعت پیدا کی ہے اور انسان ان کی مدد سے دور دراز کے اجرام کو دیکھنے لگا ہے فلکیات کے ماہرین پر ایک نئی بات آشکار ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ کہکشاں کی مانند بعض بڑے اجرام آسمانی تیزی سے حیرت انگیز حرکت کر رہے ہیں اور ایک نقطے کی سمت جا رہے ہیں اور ان کی تیز رفتاری کا حساب لگانے کے بعد پتہ چلا ہے کہ بعض کہکشائیں اس قدر تیزی سے حرکت کر رہی ہیں کہ ان کی رفتار روشنی کی رفتار کے ۹۵ فی صد ہے ۔
یہ اجرام فلکی جو خلا میں جہاں کہیں حرکت کر رہے ہیں ان کی حرکت کا رخ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ ایک مرکز کی طرف جا رہے ہیں اور چونکہ ایسا ہے لہذا ضرور اس مرکز تک پہنچتے ہوں گے اور ان کے درمیان ٹکراؤ بھی وقوع پذیر ہوتا ہو گا۔
اس بات کی پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی کہ ان بڑے اجرام کے تصادم سے جو ایک مرکز میں ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوں گے کس قدر توانائی وجود میں آتی ہے اور دنیا میں اس توانائی کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں کیا کچھ دوسرے قوانین کے ساتھ کوئی اور جہان وجود میں آتا ہے یا یہ کہ شعاعوں کا ایک گرداب پیدا ہوتا ہے اور دنیا کے آخر تک ایسا ہی ہوتا رہے گا ۔
پروفیسر ڈاش ‘ جس نے اس نظریئے کا ذکر کیاہے یہ بات نہیں بتا سکا کہ اجرام فلکی جو دنیا کے ارد گرد نہایت تیزی سے ایک مرکز کی طرف جا رہے ہیں وہ اس مرکز تک کب پہنچیں گے ۔
اجرام فلکی کی گردش کرنے کے راستے کی قوسیں اس قدر وسیع ہیں کہ پروفیسر ڈاش ابھی تک کمپیوٹر کی مدد سے قوسوں کے راستے کو نہیں سمجھ سکا کہ وہا س بات کا تعین کر سکے کہ قوسیں آپس میں کہاں ملتی ہیں اور وہ مرکز ‘ جہاں اجرام فلکی آپس میں ملتے ہیں کس جگہ واقع ہے ؟
کہا جاتا ہے کہ اس نظریئے سے یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اجرام فلکی کی گردش کا خط اس لئے محننی ہے کہ اجرام فلکی کی روشنی طاقتور قوت تجاذب کے مراکز میں جذب ہو جاتی ہے اگر اس طرح ہے تو اجرام فلکی جو حیرت انگیز رفتار سے حرکت کر رہے ہیں ان کے قریب طاقتور قوت تجاذب کے مراکز واقع ہونے چاہیں جو ان کی روشنی کو ٹیڑھا کریں اس صورت میں وہ مادہ مراکز ہیں ورنہ اس قدر طاقتور قوت تجاذب نہ رکھتے ۔
اس تھیوری پر ایک بڑا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ کہکشائیں جومادہ ہیں اس قدر تیز رفتاری سے حرکت نہیں کر سکتیں ۔
ڈاش کہتا ہے اجرام فلکی جو اس قدر تیزی سے حرکت کر رہے ہیں ان کا تعلق چوتھی "پلازما " سے ہے ایک زمانے سے علم نے مادے کی چوتھی قسم ( جو ٹھوس مائع اور گیس کے علاوہ ہے ) کو تسلیم کر لیا ہے اور اس بات کا قائل ہے کہ ممکن ہے مادہ ایک ایسی صورت اختیار کرے جو نہ ٹھوس ہو نہ مائع اور نہ گیس ۔
بہر کیف طبیعات دانوں کے بقول پلازما بھی روشنی کے ۹۵ فی صد کے برابر حرکت نہیں کر سکتا وگرنہ وہ اپنی ماہیت کھو بیٹھے گا اور شعاع میں تبدیل ہو جائے گا لیکن پروفیسر ڈاش اس بات پر ہے کہکشاؤں کے اجرام جو اس قدر تیز سے ایک مرکز کی طرف جا رہے ہیں وہ پلازما ہیں اور اس کے بقول اگر کہکشاؤں میں پلازما کیوجود کو تسلیم نہ کریں تو بھی ان کیتیز رفتاری میں کوئی شک نہیں چونکہ کہکشاؤں کے اجرام کے متعلق نظریہ اگر ایک فرضی نظریہ ہو تو بھی ان کی تیز رفتاری کے بارے میں نظریہ فرضی نہیں بلکہ کمپیوٹر کے ذریعے اسکی پیمائش کی گئی ہے جس کے مطابق ان اجرام کی رفتار ۲۸۵ ہزار کلو میٹر فی سیکنڈ ہے بہر حال اس کے نظریئے کے مطابق دور دراز کے واقع تمام اجرام فلکی نہایت تیزی سے ایک مرکز کی طرف جا رہے ہیں اور اس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ جس کہکشاں میں ہمارا سورج واقع ہے وہ اور دوسری کہکشائیں بھی نہایت سست رفتاری سے اسی مرکز کی طرف رواں دواں ہیں اگر اس نظریئے کی تائید کی جائے تو علمی نظریئے اورجعفر صادق (علیہ السلام ) کے نظریئے میں سواے الفاظ کے ہیر پھر کے کوئی فرق نہیں جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا تمام چیزیں خدا کی طرف ہی پلٹی ہیں اور ڈاش کے بقول تمام چیزیں ایک مرکز کی طرف پلٹی ہیں واشنگٹن یونیورسٹی کے فزکس کا استاد جس کے بارے میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ وہ ماہر فلکیات بھی ہے اس کا نظریہ یورپ کے لوودن یونیورسٹی کے استاد ایسے لمڑ کے نظریئے کے بالکل الٹ ہے جس کا نظریہ دنیا کی وسعت کے بارے میں گذشتہ صفحات میں قارئین کی نظر سے گزر چکا ہے اس کا عقیدہ ہے کہ دنیا وسیع ہو رہی ہے اور کہکشائیں کناروں کی جانب بڑھ رہی ہیں لیکن ایبے لمڑ کے زمانے میں کہکشاؤں کو ریڈیو ٹیلیسکوپ کے ذریعے مشاہدہ نہیں کر سکا تھا اور جو حساب کتاب آج کمپیوٹرکی مدد سے ہو رہا ہے اس زمانے میں اس کی کوی مثال نہ تھی صرف یہ ہوتا تھا کہ ریاضی دانوں کے ایک بڑی گروہ کو ستاروں کے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کیلئے کام پر لگا دیا جاتا تھا تاکہ آج کل خلائی جہازوں کی دوسرے سیاروں کی طرفپرواز میں پیش آنے والے مسائل کا حل نکالیں دوسرا یہ کہ تھوڑے تھوڑے فاصلوں سے ایک کہکشاں کی حرکت کا مشاہدہ کرتے ہوئے یہ سمجھ میں نہیں آ سکتا کہ وہ مرکز سے پرے ہٹ رہی ہے یا مرکز کی طرف بڑ رہی ہے اور شاید ریکھنے والے کو یہ دکھائی دے کہ کہکشاں مرکز سے فرار کر رہی ہے حالانکہ کہکشاں مرکز کی جانب گامزن ہے اس کے باوجود کہ آج فلکیات کا حساب و کتاب در حقیقت ایبے لمڑ کے زمانے کی نسبت زیادہ صحیح اور ترقی یافتہ ہے پھر بھی ہم پروفیسر ڈاش کے نظریئے کو مد نظر رکھنے کے بعد ابھی ایبے لمڑ کے نظریئے کو مسترد نہیں کر سکتے کیونکہ ہم ابھی تک اس حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کر سکے کہ یہ کہیں کہ ایبے لمڑ کی رائے اور جو کچھ پروفیسر ڈاش کہتا ہے وہ محض تھیوری ہے اور اس کے دو پوانٹس کمزور ہیں پہلا یہ کہ مادہ روشنی کی حرکت کی رفتار کے ۹۵ فی صد کے برابر حرکت نہیں کر سکتا لہذا ماہرین طبیعات کے بقول پلازمابھی نہیں ہیں دوسرا یہ کہ پروفیسر یہ نہیں بتا سکا کہ وہ مرکز جس کی جانب تمام کہکشائیں جارہی ہیں وہ کونسا ہے ؟ اور کہاں واقع ہے ؟ اگر قوت جاذب کا قانون جو ہمارے نظام شمسی میں حکم فرما ہے نظام شمسی سے باہر بھی لاگو ہو تو ظاہر ہے کہ جس مرکز کے گرد کائنات کی تمام کہکشائیں گھوم رہی ہیں وہ ایک مادی مرکز ہے جس کی قوت تجاذب تمام کہکشاؤں کو انہی طرف کھینچ رہی ہے اور ابھی تک ایسا مادی جسم جس کی قوت تجاذبت اس قدر زیادہ ہو ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا جس کی جانب تمام کہکشائیں رواں دوں ہوں اور اس نظرہ کا حامل بھی ایسے مرکز کی ہی با حوصلہاستادوں میں سے ایک تھے آپ درس کے پڑھانے کے بعد اپنے علمی مخالفین کیا عترضات کا جواب بھی دیتے تھے کبھی ایسا ہوتا تھا کہ آپ علمی مخالفین کے جواب دینے میں اس قدر مشغول ہو جاتے کہ کھانا کھانے کیلئے گھر بھی نہ جا سکتے تھے اور ایک آدمی کو بازار بھیجتے تاکہ وہ بازار سے ایک روٹے لے ائے اور یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ چھوٹی سی روٹی کو آپ نے مکمل طور پر کھایا ہو چند لقمے کھانے کے بعد باقی روٹی بچ جاتی تھی ا ور جن دنوں میں کھانے کیلئے گھر نہیں جاتے تھے تو اس سوکھی روٹے پر گزارا کر لیتے تھے آپ نے علمی مخالفین سے درخواست کر رکھی تھی کہ جب تک درس ختم نہ کر لیں اس وقت تک کوئی اعتراض نہ کریں اور جب درس ختم ہو جائے تو جو جی میں آئے پوچھیں جعفر صادق (علیہ السلام ) درس ختم کرنے کے بعد اپنے شاگردوں کو چھٹی دے دیتے تھے معمول کے مطابق ایسا ہوتا تھا کہ آپ درس ختم کرنے کے بعد نماز ظہر پڑھتے تھے اور گھر چلے جاتے تھے آپ کے بعض شاگردوں کو جنہیں یہ علم ہوتا کہ ہمارے استاد آج اپنے علمی مخالفین کے سوالوں کے جوابات مرحمت فرمائیں گے وہ اس دن کھانا کھانے کے بعد گھر سے واپس آ جاتے تاکہ جعفر صادق (علیہ السلام ) کے اپنے علمی مخالفن کی بحث مباحثے کے موقع پر موجود رہیں جعفر صادق (علیہ السلام ) کے علمی مخالفین میں سے ایک ابو شاکر نامی بھی تھا وہ شخص ایک دن جب جعفر صادق (علیہ السلام ) نماز سے فارغ ہو چکے تو آپ کے پا س آیا اور بیٹھ کر کہنے لگا کیا مجھے اجازت ہے کہ جو کچھ میں چاہوں اس کے بارے میں اظہار خیال کروں جعفر صادق (علیہ السلام )نے جواب دیا جو چاہتے ہو کہو ابو شاکر نے کہا اپنے شاگردوں اور سامعین کو افسانے کے ذریعے کیوں فریب دیتے ہیں ؟ آپ جو کچھ خدا کے بارے میں کہتے ہیں وہ افسانے سے زیادہ کچھ نہیں اور آپ لوگوں کو اضافہ سرائی کے ذریعے ایسی چیز کو قبول کرنے پر مائل کرتے ہیں جس کا کوئی وجود نہیں اور خدا کی عدم موجودگی کی دلیل یہ ہے کہ ہم اپنے حواس خمسہ کے ذریعے اسے درک نہیں کر سکتے جیسے آپ کہتے ہیں کہ انسان اپنے حواس خمسہ کے ذریعے خدا کو درک نہیں کر سکتا لیکن ممکن ہے کہ انسان اپنے باطنی حواس کے ذریعے خداوند تعالی کی معرفت حاصل کر سکے مگر باطنی حواس سے کام لینے کیلئے ظاہری حواس سے استفادہ کیا جاتا ہے اگر آپ اپنے ذہن میں کسی چیز کا تصور لاتے ہیں تو موجودگی میں اسے اپنے ذہن میں مجسم کرتے ہیں تو اگر آپ کی بینائی کی حس نہ ہو اس کو آپ کا دیکھنا محال ہے اور اگر آپ کی ننے کی حس نہ ہو تو باطن میں آپ اس کی آواز بھی نہیں سن سکتے اور جب آپ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو اپنی لمس کرنے کی حسن کو کام میں التے ہیں ورنہ آپ ہر گز باطن میں اس کے ہاتھ کو مس نہیں کر سکتے پس آپ کے تمام باطنی ‘ احساسات آپ کے پانچ ظاہری حواس سے وابستہ ہیں اور اگر آپ کے ظاہری حواس مفتو د ہوں تو آپ ہر گز اپنی کسی باطنی حس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے لہذا اگر آپ کہتے ہیں کہ آپ اپنے باطنی احساسات کے ذریعے خدا کو درک کرتے ہیں تو میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا ممکن ہے آپ کہیں کہ نہ تو آپ خدا کو اپنے باطنی حواس کے ذریعے درک کرتے ہیں اور نہ ہی عقل بھی کسی ظاہری حس کے بغیر کسی چیز کو سمجھنے پر قادر نہیں ہے اور جس چیز کو سمجھنا چاہیے وہ پانچ ظاہری حواس کے ذریعے سمجھی جاتی ہے اگر آپ عقل کی مدد سے ظاہری حواس کو کام میں لائے بغیر کوئی دلیل لائیں اور نتیجہ نکالیں کہ حواس خمسہ میں سے کسی ایک حسن نے بھیا س دلیل یا نتیجے میں مدد نہ کی ہو تو میں تسلیم کر لوں گا کہ پ عقل کے ذریعے خداوند تعالی کے وجود تک پہنچ سکتے ہیں جس خدا کی عبادت کیلئے اپ لوگوں کو دعوت دیتے ہیں وہ آپ کے اپنے تخیل کی اختراع ہی آپ نے اپنے تخیل میں ایسے ایسے وجود کو تصور کر لیا ہے اور متشکل کیا ہے اور جس طرح آپ بات کرتے ہیں غذا کھاتے ہیں اور سوتے ہیں اس طرح آپ کا خیال ہے کہ وہ بھی بات کرتا ہے غزا کھاتا اور سوتا ہے آپ اپنے اثر و رسوخ کو لوگوں میں قائم رکھنے کیلئے اسے کسی کو نہیں دکھاتے اور کہتے ہیں کہ وہ دیکھا نہیں جا سکتا اور نہ ہی دیکھا جا سکے گا اور نہ ہی اس نے کبھی ماں کے پیٹ سے جنم لیا ہے نہ اس کی کوئی اولاد ہے آپ کا خدا ہندؤں کے اس پردہ نشین بت کی مانند ہے جس پر ہندوؤں نے پردہ ڈالا ہو اہے اور کسی نے اس بت کو نہیں دیکھا ۔
مندر کے متولیوں کا کہنا ہے کہ یہ بت اپنے آپ کو ہر گز انسانوں کو نہیں دکھاتا کیونکہ اسے پتہ ہے کہ وہ اسے دیکھیں گے تو مر جائیں گے اور متولیوں کے بقول یہ بت از راہ مہربانی اپنے آپ کو کسی کو نہیں دکھاتا اس طرح آپ کا خدا بھی لوگوں پر ظاہر نہیں ہوتا ہو گا کہ لوگ اس کے دیکھنے سے مر نہ جائیں اور آپ کہتے ہیں کہ اس کائنات کو خدا نے خلق کیا ہے وہ بھی ایسا خدا جس کی نہ تو آواز سنی جا سکتی ہے نہ اہی اسے دیکھا جا سکتا ہے اور صرف ایک آدمی اس کی آواز کو سنتا ہے وہ پیغمبر ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ کائناتکو کسی نے خلق نہیں کیا اور یہ خود بخود وجود میں آئی ہے کیا صحرا کی گھاس کو کوئی پیدا کرتا ہے یا یہ کہ گھاس صحرا میں خود بخود اگتی ہے کیا چیونٹی اور پسو کو کوی خلق کرتا ہے کیا ایسا نہیں ہے کہ یہ مخلوقات خود بخود وجود میں آتی ہیں اے وہ شخص جو عالم ہونے کا دعوی کر رہاہے اور کہت اہے کہ تو مسلمانوں کے پیغمبر کا جانشین ہے میں تجھ سے کہتا ہوں کہ جتنے افسانے لوگوں کے من گھڑت ہیں ان میں سے سب سے گھسا پٹا اور خیالی افسانہ ایک ان دیکھے خدا کی موجودگی کا ہے اگر دوسرے افسانے من گھڑت ہیں تو ان افسانوں میں انسانی زندگی کی شبیہہ ہوتی ہے اور جو کردار ان انسانوں میں ہوتے ہیں اگرچہ ان کا وجود نہیں ہوتا لیکن ان کے اعمال انسانوں کے اعمال کی مانند ہوتے ہیں انسان جو دکھائی دیتے باتیں کرتے ‘ غذا کھاتے ‘ عشق لڑاتے اور سوتے ہیں انسان جس وقت ایک خیالی افسانے کو سنتا ہے تو اگرچہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ افسانہ بے بنیاد ہے لین اسے سنتے ہوئے لذت اٹھاتا ہے کیونکہ وہ افسانے میں اپنے آپ یا اپنی طرح کے مردوں اور عورتوں کو دیکھتا ہے اور جانتا ہے کہ اگرچہ وہ مرد اور عورتیں موجود نہیں لیکن ان کی طرح کے لوگ موجود ہیں جو کوئی کسی افسنے کو سنتا ہے اس پر اسے یقین نہیں آتا لیکن اس کی عقل اسے کہتی ہے کہ ان عورتوں اور مردوں کا وجود جن کا نما افسانے میں لیا گیا ہے ممکن ہے وہ موجود ہوں لیکن انسانی عقل جس کے بارے میں ہم نے کہا کہ پانچ ظاہری حواس سے وابستہ ہے وہ ایسے خدا کو جس کے بارے میں آپ بات کرتے ہیں تسلیم نہیں کرتی چونکہ عقل کسی ایسے وجود کو تسلیم نہیں کر سکتی جو نہ تو دیکھا جا سکے اور نہ اس کی آواز سنائی دے نہ اسے سونگھا جا سکے اور نہ اسے لمس کیا جا سکے اور نہ اسے چکھا جا سکے پیغمبر جو آپ سے پہلے گذر چکے ہیں اور ان کے بعد آپ نے لوگوں کو ایک لا موجود خدا کے بارے میں فریب دیا ہے جس کا وجود اپ کی ذہنی اختراع ہے اور آپ کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا وہ ہر چیز کو دیکھتا ہے لیکن کوئی اسے دیکھ نہیں سکتا آخر ایک ایسا خدا جس کا جسم نہیں ہے کہ اس کی آں کھیں ہوں تاکہ لوگوں کو دیکھے اس کی زبان ہوتا کہ وہ کلام کرے اور وہ جو جسمانی وجود نہیں رکھتا کیسے کسی چیز کو تخلیق کر سکتا ہے ؟ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ آپ سے فریب کھاتے ہیں اور یقین کر لیتے ہیں کہ خدا موجود ہے جو دیکھ نہیں جا سکتا ہیلیکن میں آپ کے فریب میں نہیں آتا اور ایسے افسانے کو جو ایسے خدا کے بارے میں جو دکھائی نہیں دیتا اسے قبول نہیں کرتا میں ایک ایسے خدا کی عبدات کروں گاجس میں اپنی دو آنکھوں سے دیکھ سکوں اور دو کانوں سے سن سکوں اور اگر اس کی آواز نہ ہو تو اسے اپنے دو ہاتھوں سے چھو سکوں ۔
میں ایک ایسے خدا کی جو لکڑی یا پتھر کا بنا ہوا ہو اس کی عبادت کروں گا کیونکہ اس کو میں دیکھ سکتا ہوں اور اپنے دونوں ہاتھوں میں لمس کر سکتا ہوں آپ کہتے ہیں کہ چونکہ خود میں نے لکڑی سے خدا کو تراشا ہے اور اسے وجود میں لانے والا میں ہوں لہذا زیب نہیں دیتا کہ میں اس کی پوجا کروں کیا یہ نہ دکھائی دینے والے خدا آپ جس کی عبادت کیلئے لوگوں کو وصیت کرتے ہیں آپ کی اپنی طرف سے اور اپ کے تخیل کی پیدوار کی بدولت وجود میں نہیں آیا ہے میں اور آپ دونوں اپنے خداؤں کو وجود مین لائے ہوئے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ میرا خدا دیکھا ئی دیت اہے اور اسے لمس کیا جا سکتا ہے جب کہ آپ کا خدا نہ تو دکھای دیتا ہیا ور نہ ہی اسکو لمس کیا جا سکتا ہے چونکہ میں افسانے کی پیروی نہیں کرتا لہذا جب سے میں نے اپنے خدا تیار کیا ہے اس وقت سے میں نے اس کی پوجا شروع کر دی ہے میں یہ نہیں کہتا کہ اس نے اس کائنات کو اور مجھے بنایا ہے لیکن آپ چونکہ ایک موہوم خدا کو وجود میں لائے ہیں اور اس کائنات اور بنی نوع انسان وجود میں نہ آتے جو کچھ ہے وہ خدا کی طرف سے وجودمیں آیا ہے میں چونکہ افسانے کا قائل نہیں ہوں لہذا میں نہیں کہت اکہ جس خدا کو میں نے خود بنایا ہے اس نے کائنات اور بنی نوع انسان کو تخلیق کیا ہے لیکن چونکہ آپ افسانے کے معتقد ہیں لہذا آپ نے اپنے خدا کو بنانے کے بعد یہ کہہ دیا ہے کہ اس نے کئانات اور بنی نوعی انسان کو تخلیق کیا ہے آپ اس افسانے کے ذریعے کیوں لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں لوگوں کو حقیقت نہیں پوچھنے دیتے اس بات ک کی کوئی ضرورت نہیں کہ کئانات اور بنی نوعی انسان خدا کے تخلیق کیئے ہوئے ہیں کائنات اور بنی نوعی انسان خود بخود وجود میں آئے ہیں اور یہ ہم ہیں جو اپنے خد کو وجود میں التے ہیں خالق ہم ہیں نہ خدا میں اپنے خدا کو اپنے ہاتھوں سے تراشتا ہوں اور وجود میں لاتا ہوں جبکہ آپ اپنے خدا کو اپنے وہم و گمان کے ذریعے وجود میں لاتے ہیں اس دوران جبکہ ابو شاکر یہ گفتگو کر رہا تھا ایک بار بھی جعفر صادق (علیہ السلام ) نے اس کی قطع کلامی نہیں کی جو شاگرد اس مجلس میں بیٹھے تھے انہوں نے کچھ کہنا چاہا لیکن جعفر صادق (علیہ السلام ) نے اشارے سے انہیں منع کر دیا جب ابو شاکر کی بات ختم ہو چکی تو اس کے بعد جعفر صادق (علیہ السلام ) نے بات کرنے کیلئے چند سیکنڈوں تک ہونٹ نہیں ہلائے وہ اس بات کے منتظر تھے کہ ابو شاکر بات کرے اس کے بعد آپ نے ابو شاکر سے پوچھا کہ کیا اس کی گفتگو ختم ہو چکی ہے اور تو کچھ نہیں کہنا چاہتا ابو شاکر نے کہا کہ میری آخری بات یہ ہے کہ آ پ نے ان دیکھے خدا کو لوگوں سے اس لیے متعارف کرایا ہے تاکہ آپ اس کے ذریعے اثرو رسوخ پیدا کریں اور دولت مند بنیں اور آپ کی زندگی خوشحال گذرے بس یہ میری آخری بات تھی اس کے بعد میں کچھ نہیں کہتا جعفر صادق (علیہ السلام ) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ تمہاری گفتگو ختم ہو چکی ہے لہذا میں تمہیں جواب دیتا ہوں اور اس جواب کو تمہاری گفتگو کے آخری حصے سے شروع کرتا ہوں تم نے کہا ہے کہ میں اس لئے لوگوں کو خدا پرستی کی طرف دعوت کرتا ہوں تاکہ انہیں فریب دے کر اثرو رسوخ پیدا کروں اور زندگی کو آرام سے گزاروں اگر میری حالت خلیفہ جیسی ہوتی تو تیری یہ تہمت شاید مناسب نظر آتی۔ لیکن تم نے آج یہاں پر میری روزمرہ کی غذا دیکھی ہے اور مشاہدہ کیا ہے کہ میں کتنے لقمے سوکھی روٹی کھاتا ہوں اور تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ آج رات میرے گھر آؤ اور مشاہدہ کرو کہ میری شام کی غذا کیا ہے اور میرے گھر میں کس قدر سامان ہے ؟ اے ابو شاکر اگر میں دولت جمع کرنے والا ہوتا اور تمہارے بقول زندگی کو آرام سے گزارتا تو ضروری نہ تھا کہ میں خدا پرستی کی تبلیغ کے ذریعے دولت کے حصول کی تگ و دو کرتا اور آرام سے زندگی گزارتا میں کیمیا دانی کے ذریعے دولت مند بن سکتا تھا اور اگر اس ذری۳عے دولت حاصل نہ کرنا چاہتو تجارت کیذریعے دولت حاصل کر سکتا تھا کیونکہ دوسرے ممالک کے بارے میں میری معلومات تاجروں سے زیادہ ہیں اور میں جانتا ہوں کہ کون سے ملک میں کس قسم کا سامان تیار ہوتا ہے اور کون سی اقسام کا سامنا دوسرے ممالک لے کے جانا فائدہ مند ہے اس شہر کے تاجروں سے پوچھو کہ اصفہان ترکی اور کیلیکی میں کون سا سامان تیار ہوتا ہے جس کا خریدنا انکے لئے سود مند ہے میرا خیال ہے وہ تمہیں جواب نہیں دے سکتے کیونکہ یہاں کے تاجر صرف شام ‘ مصر ‘ الجزائر اور بین النہرین میں تیار کئے جانے والے سامان سے واقف ہیں اور دوسرے ممالک کے سامان ‘ جسے جزیرہ العرب میں لانا فائدہ مند ہے اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں رکھتے لیکن میں جانتا ہوں کہ غیر ممالک میں کون سا سامان موجود ہے جسے لاکر فروخت کیا جائے تو خاطرہ خواہ منافع ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ اس سامان کو کس راستے سے لایا جائے کہ سامان لانے کا خرچہ کم سے کم آئے ۔
اے ابو شاکر تو نے کہا ہے کہ میں خدا پرستی کی تبلیغ کے ذریعے لوگوں کو فریب دیکر مال و دولت حاصل کرنا چاہتا ہوں تیرے جواب میں میں کہتا ہوں کہ جب سے میں نے لوگوں کو خدا پرستی کی تبلیغ شروع کی ہے اس دن سے لے کر آج تک میں نے کسی سے چھوٹے چھوٹے تحفوں کے سوا وہ بھی پھل وغیرہ کے علاوہ کوئی چیز حاصل نہیں کی ۔ جیسا خزاں کے موسم میں کھجوریں پکتی ہیں تو میرا ایک دوست اپنے باغ سے کھجوریں چن کر اور ایک کریٹ میں ڈال کر اپنے نو کر کے ذریعے مجھے بھیجتا ہے اور میں یہ تحفہ اس لئے قبول کرتا ہوں کہ میرا دوست خفا نہ ہو ۔ میرا ایک اور دوست جس کا طائف میں اناروں کا باغ ہے جس موسوم خزاں میں انار پکتے ہیں تو ان میں سیکچھ وہ کریٹ میں ڈال کر مدینے آنے والے کارواں کے ذریعے میرے لیے بھیجتا ہے اور میں ان اناروں کو صرف اس لئے قبول کرتا ہوں کہ میرا دوست مجھ سے خفا نہ ہو اور اے ابو شاکر تو اس بات کی تصدیق کرے گا کہ کوئی شخص ایک عرصے تک اس لیے لوگوں کو تبلیغ نہیں کرتا کہ اس کے بدلے میں اسے سال میں ایک دفعہ انار کے چند دانے اور کچھ کھجوریں حاصل ہوں ۔ اے ابو شاکر میں نے سنا ہے تیرا باپ موتیوں کو پہچانتا تھا ۔ اگر تو موتی شناس ہے تو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں ہر قسم کے ہیرے اور جواہر کی شناخت رکھتا ہوں کوی ایسا موتی نہیں ہے جسے میں نہیں پہچانتا اوراس کی قیمت نہیں لگا سکتا اگر میں مال و دولت جمع کرنے کا خواہش مند ہوتا تو ضروری نہیں تھا کہ لوگوں کو خدا پرست کے راستے کی طرف دعوت دینے کے ذریعے ہی مال و دولت اکھٹی کرتا ۔ بلکہ میں جواہر کا کاروبار کرکیبھی امیر بن سکتا تھا ۔ اس بات کے پیش نظر کہ تمہارا باپ موتیوں کا تاجر تھا کیا تم جانتے ہو کہ یاقوت کتنی قسم کے ہیں ؟ ابو شاکر نے نفی میں جواب دیا ۔ حضرت جعفر صادق (علیہ السلام ) نے پوچھا کیا تمہیں معلوم ہے کہ الماس کتنی قسم کے ہیں ؟ اور کیا تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ الماس کے کتنے رنگ ہوتے ہیں ؟ ابو شاکر نے جواب دیا کہ مجھے الماس کی قسموں کیبارے میں کوئی علم نہیں جعفر صادق (علیہ السلام ) نے کہا میں الماس کی انواع و اقسام سے واقف ہو اور ہر قسم کی قیمت بھی مجھے معلوم ہے حالانکہ میں نے جواہر کی تجارت نہیں کی اور جواہر کی اقسام کے بارے میں میری معلومات میرے علم کی رو سے ہیں اور موت بیچنے والے مختلف اقسام کے موتی بیچتے ہیں لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ یہ موتی کہاں سیآئے ہیں ؟ کیا تو جانتا ہے کہ الماس کی چمک کس وجہ سے ہے ؟ ابو شاکر بولا نہ میں الماس کا تاجر تھا اور نہ میرا باپ کہ مجھے الماس کی چمک کے باریمیں علم ہو ۔ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے کہا ہیرے کی چمک اس کی تراش خراش کی وجہ سے ہے اور تجھے معلوم ہے کہ ہیرا کیسے حاصل کیا جاتا ہے ؟ ابو شاکر نے نفی میں جواب دیا جعفر صادق (علیہ السلام ) نے کاہ ہیرا دریاؤں اور ندیوں کی تہوں سے حاصل ہوتا ہے اور جب اسے حاصل کرتے ہیں توتراشنے کیلئے ماہرین کے حوالے کر دیتے ہیں جب وہ تراشنیکے بعد تیار ہو جاتا ہے تو اس میں چمک پیدا ہو جاتی ہے اور ہیرا تراشنے والے ماہرین بچپن سیباپ یا بھائی یا اپنے عزیزوں میں سے کسی ایک کے زیر سایہ تربیت حاصل کرتے ہیں اور ہیرا تراشنے کے رازوں سے آگاہی حاصل کرتے ہیں ہیرے کا تراشنا ایک دقت طلب اور دشوار کام ہے اور اسے ہیریکے علاوہ کسی دوسری چیز سے نہیں تراشا جا سکتا یہ باتیں میں نے تمہیں اس لیے بتائی ہیں کہ اگر میں دولت مند بننا چاہتا تو جواہر کا تاجر بن جاتا اور چونکہ مجھے علم کے ذریعے جواہر کی شناخت ہے لہذا نہایت ہی قلیل عرصے میں جواہر فروشی کے ذریعے دولت مند بن جاتا اب میں تمہارے اعتراض کے دوسرے حصے کیطرف آتا ہوں جو تمہارا اصلی اعتراض ہے تو نے کہا ہے کہ میں افسانے سرائی کرتا ہوں اور لوگوں کو ایسے خدا کی عبادت کی طرف دعوت دیتا ہوں جو دکھائی نہیں دیتا ۔ اے ابو شاکر تو جو ان دیکھے خدا کا منکر ہے کیا اپنے اندر دیکھ سکتا ہے ؟ ابو شاکر نے کہا نہیں جعفر صادق (علیہ السلام ) نے اظہار خیال فرمایا کہ جب تو اپنے اندر نہیں دیکھ سکتا تو تجھے یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ ان دیکھے خدا کی موجودگی ایک افسانے سے زیادہ کچھ نہیں البتہ اگر تو اپنے اندر دیکھ سکتا تو پھر تو ان دیکھے خدا کے وجود کو ایک افسانہ قرار دے سکتا تھا ابو شاکر بولا اپنے اندر دیکھنے کا ایک ایسے غیر موجود خدا کی عبادت سے کیا تعلق ہے ؟جعفر صادق (علیہ السلام ) نے کاہ تو کہتا ہے جو چیز دکھائی نہ دے اور اس کی آوز سنی نہ جا سکے اور اسے چھوا نہ جا سکے یا اسے سونگھا یا چکھا نہ جا سکے تو ایسا وجود عبادت کے لائق نہیں ۔ ابو شاکر نے کہا اسی طرح ہے جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا کیا تو اپنے جس میں کون کی حرکت کی آواز سنتا ہے ؟ ابو شاکر بولا میں اس کی آواز نہیں سنتا کیا جس میں خون حرکت کر رہا ہے ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ہاں اور کای تو اپنے جس میں کون کی بو سونگھ سکتا ہے ؟
ابو شاکر نے کہا نہیں ‘ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا اے ابو شاکر خون تمہارے سارے جسم میں چند منٹوں میں ایک مرتبہ گردش مکمل کر لیتا ہے اور اگر خون کی یہ حرکت جسم میں چند منٹوں کیلئے رک جائے تو تو مر جائے گا اور کیا آج تک تم نے اپنے جسم میں خون کی گردش دیکھی ہے ؟ ابو شاکر نے کہا نہیں اور میں اسے تسلیم نہیں کر سکتا کہ خون جسم میں متحرک ہے ۔ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا جو چیز تجھے اس بات کو قبول کرنے میں مانع ہے کہ خون انسانی نسوں میں حرکت کر رہا ہے وہ تمہاری جہالت ہے اور یہی جہالت ان دیکھے واحد خدا کو تسلیم میں بھی مانع ہے کیا تو اس مخلوقات سے مطلع ہیجو خدا وند تعالی نے تمہارے جسم میں تخلیق کرکے کام پر لگا دی ہے جس کی وجہ سے تم زندہ ہو؟
ابو شاکر بولا نہیں ‘جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا چونکہ تم اپنے مشاہدات پر تکیہ کرتے ہو اور جو کچھ تمہیں نظر نہیں آتا اسکے بارے میں کہتے ہو کہ اس کا وجود نہیں ہے حالانکہ تم اسے دیکھ نہیں پائے اگر تم اپنے جہالت کو کم کرنے کیلئے علم کی جستجو کرتے تو تمہیں پتہ چلتا کہ تمہارے جسم میں اس قدر زندہ مخلوقات ہیں جن کی تعداد بیابان کی ریت کے ذرات جتنیہے اور وہ تمہارے جسمانی ڈھانچے کے اندر وجود میں آتے اور بڑھتے رہتے ہیں اور ان سے مزید تولید ہوئی ہے اور ایک عرصے کے بعد وہ ختم ہو جاتے ہیں لیکن تم نہ ان کو دیکھ سکتے ہو اور نہ ان کی آواز سن سکتے ہو اور نہ ہی انہیں چھو سکتے ہو اور نہ ان کی بو سونگھ سکتے ہو اور نہ ہی تمہیں اس بات کا علم ہے کہ ان کا ذائقہ کیسا ہے اے ابو شاکر جان لو تمہارے اندر موجود جاندار جو تمہارے ڈھانچے کے اندر زندگی بسر کر رہے ہیں اور پھر مر جاتے ہیں ان کی تعداد اس دنیا کے تمام انسانوں کی تعداد سے زیادہ ہے بلکہ بیابان کی ریت کے ذرات سے بھی زیادہ ہے یہ وجود میں آتے ‘ پھلتے پھولتے اور مر جاتے ہیں تاکہ تم زندہ رہو اور اگر یہ جاندار مخلوق جسے خدا نے تمہارے اندر کام پر لگا رکھا ہے اپنا کام چھوڑ دیں تو تم مر جاؤ گے ۔ لیکن چونکہ تم جاہل ہو لہذا ان کے وجود کا انکار کرتے ہو اور کہتے ہو چونکہ میں انہیں نہیں دیکھتا اور ان کی آواز نہیں سن سکتا لہذا میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ وہ موجود ہیں تمہارا خیال ہے کہ جو چیز تمہیں اپنے ڈھانچے کے اندر موجود اس جاندار مخلوق کا انکار کرنے پر اکساتی ہے وہ تمہاری عقل و فہم و فراست کی قوت ہے جبکہ در حقیقت وہ بے عقلی اور نا سمجھی ہے یہ تمہاری جہالت اور نا فہمی ہے جو تمہیں اپنے جسم میں خون کی حرکت اور تمہارے ڈھانچے کے اندر موجود جانداروں کے انکار پر مائل کرتی ہے اور افسوس کیبات ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ ہیں جنکی آں کھیں ہیں لیکن دیکھتے نہیں اور جنکے کان تو ہیں لیکن سنتے نہیں اور اپنی جہالت کو علم اور بے عقلی کو عقل خیال کرتے ہیں ۔
یہ کیوں کہا گیا ہے کہ جس نے اپنے آپ پو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا۔
اے ابو شاکر اگر تو اپنی آپ کو پہچان لیتا اور جان جاتا کہ تمہارے جسم کے اندر کیا وقوع پذیر ہو رہا ہے اور تمہارے وجود کے اندر کس قدر جاندار مخلوق پیدا ہوتی ‘ بڑھتی اور مر جاتی ہیں تاکہ تم زندہ رہو ‘ تم ہر گز یہ نہ کہتے کہ چونکہ میں خدا کو نہیں دیکھ رہا اسکی آواز نہیں سن رہا اور نہ ہی اسے لمس کر رہا ہوں لہذا میں اسکے وجود کو قبول نہیں کرتا اور خدائے واحد اور ان دیکھے کو افسانہ سمجھتا ہوں ۔
اے ابو شاکر تو اس پتھر کو دیکھ رہا ہے جو اس ایوان کے ستون میں جڑا ہوا ہے تمہارا خیال ہے کہ یہ پتھر ساکن ہے چونکہ تمہاری آنکھ اسکی حرکت کو نہیں دیکھ رہی ‘ اور اگر تمہیں کوئی کہے کہ اپنے اندر سے اس قدر متحرک ہے کہ ہم جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ہم اسکی نسبت ساکن ہیں تو تو اسکے کہے کو تسلیم نہیں کرو گے اور کہو گے کہ وہ افسانہ سرائی کر رہا ہے اور اس طرح تم اپنے آپ کو عقل مند شمار کرتے ہو کیونکہ افسایکو تسلیم نہیں کرتے اور اس بات سے غافل ہو کہ تم اپنی نادانی کی وجہ سے اس پتھر کی اندرون حرکت کو نہیں سمجھ سکتے اور شاید وہ دن آيے جب لوگ اپنی عقلمندی کی وجہ سے پتھر کے اندر موجود حرکت کو دیکھ سکیں ۔
ابو شاکر تم نے کہا ہے کہ جو کچھ اس دنیا میں وجود میں آتا ہے خودبخود وجود میں آتا ہی اور اس کا خالق کوئی نہیں تمہارا کہنا ہے کہ گھاس صحرا میں خود بخود سبز ہوتی ہے اور کوئی اسے نہیں اگاتا ۔ لیکن تم نے یہ خیال نہیں کیا کہ جب تک صحرا میں گھاس کا بیج نہ ہو گھاس نہیں اگتی اور جب گھاس کا بیج زمین پر گرے تو جب تک بار ش زمین کو نم نہ کردے وہ نہیں اگے گی اور بارش خود بخود نہیں برستی بلکہ زمین سے اٹھنے والے بخارات جو بادل کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور برستے ہیں وہ بھی ہر وقت نہیں بلکہ خاص خاص موسموں میں برستے اور زمین کو نم کرتے ہیں تاکہ گھاس کا بیج نم مٹی میں اگ آئے اور سبز ہو جائے اور پھر اس کی جڑیں نکل آيیں جبکہ اسکے برعکس دوسری صورت میں صحرا میں کسی قسم کی گھاس نہیں اگ سکتی تم دس اقسام کے گھاس کا بیج ایک بند برتن میں رکھ دو اور اس برتن میں پانی بھی ڈال دو اور پھر مشاہدہ کرو کہ اسکی جڑیں نکلتی ہیں یا نہیں ؟ کیونکہ صحرا یا دوسری جگہ پر گھاس کو سبزی ہونے کیلئے صرف نمی کافی نہیں ہے بلکہ ہوا کی بھی ضرورت ہے اور ہوا میں ایسا اثر ہوتا ہے جس کی وجہ سے درخت اگتا اور پھلتا پھولتا ہے ۔
اے ابو شاکر سرد علاقوں میں سردیوں کے موسم کی شدید سردی میں گھاس کو گرم خانوں میں اگایا جا سکتا ہے بشرطیکہ ہوا موجود ہو اور سرد علاقوں میں مختلف اقسام کے پھل پیدا کئے جاتے ہیں لیکن یہ پھل گرم خانوں میں ہوا کے بغیر نہیں حاصل ہو سکتے اور اگر ہوا نہ ہو تو نہ صحرا میں گھاس اگتی ہے اور نہ گرم خانے میں پھل اور نہ ہی انسان اور جانور باقی رہ سکتے ہیں ۔ اے ابو شاکر اس کے باوجود کہ ہوا تمہاری اور انسانوں کی زندگی کا ذریعہ ہے ‘ تم اسے نہیں دیکھ پاتے اور صرف اس وقت جب ہوا چلتی ہے تو تمہیں اس کے وجود کا احساس ہوتا ہے کیا تم ہوا کے وجود کا انکار کر سکتے ہو ؟ کیا تم اس بات کا انکار کر سکتے ہو ؟ کہ صحرا میں گھاس کے اگنے کیلئے خاک ‘ ہوا ‘ بارش اور متعلقہ موسم کا ہونا ضروریہے تاکہ گھاس اگے اور ایک ایس قوت کا ہونا بھی ضروری ہے جو ان تمام عوامل کو باہم یکجا کرے اور وہ قوت خداوند تعالی کی ہے اگر تم اہل علم ہوتے تو تمہیں پتہ چلتا کہ حکمت کسی ایسی چیز کے خود بخود وجود میں آنے کو تسلیم نہیں کرتی اور ہر چیز کے وجود میں آنے کیلئے اس کے خالق کا ہونا ضروری ہے خواہ و جمادات ہوں یا نباتات یا جانور ہوں کہ انسان بھی جانوروں کے زمرے میں شامل ہے اگر تم عالم ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ متعدد مکاتب کے حکما میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں گزرا جو خالق کا معتقد نہ ہو ۔
بعض اوقات یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بعض حکماء خالق کے معتقد بنے تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خالق کو اللہ کے نام سے علاوہ کسی اور نام سے پکارتے تھے ورنہ حتیکہ وہ لوگ جو مطلقا خدا کی نفی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ خالق کا وجود نہیں ہے پھربھی وہ اپنی حکمت میں کسی مبداء کے معتقد تھے اور وہ اپنے اس مبدا کے عقیدے سے بے نیاز نہیں ہو سکتے تھے اے ابو شاکر خالق کا انکار کرنا جہالت ہے نہ کہ دانش مندی ایک عقل مند انسان اگر صرف چند منٹوں کیلئے جسم کے نظام پر غور کرے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس متوازن اور دائمی نظام کا کوئی ناظم بھی ہے اور جس نے اس دنیا کو خلق کیا ہے وہی اس کا ناظم بھی ہے اور کوئی چیز دنیا کے نظام کو درھم برھم نہیں کر سکتی سوائے دنیا کے ناظم کے اے ابو شاکر تو نے مجھ سے کہا ہے کہ تم اور میں دونوں اپنے خدا کو بناتے ہیں اور تیرے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا خدا خود ہمارے ہاتھوں وجود میں آتا ہے اس فرق کے ساتھ کہ تو اپنے خدا کو ترکھان کے اوزار یا لکڑی یا پتھر توڑنے والے آلے کی مد د سے پتھر تراش کر اور میں اپنے خدا کو اپنے تخیل سے وجودمیں لاتا ہوں ۔ تمہارے خدا اور میرے خدا میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ جب تو ترکھان کے اوزار یا سنگ تراشی کے آلات ہاتھ میں لیتا ہے اور کام شروع کرتا ہے تو اس وقت تمہارا خدا موجود نہیں ہوتا لیکن میرا خدا میرے سوچنے سے بھی موجود ہوتا ہے میں نے اپنے خدا کو خود تیار نہیں کیا اور نہ ہی اسے اپنی سوچ کے کے نتیجے میں وجود میں لایا ہوں تمہارا خدا تمہارے بقول تمہارے ہاتھوں کا بنایا ہوا ہے اور اس کو بنانے کے لئے لکڑی یا پتھر کی ضرورت ہے میرا خدا میرے تخیل کی پیدوار نہیں ہے کیونکہ وہ میرے سوچنے سے پہلے ہی سے موجود تھا جو کچھ میں نے کہا اور کرتا ہوں وہ اپنی سوچ کے ذریعے خدا کی بہتر معرفت حاصل کرنا اور اسکی عظمت پر غور و فکر کرنا ہے۔
(علیہ السلام ) جس وقت تم جنگ کی طرف جاتے ہو اور ایک پہاڑ کو دیکھتے ہو اور اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کرتے ہو تو کیا میں کہہ سکتا ہوں کہ تم نے اسے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے یا اپنے غور و فکر سے ایجاد کیا ہے ۔
پہاڑ تم سے پہلے بھی تھا اور تمہارے بعد بھی رہے گا جو کچھ تمہیں کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اس کو اچھی طرح پہچانو اور یہ پہچان بھی معرفت کی حد تک محدود ہے تم پہاڑ کو اچھی طرح نہیں پہچان سکتے کیونکہ تمہاری دانائی اتنی نہیں ہے کہ تم پہاڑ کے مبداء کی شناخت کر سکو اور یہ جان سکو کہ پہاڑ کی انتہا کس وقت ہو گی اور یہ کس چیز سے بنا ہے اس کے جوف میں یا س کی گہرائی میں کون کون سی دھاتیں موجود ہیں اور وہ دھاتیں زمین سے نکالی جائیں تو انسان کو کیا کیا فائدے پہنچا سکتی ہیں ۔
تمہیں معلوم نہیں کہ پہاڑ میں موجود پتھر کس وقت اور کیسے وجود میں آئے اگر تم دانا ہوتے تو ہرگز نہ کہتیکہ بت جو تمہارا خدا ہے اسے تم وجود میں لاتے ہو ۔ چونکہوہلکڑی یا پتھر جس سے تم بت بنا رہے ہو یا تراش رہے ہو اسے تم وجود میں نہیں لائے ۔
کیا تم جانتے ہو کہ جس پتھر کو تم تراشے اور بت کی شکل دیتے ہو وہ ہزاروں سال پہلے سے موجود ہے اور تمہارے بعد بھی موجود رہے گا ‘ اور کیا تجھے معلوم ہے کہ جس پتھر سے تم بت تراشتے ہو وہ بہت دور دراز کی دنیا سے آیا ہے کیونکہ زمین کے مختلف حصے مسلسل حرکت کر رہے ہیں لیکن چونکہ ان کی حرکت سست ہے ہم اسے دیکھ نہیں سکتے اور اگر تم ایک عقلمند انسان ہوتے اور خدا کے معتقد ہوتے تو تمہیں پتہ چل جاتا کہ اس دنیا میں کوئی بھی ایسا چیز نہیں جو متحرک نہ ہو یعنی دنیا میں جمودبے معنی ہے اور ہماری زندگی میں بھی جمود بے معنی ہے کیونکہ ہم کسیحال میں بھی ساکن نہیں حتی کہ سوتے ہوئے بھی سوتے میں ہم زمین کی حرکت کے ساتھ حرکت کرتے ہیں اور یہ حرکت ہمارے اندر موجود حرکات کے علاوہ ہے ۔ اے ابو شاکر میں اس سے کہیں چھوٹا ہوں کہ اپنے خدا کو اپنے تخیل میں لا سکوں یہ وہ ہے جو میرے شعور کو وجود میں لایا ہے تاکہ میں اس کی مدد سے اسے اچھی طرح پہچان سکوں ور میرا یہ شعور میرے مرنے کے بعد ختم ہو جائے گا لیکن اس کی ذات باقی رہے گی ۔ اے ابو شاکر جان لو ختم ہونے سے رہے گا کیونکہ صرف خدا کے علاوہ اس دنیا میں موجود تمام چیزوں میں تبدیلی وقوع پذیر ہوتی ہے اے ابو شاکر اگر تو اس پتھر کے ٹکڑے کو جس سے تو بت تراشتا ہے پہچان لے تو اتنی آسانی سے خدا کے وجود کا انکار نہیں کر سکتا اور ہر گز یہ نہ کہتا کہ میرا خدا میرے تخیل کی پیدوار ہے تم چونکہ پتھر کو نہیں پہچانتے لہذا خیال کرتے ہو کہ پتھر تمہارے ہاتھوں کامطلع ہے اورتم اسے جس شکل میں چاہو تراش سکتے ہو ایسا اس لئے ہے کہ جب اس کے مبداء کی شناخت نہ ہو سکتی تھی اس وقت خداوند تعالی پتھر کو ایک مائع سے وجد میں لایا تاکہ تم اسے تراش سکو وگرنہ تمہارے ہاتھوں میں شیشے کی مانند چکنا چور ہو جاتا ۔
ابو شاکر نے پوچھا کیا پتھر کو مائع سے بنایا گیاہے ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ہاں ابو شاکر وہ قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا اس پر جعفر صادق (علیہ السلام ) کا ایک شاگرد طیش میں آ گیا لیکن جعفر صادق (علیہ السلام ) نے اسے کوئی قدم اٹھانے سے منع کر دیا اور کہا اسے ہنسنے دو ۔
ابو شاکر نے کہا میں اس لئے ہنس رہا ہوں کہ تمہارے بقول اتنا سخت پتھر پانی سے بنایا گیا ہے جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا میں نے یہ نہیں کہا کہ پانی سے بنایا گیا ہے بلکہ میں نے کہا ہے کہ یہ شروع میں مائع حالت میں تھا ابو شاکر بولا ‘ مائع اور پانی ایک ہی تو ہیں جعفر صادق (علیہ السلام ) نے نہایت بردباری سے جواب دیا کہ بعض چیزیں ایسی ہیں جو مائع ہیں لیکن پانی نہیں ہیں یا خالص پانی نہیں ہیں دودھ مائع ہے لیکن پانی نہیں ہے اور سرکہ مائع ہے لیکن کوئی اسے پانی نہیں سمجھتا لیکن ان دونوں میں پانی کی مقدار موجود ہے ۔
پتھر بھی شروع میں مائع تھا لیکن پانی نہیں بلکہ رطوبت کی شکل میں تھا اور سیال تھا اس سے کافی مقدار میں حرارت نکل رہی تھی اور خدا کی قدرت سے اس مائع سے آہستہ آہستہ کافی تعداد میں حرارت خارج ہونے لگی اور اس قدر ٹھنڈا پڑ گیا کہ اس کی شکل جامد بن گئی اور تم آج اس سے بت تراش سکتے ہو لیکن یہی پتھر جو جامد حالت میں ہے اگر اسے زیادہ حرارت پہچائی جائے تو مائع صورت اختیار کر لے گا ۔ابو شاکر بولا میں جونہی گھر جاؤں گا پتھر کو آگ میں ڈال کر دیکھوں گا کہ آپ کا فرمان صحیح ہے اور پتھر مائع شکل اختیار کر لیتا ہے یا نہیں ؟
جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا؟ تمہاری انگیٹھی کی حرارت پتھر کو نہیں پگھلا سکتی کیا تم اپنی انگیھٹی کی حرارت سے لوہے کے ایک ٹکڑیکو پگھلا سکتے ہو ۔ ابو شاکر نے نفی میں جواب دیا جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا پتھر کو پگھلانے کیلئے ایک بھٹی درکار ہے اور اس بھٹی میں کافی مقدار میں ایندھن ایک لمبی مدت تک جلایا جائے تاکہ بھٹی خوب گرم ہو جائے تو اس وقت پتھر مائع حالت میں تبدیل ہو جائے گا میں تم سے یہ کہنا چاہتا تھا کہ تم جب ایک بت کو تراشتے ہو تو خیال کرتے ہو کہ تم نے اسے تراشا ہے حالانکہ خداوند تعالی کا پیدا کیا ہوا ہے یہ اس کی ذات ہے جس نے پتھر کو مائع حالت سے جامد حالت میں تبدیل کر دیاہے کہ تیری تراش سے وہ ریزہ ریزہ نہیں ہوتا اور اگر شیشے کی مانند ہوتا تو ہر گز اس کو تراش کو بت نہ بنا سکتا ۔
یہ خداوند تعالی ہے جس نے تجھے پیدا کیا ور تجھے ہاتھ دیئیاور تمہاری انگلیاں اس طرح بنائیں کہ تم اوزاروں کو اپنے ہاتھ میں پکڑ سکتے ہو اور پھر تمہیں شعور عطا کیا تاکہ تم پتھر سے انسانوں یا جانوروں یا دوسری چیزوں کے مجسمے تراش سکو ۔
میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ پتھر کو تراشنے کے مرحلے میں یہ تم ہو جو اپنے خدا کا وجود میں لاتے ہو ۔ لیکن تم اپنے خدا کو وجود میں لانے کیلئے جتنے وسائل استعمال کرتے ہو وہ سب ان دیکھے اور واحد خدا کی طرف سے وجود میں لائے ہوتے ہیں یہاں تک کہپتھر کو تراشنے کیلئے تمجس شعور سے کام لیتے ہو وہ بھی خداوند تعالی کا عطا کیا ہو اہے ۔
اے ابو شاکر یہ شعور خداوند تعالی نے تمہیں عطا کیا ہے اور تم اس شعور کی مدد سے بت تراشتے ہو تاکہ اس کی پوجا کرو ۔ اگر خداوند تعالی تمہیں یہ شعور عطا نہ کرتا تو تم ہر گز ایک بت تراشنے پر توجہ نہ دے سکتے اور اسے اپنا خدا نہ جان سکتے ۔
اے ابو شاکر میں تم سے ایک سوال کرتا ہوں اور تمہارے جواب کا منتظر ہوں کیا تم جب ایک بت تراشتے ہو اور اسے اپنا خدا سمجھتے ہو تو کیا تمہارا عقیدہ ہے کہ پتھر کا وہ ٹکڑا تمہاری حاجات بر لانے کیلئے توانا ہو جائے گا ؟ اور کیا تمہارا خیال ہے کہ جب تم بیمار ہوتے ہو تو پتھر کا وہ ٹکڑا تمہارا علاج کر سکتا ہے ؟ اور اگر متعدی بیماریکی صورت میں کوئی وبا پھوٹ پڑے گی وہ تمہیں اس سے نجات دلا سکے گا ؟ اور اگر بارش نہ ہو تو پتھر کا وہ ٹکڑا خشکی کو دور کرکے بارش برسا کر خشکی کو دور کر سکے گا اور اگر تم کسی کے قصدار بن جاؤ تو وہ تمہاا قرض اتار دے گا ؟ ابو شاکر بولا میں پتھر سے اس قسم کی امید نہیں رکھتا ۔
جعفر صادق (علیہ السلام )نے کہا‘ تو پھر کس سے اس طرح کی امید رکھتے ہو ؟ ابو شاکر نے کہا ‘ میں صحیح طرح سے نہیں بتا سکتا کہ میری یہ امیدیں کس سے وابستہ ہیں لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ پتھر کے اندر کوئی ایسی چیز ہے جو سب کام کر سکتی ہے ۔ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے پوچھا کیا پتھر کے اندر پتھر کی جنس سے کوئی چیز ہے ؟ ابو شاکر نے کہا ۔ اگر پتھر کی جنس سے کوی چیز ہو تو وہ کام نہیں اور تمام کام انجام دے سکتا ہے وہ وہی ان دیکھا اور واحد خدا ہے ۔
ابو شاکر سوچ میں پڑ گیا اور چند لمحوں کو کے بعد پوچھنے لگا کیا دکھائی نہ دینے والا واحد خدا پتھر کے اندر موجود ہے ؟
جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ہر چیز کے اندر اور ہر جگہ موجود ہے ابو شاکر نے کہا ‘ میری عقل اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتی کہ ایک چیز ہر جگہ موجود ہو لیکن دکھائی نہ دے ۔
جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا کیا تمہاری عقل اس بات کو قبول نہیں کرتی کہ ہوا جو دکھائی نہیں دیتی لیکن پھر ہر جگہ موجود ہے ۔
ابو شاکر نے جواب دیا اگرچہ ہوا دکھائی نہیں دیتی لیکن خود آپ کے بقول جب وہ چلتی ہے تو محسوس کی جا سکتی ہے لیکن آپ کا خدا جو دکھائی نہیں دیتا اسے محسوس نہیں کیا جا سکتا ۔
جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا جب ہوا نہیں چلتی تو کیا تم ہوا کو محسوس کر سکتے ہو ؟ابو شاکر نے نفی میں جواب دیا ۔ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا کیا تو اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ جو کچھ تو نہیں دیکھ پاتا اور محسوس نہیں کرتا ہر جگہ موجودہے ؟ابو شاکر نے اثبات میں جواب دیا ۔
جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا خدا بھی دکھائی نہ دینے کے لحاظ سے ہر جگہ موجود ہے مثلا جس طرح ہوا موجود ہے لیکن ہوا چونکہ عنصر اور مخلوق ہے لہذا مخلوق اور خالق کے درمیان ماہیت کے لحاظ سے کوئی شباہت نہیں پائی جاتی ۔
اے ابو شاکر وہ شعور جو تجھے ایک پتھر سے بت تراشنے اور اس کی پرستش کیلئے کہتا ہے تو وہ تیرے اپنے بقول تجھے کہتا ہے کہ اس بت سے تجھے کوئی امید وابستہ نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ وہ کسی کام کے کرنے کیصلاحیت نہیں رکھتا بلکہ اس کے اندر ایسی چیز ہے جو تمہاری حاجات بر لا سکتی ہے یہ شعور جو تجھے بت بنانے پر لگاتا ہے گویا اپنی زبان سے تجھے کہتا ہے کہ تو خداوند تعالی کی پرستش کے بغیر زندگی بسر نہیں کر سکتا اور خدا کی پرستش تمہارے لئے ناگزیر ہے ابو شاکر نے کہا میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ میں بت کی پوجا کے بغیر اپنی زندگی جاری نہیں رکھ سکتا ۔
جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا یہ نہ کہو کہ بت کی پوجا کے بغیر بلکہ یہ کہو کہ اس کی پوجا کیلئے جس کی پوجا کیلئے تم بت تراشتے ہو کیا اگر آج تم کسی وجہ سے اس کی پرستش سے باز آ جاؤ تو کیا تم زندگی جاری رکھ سکتے ہو ؟ ابو شاکر بولا نہ ‘ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ‘ ہر انسان کیلئے ناگزیر ہے کہ خدا کی پوجا کرے اور اگر خدا کی پوجا نہیں کرے گا تو نہ تو زندگی میں اسے کوئی راہنما ملیگا اور نہ وہ کسی چیز پر تکیہ کر سکے گا اب اگر کوئی خدا کو نہیں پوجتا اس کی مثال ایسی ہے کہ اس نے ایک لمحی میں حواس خمسہ کو ضائع کر دیا ہے وہ نہیں جانتا کہ کہاں جائے ‘ کیا کرے اور کس کا سہا را لے ۔
خداوند تعالی کی پوجا کا موضوع زندگی میں اس قدر ضروری ہے کہ جانوروں کی زندگی میں بھی موجود ہی اور وہ بھی خداوند تعالی کی پرستش سے بے نیاز نہیں ہیں اور اگر ہم ان کی زبان سے واقف ہوتے اور جو کچھ وہ کہتے ہیں اسے سن سکتے تو ہمیں پتہ چلتا کہ وہ بھی خدا کی پوجا کر رہے ہیں ۔
ہم جانوروں سے گفتگو نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا وہ خداوند کے معتقد ہیں یا نہیں ؟ البتہ عقل کی رو سے ہم خود یہ بات آسانی سے سمجھ کستے ہیں کہ جانور بھی خدا کی عبادت کرتے ہیں اور ان کی زندگی میں پایا جانے والا ڈسپلن اسی باتکی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ خدا کی پرستش کرتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ جانور پرستش کے لحاظ سے ہماری طرح عقیدہ رکھتے ہیں لیکن اس میں مجھے کوئی شک نہیں کہ وہ ایک مبدا کے قواعد کے مطبع ہیں اور ان قواعد کے سختی سے پابند ہیں کیونکہ اگر اس مبدا کے قواعد کے سختی سے پابند نہ ہوتے تو جو نظر اور ترتیب ان کی زندگی میں نظر آ رہی ہے وہ ہر گز نظر نہ آتی ۔
تجھے معلوم ہے کہ بہار آنے پر (پرندہ) مقررہ ہفتے میں آتا ہے اور گاتا ہے اور ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ بہار کے آنے کی خوشخبری سنا رہا ہے ۔
اس مہاجر پرندے کا آنا اس قدر منظم ہے کہا گر سردیوں کے آخری دنوں کی ہوا ٹھنڈی ہو تو وہ ایک ہفتے سے لے کر دس روز آنے میں لگاتا ہے۔
اور اس سے زیادہ دیر نہیں لگاتا اس کے بعد ابابیل آتا ہے اور شاید وہ ہزاروں میل کا راستہ طے کرتا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اسی جگہ گھونسلہ بناتا ہے جہاں اس نے گذشتہ بہار میں بنایا تھا ۔ کیا ایک مبدا کی اطاعت اور اس پر عقیدے کے بغیر یہ چھوٹا سا پرندہ اس قدر منظم زندگی گزار سکتا ہے اور جو کام اس نے انجام دینا ہوتا ہے وہ کسی سستی اور دیر کے بغیر مقررہ تاریخ کو انجام دے دیتا ہے اے ابو شاکر حتی کہ درختوں کا بھی خدا پر ایمان ہے اور اپنے شعور سے خداوند تعالی کی پیروی کرتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کی زندگی ہر گز اس قدر منظم نہ ہوتی ۔ خداوند تعالی نے درختوں کے جو ایک سو پچاس طبقات بنائے ہین اور ان میں سے ہر طبقے کی کئی کئی اقسام ہیں تم ان میں سے کوئی ایک درخت بھی ایسا نہیں پاؤ گے جس کی زندگی غیر منظم ہو ۔
اے ابو شاکر ‘ درخت بھی میری اور تمہاری طرح اپنے خدا کو نہیں دیکھتے لیکن اپنے شعور کی وجہ سے اس کی پرستش کرتے ہیں اور درخت کی خدا پرستی کی دلیل یہ ہے کہ وہ بغیر کسی تاخیر اور سستی کے خداوند تعالی کے مقرر کردہ قوانین کی اطاعت کرتے ہیں اور اگر درخت کا خدا نہ ہوتا اور وہ اس کی پرستش نہ کرتا تو اس کی زندگی میں یہ منظم روش نہ دیکھی جاتی مجھے معلوم ہے کہ تو اس چیز کو تسلیم نہیں کرتا جو میں کہتا ہوں اور شاید اسے سمجھ بھی نہیں پاتا کیونکہ بعض مسائل کو سمجھنے کیلئے کم از کم علم کے مقدمات کو طے کرنا ضروری ہے تاکہ آدمی کسی حد تک کچھ سیکھ کر اپنی جہالت دور کرکے بعض مسائل کو سمجھنے کیلئے تیار ہو سکے میں کہتا ہوں کہ نہ صرف جانور اور درخت اپنے حیوانی اور شجری شعور کی مدد سے خداوند تعالی کی پرستش کرتے ہیں بلکہ جمادات بھی اپنے جمادی شعور سے خدا کی پرستش کرتے ہیں اور اگر وہ خدا کی پرستش نہ کرتے تو ان کی جمادی زندگی درہم برہم ہو جاتی اور ان کے ذرات پاش پاش ہو جاتے ۔
اے ابو شاکر تو اس روشنی کو دیکھ رہا ہے جو یہاں چمک رہی ہے ‘ جس کی وجہ سے میں اور تو ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں ۔ یہ روشنی جس کا منبع سورج ہے ‘ یہ بھی خدا کی پرستش کر رہی ہے چونکہ یہ ان قواعد کی پیروی کر رہی ہے جو خداوند تعالی نے اس کیلئے مقرر کر دیئے ہیں اور اس کی اطاعت اس قدر منظم اور صحیح ہے کہ یہ دو متضاد عوامل سے وجود میں آتی ہے اور ان دو عوامل میں سے کسی ایک میں بھی روشنی نہیں ہوتی لیکن جب یہ دونوں آپس میں ملتے ہیں تو روشنی پیدا ہو جاتی ہے وہ دو متضاد عوامل ہیں ان کی اطاعت کرتے ہیں تب ہی روشنی وجود میں آتی ہے ۔
اے ابو شاکر ‘ اگر خداوند تالی موجود نہ ہوتا تو یہ جہاں بھی موجود نہ آتا اور میں اور تو بھی یہ کلام کہ اگر خداوند تعالی موجود نہ ہوتا ‘ صرف بے معنی لفظ ہے کیونکہ یہ محال تھا اور ہے کہ خداوند تعالی موجود نہ ہوتا ۔ دوسرے معنوں میں ‘ خدا واجب الوجود ہے ۔
اگر خداوند تعالی نہ ہوتا اور مجھیا ور تمہیں پیدا نہ کرتا تو یہ بے معنی الفاظ " اگر خداوند تعالی نہ ہوتا " ہرگز ہمارے تخیل میں نہ آتے اور اگر ایک لمحے کیلئے خداوند تعالی کی توجہ اس کائنات کے انتظام سے ہٹ کر کسی اور طرف مائل ہو جائے تو یہ کئانت اور جو کچھ اس میں موجود ہے فنا ہو جائے گا یعنی دوسری جیزوں میں تبدیل ہو جائے گا کیونکہ کوئی چیز ختم ہونے والی نہیں ہے لیکن خدا کی توجہ دنیا کے امور کے انتظام سے ہر گز نہیں ہٹتی کیونکہ دنیا کے امور کا انتظام مستقل اور ہمیشہ کیلئے طے شدہ قواعد کے تحت چل رہا ہے جن میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی کیونکہ خداوند تعالی دانا ہے اور اس کی مطلق دانائی اس بات کا باعث ہے کہ جو قاعدہ اس نے کائنات کے امور کو منظم کرنے کیلئے وضع کیا ہے وہ ہمیشہ کیلئے ہے اس نے تمام چیزوں کی ابد تک کیلئے پیشگوئی کر دی ہے اور اس نے جو تمام قواعد دنیا کیلئے مقرر کر دیئے ہیں ان میں اس کی مصلحت ہے اور کوئی ایسا قاعدہ نہیں جو مصلحت سے خالی ہو ۔

موت ؟
امام جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ‘ احمق لوگوں کی نظر میں ایک قاعدہ جو مصلحت کے بغیر ادھورا بلکہ مضر ہے وہ موت ہے اور احمق لوگ انسان کی موت کو ایک بڑا ظلم خیال کرتے ہیں جو خداوند تعالی کی طرف سے انسان پر کیا جاتا ہے ۔
لیکن انسان کی موت میں ایک مصلحت ہے اگر یہ موت نہ ہوتی تو بنی نوع انسان ختم ہو گیا ہوتا اور قدیم زمانے کے سائند دان جنہوں نے موت کو ختم کرنے کی کوشش کی وہ سنگین غلطی پر تھے اور میں آئندہ آنے والے سائنس دان کو وصیت کرتا ہوں کہ موت کو ختم کرنے کی طرف توجہ نہ دیں کیونکہ اگر موت ختم ہو گئی تو نسل انسانی تباہ ہو جائے گی ۔
اے ابو شاکر چند لمحوں کیلئے غور کرو کہ اگر موت نہ ہو اور آدمی یہ جان ے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ رہے گا ‘ جونہی یہ پتہ چلا کہ آدمی نہیں مرے گا تو ظالم لوگ دوسروں کا مال ہڑپ کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ لا محدود زندگی میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دولت کے مالک بنے رہیں اور چونکہ کمزور لوگ اپنے اموال کے بچاؤ کی خاطر ظالموں کے خلاف متحد ہونگے اور مقابلہ کریں گے ۔ تو توانا غاصب دوسروں کو ختم کر دیں گے کیونکہ فطری موت تو نہیں لیکن قتل کے ذریعے موت موجود ہے لہذا طاقتور غاصب کمزور لوگوں کو قتل کر دیں گے آج جب کہ ہر طاقتور غاصب آدمی کو علم ہے کہ وہ ایک دن مر جائے گا اور اس کی موت زیادہ دور نہیں ہے پھر بھی اس کے باوجود وہ مال و دولت جمع کرنے کی حرص کرتا ہے اور ہمیشہ کیلئے زندہ رہیں گے تو ان کی حرص آج کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی پھر طاقتور لوگوں کی آپس میں بھی جنگ و جدل ہوتی اور آخری کار سب سے طاقتور شخص باقی رہ جاتا جس کا مطلہ یہ ہوا کہ نسل انسانی ختم ہو جاتی ۔
اگر موت نہ ہو تو زندگی میں کسی کیلئے لذت نہیں ہے جس طرح کام نہ کرنا ہو تو آرام میں کسی کیلئے لذت نہیں ہے جو چزی لوگوں کی زندگی میں کش کا باعث ہے وہ موت کا خوف ہے اے ابو شاکر آج اگر والدین اپنے بیٹے پر مہربان ہیں تو اس لئے کہ انہیں علم ہے کہ وہ مر جائیں گے اور ان کا بیٹا زندہ رہے گا اور ان کے بعد ان کا بیٹا اس دنیا میں ان کی یادگار ہو گا ۔
اور اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کے نام کو بھی اس دنیا میں روشن کرے گا ۔ اے ابو شاکر اگر موت نہ ہوتی تو خدا پرست لوگ خدا سے نہ ڈرتے ۔
آج جبکہ ہر موحد خدا سے ڈرتا اور اس کے احکام بجا لاتا ہے تو اس لئے اسے معلوم ہے اگر خدا کی اطاعت نہیں کرے گا اور اس کے احکام بجا نہیں لائے گا تو موت کے بعد قیامت کے دن سز ا کا مستوجب ہو گا ۔ لیکن اگر موت نہ ہوتی تو چونکہ کوئی نہ مرتا ۔ تو لا محالہ قیامت کا دن بھی نہ ہوتا ‘ کیونکہ قیامت کے دن کیلئے ضروری ہے کہ انسان مرنے کے بعد زندہ ہو اور خداوند تعالی اس دنیا میں کیے گئے اعمال کی اسے جزا یا سزا دے ۔
موت سے خوف توحید پرست لوگوں کو خدا کے احکامات کی بجا آوری کی طرف مائل کرتا اور ظلم سے روکتا ہے‘ ہم یہ نہیں کہتے کہ ظَم وجود میں نہیں آتا کیونکہ موت سے خوف کے باوجود ظلم ختم نہیں ہوا اور وہ لوگ جو خدا کے معتقد نہیں ہیں دوسروں پر ظلم و ستم کرتے ہیں ۔
چونکہ وہ شخص جس کا خدا پر ایمان ہو اور اس کے احکامات کی پیروی کرتی ہو وہ دوسروں پر ستم نہیں کرتا اگر موت موجود نہ ہوتی اور فرض کریں بنی نوع انسان باقی رہتی تو زندگی کی جو حالت ہم آج دیکھ رہے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ بد تر ہوتی ۔
ایسی صورت میں کوئی بھی اپنے آپ کو گرم صحراؤں یا ٹھنڈے علاقوں میں زندگی بسر کرنے کی زحمت نہ دیتا ۔ اور جو علاقے آب و ہوا کے لحاظ سے معتدل ہیں وہ وہاں چلا جاتا اور وہاں کے ساکنوں کو قتل کرکے ان کی اراضی پر قبضہ کرنے کے بعد آرام سے وہاں زندگی گزارنے لگتا اور انسان صرف ایسی صورت میں نقل مکانی کرتا جب وہ مقامی آبادی کو ختم کرکے ان کی جائیداد پر قبضہ نہ جما سکتا ۔
اگر فرض کریں ‘ موت نہ ہونے کی صورت میں بنی نوع انسان ختم نہ ہوتا تو چند صدیوں کے دوران ہی انسانی آبادی اس قدر بڑھ جاتی کہ انسان نہ صرف تمام جانوروں بلکہ بھوک مٹنے کیلئے اپنے ہم جنسوں کو بھی کھا جاتا کیونکہ آ۶ادی اس قدر بڑھ جاتی کہ زمین پر کھیتی باڑی کیلئیجگہ نہ ملتی کہ لوگ اس میں ہل چلا کر بیج بوئیں ۔ کھیتی باڑی ختم ہو اجتی اور انسان آہستہ آہستہ پہلے جانوروں کو کھانا شروع کرتے اور جب تمام جانور ختم ہو جاتے تو بھوک مٹانے کیلئے ان کے پاس انسانوں کو کھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا ۔ اور یہ موت ہے جس کی وجہ سے انسانی آبادی اس قدر نہیں بڑھتی کہ زمین میں کھیتی باڑی کیلئے کوئی جگہ باقی نہ رہے اور یہ موت ہے جو انسان کو خداوند تعالی کے احکامات کی پیروی پر لگاتی ہے یہ موت ہیجو انسان کے دل میں اپنوں اور غیروں کیلئے رحم کا مادہ پیدا کرتی ہے یہ موت ہے جو غاصبوں کو دوسروں کا مال ظلم سے ہڑپ کر جانے کے راستے میں حائل ہوتی ہے یہ موت ہی ہے جو زندگی انسانوں کیلئے شیرین بناتی ہے خداوند تعالی نے جو چیز بھی پیدا کی ہے اس میں ایک یا ایک سے زیادہ مصلحتیں پوشیدہ ہیں اگرچہ وہ ہماری نظر میں بے سود یا مضر ہی کیوں نہ ہوں ۔
اے ابو شاکر ‘ تم پتھروں سے بھرے ہوئے پہاڑوں کو بے فائدہ خیال کرتے ہو اور اپنے آپ سے پوچھتے ہو کہ پہاڑ کس لئے پیدا ہوئے ہیں ؟
جبکہ خداوند تعالی نے مصلحت کے تحت پہاڑوں کو پیدا کیا ہے ‘ جہاں جہاں پہاڑ ہے ‘ جاری پانی بھی موجود ہے کیونکہ پہاڑ کی بلدیوں پر بارش اور برف پڑتی ہے جس کی وجہ سے چشمے وجود میں آتے اور نہروں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور پہاڑ سے جاری ہونے ولی نہر زرعی زمین کو سیراب کرتی ہے اس لئے لوگ پہاڑ کے دامن میں رہائش اختیار کرتے ہیں تاکہ زراعت کریں کیونکہ پانی میسر ہوتا ہے وہاں گرمیوں میں آب و ہوا ٹھنڈی ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جو لوگ گرم علاقوں میں رہتے ہیں گرمیوں میں اکی کوشش ہوتی ہے کہ پہاڑی علاقوں میں جائیں تاکہ گرمی سے محفوظ رہ سکیں ۔
پہاڑ کے دامن میں واقع شہر ‘ قصبے اور دیہات ‘ پہاڑ کی پیٹھ کی طرف سے آنے والے طوفانوں کا شکار نہیں ہوتے کیونکہ پہاڑ اس طوفان کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہوتا ہے ۔
سر سبز پہاڑ ‘ جانوروں کے چرانے کیلئے مفید ہوتے ہیں اور گرمیوں میں جب دوسری جگہوں پر گھاس نہیں ہوتی تو گڈریئے اپنی بھیڑ بکریوں کو پہاڑ کی طرف لے آتے ہیں اور جاڑے کے آنے تک وہ اپنی بھیڑ بکریوں کو پہاڑ پر چرا سکتے ہیں ۔
ان سر سبزی پہاڑوں میں ایسے چرند و پرند ملتے ہیں جو حلال گوشت ہیں اور وہ دامن کوہ میں سکونت پذیر افراد کیلئے غذا کا سامان بھی ہیں حتی کہ جن پہاڑوں پر سبزہ اور پانی نہیں ‘ وہ بھی مکمل طور پر بے سود نہیں ہیں اور اگر ان میں معدنیات تلاش کی جائیں تو ممکن ہے وہاں معدنیات ملیں جو انسانی زندگی کیلئے مفید ہوں ۔
جب جعفر صادق (علیہ السلام ) کی گفتگو ختم ہوئی تو ابو شاکر سوچ میں پڑ گیا یہ نظر آ رہا تھا کہ آپ کی باتوں کا اس پر گہرا اثر ہوا ہے ۔
جعفر صادق (علیہ السلام ) نے اس سے پوچھا کیا تو اس بات کا قائل ہو اہے کہ ان دیکھا خدا موجود ہے اور کیا اس بات کا قائل ہوا ہے کہ جس چیز کی تم اپنے بت میں پوجا کرتے ہو وہ بت نہیں بلکہ نہ دکھائی دینے والا خدا ہے ۔
ابو شاکر نے جواب دیا ‘ ابھی تک میں قائل نہیں ہوا لیکن شک میں ضرور پڑ گیا ہوں ۔
جعفر صادق (علیہ السلام ) نے اظہار خیال فرمایا بت پرستی کے بارے میں شک ان دیکھے اور واحد خدا کی پرستش کا آغاز ہے ابو شاکر نے کہا ‘ خصوصا موت کے بارے میں آپ کی گفتگو نے مجھ حیران کر دیا ہے جعفر صادق (علیہ السلام ) نے پوچھا ‘ اس کی کونسی چیز تمہاری حیرانی کا باعث بنی ہے ؟
ابو شاکر بولا ‘ آپ کی گفتگو سے میں یہ سمجھا ہوں کہ ہم انسانوں کو جتنا ہو سکے اپنے آپ کو قتل کر دینا چاہیے ‘ کیونکہ آپ کے بقول خدا کی مصلحت اسی میں ہے کہ آدمی مرے ‘ اور چونکہ خدا کی مصلحت اس طرح ہے لہذا جتنا جلدی ہم مر جائیں ‘ بہتر ہے جعفر صادق (علیہ السلام ) نے کہا اے ابو شاکر جو کوئی اپنے آپ کو قتل کرے وہ خداوند تعالی کے قانون سے منہ موڑتا ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس کے بندوں کو اپنی جان کی حفاظت کرنا چاہیے اور جان کی حفاظت کا ایک راستہ یہ ہے کہ کھانے پینے میں افراط سے کام نہ لیں ۔
کیونکہ کھانے پینے میں افراط سے آدمی طبعی موت سے پہلے ہی مر جاتا ہے ۔ جان کی حفاظت کیلئے میرے جد نے فرمایا ہے کہ اپنے پیٹ کو جاروں کا قبرستان نہ بناؤ ۔ ابو شاکر بولا اس بات کے کیا معنی ہیں ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے جواب دیا یعنی گوشت زیادہ کھانے سے پرہیز کریں ۔ ابو شاکر بولا لیکن میں تو گوشت گھانے میں مذت محسوس کرتا ہوں اور گوشت کھانے سے پرہیز نہیں کر سکتا ۔ امام جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا زیادہ گوشت کھانے سے پرہیز کرو ۔ ابو شاکر نے پوچھا کیوں پرہیز کروں ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے جواب دیا کیونکہ زیادہ گوشت کھانے سے بعض لوگوں پر بیماری کا اچانک حملہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسانی نا گہانی موت کا شکار ہو کر چل بستا ہے ابو شاکر بولا ‘ میں تو پہلی مرتبہ سن رہا ہوں کہ زیادہ گوشت کھانے سے انسان نا گہانی موت سے دو چار ہو جاتا ہے ۔
جعفر صادق (علیہ السلام ) نے اظہار خیال فرمایا ‘ میں نے یہ نہیں کہا کہ گوشت کھانا نا گہانی موت کا سبب بنتا ہے بلکہ میں نے یہ کہا ہے کہ زیادہ گوشت کھانے سے بعض لوگ اچانک بیمار پڑ جاتے ہیں اور زیادہ گوشت کھانا ‘ اچانک بیماری کا سبب بنتا ہے وہ بھی سب لوگوں میں نہیں بلکہ بعض لوگ ایسے ہیں جو گوشت کھاتے ہیں لیکن نا گہانی موت کا شکار نہیں ہوتے ۔
ابو شاکر نے پوچھا ‘ ناگہانی موت کیا ہے ؟
جعفر صادق (علیہ السلام ) نے جواب دیا یہ غیر متوقع موت ہے اس میں انسان بظاہر تندرت و توانا نظر آتا ہے لیکن اندر سے بیمار ہوتا ہے اور اچانک بے ہوش ہو کر مر جاتا ہے ۔
ابو شاکر نے پوچھا کیا باطنی بیماری بھی ہوتی ہے ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے جواب دیا ‘ ہاں اے ابو شاکر بعض لوگ اندرونی طور پر بیمار ہوتے ہیں لیکن انہیں اس بیماری کا احساس نہیں ہوتا اور وہ لوگ جو گوشت اور دوسری مرغن غذائیں کھانے میں اسراف سے کام لیتے ہیں ممکن ہے کہ باطن میں بیمار ہوں اور ان کی بھوک میں کوئیکمی نہ آيے اور وہ درد کا احساس کئے بغیر بے خوابی کا شکار ہو جائیں ۔
ابو شاکر نے کہا ‘ میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ آدمی بیمار ہوئے بغیر مر سکتا ہے ۔ آدمی کسی جنگ یا جھگڑے میں تو مر سکتا ہے لیکن بیمار ہوئے بغیر نہیں مر سکتا جعفر صادق (علیہ السلام )نے فرمایا تم ایسے انسان ہو کہ جب تک کسی چیز کو دیکھ نہ لو اس کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور چونکہ تم نے آج تک کسی کو نا گہانی موت مرتے نہیں دیکھا لہذا تم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ آدمی ممکن ہے بیماری کے بغیر اچانک اس دنیا سے کوچ کر رجائے ۔ لیکن جان لو کہ نا گہانی اموات کی اقسام ہیں ایک دماغ کو دوسری دل کو اور تیسری خون کو لاحق ہوتی ہے ۔
ابو شاکر بولا ‘ دماغ ‘ دل اور خون ہمیں کیسے اچانک ہلاک کر دیتے ہیں ؟
جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ہر قسم کی نا گہانی بیماری کا آخری مرحلہ خون کی خرابی ہے اور کون کی خرابی بھی زیادہ گوشت اور تمام مرغن غذاؤں کو افراط سے کھانے سے لاحق ہوتی ہے اور جب خون میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو اچانک حملہ کرنے والی بیماری دل ‘ دماغ یا خون پر حملہ کرکے انسان کو ہلاک کر دیتی ہے ۔ عرب قبائل جو صحرانشین ہیں ان میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ کوئی نگ گہانی موت سے مرا ہو ۔ کیونکہ عرب قبائل کے صحرا نشین لوگ گوشت اور تمام مرغن غذائیں کم مقدار میں کھاتے ہیں لیکن سال میں ایک مرتبہ دو گوشت کھانے کیلئے مکہ جاتے ہیں تاکہ حج کے دوران جو جانور وہاں ذبح ہوتے ہیں ان کا گوشت کھائیں ‘ یہ لوگ جب تک کچھ دنوں کیلئے مکہ میں ہوتے ہیں کثرت سے گوشت کھاتے ہیں لیکن چونکہ سال میں صرف وہی چند دن گوشت کھاتے ہیں اور جب گھروں کو واپس لوٹتے ہیں تو ان کی غذا ‘ پہلے کی مانند دودھ ہوتی ہے اور اگر ان کے پاس کھجوریں ہوں تو وہ بھی ہوتی ہیں لیکن اس سے ان کا خون خراب نہیں ہوتا جس سے وہ نا گہانی بیماری کے حملے کا شکار ہوں اور دوسرا یہ بھی کہ عرب صحرا نشینوں کی زندگی مشکل ہے اور وہ کھانے پینے میں افراط نہیں برتتے لہذا وہ کافی لمبی عمریں پاتے ہیں ۔
اے ابو شاکر ‘ تو مدینے میں چند ایسے اشخاص کو پہچانتا ہے جن کی عمر سو سال ہو ؟
ابو شاکر بولا ‘ میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو سو سالہ ہو ‘ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ‘ اس شہر میں جب لوگ گوشت اور دوسری مرغن غذائیں کھانے میں افراط سے کام نہیں لیتے تھے سو سال کی مرد اور عورتیں پائی جاتی تھیں اور جس چیز نے اس شہر کے مکینوں کی عمر گھٹا دی ہے وہ مرغن غذاؤں کے کھانے میں افراط ہے لیکن جب کہ اب مدینے میں سو سال کی عورت یا مرد نہیں ہیں اب بھی اگر تم مدینے کی نواحی بستیوں کے صحراؤں کی طرف جاؤ جہاں قبائل سکونت پزیر ہیں تو تم مشاہدہ کرو گے کہ ان کے درمیان سو سال کے مرد اور عورتیں پائی جاتی ہیں اور اس کے باوجود کہ صحرا میں زندگی دشوار ہے ان میں سے بعض بوڑھے افراد اپنے کچھ دانتوں کو سو سال کی عمر تک محفوظ رکھتے ہیں چونکہ زیادہ گوشت اور دوسری مرغن غذاؤں کے کھانے سے ان کے خون میں خرابی بھی پیدا ہوی کہ وہ قبل ازوقت بوڑھے ہو جائیں اور خون کی خرابی جو بعض اشخاص میں نا گہانی بیماری کا باعث بنتی ہے اور پھر اسی کے زیر اثر اکثر اشخاص جلدی بوڑھے ہو جاتے ہیں اور اس سے پہلے کہان کی طبعی عمر پوری ہو وہ مر جاتے ہیں ابو شاکر نے کہا ‘ میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ موت کیا ہے ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے جواب دیا موت بدن کے افعال کا رک جانا ہے ۔ خصوصا دل کی دھڑکنوں اور سانس کا رک جانا ابو شاکر نے پوچھا ‘ انسان کیوں مر جاتا ہے ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے جواب دیا ‘ انسان دو چیزوں سے مرتا ہے ایک بیماری سے اور جیسا کہ میں نے کہا بعض لوگ نا گہانی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ وہصحتمند ہیں لیکن اندرونی طور پر وہ بیمار ہوتے ہیں یہ لوگ بھی بیماری سے مرتے ہیں ۔
موت کا دوسرا سبب انسان کا بڑھاپا ہے اور آدمی اگر صحت مند ہی کیوں نہ ہو آخر اکر بڑھاپے کی وجہ سے مر جائیگا ‘ اور قدیم یونان کے ایک حکیم بقراط نے کہا تھا کہ بڑھاپا بھی بیماری کی ایک قسم ہے اور جن دن اس بیماری کا علاج تلاش کر لیا جائیگا انسان نہیں مرے گا۔
ابو شاکر نے اظہار ‘ خیال کرتے ہوئیکہا لیکن ہمارے ڈاکٹر تو اس بیماری کا علاج نہیں کر سکتے جعفر صادق (علیہ السلام ) بولے ‘ ابو شاکر ‘ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر ہر گز اس بیماری کا علاج نہیں کر سکیں گے ۔
ابو شاکر بولا ‘ آپ کو کیسے علم ہے کہ ہمارے ڈاکٹر اس بڑھاپے کی بیماری کا علاج کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تاکہ انسان کو موت سے بچا سکیں ۔ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا اس لئے کہ موت مشیت الہی ہے اور چونکہ خدا کی قدرت اور مصلحت موت کو وجود میں لاتی ہے ڈاکٹر بڑھاپے کی بیماری کا علاج نہیں کر سکتے (اگر بقول بقراط بڑھاپا بیماری ہو ) کیونکہ جو کچھ خداوند تعالی نے مقرر کر دی اہے نا قابل تغیر ہے مخلوقات میں تبدیلی کا نام ہییہ ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیلی ہے اور کوئی چیز ایک حالت پر باقی نہیں رہتی ۔
حتی کہ اگر خداوند تعالی انسان کیلئے موت مقرر نہ کرتا تو بھی جیسا کہ میں نے کہا اور تم نے سنا کہ بنی نوع انسان کی بہتری اسی میں ہے کہ موت موجود ہو ۔
بنی نوعی انسان کی زندگی کے جریان کیلئے موت اس قدر ضروری ہے کہ اگر موت نہ ہوتی اور انسان باقی رہنا چاہتا تو اسے موت کو وجود میں لانا پڑتا تاکہ انسان مریں اور موت کے نتیجے میں انسان نسل باقی رہے اور برباد نہ ہو ۔
ابو شاکر بولا ‘ بس یہ جو کہا جاتا ہے کہ بعض گذشتہ پیغمبر ہمیشہ کیلئے زندہ ہو گئے اور آج بھی زندہ ہیں ان کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) بولے ‘ اس پر یقین نہ کرو کیونکہ ابھی تک اس دنیا میں کوئی ایسا پیدا نہیں ہوا جو مرا نہ ہو ‘ یا اگر اب زندہ ہے تو نہیں مرے گا ۔ اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ بعض گزشتہ انبیاء زندہ جاوید ہو گئے اور نہیں مرے اور ہر گز نہیں مریں گے ‘ افسانے سے زیادہ کچھ نہیں پیغمبروں میں سب سے افضل پیغمبر ہمارے ہیں اور وہ خاتم النبین ہیں جن پر تو ایمان نہیں لایا ‘ وہ بھی اس دنیا سے کوچ کر گئے ۔ ابو شاکر بولا ‘ میرا خیال ہے جب میں ان دیکھے خدا پر ایمان لے آؤں گا تو تمہارے پیغمبر کی نبوت کو بھی تسلیم کر لوں گا لیکن اسکے باوجود کہ میں تمہاری پیغمبر پر ایمان نہیں لایا میں نے قرآن کے کچھ حصے سنے ہیں جنہیں میں بیان کرنا چاہتا ہوں جو کچھ آپ نے گو شت اور مرغن غذائیں کھانے اور خون میں خرابی کے بار ے میں کہا ہے وہ قرآن کے سر ا سر خلاف ہے ‘ اور ظاہر ہے جب آپ مسلمان ہیں تو آپ قران کو مانتے ہیں ۔
جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا قرآن پر عقیدہ ہے کہ وہ کلام خدا ہے ابو شاکر بولا ‘ جب آپ کا عقیدہ ہے کہ قرآن آپ کے خدا کا کلام ہے تو پھر آپ نے اسکے خلاف بات کیوں کی ؟
جعفر صادق (علیہ السلام ) نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا وہ کونسی بات ہے جو میں نے خدا کے کلام کے خلاف کہی ہے ؟ ابو شاکر نے کہا میں نے سنا ہے خدا نے فرمایا ہے ہر شخص اپنے مقررہ وقت پر مرے گا اس کی موت نہ ایک گھنٹہ اس وقت سے پہلے واقع ہو گی اور نہ ایک گھنٹہ بعد ‘ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ‘ ہاں یہ کلام خدا ہے اور قرآن میں ہے ۔
ابو شاکر نے اظہار خیال کیا ‘ کیا آپ نے نہیں کہا کہ جو شخص زیادہ گوشت اور مرغن غذائیں کھائے گا وہ قبل از وقت نا گہانی بیماری کے نتیجے میں مر جائیگا ؟
جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ‘ ہاں یہ بات میں نے کہی ہے ابو شاکر بولا ‘ آپ کے خدا کا کہنا ہے کہ ہر ایک کی موت کا وقت معین ہے اور وہ اس سے نہ ایک گھنٹہ پہلے اور نہ ایک گھنٹہ بعد میں مرے گا لیکن آپ کہتے ہیں کہ جو کوئی گوشت کھائے ‘ جلدی مر جائیگا اور اسطرح آپ نے کلام خدا کی نفی کی ہے ۔ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا پہلی بات یہ کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ جو کوئی گوشت اور مرغن غذائیں کھائے ناگہانی بیماری کا شکار ہو جائے گا ‘ بلکہ میں نے یہ کہا ہے کہ ممکن ہے بعض لوگ گوشت اور مرغن غذائیں کھانے کے نتیجے میں نا گہانی بیماری کا شکار ہو جائیں ۔ دوسری بات یہ کہ طبعی عمر اور وہ عمر جسے انسان خود کم کرتا ہے ‘ دونوں میں فرق ہے طبعی عمر وہ ہے جو ایک عام انسان گزارتا ہے اور اس عمر کی ایک مدت معین ہے جیسا کہ خداوند تعالی نے فرمایا ہے جس وقت وہ مدت پوری ہو جاتی ہے آدمی مر جاتا ہے اس وقت میں نہ ایک گھنٹہ کی کمی ہوتی ہے اور نہ بیشی ۔
لیکن موت کی دوسری قسم وہ ہے جسے انسان خود اپنے ہاتھوں سے وجود میں لاتا ہے یہ موت طبعی موت سے مختلف ہے اس کا نام خود کشی ہونا چاہیے جو کوئی شخص خنجر سے اپنی گردن اور شاہ رگ کو کاٹتا اور اپنے آپ کو ہلاک کرتا ہے وہ خدا کے مقررہ وقت پر نہیں مرتا ۔
خداوند تعالی نے اس کے شاید اسی یا نوے یا سو سال کی عمر کا تعین کیاہو جبکہ وہ جوانی میں ہی ایک ہی وار سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیتا ہے ۔
جو لوگ گوشت اور دوسری مرغن غذائیں زیادہ کھانے سے اپنے خون کو غلیظ کرتے ہیں وہ اپنی خود کشی کا سامان کرتے ہیں چونکہ خون کی خرابی ناگہانی بیماری کا سبب بنتی ہے اور اگر اس بیماری کا سبب نہ بھی بنے توکسی دوسری بیماری کا سبب بن جاتی ہے ۔
لہذا پیٹ بھر کر کھانا اور خصوصا گوشت و مرغن غذائیں زیادہ کھانا ‘ خود کشی کے مترادف ہے ۔ پس جو کوئی بسیار خوری کے نتیجے میں اپنی طبعی عمر کے تقاضے سے پہلے اس دنیا سے کوچ کر جائے وہ خداوند تعالی کے فرمان میں شامل نہیں ہے اور تو اے ابو شاکر جان لے کہ میں قرآن کو تجھ سے بہتر جانتا ہوں اور اس بات سے اگاہ ہوں کہ خداوند تعالی نے قرآن میں موت کے بارے میں کیا کہا ہے اور کسی نے کبھی بھی میرے منہ سے ایسی بات نہیں سنی ہو گی جو خدا کے فرمان کے خلاف ہو اور نہ ہی اس کے بعد سنے گا ۔

آپ کی جابر بن حیان سے گفتگو
ابو شاکر ایک نا سمجھ شخص تھا ۔ لیکن جعفر صادق کے بعض شاگردوں میں جو سائنسدان شمار ہوتیہیں وہ بھی استاد سے مباحثے کرتے تھے ان میں سے ایک جابر بن حیان بھی تھا ۔
امام جعفر صادق تلامذہ سے اس لئے بحث کرتے تھے تاکہ وہ علوم کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور جعفر صادق اسلامی دنیا میں ایسے پہلے استاد ہیں جنہوں نے استاد اور شاگردوں کے درمیان بحث کی بنیاد رکھی اور یہ موضوع بعد میں آنیوالے زمانوں میں اسلامی مدارس اور خصوصا شیعہ مدارس میں رواج پا گیا ہر درس کے بعد شاگرد ایک دوسرے سے بحث مباحثہ کرتے تھے تاکہ استاد کے درس کو اچھی طرح سمجھ سکیں ایک دن جعفر صادق نے فلسفہ پڑھاتے ہوئے کہا ہر چیز حرکت کر رہی ہے اور اگر حرکت نہ ہو تو چیزوں کا وجود نہ ہو ۔ یعنی اگر وہ اس طرح نہ ہوتیں جس طرح کہ موجو شکل میں نظر آ رہی ہیں اور حرکت کی وجہ سے یہ چیزیں باقی ہیں تو ان میں تبدیلی آ چکی ہوتی ۔
جعفر صادق کے ایک شاگرد جابر بن حیان نے سوال کیا ‘ کیا آپ کو یقین ہے کہ کوئی چیز حرکت سے خالی نہیں جعفر صادق نے جواب دیا اس بارے میں کوئی شک نہیں ۔
جابر نے پوچھا کیا آواز حرکت کرتی ہے ؟ جعفر صادق نے جواب دیا ہاں اے جابر اواز متحرک ہے لیکن اسکی رفتار روشنی کی رفتار سے سست ہے اور جب تو دور سے مشاہدہ کرتا ہے کہ لوہار کی دکان میں ایک شخص لوہے کے ہتھوڑے کو اوزار پر مارتا ہے تو اسکی آواز تھوڑی دیر بعد کانو تک پہنچتی ہے جبکہ تم دیکھتے ہو کہ ہتھوڑے سے وار کرنے والے نے جس لمحے میں وار کیا ہے اور اس کے نتیجے میں جو روشنی نکلتی ہے وہ اسی لمحے تمہاری آں کھوں تک پہنچتی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ آواز کی رفتار روشنی کی رفتار سے سست ہے اور دیر سے سنائی دیتی ہے جابر نے پوچھا کس قدر دیر سے سنائی دیتی ہے جعفر صادق نے جواب دیا یہ اس جگہا ور تمہارے درمیانی فاصلے پر منحصر ہے اور قریبی مقام سے چند لمحوں کے بعد تم آواز کو سن لو گے لیکن دور کی جگہ سے آواز تمہاریکانوں سے دیر سے ٹکراتی ہے جابر نے پوچھا کیا فاصلوں کی لمبائی معلوم ہے ؟
جعفر صادق نے فرمایا ‘ ایک یونانی حکیم ارشمیدس نے اس فاصلے کو ماپا ہے اور اسکے بقول اگر انسان کا آواز کے منبع سے چار سو گز فاصلہ ہو تو آواز آٹھ سیکنڈ میں سنی جائیگی اور اسی نسبت سے انسان اور آواز کی منبع کا فاصلہ جتنا زیادہ ہو گا آواز اتنی ہی دیر سے سنی جائیگی ۔
جابر نے کہا جو حساب ارشمیدس نے لگایا ہے اس کے مطابق جب کبھی خداوند تعالی اپنے کسی پیغمبر سے بات کرنا چاہتا تو ہزاروں سل لگتے کیونکہ خدا ساتویں آسمان پر ہے اور اس دنیا سے اس دنیا تک کا فاصلہ اتنا زیادہ ہے جس کا انسانی عقل حساب لگانے سے عاجز ہے جعفر صادق نے فرمایا یہ جو کہا گیا ہے کہ خداوند تعالی ساتویں آسمان پر ہے اس لئے کہا گیا ہے تاکہ عام لوگ خداوند تعالی کی عظمت کو درک کر سکیں ورنہ خدا تو ہر جگہ موجود ہے کوئی ایس جگہ نہیں جہاں خدا نہ ہو ۔
لہذا ہر زمانے میں جب کبھی خداوند تعالی اپنے کسی پیغمبر سے خطاب کرنا چاہتا تو اس کے اس قدر نزدیک ہوتا کہ جونہی خداوند تعالی کی آواز بلند ہوتی اس کا پیغمبر اسے سن لیتا ۔
لیکن اگر خداوند تعالی ساتویں آسمان پر بھی ہوتا تو بھی اسکی آواز ایک لمحے میں اس کے پیغمبروں تک جا پہنچتی کیونکہ خداوند تعالی کی آواز ‘ انسان اور دوسرے مخلوقات کی مانند نہیں ہے کہ اسے سنائی دینے میں وقت درکار ہوتا ہو اور وہ فاصلے طے کرتی ہو بلکہ ادھر خدا نے کن کہا ادھر یکون ہو گیا اور یہ کائنات اسی طرح وجود میں آئی ہے خداوند تعالی اپنی آواز کو کائنات کے دور ترین مقام سے ایک لمحے میں اپنے پیغمبر تک پہنچا سکتا ہے جابر نے پوچھا اگر دنیا ایک لمحے میں وجود مین آئی ہے تو یہ کیوں کہا گیا ہے کہ خداوند تعالی نے کائنات کو چھ دنوں میں خلق کیا ہے ؟
جعفر صادق نے جواب دیا ‘ کائنات کی حقیقی بنیاد ایک لمحے میں رکھیگئی اور چھ دن اس میں تبدیلی وقوع پذیر ہونے میں لگے ۔ جس سے کائنات موجودہ شکل میں ظاہر ہوئی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ خلقت کی ابتدا میں کائنات اس شکل میں نہ تھی اور ایک لمبی مدت کی تبدیلی کے بعد دنیا اس حالت میں تبدیل ہوئی اور خدا کے خلام میں جو چھ دن مذکور ہیں وہ اسلئے ہیں کہ عام لوگ اسے سمجھیں اور تم یہ خیال نہ کرو کہ خداوند تعالی کے چھ دن میرے اور تمہارے چھ دنوں کی مانند ہیں لیکن یہ بات ثابت ہے کہ چھ تبدیلیوں کے مراحل کے بعد یہ کائنات موجودہ شکل اختیار کر گئی ۔
جابر نے پوچھا کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ خداوند تعالی کا ایک دن کتنا ہے ؟ جعفر صادق نے فرمایا اے جابر اگر میں تمہیں ایسا جواب دوں جس کے درست ہونے میں مجھے شک ہو تو میں کس لئے اس جواب کو زبان پر لاؤں ؟

اگر میں خداوند تعالی کی ذات کو سمجھ سکتا تو تمہیں بتا سکتا کہ خداوند تعالی کا ایک دن کتنا ہے ؟میں خداوند تعالی کے دن کی مدت کے بارے میں جو کچھ تمہیں کہوں وہ میرے اپنی اختراع ہو جس کا خداوند تعالی کے دن کی مدت سے کوئی تعلق نہیں اور صرف اتنا تمہیں بتا سکتا ہوں کہ بہت لمبا ہے اور ہم اپنے اندازوں سے خداوند تعالی کے دن کو نہیں سمجھ سکتے ۔
جابر نے اپنے استاد سے پوچھا ‘ آپ کہتے ہیں کہ خداوند تعالی ہرجگہ موجود ہے اور کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں خدا نہ ہو ‘ جعفر صادق نے فرمایا ہاں اے جابر میں نے یہ بات کہی ہے اور یہی میرا عقیدہ ہے جابر نے سوال کیا جب آ کہتے ہیں کہ خدا ہر جگہ ہے تو لا محالہ آپ اس بات کی تصدیق کر دیں گے کہ خدا ہر چیز میں بھی ہے جعفر صادق نے مثبت جواب دیا ۔ جابر نے کہا ۔ اس صورت میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ خالق اور مخلوق ایک ہیہے ان کا قول صحیح ہونا چاہیے چونکہ جب ہم اس بات کے قائل ہیں کہ خدا ہر چیز میں ہے تو ہمیں اس کی بھی تصدیق کرنا چاہیے کہ ہر چیز اگرچہ وہ پتھر ‘ پانی اور درخت ہی کیوں نہ ہو خدا ہے ۔
جعفر صادق نے کہا ایسا نہیں ہے ‘ تم غلطی پر ہو ۔ خدا پتھر ‘ پانی اور درخت میں تو ہے لیکن پتھر پانی اور درخت خدا نہیں ہیں جس طرح تیل چراغ میں ہوتا ہے لیکن چراغ تیل نہیں ہوتا خداوند تعالی ہر چیز میں ہے لیکن اسکے لئے پہلے وہ چیز وجود میں آئے اور دوسرا اپنی جمادی ‘شجری اور حیوانی زندگی کو جاری رکھے اور ختم نہ ہو ۔ چراغ کی روشنجی کا مایہ یعنی اسکی بقاتیل اور فتیلہ ہے لیکن چراغ تیل اور فتیلہ نہیں ہے تیل اور فتیلہ چراغ میں شعلہ پیدا کرتے ہیں اور چراغ یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ چونکہ تیل اور فتیلہ نہیں ہے تیل اور فتیلہ چراغ میں شعلہ پیدا کرتے ہیں اور چراغ یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ چونکہ تیل اور فتیلہ اس میں موجود ہے پس وہ تیل اور فتیلہ ہے اور یہ بات محال ہے کہ مخلوق کی وحدت کا عقیدہ رکھتے تھے وہ اپنے استدلال کی ظاہری شکل سے فریب کھاتے تھے ان کے بقول چونکہ جو کچھ اس کائنات میں موجود ہے اس میں خدا ہے لہذا جو کچھ ہے وہ خدا ہے اگر یہ عقیدہ صحیح ہوتا تو تمام مخلوقات خدائی ظاقت کی حامل ہوتیں کیونکہ وہ خدا ہیں لیکن تمام کائنات میں ایک وجود بھی ایسا نہیں ہے جو خدائی قدرت رکھتا ہو ۔ وہ لوگ جو اس بات کے معتقد تھے کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ایک پتھر ہی وجود میں لا سکا ہے ؟ کیونکہ خالق اور مخلوق کی وحدت کا مطلب یہ ہے کہ انسان بھی خدا ہے اور انسان کی خدائی کا لازمہ یہ ہے کہ انسان وہ کام کر سکے جو خدا کرتا ہے ایک لفظ کن سے ساری کائنات کو پیدا کرے اور ایک قطرے سے ایک انسان وجود میں لائے ۔
جو لوگ خالق و مخلوق کیوحدت کے معتقد ہیں اور اس کے نتیجے میں اپنے آپ کو خدا سمجھتے ہیں کیا ان میں سے کسی ایک شخص نے ایسا کام کیا ہے جس سے ظاہر ہو کہ اس میں خدائی صفات ہیں جب انہیں کہا جاتا ہے چونکہ آپ اپنے آ کو خدا سمجھتے ہیں لہذا خدا کا کوئی کام کرکے دکھائیں تاکہ ہمیں یقین ہو جائے کہ آ خدا ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا ہیں لیکن ہمیں خدا ہونے کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے اور کیا یہ منطق سے خالی بچوں جیسی بات قابل قبول ہے ؟
کیونکہ اگر کوئی شخص جان لے کہ وہ خدا ہے تو ہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ اسے خدا ہونے کے متعلق کوئی اطلاع نہیں اور اے جابر ‘ تم جان لو کہ اگرچہ خداوند تعالی ہر چیز میں اور ہر جگہ پر ہے لیکن وہ مکان اور اشیا خدا نہیں ہیں اور تمام خدا کی مخلوق ہے ‘ خدا تمام مکانوں اشیاء میں ایک خالق اور محافظ کی مانند ہے اور وہی ہے جس نے حرکات کو پیدا کیا ہے اور انہی حرکات کی وجہ سے جمادات اپنی جمادی زندگی ‘ درخت اپنی شجری زندگی اور جانور اپنی حیوانی زندگی بسر کرتے ہیں اسکے باوجود کہ زندگی حرکت کے بغیر نا ممکن ہے کوئی موحد یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہی حرکت خدا ہے چونکہ حرکت بھی دوسری اشیاء کی مانند خدا کی مخلوقات میں سے ہے بہر حال ایسی مخلوق ہیجو دوسری مخلوقات کی پیدائش کا سبب بنتی ہے اور یونانی حکما جو یہ کہتے تھے کہ حرکت خدا ہے وہ سنگین غلطی پر تھے کیونکہ حرکت اس وقت تک وجود میں نہیں آتی جب تک اس کی قوت وجود میں نہ آئے اور جب وہ قوت ہے حرکت جاری ہے اور جب یہ قوت ختم ہو جائیگی تو حرکت بھی رک جائیگی ۔
چونکہ حرکت توانائی سے وجود میں آتی ہے لہذا مخلوق ہے نہ کہ خالق اور وہ توانائی جو حرکت کو وجود میں لائی وہ خدائی قوت ہے لیکن ایک موحد یہ بات تسلیم کر سکتا ہے کہ حرکت دوسری چیزیں بھی کیلئے ابسبا پیدا کئے ہیں ان میں ایک حقیقی سبب حرکت ہے بعض یونانی فلسفیوں کے بقول حرکت مادہ ہے اور مادہ حرکت ‘ اور مادہ اپنے آخری مرحلے میں حرکت کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور اگر حرکت مادے میں رک جائے تو مادہ ختم ہو جاتا ہے اے جابر ‘ بعض یونانی فلسفیوں نے سوچ اور فکر کو بھی مادے کا جزو شمار کیا ہے اور کہ اہے کہ مادے کے بغیر سوچ اور فکر کا کوئی وجود نہیں جس طرح پھول کے بغیر اسکے عطر کی خوشبو کوئی نہیں سونگھ سکتا اس طرح اگر مادہ ختم ہو جائے تو سوچ اور فکر بھی ختم ہو جاتی ہے ۔
لیکن ان کا مذکورہ نظریہ اسلئے درست نہیں ہے چونکہ فلسفے میں چاہے یونانیوں کا زمانہ ہو یا آج کا دور ‘ حقیقت یہ ہے کہ کوئی چیز فنا نہیں ہوتی بلکہ اپنی حالت تبدیل کرتی ہے پس انسان بھی فنا نہیں ہوتا بلکہ موت کے بعد اپنی حالت تبدیل کرتا ہے اور اسکی طرح اس کی سوچ بھی تبدیل ہوتی ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ کسی دوسری صورت میں باقی رہتا ہے اور انسان کی موت کے بعد اسکے باقی رہنے والے عوامل اور روحانی صفات اس کی روح ہے ۔
اے جابر ‘ جب ایک مومن سمجھتا ہے کہ اسکے اصول دین حقیقت اور برحق ہیں تو وہ لذت اٹھاتا ہے اور یہ لذت انسانی فطرت کا جزو ہے انسان ہر منظم اور کامل چیز کو دیکھنے سے لذت اٹھاتا ہے اے جابر کیا تم اس نقش کو دیوار پر دیکھتے ہو اور مشاہدہ کرتے ہو کہ ایک منظم جیومیٹریکل صورت ہے تو تم اس مشاہدے سے لذت اٹھاتے ہو لیکن نہ صرف اس لئے کہ تم جیومیٹری سے واقف ہو اور تمہیں معلوم ہے کہ یہ جیومیٹری کی اشکال میں سے کونسی ایک شکل ہے بلکہ اسلئے کہ اسے منظم دیکھتے ہو اور مشاہدہ کرتے ہو کہ ایک مکمل نقش ہے ۔
وہ لوگ بھی جو جیومیٹری سے مطلع نہیں ہیں اس نقش کو دیکھنے کے بعد لذت اٹھاتے ہیں چونکہ اسے مکمل اور منظم دیکھتے ہیں چھوٹے بچے بھی اس نقش کے مشاہدے سے خوشی محسوس کرتے ہیں کیونکہ اسکی مکمل اور منظم شکل ‘ ان کی روح میں ایک طرح کی تسکین وجود میں لاتی ہے ۔
اگر یہ نقش جسے میں اور تم دیکھ رہے ہیں غیر منظم ہوتا اور اسکی لائنیں بے ترتیب اور بکھری ہوئی ہوتیں اس طرح کہ یہ ایک مکمل جیومیٹریکل شکل اختیار نہ کر گیا ہوتا اور نہ ہی کسی ایسی چیز کی شبیہ ہوتا جسے ہم پہچانتے ہیں تو کیا اس صورت میں بھی ہم اس کے مشاہدے سے محظوظ ہوتے ؟ جابر بولا نہیں ‘امام جعفر صادق نے فرمایا ایک غیر منظم بے ترتیب نقش کے مشاہدے سے نہ صرف محظوظ نہیں ہوتے بلکہ اس سے الٹا ہمیں کوفت ہوتی ہے اور اس کا عیب اور نقص ہماری خفگی کا باعث بھی بنتا ہے گویا جس طرح ہم ایک بد مزہ کھانا کھا رہے ہوں ۔
اسی طرح دینی حقائق پر بھی ہم غور کرتے ہیں تو محظوظ ہوتے ہیں چونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مکمل اور نقائص سے پاک ہیں اور اگر ایک چیز نقص کے بغیر اور کامل ہو (خواہ مادی یا روحانی ہو ) تو وہ خوبصورت ہوتی ہے اور ہمارے لئے مسرت کا باعث ہوتی ہے اسیطرح دینی حقائق بھی چونکہ نقائص سے پاک ہیں ہوتی ہیں اور ہمارے لئے مسرت کا باعث ہوتی ہے اسیطرح دینی حقائق بھی چونکہ نقائص سے پاک ہیں لہذا وہ بھی ہماری مسرت و شادمانی کا ذریعہ ہیں ۔
جابر بن حیان بولا لیکن یہ دینی حقائق عام لوگوں کو معلوم نہیں لہذا لوگ انہیں سمجھنے سے لطف انداوز نہیں ہو سکتے ۔ جعفر صادق نے فرمایا عام لوگوں کے پاس علم ننیں اسی لئے میں لوگوں کو تاکید کرتا ہوں کہ علم حاصل کریں ۔ جابر بن حیان نے پوچھا دین اسلام کے حقائق اسطرح نازل کیوں نہیں ہوئے کہ تمام لوگ انہیں سمجھ سکتے ؟ جعفر صادق نے اظہار خیال فرمایا ‘ نہ صرف یہ کہ اسلام کے حقائق اس طرح نازل نہیں ہوئے کہ لوگ انہیں سمجھ سکیں بلکہ اسلام سے قبل مذاہب کے حقائق جو خدا کی طرف سے مقرر کئے گئے ہیں اسطرح نازل نہیں ہوئے تھے کہ تمام لوگ انہیں سمجھ کر ان سے محفوظ ہوں ۔
اے جابر جان لو ‘ دین فلسفے سے جدا ہے ۔
فلسفے میں یہ ہے کہ جو کچھ کہا جائے اس کیلئے استدلال کی ضرورت ہے تاکہ سامع کی عقل اسے تسلیم کرے اور جب ایک سامع ایک فلسفیانہ مسئلہ سنتا ہے تو جب تک بولنے والا شخص دلیل کے ساتھ اسکی صحت کا ثبوت فراہم نہ کر دے اس وقت تک سامع اس مسئلے کو تسلیم نہیں کرتا ۔ کیونکہ سامع بھی بولنے والے کی مانند فلسفی ہے اور اگر فلسفی نہ ہو تو بھی اسے فلسفہ سے شغف ضرور ہے ورنہ وہ ہر گز فلسفیانہ بحث کو سننے اور سمجھنے کی طرف راغبنہیں ہو سکتا ۔
فلسفے سے متعلق ہر قسم کا مسئلہ چونکہ فلاسفہ یا فلسفے سے ذوق رکھنے والوں کیلئے بیان کیا جاتا ہے اور یہ کہ وہ مدلل ہو اور اسے ثابت کیا گیا ہو تاکہ فلاسفہ اسے قبول کریں ۔ لہذا ہر فلسفیانہ مسئلے میں دلیل یا دلائل کا ہونا ضروری ہے اور ہر فلسفیانہ مسئلہ انسانی عقل سے سروکار رکھتا ہے اور جب تکا سے عقل تسلیم نہ کرے اس مسئلے کی صحت ثابت نہیں ہوتی ۔
جب ایک فلسفی کسی نظریئے کو پیش کرتا ہے تو اسے عام لوگوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا وہ نہیں چاہتا کہ عام لوگ اس کے فلسفیانہ نظریئے کو سمجھیں یعنی جانتا ہے کہ عام لوگ اسکے فلسفیانہ نظریئے کو سمجھنے پر قادر نہیں ہیں اور جو کچھ کہتا ہے فلسفیوں یا ان لوگوں کیلئے کہتا ہے جو فلسفیانہ ذوق رکھتے ہیں وہ جو کچھ کہتا ہے ان کی عقل سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ۔ لیکن دین فلسفیانہ نظریئے سے جدا ہے ہمارے پیغمبر دین اسلام کو خداوند تعالی کی طرف تمام انسانوں کیلئے لیکر ائے نہ کہ صرف ان لوگوں کیلئے جن کی عقل دوسرے لوگوں سے برتر ہے اور وہ ہر چیز کو تسلیم کرنے کیلئے دلیل مانگتے ہیں دوسرے پیغمبر بھی جو ہامرے پیغمبر سے قبل مبعوث ہوئے وہ دین کو تمام لوگوں کیلئے لائے نہ صرف ایک مخصوص گروہ کیلئے جو عقلی لحاظ سے دوسروں سے برتر ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کیلئے دینی حقائق کو سادہ ترین شکل میں لوگوں کیلئے پیش کرنا ناگزیر تھا اور ہر حقیقت کے ثبوت کیلئے دلیل پیش نہیں کی چونکہ عام لوگ ہر دینی حقیقت کی مصلحت کو نہیں سمجھ سکتے تھے اور آج بھی تمام دینی حقائق کی مصلحتوں کو نہیں سمجھ سکتے ۔
حتی کہ اگر ایک شخص نہایت سادہ ترینطریقے سے حقائق دینی کو دلائلکے ساتھ لوگوں کے سامنے ثابت کرے تو بھی بعض لوگ ان میں سی بعض کی مصلحتوں کو نہیں سمجھ پاتے اسکی وجہ یہ ہے کہ احکام دین لوگوں کے عقیدے کیلئے نازل ہوئے ہیں نہ انکی عقل کیلئے سوائے ان لوگوں کے جو عقلی لحاظ سے دوسروں سے طاقتور ہیں ۔
فلسفے کے مسائل انسانی عقل سے سروکار رکھتے ہیں اور دینی مسائل لوگون کے ایمان سے اور مومنین کے درمیان وہ لوگ جو علم حاصل کرتے ہیں وہ اپنی عقلی ترقی کے نتیجے میں جو علم کے ذریعے حاصل ہوتی ہے دین اسلام کے حقائق کی مصلحت کو سمجھ سکتے ہیں اور وہ لوگ جو علم نہیں حاصل کر سکتے اور اپنی عقل کو قوی نہیں کر سکتے اور دین اسلام کے حقائق کی مصلحت کو نہیں سمجھ سکتی ان کیلئے وہی ایمان کافی ہے ۔
دین اسلام کے حقائق کی مصلحت کے بارے میں جو وضاحت عوام کیلئے پیش کی جائے بے فائدہ ہے کیونکہ ایک عام آدمی کو کسی موضوع کے علمی لحاظ سے سمجھنے کیلئے علم کے مقدمات کا جاننا ضروری ہے وگرنہ وہ کوئی چیز نہیں سمجھ پاتا دین اسلام کے حقائق کو عوام کیلئے دلیل سے بیان کرنے کیلئیان کے ساتھ علمی وضاحت پیش کرنا ضروری ہے اور اس علمی وضاحت کو صرف وہ لوگ درک کر سکتے ہیں جو اگر عالم نہ ہوں تو کم از کم علم کے مقدامت طے کر چکے ہوں ۔
علم حاصل کرنا ‘ ارادے کا محتاج ہے اور علم حاصل کرنے کا ارادہ ایک شخص میں اس قدر ہونا چاہیے کہ وہ علم حاصل کرنے پر آمادہ ہو جائے اور یہ ارادہ عوام میں نہیں ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ ایک عام آدمی جانتا ہے کہا گر علم حاصل کرنا شروع کر دے تو کئی سالوں تک وہ مادی فوائد سے محروم رہے گا لیکن اسکے بجائے اگروہ کھیتی باڑی کرے یا بھیڑ بکریاں یا اونٹ پالے تو اسے خاطر خواہ فائدہ ہو گا البتہ وہ روحانی نتائج جو انسان علم کے ذریعے حاصل کرتا ہے ان کا امکان نہیں ہوتا پس عام لوگوں کیلئے یہی بہتر ہے کہ وہ صرف ایمان رکھتے ہوں اور اصول اور فروع دین اسلام سے وہی کچھ اخذ کریں جو اسکے ظاہر میں ہے ۔
اے جابر ‘ تو ایک عالم شخص ہے تجھے معلوم ہے کہ کلام خدا میں جنت اور دوزخ کا ذکر آیا ہیاس سے کیا مراد ہے ؟
تجھ پر پوشیدہ نہیں ہے کہ جنت اور دوزخ کا اصلی مفہوم کچھ اور ہے لیکن کیا تو اس مفہوم کو ایک عام آدمی کے ذہن میں بٹھا سکتا ہے ؟ صرف ایک صورت میں ایک عام آدمی جنت اور جہنم کے مفہوم کو سمجھ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ علم حاصل کرے اور جب عالم ہو جائے تو جنت اور دوزخ کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔ اگر وہ خود بہشت اور دوزخ کے حقیقی مفہوم کو نہ سمجھ سکے تو چونکہ وہ عالم ہے لہذا اسکے سامنے جب ان دو کی تشریح بیان کی جائے گی تو وہ اس سے سمجھ جائے گا لیکن اگر تو آج جنت کا ایمان متزلزل ہو جائیگا اور وہ شخص جو ایمان تیری وضاحت سے پہلے رکھتا تھا اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا اسی لئے کہا گیا ہے کہ لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق گفتگو کرو اور ہر ایک سے اس زبان میں بات کی جائے جو اس کی عقل اور فہم کے مطابق ہو چونکہ دین کے مخاطب تمام بنی نوعی انسان ہیں لہذا کلام خدا نہایت سادہ اسلوب میں نازال ہوا ہے اور عام لوگ بھی کلام خدا کے ظاہری معنوں کو سمجھ سکتے ہیں اور اس سلسلے میں کسی کی وضاحت کرنے ضرورت نہیں ۔
صرف ایک صورت میں ممکن تھا کہ لوگ کلام خدا کے مفہوم کو کسی دوسرے معنوں میں لیتے اور وہ یہ کہ کلام خدا کا پڑھنے والا ‘ حروف کے اعراب میں غلطی کو دور کرنے کیلئے علم نحو کو وضع کیا تاکہ لوگ قرآن کو غلط نہ پڑھیں اس طرح یہ خطرہ ٹل گیا کہ لوگ قرآن کو غلط پڑھے جانے کیوجہ سے کسی غلط فہمی کا شکار ہوں ۔
جابر نے کہا ‘ مجھے افسوس ہے کہ لوگ دین مبین سے احکامات کی مصلحت اور کلام خدا کے وسیع مفہوم کو سمجھنے کی جانب توجہ نہیں کرتے۔ اور میرا خیال ہے کہ اگر لوگ ان نکات کی طرف توجہ دیں تو دین خدا آج سے زیادہ وسیع ہو جائیگا ۔
جعفر صادق نے جواب دیا ‘ سابقہ تمام ادیان میں لوگوں کی ایک اقلیت ہمیشہ ایسی رہی ہے جو احکام دین کو خوب سمجھتے تھے اور دین کے قوانین سے واقف ہونے کی بنا پر دینی لحاظ سے لوگوں کے مذہبی رہنما ہوتے تھے ۔
دین اسلام میں بھی ایسا ہی ہے اور اسی طرح آج بھی ایک اقلیت دینی لحاظ سے لوگوں کی رہبری کر رہی ہے اور آئندہ بھی مسلمانوں کی ایک اقلیت عالم بن کر لوگوں کی دینی رہبری کا فریضہ انجام دے گی اور مجھے یقین ہے کہ یہ کیفیت اس وقت تک باقی رہیگی جب تک علم سب کیلئے عام نہیں ہو جاتا ۔
جابر نے پوچھا کیا ممکن ہے ایسا دن آئے کہ علم تمام لوگوں کیلئے عام ہو جائے ۔
جعفر صادق نے فرمایا ایسا دن آئیگا کہ انسان سمجھے گا کہ تمام انسانوں کو عالم بننا چاہیے اور انسان اسکے لئے تمام وسائل بروئے کار لا کر تمام انسانوں کو علم حاصل کرنے کی طرف راغب کرے گا۔
جابر بولا ‘ لامحالہ اس دن تمام انسان عالم بن جائیں گے ۔
جعفر صادق نے جواب دیا ‘ نہین اے جابر ‘ حتی کہ اس دن بھی تمام بنی نوعانسان عالم نہیں بن جائیں گے کیونکہ لوگوں میں تحصیل علم کیا ستعداد میں فرق ہو گا اگرچہ علم حاصل کرنے کے فوائد سب کیلئے فراہم ہونگے لیکن چونکہ لوگوں میں استعداد یکساں نہیں ہو گی کہ سب عالم بن جائیں لہذا بعض تو عالمبن جائیں گے اور بعض جو علم حاصل کرنیکی طرف راغب نہیں ہونگے تحصیل علم کو ترک کرکے کوئی اور پیشہ اختیار کرلیں گے لہذا کسی دور میں ایسی حالت پیدا نہیں ہو گی کہ تمام بنی نوعی انسان عالم بن جائیں ۔
لیکن اسکے باوجود کہ اس وقت تمام لوگ عالم نہیں بن سکیں گے ‘ عوام کی موجودہ حالت نہیں ہو گی کیونکہ ہر کوئی کچھ نہ کچھ علم حاصل کر چکا ہو گا اور کم از کم خواندہ ہو گا لہذا اس دن علماء دین حقائق کو لوگوں کو سمجھا سکیں گے اور اگر کوئی دیوانہ نہ ہو تو چونکہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہذا دینی حقائق کو سمجھ سکتا ہے اور مجھے امید ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ اگر تمام لوگ دینی حقائق سے واقف نہ بھی ہو سکے تو بھی لوگوں کی اکثریت ان حقائق کو درک کر لیگی جابر نے پوچھا ‘ انسان کے تفکرات اور ارادوں میں سے کونسا سب سے زیادہ مضبوط ہے ؟
جعفر صادق نے جواب دیا ‘ زندگی کی حفاظت اور زندہ رہنے کا ارادہ جابر نے سوال کیا کیا اس مضبوط ارادے کا سرچشمہ علم ہے ؟
جعفر صادق نے فرمایا اس ارادے کو زندگی کے سر چشمے سے تقویت ملتی ہے اور ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں خود علم نہیں کہ زندہ رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن ان میں بھی یہ ارادہ دوسرے لوگوں کی مانند قوی ترین ارادے کی حیثیت سے موجود ہے اور اس دنیا میں بنی نوعی انسان کی زندگی میں تم جو کچھ دیکھ رہے ہو اس ارادے کی حیثیت سے موجود ہے اور دنیا میں بنی نوع انسان کی زندگی میں تم جو کچھ دیکھ رہے ہو اس ارادے سے وجود میں آیا ہے جابر نے پوچھا ‘ کیا انسانی زندگی میں یہ ارادہ زیادہ موثر ہے ‘ یا حرکت ؟ جعفر صادق نے فرمایا ان دونوں کا موازانہ نہیں ہو سکتا کیونکہ حرکت ایک مادی چیزہے اور زندہ رہنے کا ارادہ ایک روحانی شے ہے ۔
زندہ رہنے کا ارادہ انسان میں حرکت سے وجد میں آتا ہے اور یہ ارادہ خود حرکات کا سبب بنتا ہے اے جابر کوئی ایسا زندہ وجود نہیں ہے جو زند رہنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو اور یہی وجہ ہے کہ جب کوئی زندہ وجود نہیں ہے جو زندہ رہنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو اور جیسا کہ جب کوئی اپنے آپ کو موت کے خطرے میں پاتا ہے تو اگر اس سے ہو سکے تو دفاع کرتا ہے اگر دفاع کرنے پر قادر نہ ہو تو جان بچانے کیلئے پیچھے ہٹ جاتا ہے اگر حرکت ختم ہو جائے تو آدمی مر جائے اور اگر زندہ رہنے کا ارادہ ختم ہو جاے تو وقتی طور پر انسان زندہ رہتا ہے ۔
وقتی طور پر ہم اسلئے کہتے ہیں کہ زندہ رہنے کے ارادہ کے ختم ہو جانے کے بعد زیادہ دیر نہیں گزرے گی کہ آدمی مر جائے گا ۔
جو چیز انسان کو غذا کھانے اور پانی پینے پر مائل کرتی ہے وہ انسان کا زندہ رہنے کا ارادہ ہے ممکن ہے ‘ اے جابر تو کہے کہ غذا کھانے اور پانی پینے کی طرف مائل ہونا انسانی ضرورت ہے اور جب انسان بھوکا ہوتا ہے تو اگر اسکے پاس غذا ہو تو وہ غذا کھاتا ہے اور پیاس کے وقت پانی پیتا ہے اور میں تجھ سے کہتا ہوں کہ پیاس اور بھوک کیطلب انسان میں السئے وجود میں آتی ہے کہ ان دونوں سے زیادہ قوی تر طلب وہی زندہ رہنے کا ارادہ ہے اورجونہی انسان بیمار ہوتا ہے اس میں بھوک یعنیبھوک کا احساس ختم ہو جاتا ہے بہر حال جب انسان میں زندہ رہنے کا ارادہ باقی نہیں رہتا تو آدمی کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے اور اپنی گزر اوقات کیلئے کام نہیں کرتا اور نہ ہی صفائی کا خیال رکھتا ہے اور نہ اپنے بیوی اور بچوں کے سر چھپانے کیلئے گھر بناتا ہے ۔
لیکن انسان میں زندہ رہنے کا ارادہ اس قدر قوی ہوتا ہے کہ وہ ہر گز ختم نہیں ہوتا سوائے ان لوگوں کے جو خود کشی کا ارادہ کر لیتے ہیں ۔
جابر نے پوچھا ‘ میں نے سنا ہے عبقری اور مجنون کو ایک دوسرے کی شبیہ سمجھا جاتا ہے کیا یہ نظریہ صحیح ہے ؟ جعفر صادق نے فرمایا افلاطون وہ پہلا شخص ہے جس نے یہ نظرہ پیش کیا افلاطون نے بھی عبقری اور مجنون کی شباہت کے بارے میں گفتگو نہیں کی ‘ بلکہ کہا کہ جب تک انسان تھوڑا بہت جنون نہ رکھتا ہو شعر نہیں کہتا انسانی زندگی کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آتی اور نہ ہی نقصان ہوتا ہے اور نہ ہی خود شاعر کیلئے سود مند ہے لہذا یہ کسی عاقل شخص کا کام نہیں پس افلاطون کے نظریئے کی بنا پر ہر شاعر کم و بیش دیوانہ ہے ۔
لیکن قدیم یونان میں ایسے شاعر تھے جو شعر پڑھنے کے لحاظ سے خاصی استعداد کے مالک تھے اور ان میں سے بعض کی استعداد اس قدر زیادہ تھی کہ یونانی لوگ انہیں عبقری کہا کرتے تھے اور چونکہ افلاطون نے کہا تھا کہ شاعر دیوانہ ہوتا ہے لہذا افلاطون کے بعد بعض صاحب نظر لوگوں نے کہا کہ اگر عبقری دیوانہ نہہو تو عبقری اور مجنوں ہونے کے درمیان کافی مشابہت پائی جاتی ہے ۔ یہ نظریہ صحیح نہیں ہے عبقری کو دیوانے سے کوئی شباہت نہیں ہے دیوانہ وہ ہے جو اپنے اعمال میں عقل سلیم کا تابع نہ ہو اور ایسے کام کرے جنہیں عقل تسلیم نہ کرے ۔
لیکن دیوانہ اپنے آپ کو عاقتل سمجھتا ہے اور اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے عقل کی رو سے کر رہا ہے لیکن ایک عبقری عقل سلیم رکھتا ہے اور جو کچھ کرتا ہے دوسروں کی عقل اسکی داد دیتی ہے ۔اتفاق سے خود افلاطون جس نے پہلی بار کہا کہ شاعر دیوانہ ہوتا ہے نے اسی موضوع کے بارے میں مثال پیش کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے اگرچہ یہ مثال اس نے کسی دوسرے موقع محل کی نسبت سے کہی ہے لیکن میں تمہارے موضوع کو کھولنے کیلئے اس سے استفادہ کرتا ہوں ۔
افلاطون کہتا ہے فرض کریں کہ ایک گروہ ایک ایسی جگہ رہتا ہے جہاں سورج کی روشنی نہیں پڑتیا ور اس جگہ کو سورج کی منعکس شدہ روشنی روشن کرتی ہے اور فرض کرتے ہیں کہ اس گروہ کی زندگی کے وسائل اس غار میں میسر ہیں اور ان لوگوں کو باہرآنے کی قطعی ضرورت نہیں وہ کبھی باہر نہیں آئے انہوں نے دن کو سورج کی دھوپ دیکھی اور نہ ہی رات چاند اور ستاروں کی روشنی دیکھی۔
ان کی کل کائناتیہی غار اور اس کی چار دیواریں ہیں اب ہم فرض کرتے ہیں کہ عام لوگوں کا ایک گروہ جو باہر رہ رہے تھے اس میں داخل ہوئے وہ سورج کے طلوع و غروب کو دن میں اور چاند ستاروں کو رات کو دیکھتے تھے اور انہیں اس بات کا علم تھا کہ کائنات میں وسیع و عریض صحرا بلند و بالا پہاڑ گہرے سمندر ‘ چرند ‘ پرند ‘ مچھلیاں اور بہت سے دوسرے جانور موجود ہوں گے تو چونکہ وہ پہلی مرتبہ روشنی سے تاریکی میں داخل ہوئے ہیں لہذا انہیں کچھ بھی نظر نہیں آئے گا ۔ انہیں اپنی آں کھوں کو تاریکی کا عادی بنانے کیلئے ایک عرصہ درکار ہے لیکن تاریکی کے عادی لوگ جو وہاں رہ رہے ہیں ان داخل ہونے والوں کو دیکھ رہے ہیں اور ان کے اندھے پن سے لطف اٹھاتے اور ان کا تمسخر اڑاتے ہیں ایک عرصہ گزر جانے کے بعد چونکہ یہ نئے داخل ہوے والے تاریکیکے عادی ہو جاتے ہیں اور وہاں رہائش پذیر افراد کو دیکھ سکتی اور ان کیلئے باہر کی حالت بیان کر سکتے ہیں وہ انہیں بتاتے ہیں کہ باہر روشن سورج سر سبز درخت و جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں پرندے پرواز کرتے ہیں اور گھاس کھانے والے جانور گھاس کھاتے ہیں ‘ ہوا چلتی ہے لیکن وہ لوگ جو ہمیشہ سے غار میں رہتے ہیں پھر ان نئے آنے والوں کا تمسخر اڑاتے ہیں چونکہ ان کی سوچ اس بات کو نہیں سمجھ سکتی جو کچھ نئے آنے والے کہہ رہے ہیں اور نہ ہی سمجھ سکتے ہیں کہ سورج ‘ جانور ‘ درخت اور ہوا کیا ہے ؟
غار میں ان کی سوچ سب سے پست ترین مرحلے میں ہے یہاں تک کہ ان کی سوچ جانوروں کے اس گروہ سے بھی پست ہے جو دن و رات کی پہچان کر سکتے ہیں ۔اس غار میں قیام پذیر لوگوں کی سوچ محدود اور پست ہونیکی وجہ سے ان کی نظر سے تمام وہ لوگ جو اس غار میں باہر سے داخل ہوتے ہیں ‘ دیوانے ہیں لیکن ہمیں معلوم ہے کہ وہ عاقل ہیں مگر چونکہ اس غار میں قیام پذیر لوگ باہر سے آنے والے لوگوں کی سوچ کا ادراک نہیں کر سکتے لہذا انہیں دیوانے سمجھتے ہیں خاص طور پر یہ کہ وہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ نئے آنے والے ان کی عام زندگی کی طرف ذرا بھر توجہ نہیں کرتے اور ان کی مانند لباس پہننا ‘ غذا کھانا ور سونا نہیں چاہتے ۔ یہ بات وہاں مستقل رہائش پذیر لوگوں پر ثابت کرتی ہے کہ وہ دیوانے ہیں چونکہ اگر وہ دیوانے نہ ہوتے تو ان کی روز مرہ کی زندگی کے قوانین کا ضرور خیال رکھتے ۔
عبقری بھی عام لوگوں کی نسبت خصوصا عوام کی نسبت تقریبا ان لوگوں جیسے ہیں جو باہر سے غار میں وار د ہوئے ہیں اور بعض عبقری لوگوں کی عام زندگی کی رسومات اور وظائف سے مبرا ہیں ۔
لا محالہ وہ عام لوگوں اور خصوصا عوام کی نظر میں دیوانے نظر آتے ہیں اور اے جابر تو جان لے کہ عبقری اور مجنوں کے درمیان شباہت موجود ہونے کا نظریہ صحیح نہیں ہے افلاطون کا یہ نظریہ کہ شاعر مجنوں ہوتا ہے ‘ صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ انسان جو سوچ بھی پیش کرے اس کیلئے اسے یا کسی اور کو مادی نتیجہ ملنا چاہے اور اسکے باوجود کہ وہ ایک فلسفی تھا لیکن اس نے اس پر غور نہیں کیا کہ بعض سوچ و۶چار ایسی ہوتی ہے جس کی مادی قدرو قیمت نہیں ہوتی لیکن وہ روحانی قدروقیمت کی حامل ضرور ہوتی ہے ۔ ان سوچ وبچار یا تفکرات میں سے بعض ایسے ہیں جو اشعار میں سما جاتے ہیں اور اگر شاعر با کمال اور با ذوق ہو تو شعر پرکھنے والا یا سننے والا وجد میں آ جاتا ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ اسے روحانی سرور مل رہا ہے ۔
کیا خود افلاطون کی زندگی میں ایسی چیزیں نہیں تھیں جو ذوق سے وجد میں آئی ہوں تو وہ کیوں شعر کو با بھلا کہتا ہے ؟ کیا جو کچھ پڑھاتا تھا اس کا ایک حصہ ذوق کے پہلو کا حامل نہ تھا اور فلسفے کے ذوق کے علاوہ کسیا ور ذوق سے محظوظ نہیں ہوتا تھا کیا وہ چیزیں جو روح کو تازگی بخشتی ہیں ان میں ایک خداوند تعالی کے کائنات میں پیدا کردہ حسن و جمال میں سے کسی حسن کی تعریف کرنا نہیں ہے اور اس حسن و جمال کی تعریف کرنے کیلئے کیا شاعری کی زبان زیادہ برترو موثر ہے یا فلسفے کی ؟
ہر چیز اپنی جگہ خوبصورت لگتی ہے ‘ شعر کی زبان کا استعمال اپنی جگہ پر اور فلسفے کی زبان کا استعمال اپنے مقام پر مناسب لگا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ فلسفیکو شعر کی زبان میں بیاں نہیں کیا جا سکتا اور وہ اشعار جو میرے دادا علی نے پڑھے ہیں ان کا ایک حصہ فلسفے‘ نصیحت اور علم اخلاق پر مشتمل ہے لیکن ایک مقام ایسا ہوتا ہے جہاں شعر کام میں لایا جاتا ہے فلسفہ اس چیز کو بیان نہیں کر سکتا جس چیز کو شعر بیان کر سکتا ہے شعر کی زبان کا ایک موقع و محل رجز ہے اور کیا اے جابر ‘ تو نے سنا ہے کہ کسی نے رجز کو فلسفے کی زبان میں بیان کیا ہو ؟
میری مراد یہ نہیں کہ میں جنگ اور خونریزی کو جائز جانتا ہوں بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ فلسفے کی زبان جس قدر بھی دلیل و برھان پر تکیہ کرے اس سے رجز نہیں پڑھا جا سکتا اور نہ ہی اس سے شعر کی زبان کی مانند پھولوں کی خوبصورتی کی تعریب بیان کی جا سکتی ہے چونکہ فلسفے کی زبان دلائل کی محتاج ہے اور شعر کی زبان انسانی حواس کی ‘ ان دو زبانوں کے فرق کو ایک مثال سے وضح کیا جا سکتا ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ فلسفے کی زبان ایک فولادی شیشے کی مانند ہے جو بڑھئی کے ہاتھوں میں ہو تو وہ لکڑی کو چیر کر اس سے انسانی ضروریات کی اشیا تیار کرتا ہے ۔
لیکن شعر کی زبان پروں سے تیار شدہ پنکھے کی مانند ہے جو جب ہلایا جاتا ہے تو انسان کو ٹھنڈی ہوا دیت اہے جب کبھی اس کے پر جسم سے ٹکرائیں تو تکلیف نہیں پہنچاتے اور میں تعجب کرتا ہوں کہ افلاطون جیسے انسان نے جو فلسفی تھا اور اس کی عاقلانہ باتیں آج بھی مشحور ہیں کیسے کہہ دیا کہ شاعر دیوانہ ہے کیونکہ وہ ایسے خیالات کو زبان پر لاتا اور لکھتا ہے جن سے نہ خود شاعر کو کوئی فائدہ پہنچا اور نہ دوسرے لوگوں کو ۔
جابر بن حیان بولا ‘ جو کچھ افلاطون نے شاعروں کے بارے میں کہا وہ عقل سلیم سے دور ہے ۔
اس کے بعد جابر بن حیان نے پوچھا انسان اور بے جان چیزوں (جمادات) میں اتنا فرق کیوں ہے ؟ اور انسان اپنے آپ کو جمادات کی نسبت پودوں کے زیادہ قریب کیوں پاتا ہے ؟ جعفر صادق نے جوابا فرمایا ‘ انسان اور جماد کے درمیان فرق اس لئے پایا جاتا ہے کہ جمادات اپنی جمادی زندگی میں مستقل اور نا قابل تغیر قوانین کی پیروی کرتے ہیں جبکہ انسان اپنی زندگی میں مستقل اور نا قابل تغیر قوانین کی پیروی نہیں کرتا ۔
مستقل اور نا قابل تغیر قوانین جو جمادات کی زندگی پر حکومت کرتے ہیں وہ اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ جمادات ہر جگہ اور ہر وقت ایک دوسرے کی شبیہ ہوتے ہیں لیکن وہ قواعد جو انسان پر حکومت کرتے ہیں ( میری مراد وہ قواعد ہیں جن کا سر چشمہ فکر ہے )ہر انسان میں دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو آرزو ‘ سلیقہ ‘ ذوق اور تمام ان چیزوں کے لحاظ سے جن کا سرچشمہ فکر ہے دوسرے انسانوں سے مختلف ہوتا ہے اور لوگوں کی زندگی میں جو چیزیں امتیاز پیدا کرتی ہیں ان میں ایک ہوس ہے کوئی مرد اور عورت ایسی نہیں جو ہو س نہ رکھتی ہو اگرچہ وہ کوئی پھل یا غذا کھانے کی حد تک ہی کیوں محدود نہ ہو ۔
چونکہ جمادات اپنی جمادی زندگی میں نا قابل تغیر قوانین کی پیروی کرتے ہیں لہذا جمادات کے مستقبل کے واقعات کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا مشکل ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ حتی کہ مثال کے طور پر دو سگے بھائی بھی یہ نہیں بتا سکتے کہ ان میں سے ہر ایک کا آئندہ سال کیا ارادہ ہو گا ؟ لیکن جمادی زندگی میں جامد اجسام ایک جیسے مستل قوانین کی پیروی کرتے ہیں جو کچھ ایک جامد جسم انجام دیتا ہے وہی دوسرا جسم بھی انجام دیتا ہے انسان ‘ پودوں سے اس لئے نزدیک ہے کہ پودے بھی بظاہر مستقل قوانین کی پیروی نہیں کرتے اگرچہ آخری مرحلے میں پودوں کی زندگی کے قواعد مستقل نہیں جس طرح آخری مرحلے میں انسانی زندگی کے قواعد بھی مستقل ہوتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں ہماری ابتدا ماں کا شکم اور ہماری انتہا قبر ہے ۔ چونکہ پودوں کی زندگی بھی بظاہر ہماری طرح مستقل نہیں ہے لہذا ہم اپنے آپ کو جمادات کی نسبت پودوں کے زیادہ قریب پاتے ہیں ۔
میں نے کہا کہ انسان کے فیصلہ کرنیکے اسباب اس قدر مختلف ہیں کہ کسی انسان کے آئندہ کے ارادوں کے بارے میں کوی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی کچھ حیوانی خصلیتیں تمام انسانوں میں مشابہ ہیں اور وہ کھانے پینے سونے اور اپنے جوڑے کا انتخاب کرنے سے عبارت ہیں اس کے باوجود کہ یہ خصلتیں تمام انسانوں میں موجود ہیں پھر بھی ہر کوئی اپنے سلیقے اور طبعیت کے مطابق ان میں سیہر ایک حاجت کو سر انجام دیتا ہے اسباب کا اختلاف جو افراد کو فیصلے کرنے پر مائل کرتا ہے لوگوں یا گروھوں کے درمیان دشمنی وجود میں لاتا ہے جس کاحتمی نتیجہ جنگ یا کشت و خون ہوتا ہے ۔
پیغمبر جو خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہیں انہوں نے احکام دینی اور قواعد کو لانے کے ساتھ ساتھ کوشش کی کہ لوگ ارادہ کرنے کے لحاظ سے ایک جیسی روش اختیار کر لیں اور انہیں متشابہ قواعد کی پیروی کرنے پر مائل کریں اور تو اس بات کی تصدیق کرے گا کہ دین لوگوں کے ارادوں میں یگانگت پیدا کرنے میں موثر واقع ہوا ہے اگر تو دیکھتا ہے جو کہ مسلمان اپنی اجتماعی زندگی سے ارادوں کے لحاظ سے یگانگت کے حامل نہیں ہیں تو وہ اس لئے ہے کہ ان میں سے ایک گروہ صمیم قلب سے ایمان نہیں لایا اور جب کبھی تمام مسلمان صمیم قلب سے ایمان لائیں گے ان کی اجتماعی زندگی کے بارے میں ان کے ارادوں میں بھی یگانگت آ جائے گی ۔ اس کے باوجود کہ تمام مسلمانوں کا ایمان محکم نہیں ہے کیونکہ جب تک ان کی حرص ‘ حسد اور نکتہ چینی اور کینہ ختم نہیں ہو جاتا ۔ ایسا نہیں ہو سکتا ‘ لیکن پھر بھی دینی قواعد نے مسلمانوں کے مجموعی ارادوں کو مشابہ کر دیا ہے اور وہ ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں ایک ہی قبلے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے اور دن و رات میں نماز کے اوقات ایک ہی ہیں اور سب ایک ہی مہینے میں روزہ رکھتے ہیں ۔

تحویل قبلہ کا عقدہ
جابر نے کہا چونکہ آپ نے قبلے کا نام لیا ہے لہذا عقدہ کھلوانے کیلئے آپ سے ایک سوال کرتا ہوں ۔ جعفر صادق نے کہا جو کچھ پوچھنا چاہتے ہو پوچھو جابر نے اظہار خیال میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ پیغمبر نے مسلمانوں کے قبلے کو کیوں تبدیل کیا اور ان سے کہا کعبے کی طرف نماز پڑھیں جبکہ اس سے پہلے وہ ایک دوسری طرف نماز پڑھتے تھے ۔ جعفر صادق نے جواب دیا کہ پیغمبر نے خداوند کے حکم سے مسلمانوں کا قبلہ تبدیل کیا ۔ جابر نے پوچھا خداوند تعالی نے مسلمانوں کا قبلہ کیوں تبدیل کیا ؟ کیا خداوند تعالی دانائے مطلق نہیں ہے ؟ جعفر صادق نے فرمایا وہ دانائے مطلق ہے جابر نے کہا وہ دانائے مطلق ہے اور آئندہ پیش آنے والی ہر چیز سے آگاہ ہے تو اسے پہلے ارادہ کو تبدیلنہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہم انسان اپنی نادانی کی وجہ سے اپنی زندگی میں ارادہ تبدیل کرتے ہیں آج ہم ارادہ کرتے ہیں اور پھر اس پر عمل کرتے ہیں اور چند مہینوں یا چند سالوں کے بعد تجربہ حاصل کرتے اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے غلطی کی ہے پھر ہم اپنے ارادے میں تبدیلی لاتے ہیں اور ایک دوسرا کام انجام دیتے ہیں لیکن خدا جو دانائے مطلق ہے غلطی نہیں کرتا اور ہم انسانوں کی طرح تجربے کا محتاج نہیں وہ مستقبل میں پیش آنے والے تمام واقعات سے آگاہ ہے اس کا ارادہ مستقل اور ابدی ہے پھر اس نے ارادہ کیوں تبدیل کیا؟ اور پیغمبر کے ذریعہ مسلمانوں کو کیوں کہا کہ بیت المقدس سے ہٹ کر کعبے کی طرف نماز پڑھیں جبکہ پہلی دفعہ مسلمانوں سے کہا گیا تھا کہ بیت المقدس کی طرف نما ز پڑھیں ۔
آپ نے فرمایا‘ اے جابر تیرے استدلال کا ایک پلڑا درست ہے لیکن دوسرا پلڑا درست نہیں اور اس سے بھی بڑ کر یہ کہ تم نے دوسرے پلڑے کو ذرا مد نظر نہیں رکھا جابر نے پوچھا دوسرا پلڑا کونسا ہے ؟
جعفر صادق نے جواب دیا ۔ دوسرا پلڑا لوگ یعنی بنی نو ع انسان ہیں تم نے غور نہیں کیا کہ خداوند تعالی احکامات بنی نوع انسان کیلئے صادر فرماتا ہے نہ اس مخلوقات کیلئے جن کی زندگی میں کوئی تبدیل نہین آتی یعنی جمادات ‘ یہی وجہ ہے کہ موسی کے ذریعے بنی نوع انسان کیلئے صادر کئے گئے احکامات ہمارے پیغمبر کے ذریعے صادر کئے جانے والیاحکامات سے مختلف تھے ۔
خداوند تعالی کو از سے معلوم تھا کہ وہ ایک دن مسلمانوں سے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دے گا اور خداوند تعالی یہ بھی جانتا تھا کہ کچھ عرصہ بعد وہ ان سے کعبے کو قبلہ بنانیکا کہے گا خد کے احکامات میں ‘ میں اور تم آج جو تبدیلی مشاہدہ کرتے ہیں وہ خدا کے نزدیک مستقل قوانین ہیں کیونکہ خداوند تعالی نے ازل سے ان کی پیشگوئی کی ہوئی ہے مگر ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ خدائی احکامات میں تبدیلی آئی ہے لیکن خدا جانتا ہے کہ اس کے احکامات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے ۔
اس کی میں دو مثالیں دیتا ہوں تاکہ تم اسے مزید بہتر طریقے سے سمجھ سکو وہ شہد کی مکھی جو بہار کے نصف ماہ کے دوران پیدا ہوتی ہے گر سردیوں کے مہینے تک زندہ رہے اور سردیوں کے سرد موسم کو دیکھ تو خیال کرے گی کہ دنیا کے قواعد تبدیل ہو گئے ہیں لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے اور تمہارے لئے بھی دنیا کے قواعد تبدیل ہو چکے ہونگے ؟
جابر بولا نہیں ‘ جعفر صادق نے فرمایا ‘ میں اور تم نے پیش گوی کی تھی کہ گرمیوں کے بعد سردیاں آئیں گی اور ہماری نظر میں دنیا کے احکام میں کوئی تبدیلی وجود میں نہیں آئی ۔ ایک دوسری مثال دیتا ہوں فرض کیا آپ کے پاس کچھ زمین ہے اور آج اس میں کسی مزارع کو کام کرنے کیلئے منتخب کرتے ہیں اور آپ کا ارادہ یہ ہے کہ وہ شخص صرف ایک سال تک آ کا مزارع رہے ایک سال کے بعد آپ اسے کام سے نکال کر کسی دوسرے کو اس کی جگہ رکھ لیتے ہیں جب ایک سال ہوتا ہے تو آپ اس شخص کو اطلع دیتے ہیں کہ اس کی خدمات کی آپ کو مزید ضرورت نہیں ہے وہ شخص آپ کے ارادے سے متعجب ہو گا اور اسے آپ کے پہلے ارادے کے خلاف خیال کرے گا لیکن کیا آپ نے اس مزارع کو نکالکر کسی دوسر کو ملازم رکھ کر اپنے ارادے میں کوئی تبدیلی پیدا کی ہے ؟ ہر گز نہیں ‘ کیوں کہ آپ نے پہلے دن سے ارادہ کیا ہوا تھا کہ ایک سال بعد اسے نکال کر اس کی جگہ ایک دوسرے شخص کو رکھیں گے خداوند تعالی کے احکامات بھی جو ہماری نظر میں الٹ یا متضاد ہوتے ہیں اسی طرح ہیں اور خداوند تعالی نے جتنے قوانین صادر کرنے تھے ازل سے ان کی پیش گوئی کر دی ہے اور اس کیلئے متضاد ارادے کوئی معنی نہیں رکھتے ۔ جابر بن حیان نے کہا ‘ میرا عقدہ کھل گیا کیونکہ مسلمانوں کے قبلے کی تبدیلی کا مسئلہ میرے ذہن پر بوجھ بنا ہوا تھا اور اس کے باوجود کہ اس لحاظ سے میرے پاس کوئی سوال نہیں ہے پھربھی اس موضوعکے بارے میں سوال کرتا ہوں ۔ جعفر صادق نے فرمایا پوچھو ۔
جابر نے پوچھا ‘ اس میں کیا مصلحت تھی کہ خداوند تعالی نے پیغمبر کو حکم دیا کہ اس کے بعد کعبے کیطرف منہ کرکے نماز پڑھیں جعفر صادق نے فرمایا ‘ جب پیغمبر نے رسالت ‘ پہچانا شروع کی مسلمان تھوڑے اور کمزور تھے ‘ جبکہ یہودی اور عیسائی اکثرت میں طاقتور تھے اور مسلمانوں کو ختم کر سکتے تھے لہذا اس زمانے میں خداوند تعالی نے مسلمانوں کو بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا کیونکہ یہودی اور عیسائی دونوں بیت المقدس کے احترام کے قائل تھے اور اس طرح وہ مسلمانوں کو دشمنی کی نظر سے نہ دیکھیں اور انہیں دشمن خیال نہ کرکے انہیں مٹانے سے باز رہیں ۔
بیت المقدس کی جانب منہ کرکے نماز پڑھنے کا مقصد یہودیوں اور عیسائیوں سے نرمی سے پیش آنا تھا ور یہ سلوک کافی موثر واقع ہوا کیونکہ جب یہودیوں اور عیسائیوں نے مسلمانوں میں دشمنی کے کوئی آثار نہ دیکھے تو انہیں تکلیف پہچانے سے باز رہے لیکن اس کے بعد جیسا کہ تم جانتے ہو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تنازعہ شروع ہو گیا ۔
جابربن حیان نے کہا جیسا آپ فرما رہے ہیں اسی طرح ہوا ہوگا ور مسلمانوں کے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے سے یہودی اور عیسائی مطمئن ہونگے لیکن خداوند تعالی کے اس حکم میں کیا مصلحت تھی کہ مسلمان کعبہ کی طرف نماز پڑھیں کیا یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ خداوند تعالی کسی دوسری جگہ کو مسلمانوں کا قبلہ قرار دے دیتا ؟
جعفر صادق نے فرمایا ‘ تجھے معلوم ہے کہ پیغمبر کے مدینے سے آکر مکہ فتے کرنے سے پہلے کعبے کی کیا حالت تھی ؟ جابر نے کہا ‘ مجھے معلوم ہے ‘ بت خانہ بنا ہوا تھا جعفر صادق نے فرمایا ان بتوں کی کون پوجا کرتا تھا ؟ جابر نے کہا ‘ جزیرہ عرب کے لوگ جعفر صادق نے پوچھا ‘ جزیرہ عرب میں کون لوگ بت پرست نہ تھے ؟
جابر نے کہا ‘ یہودیوں اور کچھ عیسائیوں کے علاوہ کوئی ایسا شخص نہ تھا جو بت پرست نہ ہوتا جعفر صادق نے فرمایا کعبے مین تمام جزیرہ عرب کے قبائل کے بت رکھے ہوئے تھے اور اسی بنا پر کعبہ تمام عربوں کیلئے محترم تھا اور جب پیغمبر نے مسلمانوں سے کہا کہ کعبے کی طرف منہ کرکے نما ز پڑھیں تو نہ صرف یہ کہ حیران نہیں ہوئے بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ کعبے کی طرف نماز پڑھنا ان کیلئے بیت المقدس کی طرف نماز پرھنے سے کہیں آسان تھا کیوں کہ جب سے ہوش سنبھالے تھے کعبے کا احترام کرتے تھے اور اسی لئے قبلہ کی تبدیلی کو جزیرہ عرب کے مسلمانوں نے راضی خوشی قبول کر لیا جابر نے کہا ‘ لیکن اسلام جزیرہ عرب تک محدود نہیں رہا بلکہ مزید پھیلا اور مشرق و مغرب تک چھا گیا جعفر صادق نے فرمایا اسی طرح ہے ۔
جابر نے اظہار خیال کیا ‘ کعبہ ان لوگوں کیلئے محترم نہ تھا جو عرب نہ تھے ۔ جعفر صادق نے فرمایا چونکہ پیغمبر نے خداوند تعالی کے حکم کے مطابق کعبے کو مسلمانوں کا قبلہ بنایا تھا ‘ لہذا وہ قومیں جو عرب نہ تھیں جب مسلمان ہوئیں تو ان میں کعبے کیلئے احساس اہترام پیدا ہوااور تمام دنیا کے مسلمانوں کے کعبے کی طرف نماز پڑھنے سے مسلمانوں کو ایک روحانی مرکز ملا جس کی مثال کسی بھی گذشتہ مذہب میں نہیں ملتی اور آج مشرق میں رہنے والا مسلمان ‘ مغرب میں قیام پذیر مسلمان کی طرح کعبے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتا ہے ۔ جابر نے سوال کیا ‘ کیا یہ مرکزیت زیادہ اہمیت کی حامل ہے یا مسلمانوں کا حج کیلئے مکے جانا اور وہاں اجتماع کی صورت اختیار کرنا ۔
جعفر صادق نے جواب دیا ‘ یہ مرکزیت حج کیلئے مکے جانے سے زیادہ اہمیت اور روحانی مفاد کی حامل ہے کیونکہ بہت سے مسلمان ایسے ہیں جو مادی استطاعت نہ ہونے یا راہزنوں کے خلاف کی وجہ سے زندگی میں ایک مرتبہ بھی حج پر نہیں جا سکتے ‘ لیکن دنیا کے ہر کونے میں رہنے والا مسلمان رات دن پانچ دفعہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ ہر شب و روز تمام مسلمانوں کی نگاہیں پانچ مرتبہ کعبے میں پہنچتی ہیں گویا دنیا کے تمام مسلمان شب و روز پانچ مرتبہ ایک دوسرے کی آنکھوں سے آنکھیں ملاتے ہیں اسی طرح دنیا کے تمام مسلمانوں کا کام اسی وجہ سے کہ تمام مسلمان کعبے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں گویا وہاں پہنچتا ہے اور دنیا کے مشرق و مغرب میں کروڑوں مسلمانوں کی تکبیر کعبے میں ی جاتی ہے اور یہ مرکزیت کسی سابقہ مذہب میں موجود نہیں اور نہ ہی آندہ موجود ہو گی کیونکہ دین اسلام وہ اخری دین ہے جو خداوند تعالی نے انسان کیلئے مقرر کیا ہے اور اسلام کے بعد کوئی دوسرا آسمانی مذہب نہیں آئے گا اور جو کوئی اسلام کے بعد پیغمبری کا دعو کرے جھوٹا پیغمبر ہے اور خداوند تعالی کی کی طرف سے مبعوث نہیں ہوا بلکہ جعلی ہے ۔
جابر نے پوچھا ‘ بعض لوگ خود کشی پر کیوں مائل ہوتے ہیں ؟ جعفر صادق نے جواب دیا خود کشی کرنے والے لوگ مذہبی ایمان نہیں رکھتے جو کوئی مذہبی ایمان رکھتا ہو وہ اپنے آپ کو قتل نہیں کرتا مجھے یقن ہے کہ تو نے آج تک کوئی ایماندار شخص خود کشی کرتے نہیں دیکھا ہو گا مسلمان جہاد کرتا ہے اور قتل ہو جاتا ہے لیکن اپنے خون سے اپنے ہاتھ رنگین نہیں کرتا ۔
مذہبی ایمان نہ رکھنے کے علاوہ جو چیز کسی انسان کو خود کشی کرنے پر مائل کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس میں زندہ رہنے کا ارادہ سست پڑ جاتا ہے میں نے کہا کہ ہر زندہ وجود میں سب سے مضطوب ارادہ زندہ رہنے کی طرف مائل ہوتا ہے یہ تمایل انسان کوکام پر لگاتا ہے اور اسے شادی کرنے اور اپنی اور بیوی بچوں کی رہائش کیلئے گھر بنانے پر مائل کرتا ہے بعض لوگ جو مذہبی ایمان سے محروم ہوتے ہیں ان میں زندہ رہنے کا ارادہ سست پڑ جاتا ہے ۔
ارادے کے سست پڑ جانے کی بھی چند وجوہات ہیں ان میں ایک وجہ کاہلی ہے اور وہ انسان اس قدر سست ہو جاتا ہے کہ کوئی کام نہیں کر سکتا اور اس میں بہت زیادہ سستی وجود میں آ جاتی ہے جس سے نا امیدی جنم لیتی ہے اور اسی نا امید کے نتیجے میں انسان اپنے ہاتھ اپنے خون سے رنگین کر لیتا ہے زندگی کی ارادے کے سست پڑ جانے کی ایک دوسری وجہ جو ا بازی ہے جو ہمارے مذہب میں سختی سے منع ہے جوئے میں انسان اپنا تمام مال و متاع نہایت مختصر مدت میں کھو دیتا ہے اور جب سوچتا ہے کہ اس نے اپنے کئی سالوں کی کمائی تھوڑی دیر میں لٹا دی ہے تو نا امیدی اس پر غالب آ کر اسے خود کشی پر مائل کر دیتی ہے ۔
زندگی کے ارادہ کے سست پڑ جانے کی ایک اور وجہ جنون ہے جو زیادہ تر موروثی ہوتا ہے اور آباؤ اجداد کے شراب پینے کی وجہ سے جنم لیتی ہییہی وجہ ہے کہ اس طرح کا جنون مسلمانوں میں نہیں ہے کیونکہ مسلمان شراب نہیں پیتے جس کی وجہ سے ان کی اولاد جنون کا شکار نہیں ہوتی ۔لیکن وہ قومیں جو شراب پیتی ہیں ان میں دو بیماریوں کے وجود میں آنے کا خطرہ موجود رہتا ہے ایک دماغ کا خبط اور دوسری لقوہ ۔
موروثی جنون جو آباؤ و اجداد کے بہت زیادہ شراب پینے کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے ممکن ہے زندہ رہنے کے عزم کو بغیر کسی وجہ کے ختم کر دے اور جو کوئی اس طرح کے جنون میں مبتلا ہوتا ہے اپنے خلاف بہانے تراشتا اور اپنے کینے کو اپنے خلاف ابھارتا ہے ہر شخص اپنے خلاف بغض و کینے میں اس اس قدر اگے بڑھ جاتا ہے کہ اپنے آپ کو مارا ڈالنے کا سزا وار قرار دے کر موت سے ہم کنار کر دیتا ہے ۔
دوسری وجہ جو بعض افراد میں زند رہنے کے عزم کو ختم کر دیتی ہے وہ جوا ہارے بغیر ہمت ھار بیٹھتا ہے ۔ اگر ایک مومن مسلمان ہمت ھار بیٹھے تو چونکہ وہ خداوند تعالی پر توکل کرتا ہے لہذا خود کشی کے بارے میں نہیں سوچتا لیکن وہ لوگ جو مذہبی ایمان سے محروم ہیں جون نہی وہ ہمت ہار بیٹھتے ہیں ممکن ہے کہ زندہ رہنے کے عزم کو ہاتھ سے دے بیٹھیں اور اپنی جان کے خلاف برا ارادہ کر لیں ۔
جو اسباب انسان کے زندہ رہنے کے عزم کو ختم کر دیتے ہیں ان میں سستی بہت عام ہے اکثرلوگ جو خود کشی کرتے ہیں وہ سست ہوتے ہیں اور اگر کوئی ان کے مافی الضمیر میں جھانک سکے تو وہ محسوس کرے گا کہ ان کی خود کشی کرنے کی اپصل وجہ ان میں پائی جانے والی سستی ہے اور دین اسلام کے احکام کا ایک مقصد انسان کو سستی اور کاہلی سے دور رکھنا ہے ۔
جابر ‘ آدمی فطرتا آرام پسند ہے اور بذاتہ کام کرنے کا رجحان نہیں رکھتا ہر آدمی صبح کے وقت سونا چاہتا ہے کیونکہ صبح کی نیند تمام اوقات سے زیادہ موثر ہوتی ہے لیکن دین اسلام انسان کو سورج کے طلوع ہونے سے پہلے نماز پڑھنے کا حکم دیتا ہے اور یہ فریضہ مسلمانوں میں سستی دور کرنے میں بہت موثر ہے ایک مسلمان شخص جب صبح کی نماز بڑھ لیتا ہے تو وہ روز مرہ کے کاموں کیلئے تیار ہو جاتا ہے اس طرح دوسری چارنمازیں بھیا سی لئے واجب قرار دی گئی ہیں تکاہ مسلمان سستی سے پرہیز کریں ۔جابر نے کہا میں نے ہندوستانی تاجروں سے جو جدہ آتے ہیں سن رکھا ہے کہ ہندوستانیوں کے تین خدا ہیں کیا آپ کو ان تین خداؤں کے نام معلوم ہیں ؟ جعفر صادق نے فرمایا ان تین خدئاون کے نام ہندی زبان میں براما (یا برھما ) وشنو اور شیوا ہیں ۔
جابر نے کہا مجھے تعجب ہے کہ وہ لوگ توحید کے بجائے تین خداون کی پوجا کیون کرتے ہیں ؟ جعفر صادق نے جواب دیا چونکہ یہ لوگ واحد اور حقیقتی خدا کے کلام کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے تھے لہذا انہوں نے اپنے تخیل سے تین خدا وجود میں لا کر ان کی پرستش شروع کر دی ‘ ان کا عقیدہ ہے کہ براما یا برھما وہ خدا ہے جس نے کائنات کو خلق کیا ہے اور براما کے کائنات کو وجود میں لانے کے متعلق وضاحت بھی کرتے ہیں جس کا خلاصہ ہے کہ براما نے اپنی پھونک یا سانس سے کائنات کو خلق کیا ہے اور جب کائنات وجود میں آ گئی تو ایک دوسرا خد ا جس کا نام ویشنون تھا ‘ کائنات کا محافظ بن گیا اور ہندو عقیدے کائنات وجود میں آ گئی تو ایک دوسرا خدا جس کا نما ویشنوتھا ‘ کائنات کا محافظ بن گیا اور ہندو عقیدے کے مطابق تیسرا خد ا جس کا نام شیوا ہے موت یا ہلاکت کا خدا ہے جو کچھ پہلے خدا (براما ) نے خلق کیا اور کرتا ہے اسے تیسرا خدا ہلاک اور نیست و نابود کرتا ہے اور اس کے باوجود کہ دوسرا خدا کائنات کا محافظ ہے تیسرے خداکے کام میں رخنہ نہیں ڈال سکتا اور موت و نیست و نابودی کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتا جابر نے پوچھا پھر ہندوؤں کو اپنے تخیل سے ویشنو کو وجود میں لانے کی کیا ضرورت تھی کیا اس خدا کا وجود اس لئے ضروری تھا تاکہ یہ کائنات کی حفظت کر سکتا اور جب کائنات کی حفاظت پر قادر نہیں اور شیوا ہر ایک کو ہلاک اور نیست و نابود کرتا ہے تو کیا عقل کی رو سے یہی بہتر نہ تھا کہ ہندوؤں کے دو خدا ہوتے ایک براما اور دوسرا شیوا ۔
جعفر صادق نے جواب دیا جس سوچ کی وجہ سے ہندو ویشنو کے معتقد ہوئے اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک ایسا خدا ہونا چاہیے جو کائنات کو موجودہ زمانے میں محفوظ رکھے اور اے جابر تجھے معلوم ہے کہ ہندوؤں کا تین خداؤں پر ایمان لانا اس بات کا باعث ہوا کہ وہ تنوں جنگ کی حالت میں ہوں اور جو کچھ براما یا برھما وجود میں لائے اسے شیوا منہدم کر دے اور اگر وہ جاندار ہے تو اسے ہلاک کر دے اور یہ بھی کہ ویشنون کو ہمیشہ شیوا سے بر سرپیکار رہنا چاہیے کیونکہ شیوا چاہتا ہیجو کچھ پہلے خدا نے خلق کیا ہے اسے ہلاک یا منہدم کرے لیکن ویشنو کو شش کرتا ہے کہ شیوا کو اپنے کام میں کامیاب نہ ہونے دے لیکنوہ اپنی اس کوشش میں ہمیشہ ناکام رہتا ہے اور دو جخھ شیوا چاہتا ہے وہی کرتا ہے ۔
ایسا نظر آتا ہے کہ تیسرے خدا کو کائنات کی حفاظت کیلئے وجود میں لانے کی سوچ اس سے بھی عبارت ہے کہ خلق کرنے اور ہلاک کرنے والے خدا کے درمیان کوئی واسطہ ہونا چاہیے تاکہ زندگی اور موت کے خداؤں کا براہ راست رابطہ نہ ہو کیونکہ اگر ان کا رابطہ براہ راست ہو گا تو نہ کوئی چیز خلق ہو گیا ور نہ مرے گی۔
جابر بن حیان نے کہا میں جب یہ خیال کرتا ہوں کہ میں موحد ہوں تو میں اپنے آپ پر فخر کرتا ہوں کیونکہ میرے تو حیدی مذہب میں اس طرح کا کوئی مسئلہ یا مشکل موجود نہیں ۔
جعفر صادق نے فرمایا توحید مذاہب میں خالق اور محافظ ایک ہی ہے اور وہی ہے جو مارتا ہے کیونکہ یہ بات درست نہیں کہ معدوم کرتا ہے بلکہ صورت تبدیل کرتا ہے اور دین اسلام میں موت کے بعد قیامت موجود ہے جو اصول دین میں سے ہے جس کے مطابق انسا دوبارہ زندہ ہوں گے اور اپنی زندگی کا دوبار آغاز کریں گے ۔

یونانی فلاسفر1
جابر بن حیان نے پوچھا کیا افلاطون اور اس کا شاگرد ارسطو موت کو برحق خیال کرتے تھے ؟ جعفر صادق نے فرمایا یہ دو شخص یونانی تھے اور قدیم یونانیون کا موت کے بارے میں یہ عقیدہ نہ تھا کہ انسانی زندگی مکمل طور پر ختم ہو جاتیہے وہ موت کو بنی نوعی انسان کی طویل عمر کا ایک مرحلہ سمجھتے تھے اسی وجہ سے جب وہ مردے کیلئے تابوت تیار کرتے تو وہ تابوت پر اپنے ذوق کے مطابق رنگ برنگی تصوریں بناتے تھے ان تصوریوں میں مرد و عورت کے ملاپ کا منظر ‘ رقص کا منظر اور شکار وغیرہ کے منظر نقش ہوتے تھے ان تصوریوں کے بنانے سے ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ تابوت میں موجود جسد کو مردہ نہیں بلکہ زندہ خیال کرتے تھے لیکن اس کے باوجود کہ یونانیوں کا موت پر ایمان نہ تھا ‘ پھر بھی ان کے فلاسفہ موت کے بارے میں سوچ و بچار سے غافل نہ تھے ۔
یونانی ماہرفلکیات ارسطو خوس فلسفے میں بھی صاحببصیرت تشمار ہوتا تھا اس نے موت کے بارے میں کافی غور و خوض کرنے کے بعد کہا میں اس سوچ سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا کہ وہ لاکھوں مرد اور عورتیں جو مجھ سے قبل زندہ تھے وہ کہاں گئے اور ان میں سے کوئی دکھائی کیون نہیں دیتا اور کسی کی آواز کیوں نہیں سنائی دیتی اور مجھے یہ سعادت کیوں نصیب ہوئی ہے کہ میں ان لاکھوں مردوں ‘ عورتوں کے درمیان جو مر گئے ہیں اور کوئی بھی ان میں سے واپس نہیں آیا زندہ ہوں اور زندگی کی خوشیوں سے بہرہ مند ہوں اور کیا میں بھی ایک دن ان ہی کی طرح مر جاؤں گا یا یہ کہ میں جو آج زندگی کی خوشیوں سے ہم کنار ہوں‘ نہیں مروں گا ۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ جو لاکھوں مرد اور عورتیں مر چکے ہیں میں اور مجھ میں فرق ہے چونکہ مجھے زندگی سے پیار ہیاور وہ لوگ جو مر چکے ہیں اس لئے مرے ہیں کہ انہیں زندگی سے پیار نہ تھا اور وہ زندگی کی خوشیوں سے بہرہ مند نہیں ہونا چاہتے تھے اس کے باوجود کہ میں اپنے آپ کو مستثنی خیال کرتا ہوں اور مجھے ہمیشہ زندہرہنے کی امید ہے کبھی کبھار اپنے آپ سے کہتا ہوں اگر میں مر گیا تو کیا ہو جائے گا کیا موت کے بعد میں زندگی کی موجودہ خوشیوں سے بہرہ مند ہو سکوں گا ؟ کیا موت کے بعد لذیذ غذا کھناے کی لذت اٹھا سکوں گا اور کیا موسیقی کی آواز آج کی مانند مجھے لطف پہنچائے گی ؟۔۔۔۔۔ یا یہ کہ میں بھی موت کے بعد ان جانورون کی مانند ہو جاؤں گا جو مر جاتے ہیں اور کیا وہ مرغ جس کا گوشت کل تک میری غذا تھی موت کے بعد زندہ ہو گا ؟ اور وہ بکرا جسے ہم نے ایک دن بعد ذبح کیا اور اس کے گوشت سے غذا پکای اور میرے کئی عزیزوں اور دوستوں نے وہ غذا کھائی کیا موت کے بعد اسکے زندہ ہونے کی امید کی جا سکتی ہے ؟
لیکنبعد میں خیال کرتاہوں کہ مجھ میں اور بکرے میں بہت فرقہے چونکہ میں انسان ہوں اور وہ بکرا حیوان ہے انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مرنے کے بعدزندہ رہے چونکہ انسان کے پاس عقل و علم ہے اور بکرا تو علم و عقل سے محروم ہے اور اگر مرنے کے بعد میں زندہ نہ رہوں تو آج مجھے یہ خیال نہیں آ سکتا کہ موت کے بعد زندہ رہوں گا اور اپنے آپ کو بھی پہچانوں گا ۔
میں موت کے بعد نہیں چاہتا کہ اپنے آپ کو نہ پہچانوں کیونکہ اگر میں موت کے بعد اپنے آپ کو نہ پہچان سکا تو جو خوشیاں موت کے بعد میرے نصیب میں ہوں گی میں ان سے محظوظ نہیں ہو سکوں گا اور مجھے موت کے بعد اپنے آپ کو پہچاننا چاہیے تاکہ مجھے علم ہو سکے کہ یہ میں ہوں جو خوشیوں کی لذت اٹھا رہا ہوں نہ کہ کوئی دوسرا اس کے بعد ارسطو خوس کہتا ہے ۔
کیا یہ بات ممکن ہے کہ میں بھی لاکھوں زرد پتوں کی مانند ہوں جو خزاں کے موسم میں درختوں سے گرتے اور جلد ہی ختم ہو جاتے ہیں کبھی میں خیال کرتا ہوں کہ میں بھی انہی زردیوں کی مانند عنار بن کر ختم ہو جاؤں گا لیکن میرے ضمیر کی گہرائی میں کوئی مجھے کہتا ہے کہ اسطرح نہیں ‘ مجھ میں اور خزاں کے موسم میں درختوں سے گرنیوالے زرد پتوں میں فرق ہے اور میں ذبح ہونے اور پھر غذا میں استعمال ہونے والے بکرے سے برتر ہوں میرا خیال ہے مجھ میں اور بکرے کی نسبت اور موسم خزاں میں درختوں کے زرد پتوں کی نسبت بدرجہ اولی یہ برتری پائی جاتی ہے کہ میں زمانے کے گزرنے کا احساس کرتا ہوں اور وہ زمانے کے گزرنے کا احساس نہیں کرتے ۔
کئی دفعہ میں نے سوچا کہ زمانے کا گزرنا کیا ہے اور اب سوچتا ہوں کہ زمانہ بہتے ہوئے دریا کی مانند ہے اور میں اس دریا میں پتھر کے تختے کی مانند ہوں جسے جب پانی پہنچتا ہے تووہ کھڑا نہیں رہتا بلکہ حرکت کرتا ہے اور اس کے کچھ حصے سے ٹکرا کر آواز پیدا کرتے ہوئے گزر جاتا ہے اور میری زندگی موجود زمانہ ہے دریا کا بالائی حصہ جہاں سے پانی آتا ہے گذشتہ زمانہ ہے اور دریا کا ڈھلوانی حصہ جس کی طرف پانی آتا ہے‘ آئند زمانہ ہے اور میں جو ایک لمحے کیلئیپانی روکتا ہوں لہذا میں زمانہ حالہوں اور چونکہ دریا کا پانی مجھسے ٹکراتا ہے لہذا وہ زمانہ حال میں تبدیل ہو اجتا ہے ۔
مجھے گزشتہ زمانے سے کوی دلچسپی نہیں چونکہ گزرے ہوئے زمانے کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور میں اس سے بہرہ مند نہیں ہو سکتا میری زندگی زمانہ حال ہے اور ہمیشہ زمانہ حال میں زندہ ہوں اور وہ لمحہ جس میں میں یہ خیال کرتا ہوں کہ میں زندہ ہوں وہ لمحہ زمانہ حال ہے نہ گذشتہ زمانہ اور نہ آئندہ زمانہ مجھے معلوم ہے کہ میرے لئے زمانہ حال میں میری حقیقی زندگی ہے اور جس کے ذریعے میں اپنی عمر کو پہچان سکتا ہوں وہ صرف زمانہ حال ہے میری گزری ہوئی عمر ایک ایسے پرندے کی مانند ہے جو پنجرے سے آزاد ہو کر اڑ چکا ہے اور اب اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور آئندہ کی عمر ایک ایسے پرندے کی مانند ہے جو فضا میں اڑ رہا ہے اور ابھی تک میں نے اسے پکڑ کر پنجرے میں قید نہیں کیا صرف زمانہ حال ہے جو وہ مکمل طورپر میرے اختیار میں ہے اور میں اس کا مالک ہوں جس طرح چاہوں اس سے فائدہ اٹھاؤں یہ زمانہ حال میرے زندہ رہنے تک باقی ہیاور وہ ہر لمحہ جس میں میں احساس کرتا ہوں کہ میں زندہ ہوں وہ لمحہ میرے لئے زمانہ ہے مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ بعض لوگ گزرے ہوئے زمانے کو اپنی عمر خیال کرتے ہیں وہ اس پر غور نہیں کرتے کہ جو زمانہ ان پر بیت گیا وہ اب ان کا نہیں رہا ۔
میں حیران ہوتاہوں کہ کیسے بعض لوگ آئندہ آنے والے دور کو اپنی عمر خیال کرتے ہیں اور اس پر غور نہیں کرتے کہ جو زمانہ ابھی تک نہیں آیا وہ ایسی دولت کی مانند ہے جو ابھی تک حاصل نہیں ہوئی اور اسے اپنی خیال نہیں کیا جا سکتا ۔
مجھے تعجب ہے کہ کیوں بعض لوگ اس روشن حقیقت کو نہیں دیکھتے اور تسلیم نہیں کرتے کہ زندگی زمانہ حال کے علاوہ کچھ نہیں اور اگر کوئی اس سے فائدہ اٹھانا چاہے تو اسے زمانہ حال سے فائدہ اٹھانا چاہیے میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ کہتے ہیں آج اس خوشی کا وقت نہیں اسے کل پر رکھ چھوڑنا چاہیے وہ اس بات سے غافل ہیں کہ کل ان کا نہیں کیونکہ ابھی تک وہ اسکے مالک نہیں بنے آدمی کی عمر زمانہ حال ہے اور یہ زمانہ عمر کے خاتمے کے آخری لمحات تک جاری رہتا ہے اور انسان کیلئے ہر گز کوئی ایسا لمحہ نہیں آتا جو زمانہ حال نہ ہو ۔ گذشتہ کل مکالمے میں بامغنی ہے لیکن فی نفسہ بے معنی ہے کیونکہ گذشتہ کل موجود نہیں اور جو چیز موجود نہ ہو کیسے ممکن ہے وہ مفہوم رکھتی ہے آنے والا کل بامعنی ہے لیکن بذاتہ ہی موجود نہیں ہے کیونکہ جو چیز ابھی تک وجود میں نہیں آئی کیسے ممکن ہے مفہوم رکھتی ہو ؟ لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ کل بھی (اگر پہنچے ) تو زمانہ حال ہے میں اگر کل ظہر کے وقت پہنچوں تو ظہر کے وقت کو زمانہ حال ہی پاؤں گا نہ کہ دوسرا دن ‘ میری اور دوسرے انسانوں کیزندگی میں گذشتہ اور آئندہ کل صرف مکالمے کی حد تک محدود ہے اور بذاتہ بے معنی اور بے مفہوم ہے ۔
میرے لئے جب تک میں زندہ ہوں کوئی ایسا لمحہ پیش نہیں آئے گا جو زمانہ حال نہ ہو اور میں کسی لمحے بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ لمحہ گذشتہ کل یا آئندہ کل ہے ۔ میرا باپ بھی جب تک زندہ تھا یہ نہیں کہہ سکا کہ یہ لمحہ گذشتہ کل یا آئندہ کل ہے میرا بیٹا بھی جو جوان آدمی ہے یہ بات نہیں کہہ سکتا یعنی اس کیلئے عمر کا ہر لمحہ زمانہ حال ہے ۔ جس وقت میں جوان تھا میں ذیمقراطیس کی اس بات کو نہیں سمجھ سکا کہ اس نے کہا میں اور میرا باپ اور میرا بیٹا یک ہی لمحے پیدا ہوئے اس سے اسکی کیا مرا د ہے ؟
آج ذی مقراطیس کے ا س قول کی صحت پر مجھے کوئی شک نہیں اور میں اس بات کا قائل ہوں کہ نہ صرف ایک باپ اور بیٹا بلکہ تمام بنی نوعی انسان ایک لمحے یعنی زمانہ حال میں پیدا ہوئے اور ایک لمحے میں جو پھر زمانہ حال ہے اس میں مر جاتے ہیں ۔
میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ زمانہ حال جو میری حقیقی عمر ہے کہیں میرے ہاتھ سے چلا نہ جائے کبھی میں خیال کرتا ہوں کہ کیا عمر کا خاتمہ سونے کی مانند نہیں ؟ اور میں سونے سے کیوں نہیں ڈرتا مرنے سے ڈرتا ہوں ؟ جب میں سوتا ہوں تو اپنے آپ سے بے خبر ہو جاتا ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ جو شکص سویا ہوا ہے کیا وہ میں ہی ہوں اور سونے کے دوران میں اپنی موت کو فراموش کر دیتا ہوں ۔
پس موت جو ایک دوسری طرح سونے کا نام ہے اس سے کیوں ڈروں ۔ لیکن یہ لداری مجھے تسلی نہیں دیتیا ور میرا موت سے ڈر دور نہیں ہوتا ۔ چونکہ سونے سے پہلے مجھے علم ہوتا ہے کہ سونے کے بعد جا گ اٹھوں گا لیکن موت سے بیدار نہیں ہوں گا اگر آدمی موت کے بعد سو کر بیدار ہو جاتا تو صرف یونان میں مجھے سے پہلے گزرے ہوئے لاکھوں لوگ بیدار ہو جاتے اور مجھ سے موت کے بعد کی آپ بیتی بیان کرتے ۔ لیکن موت تو ایسا سونا ہے جسکے بعد بیداری نہیں ہے اور میں امید نہیں رکھتا کہ بیدار ہو جاؤں گا ۔
چونکہ مجھے معلوم ہے کہ بیدار ہونے کیلئے میرے جسمانی ڈھانچے کا وجود ضروری ہے جو موت کے بعد ختم ہو جائیگا نہ صرف میرا گوشت پوست اور خون ختم ہو جائے گا بلکہ میری ہڈیاں بھی غبار میں تبدیل ہو جائیں گی چونکہ اس کے بعد میرا ڈھانچہ باقی نہیں رہے گا تو ظاہر ہے کہ میں بیدار نہیں ہوں گا اور یہی وہ بات ہے جو مجھے موت سے ڈراتی ہے اگر مجھے علم ہوتا کہ میری موت کے بعد میرا ڈھانچہ باقی رہے گا تو میں موت سے ہر گز نہ ڈرتا چونکہ ایک دن بیدار ہونے کا امیدوار ہوتا اسکی وجہ یہ ہے کہ جب تک بیداری کے عوامل موجود ہوں انسان بیداری کا امیدوار رہتا ہے ۔ میں نے سنا ہے کہ مصری مو کے بعد انسانی جسدکی ایسی صورت بنا دیتے ہیں جو ہر گز ختم نہیں ہوتی اور اس کام کیلئے مخصوص انسٹی ٹیوٹ قائم ہیں ۔
لیکن یہاں پر کوئی بھی جس دکو موت کے بعد محفوظ بنانے کے کام سے آگاہ نہیں اور اگر آگاہ ہو تو بھی وہ مردے کے جسد کو محفوظ بنانے کی اجازت نہیں دے گا چونکہ یونانیوں کا عقیدہ ہے کہ یونانی خدا اس روش کو پسند نہیں کرتے کیونکہ یہ ایسی روش ہے جو غیر خدا نے بنائی ہے اور غیر خداؤں کیروش یونان میں رائج نہیں ہونی چاہیے ۔ کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ بڑھاپے کے آخری سالوں میں مصر جاؤں اور وہیں مروں تاکہ میرے جس کد موت کے بعد ایسی شکل دے دیں کہ وہ ختم نہ ہو اور مجھے امید ہو کہ میں موت کی نیند سے بیدار ہو جاؤں گا۔
لیکن جلدی ہی میں اس سوچ کو ترک کر دیتا ہوں کینکہ میں اپنے آپ کو قائل نہیں کر سکتا یونان کی خاک کے علاوہ کوئی خاک میرے جسم پر لپیٹی جا سکتی ہے اور میں اپنے آپ کو اس سوچ پر قائم نہیں رکھ سکتا کہ یونانی خداؤں کی رائج کردہ روش کے علاوہ کسی دوسری روش سے مجھے دفن کرنا درست ہے کیونکہ میں یونان میں رائج روش کے علاوہ اگر کسی دوسری روش کے مطابق دفن کیا جاؤں تو میں نے اپنے وطن سے غذا کی ہے ۔
کبھی میں اپنے آپ سے کہتا ہوں کیا یہ بہتر نہیں کہ میں اپنے وطن میں مروں اس شرط پر کہ میرے جسد خاکی کو میری موت کے بعد محفوظ رکھیں اور اگر ہو سکے تو مجھے مصری روش کے مطابق دفن کیا جائے لیکن پھر میں اس سوچ کو جھٹک دیتا ہوں کیونکہ یونانی خداؤں کی روش کے علاوہ کسی دوسری روش کو قبول کرنا وطن سے غذاری کے مترادف ہے کیا یہ ممکن ہے کہ خدا مجھے امید دلائیں کہ موت کے بعد میں اپنے آپ کو پہچان سکوں گا ؟ اور یہ جان سکوں گا کہ میں وہی رہوں گا جو آج ہوں اور میں نے عمر کا ایک حصہ ستاروں کو پہچاننے میں گزارا ہے ؟
اور ان کی حرکات کے قوانین معلوم کيے اگر خدا مجھے یہ امید دلائیں تو میں اس قدر خوش ہوں گا کہ اگر میرے پاؤں ہوتے تو میں رقص کرتے ہوئے قبر کی طرف بڑھتا مجھے اگر یقین ہو کہ موت کے بعد اپنے آپ کو پہچان سکوں گا تو میں کھانے پینے کی لذت کو نظر انداز کر دیتا اور دوسری دنیا میں بھوک اور پیاس مٹاتا (اگر اس دنیا میں کھانے اور پینے کا امکان موجود ہوتا ) کھانا ‘ پینا اور سونا مجھے اس دنیا میں اس لئے لذت دیتاہے کہ میں اپنی عمر کو کم دیکھتا ہوں اور اگر مجھے ہمیشہ کی عمر ملے تو مجھے کھانے پینیا ور سونے کی لذت سے کیا حاجت ہے کیونکہ سب سے بڑی لذت عمر جاوید ان سے محظوظ ہونا ہے اور جب کبھی موت کے بعد اپنے آپ کو پہچانوں گا تو تمام چیزیں میری اپنی ہو جائیں گی اور پھر چھوٹی چھوٹی لذتیں میرے لئے بے معنی ہو جائیں گی لیکن اگر موت کے بعد اپنے آپ کو پہچانوں تو عمر جاوید ان کی میری نظر میں کوئی قدرو قیمت نہیں ہو گی کیونکہ وہ کسی دوسرے کی عمر جاوید ان ہو گی نہ کہ میری مجھے معلوم ہے کہ کوہ المپک جس میں خدا رہتے ہیں عمر جاوید ان کا مالک ہے لیکن کیا وہ ہمیشہ کی عمر میرے لئے کوئی معنی رکھتی ہے ؟ بالکل نہیں م کیونکہ نہ وہ کسی دوسرے کی ہمیشہ کی عمر ہو گی اور نہ میری م ممکن ہے میں سوچوں کہ اگرچہ موت کے بعد میں اپنے آپ کو نہیں پہچان سکوں گا لیکن چونکہ عمر جاوید اں رکھتا ہوں لہذا دنیا کی عمر کا شریک ہو جاؤں گا اور اس طرح کوہ اولمپ کی عمر کا بھی شریک ہو جاؤں گا لیکن اگر اس طرح بھی ہو ۔ پھر بھی میں راضی نہیں ہوں گا کیونکہ جو کیچھ زندگی کے لحاظ سے میری نظر میں اہمیت رکھتا ہے وہ میں ہوں اور اگر میں نہیں ہوں تو ہمیشہ کی زندگی کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں جس طرح آج کوہ اولمپ کی ابدی زندگی کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔
اے جابر میں نے تیرے سامنے ارسطو خوس کا قول بیان کیا ہے تاکہ تجھے علم ہو سکے کہ یونان میں ایسے لوگ موجود تھے جو موت کے بارے میں عورو فکر کرتے تھے اور مجموعا موت کا موضوع کئی مرتبہ گزریہوئے زمانے میں لوگوں کے ایک گروہ کی سوچ کا ہدف بنتا رہا ہے جابر نے پوچھا کہ ارسطو خوس اور دوسروں نے ان نظریات سے کیا نتیجہ اخذ کیا ہے ؟جعفر صادق نے فرمایا چونکہ وہ موحد نہیں تھے اور ہم مسلمانوں کی مانند قیامت پر یقین نہیں رکھتے تھے لہذا موت سے بہت ڈرتے تھے اور جن لوگوں نے بھی ارسطو خوس کی مانند موت کے بارے میں سوچ و بچار کی ہے ان میں اکثر اس بات سے ڈرتے رہے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ موت کے بعد زندہ رہیں لیکن جسم کھو دینے کے نتیجے میں اپنے آپ کو نہ پہچان سکیں ۔
لیکن ایک مسلمان وہ بھی مومن ‘ موت کے بعد اپنی عاقبت کے بارے میں مطمئن ہے اور اسے معلوم ہے کہ موت کے بعد خداوند تعالی نے جو وقت اسکے لئے معین فرمایا ہے اس وقت زندہ ہو گا اور اس وقت زندہ ہو کر نہ صرف اپنے آپ کو یہ جانے گا بلکہ اعمال کا حساب بھی دے گا وہ اپنے وجود کو اس قدر ممکن طور پر محسوس کرے گا کہ اپنے اس جہاں کے اعمال کا حساب دے سکے گا اور اگر نیکو کار ہوا تو جنت میں جائے گا وگر نہ اسے اسکے کردار کی سزا ملے گی ۔
جابر نے کہا ‘ مسلمانوں کا مذہبی عقیدہ کتنا اچھا ہے کہ موت کے بعد انہیں ان کی حالت کا علم ہے اور کیا گذشتہ مذاہب میں بھی مومنوں کو موت کے بعد کی حالت کا علم ہوتا تھا ؟ جعفر صادق نے فرمایا اسلام سے قبل آنے والے تمام آسمانی مذاہب میں مومنین سے کہا گیا ہے کہ موت کے بعد پاداش اور کیفر ہے لیکن ان میں سے کسی میں بھی موت کے بعد پاداش اور کیفر کے مسئلے کو دین اسلام کی طرح وضاحت سیا ور دو ٹوک الفاظ میں بیان نہیں کیا گیا اور بعض گذشتہ مذاہب میں اس کے بارے میں کسی حد تک ابہام پایا جاتا ہے ۔
جابر نے پوچھا ‘ کیا دین اسلام میں پاداش کی بنیاد موت سے ڈرنے پر رکھی گئی ہے ؟ جعفر صادق نے فرمایا ‘ موت سے ڈرنے کی بنیاد پر نہیں بلکہ موت کیبعد پاداش سے خوف کی بنیاد پر ہے مومن مسلمان موت سے نہیں ڈرتے بلکہ اسے موت کے بعد سزا کا ڈر ہوتا ہے وہ موت کے بعد سزا سے بچنے کیلئے ساری عمر جن باتوں سے منع کیا جاتا ہے ان سے پرہیز کرتے ہیں ۔
اور ایک مومن مسلمان جو ساری عمر گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا ‘ میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ موت کے بعد دعوت کو لبیک کہتا ہے اسکی روح آسانیس ے اسکے جسم سے پرواز کر جاتی ہے ۔
اے جابر ‘ دین اسلام میں پاداش کی بنیاد موت پر نہیں ہے بلکہ موت کے بعد پاداش سے ڈر کی بنیاد پر ہے اور اگر موت سے ڈرنے والا مسلمان ہوتو وہ موت سے نہیں ڈرتا بلکہ موت کے بعد پاداش سے ڈرتا ہے جابر نے کہا ‘ بہر کیف موت سے ڈر موجود ہے ؟
جعفر صادق نے فرمایا لوگوں میں موت سے ڈر وہ خوف نہیں ہے جو ضرب الاجل کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے مثلا اگر کوئی قتل کا مرتکب ہوتا ہے تو شریعت کی رو سے اسے قتل ہونا چاہیے اور اسکے قتل کا حکما گر جج نے صادر کر دیا ہے اور اسے علم ہو جاتا ہے کہ کل اسے پھانسی ہو جانا تو وہ شخص موت سے بہت ڈرتا ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ اس کی موت ضرب الاجل کی حامل ہے اور معین وقت میں پہنچنے والی ہے ۔
لیکن عام لوگوں میں موت ضرب الاجل کی حامل نہیں ہے ‘ خداوند تعالی نے فرمایا ہے ہر کسی کی موت ‘ کا وقت معین ہے اور اس سے ایک لمحہ ادھر ادھر نہیں ہو گا لیکن اس معین وقت کا تعین خداوند تعالی کرتاہے نہ وہ شخص جو مرتا ہے تمام بنی نوعی انسان موت کا عقیدہ رکھنے کے بارے میں ان قرض داروں کی مانند ہیں جنہیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ ان کے قرض کی ادائیگی کا وقت کونسا ہے ؟
اور یہ احساس کرتے ہیں کہ اسکی ادایگی بہت دور ہے اور اسی وجہ سے عام زندگی میں کوئی بھی موت سے نہیں ڈرتا ۔ یہ بھی خداوند تعالی کی حکمت ہے کہ اس نے موت کو ہر زند چیز کیلئے مقرر کیا ہے لیکن اس کا وقت ہر ایک سے پوشیدہ رکھا ہے اسی لئے عام زندگی میں موت سے کوئی نہیں ڈرتا موت سے یہ لاپرواہی بعض لوگوں میں اس قدر مضبوط ہوتی ہے کہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ زندہ جاوید رہیں گے اور اسی لئے وہ مال جمع کرنے میں بہت دوڑ دھوپ دکھاتے ہیں ان پر حرص کا اتنا غلبہ ہوتا ہے کہ گویا وہ ہزاروں سال زندہ رہیں گے ۔
اگر انسانیزندگی میں خدوند تعالی کی طرف سے یہ حکمت قرار نہ ہوتی توہر کوئی زندگی میں ایک ایسے محکوم کی مانند زندگی گزارتا جسے علم ہوتا کہ دوسرے دن یا دوسرے گھنٹے میں زندگیکو وداع کہنا ہے اور جب لوگوں میں یہ طرز فکر پیدا ہو جاتی ہو تو لوگ اس قدر مضطرب ہوتے کہ نہ تو حصول معاش کے لئے کام کر سکتے اور نہ ہی اجتماعی زندگی وجود میں آتی اور اسطرح بنی نوعی انسان مایوسی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ۔ جابر نے کہا ‘ خداوند تعالی جو انسان کو خلق کرتا ہے اور اسے جان دیتا ہے اسے مارتا اور ناوبود کیوں کرتا ہے ؟
جعفر صادق نے فرمایا ‘ اے جابر میں نے کہا ہے کہ موت جس طرح عام لوگ تصور کرتے ہیں ‘ وجود نہیں رکھتی بلکہ ایک حالتکی تبدیلی ہے اور میں یہ بات دہراتا ہوں کہ ایک مومن مسلمان اگر عالم ہے تو اس حالت کی تبدیلی سے نہیں ڈرتا ۔ کیونکہ اسے علم ہے کہ موت کے بعد زندہ ہو گا ۔
لیکن میں فرض کرتا ہوں کہ اس وقت ایک ایسے شخص سے بات کر رہاوں جو مسلمان نہیں ہے اور مجھ سے سوال کرتا ہے کہ خداوند تعالی جس نے انسان کو خلق کیا ہے اور اسے جان عطا کی ہے اسے کس لئے مارتا ہے ؟ تو میں اسکے جواب میں کہوں گا کہ موت ایک ایسا دریچہ ہے جس سے انسان دوسری زندگی میں وارد ہوتا ہے اور وہ دوسری زندگی میں بھی دوبارہ زندہ ہو گا۔
اے جابر ‘ کیا تو اپنی ماں کے پیٹ میں زندہ تھا یا نہیں جابر نے کہا ‘ ہاں میں زندہ تھا جعفر صادق نے پوچھا ‘ کیا تو ماں کے پیٹ میں غذا کھاتا تھا یا نہیں ؟ جابر نے مثبت جواب دیا ۔ جعفر صادق نے فرمایا کیا تو ماں کے پیٹ میں ایک مکمل لیکن جھوٹ انسان شمار ہوتا تھا یا نہیں ؟ جابر نے کہا میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ ایک مکمل انسان تھا ۔ جعفر صادق نے پوچھا کیا تجھے یاد ہے کہ تو نے ماں کے پیٹ میں موت کے بارے میں فکر کی ہے یا نہیں ؟ ۔
جابر نے جواب دیا ‘ مجھے یاد نہیں کہ ماں کے پیٹ میں موت کے بارے میں غورو فکر کرتا تھا یا نہیں ۔ جعفر صادق نے پوچھا ‘ موت کے موضوع کو چھوڑو چلو یہ بتاؤ کہ ماں کے پیٹ میں تمہاری کیا غذائیں تھیں ؟
جابر نے کہا ‘ ماں کے پیٹ میں اپنی زندگی کی حالت کے بارے میں مجھے کچھ بھی یاد نہیں ہے۔
جعفر صادق نے فرمایا اسکے باوجود کہ تمہیں ماں کے پیٹ میں اپنی زندگی کی حالت کے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں کیا اپنی زندگی کو اس جہاں میں اچھا سمجھتے ہو یا ماں کے پیٹ میں ؟جابر نے کہا ‘ ماں کے پیٹ میں میری زندگی بہت مختصر تھی یعنی تقریبا نو ماہ تھی ۔
جعفر صادق نے کہا وہ نو ماہ کی مدت جو تم نے ماں کے پیٹ میں گزارے ہیں شاید وہ نو ماہ کی مدت نہیں اس دنیاکی اسی یا نوے سال کی عمر سے جو تم اس دنیا میں گزارو گے تمہیں زیادہ نظر آئے کیونکہ زمانہ ہر قسم کے حالات میں تمام لوگوں کیلئے ایک جیسا نہیں ہے اور ہر کوئی تھوڑے بہت غور کے بعد اپنی زندگی میں اس موضوع کا ادراک کر سکتا ہے مجھے یقین ہے کہ کبھی چند گھنٹے تم نے ایسے گزارے ہوں گے کہ تم نے سمجھا ہو گا کہ ایک گھنٹہ گزار ہے اور کبھی تمہارے لئے ایک گھنٹہ اس قدر لمبا ہو گیا ہو گا کہ تمہارا خیال ہو گا کہ تم نے چند گھنٹے گزارے ہیں اسی لئے میں کہتا ہوں کہ جو نو ماہ کی مدت م نے ماں کے پیٹ میں گزاری ہے شاید وہ تمہیں اس موجودہ دنیا کی عمر سے بھی طویل محسوس ہوئی ہو گی ۔
اے جابر ‘ تو ماں کے پیٹ میں ایک مکمل اور زندہ انسان شمار ہوتا تھا اور با شعور بھی تھا ۔ با شعور ہونے کی نسبت سے شاید تمہاری کچھ آرزوئیں بھی ہونگی اور اب جب کہ تم اس دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہو تمہیں ماں کے پیٹ کے زمانے کیمعمولی سی باتبھی یاد نہیں کیا تم جو ایک فاضل انسان ہو یہ گمان نہیں کرتے کہ تمہارا ماں کے پیٹ سے باہر نکلنا اور اس دنیامیں وارد ہونا شاید ایک طرح کی موت تھی کیا تم یہ خیال نہیں کرتے کہ جب تم ماں کے پیٹ میں تھے تو تم چاہتے تھے کہ تم وہیں رہو اور ہر گز وہاں سے باہر نہ نکلو تمہارا خیال تھا کہ ماں کے پیٹ سے بہتر اور آرام وہ جہان موجود نہیں اور جب تم ماں کے پیٹ سینکالے گئے ( جس کے بار ے میں نے کہا ہے کہ شاید وہ موت کی ہی ایک قسم ہے ) اور اس جہان میں پہنچے تو تم نے رونا دھونا شروع کر دیا لیکن کیا آج تم اس بات کی تصدیق کرتے ہو کہ جس دنیا میں تم زندگی گزار رہے ہو وہ ماں کے پیٹ کی دنیا سے کہیں بہتر ہے ؟
جابر نے کہا ‘ اس کے باوجود کہ مجھے ماں کے پیٹ میں اپنی زندگی کی کیفیت کے بارے میں کچھ علم نہیں میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ میری موجودہ زندگی ‘ ماں کے شکم کی زندگی سے بہتر ہے ۔
جعفر صادق نے فرمایا ‘ کیا اس موضوع کا قرینہ نہیں بتاتا کہ موت کے بعد ہماری زندگی اس دنیا کی زندگی سے بہتر ہو گی ۔ جابر نے کہا ‘ اگر اس دنیا سے بد تر ہو تو پھر ؟
جعفر صادق نے فرمایا ‘ جو لوگ اس دنیا میں خداوند تعالی کے احکامات پر عمل کرتے ہیں ان کی دوسرے جہان کی زندگی اس موجودہ جہاں کی زندگی سے بہتر ہو گی اور اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے چونکہ علاوہ ازیں خداوند تعالی نے اس موضوع کے بارے میں اپنے بندوں سے واضح وعدہ کیا ہے عقلی لحاظ سے بھی یہی بات درست ہے ۔
خداوند تعالی دانا ‘ توانا اور عادل ہے وہ حاسد نہیں کہ اپنے بندوں کو اچھے جہاں سے برے جہاں کی طرف لے جائے اگر ہم اس بات کے قائل ہیں کہ انسانی تخلیق کا مقصد اسے کمال تک پہنچانا ہے تو ہمیں یہ بات قبول کرنا چاہیے کہ انسان کی زندگی کا ہر لمحہ اسکے کمال میں اضافہ کرتا ہے حتی کہ اگر خدا نے صریحا اور کسی ابہام کے بغیر اپنے بندوں کو موت کے بعد ان کے اچھے اعمال کا اجر دینے کا وعدہ بھی نہ کیا ہوتا اور یہ نہ کہا ہوتا کہ وہ ابدی سعادت سے بہرہ مند ہوں گے پھر بھی ہماری عقل یہ سمجھتی کیونکہ انسان کی تخلیق کا مقصد اسے کامل انسان بنانا ہے لہذا اس جہان میں انسان کی زندگی کی حالت اس زندگی کی حالت سے بہتر ہو گی ۔
جابر نے پوچھا ‘ ہمیں اس بات میں کوی تردید نہیں کہ موت کے بعد ہم اپنے آپ کو پہچانیں گے اور اپنی اصلیت کو نہیں کھوئیں گے ۔ جعفر صادق نے جواب دیا اس بات میں کوئی شک نہیں ‘ اور ہر مومن مسلمان جانتا ہے کہ موت کے بعد خاوند تعالی کی طرف سے مقرر کردہ وقت پر دوبارہ زندہ ہو گا اور اپنے آپ کو پہچان لے گا اسلام نے موت کے بعد دوبارہ زندگی کے بارے میں انسانوں کو گزشتہ مذاہب کی نسبت زیادہ یقین دلایا ہے ۔
مجھے مشرکین سے کوئی غرض نہیں جن کے اس دنیا کے بعد کی زندگی کے بارے میں خوف کے متعلق مثال میں نے تمہیں ارسطو خوس کی زبانی دی ہے لیکن حتی کہ بعض گزشتہ توحید مذاہب میں لوگ موت کے بعد زندگی پر مکمل ایمان نہیں رکھتے تھے ان کا خوف تقریبا ارسطو خوس کے خوف کی مانند تھا ان کا خیال تھا کہ موت کے بعد زندہ تو ہوں گے لیکن اس دوسری زندگی میں اپنے آپ کو نہیں پہچان سکیں گے اور یہ بھی نہیں جان سکیں گے کہ وہی ہیں جو اس دنیا میں کھاتے ‘ پیتے اور سوتے تھے ۔
ان کے مذاہب میں جو باتیں دوسرے جہان میں انسانی زندگی کے بارے میں موجود تھیں وہ ان سے قائل نہیں ہوئے تھے کہ وہ دوسرے جہان میں اپنیحقیقی وجدان کو محفوظ رکھ سکیں گے اور اپنی اس زندگی کی تمام خصوصیات کو یاد رکھ سکیں گے ۔
دنیا اسلام نے اس تشویش کو مومنین کے دلوں سے مکمل طور پر محو کر دیا اور صریحا کسی استثناء کے بعیر کہ اکہ انسان موت کے بعد جس دن خداوند تعالی کے حکم سے زندہ ہو گا اپنے آپ کو اچھی طرح پہچان لے گا اور اس دنیا کی اپنی تمام انسانی خصوصیات کو یاد رکھے گا او اس دنیا کی مانند کھانے اور پینے سے لذت اٹھائے گا ۔
خداوند تعالی کے بقول ‘ نہ صرف نیک بندے موت کے بعد اپنے آپ کو پہچانتے ہیں بلکہ گناہگار بندے بھی اپنی اصلیت سے آگاہ ہوتے ہیں اور اگر وہ اپنی اصلیت پر نہ ہوں تو وہ کیسے اپنی اس دنیا کے اعمال کا حساب دے سکتے ہیں جابر بن حیان نے پوچھا ‘ کیا آپ نے ابھی نہیں کہا کہ ماں کے شکم سے بچے کا باہر نکلنا بھی موت ہے ؟ جعفر صادق نے جواب دیا ‘ میں نے قطعا نہیں کہا کہ بچے کا نکلنا موت ہے بلکہ کہا ہے کہ ماں کے شکم سے بچے کا نکلنا شاید موت کی ایک قسم ہے ۔
جابر بن حیان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا درست ہے آپ نے کہا ہیکہ شاید موت کی ایک قسم ہے لیکن میرا مقصد کچھ اور ہے ۔ جعفر صادق نے پوچھا بولو تم کیا کہنا چاہتے ہو ؟ جابر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ‘ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسکے باوجود کہ میں آپ کے بقول ماں کے شکم میں ایک طویل مدت تک رہا ہوں اور میرا ماں کے شکم میں نو ماہ تک رہنا شاید اس دنیا کے ایک آدمی کی عمر کے برابر ہو ‘ اب مجھے اس نو ماہ یا زیادہ کی زندگی سے کوئی چیز یاد نہیں ۔ کیا ماں کے شکم میں میری زندگی کی حالت سے بے خبری اس باتکی دلیل نہیں ہے کہ میں مرنے اور اس جہاں سے چلے جانے کے بعد دوسری دنیا میں اپنے آپ کو نہیں پہچان سکوں گا اور نہیں جان سکوں گا کہ میں وہی ہوں جو آج کی مانند ایک دن آپ سے بات چیت کر رہا تھا اسکے بعد جابر نے اس طرح وضاحت کی ‘ چونکہ میں مسلمان ہوں لہذا خداوند تعالی کے فرمان کے مطابق میرا ایمان ہے کہ میں دوسری دنیا میں اپنے آپ کو پہچان لوں گا ۔
لیکن میرا مطلب یہ ہے کہ اس موضوع پر فلسفے کے نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالی جائے اور میں جو ماں کے پیٹ میں اپنی زندگی کی کیفیت سے بے خبر ہوں کیسے یقین کروں کہ موت کے بعد دوسری دنیا میں اس دنیا کو یاد رکھ سکوں گا اور اپنے آپ کو پہچان لوں گا ۔
جعفر صادق نے جواب دیا اس سے قبل کہ میں تمہارے سوال کے جواب کی ماہیت سے تمہیں آگاہ کروں تم سے کہتا ہوں کہ قرینے کو دلیل میں گڈمڈ نہ کرو کیونکہ دلیل اور قرینے میں فرق ہے اس طرح کہنا چاہیے کہ چونکہ میں ماں کے شکم میں اپنی زندگی کی حالت سے بے خبر ہوں لہذا یہ موضوع اس بات کا قرینہ ہے کہ موت کے بعد بھی اس دنیا کی زندگی کی حالت سے کوئی چیز مجھے یاد نہیں ہو گی اور میں اپنے آپ کو نہیں پہچان سکوں گا ۔ کیونکہ ماں کے شکم میں گزری ہوئی زندگی سے کسی چیز کا یاد نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ اس دنیا کی حالت بھی یاد نہ ہو لیکن قرینہ ہے ۔ جابر بولا ‘ میرا خیال ہے میں اس قرینے کی رو سے موت کے بعد کی دنیا میں اپنے آپ کو نہیں پہچان سکوں گا اور اس دنیا کی زندگی کی خصوصیات کو یاد نہیں کر سکوں گا ۔
جعفر صادق نے فرمایا ‘ یہ جان لو کہ کافر اس نسبت سے کہ معاد کا منکر ہے یا یہ کہ ایک مسلمان کی مانند معاد کا معتقد نہیں ہے موت سے ڈرتا ہے جبکہ موت کے بارے میں اسے کوئی اطلاع نہیں اور چونکہ وہ موت سے مطلع نہیں لہذا اسے موت سے نہیں ڈرنا چاہیے ۔ کیونکہ جب انسان ایک چیز کے بارے میں اطلاع نہ رکھتا ہو تو اس کا اس چیز سے ڈرنا عقل سے بعید ہے ۔
جابر نے کہا کیا آپ یہ نہیں سوچتے کہ کافر اسلئے موت سے درتا ہے کہ اس کا خیال ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا کی خوشیوں کو کھود ے گا ؟
جعفر صادق نے فرمایا میں یہی کہنا چاہتا تھا کہ کافر کو ڈر ہوتا ہے کہ موت کے نتیجے میں وہ اس جہاں کی خوشیوں سے محروم ہو جائیگا لیکن مسلمان اس وجہ سے نہیں ڈرتا چونکہ اسے علم ہوتا ہے کہ اس جہان کی خوشیوں سے کہیں زیادہ خوشیاں دوسے جہاں میں اسکی منتظر ہیں اور اس دنیا میں اسکی خوشیوں کے مراحل محدود ہیں جبکہ دوسرے جہاں میں لا محدود ہیں اور عقلی لحاظ سے کافر کو موت سے نہیں ڈرنا چاہیے کیونکہ اس پر موت کے بعد کی زندگی مجہول ہے ۔ لیکن وہ اپنی عقل کو کام میں نہیں لاتا اور اپنا تصور جو وہ خود پیدا کرنے کیلئے استعمال میں لاتا ہے اس سے وہ موت کے بعد کی زندگی کو بھی سمجھنے میں مدد لے سکتا ہے ۔
مذکورہ تصور کافر کی نگاہ میں مجہولات کو ایک خوفناک صورت میں پیش کرتا ہے اور اسکے باوجود کہ کافر جانتا ہے کہ شروع میں اس دنیا میں نہ تھا اور ماں کے شکم سے اس دنیا میں آیا ہے اور اگر اس جہاں سے جائیگا تو شاید اس طرح ہو کہ وہ کسی دوسری ماں کے شکم میں جائے گا پھر بھی وہ موت سے ڈرتا ہے ۔یہ باتین جو میں کر رہا ہوں وہ موت کو ایک کافر کی نگاہوں کے دریچے سے دیکھنا ہے نہ کہ ایک مسلمان کی نگاہوں سے جو معاد پر ایمان رکھتا اور موت کیلئے تیار رہتاہے ۔
مثال دینے میں کوئی حرج نہیں ‘ اور میں مثال دیتا ہوں کہ اگر کافر کو علم ہوتا کہ اسکی زندگی موت سے شروع ہوتی ہے اور ماں کے پیٹ کی طرف جا رہا ہے اور اس کا مستقبل یہ ہے کہ عمر کے خاتمے کے بعد ماں کے شکم میں جائے گا تو وہ ماں کے شکم میں د وبارہ جانے سے ڈرے گا جس طرح آج موت سے ڈرتا ہے اور ماں کے شکم میں زندگی کے مجمولات اسے خوف سے لاحق کر دیں گے ۔
لیکن تمہار سول کا جواب یہ ہے کیا کبھی اتفاقیہ ایسا ہوا ہے کہ تم بے ہوش ہو گئے ہو ؟ جابر نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا میرے ساتھ کبھی نہیں ہوا ۔ جعفر صادق نے سوال کیا ‘ کیا تم خواب دیکھتے ہو ؟ جابر نے جواب دیا بہت سے خواب دیکھتا ہوں جعفر صادق نے اظہار خیال کیا کیا خواب کے دوران ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہو ؟ جابر نے کہا کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے جعفر صادق نے پوچھا ‘ کس کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہو کیونکہ تمہیں علم ہے کہ خواب میں تم راستہ نہیں چلتے ‘ جابر نے کہا ‘ میں اپنی روح کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہوں جعفر صادق نے پوچھا کیا تمہارا ایمان ہے کہ یہ تمہاری اپنی روح ہے کسی دوسرے کینہیں ؟ جابر نے کہا اس لحاظ سے مجھے کوئی شک نہیں جعفرصادق نے پوچھ کیا یہ روح جو نقل مکانی کرتی ہے تجھ سے جدا ہوتی ہے یا نہیں ؟
جابر نے جواب دیا مجھ سے جدا ہوتی ہے چونکہ اگر مجھ سے جدا نہ ہوتی تو ہر گز نقل مکانی نہ کر سکتی جعفرصادق نے پوچھا کیا تمہاری روح جو تم سے جدا ہوتی ہے اور نقل مکانی کرتی ہے غذا کھاتی ہے ؟ جابر نے مثبت جواب دیا ۔ جعفر صادق نے پوچھا کیا پانی پیتی ہے ؟ اور جابر نے پھر مثبت جواب دیا جعفر صادق نے فرمایا کیا جس وقت ہماری روح کھانے اور پینے میں مشغول ہوتی ہے تو تمہارے منہ سے کھاتی ہو گی جابر بولا نہیں چونکہ میرا منہ خواب میں متحرک نہیں ہوتا ۔ جعفر صادق نے پوچھا کیا تمہاری روح کھانے پینے کیلئے اپنا منہ استعمال کرتی ہے ؟ جابر نے جواب د یا نہیں جعفر صادق نے فرمایا ‘ اسکے باوجود کہ اس کا منہ نہیں ہے تم سوتے ہوئے خواب میں غذا کی لذت اور پانی کا مزہ محسوس کرتے ہو ؟ جابر نے مثبت جواب دیا ۔ جعفر صادق نے فرمایا ‘ جب تم خواب دیکھتے ہو تو تمہاری روح اسکے باوجود کہ اسکے پاؤں نہیں ہیں وہ چلی ہے اور ایک مقام سے دوسرے مقام تک جا پہنچتی ہے اور آنکھ نہیں رکھتی لیکن دیکھتی ہے اسکے کان نہیں لیکن سنتی ہے ‘ اس کا منہ نہیں لیکن وہ غذا کھاتی اور پانی پیتی ہے لہذا تمہاری روح ‘ ایک آزادزندگی کی حامل ہے اور خواب دیکھنے کے دوران تمہاری روح کو زندگی گزارنے کیلئے تمہارے جسم کی کوئی ضرورت نہیں جابر نے کہا لیکن اگر میرا جسم نہ ہو تو میں ہر گز خواب نہیں دیکھ سکتا جعفر صادق نے فرمایا ‘ خواب نہیں دیکھ سکتے مگر تمہاری روح تمہارے جسم کے بغیر زندہ رہ سکتی ہے یاد رکھو میں نے کہا ہے کہ میں فرض کر رہا ہوں تم مسلمان نہیں ہو اور میں ایک ایسے شخص سے ةکاطب ہوں جو اپنے آپ کو دوسری دنیا میں لے جاتا ہے تم نے کہا ہے کہ اگر تمہارا جسم نہ ہو تو تم خواب نہیں دیکھو گے اور میں نے تمہارے قول کی تصدیق کی ہے اب تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا خواب دیکھنے کے دوران تمہاری روح ایک آزاد زندگی کی حامل ہو جاتی ہے اور جہاں جانا چاہے جاتی ہے اور جو کرنا چاہے کرتی ہے کیا وجود رکھتی ہے یا نہیں ؟ جابر نے کہا ہاں ۔
جعفر صادق نے پوچھا کیا روح کے خواب دیکھنے کے دوران موجود ہونے اور اسکی آزادنہ زندگی میں تمہیں کوئی شک ہے یا نہیں ؟ جابر نے جواب دیا کوئی شک نہیں جعفر صادق نے فرمایا کیا تم فلسفے کے اس اصول کو تسلیم کرتے ہو کہ جو چیز وجود میں آ تی ہے ‘ ختم نہیں ہوتی ؟
جابر نے جواب دیا ‘ کوئی شک نہیں جعفر صادق نے فرمایا کیا تم فلسفے کے اس اصول کو تسلیم کرتے ہو کہ جو چیز وجود میں آتی ہے ‘ ختم نہیں ہوتی ؟
جابر نے کہا ہاں میں اس اصول کو تسلیم کرتا ہوں ۔ جعفر صادق نے فرمایا پس تمہاری روح جو خلق ہوئی ہے اور اسکے وجود سے تمہیں انکار نہیں تمہاری موت کے بعد ختم نہیں ہو گیا ور جو کچھ تم جانتے ہو وہی تمہاری روح ہے لہذا تم بھی باقی رہو گے اور موت کے بعد اپنے آپ کو پہچانوں گے جابر نے کہا مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ میری روح خواب دیکھنے کے دوران موجود ہوتی ہے لیکن روح کا وجود تابع ہے ‘ انفرادی اور آزادی نہیں ‘ چونکہ اگر میرا جسم نہ ہو تو میں خواب نہیں دیکھ سکتا اور اگر خواب نہ دیکھو تو میری روح جو مجرد اور آزاد زندگی کی حامل ہے میں اسے مشاہدہ نہیں کر سکتا جعفر صادق نے فرمایا جب سورج کی دھوپ تمہارے جسم کی حامل ہے اور تمہارا سایہ زمین پر پڑتا ہے تو کیا یہ سایہ مرہون منت ہے یا نہیں ؟ جابر نے کہا بے شک مرہین منت ہے ۔
جعفر صاد ق نے پوچھا ‘ کس چیز کا مرحون منت ہے جابر نے جواب دیا دو چیزوں کا پہلی سورج کی روشنی اور دوسری خود میرا وجود اور ان دو کے بغیر سایہ وجود میں نہیں آتا ۔ جعفر صادق نے فرمایا فلسفہ کے اصول کے مطابق تمہارا سایہ بھی جو زمین پر پڑتا ہے اور سورج کے غروبہونے کے بعد بظاہر ختم ہو جاتا ہے وہ بھی ختم نہیں ہوتا تو پھر تمہاری روح کیسے ختم ہو گی اگرچہ وہ مرہون منت ہی کیوں نہ ہو اور انحصاری زندگی کی حامل ہی کیوں نہ ہو ۔
جابر نے پوچھا ‘ خداوند تعالی نے کس لئے مقرر کیا کہ ہم ایک مدت تک ماں کے شکم میں زندگی گزاریں اور پھر ایک عرصے تک اس جہاں میں زندگی گزارنے کے بعد مر جائیں تاکہ ہمیں ایک بہتر زندگی کی جانب منتقل کیا جائے اور جس طرح آپ نے کہا ہے کہ خداوند تعالی کو کسی سے کینہ اور حسد نہیں جو وہ ہمیں برے جہاں کی طرف منتقل کرے ۔
اس سوال کے پوچھنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ کیا یہ زیادہ آسان اور بہتر نہ تھا کہ خدا شروع ہی سے ہمیں بہتر دنیا میں یعنی وہ دنیا جس میں ہم موت کے بعد پہنچیں گے ‘ اسی میں خلق کر دیتا اور ہم اس دنیا میں زندگی کے مراحل طے نہ کرتے ؟ جعفر صاد ق نے فرمایا ایک مسلمان کیلئے یہ مسئلہ حل شدہ ہے چونکہ ایک مسلمان جانتا ہے کہ آدم کا مکان بہشت میں تھا اور انہیں بظاہر ہوس کی پیروی کی وجہ سے جنت سے نکالا گیا اور اسے زمینی زندگی کے تقاضے پورے کرنے پڑے ۔ ماں کے شکم میں زندگی گزارنے کے مراحل اور اس دنیا میں زندگی اور موت کے مراحل کو اسے طے کرنا چاہیے تاکہ اگر نیکو کار ہو تو پہلی جگہ واپس چلا جائے گا یعنی بہشت میں اپنا مقام بنا لے اور اگر گناہگار ہو تو ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد اپنی سزا پائے ۔
لیکن اگر میں ایک ایسے انسان سے بات کروں جو مسلمان نہیں ہے تو وہاں پر مجھے اس کا مذہب جاننا چاہیے ؟ اگر یہودی یا نصرانی ہو تو اس کا بھی عقیدہ ہے کہ آدمی شروع میں بہشت میں تھا اور وہاں سے نکالا گیا اور جو مراحل اس جہان میں طے کر رہا ہے وہ اسکے پاک و طاہر ہونے کیلئے ہیں تاکہ وہ اس قابل ہو سکے کہ بہشت میں قدیم رکھ سکے ۔
اگر مجھ سے مخاطب شخص کسی ایک توحید مذہب پر ایمان نہ رکھتا ہو تو میں اسے کہوں گا کہ اگر وہ میرے خدا پر ایمان رکھتا ہے تو یہ سوال مجھ سے کرے اور اگر ایمان نہیں رکھتا تو کس لئے پوچھتا ہے کہ کیوں خداوند تعالی نے شروع میں انسان کو بہتر دنیا میں جگہ نہ دی اور چند مراحل طے کرنے پر لگادیا تاکہ وہ ان مراحل کو طے کرنے کے بعد بہتر دنیا تک پہنچے اگر مجھ سے سوال کرنے والا شخص لادین اور مجھ سے خداوند تعالی کی حکمت کو سننا چاہے تو میں اسے کہوں گا کہ خداوند تعالی کا انسان کو مختلف مراحل سے گزارنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان ہر مرحلے میں پہلے مرحلے سے زیادہ پاک و طاہر ہو کہ کامل بن جائے یہاں تک کہ وہ ہمیشہ کی نیک بخت دنیا میں داخل ہونے کے قابل ہو جائے اور اسے یہ بھی کہوں گا کہ خدائے دانا اور وانا اس سے کہیں بڑاہے کہ آدمی کو گوناں گوں مراحل سے اسلئے گارے تاکہ آدمی پہلے سے بھی زیادہ بد بخت بن جائے لہذا دانا و توانا کا حتمی مقصد یہ ہے کہ انسان نیک بختی حاصل کر لے جابر نے کہا ‘ میرا ایک اور سوال ہے اور وہ یہ ہے کہ خداوند تعالی کو انسان کو خلق کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اور کیا س بات کا امکان نہ تھا کہ خداوند تعالی انسان کو خلق کرنے سے اہتراز کرتا ۔ جعفر صادق نے جواب دیا ایک مسلمان جانتا ہے کہ خداوند تعالی نے انسان کو اسلئے پیدا کیاہے کہ اس سے خود اس کو متعارف کرائے یعنی انسان اپنے وجود کی شناخت کرے اور ایک مسلمان کا عقیدہ یہ ہے کہ خداوند تعالی نے انسان کو جو سب سے بڑی نعمت عطا کی ہے وہ اس کا خلق کرنا ہے جابر نے کہ فرض کیا آپ ایک ایسے شخص سے گفتگو کر رہے ہیں جو مسلمان نہیں ہے تو پھر آپ انسان کو خداوند تعالی کی طرف سے خلق کرنے کی کیسے توجیہ کریں گے ؟
جعفر صادق نے فرمایا میرا اپنا ایمان ہے کہ خداوند تعالی کی طرف سے انسان کی تخلیق اور مجموعی طور پر جو کچھ وجود میں آیا ہے اس کا وجود میں آنا خداوند تعالی کے کرم کی بنا پر ہے اور خداوند تعالی نے اس دنیا کی مخلوقات کو اسلئے خلق کیا کہ وہ چاہتا ہے تمام مخلوقات اپنے آپ کو پہچانے اور میں صاحب امان ہوں ‘ مجھے یقین ہے کہ کوئی ایسی مخلوق نہیں جو اپنے آپ کو نہ پہچانتی ہو خواہ وہ جمادات میں ہی کیوں شمار نہ ہوتی ہو ۔
میری نظر میں اس جہاں کی تخلیق کا سبب خداوند تعالی کے کرم کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے چونکہ بے نیاز خدا نہ مادیا ور نہ ہی روحانی لحاظ سے دنیا کو وجود میں لانے کا محتاج تھا قدیم یونانی کہتے تھے کہ چونکہ خدا تنہائی کا احساس کرتے تھے لہذا انہوں نے کائنات کو تخلیق کیا تاکہ اکیلے نہ ہوں لیکن یونانی خدا ‘ خدا نہ تھے اور اگر خدا ہوتے تو انہیں تنہائی کا احساس نہ ہوتا کہ انہیں کائنات کو خلق کرنے کی ضرورت پڑتی کیونکہ جو ضرورت کا احساس کرے وہ خدا نہیں ہے ۔ جابر نے پوچھا اگر آپ کسی ایسے شخص سے گفتگو کر رہے ہوں جو یہ بات تسلیم نہ کرے کہ خداوند تعالی نے انسان اور مجموعی طور پر دنیا کو اپنے کرمس ے خلق کیا ہے تاکہ مخلوقات اپنے آپ کو پہچانے تو کائنات کے وجود میں آنے کی آپ کیا توجیہ بیان کریں گے ؟
جعفر صادق نے فرمایا اگر اس نے میری بات تسلیم نہ کی تو میں دنیا کے وجود میں آنے کو کسی دوسری طرح توجیہ نہیں کروں گا اور اسے کہوں گا کہ میرا نظریہ یہی ہے وہ اسے مانے یا نہ مانے ۔
جابر نے پوچھا ‘ آپ جو فرماتے ہیں کہ خداوند تعالی نے اپنے کرمس ے جہاں کو جس میں انسان شامل ہے ‘ تخلیق کیا ہے کیا آپ یہ بات مذہبی عقیدت کی رو سے کہتے ہیں یا یہ کہ اسے ایک حقیقت سمجھتے ہیں ؟ جعفر صادق نے فرمایا جابر کیا تو مجھے ایسا انسان خیال کرتا ہے کہ اگر میں کسی چیز کو حقیقت نہ سمجھوں تو اس پر ایمان لے آؤں گا ؟ جابر نے کہا میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا یہ آپ کا عقیدہ ہے کہ خداوند تعالی نے اپنے کرم سے جہاں کو خلق کیا ہے یا حقیقت بھی یہی ہے ۔ دنیا کی تخلیق میں خدا کی مشیت ہے اور خدا کی مشیت کے بارے میں ہم اسکے بندے شاید اور نظریہ رکھتے ہوں اور کود خداوند تعالی کا دوسرا نظریہ ہو ۔ ہم اپنے بشری عقل کے دریچے سے خدا کی مشیتوں کے سبب کے متعلق اظہار خیال کرتے ہیں اور ہماری کدائی مشنری تک کوئی رسائی نہیں کہ ہمیں علم ہو سکے کہ جو کچھ ہماری عقل کہتی ہے وہ خدائی مشینیری کی عقل کے مطابق ہے یا نہیں ؟
جعفر صادق نے فرمایا میں جانتا ہوں ‘ تم کیا کہنا چاہتے ہوں تم کہتے ہو کہ میرا عقیدہ ہے کہ خداوند تعالی نے اپنے کرم سے جہاں کو خلق کیا اور یہ بات میں انے ایمان سے کہتا ہوں ممکن ہے کائنات کی تخلیق کی وجہ خداوند تعالی کی مشینیری میں کوئی اور ہو ؟ جابر نے کہا ‘ میرا مقصد یہی ہے ‘ جعفر صادق نے فرمایا ‘ اس ضمن میں میں تمہیں یا کسی اور کو کوئی چیز نہیں بتا سکتا کیونکہ میں ایک انسان ہوں اور انسان کو تخلیق کے اسباب کے سبب سے واقف ہونے کے لحاظ سے خداوند تعالی کی مشینری تک رسائی نہیں ‘ جابر نے پوچھا کیا آپ نے خلقت کے بارے میں جس نظرئے کا اظہار کیا ہے اسکے علاوہ کوئی دوسرا نظریہ پیش کر سکتے ہیں ؟ جعفر صادق نے منفی جواب دیا اور کہا میں جس چیز پر ایمان رکھتا ہوں اس سے انکار نہیں کر سکتا ۔
یہ میرا ایمان ہے اور اس میں مجھے کوئی شک و شبہ نہیں اور اگر تمہارے بقول کائنات اور انسان کی تخلیق کا سبب اسکے علاوہ کچھ ہو تو چونکہ وہ اسرار الہی سے ہے لہذا مجھے اس کی کوئی اطلاع نہیں جابر نے پوچھا ۔ موت کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟ جعفر صادق نے فرمایا موت کا مفہوم بالکل ختم ہو جانا نہیں بلکہ اس کا مفہوم ایک حالت کی تبدیلی ہے جابر نے پوچھا کیا آپ موت کو تکلیف دہ سمجھتے ہیں ؟ جعفر صادق نے جواب دیا نہیں اے جابر ‘ موت تکلیف دہ نہیں ہے ‘ جابر نے پوچھا ‘ پس انسان کیوں بیماری وغیرہ کے درد سے تکلیف اٹھاتا ہے اور چوٹیں و زخم درد کا سبب کیوں بنتے ہیں ؟
جعفر صادق نے فرمایا یہ تمام درد زندگی سے متعلق ہیں اور آدمی جس وقت تک زندہ ہے بیماری یا چوٹ وغیرہ کے نتیجے میں تکالیف اٹھاتا ہے اور جس لمحے روح جسم سے جدا ہوتی ہے اور موت آ پہنچتی ہے تو انسان موت کا درد محسوس نہیں کرتا ۔

ستاروں کے بارے میں جابر کے استفسارات
جابر نے جعفر صادق سے پوچھا ‘ یہ روشن ستارے جو مسلسل متحرک ہیں اور ان میں بعض کو ہم معین فاصلوں تک دیکھتے ہیں یہ کیا ہیں ؟ اور کیوں حتی کہ ایک دن کیلئے ہی سہی رکتے نہیں ؟ جعفر صادق نے فرمایا آسمان کا ہر ستارہ ایک دنیا ہے اور ان سب ستاروں کے مجموعے سے ایک بڑا جہاں تشکیل پاتا ہے ۔ ستاروں کی دائمی حرکت اسلئے ہے تاکہ یہ سقوط نہ کریں اور گر نہ پڑیں اور دنیا کا ڈسپلن ختم نہ ہو جائے اور یہ حرکت وہی حرکت ہے جس سے زندگی وجود میں آتی ہے ‘ یا یہ کہ خود حرکت زندگی ہے اور جب حرکت رک جاتی ہے تو زندگی ختم ہو جاتی ہے لیکن خداوند تعالی نے اس طرح ترتیب دیا ہے کہ حرکت کسی وقت بھی نہیں رکتی یہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے اور زندگی کی بقا بھی مخلوقات کے فائدے میں ہے کداوند تعالی کے کرم ہی سے جاری و ساری رہتی ہے ۔
خداوند تعالی بے نیاز ہے اسے اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ کائنات میں مسلسل حرکت ہوتی رہے اور اسکے نتیجے میں زندگی موجود رہے حرکت اور اسکے نتیجے میں زندگی ایک نعمت ہے جو خدا وند تعالی کی طرف سے مخلوقات کو عطا کی گئی ہے اور جب تک خداوند تعالی نے مقرر کر دیا ہے حرکت اور زندگی جاری رہے گی جابر نے پوچھا ‘ خلا میں ستاروں کی شکل کیسی ہے ؟
جعفر صادق نے جواب دیا ‘ آسمان کے بعض ستارے جامد اجرام ہیں اور بعض دوسرے مایع اجرام ہیں اور آسمانی ستاروں کا ایک حصہ بخارات سے وجود میں آیا ہے ۔
جابر بن حیان نے تعجب سے پوچھا یہ بات کس طرح قبول کی جا سکتی ہے کہ آسمان کے ستارے بخارات سے وجود میں آئے ہوں کیا یہ بات ممکن ہے کہ بخارات اس قدر چمکیلے ہوں جس طرح رات کو یہ ستارے چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں جعفر صادق نے فرمایا ‘ تمام ستارے بخارات سے تشکیل نہیں پاتے لیکن وہ ستارے جو بخارات سے تشکیل پاتے ہیں گرم ہیں اور ان کی زیادہ گرمی ان کی چمک کا سبب ہے اور میرا خیال ہے کہ سورج بھی بخارات سے بنا ہے ۔
جابر نے پوچھا ‘ ستاروں کی حرکت کیسے ان کے سقوط میں مانع ہے جعفر صادق نے جواب دیا ‘ کیا تم نے ایک چرخی کو جس میں پتھر ہو کبھی گھمایاہے ؟ جابر نے مثبت جواب دیا ‘ جعفر صادق نے اظہار خیال کیا‘ کیا چرخی کو گھمانے کے دوران اچانک ساکن کیا ہے ؟
جابر نے جواب دیا ‘ میں نے سکان نہیں کیا۔ جعفر صادق نے فرمایا اگر پھر کبھی چرخی کو گھماؤ تو ایک مرتبہ اسے روکنا تاکہ پتہ چل سکے کہ کای ہوتا ہے اور چرخی کے رکنے کے بعد وہ گر پڑتی ہے جو تپھر اس میں لگا ہوتا ہے وہ زمین پر گر پڑتا ہے ور یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ اگر سیارے مسلسل حرکت نہ کر رہیہوں تو سقطو کر جائیں ۔
جابر نے کہا ‘ آ نے فرمایا ہے کہ تاروں میں سے ہر ایک ایک دنیا ہے ۔
جعفر صادق نے تصدیق فرمائی ‘ جابر نے پوچھا ‘ کیا انسان ان جہانوں میں ہمارے جان کی امند موجود ہے ؟جعفر صاد ق نے فرمایا ‘ انسان کیبارے میں ‘ میں تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اس دنیا کے علاوہ دوسرے جہانوں میں بھی موجود ہے یا نہیں ؟ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے سیاروں میں مخلوقات موجودہیں ور ان ستاروں کے دور ہونیکی وجہ سے ہم ان مخلوقات کو نہیں دیکھ پائے ۔
جابر نے پوچھا ‘ آپ کے پاس کی دلیل ہے کہ دوسری سیاروں میں مخلوق موجود ہے ؟ جعفر صادق نے فرمایا اللہ تعالی کے بقول ‘ کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے کلام میں انسان کے ذکر کے ساتھ جن کا ذکر بھی کیا ہے اور جن ایسی مخلوق ہے جو دیکھی نہیں جا سکتی۔ یعنی ہم انہیں نہیں دیکھ پاتے وگرنہ خداوند تعالی سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں وہ تمام مخلوقات کو دیکھتا ہے اور جن جو شاید دوسرے جہانوں میں رہے رہے ہیں ہم انسانوں کی مانند ہیں یا ہم سے برتر انسانوں جیسے ہیں جابر نے پوچھا ہم سے برتر انسانوں سے آپ کی مراد کیا ہے؟ جعفر صادق نے فرمایا ‘ شاید وہ ایسے انسان ہیں جو ہامرے جیسی دنیا میں زندگی گزاریں گے جنہیں ہم راتوں کو دیکھتے ہیں ۔
جعفر صادق نے فرمایا ‘ میں تمہیں نہیں بتا سکتا کہ موت کی نیند سے بیدار ہونے کے بعد ہماری جگہ کہاں ہو گی اور شاید ہماری جگہ اسی دنیامیں ہو جس میں ہم رہ رہے ہیں اور خدا کیلئے کچھ مشکل نہیں ہے کہ وہ اسی دنیا میں اپنے نیکو کار بندوں کیلئے جنت اور گنہاگاروں کیلئے دوذخ وجود میں لائے یا یہ کہ اسنان کے موت سے بیدار ہونے کے بعد اسے دوسرے جہاں میں جگہ دے ۔
جابر نے کہا کیا خداوند تعالی کو علم ہے کہ موت سے بیدار ہونے کے بعد آئندہ ہمارا ٹھکانا کہاں ہے ؟ یا یہ کہ ہمیں زندہ کرنے کے بعد فیصلہ کرے گا کہ کونسی جگہ میں نیکوکاروں کو رکھے اور کونسی جگہ گنہگاروں کیلئے مخصوص کرے ۔
جعفر صادق نے جواب دیا ‘ خداوند تعالی از اور ابدی ہے ( یعنی نہ تو وجود میں آیا ور نہ اس کی انتہا ہے ) وہ دانا اور توانائے مطلق ہے اس کیلئے ماضی اور مستقل نہیں ہے جو کجھ گزر چکا اور جو کچھ ہونا ہے اس پر واضح ہے ۔
کائنات میں کوئی ایسا واقعہ نہیں جس سے خداوند تعالی پہلے سے مطلع نہ ہو اور اس کا حکم صادر نہ کر چکا ہو کہ وہ واقعہ فلاں معین وقت میں وقوع پذیر ہو گا ۔ اگر ایسا ہوتا کہ کائنات میں دور مستقبل میں ایک ایسا واقعہ رونما ہونا ہوتا جس کے انعقاد کا خداوند تعالی کو علم نہ ہوتا اور وہ پھر خدا نہ کہلاتا بلکہ وہ واقعہ جو خداوند تعالی کی پیش گوئی اور اسکے عرفان کے بغیر وقوع پذیر ہوتا وہ خدا کہلاتا چونکہ اس واقعے نے اپنے آپ کو خدا کے علم اور توانائی کے تسلط سے نجات دلائی ہے تو لا محالہ وہ خداوند تعالی سے زیادہ علام اور توانا ہے لہذا وہ خدا کہلانے کی صلاحیت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ خداوند تعالی انسان کی موت سے پہلے ہی آگاہ ہے کہ وہ جب انسان کو دوابرہ زندہ کرے گا تو اس کو کہاں ٹھکانہ مہیا کرے گا بلکہ پہلے لمحے ہی جب اس نے آدم کو خلق کیا تھا تو وہ اس بات سے واقف تھا جابر نے کہا یہ جو آپ فرما رہے ہیں اس نے مجھے ورطئہ حیرت میں ڈال دیا ہے ۔
جعفر صادق نے فرمایا کس بات نے ؟ جابر نے کہا اپ فرماتے ہیں کہ خداوند تعالی نے پہلے ہی لمحے تمام چیزوں کی پیشگوی کر دی ہے اور جو اقعات کائنات میں رونما ہونا تھے ان کے واقع پذیر ہونے کا زمانہ معین کر دیا ہے جعفر صادق نے فرمایا ‘ ازلی اور ابدی ہونے کے معنی بھی یہی ہیں اور داناو توانا ہونے کا مطلب بھی یہی ہے ۔
جابر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس وجہ سے خداوند تعالی نے تمام چیزوں کی پیشگوئی کر دی ہے اور جو حکم صادر کرنا تھا ‘ صادر کر دیا ہے تو اس طرح اس نے ہر قسم کے فیصلے اقدام اور جدید ارادے کو اپنے آپ سے چھین لیا ہے اور جب تک وہ ہے ہاتھ پرہاتھ دھرا بیٹھا رہے گا چونکہ اس کا کوئی کام نہیں جو کچھ اس نے کرنا تھا ‘ کر دیا ہے اور جو پیش گوئی اس نے کرنا تھی کر دی ہے جعفر صادق نے فرمایا ‘ اے جابر تم نے مجھ سے ایسا سوال کر دیا ہے جو انسانی فہم کے ادراک سے باہر ہی چونکہ انسان خداوند تعالی کے ازلی ‘ ابدی اور دانائی اور توانائی مطلق کے پہلو کو سمجھنے سے قاصر ہے اور ان حقائق سے آگاہ نہیں لہذا وہ اس وسوسے کا شکار ہو جاتا ہے کہ چونکہ خداوند تعالی نے تمام چیزوں کی پیش گوئی کر دی اور جو کچھ انجام دینا تھا انجام دے دیا ہے ‘ اس بنا پر لا محدود وسعت اور ابدی موجودگی کے باوجود اسکے پاس کرنے کیلئے کوئی کام نہیں اے جابر کیا تم سوچ سکتے ہو کہ خداوند تعالی کے ازلی اور ابدی ہونے کی مدت کتنی ہے ؟ جابر نے کہا ‘ کیا دس ہزار سال سے زیادہ ہے جعفر صادق نے جواب دیا ہاں اے جابر ‘ جابر نے پوچھا کیا پچاس ہزار سال سے زیادہ ہے ؟
جعفر صادق نے فرمایا ‘ ہاں اے جابر ‘ جابر نے پوچھا کیا ایک لاکھ پچاس ہزار سال سے زیادہ ہے ؟ جعفر صادق نے مثبت جواب دیا ۔ جابر نے کہا ‘ میری سوچ اس سے زیادہ آگے نہیں جاتی ۔ جعفر صادق نے فرمایا اے جابر تو ایک لاکھ پچاس ہزار سال سے بھی بڑی رقم بول سکتا ہے تو ازل اور ابد کے درمیانی فاصلے کا اپنی فکری قوت سے اندازہ لگا سکتا ہے لیکن میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ جب ازلی اور ابدی کی گفتگو ہوتی ہے تو انسانی سوچ اس بات کو درک نہیں کر سکتی کہ ازل کب سے شروع ہو اہے اور ابد کب تک جاری رہے گا از ل کی ابتدا اور ابد کی انتہا کے درمیانی فاصلے کا حساب لگانا انسانی فکر اور حساب کی قوت کے بس کا روگ نہیں ۔
میں تمہیں اتنا ہی بتاتا ہوں کہ اگر میں اور تم مزید ایک سو سال تک زندہ رہتے اور اس تمام عرصے میں ہر لمحے سالوں کی تعداد کو دو گنا بڑھاتے جاتے پھر بھی ایک سو سال بعد جو عدد ہمیں میسر آتا وہ ازل کے آغاز اور ابد کی انتہا کے درمیانی فاصلے سے کم ہوتا ۔
جابر نے کہا ‘ کیا اس تمام عصرے میں خداوندتعالی جس نے تمام کامون کو انجام دے دیا ہے اس کا کوی کام نہیں اور اس نے اپنے آپ کو بیکاری کا شکار بنا لیا ہے ؟ جعفر صادق نے فرمایا ‘ اے جابر ‘ میں نے جو تم سے کہا ہے کہ ازل اور ابد کے درمیانی فاصلے کو اپنی قوت فکر سے ناپو ‘ اور اپنی قوت فکر سے اس کا تعین کرو اس سے میری مراد کچھ اور تھی ۔ جابر نے پوچھا ‘ کیا کہنا چاہتے تھے ؟ جعفر صادق نے فرمایا ‘ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ طویل عرصہ جو ازل کے آغاز اور ابد کی انتہا کے درمیانی موجودہے اور ایک سو سال کے حساب کرنے اور اعداد کو بڑھاتے جانے سے بھی ہم اس عرصے کا تعین نہیں کر سکتے ۔ حالانکہ یہ خداوند تعالی کیلئے ایک لمحہ ہے ۔جابر اس بات سے حیران ہو گیا جعفر صادق نے فرمایا ‘ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ طویل عرصہ جو از ل کے آغاز اور ابد کی انتہا کے درمیان موجود ہے اور ایک سو سال کے حساب کرنے اور اعداد کو بڑھاتے جانے سے بھی ہم اس عرصی کا تعین نہیں کر سکتے ۔ حالانکہ یہ خداوند تعالی کے لئے ایک لمحہ ہے ۔
جابر اس بات سے حیران ہو گیا ۔ جعفر صادق نے پوچھا ‘ کیا جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے سمجھ رہے ہو ؟ جابر نے کہا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو فاصلہ ازل اور ابد کے درمیان سے خداوند تعالی کے لئے ایک لمحہ ہے جعفر صادق نے فرمایا ہاں میں یہی کہنا چاہتا ہوں اور یہ اس لئے خدوند تعالی کیلئے ایک لمحہ ہے کہ وہ زمانے کے گزرنے کا تابع نہیں اور چونکہ ہم بھی موت کی بعد زمانے کے گزرنے کے تابع نہیں ہوں گے لہذا زمانے کے گزرنے کا احساس نہیں کریں گے ۔ اور اگر خداوند تعالی ہزار سال یا دس ہزار سال بعد ہمیں زندہ کرے تو ہم نیند سے بیدار ہونے کے بعد یہی خیال کریں گے کہ ہم ایک لمحہ سوئے رہے کیونکہ موت کی حالت میں زمانے کے گزرنے کا احساس نہیں کریں گے ۔
اس بان پر تمہارا یہ اععتراض درستہے جو اس امر پر مبنی ہے کہ چونکہ خداوند تعالی نے جو کام کرنا تھا کر دیا ہے تو جب تک موجود رہے گا اس نے اپنے آپ کو بیکاری میں مبتلا کر دیا ہے اور جو کچھ تمہارای اور میری نظر میں لاکھون سال کا زمانہ ہے (یہ میں اسلئے کہتا ہوں کہ عدد کا ذکر ضروری ہے وگر نہ از اور ابد کے درمیانی فاصلے کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ) خداوند تعالی کیلئے ایک لمحہ ہے اور اس لمحے میں بھی کام میں مشغول اور تازہ ہے ایک ایسا وجود جو ازلی اور ابدی ہے اسکے لئے کام کا مسئلہ کام کی مانند ہمارے لئے واضح نہیں ہیہماری زندگی میں کام کا مسئلہ روحانی یا مادی ضرورت کے پیش نظر ہے ۔
بنی نوع انسان کو اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے کام کرنا پڑتا ہے ور اگر اس لحاظ سے اسے کام کرنے کی ضرورت نہ ہو تو روحانی ضرورت کے تحت اسے علم حاصل کرنے کیلئے کام کرنا پرتا ہیا ور اس بات سے آگاہ ہے کہ اگر مکمل طور پر بیکار ہو جائے تو اس قدر تنگ آ جائیگا کہ اسکے لئے زندگی گزارنا مشکل ہو جائیگا یہی اندیشہ ہے جو امراء کو شکار کرنے پر مجبور کرتا ہے کیونکہ ان کی بیکاری انہیں زندگی سے اس قدر بیزار کر سکتی ہے کہ وہ زندگی سے سیر ہو جائیں ۔ لیکن وہ لوگ جو تلاش معاش کیلئے سر گرم رہتے ہیں یا تحصیل علم میں مشعول رہتے ہیں ہر گز بیکاری کا شکار نہیں ہوتے ۔
خالق کائنات ازلی اور ابدی ‘ دانا اور توانائے مطلق ہونے کے لحاظ سے اس طرح کی کسی ضرورت کا محتاج نہیں ہے اگر کوی کہے کہ خداوند تعالی کو کسی چیز کی ضرورت ہے تو یہ کفر ہے اور اگر کبھی العیاذ باللہ خدا کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ خدا نہیں ہے پھر جس چیز کی اسے ضرورت ہو گی وہ اسکی جگہ لیکر خد ہو جائے گی ۔ پس اے جابر ‘ جب ہم خداوند تعالی کے کام کرنے کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہم اسے اپنی عقل کی حدود میں محدود کر دیتے ہیں اور اپنی عقل کی جانب سے اسکے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں ۔ خداوند تعالی کا کام کرنا ‘ ہمارے کام کرنے کی مانند نہیں ہے وہ جو دانا و توانائے مطلق اور ازلی و ابدی ہے اس کا کام کرنا ہمارے کام کرنے کی مانند ہے نہیں کیونکہ ہمارے تمام کام جس صورت میں بھی ہوں ضرورت کے تحت ہیں ہمارا ایسا کوئی کام نہیں جو مادی یا روحانی ضرورت کے پیش نظر نہ ہو ۔
چونکہ ہماری عقل اس بات کو نہیں سمجھ سکتی کہ خداوند تعالی کے کام کس نوعیت کے ہیں تو ناگزیر اسکے کاموں کو انسانی کام کی مانند خیال کرتے ہیں اور چونکہ آدمی کام ختم ہونے کے بعد اگر ایک لمبی مدت بیکار پڑا رہے تو بیمار پڑ جاتا ہے اور تمہارا خیال ہے چونکہ خداوند تعالی نے تمام کام انجام دے دئے ہیں لہذا اب وہ بیکار رہ رہ کر بیمار پڑ جائیگا ۔
جابر نے کہا ‘ ہم موت کے بعد خداوند تعالی کو آج سے بہتر طور پر پہچان سکیں گے ؟
جعفر صادق نے فرمایا ‘ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ موت کے بعد انسان جب زندہ ہو گا تو آج سے بہتر کامل انسان بن چکا ہو گا کیونکہ جیسا کہ ہم نے کہا کہ خداوند جو بڑی عظمت و کرم کژا مالک ہے بنی نوع انسان کو اسلئے نہیں مارتا کہ اسکی زندگی کو بد تر بنائے بلکہ موت بنی نوعی انسان کی تکمیل کے مراحل میں سے ایک اور اونچے مرحلے تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ جابر نے پوچھا کیا موت کے بعد ہم خدا کو دیکھ سکیں گے ؟ مجھے معلوم ہے کہ موسی نے کوہ طور پر خداوند تعالی سے چاہا کہ اسے دیکھے اور خدا نے اسکے جواب میں فرمایا ‘ اے موسی تم مجھے نہیں دیکھ سکو گے ۔ لیکن ہم مسلمان ہیں اور ہمیں دوسری قوموں پر فضیلت حاصل ہے کیا اس فضیلت کے باوجود خداوند تعالی کو نہیں دیکھ سکیں گے ؟
جعفر صادق نے فرمایا نہیں اے جابر ‘ موت کے بعد اسکے باوجود کہ ہم مسلمان ہیں خد کو نہیں دیکھ سکیں گے کیونکہ خدا کا جسم نہیں کہ ہم اسے دیکھ سکیں ہماری آنکھیں ایسی چیز کو نہیں دیکھ سکتیں جس کا جسم نہ ہو اور جس پر روشنی نہ پرتی ہو ۔
ہماری آنکھیں حتی کہ تاریکی میں بھی چیزوں کو دیکھنے پر قادر نہیں تو تم کس طرح اس بات کے امیدوار ہو کہ انہی آنکھوں سے خدا وند تعالی کو دیکھ سکو گے جس کا جسم نہیں ہے ۔ لیکن اگر خداوند تعالی کو دیکھنے سے مراد اسے دل کی انکھوں سے دیکھنا ہے یعنی خدا کی معرفت ‘ تو اس طرح تم موت سے قبل بھی اس کو اس دنیا میں دیکھ سکتے ہو ۔
جابر نے کہا ‘ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ خداوند تعالی خود کو کس لئے مخلوقات کو نہیں دکھانا چاہتا ۔
جعفر صادق نے فرمایا ‘ یہ اسکی اپنی مشیت ہے اور ہم اس ضمن میں اظہار خیال نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ کہہ سکتے ہیں کہ خداوند تعالی کیوں اپنے آپ کو مخلوقات کو نہیں دکھاتا ۔ لیکن چونکہ ہم خدا کو نہیں دیکھتے لہذا اسکو دیکھنے کی بڑی تڑپ رکھتے ہیں ۔جابر نے پوچھا میں آپ کی بات کو نہیں سمجھ سکا ‘ خداکو نہ دیکھ سکنا کیسے اس بات کا سبب ہے کہ ہم اسکے دیکھنے کی تڑپ رکھتے ہیں جعفر صادق نے وضاحت فرمائی اگر ہم خدا کو دیکھ سکتے تو چونکہ ہم اسے محدود کرتے اور اس کی ہستی تک پہنچ جاتی تو اس سے مایوس ہو جاتے ۔ جابر نے سوال کیا ‘ اگر اسے دیکھتے تو محدود کر دیتے ۔
جعفرصادق نے مثبت جواب دیا ور فرمایا اجسام کو دیکھنا انہیں محدود کر دنا ہے اور اگر انہیں محدود نہ کریں تو انہیں چاروں اطراف سے نہیں دیکھ سکتے ۔
حتی کہ اگر خدا کی ہستی کی معرفت حاصل نہ بھی کر سکیں تو بھی جتنا اسے دیکھ لیں گے اتنا ہی اس سے مایوس ہو جائیں گے کیونکہ اسے محدود کر دیں گے اور چونکہ وہ ہماری طرف سے محدود ہو جائے گا اور ہم مزید اسے لا محدود نہیں سمجھیں گے اس طرح ہم آخری نجات کے لحاظ سے اس سے مایوسی کا شکار ہو جائیں گے اگرچہ اس وقت تک اس کی ہستی کی معرفت حاصل نہیں کر سکیں گے ۔ چونکہ ہم سوچیں گے کہ خدا خود محدود ہے اور اس نے ہمیں بھی محدود خلق کیا ہے اور ہم ہمیشہ کی ژندگی اور سرمدی نجات کے امیدار نہیں ہو سکیں گے ۔ اور سوچیں گے کہ جو خدا محدود ہے ہمیں کیسے لا محدود پیدا کر سکتا ہے کیونکہ محدود خالق لا محدود مخلوق کو خلق کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ اگر خدا کو دیکھنے کے بعد اس کی ہستی کی معرفت حاصل کریں تو زیادہ مایوس ہو جائیں گے جابر نے پوچھا ہمیں کونسی چیزخداکی ہستی کی معرفت حاصل کرنے کے بعد زیادہ مایوس کرے گی ؟
جعفر صادق نے فرمایا جب ہم اس کی ہستی کی معرفت حاصل کر لیں گے اور جیسا وہ ہے ویسے اسے پہچان لیں گے تو وہ ہماری نظر میں چھوٹا ہو جائے گا ۔ چونکہ ہم ان دکھے اور واحد خدا کے بارے میں بلند تفکرات رکھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ وہ اس قدر بڑا ہے کہ اگر ہماری موجود عقل کئی گناہ زیادہ طاقتور بھی ہو جائے تو پھربھی ہم اس کی معرفت حاصل نہیں کر سکتے ۔ یہ موضوع ہمیں امیدوار اور متلاشی رکھتا ہے اور ہمیں امید بندھی رہتی ہے کہ خداوند تعالی جو لا محدود اور بے پایاں ہے اس نے ہمیں ہمیشہ کی زندگی کیلئے پیدا کیا ہے اور چونکہ توانا اور بے نیاز ہے اسے مخلوق سے کوئی حاجت نہیں ا ور ہمیں صرف اپنے کرم کی رو سے پیدا کی اہے لہذا ہمیں ہمیشہ کی سعادت عطا فرمائے گا ۔ لیکن جب ہم خدا کی ہستی کی معرفت حاصل کر لیں گے تو اپنے آپ سے کہیں گے کہ خدا اتنا چھوٹا ہے کہ ہماری چھوٹی سی اورمحدود عقل میں سما گیا ہے ۔
یہ باتں جو میں تمہیں بت رہا ہوں ‘ اصول دین کی رو سے نہیں بلکہ فلسفے کی رو سے بتا رہا ہو ں ۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر تم مسلمان نہ ہو تو اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ ہمارا خداوند تعالی کو نہ دیکھنا اسے دیکھنے سے بہتر ہے کیونکہ اگر اسے دیکھ کر فضا میں محدود کر لیں گے تو وہ روحانی لحاظ سے بھی ہماری نظر میں محدود ہو جائے گا پس بہتر یہی ہے کہ ہم اسے نہ دیکھیں ۔
جابر نے کہا ‘ میں آپ کے اس فرمان سے متفق نہیں ہوں اور میرا خیال ہے جب ہم خدا کی ہستی کا کھوج لگا لیں گے تو وہ روحانی لحاظ سے ہماری نظر میں بڑا ہو جائے گا اور میرے اس قول کی میرے پاس دلیل بھی ہے میری دلیل یہ ہے کہ جس وقت میں شہر کی بازار میں ایک شخص کو گزرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو وہ میری نظر میں دوسرے راہ گزر لوگوں سے مختلف نہیں ہوتا ‘ ممکن ہے وہ اپنے دائیں یا بائیں طرف سے گزرنے والے لوگوں سے زیادہ بلند قامت اور موٹا ہو لیکن میری نظر میں روحانی لحاظ سے وہ دوسرے لوگوں سے مختلف نہیں ہے ۔
لیکن اگر میں اس شخص کو کسی محفل میں دیکھتا ہوں اور مجھے پتہ چلتاہے کہ وہ فقیہ ہے تو میں ا سکے قریب جا کر اس سے فقہ کا مسئلہ دریافت کروں گا ‘ یوں جب میں نے اس کی گفتگو سنی اور میں سمجھ گیا کہ وہ شخص عالم ہے تو میں اس کی شخصیت تک رسائی حاصل کروں گا تو پھر وہ شخص میری نظر میں پہلے سے کہیں عظیم ہو جائے گا ۔
ب کبھی میں تیسرے ‘ چوتھے ‘ پانچویں اور چھٹے دن اس کے ہاں جاؤں گا اور ہر دن اس سے مسئلہ دریافت کروں گا اور وہ مجھے جواب دے گا تو میں اس کا زیادہ احترام کرنے لگے جاؤں گا کیونکہ میں سمجھ جاؤں گا کہ وہ شخص عالم ہے ۔ اس بنا پر اگر ہم خدا کی ہستی کی کما حقہ معرفت حاصل کر لیں تو ہماری نظر میں اس کے احترام کا احساس زیادہ بڑھ جائے گا ۔
جعفر صادق نے فرمایا ‘ وہ شخص جس کے پاس تم ہر روز جا کر اس سے مسئلہ دریافت کرو گے وہ تمہارے جیسا انسان ہو گا اگرچہ اس کی فہم و فراست تمہاری فہم و فراست سے زیادہ ہو گی لیکن اس کی فہم و عقل ایک انسان کی فہم و عقل سے زیادہ نہیں ہو گی اور تمہارے مسائل کا جواب دینا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ دوسرے تمام انسانوں سے برتر ہے اور سب کچھ جانتا ہے اسی شخص کو اگر تم تالا ساز کے پاس لے جاؤں اور تالا بنانے کے اوزار اس کے ہاتھ میں دی دو اور اسے کہو کہ تمہارے لئے ایک تالا بنا دے تو وہ یہ کام نہیں کر سکے گا چونکہ جو کچھ اس نے سیکھا ہے اس کا تعلق فقہ سے ہے تالا سازی سے نہیں ہے اس شخص کو تم تالا سازی کی دکان سے پنیرو دودھ و غیرہ بیچنے والے کی دکان پر لے جاؤ اور اس سے کہو کہ پنیر بیچے تو تم دیکھو گے کہ وہ پنیر بیچنے کے کام سے عہدہ برآ نہیں ہو سکے گا کیونکہ اس نے ہر گز ایسے کام نہیں کئے اور فقہ کے علاوہ کوئی چیز نہیں سیکھی ۔
تم اس کے احترام کے قائل اس لئے ہوئے کہ اس کے علم کو سمجھ سکتے ہو جبکہ تمہاری فہم اور علم کا میزان محدود ہے لیکن اس قدر وسیع اور توانا ہے کہ تم ایک فقیہ کے علم تک رسائی حاصل کر سکتیہو جابر نے کہا ‘ بہر حال جب میں اس کی ہستی سے متعارف ہو جاؤں گا تو وہ میرے نزدیک زیادہ محترم ہو جائے گا اور جتنا زیادہ میں اس کی ہستی کی معرفت حاصل کروں گا اتنا ہی زیادہ اس کا احترام کروں گا جعفر صادق نے فرمایا ‘ بنی نوع انسان کے باہمی روابط کے لحاظ سے یہ موضوع حقیقت پر مبنی ہے لیکن انسان اور خدا کے درمیان اس موضوع کی کوئی حقیقت نہیں اور اگر بنی نوعی انسان خدا کی ہستی تک رسای حاصل کر لے تو وہ مزید خدا کا احترام نہیں کرے گا کیونکہ وہ اس کی نظروں میں چھوٹا نظر ائے گا وہ اپنے آپ سے کہے گا کہ اس کے باوجود کہ میں محدود فہم و عقل رکھتا ہوں تب بھی میں نے خدا تک رسائی حاصل کر لی ہے تو لا محالہ خدا محدود ہے وگرنہ میں اس محدود عقل و فہم کے ساتھ ہر گز خداوند تعالی کی ہستی تک رسائی حاصل نہ کرسکتا ۔
یہ بات میں دلیل کے طور پر کہتا ہوں وگرنہ بنی نوع انسان خداوند تعالی کی ہستی تک رسای حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ ایک ایسی ہستی جو ازلی ابدی اور لا محدود ہے اس کی معرفت حاصل کرنا ممکن نہیں ۔ لیکن اگر بفرض محال ‘ ایک دن بنی نوعی انسان خدا کی ہستی تک رسای حاصل کر لے تو خدا اس کی نظر میں اتنا چھوٹا ہو جائے گا کہ اسے عام انسانوں میں شمار کر لیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ میں کہتا ہوں خدا کو نہ دیکھ سکنا ایک ایسا موثر عامل ہے جسکی وجہ سے ہم خدا کی معرفت سے ابدی نجات کے امیدوار ہوتے ہیں وگرنہ اگر ہم اس کی حدود تک رسائی حاصل کرکے اس کی ہستی کو پالیں تو وہ ہماری نظر میں محدود ہو جائے گا اور اس طرح ہم اسے عام انسانوں کی صفت میں لے آئیں گے اور یہ بات میں فلسفے کی رو سے کہتا ہوں نہ اصول دین کے مطابق چونکہ مسلمانوں کو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیشہ کی نجات حاصل ہو کر رہی گی ۔ جابر نے کہا ‘ کیا اس تمام عصرے میں خداوندتعالی جس نے تمام کامون کو انجام دے دیا ہے اس کا کوی کام نہیں اور اس نے اپنے آپ کو بیکاری کا شکار بنا لیا ہے ؟ جعفر صادق نے فرمایا ‘ اے جابر ‘ میں نے جو تم سے کہا ہے کہ ازل اور ابد کے درمیانی فاصلے کو اپنی قوت فکر سے ناپو ‘ اور اپنی قوت فکر سے اس کا تعین کرو اس سے میری مراد کچھ اور تھی ۔ جابر نے پوچھا ‘ کیا کہنا چاہتے تھے ؟ جعفر صادق نے فرمایا ‘ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ طویل عرصہ جو ازل کے آغاز اور ابد کی انتہا کے درمیانی موجودہے اور ایک سو سال کے حساب کرنے اور اعداد کو بڑھاتے جانے سے بھی ہم اس عرصے کا تعین نہیں کر سکتے ۔ حالانکہ یہ خداوند تعالی کیلئے ایک لمحہ ہے ۔جابر اس بات سے حیران ہو گیا جعفر صادق نے فرمایا ‘ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ طویل عرصہ جو از ل کے آغاز اور ابد کی انتہا کے درمیان موجود ہے اور ایک سو سال کے حساب کرنے اور اعداد کو بڑھاتے جانے سے بھی ہم اس عرصی کا تعین نہیں کر سکتے ۔ حالانکہ یہ خداوند تعالی کے لئے ایک لمحہ ہے ۔
جابر اس بات سے حیران ہو گیا ۔ جعفر صادق نے پوچھا ‘ کیا جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے سمجھ رہے ہو ؟ جابر نے کہا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو فاصلہ ازل اور ابد کے درمیان سے خداوند تعالی کے لئے ایک لمحہ ہے جعفر صادق نے فرمایا ہاں میں یہی کہنا چاہتا ہوں اور یہ اس لئے خدوند تعالی کیلئے ایک لمحہ ہے کہ وہ زمانے کے گزرنے کا تابع نہیں اور چونکہ ہم بھی موت کی بعد زمانے کے گزرنے کے تابع نہیں ہوں گے لہذا زمانے کے گزرنے کا احساس نہیں کریں گے ۔ اور اگر خداوند تعالی ہزار سال یا دس ہزار سال بعد ہمیں زندہ کرے تو ہم نیند سے بیدار ہونے کے بعد یہی خیال کریں گے کہ ہم ایک لمحہ سوئے رہے کیونکہ موت کی حالت میں زمانے کے گزرنے کا احساس نہیں کریں گے ۔
اس بان پر تمہارا یہ اععتراض درستہے جو اس امر پر مبنی ہے کہ چونکہ خداوند تعالی نے جو کام کرنا تھا کر دیا ہے تو جب تک موجود رہے گا اس نے اپنے آپ کو بیکاری میں مبتلا کر دیا ہے اور جو کچھ تمہارای اور میری نظر میں لاکھون سال کا زمانہ ہے (یہ میں اسلئے کہتا ہوں کہ عدد کا ذکر ضروری ہے وگر نہ از اور ابد کے درمیانی فاصلے کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ) خداوند تعالی کیلئے ایک لمحہ ہے اور اس لمحے میں بھی کام میں مشغول اور تازہ ہے ایک ایسا وجود جو ازلی اور ابدی ہے اسکے لئے کام کا مسئلہ کام کی مانند ہمارے لئے واضح نہیں ہیہماری زندگی میں کام کا مسئلہ روحانی یا مادی ضرورت کے پیش نظر ہے ۔
بنی نوع انسان کو اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے کام کرنا پڑتا ہے ور اگر اس لحاظ سے اسے کام کرنے کی ضرورت نہ ہو تو روحانی ضرورت کے تحت اسے علم حاصل کرنے کیلئے کام کرنا پرتا ہیا ور اس بات سے آگاہ ہے کہ اگر مکمل طور پر بیکار ہو جائے تو اس قدر تنگ آ جائیگا کہ اسکے لئے زندگی گزارنا مشکل ہو جائیگا یہی اندیشہ ہے جو امراء کو شکار کرنے پر مجبور کرتا ہے کیونکہ ان کی بیکاری انہیں زندگی سے اس قدر بیزار کر سکتی ہے کہ وہ زندگی سے سیر ہو جائیں ۔ لیکن وہ لوگ جو تلاش معاش کیلئے سر گرم رہتے ہیں یا تحصیل علم میں مشعول رہتے ہیں ہر گز بیکاری کا شکار نہیں ہوتے ۔
خالق کائنات ازلی اور ابدی ‘ دانا اور توانائے مطلق ہونے کے لحاظ سے اس طرح کی کسی ضرورت کا محتاج نہیں ہے اگر کوی کہے کہ خداوند تعالی کو کسی چیز کی ضرورت ہے تو یہ کفر ہے اور اگر کبھی العیاذ باللہ خدا کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ خدا نہیں ہے پھر جس چیز کی اسے ضرورت ہو گی وہ اسکی جگہ لیکر خد ہو جائے گی ۔ پس اے جابر ‘ جب ہم خداوند تعالی کے کام کرنے کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہم اسے اپنی عقل کی حدود میں محدود کر دیتے ہیں اور اپنی عقل کی جانب سے اسکے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں ۔ خداوند تعالی کا کام کرنا ‘ ہمارے کام کرنے کی مانند نہیں ہے وہ جو دانا و توانائے مطلق اور ازلی و ابدی ہے اس کا کام کرنا ہمارے کام کرنے کی مانند ہے نہیں کیونکہ ہمارے تمام کام جس صورت میں بھی ہوں ضرورت کے تحت ہیں ہمارا ایسا کوئی کام نہیں جو مادی یا روحانی ضرورت کے پیش نظر نہ ہو ۔
چونکہ ہماری عقل اس بات کو نہیں سمجھ سکتی کہ خداوند تعالی کے کام کس نوعیت کے ہیں تو ناگزیر اسکے کاموں کو انسانی کام کی مانند خیال کرتے ہیں اور چونکہ آدمی کام ختم ہونے کے بعد اگر ایک لمبی مدت بیکار پڑا رہے تو بیمار پڑ جاتا ہے اور تمہارا خیال ہے چونکہ خداوند تعالی نے تمام کام انجام دے دئے ہیں لہذا اب وہ بیکار رہ رہ کر بیمار پڑ جائیگا ۔
جابر نے کہا ‘ ہم موت کے بعد خداوند تعالی کو آج سے بہتر طور پر پہچان سکیں گے ؟
جعفر صادق نے فرمایا ‘ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ موت کے بعد انسان جب زندہ ہو گا تو آج سے بہتر کامل انسان بن چکا ہو گا کیونکہ جیسا کہ ہم نے کہا کہ خداوند جو بڑی عظمت و کرم کژا مالک ہے بنی نوع انسان کو اسلئے نہیں مارتا کہ اسکی زندگی کو بد تر بنائے بلکہ موت بنی نوعی انسان کی تکمیل کے مراحل میں سے ایک اور اونچے مرحلے تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ جابر نے پوچھا کیا موت کے بعد ہم خدا کو دیکھ سکیں گے ؟ مجھے معلوم ہے کہ موسی نے کوہ طور پر خداوند تعالی سے چاہا کہ اسے دیکھے اور خدا نے اسکے جواب میں فرمایا ‘ اے موسی تم مجھے نہیں دیکھ سکو گے ۔ لیکن ہم مسلمان ہیں اور ہمیں دوسری قوموں پر فضیلت حاصل ہے کیا اس فضیلت کے باوجود خداوند تعالی کو نہیں دیکھ سکیں گے ؟
جعفر صادق نے فرمایا نہیں اے جابر ‘ موت کے بعد اسکے باوجود کہ ہم مسلمان ہیں خد کو نہیں دیکھ سکیں گے کیونکہ خدا کا جسم نہیں کہ ہم اسے دیکھ سکیں ہماری آنکھیں ایسی چیز کو نہیں دیکھ سکتیں جس کا جسم نہ ہو اور جس پر روشنی نہ پرتی ہو ۔
ہماری آنکھیں حتی کہ تاریکی میں بھی چیزوں کو دیکھنے پر قادر نہیں تو تم کس طرح اس بات کے امیدوار ہو کہ انہی آنکھوں سے خدا وند تعالی کو دیکھ سکو گے جس کا جسم نہیں ہے ۔ لیکن اگر خداوند تعالی کو دیکھنے سے مراد اسے دل کی انکھوں سے دیکھنا ہے یعنی خدا کی معرفت ‘ تو اس طرح تم موت سے قبل بھی اس کو اس دنیا میں دیکھ سکتے ہو ۔
جابر نے کہا ‘ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ خداوند تعالی خود کو کس لئے مخلوقات کو نہیں دکھانا چاہتا ۔
جعفر صادق نے فرمایا ‘ یہ اسکی اپنی مشیت ہے اور ہم اس ضمن میں اظہار خیال نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ کہہ سکتے ہیں کہ خداوند تعالی کیوں اپنے آپ کو مخلوقات کو نہیں دکھاتا ۔ لیکن چونکہ ہم خدا کو نہیں دیکھتے لہذا اسکو دیکھنے کی بڑی تڑپ رکھتے ہیں ۔جابر نے پوچھا میں آپ کی بات کو نہیں سمجھ سکا ‘ خداکو نہ دیکھ سکنا کیسے اس بات کا سبب ہے کہ ہم اسکے دیکھنے کی تڑپ رکھتے ہیں جعفر صادق نے وضاحت فرمائی اگر ہم خدا کو دیکھ سکتے تو چونکہ ہم اسے محدود کرتے اور اس کی ہستی تک پہنچ جاتی تو اس سے مایوس ہو جاتے ۔ جابر نے سوال کیا ‘ اگر اسے دیکھتے تو محدود کر دیتے ۔
جعفرصادق نے مثبت جواب دیا ور فرمایا اجسام کو دیکھنا انہیں محدود کر دنا ہے اور اگر انہیں محدود نہ کریں تو انہیں چاروں اطراف سے نہیں دیکھ سکتے ۔
حتی کہ اگر خدا کی ہستی کی معرفت حاصل نہ بھی کر سکیں تو بھی جتنا اسے دیکھ لیں گے اتنا ہی اس سے مایوس ہو جائیں گے کیونکہ اسے محدود کر دیں گے اور چونکہ وہ ہماری طرف سے محدود ہو جائے گا اور ہم مزید اسے لا محدود نہیں سمجھیں گے اس طرح ہم آخری نجات کے لحاظ سے اس سے مایوسی کا شکار ہو جائیں گے اگرچہ اس وقت تک اس کی ہستی کی معرفت حاصل نہیں کر سکیں گے ۔ چونکہ ہم سوچیں گے کہ خدا خود محدود ہے اور اس نے ہمیں بھی محدود خلق کیا ہے اور ہم ہمیشہ کی ژندگی اور سرمدی نجات کے امیدار نہیں ہو سکیں گے ۔ اور سوچیں گے کہ جو خدا محدود ہے ہمیں کیسے لا محدود پیدا کر سکتا ہے کیونکہ محدود خالق لا محدود مخلوق کو خلق کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ اگر خدا کو دیکھنے کے بعد اس کی ہستی کی معرفت حاصل کریں تو زیادہ مایوس ہو جائیں گے جابر نے پوچھا ہمیں کونسی چیزخداکی ہستی کی معرفت حاصل کرنے کے بعد زیادہ مایوس کرے گی ؟
جعفر صادق نے فرمایا جب ہم اس کی ہستی کی معرفت حاصل کر لیں گے اور جیسا وہ ہے ویسے اسے پہچان لیں گے تو وہ ہماری نظر میں چھوٹا ہو جائے گا ۔ چونکہ ہم ان دکھے اور واحد خدا کے بارے میں بلند تفکرات رکھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ وہ اس قدر بڑا ہے کہ اگر ہماری موجود عقل کئی گناہ زیادہ طاقتور بھی ہو جائے تو پھربھی ہم اس کی معرفت حاصل نہیں کر سکتے ۔ یہ موضوع ہمیں امیدوار اور متلاشی رکھتا ہے اور ہمیں امید بندھی رہتی ہے کہ خداوند تعالی جو لا محدود اور بے پایاں ہے اس نے ہمیں ہمیشہ کی زندگی کیلئے پیدا کیا ہے اور چونکہ توانا اور بے نیاز ہے اسے مخلوق سے کوئی حاجت نہیں ا ور ہمیں صرف اپنے کرم کی رو سے پیدا کی اہے لہذا ہمیں ہمیشہ کی سعادت عطا فرمائے گا ۔ لیکن جب ہم خدا کی ہستی کی معرفت حاصل کر لیں گے تو اپنے آپ سے کہیں گے کہ خدا اتنا چھوٹا ہے کہ ہماری چھوٹی سی اورمحدود عقل میں سما گیا ہے ۔
یہ باتں جو میں تمہیں بت رہا ہوں ‘ اصول دین کی رو سے نہیں بلکہ فلسفے کی رو سے بتا رہا ہو ں ۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر تم مسلمان نہ ہو تو اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ ہمارا خداوند تعالی کو نہ دیکھنا اسے دیکھنے سے بہتر ہے کیونکہ اگر اسے دیکھ کر فضا میں محدود کر لیں گے تو وہ روحانی لحاظ سے بھی ہماری نظر میں محدود ہو جائے گا پس بہتر یہی ہے کہ ہم اسے نہ دیکھیں ۔
جابر نے کہا ‘ میں آپ کے اس فرمان سے متفق نہیں ہوں اور میرا خیال ہے جب ہم خدا کی ہستی کا کھوج لگا لیں گے تو وہ روحانی لحاظ سے ہماری نظر میں بڑا ہو جائے گا اور میرے اس قول کی میرے پاس دلیل بھی ہے میری دلیل یہ ہے کہ جس وقت میں شہر کی بازار میں ایک شخص کو گزرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو وہ میری نظر میں دوسرے راہ گزر لوگوں سے مختلف نہیں ہوتا ‘ ممکن ہے وہ اپنے دائیں یا بائیں طرف سے گزرنے والے لوگوں سے زیادہ بلند قامت اور موٹا ہو لیکن میری نظر میں روحانی لحاظ سے وہ دوسرے لوگوں سے مختلف نہیں ہے ۔
لیکن اگر میں اس شخص کو کسی محفل میں دیکھتا ہوں اور مجھے پتہ چلتاہے کہ وہ فقیہ ہے تو میں ا سکے قریب جا کر اس سے فقہ کا مسئلہ دریافت کروں گا ‘ یوں جب میں نے اس کی گفتگو سنی اور میں سمجھ گیا کہ وہ شخص عالم ہے تو میں اس کی شخصیت تک رسائی حاصل کروں گا تو پھر وہ شخص میری نظر میں پہلے سے کہیں عظیم ہو جائے گا ۔
ب کبھی میں تیسرے ‘ چوتھے ‘ پانچویں اور چھٹے دن اس کے ہاں جاؤں گا اور ہر دن اس سے مسئلہ دریافت کروں گا اور وہ مجھے جواب دے گا تو میں اس کا زیادہ احترام کرنے لگے جاؤں گا کیونکہ میں سمجھ جاؤں گا کہ وہ شخص عالم ہے ۔ اس بنا پر اگر ہم خدا کی ہستی کی کما حقہ معرفت حاصل کر لیں تو ہماری نظر میں اس کے احترام کا احساس زیادہ بڑھ جائے گا ۔
جعفر صادق نے فرمایا ‘ وہ شخص جس کے پاس تم ہر روز جا کر اس سے مسئلہ دریافت کرو گے وہ تمہارے جیسا انسان ہو گا اگرچہ اس کی فہم و فراست تمہاری فہم و فراست سے زیادہ ہو گی لیکن اس کی فہم و عقل ایک انسان کی فہم و عقل سے زیادہ نہیں ہو گی اور تمہارے مسائل کا جواب دینا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ دوسرے تمام انسانوں سے برتر ہے اور سب کچھ جانتا ہے اسی شخص کو اگر تم تالا ساز کے پاس لے جاؤں اور تالا بنانے کے اوزار اس کے ہاتھ میں دی دو اور اسے کہو کہ تمہارے لئے ایک تالا بنا دے تو وہ یہ کام نہیں کر سکے گا چونکہ جو کچھ اس نے سیکھا ہے اس کا تعلق فقہ سے ہے تالا سازی سے نہیں ہے اس شخص کو تم تالا سازی کی دکان سے پنیرو دودھ و غیرہ بیچنے والے کی دکان پر لے جاؤ اور اس سے کہو کہ پنیر بیچے تو تم دیکھو گے کہ وہ پنیر بیچنے کے کام سے عہدہ برآ نہیں ہو سکے گا کیونکہ اس نے ہر گز ایسے کام نہیں کئے اور فقہ کے علاوہ کوئی چیز نہیں سیکھی ۔
تم اس کے احترام کے قائل اس لئے ہوئے کہ اس کے علم کو سمجھ سکتے ہو جبکہ تمہاری فہم اور علم کا میزان محدود ہے لیکن اس قدر وسیع اور توانا ہے کہ تم ایک فقیہ کے علم تک رسائی حاصل کر سکتیہو جابر نے کہا ‘ بہر حال جب میں اس کی ہستی سے متعارف ہو جاؤں گا تو وہ میرے نزدیک زیادہ محترم ہو جائے گا اور جتنا زیادہ میں اس کی ہستی کی معرفت حاصل کروں گا اتنا ہی زیادہ اس کا احترام کروں گا جعفر صادق نے فرمایا ‘ بنی نوع انسان کے باہمی روابط کے لحاظ سے یہ موضوع حقیقت پر مبنی ہے لیکن انسان اور خدا کے درمیان اس موضوع کی کوئی حقیقت نہیں اور اگر بنی نوعی انسان خدا کی ہستی تک رسای حاصل کر لے تو وہ مزید خدا کا احترام نہیں کرے گا کیونکہ وہ اس کی نظروں میں چھوٹا نظر ائے گا وہ اپنے آپ سے کہے گا کہ اس کے باوجود کہ میں محدود فہم و عقل رکھتا ہوں تب بھی میں نے خدا تک رسائی حاصل کر لی ہے تو لا محالہ خدا محدود ہے وگرنہ میں اس محدود عقل و فہم کے ساتھ ہر گز خداوند تعالی کی ہستی تک رسائی حاصل نہ کرسکتا ۔
یہ بات میں دلیل کے طور پر کہتا ہوں وگرنہ بنی نوع انسان خداوند تعالی کی ہستی تک رسای حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ ایک ایسی ہستی جو ازلی ابدی اور لا محدود ہے اس کی معرفت حاصل کرنا ممکن نہیں ۔ لیکن اگر بفرض محال ‘ ایک دن بنی نوعی انسان خدا کی ہستی تک رسای حاصل کر لے تو خدا اس کی نظر میں اتنا چھوٹا ہو جائے گا کہ اسے عام انسانوں میں شمار کر لیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ میں کہتا ہوں خدا کو نہ دیکھ سکنا ایک ایسا موثر عامل ہے جسکی وجہ سے ہم خدا کی معرفت سے ابدی نجات کے امیدوار ہوتے ہیں وگرنہ اگر ہم اس کی حدود تک رسائی حاصل کرکے اس کی ہستی کو پالیں تو وہ ہماری نظر میں محدود ہو جائے گا اور اس طرح ہم اسے عام انسانوں کی صفت میں لے آئیں گے اور یہ بات میں فلسفے کی رو سے کہتا ہوں نہ اصول دین کے مطابق چونکہ مسلمانوں کو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیشہ کی نجات حاصل ہو کر رہی گی ۔

عہد پیری کا سوال
جابر نے پوچھا ‘ آدمیبوڑھا ہونے کے بعد منکسر المزاج کیوں ہو جاتا ہے ؟
جعفر صادق نے فرمایا یہ کوئی کلی قاعدہ نہیں ہے ‘ ہر بوڑھا ہو جانے والا شخص منکسر المزاج نہیں ہوتا کچھ لوگ ایسے بھیہوتے ہیں جو جوانی میں منکسر المزاج ہوتے ہیں لیکن ان کی جوانی کی نشاط اور طراوت ان کے انکسار کو اچھی طرح دوسروں کی نظر تک پہچانے میں رکاوٹ ہوتے ہیں یہی لوگ بڑھاپے میں منکسر المزاج دکھائی دیتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی جوانی کی نشاط اور طراوت مزید ان کے انکسار کو نہیں چھپا سکتے ۔
لیکن جو مرد یا عورت جوانی میں عاقل مطلع اور پرہیز گار ہوتے ہیں ‘ بڑھاپے میں بھی وہ مرد یا عورت عاقل ‘ مطلع اور پرہیز گار ہوتے ہیں ‘ مطلب یہ ہے کہ جسمانیطاقت کے لحاظ سے جوانی ‘ بڑھاپے کی مانند نہیں ہے بڑھاپے میں علما کا طبقہ جوانی کے زمانے کی نسبت زیادہ عاقل ‘ مطلع اور عقلمند دکھائی دیتا ہے چونکہ جو توشہ وہ جوانی میں حاصل کرتے ہیں کم ہوتا ہے اور جوں جوں ان کی عمربڑھتی جاتی ہے اس توشے میں بھی اضافہ ہو تا جاتا ہے اور ان کی عقل مزید طاقتور ہوتی جاتی ہے اور وہ بے لوث ہو کر عدل قائم کرتے ہیں انہیں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ انہیں ہمیشہ حقیقت کا حامی ہونا چاہیے ۔
جابر نے کہا ‘ میں نے سنا ہے کہ بڑھاپا نسیان پیدا کرتا ہے اور کیا یہ موضوع ایک کلی قاعدہ ہے جعفر صادق نے فرمایا نہ اے جابر ‘ جو چیز نسیان وجود میں لاتی ہے وہ حافظے کی طاقت کا عدم استعمال ہے حافظے کی قوت کی دوسری انسانی قوتوں کی مانند کام میں لاتے رہنا چاہیے تاکہ زائل نہ ہو ۔ اگر ایک جوان بھی اپنی قوت حافظہ کو کام میں نہ لائے تو وہ بھی نسیان کا شکار ہو جائے گا لیکن بعض عمر رسیدہ اشخاص اس لئے فراموشی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ جسمانی طاقت کی کمزوری کے نتیجے میں ان کی توجہ ان کے ماحول کی نسبت جس میں وہ زندگی گزار رہیہوتے ہیں کم ہو جاتی ہے اور حتی کہ ان کی توہ ان کے نواسوں و پوتوں وغیرہ کی نسبت بھی کم ہوجاتی ہے اور جب ان کے نواسے و پوتے وغیرہ برے ہو جاتے ہیں تو انہیں بھی نہیں پہچانتے جسمانی قوت جتنی کمزور ہو گی ان کی اپنے ماحول جس میں وہ رہ رہے ہوتے ہیں کی جانب توجہ زیادہ کم ہو جائے گی پھر وہ گھر سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتے اور سفر نہیں کرنا چاہتے حتی کہ بڑے اور نا گہانی واقعات کی طرف بھی وہ متوجہ نہیں ہوتے ۔
اسی لئے ان کا حافظہ مزید استعمال نہیں ہوتا ‘ اور جمود کا شکار ہو جاتا ہے اور یہ جمود اس بات کا باعث بنتا ہے کہ پہلے تو ان کے حافظہ میں کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا اور دوسرا ان کے حافظے کے ذخائر کا تمام یا کچھ حصہ فراموشی کے سپرد ہو جاتا ہے ۔
جس کے نتیجے میں عمر رسیدہ مرد یا عورت نہ صرف یہ کہ جو کچھ اس کے زمانے میں وقوع پذیر ہوتا ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا بلکہ جو کچھ وہ جانتا ہے اور اس کے حافظے میں ذخیرہ ہوتا ہے وہ بھی اسے بھول جاتا ہے لوگ جب ایک یا دو یا تین عمر ریسدہ آدمیوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنا حافظہ کھو چکے ہیں تو اسے ایک کلی قاعدہ سمجھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں جو کوئی بوڑھا ہو جائے ‘ فراموشی کا شکار ہو جاتا ہے لیکن ایسے بوڑھے افراد جو جسمانی قوت کی کمزوری کے نتیجے میں اپنے حافظے کو جمود کا شکار نہیں ہونے دیتے ان کا حافظہ بڑھاپے میں ان کی جوانی کے دور سے زیادہ طاقتورہوتا ہے کیونکہ ان کا حافظہ تمام عمر کام میں مشغول رہتا ہے اور عمر کی آخری سالوں میں اپنی قوت کے جوبن پر ہوتا ہے ۔
جابر نے کہا میں نے کچھ عرصہ پہلیایک ایسے شخص سے گفتگو کی جو اپنے آپ کو با خبر سمجھتا تھا کہنے لگا آدم کے تمام فرزند اپنے جد کا کیفر دیکھتے ہیں ۔
میں نے اس سے پوچھا کہ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ آدم کے فرزند اپنے جد کا کیفر دیکھتے ہیں اس نے اس کے جواب میں کہا کہ خداوند تعالی کیلئے ماضی اور مستقبل ایک ہی ہے اور جو کچھ ہے اس کیلئے زمانہ حال ہے چونکہ خداوند تعالی کی نظر میں ابھی تک وہی دور ہے جب آدمی وجود میں آئے تھے لہذا آدم اور فرزند یعنی ہم کو وہ آدم و حوا کے گناہ کی پاداش میں سزا دیتا ہے ۔
جعفر صادق نے جواب دیا ‘ اس شخص نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ خدوند تعالی کیلئے زمانے کا وجود معنی نہیں رکھتا تاکہ وہ مشمول زمانہ ہو اگرچہ وہ زمانہ ہی کیوں نہ ہو اور شمول زمانہ ہونا مخلوق کی خصوصیات میں سے ہے نہ کہ خالق کی خصوصیات میں سے اگر یہ شخص مسلمان ہوتا تو میں اسے کہتا کہ خداوند تعالی نے اپنے احکام میں نہایت صراحت سے بیان فرما دیا ہے کہ نیکو کاروں کو بہشت لے جائے گا اور گنا ہگاروں کو دوزخ میں جگہ دے گا لیکن چونکہ مسلمان نہیں ہے ؟ وگرنہ ایسی بات تم سے نہ کہتا ’ اس لئے اس کا جواب فلسفے کی رو سے دینا چاہیے ۔ یہ شخص ایک لحاظ سے صحیح سمجھا ہے اور وہ یہ ہے کہ خداوند تعالی کیلئے ماضی اور مستقبل دونوں طرف نہیں ‘ لیکن یہ بات نہیں کہ اس کیلئے ماضی اور مستقبل کا وجود نہیں ہے یعنی وہ ماضی اور مستقبل کا استنباط نہیں کر سکتا ماضی اور مستقبل کا مشمول نہ ہونے اور ماضی و مستقبل کو نہ سمجھ سکنے میں فرق ہے ۔
میں مطلب کو مزید بہتر انداز میں سمجھانے کی خاطر مثال دیتا ہوں ۔
کہ اگر زمین میں ہل چلاتے ہو اور زمین میں گندم کا شت کرتے ہو تو تمہیں معلوم ہوتا کہ اس گندم کے مستقبل کیا ہو گا لیکن تم خود اس غللے کے مشمول نہیں ہوگے گندم کے وہ دانے جنہیں تم زمین میں کاشت کرتے ہو تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہو گے گندم کے وہ دانے جنہیں تم زمین میں کاشت کرتے ہو تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہو گا ۔ لیکن گندم کے ان دانوں کے مستقبل کے متعلق تم ہفتہ بہ ہفتہ مطلع ہو اور تمہیں معلوم ہے ہر ہفتے گندم کی کیفیت کیا ہو گی اور کس حد تک بڑھے گیا ور کس وقت فصل کاٹنے کا وقت آ پہنچے گا ہمارے استنباط کے مطابق خود گندم اپنے ماضی اور مستقبل سے آگاہ نہیں ہے ہم کہتے ہیں ؟ہمارے استنباط کی بنا پر ’ چونکہ گندم با شعور ہے لیکن ہم اس کے کتنے اور کیسے ہونے سے مطلع نہیں ہیں اور اس طرح سوچتے ہیں کہ گندم اپنے ماضیا ور مستقبل سے بے خبر ہے لیکن تم تو اس گندم کے کاشتکار ہو ‘ اس کے ماضی اور مستقبل سے بخوبی مطلع ہو اور اس کے ماضیا ور مستقبل کے مشمول نہیں ہو خداوند تعالی بھی ہمارے ماضی اور مستقبل کا مشمول نہیں ہے وہ اس کائنات کے ماضی اور مستقبل کا بھی مشمول نہیں ہے لیکن اس کائنات اور تمام مخلوقات کے ماضی و مستقبل سے مطلع ہے جس کسی نے تمہیں کہا ہے کہ خداوند تعالی صرف زمانہ حال کو دیکھ رہا ہے اس نے غلطی کی ہے اور اس نے کدا کو زمانہ حال میں محدود کر دیا ہے یعنی اسے زمانہ حال کا مشمول سمجھا ہے جبکہ خداوند تعالی اس قدر بڑا ہے کہ زمانہ حال کا مشول ہونے سے مبرا ہے ۔
اگر ہم کہیں کہ خداوند تعالی زمانہ حال کا مشمول ہے یعنی زمانہ حال کے علاوہ اس کیلئے کوئی زمانہ نہیں ہے تو دین اسلام کی نظر میں یہ کلمہ کفر ہے اس شخص سے کہو کہ اگرچہ خداوند تعالی ماضی اور مستقبل کا مشمول نہیں ہے لیکن ماضی اور مستقبل سے مطلع ہے اسے معلوم ہے کہ آدمی ماضی میں تھا اور گناہ کا مرکتب ہوا ہے تو وہ کیفر کردار تک پہنچا ہے اور اس کی سزا یہ تھی کہ اسے بہشت سے نکال دیا گیا لیکن ہم آدم اور حوا کے فرزند اس کی نسبت سے مستقبل کا جز ہیں اور خداوند تعالی ہمیں اپنے پہلے باپ کے جرم میں سزا نہیں دے گا ۔
اس شخص سے کہو یہ اصل کہ خدا ماضی اور مستقبل کا مشمول نہیں ہے اور یہ اصل کہ خداوند تعالی ماضی اور مستقبل کی تشخیص نہیں دیتا ان دونوں میں غلط فہمی کا شکار نہ ہو ۔ اور خداوند تعالی ہر گز ایک بیٹے کو باپ یا مان کے گناہ کے جرم میں سزا نہیں دیتا اور اس کے بعد بھی کسی بیٹے کو اس کے والدین یا دونوں میں کسی ایک کے گناہ میں سزا نہیں دے گا جابر نے پوچھا ‘ پس یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ بیٹے اپنے والدین کے نا پسندیدہ اعمال کی سزا کا سامنا کرتے ہیں ۔
جعفر صادق نے جواب دیا اس موضوع اور خداوند تعالی کی طرف سے سزا دینے میں فرق ہے جب ماں یا باپ ایسے اعمال کے مرکتب ہوتے ہیں جن کے ارتکاب کی ممانعت ہے ‘ تو یہ اعمال ان کے بیٹوں کی آئندہ زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں مثال کے طور سے شراب پینے کی ممانعت ہے اور جب باپ شراب نوشی کا عادی ہو تو جو بیٹے اس سے پیدا ہوں گے ممکن ہے وہ ناقص العقل ہوں ایک شرابی شخص کے بیٹوں کا احتمالا ناقص العقل ہونا خدائی سزا نہیں ہے بلکہ باپ کے عمل کا نتیجہ ہے جو شاید بیٹوں کو وراثت میں ملے اور انہیں ناقص العقل بنا دے یا یہ کہ ایک باپ ظلم کرے اور کچھ بے گناہ لوگوں کو قت کر دے تو جب وہ فوت ہو گا تو مقتولین کی اولاد قاتل کی اولاد سے قدرتی طور پر نفرت کرے گیا ور اس دوستانہ نگاہوں سے نہیں دیکھیں گے اس بات میں کسی بحث یا دلیل کی ضرورت نہیں ۔
کیا مقتولین کے بیٹوں کا اس شخص کے بیٹوں سے اچھے تعلقات استوار نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ خداوند تعالی نے ظالم شخص کے بیٹوں کو سزا دی ہے ؟ ہر گز نہیں یہ باپ کے عمل کا نتیجہ ہے جو بیٹوں تک پہنچا ہے اور خداوند تعالی نہیں چاہتا تھا کہ ظالم شخص کے بیٹوں کو ایسے حالات پیش آئیں بلکہ خود اس نے اپنے بیٹوں کیلئے ایسے حالات پیدا کئے ہیں جابر نے پوچھا اس طرح تو خداوند تعالی کسی شخص کو اس کے والدین کے گناہوں کی پاداش میں سزا نہیں دے گا ۔
جعفر صادق نے فرمایا ‘ نہیں اے جابر ‘
خداوند تعالی اس سے کہیں زیادہ بڑاہے کہ اس طرح کے نا معقول عمل کا مرتکب ہو اور بیٹوں کو ان کے ماں باپ کے گناہوں کے جرم میں سزا دے ۔ جابر نے پوچھا ‘ مجھے معلوم ہے کہ کن فیکون کے معنی کیا ہیں اور چونکہ مسلمان ہوں اس لئے میرا عقیدہ ہے کہ جونہی خدا وند تعالی نے چاہا یہ کائنات وجود میں آ گئی لیکن میں چاہتا ہوں کہ فلسفے کے لحاظ سے کن فیکون کے معنی سمجھوں تاکہ اگر اس موضوع کے بارے میں کسی غیر مسلم شخص سے گفتگو کروں تو اسے قائل کر سکوں ۔
جعفر صادق نے فرمایا تجھے فلسفے کیر و سے جواب دینے کیلئے ارادے کے بارے میں بات چیت کرنا ہے ارادہ ایسی چیزہے جس کا وجود ہے اگر ایک توحید پرست سامع میرا مخاطب ہو تو اسے کہوں گا کہ ارادہ خداوند تعالی کی صفات ثبوتیہ کا جزو ہی اسے کہوں گا کہ ارادہ خدا کی ذات کا جزو ہے کیونکہ خداوند تعالی کی صفات اس کی ذات سیجدا نہیں ہیں جبکہ انسان میں اس کی صفات ‘ ذات سے جدا ہیں اس طرح دنیا میں آنے والا بچہ دانا نہیں ہوتا اور دانائی اس کی ذات میں وجود نہیں رکھتی اسے دانا بننے کیلئے ایک لمبیمدت تک علم حاصل کرنا پڑتا ہے پھر کہیں جا کر دانائی جو اس کی ذات میں موجود نہیں ہوتیا س کی ذات سے ملحق ہو جاتی ہے ۔
کوئی صنعتکار پیدا ہوتے ہی صنعتکار نہیں ہوتا اور صنعت اس کی ذات میں موجود نہیں ہوتی اسے صنعت سیکھنے کیلئے ایک مدت تک استاد کے ہاں کام کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر وہ صنعت سیکھتا ہے اور اس وقت صنعت اس کی ذات کا جزو بن جاتی ہے ۔
لیکن خداوند تعالی میں جتنی صفات موجود ہیں اس کی ذات کا جزو ہیں وہ پہلے ہی لمحے ؟اگر خداوند تعالی کے متعلق پہلے اور آخری لمحے کی گفتگو کی جا سکے ’ دانا اور توانا تھا اور جو کچھ جانتا تھا س کی ذات کا جزو شمار ہوتا تھا اور اس پرہگز کسی چیز کا اضافہ نہیں ہو گا اور کسی وقت اس سے کوئی چیز کم نہیں ہو گی ۔علم اور طاقت جو علم سے عبارت ہے خدا کی ذات کا جزو ہے لیکن جو شخص توحید پرست نہیں ہے وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتا اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ بت پرستی کا معتقد ہے اور ایک بت کی قدرت کا قائل ہے لیکن خدائے واحد کے علم اور قدرت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں البتہ یہ ہے کہ جیسا کہ تم جانتے ہو بت پرست بھی آخری مرحلے میں ایسی چیز کی پوجا کرتا ہے جو بت نہیں ہوتی چونکہ اسے معلوم ہے کہ اس کا بنایا ہوا یہ بت قدرت کا حامل نہیں ہے ۔ میں ایک ایسے شخص سے جو موحد نہیں ہے اور خدائے واحد کا معتقد نہیں ‘ کہتا ہوں کہ ارادہ بذاتہ موجود ہے اگر وہ اعتراض کرے اور کہے کہ ارادہ بذاتہ وجود نہیں رکھتا بلکہ اس کا وجود ہم سے وابستہ ہے اور اگر ہم نہ ہوں تو ارادہ بھی نہیں تو میں اس سے کہتا ہوں کہ ارادہ ہمارے وجود کے بغیر وجود رکھتا ہے ۔ چونکہ فلسفے کا ایک اصول جسے تمام فلسفی تسلیم کرتے ہیں یہ ہے کہ جو چیز وجود رکھتی ہے فنا نہیں ہوتی لیکن ممکن ہے اس کی صورت تبدیل ہو جائے اگر وہ کہے کہ ہماری موت کے بعد ارادہ ختم ہو جاتا ہے تو میں اس کیلئے ‘مثال پیش کروں گا اور کہوں گا کہ ایک بڑا مخزن یا ایک نہر موجود ہے جس سے پانی مٹی کی نالی کے ذریعے گھر تک پہنچتا ہے اگر مٹی کی نالی کایہ جوڑ کاٹ دیا جائے تو پانی ہمارے گھر میں نہیں پہنچے گا ۔ لیکن کیا مٹی کی نالی کے جوڑ کا کٹ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مخزن یا نہر جس کے ذریعے پانی ہماری گھر تک آتا ہے سرے سے موجود ہی نہیں ؟
صاف ظاہر ہے ایسا نہیں ا ور وہ نہر یا مخزن اپنی جگہ موجود ہے ہمارا وجود بھی ارادے کے لحاظ سے اس مٹی کی نالی کے جوڑ سے مشابہ ہے ‘ اور ہماری موت کے بعد ارادہ فنا نہیں ہوتا اور صرف مٹی کی نالی کا جوڑ کٹ گیا یا ختم ہو گای ارادہ توباقی ہے میں اس غیر موحد شخص سے کہتا ہوں کہ ارادہ کائنات کا جوہر ہے اور کائنات ایک ایسا ارادہ ہے جو مشہود ‘ محسوس اور ملموس صورت میں سامنے آیا ہے جس لمحے ارادہ نے محسوس صورت میں سامنے آنا چاہا اس صورت میں سامنے آ گیا ارادہ ایک تخلیق جس سے محسوس و ملموس کائنات وجود میں آئی آپس میں اس قدر نزدیک ہیں کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں ۔
اس میں کوئی حرج نہیں کہ اگر ارادے کا نام روح رکھ دیا جائے کیونکہ ارادے کی وضاحت اور محسوس و ملموس کائنات کی صورت میں اس سے جو تخلیق وجود میں آئی ہے اس کی روح اور جسم میں کوی فرق نہیں لیکن جو شخص موحد نہیں وہ ارادہ اور اس سے وجود میں آں ے والی تخلیق کو قبول کرنے کی نسبت روح اور جسم کے قبول کرنے سے زیادہ آمادگی رکھتا ہے یہ ارادہ اور اس سے وجود میں آنے والی محسوس و ملموس صورت میں تخلیق ہم میں بھی ہے اور ہمارا وہ ارادہ زندہ رہنے کیلئے اور وہ محسوس اور ملموس وجود یعنی ہمارا جسم ہے اور جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ آدمی کے وجود میں زندہ رہنے کی طرف مائل ہونے سے زیادہ مضبوط ارادہ موجود نہیں ہے میں اس شخص سے جو موحد نہیں کہتا ہوں کہ ارادے نے چاہا کہ اپنا محسوس وجود پیدا کرے اور وہ محسوس وجود یہی کائنات ہے جسے ہم دیکھتے ہیں اور ہم اس کا جزو ہیں ۔
فلسفے کے مطابقیہ ہیں کن فیکون کے معنی ‘ اور جو ارادے نے چاہا سو وہ ہو گیا اور محسوس کائنات وجود میں آئی کائنات و ارادے میں اس سے زیادہ فرق نہیں ہے کہ انسان ارادے کو نہیں دیکھ سکتا اور نہ ہی لمس کر سکتا ہے جبکہ جہاں کو وہ مشاہدہ کر سکتا ہے اور لمس بھی کرتا ہے جابر نے کہا اسطرح تو ہماری موت کے بعد ارادہ فنا نہیں ہوتا ۔
جعفر صادق نے فرمایا ‘ نہیں اور موت محسوس ہونے والے ارادے کے جسم کا جزو ہے میں تم سے کہت اہوں کہ یہ جہان جسے ارادہ وجود میں لایا ہے زندگی ہے اور تجھے معلوم ہے کہ کائنات میں ایسی کوئی چیز نہیں جو زندہ نہ ہو اور جامد پتھر بھی زندہ ہیں چہ جائیکہ درخت حیوان ‘ انسان ‘ دریاؤں اور سمندروں کا پانی ۔ جب ارادے نے کن کہا ‘ تو فیکون ؟یعنی ہو گیا ’ زندگی وجود میں آ گئی اور زندگی میں موت کے معنی فنا ہونا نہیں اور صرف زندگی کے ایک حصے کی ایک صورت کی تبدیلی ہے ولادت اور موت دونوں زندگی ہیں اور ہمیں موت کو منحوس اور ولادت کو مبارک نہیں سمجھنا چاہیے چونکہ دونوں زندگی کے دو رخ ہیں پانی اور برف کی ماند جو پانی کی دو حالتیں ہیں جبکہ ماہیت کے لحاظ سے پانی اور برف میں کوئی تفاوت نہیں ۔
ہماری زندگی اور رہائش بھی اسی طرح ہے یہ زندگی کے دو رخ ہیں ‘ جس طرح ولادت موت کو ختم نہیں کرتی اسی طرح موت ‘ ولادت کو ختم نہیں کرتی ۔ اگر ہم ولادت اور موت کو ایک لکڑی کے دوسرے فرض کریں ‘ تو یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ وہ لکڑی زندگی ہے جس کا ایک سرایا قطب ولادت ہے اور دوسرا سریا قطب موت ہے ایک موحد موت سے نہیں ڈرتا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ موت کے بعد باقی رہے گا اگر ایک غیر موحد شخص بھی جان لے کہ موت زندگی کا دوسرا رخ ہے تو وہ ہر گز موت سے نہیں ڈرے گا اور یہ شخص جو خدا پر ایمان نہیں لایا اسے سمجھانا پڑے گا کہ موت کے بعد فنا نہیں ہو گا جابر نے کہا اگر وہ شخص مجھ سے پوچھے کہ ارادہ کن لوازمات اور اوزاروں کے ذریعے زندگی کو وجود میں لایا ہے تو میں اسے کیا جواب دوں ؟
جعفر صادق نے فرمایا اسے کہو کہ ہماری عقل اور حواس اس بات کو سمجھنے سے قاصرہیں کہ ارادہ کن اوزاروں کے ساتھ کائنات کو وجود میں لایا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کن لوازامات کے ذریعے وجود میں آئی ہے اور جن لوازمات کے ساتھ کائنات وجود میں لائی گئی وہ بھی آج ہمار نظروں کے سامنے ہیں اسی بات کو سمجھنے کیلئے کہ ارادے نے کن اوزاروں کے ذریعے اس کائنات یا زندگی کو پیدا کیا ہے اس کیلئے عقل کو آج سے زیادہ طاقتور ہونا چاہیے اور آج جو حواس موجودہیں ان سے زیادہ حواس موجود ہونا چاہیں تجھے معلوم ہے کہ آج بنی نوعی انسان میں ایسے بھی موجود ہیں جو کسی قسم کی خوشبو یا بد بو کو نہیں سونگھ سکتے کیونکہ ان میں اس حس کی کمی ہوتی ہے جس سے بو سونگھی جاتی ہے تجھے معلوم ہے کہ ہم جیسے انسانوں میں ایسے بھی ہیں جو کچھ نہیں دیکھ پاتے کیونکہ ان میں اس حس کی کمی ہوتی ہے جس سے اشیاء اور اشخاص کو دیکھا جا سکتا ہے ۔
اس موضوع کو سمجھنے کیلئے کہ ارادہ کن اوزاروں کے ساتھ کائنات کو وجود میں لایا ہماری مثال ان لوگوں جیسی ہے جن میں بعض حواس مفقود ہوتے ہیں لہذا وہ بو کو نہیں سونگھ سکتے یا چیزوں کو نہیں دیکھ پاتے ہمیں اس موضوع کو سمجھنے کیلئے موجودہ عقل سے زیادہ طاقتور عقل اور موجودہ حواس سے زیادہ طاقتور حواس درکار ہیں جابر نے پوچھا کیا ممکن ہے کہ ایک دن ایسا آئے کہ ہم سمجھیں کہ کائنات یا زندگی کس اوزار سے بنائی گئی ہے ؟ جعفر صادق نے فرمیا ہاں اے جابر کیونکہ آج تک کے تجربات سے ثابت ہو چکا ہے کہ علم جمود اور حرکت کے مراحل سے گزرتا رہا ہے اور ممکن ہے کہ آئندہ علمی حرکت کے ادوار آئیں اور ان ادوار میں بنی نوع انسان سمجھے کہ کائنات کن اوزاروں کے ساتھ بنائی گہی ہے ۔ جابر نے سوال کیا بڑھاپا کس سے وجد میں آتا ہے جعفر صادق نے جواب دیا انسانی مزاج پر مسلط ہونے والی بیماریوں کی دو اقسام ہیں امین سے ایک قسم تیز کہلاتی ہے اور ایک قسم کند کہلاتی ہے تیز بیماریوں کی اقسام اچانک مزاج پر مسلط ہو جاتی ہیں اور تیزی سے افاقہ ہو جاتا ہے یا پھر ہلاکت کا سبب بنتی ہیں ۔ بیماریوں کی دوسری قسم کند کہلاتی ہے جن کا سفر لمبا اور بتدریج ہے اور یہ بیماریاں ایک مدت تک مزاج میں رہتی ہیں اور علاج کار گر ثابت نہیں ہوتا یہاں تک کہ انسان ہلاک ہو جاتا ہے اور بڑھاپا کند بیماریوں کی ایک قسم ہے ۔
جابر نے کہا پہلی مرتبہ میں سن رہا ہوں کہ بڑھاپا ایک بیماری ہے جعفر صادق نے فرمایا ہے یہ بیماری بعض لوگوں میں جلدی سرایت کر جاتی ہے اور بعض میں دیر سے جو لوگ خداوند تعالی کے احکامات کی پیروی نہیں کرتے اور منکرات سے اجتناب نہیں کرتے وہ نسبتا جلدی بوڑھے ہو جاتے ہیں لیکن وہ لوگ جو خداوند تعالی کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں دیر سے بوڑھے ہوتے ہیں ۔
جابر نے کہا میرا ایک اور سوال ہے اور وہ یہ ہے کہ خداوند تعالی نے جب انسان کو مارنا ہی ہوتا ہے تو اسے اس جھان میں کیوں لاتاہے اور کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ اسے اس دنیا میں مارنے کیلئے نہ لائے ۔
جعفر صادق نے فرمایا میں نے تجھے کہا ہے کہ موت کا کوئی وجود نہیں ہے اور جو کچھ میری اور تمہاری نظروں میں موت کی صور ت جلوہ گر ہوتی ہے وہ دوسری زندگی کی ابتدا ہے اور خداوند تعالی انسان کوا س جھان میں اس لئے لاتا ہے تاکہ انسانیت کاملہ کا ایک مرحلہ یہاں پر طے کر لے اس مرحلے کے بعد انسان گذشتہ مرحلے سے زیادہ کامل انسان کی صورت میں دوسرے جھان میں جاتا ہے اور اس جھان میں بھی کامل انسان کا ایک مرحلہ طے کرتا ہے ۔ جابر نے پوچھا تخلیق کا حتمی سبب کیا ہے ؟ جعفر صادق نے فرمایا تخلیق کا حتمی سبب خداوند تعالی کی طرف سے تمام مخلوقات حتی کہ جمادات کیلئے اس کے لطف و کرم سے عبارت ہے جابر نے پوچھا ‘ خداوند تعالی نے کیوں لطف و کرم کیا ؟ جعفر صادق نے پوچھا کیا تم ایک کریم کے مقصد کو نہیں سمجھ سکتے ۔
جابر نے کہا ابن آدم میں ایسا کم اتفاق ہوا ہے کہ کوئی بغیر کسی مقصد کے کریم ہو جائے اور انسانوں سے محظوظ نہ ہو سکتے ۔ اسی طرح ہم پانی پیتے ہوئے لذت محسوس کرتے ہیں کیونکہ ہماری جسم کو پانی کی ضرورت ہے اور اگر جسم نہ ہو تو ہمیں پیاس کا احساس نہ ہو تاکہ ہم پانی پیئں ۔
ہم باغ کا تماشا کرنے سے لذت اٹھاتے ہیں اور اس کے باوجود کہ یہ ایک روحانی لذت ہے پھر بھی ہمارے جسم سے وابستہ ہے چونکہ اگر ہم اپنے جسم میں آنکھیں نہ رکھتے تو باغ کو نہ دیکھ سکتے تاکہ اس کے مشاہدے سے لذت اٹھائیں ایک لذت ایسی ہے جس کے بارے میں پہلی نظر میں یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایک روحانی لذت ہے اور جسم کی اس میں کوئی مداخلت نہیں ہے وہ علم کو رک کرنیکی لذت ہے ۔
بہر کیف یہ لذت بھی جسم کے رابطے کے بغیر محال ہے چونکہ اگر ہمارا جسم نہ ہوتا تو ہم کتاب نہ پڑھ سکتے اور نتیجتا علم نہ سیکھ سکتے اور اگر کان نہ ہوتے تو علما کی باتیں نہ سن سکتے تاکہ انہیں یاد کر لیں نہیں علم کے ادارک کی لذت بھی ہمارے جسم کے اعضا سے وابستہ ہے اور جسم سے وابستہ ہے جبکہ خداوند تعالی کا جسم ہی نہیں کہ وہ کسی قسم کی مسرت یا لذت کا محتاج ہو ۔
جابر نے کہا پس خداوند تعالی کسی لذت کو درک کرنے پر قادر نہیں ؟
جعفر صادق نے جواب دیا تم اپنے سوال کو صحیح طریقے سے زبان پر نہیں لائے تم نے کہا ہے کہ خداوند تعالی قادر نہیں ہے جبکہ خداوند تعالی ہر کام کرنے پر قادر ہے اور کوئی ایسا کام نہیں جسے وہ انجام نہ دے سکتا ہو ۔ یہ لذت جو ہمیں بھوک کے وقت کھانے سے اور پیاس کے وقت مشروب سے محسوس ہوتی ہے در اصل یہ اس نے ہمارے وجود میں رکھی ہے اور یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی قسم کی لذت کو درک کرنے پر قادر نہیں ؟
ہم میں کوئی چیز ایسی نہیں جس کو درک کرنے پر خداوند تعالی قادر نہ ہو چونکہ وہ خالق اور ہم مخلوق ہیں اور کوئی عاقل شخص یہ بات تسلیم نہیں کر سکتا کہ خالق ‘ مخلوق کے حواس خمسہ سے آگاہ نہ ہو سکے مختصر یہ کہ اسے اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہماری طر اپنے لئے لذتیں وجود میں لائے کیونکہ اس کا جسم نہیں ہے ہماری زندگی میں جو چیز ہمیں لذت پہنچاتی ہے اور جو چیز ہمارے کام آتی ہے وہ ضرورت کی پیدوار ہے اور ضرورتوں کو بھی ہمارا جسم وجود میں لاتاہے اور خدا جس کا کوئی جسم نہیں لذتوں سے بے نیاز ہے ۔ ایک گروہ ایسا ہے جو شہرت اور ناموری کیلئے سخاوت کرتا ہے اور لوگوں سے چاہتا ہے انہیں کریم کہا جائے ۔
جعفر صادق نے فرمایا لیکن خداوند تعالی ایک ریکار کریم نہیں ہے اور اس لئے نہیں بخشتا کہ نام پیدا کرے وہ ریا کاری کے بغیر کریم ہے اور اس نے مخلوقات کو اس لئے خلق کیا ہے تاکہ وہ فیض پائیں لیکن اگر تو یہ پوچھے کہ اس مخلوقات کی تخلیق میں خداوند تعالی کے فضل و کرم کے علاوہ کوی اور سبب کار فرما ہے یا نہیں ؟ تو میں تم سے یہ کہوں گا کہ یہ سوال نہ کرو کیونکہ ایک موحد کو یہ سوال نہیں کرنا چاہیے جابر نے کہا یہ بات واضح ہے کہ میں یہ سوال اس لئے پوچھتا ہوں تاکہ اگر میرا کسی غیر موحد سے پالاپڑے تو اسے جواب دے سکوں ۔
جعفر صادق نے فرمایا اے جابر فلسفہ کی رو سے کائنات کو وجود میں لانے کا سبب خداوند تعالی کے فضل و کرم کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا چونکہ اگر کائنات کو تخلیق کرنے کا کوئی اور سبب ہوتا اور وہ سبب خدا کو کائنات کی تخلیق پر لگاتا تو وہی سبب خدا کی جگہ لے لیتا اور پھر خداوند تعالی خدائی نہ کر سکتا اسی بنا پر فلسفے کی رو سے کائنات کو وجود میں لانے کا کوئی سبب نہ تھا کیونکہ اگر کوئی سبب موجود ہوتا تو وہ سبب خدا کی جگہ لے لیتا اس لئے کہ وہ سبب خدا کو کائنات کی تخلیق پر مجبور کر دیتا اور ایک مجبور خدا کو خدا تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔
جابر نے پوچھا ‘ کیا یہ بات ممکنہے کہ کائنات کو تخلیق کرنے کا کوئی سبب ہو جس کی بنا پر خدا نے کائنات کو تخلیق کای ہو ‘ قطع نظر اس کے کہ اس سبب نے خدا کو کائنات تخلیق کرنے پر مجبور کیا ہو ؟ فرض کرتے ہیں کہ خداوند تعالی کائنات کی تخلیق کی طرف اس لئے متوجہ ہوا ہو تاکہ اپنی تخلیق کا تماشہ کرے یا س لئے کائنات تخلیق کی ہو کہ اپنی خلقت سے لذت اٹھائے ۔
جعفر صادق نے جواب دیا اے جابر کسی کام کو انجام دے کر اس سے لذت اٹھانا یا اس کا تماشا کرنا ہم انسانوں کی طبعیت کا خاصہ ہے اور یہ دونوں باتیں ضرورت کی پیدوار ہیں ہم اپنی روح کو خوش کرنے کیلئے تماشا کرنے جاتے ہیں چونکہ ہمیں لذت اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے لہذا جب ہم کوئی کام انجام دیتے ہیں تو وہ ہماری نظر میں لذت بخش دکھائی دیتا ہے ۔ لیکن خداوند تعالی جو بے نیاز ہے اسے تماشا کی کوی ضرورت نہیں اور نہ کسی چیز سے لذت اٹھانے کا محتاج ہے اے جابر تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری لذتوں کا زیادہ حصہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ہمارے جسم کی پیدوار ہے ہم بھوک کے وقت غذا کھاتے ہوئے لذت محسوس کرتے ہیں کیونکہ ہماری بدن کو غذا کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر ہمارے منہ میں زبان یا چکھنے کی حس نہ ہوتی تو شاید ہم غذا کھاتے اس موضوع سے قطع نظر ‘ کائنات کی ایجاد کا سبب جو کچھ بھی ہو اس سے خدائی قدرت کو سلب کر لیتا ہے اور کوئی موحد اس بات کا قائل نہیں ہو سکتا کہ کائنات کی پیدائش کا کوئی سبب تھا اور خداوند تعالی نے اسی سبب کی بنا پر اس کائنات کو خلق کیا ہے ہاں مگر یہ کہ خداوند تعالی نے اپنے فیض و کرم سے اس کائنات کی تخلیق کی تاکہ مخلوقات زندگی کی نعمت سے بہرہ مند ہو اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی کہا جائے وہ توحید کے خلاف ہے ۔
جابر نے کہا ‘ کیا خداوند تعالی کا کرم جو کائنات کی تخلیق کا سبب ہوا ہے اس تخلیق کی وجہ نہیں ہے اور کیا جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدوند تعالی نے اپنے کرم کی رو سے مخلوقات کو خلق یا ہے ایک سبب کا ذکر نہیں کرتے ۔ جعفر صادق نے فرمایا ایک لازمی سبب نہیں ہے ‘ یعنی ایک ایسا سبب نہیں جس کی وجہ سے خدا کائنات کو تخلیق کرنے پر مجبور ہوا ہو اور چونکہ لازمی سبب نہیں لہذا جب موحد کہتا ہے کہ خداوند تعالی نے اپنے کرم کی رو سے کائنات کو تخلیق کیا ہے تو اس کا یہ قول توحید کے خلاف نہیں جابر نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ یہ سبب بھی لازمی ہے جعفر صادق نے وضاحت چاہی اور جابر نے کہا خداوند تعالی جس نے اپنے کرم کی رو سے کائنات کو خلق کیا ہے کائنات کی تخلیق سے صرف نظر بھی کر سکتا تھا جعفر صادق نے فرمایا ظاہر ہے ۔ جابر نے کہا لیکن اس نے کائنات کی تخلیق سے صرف نظر نہیں کیا اور اسے اپنے کرم کی رو سے خلق کیا اور کیا یہ موضوع ہمیں اس بات تک نہیں پہنچاتا کہ خداوند تعالی اپنے فیض و کرم سے پہلو تہی نہیں کر سکتا تھا جعفر صادق نے فرمایا یہ جو کجھ تم کہہ رہے ہو گجھگڑا ہے نہ کہ مباحثہ جب تم ایک شخص کا احترام کرتے ہو تو کیا تم اس کا احترام کرنے پر مجبور ہوتے ہو ۔ غور کرو کہ میں احترام کے بارے میں اس کے اصلی معنوں سے بحث کر رہا ہوں نہ کہ وہ احترام جسے انسان اپنے فرض کے طور پر نبھاتا ہے اور جو مسلط کیا جاتا ہے مثال کے طور پر تمہارا کوئی عزیز غریب ہے اور تم ایک معین عرصے میں لگا تار اس کی مدد کرتے رہتے ہو اور جانتے ہو کہ اگر تم اس کی مدد نہیں کرو ے تو اس کا جینا محال ہو جائے گا اس کے باوجود کہ تم اس پر رحم کھا کر اس کی مدد کرتے ہو لیکن تمہارا یہ عمل کرم نہیں بلکہ تمہاری ڈیوٹی ہے اور تم اپنی ڈیوٹی یہ سمجھتے ہو کہ معین وقت میں بغیر کسی لالچ کے آپ اس کی مدد کرتے رہو اور تم سے مدد حاصل کرنے کے لحاظ سے تقریبا وہ تمہارا قرض دار ہو جائے گا ۔
لیکن میں اس اکرام کے بارے میں گفتگو کر رہا ہوں جو حقیقی معنوں میں کرم ہے ایک شخص تمہاری توجہ کا مرکز ہے اور تم اس کی مدد کرنا چاہتے ہو اور وہ پیش گوئی نہیں کرتا تو اسکی مدد کرے گا اور حتی کہ ایک دفعہ بھی اس کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی کہ تم سے کوی چیز وصول کرے گا تم بھی اس کی مدد کرنے میں مکمل طور پر خود مختار ہو اور کوئی مادی یا روحانی محرک تمہیں اس کی مدد پر مجبور نہیں کرتا ان نکات کو مد نظر رکھت ہوئے اگر تم اس شخص پر کرم کرتے ہو تو کیا تم مجبور تھے ؟ جابر نے کہا نہیں ‘
جعفر صادق نے فرمایا خدا نے بھی بغیر کسی دباؤ کے اپنے حقیقی کرم کی رو سے کائنات کو تخلیق کیا ہے تاکہ زندگی کی یہ نعمت مخلوقات کو عنایت فرمائے بہر حال میں جو ایک موحد ہوں اپنی عقل کے مطابق کائنات اور جو کچھ اس میں ہے اس کی ایجاد کیلئے خدا کے کرم کے علاوہ کسی سبب کو مد نظر نہیں رکھتا ۔
میں اپنی عقل کا سہارا لیتا ہوں ‘ اور میری عقل انسانی ہے جبکہ خداوند تعالی دانا اور توانائے مطلق ہے اس کی عقل ‘عقل الہی ہے عقل الہی انسانی عقل سے اس قدر بڑی اور طاقتورہے کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی نسبت نہیں ان کا موازانہ کسی صورت ممکن نہیں ہم جس قدر کہیں کہ عقل الہی انسانی عقل سے برتر اور زیادہ طاقتور ہے پھر بھی خداوند تعالی کے عقل کو انسانی عقل سے کوئی نسبت نہیں دے سکتے کیونکہ خداوند تعالی کی عقل اس کی تمام صفات کی مانند لا محدود ازلی اور ابدی ہے اس کو کسی پیمانے یا میزان سے ناپا یا تولا نہیں جا سکتا اور ایسا کوئی عدد نہیں جو اس کی برتری کی نشاندہی کر سکے چونکہ جونہی زبان پر کوئی عدد لایا جاتا ہے یا کاغذ پر لکھا جاتا ہے تووہ ایک محدود عدد ہو جاتا ہے اور ایک محدود چیز کا لا محدود ازلی اور ابدی چیز سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ۔