مغز متفکر اسلام“(سپرمین ان اسلام ) ”امام جعفر صادق “
متعدد پروفیسر

”عرض ناشر
عصر حاضر میں تہذیب کے مسئلہ کی اہمیت نے عالم اسلام کو ایک نازک بلکہ دشوار منزل پر لاکھڑا کیا ہے اور یہ صورت مفکرین اسلام کیلئے ایک بڑا چیلنج بن گئی ۔
ہے بلاشبہ اس سے گریز فطرت انسانی کے منافی ہو گا ۔لہذا دنیا کا کوئی ملک اس چیلنج کو نظر انداز نہیں کر سکتا کیونکہ ترقی اور خوش حال کیلئے ہر دل میں ایک سہانی امید مچلتی ہے تازہ جذبہ ابھرتا ہے اور حوصلہ مندی جنم لیتی ہے ۔
مشاہدہ ہے کہ مغربی تہذیب کی وسعت پزیری نے مشرقی ممالک کو روحانی اعتبار سے کمزور بنا دیا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اس یلغار سے اسلام یا اسلامی آثار میں کوئی تبدیلی آگئی ہے ۔
کیونکہ اسلام آج بھی اپنی عالمگیر تعلیمات کا علم بردار ہے ۔ کہ قرآن اور عترت اہل بیت سے تمسک رکھ کر اسلامی آدب کے مطابق معاشرے میں عادلانہ نظام قائم ہو ۔ انسانیت کی خوشحالی کے لیے اقدامات کئے جائیں ۔ مخیر طبقہ میں جذبہ خیر و ایثار پیدا ہو اور باہمی اخوات و رواداری کو فروغ حاصل ہو ۔ اسلامی تعلیمات کو جدید زمانے کے تناظر میں مروجہ و متداول علوم و فنون اور وسائل و ذرائع سے ہم آہنگ کیا جائے ۔
اسی طرح ہماری نئی نسل میں جہاں ایمانی قوت متحرک ہو گی اور خود اعتماد کے ساتھ دین حقہ پر استقامت کا عزم بلند ہو گا وہاں ایجاد و اختراع فکری استقلال اور اولوالعزمی جیسی طاقتیں مجتمع ہو کر پوری ذہانت و مہارت اور جرات و حوصہ کے ساتھ ہمیں مغرب کا مقابلہ کرنے پر آمادہ کریں گی ۔
آج کا دور ہمارے ارباب فکر و دانش اور اہل قلم پر بھاری ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ یہ طبقہ عوام میں ایمانی قوت ‘اسلامی شعور اور اخلاقی حسن کو نکھارنے میں اپنی بھر پور صلاحتیوں کو اعتماد میں لائے تاکہ ہمارے حالات میں بہتری پیدا ہو ہمارے کردار میں متعدد بہ تبدیلی رو نما ہو ۔ مغربی تہذیب سے ہماری طلب کا دائرہ فقط اپنی ثقافت کیلئے مفید طلب اور ہمارے نظریات سے ہم آہنگی کے حصول تک محدود رہے کیونکہ اسی طرح ہم اللہ کی رسی کو مضبوط کے ساتھ تھام کر دین و دنیا کی فلاح سے متمتع ہو سکتے ہیں ۔
اللہ تعالی کے فضل و کرم سے قیام پبلی کیشنز لاہور نے ملت اسلامیہ میں یک جہتی اور یگانت کے فروغ اور تمام عصبیتوں کے خاتمہ کیلئے ایک معقول لائحہ عمل مرتب کیا ہے اور عوام الناس کو ایسا لٹریچر مہیا کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے جس کی برکت سے وہ دنیا کے ہر چیلنج کا مردانہ وار
مقابلہ کرنے کی صلاحتیوں سے مالا مال ہو سکتے ہیں ۔
زیر نظر کتاب ہمارے جدوجہد کی اہم ایک کڑی ہے یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے ممتاز و منفرد ہے کہ اس سے قبل اردو زبان میں ایسی کاوش منظر عام پر نہیں آ سکی ہے ۔
اس کتاب کا اصل مسودہ فرانسیسی زبان میں ہے ۔ اسے پچیس دانشوروں کی ایک جماعت نے مرتب کیا ہے مرتبین کی غالب تعداد مسلمان نہیں ہے لہزا کئی مقامات پر اختلاف کی گنجائش پائی جاتی ہے چونکہ یہ تحریر مذہبی پس منظر نہیں رکھتی ہے اور اسے سائنسی تناظر میں لکھا گیا ہے لہذا اگر کسی جگہ مذہبی جذبات کو ٹھیس محسوس ہو تو اسے رواداری کے جذبے سے نظر انداز کر دینے کا خصوصی التماس ہے اس کا اردو ترجمہ فارسی متن سے کیا گیا ہے مترجم نے صحافتی دیانت کے پیش نظر یہ مناسب خیال نہیں کیا کہ مولف جماعت کے نظریت پر اپنی مبصرانہ رائے مسلط کرے البتہ پیشکار نے جہان ضروری سمجھا ہے معمولی حاشیہ آرائی کر دی ہے واضح ہو کہ ادارہ کا صاحب کتاب جماعت کے تمام نظریات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔
ہم معترف ہیں کہ اس معرکتہ آلارا کتاب مستطاب کو شائع کرکے ہم نے چھوٹے منہ سے بڑی بات کی ہے لہذا اغلب امکان ہے کہ کچھ مقامات پر اغلاط سرزد ہو گئی ہوں اور اس کا واضح سبب ہماری علمی بے بضاعتی ہو گا ایسی صورت میں ہم اپنے معزز قارئین سے بصد معذرت ملجتی ہیں کہ وہ تصحیح سے مطلع فرما کر ہدیہ تشکر کا موقع عنایت کریں ۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ کتاب کو اس کے شایان شان شائع کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں اور قاری پر اس کا مالی بوجھ بھی زیادہ نہ ہو تاہم اس کے حسن و قبح کا فیصلہ ذوق ناظرین پر منحصر ہے ہمیں یقین واثق ہے کہ ہمارے کرم فرما ہمیں اپنے قیمتی مشورہ اور اصلاحی آراء سے ضرور آگاہ کریں گے تاکہ ان کی روشنی میں ہم ان کی بہترین سے بہترین خدمت انجام دے سکیں ۔ دعا ہے کہ رب الکریم اہل اسلام کو اس کتاب کے فیوض سے بہرہ مند فرمائے ۔ ماتوفیقی الاباللہ

آپ کے نیاز مند
قیام پبلی کیشنز لاہور
******

مقدمہ فارسی مترجم
اسلامی مسائل سترہویں صدیق عیسوی سے یورپی دانشوروں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے اور امریکہ کی یونیورسٹی میں توسیع کے بعد امریکی اکابرین نے بھی اسلامی تعلیمات پر تحقیق کرنے میں دلچسپی لینا شروع کیا یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اسلامی مسائل اور ہر طبقہ کے مسلم دانشوروں کے متعلق یورپی و امریکی محقیقین نے سترہویں صدی عیسوی کے بعد بہت سی کتب تحریر کی ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے ان تحقیقات کا گزشتہ پچاس ساٹھ سال کے دوران فارسی میں ترجمہ ہوا ۔ ان میں سے کچھ کے ترجمہ کی سعادت حقیر نے حاصل کی ہے ۔ لیکن اہل یورپ و امریکہ اس صدی کے آغاز خصوصا جنگ عظیم کے شروع میں مسلک شیعہ اثناء عشری اور ان کے اکابرین پر تحقیق کرنے کی جانب مائل ہوئے ۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مطالعاتی مرکز جو اسٹرابرگ فرانس میں واقع ہے نہ صرف اسلامی مسائل پر تحقیق کرتا ہے بلکہ دنیا کے دیگر مذاہب پر بھی ریسرچ کرتا ہے
جو لوگ اس تحقیقاتی مرکز میں خدمات سر انجام دیتے ہیں وہ اسٹراسبرگ کے رہائشی نہیں بلکہ اسٹرابرگ یونیورسٹی کے اساتذہ کے علاوہ ان میں وہ دانشور بھی شامل ہیں جو دوسرے ملکوں میں مذہبیات نے یہ بات اسٹراسبرگ کے ایک استاد سے سنی ہے اور کبھی کبھار یہ محقق دو سال میں ایک مرتبہ اسٹراسبرگ میں جمع ہو کر باہمی تبادلہ خیالات کرتے ہیں ۔
ان محقق کی تحقیقات میں سے ایک تحقیقی پیش خدمت کتاب کی صورت میں شائع ہوئی ہے اس میں ایسے مطالب درج ہیں جو ابھی تک کسی بھی اسلامی ملک میں دوسری کتابوں کی زینت نہیں بنے ۔حالانکہ مجھے یہ کہنے دیجئے کہ امام جعفر صادق علیہ اسلام کا انسانی اور عملی مرتبہ فی الحقیقت اس کتاب کی رسائی سے بہت زیادہ بلند ہے مگر یہ کتاب اس بات کا موجب بن سکتی ہے کہ اہل علم امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں اس سے زیادہ جامع اور ضحینم مواد تصنیف و تالیف کریں ۔
جن اسکالرز نے مرکز مطالعات اسلامی اسٹرسبرگ کے اس تحقیقی پروگرام میں حصہ لیا ان کے اسماء کرام مندرجہ ذیل ہیں ۔
مسٹر آرمان بل پروفیسر یونیورسٹی برسلز اینڈگان بلجیئم
مسٹر جان اوبن پروفیسر یونیورسٹی آ گان بلجیئم
مسٹر برونستویک پروفیسر یونیورسٹی آف پیرس فرانس
مسٹر کلائیڈ کاہن پروفیسر یونیورسٹی اف پیرس فرانس
مسٹرانریکو جرالی پروفیسر یونیورسٹی آف اٹلی اٹلی
مسٹر ہنری کوربن پروفیسر یونیورسٹی اینڈ ڈائریکٹر آف
9; 9; تھیالوجی اسٹڈیز فرانس
مسٹر توفیق مخل پروفیسر یونیورسٹی آف اسٹراسبرگ فرانس
مسٹر فرانسیکو جبرائیلی پروفیسر یونیورسٹی آف روم اٹلی
مسٹر ریچارڈ گراھم پروفیسر یونیورسٹی جرمنی جرمنی
مس این لمیٹن پروفیسر یونیورسٹی آف لندن برطانیہ
مسٹر جرا رلوکنٹ پروفیسر آف اورینٹل لینگویجز یونیورسٹی آف پیرس فرانس
مسٹر ایون لینن ڈویل قونڈ ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف نالج ریسرچ پیرس فرانس
مسٹر ویلفریڈ مڈلونگ پروفیسر یونیورسٹی آف شکاگو امریکہ
مسٹر ہنری ماسے پروفسیر یونیورسٹی آف پیرس فرانس
مسٹر حسین نصر وائس چانسلر یونیورسٹی اف ٹیکنالوجی تہران ایران
مسٹر شارل پلا پروفیسر یونیورسٹی آفس پیرس فرانس
مسٹر موسی صدر ڈائریکٹر اسلامک اسٹڈیز نالج صدر لبنان لبنان
مسٹر جارج ویزڈا پروفیسر یونیورسٹی آف لیون فرانس
مسٹر آرنلڈ پروفیسر یونیورسٹی آف لیون فرانس
مسٹرالیاش پروفیسر یونیورسٹی اف کیلی فورنیا لاس اینجلس امریکہ
مسز دوران بینچ کلیف پروفیسر یونیورسٹی اف لندن برطانیہ
مسٹر فرتیز میئر پروفیسر یونیورسٹی آف بال پیرس فرانس
مسٹر جوزف مانوز پروفیسر یونیورسٹی اف فری برگ جرمنی
مسٹر ہینس مولر پروفیسر یونیورسٹی آف برگ جرمنی
مسٹر ہینس رومر پروفیسر یونیورسٹی آف برگ جرمنی
میں ایک شیعہ اثناء عشری مسلمان ہوں آج تک نہیں جانتا تھا کہ شیعہ مسلک کو جعفری کیوں کہا جاتا ہے ؟ مجھے امام جعفر صادق علیہ السلام (اپنے چھٹے امام )کے بارے میں اس سے زیادہ معلوم نہ تھا کہ آپ امام محمد باقر علیہ السلام کے فرنزد ارجمند اور امام موسی کاظم علیہ السلام کے والد گرامی قدر ہیں ۔
میں آپ کی سوانح حیات سے مکمل بے بہرہ تھا اور زیادہ سے زیادہ یہی جانتا تھا کہ آپ کی ولادت و شہادت کہاں واقع ہوئیں ۔ مجھے قطعا معلوم نہ تھا کہ امام جعفر صادق نے زندگی کے بارے میں کیا فرمایا اور کیسے کارنامے انجام دیئے ۔ حتی کہ اس بات سے بھی نا بلد تھا کہ شیعہ مسلک کو جعفری کیوں کہا جاتا ہے ؟ کیا ہمارے پہلے امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام نہیں ہیں ؟ پھر شیعہ مسلک کو جعفری کہنے کا کیا سبب ہے ؟ کیا امام حسین علیہ السلام کی قربانی اور ایثار کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب نہیں کہ شیعہ مسلک کو حسینی کا لقب دیا جائے ؟
ان تمام سوالوں کا جواب مجھے اس وقت ملا جب اسلامک اسٹڈیز سنٹر اسٹراسبرگ (فرانس)کا ایک میگزین دربارہ امام جعفر صادق میرے ہاتھ لگا اس رسالے کو پڑھ کر میرے علم میں یہ بات آئی کہ امام جعفرصادق علیہ السلام دیگر آئمہ میں اس قدر ممتاز کیوں ہیں کہ شیعہ مسلک کو ان کے نام نامی سے موسوم کیا گیا ہے ۔
کہا جا سکتا ہے کہ امام جعفر صادق کے متعلق معلومات کا فقدان خود میری اپنی سستی اور کاہلی کی باعث ہوا کیونکہ اگر بحار االانوار تالیف
علامہ مجلسی و فیات الاعیان تالیف ابن خلکان وافی تالیف ملا محسن فیض اور کافی تالیف علامہ کلینی یا ناسخ التواریخ تالیف لسان الملک سپہر جیسی کتابوں کا مطالعہ کر لیتا تو اپنے چھٹے امام کو بخوبی پہچان لیتا ۔
تو میں عرض کروں گا کہ میں نے بعض کتب کو جو امام جعفر صادق کے متعلق لکھی گئی ہیں مطالعہ کیا ہے اور اس بات کا بھی مشاہدہ کیا ہے کہ ان کتابوں میں امام صادق کے معجزات اور مناقب تو کثرت سے ذکر کئے گئے ہیں لیکن اس کا جواب کہیں دستایاب نہیں ہے کہ شیعہ مسلک کو جعفری کس بنا پر کہا جاتا ہے ؟ مگر اس رسالے نے جو اسلامک اسٹڈیز نے چھاپا ہے مجھ پر یہ حقیقت عیان کر دی اور میری نابینا آنکھوں کو بصیرت دے دی چنانچہ میں نے نئی نوجوان نسل کو چھٹے امام کی تاریخی حوالہ جات کی روشنی میں شناخت کروانے کا بیڑہ اٹھایا کیونکہ میرے خیال کے مطابق ماضی کے مذہبی علماء میں عمومی طور پر سے شاید ہی کس نے اس موضوع کا اداراک کیا ہو کہ امام جعفر صادق نے مذہب شیعہ کو زوال سے بچانے کیلئے کیا تدابیر اختیار فرمائیں ۔ اور اگر وہ ایسا نہ کرتے تو لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ آج مسلک شیعہ موجود نہ ہوتا ۔
اس عظیم شخصیت اور نا بغہ دانشور کے حق کو پہچاننے کا تقاضا ہے کہ آپ کا تعارف و شناخت تاریخی علمی اور نظریاتی حوالوں کے ساتھ ان سب لوگوں کو کرایا جائے جو آپ کی ذات بالاصفات کی معرفت نہیں رکھتے ۔

ذبیح اللہ منصوری
*****

پیش لفظ اردو مترجم
بسم اللہ الرحمن الرحیم O الحمد للہ رب العالمین واصلواہ و السلام علی محمد و اللہ الطیبین الطاہرین ۔
پیش نظر کتاب"مغز متفکر اسلام"(سپرمین ان اسلام ) "امام جعفر صادق " کا مسودہ فرانس کے ساحلی شہر اسٹراسبرگ کے اسلامک اسٹڈیز سنٹر نے تیار کیا ۔ اور پھر یہ کتاب جان ذبیح اللہ منصوری مدظلہ نے فارسی کے قالب میں ڈھالی ۔ وہاں سے اسے اسلام کے ادنی خادم نے اردو کا لبادہ اوڑھایا ۔
درد ملت رکھنے والے مسلمان اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اس جیسی کتابوں کو ترجمہ کرکے انہیں ہر زبان کے قاری تک پہنچانا کتنا ضروری ہے ؟
اگر ہم اپنے مذہب کی شاندار ثقافت ‘ روایات اور کم از کم اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں کی جانے والی تحقیقات کو بھی محفوظ نہ کریں تو ہمارے لئے نہایت افسوس کا مقام ہے یہ اور بات ہے کہ ہمیں غیروں کے تحقیقاتی مراکز ہمارے اسلاف کے چھپے ہوئے کارناموں کے پتہ دیتے ہیں ۔ کیونکہ اقبال نے کہا ۔

وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

وہ مسلمان جس نے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسری میں قرآن لے کر انسان کو عدل و انصاف ‘ صلح و امن اور برابری کا درس دیا ‘ آج غیروں کی چوکھٹ پر جھکا ہوا ہے اس کی کیا وجہ ہے ؟
کیا اس کی وجہ یہ نہیں کہ آج کا مسلم اپنے مذہب و ثقافت سے ناآشنا ہے اسے مغربی تہذیب نے خیرہ کر دیا ہے کیونکہ اس کی آنکھ میں یثرب اور نجف کا سرمہ نہیں ہے اسے جو چیز مغرب سے ملتی ہے آنکھیں بند کرکے لے لیتا ہے ۔
موجودہ دور کا مسلم اپنی ثقافت کے بارے میں احساس کمتری کا شکار ہے کیونکہ اس کے پاس کتابوں کا وہ ذخائر موجود ہی نہیں جن میں اس کی ہدیات و رہنمائی کا سامنا تھا وہ ذخائر یورپ کے کتاب خانوں کی زینت ہیں ۔ المختصر آج کے دور کا تقاصا یہ ہے کہ اپنی موجودہ اور آئندہ نسلوں کو اسلام کے کارناموں سے زیادہ سے زیادہ روشناس کرایا جائے ۔
لہذا اسی ضرورت کے پیش نظر احباب نے مجھ سے اصرار کیا کہ میں اس کتاب کے ترجمہ کی سعادت حاصل کروں ۔ میں سمجھتا ہوں اس جیسی عظیم کتاب کا ترجمہ میرے لئے بڑے ہی فخر کی بات ہے۔
یہ کتاب تمام مسلمانوں کیلئے نادر تحفے کا درجہ رکھتی ہے کتاب کی اہمیت کے پیش نظر حقیر نے اپنی پوری سعی کی ہے کہ ترجمے کا حق سو فیصد ادا کر سکوں لیکن بہر حال انسان خطا کا پتلا ہے اگر کوئی کوتاہی نظرسے گزرے تونقاد بھائیوں اوربہنوں سے استدعا ہے نشاندہی فرمائیں البتہ کتاب کے متن کو من و عن ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے لہذا اگر کوئی تاریخی غلطی نظر سے گزرے تو اس کیلئے معافی کا خواستگار ہوں ۔ لیکن امید ہے کہ انشاء اللہ تعالی موضوع کے اعتبار سے یہ کتاب پاکستان میں اپنی نوعیت کی بہترین کتابوں میں شمار ہو گی ۔ اور قارئین کرام اس کے مطالعے میں دلچسپی دکھائیں گے ۔
خصوصا ریسرچ کرنے والے لوگوں کیلئے یہ کتاب جس قدر اہمیت رکھتی ہے اس موضوع پر بہت کم کتب اتنی اہمیت کی حامل ہوں گی ۔
جہاں میں نے کوشش کی ہے کہ کتاب کا متن من و عن قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے وہاں اس بات کی طرف بھی دھیان دیا ہے کہ کتاب کا ترجمہ سلیس ترین زبان میں پیش کیا جائے ۔ لیکن چونکہ اردو کا دامن اتنا وسیع نہیں ہے کہ مطالب کے خزانوں کو آسانی سے سمیٹ سکے لہذا ممکن ہے گاہے بگاہے دوسری زبانوں کے الفاظ کی جھلک ملے ۔
علاوہ ازین کتاب میں اکثر و بیشتر ناموں کو اصلی حالت پر رکھا گیا ہے جو شاید قارئین کے مزاج پر گراں گزرے ۔ بہر حال کتاب اپنی موضوعات کے اعتبار سے اس قدر دلچسپی و شیریں ہے کہ ایک غیر جانبدار قاری بھی اس کو پڑھ کر محظوط ہو سکتا ہے ۔
کتاب میں کئی ایک ایسے مسائل ہیں جن کا ہماری روز مرہ زندگی سے گہرا تعلق ہے اور ہم ان سے بے خبر ہیں ۔ لہذا اس اعتبار سے بھی کتاب کی اہمیت کو چار چاند لگے ہیں ۔
آخر میں رقم الحروف جناب ذبیح اللہ منصوری کی تمہید کی تائید کرتے ہوئے یہ کہے گا کہ انہوں نے حقیقی معنوں میں کتاب کی ضرورت اور افادیت کا درک دیا ہے خدا ہمیں توفیق دے کہ اس جیسے موضوعات پر سینکڑوں کتابیں منظر عام پر لا سکیں تاکہ ہمارے موجودہ اور آئندہ نسل اسلاف سے حقیقی معنوں میں آشنا ہو سکیں ۔
اور آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں مزید توفیق دے تاکہ اس کام کو مزید آگے بڑھایا جا سکے ۔
والسلام علی من التبع الھدا اسلام کا ادنی خادم

مترجم(سید کفایت حسین)
*****

دخل در معقولات
مخلوقات کی ہدایت کا ذمہ خود خالق نے اٹھا رکھا ہے ۔ پوری کائنات میں فطری ہدایت کا مربوط نظام رائج ہے اور ہر شے اپنے مالک کی اطاعت میں مصروف ہے انسان کو خود اس کے رب نے ایک حد تک مختار بنا کر اسے آزمائش میں مبتلا کیا ہے اور دیگر انواع کے برعکس اس کی ہدایت کا مخصوص بندوبست فرمایا ہے آدم علیہ السلام تا خاتم النبین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک منظم سلسلہ جاری کیا اور وحی و الہام کے زریعہ انسانیت کو معتدل آئین حیات عطا کیا تاکہ اس کی ارتقاء و نشو ونما اور فلاح و رفاہ انسانی کے جملہ تقاضے پورے ہو جائیں ۔ فطرہ اللہ جو دراصل دین حقیقی ہے کے ضوابط کے تحفے اور اس کے قوانین کے نفاذ کیلئے تکمیل دین کے بعد بارہ ہادی منصوص فرمائے اور انہیں آئین انسانیت قرآن مجید کا وارث و محافظ قرار دیا قرآن میں ہر خشک و تر کا علم نازل فرما کر اس کی تعلیم کیلئے اپنے ان منصوص بندوں کو علم وحی سے نوازا ۔ ہدایت کے ان بارہ کامل نمونوں میں سے گیارہ نے اپنے فرائض منصبی عمدہ حسن کارکردگی کے ساتھ ادا کئے اور بارہویں کے قیام کی زمین کو ہموار کیا تاکہ اظہار دین کی عملی تعبیر ظاہر ہو جائے ۔ قدرت کے یہ شاہکار نمونے دراصل ہدایت کے ایسے آبدار آئینے ہیں جو دیکھنے میں چھوٹے بڑے نظر آتے ہیں لیکن ہر ایک میں دین خدا "اسلام "کی تصویر مکمل نظر آتی ہے ۔
کائنات کے شیش محل میں سجے ہوئے چھٹے آئینہ کی چکا چوند چمک اور دلکشی نے دنیا کو خصوصی طور پر اپنی جانب متوجہ کیا ہے ایک بالغ نظر عربی شاعر نے یہ مفہوم انشا کیا ہے کہ
"جعفر صادق عرش کا ایسا ستارہ تھا جو زمین کی تاریکیاں دور کرنے کیلئے آ گیا تھا "
زیر مطالعہ کتاب میں امام جعفر صادق کی علمی مرکزیت اور آپ کے عظیم کارہائے نمایاں سے متعلقہ عمیق تحقیقی کو ہدیہ ناظرین کرنے کی سعادت حاصل کی گئی ہے یہ ریسرچ ۲۵مختلف النسل اکابرین کے وسیع مطالعہ کا نچوڑ ہے اس کا اصلی متن فرانسیسی زبان میں ہے جسے جناب ذبیح اللہ منصوری مد ظلہ نے فارسی کا جامہ پہنایا ۔ اور اللہ نے ہمیں توفیق فرمائی کہ اس کے ا ردو متن کو پیش خدمت کر رہے ہیں ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت با سعادت اس سیاسی دور میں ہوئی جب حق و دیانت کے چراغ گل کئے جا رہے تھے اور جزیرہ نما عرب میں طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا ۔ جگہ جگہ فتنہ انگیز ‘عناد و فساد اور بے چینی و بد امنی پھیل ہوئی تھی لوگ علم حق اور صداقت کی تلاش کے بجائے جاہ و منصب سیم و زر اور تاج و تخت کی تلاش میں سر گرداں تھے ہر طرف مفاد پرسی کا سکہ چل رہا تھا اور ملوکیت و اقتدار کی قربان گاہ پر دیانت و امانت کو قربان کیا جا رہا تھا ۔ ایسے عہد ظلمت میں نور امامت کا چھٹا ماہتاب اپنی پوری آب و تاب سے چمکا ۔ آپ امام محمد باقر علیہ السلام کے فرزند ارجمند سید الساجدین امام زین العابدین علیہ السلام کے پوتے اور سید الشہداء سیدنا امام حسین علیہ السلام کے پڑپوتے ہیں ۔ آپ اسلام کے نامور عظیم ترین اور سرمایہ فخر و ناز اکابرین میں ممتاز و منفرد مقام و مرتبے کے حامل ہیں آپ نے اپنی ساری زندگی انسانی فلاح و اصلاح کیلئے وقف کر دی آپ کی سیرت اسلامی کردار کی کامل اور بے نظیر تصویر ہے آپ نے ہمیشہ وہی کہا اور وہی کیا جو دین فطرت اسلام کا حقیقی منشاو مقصد تھا اپنی پوری زندگی میں آپ نے ایک لمحہ کیلئے بھی ان ذمہ داریوں اور تقاضوں سے غفلت نہ برتی جو انفرادی اجتماعی خانگی اور عوامی شعبہ ہائے حیات کی طرف سے آپ پر عائد ہو سکتے تھے آپ نے اپنے خطبوں مقالات ارشادات افعال اعمال کردار اور گفتار سے اسلام کی اس مقدس روح کو اجاگر کردیا جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طیبہ کا سب سے بڑا مقصد تھا اپنے اس طرز مخصوص کے سبب آپ انسانی شعور و ادارک میں ایک عظیم ترین تعمیری انقلاب کا سبب بن گئے ۔ آپ نے فکر انسانی کا رخ حقیقت پسندی اور تلاش
حق کی جانب موڑ دیا علمی تحقیقات کیلئے جدید راہیں پیدا کر دیں ۔ اس طرح آپ کی سیرت پاک کی قدریں جدید و قدیم ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرتی ہیں ۔
امام جعفر صادق کا تبحر علمی پاکیزہ اسلامی کردار عبادت و تقوی صبرو ا ستقلال اور حسن اخلاقی انسانیت کیلئے ہدایت کا مینار بن گئے ان نظیروں نے انسانی طرز فکر اور بشری تخیل کے لئے ایک خوشگوار ماحول پیدا کر دیا اور لوگ ستاروں پر کمندیں ڈالنے میں مشغول ہو گئے علم دوستی بڑھ گئی ۔
آپ نے نوع انسان کو ایسی ثقافت سے روشناس کرایا جس میں ہر فرد معاشرہ کے ضمیر میں خوف خدا اس طرح پیدا ہو جاتا ہے کہ اسے کسی بیرونی نگرانی کی حاجت باقی نہیں رہتی اور اس کے احساس فرض میں از خود اتنی قوت آ جاتی ہے جس کے بل بوتے پر وہ ہوس پرستیوں اور خود غرضانہ حماقتوں کی طاقتوں کو کچل دینے پر قادر ہو جاتا ہے ۔
امام جعفرصادق نے ہمیشہ یہ سعی مشکور فرمائی کہ بغیر کسی دنیوی لالچ مادی حرس سیاسی دباؤ اور چاپلوسی کے ہر شخص قانون خدا وند ی کے احترام کا عادی ہو جائے اور اس میں فرض شناسی حق گوئی اور صداقت پسندی کے وہ جذبات پیدا ہو جائیں جو کسی بھی استحصالی طاقت سے سرد نہ ہو سکیں اسلام جس اخوت و یگانگت اور اخلاقی برتری کا پیغام لے کر آیا تھا امام جعفر صادق علیہ السلام نے عملا اپنے طرز عمل اور سیرت سے اس کو بڑی عمدگی کے ساتھ واضح اور روشن کر دیا اور اپنے خصائل و شمائل سے ثابت کر دیا کہ حقیقی سر بلندی صرف اس انسان کا مقدر ہے جو متقی اور مطیع پروردگا رہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی نسل قوم اور قبیلے سے ہو ۔ حسب و نسب مال و زر جاہ و منصب کثرت و قلت یا کوئی اور معیار انسانیت نہیں ہے ۔
آپ دنیوی معیار کے اتنے بڑے آدمی ہو کر بھی ایک عام آدمی کی زندگی بسرکرنے پر قناعت فرماتے تھے جھلسا دینے والی گرمی دھوپ کی شدت اور سورج کی تمازت میں پسینے میں شرابور معاشرہ کے عام فرد کا سب کی مانند اپنا آزوقہ حاصل کرنے کو شرف انسانی سمجھتے تھے آپ کی صحبت میں ہر قوم نسل اور طبقہ کے لوگ جمع رہتے تھے جو اس علم کے دریا سے فیض یاب ہوتے تھے اور اپنے روحانی رہنما کے حکیمانہ ارشادات سے سبق حاصل کرتے تھے آپ کا نصب العین اور مقصد حیات اسلامی کردار سازی تھا آپ مسلم معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں شب و روز مشغول رہتے تھے لہذا آپ کو کبھی اس بات کی پرواہ نہ ہوئی کہ آپ کے حلقہ ارادت میں ہمنواؤں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے یا کمی آپ کی کوشش یہ تھی کہ مسلمان نام کا مسلمان نہ ہو بلکہ کام کا مسلم ہو یعنی ایسا مسلم جو ہر خامی نقص اور کجی سے مبرا ہو آپ نے چاہا کہ لوگ فلسفے اور اسلامی نظریات کو صحیح سطح پر سمجھنے کی اہلیت پیدا کریں آپ کے نزدیک چند سچے اور پکے مسلمان جو اللہ اور اس کے دین کی صحیح معرفت رکھتے ہیں اور اس کے دین کی صحیح معرفت رکھتے ہیں ان لا تعداد افراد سے ہر طرح برتر و افضل ہیں جن کی زندگی اسلام کی تعلیم اسلامی شعائر اور اسلامی قدروں سے محروم ہو ۔
جب آپ کی ولادت ہوئی اس وقت اموی حکمران عبدالملک بن مروان کا دور حکومت تھا اس کے بعد دوسرے حاکم آتے رہے حتی کہ ۱۳۲ہجر میں اموی دور ختم ہو گیا پھر بنو عباس کا دور شروع ہو یہی وہ انتقال و تحویل اقتدار ملوکیت کا محدود اور مختصر سا وقفہ تھا جس میں اس عظیم مصلح اور اسلامی کے جلیل القدر فرزند کو اس بات کا زیادہ موقع مل سکا کہ آپ نے اسلامی علوم اور معارف دین کی ترویج و اشاعت کا
اہم کام سر انجام دیا ۔ آپ نے اس فضائے خوشگوار میں ہر دقیقہ سے فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش فرمائی ۔ جس میں ان کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ۔
آپ کے سیرت پاک کے دو رخ خصوصی اہمیت کے حامل ہیں اور زمانے کے ہر دور میں ان پر خاصی توجہ کی ضرورت ہے ۔ ایک آپ کی سماجی طرز بود و باش جس میں اسلامی زندگی کی اکملیت نظر آتی ہے اور انسانیت اپنے معراج پر فائز دکھائی دیتی ہے اور دوسرا امام جعفر صادق کی علمی کاوشیں ‘ آپ کی۶۵ سالہ زندگی میں یہ محدود اور مختصر زمانہ جس میں اموی حکومتوں کا چراغ شمع سحری کی طرح ٹمٹما رہا تھا اور عباسی حکومتی کا زمانہ شروع ہو گیا تھا ابو العباس سفاح کے بعد منصور کا عہد سلطنت گزر رہا تھا علمی خدمات بجا لانے کیلئے سنہری وقت ثابت ہوا تھا ۔
آپ کی عوامی زندگی کا اندازہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ ابو عمر شیبانی کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق کو ایک باغ میں یوں دیکھا کہ آپ ہاتھ میں بیلچہ لئے ہوئے پسینے میں شرابور بہ نفس نفیس ایک دیوار کو درست فرما رہے تھے میں اتنی شدید گرمی میں امام کو اس حالت میں مشقت میں دیکھ کر برداشت نہ کر سکا میں نے عرض کیا کہ سرکار یہ بیلچہ مجھے دے دیجئے اس کام کو خادم انجام دے گا لیکن امام نے میری درخواست کو قبول نہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے یہ بات اچھی لگتی ہے کہ انسان تلاش معاش میں دھوپ کی تیزی کا مزا چکھے ۔
حسام بن سالم سے مروی ہے کہ امام جعفری صادق علیہ السلام کی عادت تھی کہ رات کے وقت وہ سامان خوراک اور درہموں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا کر اپنے آپ کو ظاہر کئے بغیر غرباء و حاجت مندوں میں یہ اشیاء تقسیم کیا کرتے تھے ان ضرورت مندوں کو اپنے محسن عظیم کے بارے میں علم اس وقت ہوا جب آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے بے شک انسان کا صحیح رہنما صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جو اپنے عمل سے زندگی کی دشواریوں اور مسائل کا تسلی بخش حل پیش کر سکتا ہو صرف زبانی کلامی ڈینگ نہ مارتا ہو لہذا جناب امام جعفر صادق علیہ السلام محض زبانی رہنمائے انسانیت نہیں بلکہ اسلامی سیرت اور الہی پیغام کا عملی نمونہ ہیں ۔
امام جعفر صادق نے علوم اسلامیہ کے نشرو اشاعت میں جو حصہ لیا اور جس طرح اسلام کی ثقافت کیلئے گرانقدر خدمات انجام دیں اس کی مثال ملنا محال نہ سہی مگر مشکل ضرور ہے اور ان کے طاہر گھرانے کے سوا ان کی نظیر تلاش کرنا ممکن نہیں ہے آپ کا عہد حیات و ہ دور تھا جب فتوحات اور بیرونی دنیا کے اتصال خاص کریونانی اور رومی لٹریچر کی نشرو اشاعت کے باعث عربستان میں مختلف علوم و فنون طرح طرح کے نظریات اور نئے نئے فکر رجحانات داخل ہو رہے تھے اور اندریں صورت اسلام کے خلاف بیرونی محاذوں سے علمی اور ثقافتی یلغار کا سلسلہ زور و شور سے جاری تھا یہ ایک ایسی سرد جنگ نہ تھا کیونکہ عقل و فکر کا مقابلہ علم و دانش ہی سے کیا جا سکتا ہے نسلی تعصب سے فکر و نظریاتی طوفانوں پر بند نہیں باندھے جا سکتے چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس محاذ پر جو کارنامے انجام دیئے ہیں وہ تاریخ اسلام میں حروف زہیہ سے مرقوم ہیں ۔
مسجد نبوی اور مدینہ میں آپ کا گھر حقیقی معنوں میں مدینتہ العلم بن گئے تھے۔ جو وقت کے عالی شان علمی تحقیقاتی مرکز کی حیثیت رکھتے تھے ۔ آپ کا مدرسہ اپنے دور کی بڑی یونیورسٹی کا درجہ رکھتا تھا ۔ جس کا حلقہ تعلیم و تدریس اور تحقیق خاصا وسیع تھا ۔ اس میں بیک وقت کم سے کم چار ہزار دانش جو مختلف علاقوں کے زیر تعلیم ہوا کرتے تھے اس عظیم الشان اسلامی ریسرچ سنٹر اور مسلم دانشگاہ سے بڑے بڑے علماء جید فقہاء اور نامور مفکر فارغ التحصیل ہوئے ۔ اور ان طالب علم نے یہاں سے جو کچھ سیکھا اس علم کی روشنی دنیا کے چپہ چپہ میں
پھیلائی ۔
یحیی بن سعید انصاری ‘ سفیان ثوری ‘ سفیان بن عینیہ ‘ امام مالک ‘ امام ابو حنیفہ جیسے اکابرین نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے مرکز تعلیم سے فیض حاصل کیا ۔ لیکن یہ بات بہر حال تاریخی شواہد کے پیش نظر کبھی ضروری نہ رہی کہ استاد اور اس کے شاگردوں کے مسلک اور نظریاتی میں بھی ہم آہنگی رہی ہو جس کی وجوہ سیاسی ‘ نسلی ‘ ماحول کے تاثرات ‘ گردو پیش کے حالات کا دباؤ ‘ ذاتی خواہشات ‘ مخصوص مصلاح ‘ نام و نمود کے مقاصد اور اسی طرح کی دوسری باتیں بھی ہو سکتی ہیں ۔
علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کہا کرتے تھے کہ
"میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے بڑھ کر علم دین کا عالم کسی دوسرے کو نہیں پایا "
امام مالک کا قول ہے کہ
" میری آنکھوں نے علم و فضل اور تقوی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے بہتر کسی کو نہیں دیکھا "‘
آپ کے مشہور شاگردوں میں امام الکیمیا جابر بن حیان کوفی بھی تھے ۔ جو عالمی شہرت کے حامل ہیں ۔ جابر بن حیان نے ایک ایسی مفصل کتاب لکھی تھی جس میں امام عالی مقام کے کیمیاء پر پانچ سو رسالوں کو جمع کیا تھا آپ کے شاگردوں کی تصانیف کے علاوہ خود آپ کی تصانیف بھی بہت زیادہ ہیں ۔ کیمیاء ‘ فلسفہ ‘ طبیعات ‘ ہیئت ‘ منطق ‘ طب ‘ تشریح الاجسام ‘ افعال اعضاء اور ما بعد الطیعات و غیرہ وغیرہ پر آپ نے بہت کچھ لکھا ہے ۔
آپ نے ہر شعبہ علم پر قرآن و حدیت کی رو سے ایسی روشنی ڈالی ہے کہ اہل علم حیران رہ گئے ہیں ۔ آپ کے ظاہری و باطنی کمالات و فضائل کے دوست دشمن سب قائل ہیں ۔ امام شافعی تحریر کرتے ہیں کہ
" امام جعفر صادق علیہ السلام سادات و بزرگان اہل بیت میں سے تھے ۔ ہر طرح کے جملہ عبادات مسلسل اور اد اور وظائف اور نمایاں زہد کی حامل تھے ۔ کثرت سے تلاوت فرماتے تھے اور ساتھ ہی آیات قرآں کی تفسیر فرماتے تھے ۔ اور قرآن کے بحر بے کراں سے جواہر نکال کر پیش کرتے اور عجیب و غریب نتائج اخذ فرماتے تھے ۔ آپ کی زیرات آخرت کی یاد دلانے والی ‘ آپ کا کلام سننا اس دنیا میں زہد ‘ اور آپ کی ہدایات پر عمل کرنا حصول جنت کا باعث تھا ۔ آپ کی نورانی شکل گواہی دیتی تھی کہ آپ خاندان نبوت میں سے ہیں اور آپ کی پاکیزگی بتاتی ہے کہ آپ نسل رسول سے ہیں آپ سے امام اور علماء اعلام کی ایک جماعت نے حدیثیں نقل کی ہیں اور علوم حاصل کئے ہیں ۔ جیسے یحیی بن سعید انصاری ‘ ابن صریح ‘ مالک بن انسا ‘ سفیان ثوری ‘ ابن عینیہ ‘ شعبی ابو حنیفہ ‘ ایوب سختیانی وغیر ہم ۔ اور یہ لوگ اس شرف استفادہ اور نسبت فصیلت پر فخر کرتے تھے "
امام جعفر صادق کے خوان علم سے نہ صرف علم کی اشتہا رکھنے والوں کی سیری ہوئی بلکہ جب آپ نے علم الابدان پر درس دیا تو اس تبحر علمی سے دنیا آپ تک محو حیرت ہے کتاب الا ہلیح اور کتاب المفضل اس پر آج تک گواہ ہیں ۔
یہ امام جعفر صادق کے فیوض کا ہی تصدق ہے کہ پروفیسر ہٹی جیسا شخص جابر بن حیان کو ایشیا اور یورپ میں فادر آف کیمسٹری کہہ کر پکارتا ہے ۔
ابن تیمیہ نے خیرہ چشمی اور گستاخی سے کام لیتے ہوئے امام ابو حنیفہ کے امام جعفر صادق کے شاگر ہونے پر اعتراض کیا ہے اور اس
کی وجہ ان دونوں بزرگوں کا ہم عصر ہونا قرار دیا ہے ۔ چنانچہ شمس العلماء مولانا شبلی نے سیرت نعمان میں ابن تیمیہ کا تعاقب کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ
" امام ابو حنیفہ لاکھ مجتہد اور فقیہ ہوں لیکن فضل و کمال میں ان کو حضرت امام جعفر صادق سے کیا نسبت ؟ حدیث و فقہ بلکہ تمام علوم اہل بیت کے گھر سے نکلے ہیں "
شاہ عبدالعیز محدث دہلوی اپنی کتاب تحفہ اثنا عشریہ میں لکھتے ہیں کہ
" امام ابو حنیفہ ہمیشہ حضرت صادق کی محبت و خدمت پر افتخار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ لو لا السنتان لھلک النعمان یعنی اگر یہ دو برس نہ ہوتے (جو خدمت امام جعفر صادق علیہ السلام میں گزارے )تو نعمان ضرور ہلاک ہو جاتا "
(یہاں ہلاکت سے مراد مسائل کے جواب میں غلطیاں کرنا ہے )
امام جعفر صادق علیہ السلام اور دیگر آئمہ اہل بیت سے حضرت ابو حنیفہ کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ مشہور روایت ہے کہ جب کبھی ابو حنیفہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے کلام کرتے تو کہتے جعلت فداک یعنی میں آپ پر قربان ہوں ۔ اور اسی حقیقت سے منصور دو انیقی بھی خوب واقف تھا اور جناب ابو حنیفہ کو منصور کا رعب و دبدبہ بھی اس عقیدت مندی سے باز نہ رکھ سکا چنانچہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ جب محمد نفس ذکیہ نے خروج کیا تو ان دنوں میں منصور عباسی نے حضرت امام ابو حنیفہ سے پوچھا
اے نعمان ! تمہارے علم کے ماخذ کون کون لو گ ہیں ؟
ابو حنیفہ نے جواب دیا کہ
" میں نے علم علی کے اصحاب اور علی سے اور عبداللہ بن عباس کے صحابیوں اور ابن عباس سے لیا ہے "
یہ کس طرح خوبصورتی کے ساتھ امام ابو حنیفہ نے حق گوئی کا اظہار کیا ہے کہ ان کا ماخذ علم صرف بابا مدینتہ العلم علی المرتضی علیہ السلام ہیں ۔ کیونکہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تو مسلمہ طور پر جناب امیر علیہ السلام کے شاگرد تھے ۔
اب ذہن میں ایک سوال کھٹکتا ہے کہ جب امام ابو حنیفہ جناب جعفر صادق کے شاگر تھے اور ان کے عقیدت مند بھی تھے نیز ان کے علم کا ماخذ امیر المومنین علی علیہ السلام اور ان کے شاگرد تھے تو پھر فقہ حنفی اور فقہ جعفری آپس میں مختلف کیوں ہیں ؟
یہ وقت کا اہم ترین مسئلہ ہے اور اتحاد بین المسلمین کیلئے اس سوال کا جواب دینا اشد ضروری ہے ۔
علامہ مناظر احسن گیلانی نے لکھا ہے کہ حجاز سے واپسی کے بعد امام ابو حنیفہ کو تدوین فقہ کا خیال پیدا ہوا غالبا یہ ان دو سالوں کے بعد کا ذکر ہے جو امام صاحب نے جناب جعفر صادق علیہ السلام کی درس گاہ میں گزارے ۔ مولانا شبلی نعمانی تحریر کرتے ہیں کہ
اس کام کیلئے انہوں نے ایک مجلس وضع قوانین مرتب کی جس میں ان کے (۴۰) شاگرد شامل تھے ۔ ان میں نمایاں لوگ قاضی ابو یوسف ‘ زفر ‘ داؤد الطلائی اور محمد بن حسن شیبانی تھے ۔ ہر مسئلہ بحث و مباحثہ کے بعد طے کیا جاتا تھا ۔ قلائد و عقود و العقیان کے مصنف نے لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے جس قدر مسائل مدون کئے ان کی تعداد بارہ لاکھ نوے ہزار (۰۰۰‘۹۰‘۱۲) سے کچھ زیادہ ہے شمس العلماء کردوی نے لکھا ہے کہ یہ مسائل چھ لاکھ تھے ۔ یہ خاص تعداد شاید صحیح نہ ہو ۔ لیکن کچھ شبہ نہیں کہ ان کی تعداد لاکھوں سے کم نہ تھی ۔ امام محمد کی جو
کتابیں آج موجود ہیں ان سے اس کی تصدیق ہو سکتی ہے اگرچہ اس میں شک نہیں کہ امام ابو حنیفہ کی زندگی ہی میں فقہ کے تمام ابواب مرتب ہو گئے تھے رجال و تواریخ کی کتابوں میں اس کا ثبوت ملتا ہے جس کا انکار گویا تواتر کا انکار ہے لیکن افسوس ہے کہ وہ مجموعہ ایک مدت سے ضائع ہو گیا ہے اور دنیا کے کسی کتب خانہ میں اس کا پتہ نہیں چلتا ۔ امام رازی مناقب شافعی میں لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کی کوئی تصنیف باقی نہیں رہی ۔ لیکن قاضی ابو یوسف اور امام محمد نے انہیں مسائل کو اس توضیح و تفصیل سے لکھا اور ہر مسئلہ پر استدلال اور برہان کے ایسے حاشئے اضافہ کئے کہ ان کو رواج ہو گیا اور اصل ماخذ سے لوگ بے بہرہ ہو گئے (سیرت ا لنعمان علامہ شبلی )
اب غور طلب امر یہ ہے کہ اس اصلی مجموعہ مسائل کو جو خود امام حنیفہ نے مرتب کیا تھا کیا بنا ؟
اس مواد کے جل جانے چوری ہو جانے کسی قدرتی آفت کی نذر ہو جانے یا تاتاریوں کے ہاتھوں تباہ ہونے کا تذکرہ کسی بھی تاریخ کی کتاب میں نہیں ملتا ۔ لہزا اس علمی سرمایہ کا سراغ لگانے کیلئے ہمیں تاریخوں کو زیادہ گہری نظر سے دیکھنا پڑے گا ۔
تاریخ سے اس کی گواہی ملتی ہے کہ ابو جعفر منصور عباسی نے بنو حسن خصوصا محمد نفس زکیہ اور ابراہیم نفس رضیہ کا خاتمہ کرنے کے بعد ان کے حامیوں اور طرفداروں سے انتقام لینے کا آغاز کیا ۔ اس سلسلہ میں منصور کی نظر میں امام ابو حنیفہ کی شخصیت بڑی بااثر اور سیاسی اعتبار سے قد آور تھی ۔ ان پر ہاتھ ڈالنا بھڑوں کے چھتہ پر ہاتھ ڈالنا تھا کیونکہ ایسے اقدام سے سر زمین عراق پر فتنہ بغادت آنا فانا پھیل سکتا تھا جو تخت عباسی کا تختہ کر سکتا تھا ۔ لہزا استحکام حکومت کیلئے ضروری تھا کہ ایسا راستہ اختیار کیا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی سلامت رہے منصور اس بات سے بخوبی آگاہ تھا کہ ابو حنیفہ کا اس حدیث رسول پر پورا یقین ہے کہ
" اہل بیت کو علم نہ سکھانا کیونکہ وہ تم (سب ) سے زیادہ صاحبان علم ہیں "

صواعق محرقہ
چنانچہ منصور نے سب سے پہلے دہن دوزی کا طریقہ اختیار کیا حضرت امام ابو حنیفہ کو سرکاری قاضی بنانا چاہا مگر انہوں نے اس عہدہ کو قبول نہ کیا پھر انہیں مفتی بنانے کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے انکار کر دیا اس کے بعد امام صاحب کو قاضی القصاة کے اعلی منصب کی پیش کش ہوئی مگر انہوں نے معذوری کا اظہار کر دیا کیونکہ وہ بالغ نظر تھے اور ان کو معلوم تھا کہ یہ سب کچھ ایک خاص سیاسی مقصد کیلئے کیا جا رہا ہے دراصل حکومت ان کو فریب دے کر اپنے جال میں پھنسانا چاہتی ہے
تاکہ ان کا علم حکومت کی نوک تلوار کا ہم نوا ہو ۔ اور حکام کو اپنے مفاد میں مفید فتوے حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے ۔
جب منصور کی یہ تدبیریں الٹ ہو گئیں اور ابو حنیفہ رام نہ ہوئے تو اس کی آتش انتقام بھڑک اٹھی اس نے امام صاحب کو قید کر دیا ۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے اپنی شیعہ کش کتاب تحفتہ اثناء عشری میں کید ۸۲ کے ذیل میں اپنی تحقیق کے مطابق تحریر کیا ہے کہ
" اس منصور نے امام ابو حنیفہ کو قید کر دیا اور قید خانہ میں زہر دے دیا کیونکہ ان کو اہل بیت رسول سے محبت و اعتقاد بہت تھا "
الغرض ۱۵۰ ہجری میں ابو حنیفہ کی وفات کے بعد ان کے شاگرد امام زفر کو عہدہ قضاپیش کیا گیا مگر انہوں نے انکار کر دیا اور خود روپوش ہو گئے ان کو مجبور کرنے کی غرض سے ان کا گھر مسمار کر دیا گیا لیکن وہ کسی دباؤ تلے نہ آئے ۔ البتہ مالی مشکلات اور دیگر وجودہ کی بنا پر امام ابو حنیفہ کے ایک اور شاگرد قاضی ابو یوسف نے مہدی عباسی کے زمانے میں قاضی اور ہارون کے عہد میں قاضی القضاة بننا قبول کر لیا ۔
مشہور مورخ ابو النصر مصری کا بیان ہے کہ
" عمر ابن عبدالعزیز نے تمام بلاد و امصاری میں نبیذ (قسم شراب )کے حرام ہونے کا حکم بھیج دیا تھا چنانچہ عہد بنی عباس میں فقہ جعفری ‘ فقہ مالکی ‘ فقہ شافعی اور فقہ حنبلی میں تمام نشہ آور نبیذیں حرام قرار دی گئیں لیکن فقہ حنیف میں " خمر " کے لفظ کو لغوی معنی میں لیتے ہوئے اس کا اطلاق صرف انگور کے پکے ہوئے شیرہ پر کیا گیا اور شراب کی بعض قسموں مثلا کھجور جو اور کشمش کی نبیذ کو جائز قرار دیا گیا بشرطیہ اسے بہت ہلکی آگ پر تھوڑی دیر تک پکایا گیا ہو ہارون بھی نبیذ کثرت سے پیا کرتا تھا فقہ حنیف کی اس نرم روی سے لوگوں میں جرات پیدا ہو گئی اور وہ ایسی شراب بھی پینے لگے جس سے نشہ ہو جاتا تھا "
(اردو ترجمہ الہارون )
ظاہر ہے فقہ حنفی میں یہ لچک عہد ہارون میں پیدا کی گئی جب امام ابو یوسف قاضی القضاة تھے اور انہوں نے امام محمد بن حسن ایشبانی کی مدد سے حنفی فقہ کی از سر نو تدوین کی کیونکہ وہ مجموعہ فقہ جو امام ابو حنیفہ نے مدون کیا تھا نا پید ہو چکا تھا حالانکہ وہ باب وار مرتب ہوا تھا لیکن اس میں بادشاہوں کے عیش و لذت کی کوئی راہ ہموار نہ تھی کیونکہ ابو حنیفہ جیسے دور اندیش بزرگ معاشرے کو ایسی رعایتوں کا خوگر بنانے کے برے نتائج پر نظر رکھتے تھے اور وہ اس قومی نقصان سے بے نیاز نہیں ہو سکتے تھے ۔
امام محمد شیبانی کا حکومت سے مسلسل تعلق رہا عہد ہارون میں جب محمد رقہ میں قاضی تھے تو ویلم کی سر زمین سے محمد نفس زکیہ کے بھائی یحیی بن عبداللہ نے خروج کیا ۔ ہارون نے ان کی سر کوبی کیلئے فضل بن یحیی برمکی کو پچاس ہزار فوج دے کر روانہ کیا ۔ فضل کی حکمت عملی سے یحیی ہارون سے ملنے پر آمادہ ہو گئے بشرطیکہ وہ ایک امان نامہ لکھ کر بھجوا دیا ۔ یہیی فضل کے ہمراہ ہارون کے پاس آ گئے کچھ دن ہارون نے ان کو بڑی عزت کے ساتھ رکھا اور اس امان نامہ کے باطل ہونے پر امام محمد قاضی رقہ سے فتوی مانگا ۔
انہوں نے فتوی دینے سے معذوری ظاہر کی ۔ ہارون نے طیش میں آ کر ان کے سر پر دوات کھینچ ماری جس سے ان کا سر پھٹ گیا ۔ ان کو اس وجہ سے اپنے عہدہ قضا سے بر طرف کر دیا گیا اور اسی محفل میں قاضی القضا ة ابو البختری وہب ابن وہب سے امان نامہ کے بے اثر ہونے اور یحیی کے قتل کے جواز کا فتوی لے لیا ۔
کتاب "امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی " میں منقول واقعات سے ثابت ہے کہ امام ابو حنیفہ نے جو سخت مصائب برداشت کرنے کے باوجود حکومت سے کوئی عہدہ قبول کرنا پسند نہیں کیا اس کا اصلی سبب یہ تھا کہ حکمران فقہ حنفی کو اپنی خواہش کے مطابق مرتب کرانا چاہتا تھا ۔ اور اس میں کسی ایسی چیز کا دخل گوارا کرنے کو تیار نہ تھا جس سے طالین یعنی بنی فاطمہ کی ہمت افزائی ہو یا ان کے فضائل و مناقب پر روشنی پڑے ہم اس بات کی تائید میں دو واقعے بطور مثال نقل کرتے ہیں ۔
ہارون رشید کے متعلق طاش کبری زادہ نے مفتاح السعادة میں یہ روایت نقل کی ہے کہ امام مالک کو بغداد لانے سے مایوس ہونے کے بعد وہ واپسی میں مکہ پہنچا اور اس زمانہ میں مکہ کی علمی امامت و ریاست جس کے ہاتھ میں تھی یعنی سفیان بن عینیہ ان سے ملا ملنے کے بعد حکم دیا کہ جو کتابیں انہوں نے لکھی ہیں وہ میرے ساتھ کر دیں ۔ لیکن سفیان کا علم ہارون اور اس کی حکومت کے کام کا نہ تھا " (امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی )
" ابن ابی العوام نے پوری سند کے ساتھ سماعہ سے روایت کی ہے کہ یحیی طالبی کے واقعہ کے بعد خلیفہ ہارون رشید نے حکم
دیا کہ امام محمد کی پوری کتابوں کی چھان بین کی جائے اسے یہ خوف تھا کہ کہیں امام صاحب کی کتابوں میں ایسا مواد تو نہیں جو طالبین (یعنی اولاد علی) کی فضیلت پر مشتمل ہو یا ان کو بغاوت پر امادہ کر دے (اردو ترجمہ آثار امام محمد و امام ابو یوسف مولانا زاہد کوثری )
اس طرح امام ابو یوسف اور امام محمد کے منصب پر فائز ہونے کے زمانے میں وہ مجموعہ فقہ جو امام ابو حنیفہ کے زمانے میں مرتب ہوا تھا مفقود ہو گیا اور ان کتابوں کا نام فقہ ابو حنیفہ پڑ گیا جو امام محمد نے مدون کیں اور جن کی چھان بین ہارون نے کروائی ۔ ان سب کتابوں کے نام فہرست ابن ندیم میں درج ہیں ۔
علامہ شبلی نعمانی نے اسی لئے امام محمد کے تذکرے میں لکھا ہے "آج فقہ حنفی کا دار و مدار ان ہی کتب پر ہے "
مرحوم سید حشمت حسین جعفری ایڈووکیٹ اپنے ایک مقالہ میں کہتے ہیں کہ
" میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر فقہ حنفیہ تلف نہ ہو جاتا جو امام ابو حنیفہ کے زمانے میں ان کی زیر نگرانی باب وار مرتب ہو چکا تھا تو دنیا دیکھتی کہ فقہ حنفی اور فقہ جعفری میں کوئی فرق نہیں ہے ۔
چونکہ عباسیوں نے محض اہل بیت کے نام سے پراپیگنڈا کرکے حکومت حاصل کی تھی اس لئے وہی ان کے خیال میں ان کے سب سے بڑے دشمن تھے امام ابو حنیفہ کے چونکہ خاندان اہل بیت سے موروثی عقیدت مندانہ تعلقات تھے اس لئے انہوں نے اپنی فقہ میں بہت کچھ مسائل ان سے لئے تھے یہ چیزیں ہارون کو گوارانہ تھیں ۔ اس لئے ان کا تیار کردہ مواد تلف کرا دیا گیا اور ان کے شاگردوں سے حسب منشاء فقہ مرتب کراکہ اس کا نام فقہ حنفی رکھ دیا گیا جس میں اہل بیت سے شاذ و نادر ہی کوئی مسئلہ لیا گیا اور اسی کو حکومت کی سر پرستی میں رواج دیا گیا "
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا صرف یہی فریضہ نہیں ہے کہ ہم خود احکام اسلامی کی پابندی کریں بلکہ اللہ کی اس امانت کو نئی نسل اور غیر مسلم اقوام تک پہنچانا بھی ہماری ذمہ داری ہے ۔ عصری تقاضوں کے پیش نظر حالات کی مناسبت سے ہمیں پوری دیانت اور فہم و فراست سے کام لے کر اپنے اس فرض کو انجام دینا چاہیے اور اس اہم ترین فریضہ کی ادائیگی اس وقت تک آسان نہیں جب تک ہم خود اپنا شعور پختہ نہ کر لیں ۔
ویسے تو انسانی معاشرے اکثر خلفشار کاشکار ہوتے رہے ہیں مگر آج کا نام نہاد مہذب اور ترقی یافتہ دور بڑا کربناک ہے سائنسی ترقی ‘ عروج فنون ‘ اور علوم جدیدہ جو دنیا کی خوشحالی کا ویسلہ سمجھے جاتے ہیں انسان کی نظریاتی آویزشوں کی بدولت ساری دنیا کو جہنم بنا دینے کیلئے کام میں لائے جا رہے ہیں اور اس عظیم خطرے سے بچاؤ کی صرف ایک صورت نظر آتی ہے وہ ہے " پر امن بقائے باہمی "
یہی وہ نظریہ ہے جو متعصب لوگوں کو اسلام سکھاتا ہے کہ لا اکراء فی الدین دین میں کوئی زبردستی نہیں لکم دینکم ولی دین تمہارا دین تمہیں مبارک ہمارا دین ہمیں یہ دین اسلام ہی ہے جو ہر مسلم کو حکم دیتا ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی عدل و انصاف سے کام لو اسلام ہر کلمہ گو سے پر زور مطالبہ کرتا ہے کہ وہ روا داری اور اخوت اسلامی کے سبق کو نہ بھولے ۔خود بھی آزادی سے زندگی بسر کرے اور اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی ان کے جائز حقوق زندگی سے محروم نہ کرے ۔ ہمارے پیغمبر تعلیم کتاب و حکمت کیلئے مبعوث ہوئے اور حضور نے عام عبادات سے پہلے ہمیں اخلاقی حسنہ کی تعلیم دی اگر ہم بردباری سے کام لیں اور ایک دوسرے کے احساسات کو ملحوظ رکھتے ہوئے محض جذبات کی رو میں بہہ کر برافروختہ نہ ہوں اور علم و حکمت ‘عمل و عبادات اور اچھے اخلاق کے میدانوں میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی
کوشش کریں تو اتحاد بین المسلمین کا وہ مقصد حاصل ہو سکتا ہے جس کا ہم نعرہ تو اونچا بلند کرتے ہیں مگر ہمارا عمل اس کے خلاف بلکہ سطح انسانیت سے بھی نیچا ہوتا ہے ۔
جیسا کہ اختلافی مسائل پر گفتگو بہت نازک ہوتی ہے اور امام جعفر صادق علیہ السلام اور دیگر مکاتب فقہ اسلامی کے موضوع پر خامہ فرسائی کرنا اور اس بیان میں منفی انداز سے پرہیز کرکے مثبت طریقہ اختیار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ جعفریوں نے ایسی صورت میں جس طرح زندگی گزاری وہ درد ناک داستان تاریخ میں موجود ہے ۔ علامہ اقبال کے بقول اس سازش کا سبب " ملوکیت اور ملائیت کا گٹھ جوڑ" ہے ۔
ہم اس کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم جعفری کیوں کہلواتے ہیں حالانکہ متفقہ و مسلمہ عقیدہ یہ ہے کہ ہماری فقہ فقہ محمدی ہے راقم کے دوست سید ضیاء الحسن موسوی نے یوں دیا ہے
" بات یہ ہے کہ مکتب جعفری کا مسلک یہ ہے کہ وہ بنظر احتیاط تفسیر قران مجید اور تفصیل سنت نبوی جن پر اسلام کی بنیاد ہے وہ اس کیلئے فقط ائمہ اثناء عشر علیہم السلام کا ویسلہ اختیار کرتے ہیں ۔ جن کو وہ معصوم سمجھتے ہیں اکثر مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ آنحضرت نے فرمایا ہے کہ میرے اصحاب ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے تم جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے تو اگر انہوں نے ان صحابہ میں سے ایک ایسے سابق الاسلام کا وسیلہ اختیار کیا جو اہل بیت رسول میں بھی شامل ہے جو باب مدینہ علم رسول بھی ہے ۔ جس کو انحضرت نے اپنے بعد ہر مومن کا ولی قرار دیا اور اس علاوہ جس طرح حضرت ابو بکر و حضرت عمر نے بھی قضا اور احکام شریعت میں مقدم قرار دیا اور جس کی حیثیت عہد حضرت عمرمیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سی تھی اور جس کے فیصلوں کی وجہ سے حضرت عمر اپنے فیصلے بدل دیتے تھے تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے پھر ان کی اس اولاد سے جو بلندی علم و کردار کے باعث سب مسلمانوں کے نزدیک قابل احترام ہے قران اور سنت کا علم حاصل کیا تو اس اختصاص کو احتیاط کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے آخر حنفی مسلمان امام ابو حنیفہ کے اتباع سے مخصوص ہیں ۔ اور امام مالک ‘ امام
شافعی اور امام حنبل کا اتباع نہیں کرتے تو کیا وہ باقی ائمہ فقہ کی توہین کرتے ہیں ؟ پیروان مسلک جعفری کے نزدیک عقل و نقل سے ثابت ہے کہ آخری نبی پر نبوت ختم ہو گئی اس کے بعد حفاظت و تعلیم شرع و دین کیلئے خلفائے رسول کا سلسلہ شروع ہوا یہ خلفاء امام یا اولوالا مر خدا اور رسول کے منتخب کردہ ہیں وہ ذریت رسول سے ضرور ہیں اگر ان کی امامت موروثی ہوتی تو امام حسن علیہ السلام کے بعد ان کی اولاد کے بجائے ان کے چھوٹے بھائی امام نہ ہوتے حضرت علی علیہ السلام کے بعد پانچویں امام تک تو بنی امیہ نے آزادنہ نشر علوم کا موقعہ نہ دیا اور ان سے وابستگان کو ہر طرح تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی گئی مگر نشر دین الہی کا سلسلہ جاری رہا ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کو تاریخ میں وہ دور ملا جب بنی امیہ کی سلطنت کمزور ہو چکی تھی اور نبی عباس نے الرضا من آل محمد کے نام سے جو عوامی تحریک شروع کی تھی اور جس کے موئیدین میں امام ابو حنیفہ بھی تھے اس کی قیادت ہاتھوں میں لے لی اور خود اپنی سلطنت قائم کر لی ۔ جس کا ابتدائی زمانہ بنی امیہ اور اس کے موئیدین سے انتقام میں گزارا تانکہ پہلے خلیفہ بنی عباس کا نام تاریخ نے سفاح یعنی بکثرت خونریزی کرنے والا لکھا اور پھر دوسرا خلیفہ منصور ہوا جس نے اقدار کو مستحکم کرتے ہی مسلمانوں میں فرقہ سازی کے کھیل کا آغاز کیا ۔ یہ وہ درمیانی وقفہ جس میں کچھ حریت اور آزادی کی سانس لینے کا موقع ملا اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے فقہ محمد ی کے ترجمان کی حیثیت سے اس کو منظم اور آزادانہ طریقہ سے پیش کیا اور ساتھ ہی ساتھ فلسفہ یونان و روم و ایران و ہند کے اثرات سے جو لا دینی نظریات مسلمانوں کے ذہنوں کو منتشر کر رہے تھے اس کا علم و عقل کی سطح پر مقابلہ کیا اور علم کلام کی منظم تشکیل فرمائی ۔ چونکہ اس کے بعد
رفتہ رفتہ مسلمانوں میں تقریبا ۵۵ فقہی مکاتب قائم ہوئے اس لئے امام جعفر صادق علیہ السلام کے مسلک کا اتباع کرنے والے جعفری کہلائے اور آپ کی بلا آمیزش فقہ کا نام فقہ جعفری مشہور ہوا ۔
علی ہذا القیاس ہم دخل در معقولات کی جسارت سے ہاتھ کھینچتے ہوئے اپنی معروضات کا اختتام مولف کتاب " جعفر ابن محمد " جناب عبدالعزیز سید الاہل کے ان الفاظ پر کرکے التماس دعا کرتے ہیں ۔
" جعفر بن محمد (علیما السلام) مسلمانوں کے وہ قابل فخر امام ہیں جو اب بھی زندہ ہیں اور ہر آنے والے دور میں ان کی ایک نئی آواز گونجتی ہے جس سے اہل زہد و تقوی پرہیز گاری کا اور اہل علم و فضل علم و کمال کا درس لیتے ہیں آپ کی آواز پریشان حال کو سکون کی راہ دکھلاتی ہے مجاہد کو جو ش دلاتی ہے ۔
تاریکیوں میں نورانیت پھیلاتی ہے عدالت کے قصر کی بنیادیں قائم کرتی ہے اور مسلمانوں کو یہ پیام دیتی ہے کہ اب بھی ایک نقطہ پر جمع ہو جاؤ ۔ دیکھوں خدا بھی ایک ہے اور نبی بھی ایک ہے ۔
وما علینا الا البلاغ

عبدالکریم مشتاق
*****

امام جعفرصادق علیہ السلام کی شخصیت کا مختصر جائزہ
اسم گرامی جعفر (علیہ السلام )
والد ماجد اور اجداد محمد الباقر (علیہ السلام ) بن علی زین العابدین (علیہ السلام ) بن امام حسین سید الشہداء (علیہ السلام )بن امیر المومنین علی (علیہ السلام ) بن محسن خاتم النبین ابی طالب علیہ السلام
مشہور القاب صادق ۔ صابر ۔ فاضل ۔ طاہر ۔ مصدق
کنیت ابو اسماعیل ‘ ابو عبداللہ ۰اصول کافی میں آپ کا ذکر ابو عبداللہ ہی سے فرمایا گیا ہے۔
مادر گرامی محترمہ معظمہ ام فروہ بنت جناب قاسم بن محمد بن ابی بکر

تاریخ ولادت
۱۷ربیع الاول پر اتفاق کیا گیا ہے مگر سال ولادت میں مورخین کا اختلاف ہے ۔ امام بخاری اور علامہ حسن الامین کے نزدیک سن پیدائش ۸۰ہجری بمطابق ۲۴ مئی ۶۹۹ء ہے تہذیب الاسماء میں علامہ نوری نے اور وفیات الاعیان میں ابن خلکان نے اسی تاریخ کو اختیار کیا ہے ۔ نیز العجالی اور الخشاب کے نزدیک بھی یہی زیادہ صحیح ہے ۔ لیکن ثقتہ الاسلام جناب یعقوب کلینی اور شیخ مفید علیما الرحمہ کے مطابق ۱۷ ربیع الاول ۸۳ء بمطابق ۲۶اپریل ۷۰۳ء زیادہ صحیح ہے ۔

تاریخ شہادت
۱۴۸ھ مطابق ۷۶۵ء میں کوئی خاص اختلاف نہیں ہے مگر یوم وفات پر اتفاق نہیں ہو سکا ہے بعض نے ۱۵ رجب اور اکثر نے ۱۵ شوال کو تاریخ شہادت قرار دیا ہے ۔
سبب شہادت عباسی بادشاہ منصور دوانیقی نے عداوت کے باعث انگوروں میں زہر دے کر شہید کیا ۔
مدفن جنت البقیع مدینہ منورہ میں اپنے والد ماجد حضرت امام باقر علیہ السلام اپنے دادا سید سجاد امام زین العابدین علیہ السلام ‘ امام حسن مجتبی علیہ السلام اور اپنی جدہ طاہرہ سیدہ خاتون جنت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے مزارات کے قریب دفن ہوئے مگر عہد سعودیہ میں یہ تمام روضہ ہائے آل رسول منہدم کر دیئے گئے اور آج یہ قبور حسرت و یاس کی تصاویر بنی امت کی غیرت کا منہ دیکھ رہی ہیں ۔
دددھیال و ننھیال یقینا امام جعفر صادق علیہ السلام کے دودھیال بے مثل و بے نظیر تھے ۔ خانوادہ رسالت و امامت کا ثانی کون ہو سکتا ہے مگر ننھیال بھی کم نہ تھے مادر گرامی جناب اما فروہ علمی معدن کا درنایاب تھیں ۔ آپ کے نانا قاسم اسلام کے عظیم فقیہ تھے اور اس فرزند اسلام جناب محمد بن ابی بکر کے نور چشم تھے جن کو باب مدینتہ العلم علی المرتضی کی آغوش تربیت نصیب ہوئی تھی اور علی ان کو اپنا بیٹا کہتے تھے آپ کے ماموں جناب عبدالرحمن بن قاسم کا علمی مرتبہ بھی بہت بلند تھا اور فقہائے مدینہ میں انتہائی ممتاز مقام کے حامل تھے ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام خانوادہ رسالت اور سلسلہ ائمہ اہل بیت رسول ( کے چھٹے امام ہیں ۔ اور وہ سلسلہ امامت حقہ ہے جس کی خلیل خدا جناب ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کیلئے تمنا و آرزو کی تھی اور پروردگار نے لا ینا عہدی الظالمین کی شرط کے ساتھ یہ خواہش پوری کرکے امامت منصوص من اللہ اور عصمت کی طرف بلیغ اشارہ کیا تھا ۔

عہد امامت
فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام وہ شخصیت ہیں جن کو امامت حقہ کے دونوں دشمن خاندانوں سے واسطہ پڑا ۔ یعنی بنی امیہ اور بنی عباس سے سابقہ ہوا ۔ آپ نے اموی شوکت و جبروت اور عباسی شہنشاہیت کا قہرو قبلہ دونوں کو دیکھا ۔ اموی خون آشامیوں کو بھی ملاحظہ فرمایا اور عباسی سفاکیوں کا بھی نظاہرہ کیا آپ نے اموی عہد کی آخری ہچکیاں سنیں اور ان کے اقتدار کو دم توڑتے ہوئے دیکھا کہ استبدادی تخت و تاج کسی طرح ٹھوکروں کا کھلونا بن گئے ۴۰ء سے قائم اموی سلطنت کا چراغ آخر کار گل ہوا اور ظالم حکومت اپنے انجام کو پہنچ گئی جابر حکمران اپنے ظلم و جور اور جبرو استبداد ختم کرکے خود تو زمینی کیڑے مکوڑوں کی خوراک بن گئے مگر اپنی چیرہ دستیوں کے بدلے اپنی نسلوں کو گروی رکھ گئے ۔
کعبة اللہ کی تاراجی ‘ مدینتہ الرسول کی تباہی و بے حرمتی ‘امام حسین مظلوم کا بے خطا قتل ‘ اسلامی آئین کی پامالی اور شرعی قوانین کی توہین وغیرہ ایسی شنیع باتیں تھیں جو ملت مسلمہ کے ضمیر کو لخطہ لخطہ جھنجھوڑ رہی تھیں ۔ جلدی یا دیر سے بہر حال امت کی غیر بیدار ہوئی ۔ مسلمانوں پر اثر ہوا اور بھر پور ہوا کہ مردہ بولے تو کفن پھاڑے ۔ اب امویوں کیلئے کوئی جائے پناہ نہ تھی ۔ سر چھپانے کا ٹھکانا ملنا تو بڑی بات ہے لوگوں نے پرانے مردے اکھاڑنے شروع کئے اور قبروں تک کو کھدوا دیا گیا ۔
بنی عباس جنہوں نے موقع کی نزاکت سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور آل رسول کے نام اور ثارات الحسین کے نعرہ پر انقلاب کو ہوا دی اپنے کرتوت میں بنی امیہ سے بھی بازی لے گئے اور اموی و عباسی دونوں کے انداز حکمرانی میں کوئی فرق باقی نہ رہا ۔ جس طرح بنی امیہ کے زمانے میں اہل بیت رسول پر ظلم وتشدد ہوتا رہا اسی طرح بنو عباس کے عہد کی سفاکیاں جاری رہیں ۔ ائمہ اہل بیت پہلے بھی نشانہ ستم بنے رہے اور اب تو جورو جفا میں اور اضافہ ہو گیا دونوں ادوار میں قانون کی بالا دستی نام کی کوئی چیز نہ تھی ۔
حاکم کے منہ سے نکلے ہوئے کلمات گویا حرف آخر ہوتے تھے ۔ مفتیان دین اور قاضیان شرع متین اپنی عزت و ناموس اور جانوں کا تحفظ اس بات میں محسوس کرتے تھے کہ سلطان وقت کے اشارہ ابرو کو سمجھیں اور اس پر بلا حیل و حجت عمل کریں ۔ جابر بادشاہ کے احساسات اور جذبات کے موافق فتوے جاری کریں ۔ ورنہ کوڑے کھانے کیلئے تیار رہیں ۔ کسی صاحب دستار عالم فاضل کے سرکو پھوڑ دینا اور معزز شہری کو بلا قصور قید و بند کی صعبت میں مبتلا کر دینا تو معمولی واقعات تھے ۔
کیا ایسے فتنہ انگیز دور میں رسول صادق صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مسند شریفہ پر بیٹھ کر اسلام کی صحیح ترویج اور دین کے محکم فیصلوں کا صادر کرنا آسان کام تھا ؟یہی وجہ تھی کہ ائمہ اہل بیت کو کام کرنے کا موقع ہاتھ نہ لگ سکا کیونکہ ان کی تو خصوصی طور سے کڑی نگرانی کی جاتی تھی البتہ صرف امام جعفر صادق علیہ السلام کو غنیمت کے طور پر تھوڑا سا وقت مل گیا وہ بھی اس لئے کہ امویوں کو اپنے اقتدار کے جانے کی پڑ گئی اور عباسیوں کو اپنی کرسی بچانے کی ۔ جب دونوں کو اپنی پڑی تو امام برحق کو موقع مل گیا کہ رسول اکرم کے مشن "
کتاب و حکمت کی تعلیم کو فروغ اور وسعت دیں ۔
یون تو ہر امام نے اپنے وقت میں اپنے فرائض امامت کما حقہ انجام دیئے ۔ بالخصوص واقعہ کربلا سے امیر المومنین امام علی علیہ السلام اور جوانان جنت کے دونوں سردار حضرات حسنین شریفین علیما السلام کے کار ہائے نمایاں اور مسند علم و فقہ پر متمکن رشد و ہدایت کے فیوض سے کون واقف نہیں ہے ان کا تو ذکر ہی بلند ہے ان سے وابستہ ہو جانے والے غلام و کنیزیں علمی مراتب میں اپنی مثال نہیں رکھتی ہیں ۔ کربلا کے مصائب اور خونچگاں حادثات کو برداشت کرنے کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام کا دین اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہو جانا بھی انوکھی نظیر ہے صحفیہ سجادیہ جسے زبور آل محمد کہا گیا ہے حضرت سجاد کے علمی آثار کا ایک ممتاز نمونہ ہے ۔
امام محمد باقر علیہ السلام وہ کوہ علم ہیں جس کی بلندیوں تک انسانی نگاہیں پہنچنے سے قاصر ہیں ۔ وہ ایسی ذی و قار شخصیت ہیں جن کے در پر بڑے بڑے عالم اور نابغہ روزگار جبہ رسائی کئے بغیر اپنے آپ کو نا مکمل اور ادھورا تصور کرتے تھے آپ کا لقب " باقر " اسی لئے ہے آپ بات سے بات پیدا کرتے اور علم کو شگافتہ کرکے اس کی کنہ اور حقیقت سے دنیا کو روشناس کراتے اور ایسے مسائل بیان فرماتے جو وارث قران الحکیم ہی بیان کر سکتا ہے آپ کا شریعت کدہ علم کا مرکز اور حکمت کا عظیم منبع اور سر چشمہ تھا ۔
جس سے ایک عرصہ تک دنیا فیض حاصل کرتی رہی اور امام جعفر صادق نے بھی اپنے والد معظم کے مکتب میں حاضر ی دی جن کو دوسرے اماموں کے مقابلے میں نشر علوم کا زیادہ موافق وقت مل گیا ۔
جسٹس امیر علی اپنی تاریخ عرب میں لکھتے ہیں کہ
" اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس دور میں علم کا انتشار (پھیلاؤ) اس حد تک ہوا کہ انسانی فکر کا جمود ختم ہو گیا اور فلسفی مسائل ہر محفل میں زیر بحث آنے لگے ۔ لیکن یہ واضح کر دینا ضرور ی ہے کہ اس پوری علمی تحریک کے قائد اکبر علی ابن ابی طالب کے فرزند امام صادق تھے ۔ جن کی فکر وسیع ‘ نظر عمیق اور جنہیں ہر علم میں کامل دستگاہ حاصل تھی حقیقت تو یہ ہے کہ آپ اسلام کے تمام مکاتب فکر کے موسس اور بانی کی حیثیت رکھتے ہیں آپ کی مجلس بحث و درس میں صرف وہی حضرات نہ آتے تھے جو بعد میں امام مذہب بن گئے بلکہ تمام اطراف سے بڑے بڑے فلاسفر استفادہ کرنے کیلئے حاضر ہوتے تھے "
رفیقہ حیات امام جعفر صادق کی صرف ایک زوجہ تھیں جن کا اسم گرامی " فاطمہ " تھا ۔
ایک روایت ہے کہ آپ (فاطمہ ) حضرت حسین بن علی ابن امام حسین علیہ السلام کی صاحبزادی تھیں اور شیخ مفید علیہ الرحمہ کے نزدیک یہی صحیح ہے ۔ بعض کا خیال ہے کہ فاطمہ بنت حسین الاثرم بن حسن تھیں ۔
اولاد آپ کے سب سے بڑے فرزند حضرت اسماعیل تھے ۔ جن کا آپ کی زندگی میں ہی انتقال ہو گیا تھا دوسرے عبداللہ اور بیٹی ام فروہ تیسرے فرزند امام موسی کاظم چوتھے اسحاق پانچویں محمد ۳,۴,۵ کی والدہ حمیدہ خاتون تھیں جو بربریہ تھیں ) ان کے علاوہ عباس علی اسماء فاطمہ مختلف البطن تھیں گویا سات بیٹیا ور تین بیٹیاں ۔
مشہور اصحاب اور شاگر د چار ہزار سے زیادہ عظیم ترین افراد اور ہستیاں آپ کے حلقہ علم و ارادت سے منسلک تھیں ان کی فہرست باقاعدہ موجود ہے اس وقت چند مشہور شخصیتوں کا تزکرہ اور اسماء درج زیل ہے جو علم و فضل میں ممتاز تھے ۔
ابن تغلب اسحاق ابن عمار ابو القاسم برید بن معاویہ عجلی ثابت بن دینار ابو حمزہ ثمالی
مالک ابن انس سفیان ثوری 9; سفیان بن عینیہ فضل بن عیاض شعبہ بن حجاج حاتم بن اسماعیل
حفص بن غیاث 9; 9; ا براہیم بن محمد ابو المنذر زہیر بن محمد حماد بن زیاد
زرارہ بن اعین شیبانی ابو محمد صفوان بن مہران ہشام بن الحکم معلی بن خنیس مفضل بن عمرو
بکر الشیبقی جابر بن حیان امام اعظم ابو حنیفہ وغیر ہم
بادشاہان وقت اموی عبدالملک ‘ ولید بن عبدالملک ‘ سلیمان ابن عبدالملک ‘ عمر ابن عبدالعزیز ‘یزید بن عبدالملک ‘ ہشام بن عبدالملک ‘ ولید بن عبدالملک ثانی ‘یزید ناقص ‘ ابراہیم بن ولید ‘ مروان بن محمد ‘ عباسی ابوالعباس السفاح ‘ ابو جعفر منصور
شعراء السید الحمیری ‘الکمیت ‘ابوہریرہ الابار‘ اشجع السلمی البعدی
دربان محمد بن سنان ‘ مفضل بن عمرو

تصانیف و تالیفات
رسالہ عبداللہ ابن النجاشی ‘ رسالہ مروی عن الاعمش ‘ توحید مفضل ‘ کتاب ‘ کتاب مصباح ‘ الشریعت مفتاح الحقیقت ‘ رسالہ الی اصحاب ‘ رسالہ الی اصحاب الرائے والقیاس ‘رسالہ بیان غنائم وجوب الخمس ‘ وصیت العبد اللہ ابن جندب ‘ وصیت لابی جعفر بن النعمان الاحول ‘ نثر الدررر ‘ کلام دربیان محبت اہل بیت ‘ توحید ‘ ایمان ‘ اسلام ‘ کفر و فسق ‘ وجوہ معالیش العباد و وجوہ اخراج الاموال ‘ رسالہ فی احتجاج علی الصوفیہ ‘ کلام در خلق و ترکیب انسان ‘ مختلف اقوال حکمت و آداب ‘ نسخہ (اس کاذکر نجاشی نے اپنی کتاب الرجال میں کیا ہے )‘نسخہ (جس کو عبداللہ ابن ابی اولیس بن مالک بن ابی عامر الاصبحی نے بیان کیا ہے ) نسخہ (جو سفیان بن عینیہ سے مروی ہے ) نسخہ (جو ابراہیم بن رجاء الشیبانی سے مروی ہے ) کتاب (جو جعفر بن بشیر البجلی کے پاس تھی ) کتاب رسائل جو آپ کے شاگرد جابر بن حیان الکوفی سے مروی ہے ‘ تقسم الرویاء
(مزید تفصیل کیلئے اعیان الشیعہ کا مطالعہ کیا جائے )

اسلام محوہونے لگا جب دروغ سے
جب گھر کو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے

کب یہ گوارہ کرتا محمد کا ورثہ دار
اٹھا کہ تھا وہ دیں کی حفاظت کا ذمہ دار

کرنے لگا جہاد قلم سے زبان سے
بد اصل فلسفے کے پرخچے اڑا دیئے

جس طرح کربلا میں بچا دین مصطفی
آل نبی کی سعی سے اسلام پھر بچا

جب وار علم جعفر صادق کا چلا گیا
مردود ناصبی کا جنازہ نکل گیا

(عزم جونپوری)

امام جعفر صادق کی ولادت با سعادت
ماہ ربیع الاول کی سترہ تاریخ ۸۲ھ ق ‘ امام زین العابدین کے گھر میں امام محمد باقر کے صلب مقدس سے مدینہ منورہ میں ایک فرزند ارجمند کی ولادت ہوئی جنکا نام نامی جعفر الصادق ہے ۔جس وقت یہ مولود متولد ہوئے تو دائی نے جو بچے کی پیدائش میں مدد کرنے کے لیے آئی تھی نے دیکھا کہ بچہ چھوٹا اور کمزور ہے اس نے خیال کیا کہ بچہ بچ نہیں سکے گا باوجودیکہ اسے بچے کے زندہ بچے جانے کے بارے میں تردد تھا اس نے اس خوشخبری کے عوض میں تحفہ حاصل کرنے کو فراموش نہ کیا اور بچے کو ماں کے پہلو میں لٹا کر اس کے والد سے اس خبر کے بدلے میں تحفہ وصول کرنے کیلئے کمرے سے باہر چلی گئی ۔
اگر یہ نو مولود لڑکی ہوتا تو دائی ہر گز اس کے والد کو خوشخبری نہ سناتی اور نہ ہی تحفہ طلب کرتی کیونکہ اسے علم تھا کہ کوئی عرب باپ بیٹی کی پیدائش پر تحفہ نہیں دیتا ۔
لیکن ہر باپ اگرچہ وہ کتنا ہی مفلس کیوں نہ ہو بیٹے کی پیدائش پر دائی کو تحفہ ضرور دیتا تھا اور ہجرت کے تراسی (۸۳) سال بعد بھی عربوں نے دور جاہلیت کے اس رواج کو ترک نہیں کیا تھا وہ بیٹی کی پیدائش پر خوش نہیں ہوتے تھے جبکہ بیٹے کی پیدائش پر خوش ہوتے تھے ۔
دائی نے نو مولود کے والد کو تلاش بسیار کے باوجود گھر میں نہ پایا ۔ کیونکہ پیدائش کے موقع پر امام محمد باقر گھر میں نہیں تھے پھر دائی کو کسی نے بتایا کہ بچے کے دادا گھر میں موجود ہیں اور وہ انہیں مل سکتی ہے لہذا وہ دائی امام زین العابدین سے اجازت لے کر ان کے قریب گئی اور کہا خداوند تعالی نے آپ کو ایک پوتا عطا کیا ہے زین العابدین نے فرمایا امید ہے کہ اس کے قدم اس گھر کیلئے برکت کا باعث ہوں گے اور اس کے بعد پوچھا کہ یہ خوشخبری اس کے باپ کو دی ہے ؟
دائی نے کہا وہ گھر پر نہیں ہیں ورنہ یہ خوش خبری ان ہی کو دیتی زین العابدین نے فرمایا دل چاہتا ہے اپنے پوتے کو دیکھ لوں لیکن میں نہیں چاہتا کہ اسے اس کی ماں کے کمرے سے باہر لاؤں کیونکہ باہر موسم قدرے ٹھنڈا ہے اور زکام لگنے کا اندیشہ ہے ۔
اس وقت امام زین العابدین نے دائی سے پوچھا کیا میرا پوتا خوبصورت ہے ؟
دائی میں یہ کہنے کی ہمت نہ ہوئی کہ ان کا پوتا کمزور اور ناتواں ہے اس نے کہا اس کی نیلی آنکھیں بہت خوبصورت ہیں ۔
زین العابدین نے فرمایا پس اس طرح تو اس کی آنکھیں میری ماں رحمة اللہ علیھا کی آنکھوں کی مانند ہیں یزد گرد سوم کی صاحبزادی شہر بانو جو امام زین العابدین کی والدہ تھیں ان کی آنکھیں نیلی تھیں ۔ اس طرح جعفر صادق نے مندل کے قانون کے مطابق نیلی آنکھیں اپنی دادی سے ورثہ میں حاصل کیں ۔
ایک مشہور روایت کے مطابق یزد گرد سوم کی دوسری بیٹی کیہان بانو جو اپنی بہن کے ساتھ اسیر کرکے مدائن سے مدینہ لائی گئیں تھیں کی آنکھیں بھی نیلی تھیں اس طرح امام جعفر صادق نے دو ایرانی شہزادیوں سے نیلی آنکھیں ورثہ میں پائی تھیں ۔ کیونکہ کیہان بانو ان کی نانی تھیں ۔ امام علی ابن ابی طالب نے جو مدینہ میں ایرانی حکومت کے خاندان کے قیدیوں کے بہی خواہ تھے شہربانوکو اپنے فرزند حسین کے عقد میں دیا اور کیہان بانو کی حضرت ابوبکر کے بیٹے محمد بن ابو بکر کے ساتھ شادی کی کیونکہ جناب امیر حضرت محمد بن ابوبکر کو اپنے بیٹوں کی مانند چاہتے تھے اور مسند نشیں ہونے کے بعد محمد بن ابوبکر کا رتبہ اتنا بلند کیا کہ انہیں مصر کا گورنر مقرر فرمایا جو بعد میں معاویہ کے حکم پر اسی ملک میں قتل ہوئے ۔
محمد بن ابوبکر اور کیہان بانو کے ہاں ایک بیٹا قاسم پیدا ہوا اور قاسم کے ہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام ام فروہ تھا ان کا نکاح محمد باقر کے ساتھ ہوا ۔ اس طرح مان کی طرف سے بھی امام جعفر صادق کا رستہ نیلی آنکھوں والی ایک ایرانی شہزادی سے جا ملتا ہے ابھی تک مہاجرین مکہ میں نو مولودی کو دودھ پلانے کیلئے اجرت پر رکھنے کا رواج موجود تھا جعفر صادق کی پیدائش کے وقت ہجرت کو تراسی (۸۳) سال ہو گئے تھے اور اب مہاجرین مکہ کو مہاجرین کے نام سے نہیں پکارا جاتا تھا اور اسی طرح مدینہ کے قدیم باشندوں کو انصار کے نام سے نہ پکارا جاتا تھا ۔
لیکن دوسرے مہاجر خاندانوں کی طرح امام زین العابدین کے خاندان میں بھی نو مولود کو دائی کے سپرد کرنے کا رواج ابھی تک باقی تھا جعفر صادق کی ولادت پر ان کے والد گرامی بے حد خوش ہوئے اور انہیں دودھ پلانے کیلئے ایک دائی کے بارے میں سوچنے لگے لیکن ام فروہ نے کہا میں اپنے بیٹے کو خود دودھ پلاؤں گی ۔
شاید نومولود کی کمزوری اور ناتوانی کو دیکھ کر ماں کو ایسا خیال آیا ہو اور پریشان ہو گئی ہو کیونکہ دائی جتنی بھی رحمد ل ہو ماں کی طرح نگہداشت نہیں کر سکتی ۔ جعفر صادق کے بچپن کے بارے میں شیعوں کے ہاں کئی روایات پائی جاتی ہیں ان میں سے کچھ روایات بغیر راوی کے مشہور ہیں اور کچھ روایات کے راوی موجود ہیں ۔
بغیر راوی کے روایات میں آیا ہے کہ جعفر صادق ختنہ شدہ اور دانتوں کے ساتھ دنیا میں تشریف لائے ۔ ختنہ شدہ کی روایت کو قبول کیا جا سکتا ہے کیونکہ بعض لڑکے دنیا میں ختنہ شدہ آئے ہیں ۔
لیکن اس روایت کی صحت میں تامل ہے کہ وہ دانتوں کے ساتھ دنیا میں تشریف لائے ۔ کیونکہ ایک تو علم حیاتیات کی رو سے صحیح نہیں اور دوسرا یہ کہ اگر ان کے دانت تھے تو ان کی ماں انہیں دودھ نہیں پلا سکتی تھیں اور تجربہ شاہد ہے کہ جب بچہ دانت نکالتا ہے ماں دودھ دینے میں تکلیف محسوس کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب دانت نکالنا شروع کرتا ہے تو اس کا دودھ چھڑا لیا جاتا ہے ۔
امام جعفر صادق کی ولادت کے متعلق ایک اور روایت یہ ہے کہ جب آپ اس دنیا میں تشریف لائے تو باتیں کرنا شروع کر دیں اسی طرح کی ایک روایت ابو ہریرہ صحابی کے زریعے پیغمبر اکرم سے نقل کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا میں پیغمبر اسلام سے سنا ہے کہ ان کی نسل میں ایک ایسا فرزند پیدا ہو گا جس کا نام صادق ہو گا اور کسی دوسرے کا یہ نام نہ ہو گا اور جہاں کہیں بھی صادق کا نام لیں گے سب سمجھ جائیں گے کہ کہنے والوں کا مطلوب وہی ہے ابوہریرہ سے نقل کی گئی کچھ روایات جھوٹ پر مبنی بھی ہیں دن کا کچھ حصہ آپ کے ہمراہ گزارتا تھا بعض جعلی حدیثیں گھڑنے والوں نے بہتری اس میں دیکھی کہ وہ حدیثوں کو ابوہریرہ سے منسوب کریں تاکہ پڑھنے والا اور سننے والا دونوں قبول کریں ۔ اور بعض جعلی حدیثیں گھڑنے والوں نے شاید پشیمانی یا ندامت ضمیر کی وجہ سے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے جعلی حدیثیں گھڑی ہیں ۔
یہ بات واضح ہے کہ اس طرح کی روایات تاریخی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہیں اور یہ روایات شعیوں کے اپنے امام کے علم اور قدرت مطلق کے بارے میں اعتقاد کا نتیجہ ہیں چونکہ ان کے ہاں امام منصوص من اللہ اور علم لدنی کا مالک ہوتا ہے کہتے ہیں کہ امام بچپن میں بھی ویسا ہی ہوتا ہے جیسا جوانی اور بڑھاپے میں ‘ لیکن ایک تاریخی محقق جعفر صادق کو پہچاننے کیلئے اہم ترین مسائل کی طرف توجہ دیتا ہے اور ایسی روایات کو خاطر میں نہیں لاتا ۔

بچپن
جعفر صادق کے بچپن کے دوران چار چیزیں ہمیں ایسی ملتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قدرت ان کے موافق رہی ہے ۔
پہلی روایت یہ کہ جعفر صادق لاغر اور مریض امراض الاطفال ہونے کے باوجود زندہ رہے اور جو نہی ان کی عمر دو سال ہوئی صحت مند ہو گئے دوسری یہ کہ جعفر صادق نے ایک خوشحال گھرانے میں آنکھ کھولی اور ان کے والد و دادا مدینے کے کھاتے پیتے لوگوں میں شمار کئے جاتے تھے ۔
تیسری یہ کہ ان کی والدہ محترمہ ام فروہ خاندان ابوبکر کی اکثر عورتوں کی مانند پڑھی لکھی تھیں اور ان کے والد گرامی امام محمد باقر دانشمند انسان تھے ۔
چوتھی یہ کہ ماں اور باپ نے جعفر صادق کو دو سال سے ہی تعلیم دینا شروع کر دی تھی اور موجودہ زمانے کی تعلیم و تربیت یہ کہتی ہے کہ ایک بچے میں حافظے کی قوت کا بہترین زمانہ دو سال اور پانچ سال یا چھ سال کے درمیان ہوتا ہے دور حاضر کے ماہرین تعلیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ دو سال سے چھ سال کی عمر تک کے عرصے میں مادری زبان کے علاوہ دو اور غیر ملکی زبانیں بھی بچے کو تعلیم دی جا سکتی ہیں ۔
عموما وہ خاندان جن کے آباؤ اجداد دانشمند ہوتے ہیں ان میں دانشمند بچے پیدا ہونے کے مواقع عام لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں ۔
جعفر صادق کے والد گرامی ایک دانش مند انسان تھے اور ان کے دادا امام زین العابدین کا شمار بھی فاضل لوگوں میں ہوتا تھا انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں جن کا ذکر ابن الندیم صحاف نے اپنی کتاب " الفہرست " میں کیا ہے لیکن افسوس ہے کہ اب یہ کتابیں نا پید ہیں ۔
جعفر صادق والدین کی اکلوتی اولاد نہ تھے بلکہ آپ کے چند بھائی تھے امام محمد باقر اور ان کے والد گرامی امام زین العابدین کو دوسری اولاد کو پڑھانے میں اتنی دلچسپی نہیں تھی جتنی جعفر صادق کو پڑھانے میں تھی کیونکہ جعفر صادق کو دو سال کی عمر میں ہی پڑھانا شروع کر دیا تھا کبھی آپ کے دادا امام زین العابدین آپ کو پڑھاتے تھے ۔
ماں ‘ باپ اور دادا کی طرف سے خصوصی توجہ اس لئے تھی کہ امام جعفر صادق غیر معمولی طور پر ذہین تھے ۔ شیعہ اس ذہانت و فطانت کو امام کی خوبیوں میں سے جانتے ہیں لیکن مشرق و مغرب میں ایسے بچے ہو گزرے ہیں جو غیر معمولی زہین و فطین تھے جبکہ وہ امام نہیں تھے ۔
ابن سینا اور ابوالعلا مصر ‘ مشرق میں اور تاسیت مغرب میں ایسے افراد تھے جنہیں بچپن میں جو کچھ صرف ایک مرتبہ پڑھا دیا جاتا تھا وہ اسے کبھی نہیں بھولتے تھے یہ تین نام نمونے کے طور پر ذکر کئے ہیں ان کے علاوہ بھی بہت سے لوگ ایسے ہو گزرے ہیں جو غیر معمولی طور پر زہین اور فطین شمار کئے جاتے ہیں ۔
مدینہ کی دائی جو پیدائش میں زچہ کی مدد کرتی تھی ایک طرح کی سرجن ہوتی تھی کیونکہ وہی بچے کا ختنہ بھی کرتا تھی ۔ اسی دائی نے جس نے امام صادق کی پیدائش کی خبر ان کے دادا زین العابدین تک پہنچائی ان کے بھائی کا ختنہ بھی کیا اور تین دینار معاوضہ لیا جس دن اس نے جعفر صادق کی پیدائش کی خوش خبر ان کے دادا کو دی اسے پانچ دینار عطا کئے گئے کیونکہ ایک معزز عرب گھرانے میں بچے کی پیدائش ایک غیر معمولی اور پر مسرت واقعہ ہوتا تھا ۔
کہتے ہیں کہ جب جعفر صادق دو سال کے ہوئے ام فروہ نے ان کیلئے یہ اشعار پڑھے اور وہ ایک چھوٹی سی تلوار اور لکڑی لے کر
ایک کھیل جسے تلوار کا رقص کہا جاتا ہے دوسرے بچوں کے ہمراہ کھیلتے اور ان اشعار کو پڑھتے تھے ۔
(البشر و احباحبا ۔ قدہ طال نما ۔ وجہہ بدر السماء ) یعنی تمہیں مبارک ہو کہ اس کا قد بلند ہو رہا ہے ۔
وہ بڑا ہو رہا ہے اور اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی مانند ہے ۔
جعفر صادق کا گھر جس میں ان کے پر دادا حسین بن علی پیدا ہوئے تھے مسجد نبوی کے پہلو میں واقع تھا مسجد کی توسیع کی غرض سے اسے گرا دیا گیا اور جو رقم اس کے بدلے میں بیت المال سے ملی ۔ اس سے انہوں نے ایک جدید روڈ کے کنارے (جس کا نام مسقی تھا ) کچھ زمین خرید کر وہاں ایک گھر بنایا یہ گھر بھی بہت سے دوسرے مدینہ اور مکہ کے گھروں کی مانند ایرانی معماروں نے بنایا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ اس گھر کا صحن حضرت علی نے بنوایا تھا ۔ جو کافی وسیع تھا اور بچوں کے کھیل کود کیلئے بہترین جگہ تھی جعفر صادق جب بھی سبق سے فارغ ہوتے دوسرے لڑکوں کے ساتھ اس صحن میں کھیل کود میں مشغول ہو جاتے ۔
ان کے والد گرامی امام محمد باقر کے حلقہ درس میں حاضری کے متعلق چند روایات ہیں بعض کہتے ہیں وہ والد کے مدرسہ میں پانچ سال کی عمر میں داخل ہوئے ۔
مغرب کے ایک مسلمان مورخ ابن ابی رندقہ جس کا نام محمد ‘ اور کنیت ابوبکر تھی ۔ ۴۵۱ھ قمری میں پیدا ہوا اور ۵۲۰ھ میں فوت ہوا اپنی کتاب میں مختصر نام کے ساتھ کہتا ہے کہ جعفر صادق دس سال کی عمر میں اپنے والد کے درس میں جانے لگے اور یہ روایت عقلی نظر آتی ہے ۔
اس سے پہلے بھی امام محمد باقر اپنے بیٹے کو گھر پر درس دیتے تھے لیکن وہ اس درس میں جس میں چند طلباء ہوتے تھے شریک نہیں ہوتے تھے ۔

"مکتب تشیع کا نجات دہندہ "
باوجودیکہ حضرت علی ابن ابی طالب نے اپنی زندگی کے دوران علم کو پھیلانے کی غرض سے کافی کوششیں کیں لیکن لوگ علم کے حصول کی طرف زیادہ راغب نہیں ہوئے جس کی ایک وجہ خشک طرز تعلیم بھی تھی اس ضمن میں دیکھیں گے کہ مسلمان حصول علم کی طرف اس وقت تک راغب نہیں ہوئے جب تک امام صادق نے طرز تعلیم نہ بدلا ۔
محمد باقر مدینہ کی اسی مسجد میں درس دیتے تھے جسے محمد اور ان کے صحابہ نے ہجرت کے بعد مدینہ میں بنایا تھا اور خلفائے اسلامی کے دور میں اس میں توسیع کی گئی جو کچھ امام محمد باقر کے ہاں پڑھایا جاتا تھا وہ تاریخ کے کچھ حصے علم نحو اور علم رجال یعنی بائیو گرافی کے کچھ حصے اور خصوصا ادب یعنی شعر (جس میں نثر شامل نہ ہوتی تھی ) پر مشتمل ہوتا تھا عربوں کے ادب میں امام جعفر صادق کے زمانے تک نثر کا وجود نہیں تھا ۔ ما سوائے اس کے کہ علی ابن ابی طالب نے اپنی زندگی میں جو کچھ لکھا ۔
جو طلباء امام محمد باقر کے درس میں حاضر ہوتے تھے ان کے پاس کتابیں نہیں ہوتی تھیں اور امام محمد باقر بھی بغیر کتاب کے پڑھاتے تھے ۔
اس مدرسے کے جو طلباء ذہین ہوتے تھے جو کچھ امام باقرء کہتے یاد کر لیتے اور جو ذہین نہیں ہوتے تھے وہ استاد کے درس کو مختصرا تختی پر لکھ لیتے اور پھر گھر جا کر بڑی محنت سے کاغذ پر منتقل کر لیتے وہ تختی اس لئے استعمال کرتے تھے کہ کاغذ ان دنوں بہت مہنگا ہوتا تھا اور
وہ اس قدر کاغذ استعمال نہیں کر سکتے تھے جبکہ تختی پر لکھا ہوا مٹ سکتا تھا اس طرح تختی مکرر استعمال میں لائی جاتی تھی ۔
شاید آج کتاب کے بغیر تعلیم ہمیں عجیب لگے لیکن پہلے زمانے میں مشرق و مغرب میں استاد کتاب کے بغیر تعلیم دیتے تھے اور ان کے شاگرد استاد کے درس کو یاد کر لیتے اور اگر اپنے حافظے پر اعتماد نہ ہوتا تو گھر جا کر لکھ لیتے تھے ۔
آج بھی ایسے استاد موجود ہیں جو کتاب کے بغیر پڑھاتے ہیں جو علوم محمد باقر مسجد مدینہ میں پڑھاتے تھے وسیع نہیں ہوتے تھے صرف ادب وسیع ہوتا تھا ۔ تاریخ کی تعلیم بھی اتنی ہی تھی جتنی قرآن اور تورات میں مذکور ہے اور چونکہ ابھی یونانی کتابوں کا سر یانی سے عربی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا اس لئے یورپ کی تاریخ بھی نہیں پڑھائی جاتی تھی ۔
جعفر صادق ایک ذ ہین طالب علم تھے اس لئے آسانی سے والد گرامی کے درس کو یاد کر لیتے تھے ۔
شیعوں کا عقیدہ ہے کہ محمد باقر اس لئے باقر کہلائے کہ انہوں نے علم کی کھیتی کو چیرا ۔ کیونکہ باقر کے مجازی معنی چیرنے والے اور کھولنے والے کے ہیں ۔
جہاں تک ہمارا خیال ہے یہ لقب یا صفت باقر کو اس وقت ملی جب آپ نے دیگر علوم کے ساتھ ساتھ علم جغرافیہ اور دیگر یورپی علوم کا اضافہ کیا اس وقت جعفر صادق کی عمر انداز پندرہ یا بیس سال تھی ۔
بعض کا خیال ہے کہ علم جغرافیہ سریانی کتابوں سے عرب میں آیا اور جب عرب مصر گئے تو بطلیموس کے جغرافیہ سے واقف ہوئے اور جغرافیہ کی تعلیم کا آغاز جعفر صادق کے در س سے ہوا ۔
بطلیموس نے جغرافیہ کے علاوہ ہیت کے بارے میں بھی بحث کی ہے چونکہ جعفر صادق ستارہ شناسی (علم نجوم ) میں بھی ماہر تھے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ علم نجوم کو اپنے باپ سے بطلیموس کی کتاب سے پڑھا ہو گا ۔
لیکن آج ہم جانتے ہیں کہ عرب بطلیموس کے جغرافیہ و ہیئت کے جاننے سے پہلے بھی ستاروں کو پہچانتے تھے اور ان کیلئے انہوں نے مخصوص نام بھی گھڑے ہوئے تھے اس بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں کہ یہ نام کس موقع پر گھڑے گئے تھے ؟ اور ان کا گھڑنے والا کون تھا ؟لیکن اس میں کوئی تردد نہیں ہے کہ جب کوئی عرب بدو مصر گیا ہو گا ۔ تو قبطیوں سے ملا ہو گا ۔ اور ان کی مدد سے اس نے بطلیموس کی کتاب تک رسائی حاصل کی ہو گی اور وہاں سے اس نے ستاروں کی شناخت کرنے کے بعد ان کے نام بھی رکھے ہوں گے ۔ لہذا بطلیموس کی کتاب نے صرف علم نجوم (جو امام جعرفر صادق اپنے والد سے پڑھتے تھے ) کو سیکھنے میں مدد کی ہو گی نہ یہ کہ انہیں علم نجوم سکھایا ہو گا محمد باقر نے جغرافیہ اور تمام مصری علوم کا مدرسہ کے دوسرے علوم پر اضافہ کیا ۔ اور اس بارے میں ہمارے پاس کوئی تاریخی سند نہیں کہ انہوں نے تمام مغربی علوم کو دوسری علوم کے ساتھ پڑھایا لیکن ہم دو قرینوں کی بناء پر یہ بات کہتے ہیں ۔
پہلا یہ کہ امام محمد باقر نے ضرور علم جغرافیہ اور ہیئت کی تدریس کا مدرسے میں آغاز کیا ہو گا ورنہ ہر گز شیعہ انہیں باقر کا لقب نہ دیتے اور زیادہ احتمال یہ ہے کہ انہوں نے دوسرے مغربی علوم کو بھی مدرسہ میں داخل کیا ہو گا جبھی تو وہ باقر کہلائے ۔
دوسرا قرینہ یہ ہے کہ جس وقت جعفر صادق نے تدریس شرو ع کی تو جغرافیہ اور ہیت فلسفہ اور فکز بھی پڑھاتے تھے جبکہ یہ بات تحقیق شدہ ہے کہ جس وقت جعفر صادق نے پڑھانا شروع کیا تو اس وقت تک مغربی (یونانی ) فلسفہ و فکز ابھی تک سریانی سے عربی میں ترجمہ نہیں ہوئے تھے اور مترجمین نے صرف ترجمہ کرنے کا آغاز ہی کیا تھا اور بعض فلسفی اصطلاحات کو بھی سمجھ نہیں پائے تھے اس بناء پر ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جعفر صادق نے مغربی علوم کو اپنے پدر بزرگوار سے سیکھا اور جب ان علوم میں ملکہ حاصل کیا تو ان میں اضافہ بھی کیا اور جب تک امام جعفر صادق اپنے پدر گرامی سے ان علوم کو جن کا ابھی سریانی سے عربی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا ‘ نہ سیکھتے تو نہیں پڑھا سکتے تھے ۔
شیعہ اس بارے میں کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق کا علم لدنی تھا ۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہرایک کا باطنی شعور اس کے ظاہری شعور کے برعکس تمام انسانی ا ور دنیوی علوم کا خزانہ ہے اور آج کے علوم بھی اس نظریہ کو مثبت قرار دیتے ہیں کیونکہ آہستہ آہستہ بیالوجی کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہمارے بدن کے خلیوں کا ہر مجموعہ تمام ان معلومات کو جو اسے تخلیق کے آغاز سے آج تک جاننا چاہیے وہ جانتا ہے شیعوں کے عقیدہ کے مطابق جب ایک انسان پیغمبر یا امام بنا کر بھیجا جاتا ہے تو اس کے ظاہری اور باطنی شعور کے درمیان کے تمام پردے اٹھ جاتے ہیں اور امام یا پیغمبر باطنی شعور کی معلومات کی بناء پر تمام انسانی اور غیر انسانی معلومات سے استفادہ کرتا ہے ۔
شیعہ ‘ محمد بن عبداللہ (ص) کے رسول مبعوث ہونے کی بھی اسی طرح وضاحت کرتے ہیں کہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے اور ان کے پاس علم نہ تھا اور غار حرا میں مبعوث ہونے کی رات کو ‘ جب جبرائیل ان پر نازل ہوئے تو کہا " پڑھو " پیغمبر نے جواب دیا میں نہیں پڑھ سکتا ۔
جبرائیل نے دوبارہ زور دے کر کہا پڑھو اور فورا وہ پردے جو ان کے ظاہری اور باطنی شعور کے درمیان حائل تھے اٹھ گئے اور فقط ایک لمحے میں نہ یہ کہ محمد بن عبداللہ خواندہ ہو گئے بلکہ تمام انسانی علوم سے واقف ہو گئے اور شیعہ باطنی شعور کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر کوئی ایک عام باطنی اور ایک بیکران باطنی شعور کا مالک ہے اور عام افراد سوتے میں عام باطنی شعور سے وابستہ ہوتے ہیں اور جو کچھ وہ خواب میں دیکھتے ہیں وہ انکے اور ان کے عام باطنی شعور کے رابطہ کی نسبت ہوتا ہے اور کبھی عام افراد کا جاگنے کی حالت میں اپنے عام باطنی شعور سے رابطہ قائم ہو جاتا ہے اور جو کچھ وہ دیکھتے ہیں وہ عام باطنی شعور کی وجہ سے دیکھتے ہیں لیکن صرف امام کا بیکراں باطنی شعور جس میں تمام انسانی اور عالمی علوم پوشیدہ ہیں سے رابطہ قائم ہوتا ہے اور بعثت کی رات کو صرف ایک لمحے میں اپنے بیکراں باطنی شعور سے مربوط ہو گئے تھے اور اس عقیدہ کی بنیاد پر علوم جعفر صادق کو علم لدنی مانا جاتا ہے ۔
یعنی وہ علم جو ان کے باطنی شعور بیکراں کے خزانے میں موجود تھا شیعوں کا یہ مذہبی عقیدہ اپنی جگہ قابل احترام ہے لیکن ایک غیر جانبدار مورخ اس عقیدہ پر ایمان نہیں لاتا وہ تاریخی سند مانگتا ہے یا کہا جا سکتا ہے کہ وہ مادی سند تلاش کرتا ہے تاکہ وہ سمجھ سکے کہ کس طرح جعفر صادق جو درس دینے تک عرب سے باہر نہیں گئے تھے (اگرچہ نصف عمر کے بعد کئی مرتبہ باہر دور دراز کے سفر پر گئے ) کس طرح انہوں نے فلسفہ اور مغربی فزکس پڑھائی جبکہ اس وقت تک کسی بھی مشہور عرب استاد نے ان علوم کو نہیں پڑھایا تھا پس ہم انداز یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح علم ہیئت و جغرافیہ قبطیوں کے ذریعہ عربوں تک پہنچا اور محمد باقر کے حلقئہ درس میں پڑھایا گیا اسی طرح فلسفہ اورمغربی فزکس بھی محمد باقر کے حلقہ درس میں شامل ہوئی ا ور بعد میں انہوں نے اپنی ذاتی تحقیق کی بنا پر اس میں خاطر خواہ اضافہ کیا ۔ ۸۶ ھ میں امام جعفر کی عمر صرف تین سال تھی جب عبدالملک بن مروان اموی خلیفہ نے دنیا کو وداع کہا اور اس کا بیٹا ولید بن عبدالملک خلیفہ بنا اس نئے خلیفہ نے اپنے پہلے حکم میں ہشام بن اسماعیل حاکم مدینہ کو معزول کیا اور اس کی جگہ عمر بن عبدالعزیز کو حاکم مدینہ مقرر کیا جو اس وقت چوبیس سالہ خوبصورت نوجوان تھے ۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اموی خلفاء جن کی کرسی خلافت و مشق میں تھی پہلے شامی بادشاہوں کی تقلید کرتے تھے اور انہی کی طرح شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے رہتے تھے اور مصر کا حاکم جو اموی خلیفہ کی طرف سے مقرر کیا جاتا تھا ۔ دارالحکومت میں ایک دربار سجاتا اور شان و شوکت سے زندگی گزارتا تھا ۔
ہشام بن اسماعیل (سابق حاکم مدینہ ) اموی خلیفہ کی مانند دمشق میں زندگی گزارتا تھا مگر جب عمر بن عبدالعزیز مدینہ میں آئے تو نہایت انکساری سے مسجد امام محمد باقر کا دیدار کرنے گیاا ور کہا مجھے معلوم تھا کہ آپ درس میں مشغول ہیں اور بہتر یہی ہوتا کہ جب آپ درس سے فراغت پاتے تو میں حاضر خدمت ہوتا مگر شوق زیارت کے باعث صبر نہ کر سکا ۔ بندہ جب تک اس شہر میں مقیم ہے آپ کی خدمت کیلئے حاضر ہے ۔
یہاں اس نکتہ کی وضاحت ضروری ہے کہ علی ابن ابی طالب کی اولاد اموی خلفاء کے زمانے میں مدینے سے باہر کہیں بھی نہیں رہ سکتی تھی اور اگر یہ لوگ کسی اور جگہ زندگی بسر کرنا چاہتے تو نہ صرف یہ کہ اموی حاکم کی سختی کا نشانہ بنتے بلکہ ان کی زندگی بھی خطرے میں ہوتی تھی ۔
امام زین العابدین اسی لئے مدینے میں پڑھاتے تھے کہ کسی دوسرے شہر میں درس کیلئے نہیں جا سکتے تھے چونکہ شہر مدینہ ‘ مدینتہ النبی کے نام سے مشہور تھا اور ان کا گھر بھی وہیں تھا لوگ ان کا احترام کرتے تھے اموی خلفاء میں اتنی جرات نہیں تھی کہ انہیں وہاں تکلیف پہنچائیں یا ان کے درس میں رکاوٹ ڈالیں یہ اس لئے عرض کیا ہے کہ اس بات پر حیرانگی نہ ہو کہ یہ حضرات اموی حاکم ہشام بن اسماعیل کی موجودگی میں کس طرح مدینے میں پڑھا سکتے تھے ۔ ۸۸ھ میں ولید بن عبدالملک نے خلافت کے تیسرے سال مسجد مدینہ کی توسیع کا ارادہ کیا پیغمبر اسلام ا ور ان کے صحابہ کی طرف سے اس مسجد کو بنانے کی تاریخ مشہور ہے اور یہاں بلڈنگ کی تشریح کا تذکرہ ضروری نہیں ۔
اس مسجد کو اس سے پہلے بھی ایک بار وسعت دی گئی تھی اور پیغمبر اسلام کی تمام ازواج جن کے گھر اسی میں تھے بھی سلامت رکھے گئے ۔ مگر بعض بیبیوں نے آنحضرت کی وفات کے بعد خلفائے اربعہ کی معقول امداد سے حجروں سے باہر گھر لے لئے تھے اور ان حجروں کو خیر باد کہہ کر دوسرے مکانوں میں رہائش پزیر تھیں ۔
ھ میں پیغمبر اسلام کی آخری زوجہ جو مسجد کے احاطے میں قیام پذیر تھیں یا تو وہاں سے چلی گئی تھیں یا اس دنیا سے رخصت ہو گئی تھیں کیونکہ مسجد کی توسیع میں اور کوئی رکاوٹ نہ تھی اس لئے اموی خلیفہ نے حاکم مدینہ کو حکم دیا کہ پیغمبر کی تمام ازواج کے گھروں کو مسمار کرکے مسجد کو چالیس ہزار مربع گز تک وسعت دی جائے ۔ طویل دو سو گز اور عرض بھی دو سو گز ہو اس ضمن میں ارد گرد کے مکانات بھی خرید لئے جائیں ۔
عمر بن عبدالعیز نے ایرانی معمار کو جو مسجد کی توسیع کا ناظم تھا کہا کہ میں محمد باقر کا جو مسجد میں درس دیتے ہیں بیحد احترام کرتا ہوں اور تمہارے مزدور اس طرح کام کریں کہ ان کے درس میں خلل واقع نہ ہو جب مسجد مدینہ کی نئے سرے سے بنیادیں رکھی جا رہی تھیں ۔ امام جعفر صادق جو پانچ برس کے تھے اور اگر ان کی تاریخ پیدائش کو ۸۰ھ مان لیا جائے تو اس وقت ان کی عمر آٹھ سال تھی انہوں نے اپنے والد گرامی سے کہا میں اس مسجد کی تعمیر میں شرکت کرنا چاہتا ہوں والد گرامی نے فرمایا تو ابھی چھوٹا ہے تعمیراتی کام میں حصہ نہیں لے سکتا جعفر صادق نے فرمایا میرا جی چاہتا ہے اپنے جد بزرگوار پیغمبر کی طرح اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لوں ۔
پس امام محمد باقر بھی راضی ہو گئے کہ ان کا بیٹا مسجد کے کام میں حصہ لے ۔ بعض کہتے ہیں کہ مسجد کی تعمیر میں جعفر صادق کی شرکت یوں تھی جیسے عموما بچے تعمیر مکان کے دوران میں مٹی گارے سے کھیلنے کا شوق رکھتے ہیں لیکن امام جعفر صادق کا مسجد مدینہ کی تعمیر میں حصہ لینا کھیل کود سے قطعی مختلف تھا اور وہ کمزور ناتواں ہونے کے باوجود تعمیر میں مزدوروں کا ہاتھ بٹا رہے تھے اور دیکھا گیا کہ جب لڑکے آ کر ان سے مسقی روڈ پر کھیلنے کو کہتے تو وہ انکار کر دیتے اور کہتے کہ میرا دل چاہتا ہے میں مسجد میں کام کروں البتہ درس پڑھنے اور مسجد میں کرنے کے علاوہ امام جعفر صادق مسقی روڈ پر اپنے ہم عمر لڑکوں سے کھیلتے تھے ۔
لڑکوں کے کھیل دنیا میں تقریبا ایک ہی جیسے ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا شہر ہو جہاں لڑکوں کیلئے کوئی مخصوص کھیل ہو ۔ لیکن مدینہ میں لڑکوں کیلئے دو مخصوص کھیل تھے جو دوسرے ممالک میں نا پید تھے اور اگر وہ کسی اسلامی شہر میں کھیلے جاتے ہوں گے تو وہ مدینہ ہی سے لئے گئے ہوں گے ۔
پہلا کھیل جس میں سیکھنے سکھانے کی طرف توجہ دلائی جاتی تھی اس طرح تھا کہ جعفر صادق بیٹھتے تھے اور استاد بن جاتے تھے اور دیگر لڑکے ان کے شاگرد پھر آپ کہتے تھے وہ کون سال پھل ہے جو زمین پر یا درخت پر اگتا ہے اور اسکا رنگ مثال کے طور پر سرخ ہوتا ہے اور اس کا ذائقہ میٹھا یا ترش ہوتا ہے اور اس میوہ کے پکنے کے وقت یہ موسم (یا کوئی دوسرا موسم )ہوتا ہے ۔
یہ مضامین جو ہم یہاں پر تحریر کر رہے ہیں مدینہ کے بچوں کی مقامی زبان اور اصطلاحات کی صورت میں زبان پر لائے جاتے تھے اور وہ بچے جو امام صادق کے شاگرد ہوتے آپ انہیں سوچنے اور فکر کرنے کی طرف مائل کرتے تھے اور اگر ان میں سے کوئی ایسا ہوتا جو اس پھل کا نام بتا دیتا تو وہ شاگردی سے استادی کی جگہ حاصل کر لیتا اور امام جعفر صادق کی جگہ بیٹھ جاتا ۔ اور اس دوران میں جعفر صادق شاگردوں میں بیٹھ جاتے ۔
لیکن دو تین منٹ بعد شاگردوں کے گروہ سے خارج ہو جاتے اور پھراستاد بن جاتے تھے چونکہ ذہین تھے جو نہی استاد پھل کے کوائف بیان کرتا جعفر صادق پھل کا نام بتا دیتے ۔
جعفر صادق کا شمار مدینہ کے اشراف میں ہوتا تھا اور اخلاقی مکتب میں ان کے استاد ان کے دادا امام زین العابدین اور باپ امام محمد باقر اور ماں ( ام فروہ ) تھیں لیکن مسقی روڈ پر رہنے والے سارے لڑکے اشراف خاندانوں کے نہیں تھے ان کا باپ محمد باقر جیسا تھا نہ ماں ام فروہ جیسی اور یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ دو کنبوں کے درمیان اخلاقی ماحول کا فرق اگرچہ ہمسائے ہی کیوں نہ ہوں بچوں کے اخلاق پر زبردست اثر ڈالتا ہے ۔
جعفر صادق کو سچ بولنا وراثت میں بھی ملا تھا اور ان کی تربیت بھی ایسی ہوئی تھی کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے تھے اگرچہ ان کے فائدے میں ہی کیوں نہ ہو ۔ لیکن ان کے ہمراہ کھیلنے والے بعض لڑکے جعفر صادق کی طرح تربیت یافتہ نہیں تھے اور اخلاقی تزکیہ میں بھی ان کی مانند نہیں تھے وہ جھوٹ بولتے تھے اور جب استاد بن جاتے تو پھل کے اوصاف بیان کرتے اور جعفر اس پھل کا نام لیتے اور استاد اس غرض سے کہ اس کا مرتبہ ہاتھ سے نہ جائے جھوٹ بولتا تھا اور کہتا تھا یہ پھل نہیں ہے اور دوسرا پھل ہے اور جعفر صادق جب یہ جان لیتے کہ وہ لڑکا جھوٹ بول رہا ہے بہت غمگین ہو جاتے ا ور چونکہ جھگڑا کرنا ان کا شیوہ نہیں تھا کبھی کبھار یہ سوچ کر کہ ان کا حق جھوٹ بول کر پامال کیا جا رہا ہے ‘ رونے لگتے اور کھیل چھوڑ کر دور ہٹ جاتے اور لڑکے بظاہر ننھے جعفر کی طرف توجہ کئے بغیر کھیل جاری رکھتے لیکن انہیں
جلد ہی معلوم ہو جاتا تھا کہ ان کے کھیل میں مزہ نہیں ہے کیونکہ ان میں کوئی بھی جعفر کی مانند ذہین نہیں تھا کہ کھیل جوش و خروش سے جاری رہتا اور اس طرح وہ جعفر کے پاس جانے پر مجبور ہو جاتے ۔
اور ان سے معافی چاہنے کے ساتھ ساتھ دوبارہ کھیل میں شریک ہونے کی درخواست کرتے تاکہ کھیل میں دلچسپی پیدا ہو اور جعفر کہتے کہ وہ اس شرط پر کھیلنے کو تیار ہیں کہ کوئی بھی جھوٹ نہ بولے ‘ لڑکے اس بات کو مان لیتے ۔
دوسر ا کھیل جو مدینے کے ساتھ مخصوص ہے اور کسی ا ور عرب شہر میں رائج ہو تو بھی مدینے سے وہاں گیا ہے ا س کی ترتیب اس طرح تھی کہ ایک استاد اور چند شاگرد چن لئے جاتے تھے ا ور استاد کوئی کلمہ زبان پر لاتا تھا مثلا وہ کہتا تھا "الشراعیہ " جس کے معنی لمبی گردن والی اونٹنی کے ہیں ۔ شاگرد بھی کلمہ الشراعیہ کو زبان پر لاتا تھا اور اس کے بعد شاگرد اسی کلمہ الشراعیہ کی بغیر رکے ہوئے تکرار کرتا اور استاد اس شاگرد کو غلط فہمی کا شکار کرنے کیلئے مسلسل اسی الشراعیہ کے وزن پر کلمات ادا کرتا مثلا کہتا الدراعیہ ‘ الزراعیہ ‘ العلفاثیہ ‘ الکفاقیہ وغیرہ اس میں ضروری نہیں کہ سارے کلمات با معنی ہوں مہمل الفاظ بھی استعمال ہوتے تھے یہاں شاگرد مجبورا رکے اور غلطی کئے بغیر الشراعیہ کی تکرار کرتا تھا اور اگر ایک بار اس سے غلط ہو جاتی اور کوئی دوسرا کلمہ زبان پر لاتا تو کھیل سے خارج ہو جاتا اور استاد دوسرے شاگردوں کے ساتھ کھیل کا آغاز کرتا ۔
لیکن اب استاد دوسرا کلمہ منتخب کرتا اور پھر اسی ترتیب سے با معنی یا بے معنی الفاظ کی تکرار کرتا تاکہ شاگرد کو غلط فہمی کا شکار کرے ۔ امام جعفر صادق ان دو مخصوص مدنی کھیلوں جن میں بیٹھنا اور بولنا ضروری ہوتا تھا کہ علاوہ تمام ایسے کھیلوں میں بھی جن میں دوڑنا ضروری تھا ‘ شرکت کرتے تھے ۔
۹۰ھ میں چیچک جیسی متعدی بیماری کی وباء مدینے میں پھوٹ پڑیا ور کچھ بچے اس میں مبتلا ہو گئے ۔
جعفر اس وقت سات سال یا دس سال کے تھے (یعنی اگر ان کی تاریخ ولادت ۸۰ ہجری یا ۸۳ ہجری مان لی جائے ) اور دس یا سات سال کے بچے بڑے لڑکوں سے مقابلتا کم اس بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں ام فروہ اپنے سارے بچوں (جعفر سمیت ) کو لیکر مدینے سے چلی گئیں ۔ تاکہ اس متعدی بیماری سے ان کے بیٹے بچ سکیں ۔ اور چونکہ ابھی ان کے کسی بیٹے کو یہ بیماری لا حق نہیں ہوئی تھی اسلئے اب چیچک والے شہر سے دور جانا ضروری تھا تاکہ ان کے بچے اس میں مبتلا نہ ہوں اور وہاں جائیں جہاں یہ بیماری نہ ہو ۔
ام فروہ اپنے بیٹوں کے ہمراہ مدینہ کے ایک تفریحی مقام طنفسہ چلی گئیں ‘ جیسا کہ ہم جانتے ہیں ۔بعض دیہاتوں کے نام ان چیزوں یا پیدوار کے نام پر رکھے ہوتے ہیں جو ان دیہاتوں میں پیدا ہوتی ہے اسی طرح طنفسہ میں بھی ایک پودے کے پتوں سے ایک نہایت عمدہ قسم کی بوریا بنائی جاتی تھی جسے طنفسہ کہا جاتا تھا اور اسی وجہ سے اس گاؤں کا نام طنفسہ پڑ گیا اب بھی اس گاؤں کی جگہ موجود ہے لیکن پہلی اور دوسری صدی ہجری کی مانند آباد نہیں ہے ۔
مدینہ ایک صحرا میں واقع ہے لیکن اس کے اطراف میں صحت افزا مقامات ہیں اور مدینہ کے بڑے لوگ گرمیوں میں وہاں جاتے ہیں ام فروہ جب طنفسہ میں رہ رہی تھیں ۔ تو انہیں اطمینان تھا کہ ان بیٹے اب چیچک میں مبتلا نہیں ہوں گے ۔ لیکن وہ اس سے غافل تھیں کہ چیچک کی خطر ناک بیماری ان پر حملہ آور ہو چکی ہے جب وہ بیمار ہوئیں تو چیچک کے تمام مریضوں کی طرح انہیں بھی علم نہ تھا کہ وہ اس میں مبتلا ہو گئیں ہیں حتی کہ وہ اس مہلک بیماری میں مبتلا ہو گئی ہیں حتی کہ چیچک کا پہلا نشان ان کے جسم پر ظاہر ہوا اور چونکہ وہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں جب علم ہوا کہ وہ اس بیماری میں مبتلا ہو گئی ہیں تو انہوں نے اپنی فکر کی بجائے بچوں کی فکر کی اور کہا کہ جلد میری بچوں کو طنفسہ سے دور لے جائیں اور ایسی جگہ لے جائیں جہاں چیچک کی بیماری نہ ہو اس طرح جعفر صادق اور دوسرے سارے بیٹوں کو طنفسہ سے دور ایک دوسرے گاؤں لے جایا گیا مدینہ میں جب محمد باقر کو اطلاع ملی کہ ان کی وجہ چیچک میں مبتلا ہو گئی ہیں جو ایک مہلک مرض ہے لہذا محمد باقر نے درس پڑھانا چھوڑ کر پہلے روضہ نبوی پر حاضری دی (جو اسی مسجد مدینہ کے اندر واقع تھا) اور پیغمبر اسلام کی روح سے التجا کی کہ ان کی وجہ کو شفا عنایت فرمائیں ۔
جب ام فروہ نے اپنے شوہر کو دیکھا تو کہا آپ کیوں یہاں آئے ہیں شاید آپ کو نہیں بتایا گیا کہ میں چیچک میں مبتلا ہوں اور چیچک کے مریض کی عیادت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ عیادت کرنے والا بھی اس بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے ۔
محمد باقر نے فرمایا میں نے پیغمبر اسلام کی روح سے درخواست کی ہے کہ آپ کو شفا دے اور چونکہ روح کے اثرات پر میرا ایمان ہے اس لئے مجھے علم ہے کہ تو بھی شفا پائے گی ا ور میں بھی اس بیماری میں مبتلا نہیں ہوں گا ۔
جس طرح محمد باقر نے کہا تھا اسی طرح ام فروہ کو اس بیماری سے نجات مل گئی اور وہ خود بھی اس بیماری میں مبتلا نہ ہوئے اس خاتون کا تندرست ہو جانا معجزے سے کم نہ تھا کیونکہ چیچک کی بیماری پہلے تو بڑے آدمی پر بہت کم حملہ آور ہوتی ہے اور اگر حملہ آور ہو جائے تو مریض کا صحت یاب ہونا بعید ہوتا ہے ۔
شیعوں کا عقیدہ ہے چونکہ امام محمد باقر امام تھے ا ور ہر امام کے پاس لا محدود طاقت اور علم ہوتا ہے اور جب وہ ام فروہ کے سر ہانے پہنچے تو انہوں نے اپنی امامت کے علم اور طاقت کے ساتھ ام فروہ کو شفا دی ۔
لیکن ایک غیر جانبدار مورخ اس بات پر یقین نہیں رکھتا حالانکہ یہ بات صحیح ہے کہ اس وقت کے طبیب چیچک کا علاج کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے اس لحاظ سے ام فروہ کا تندرست ہو جانا ایک منفرد واقعہ شمار کیا جاتا ہے ۔
تندرست ہونے کے بعد ام فروہ مدینے واپس چلی آئیں لیکن چونکہ ابھی تک چیچک کی بیماری مدینہ میں موجود تھی لہذا اس نے بیٹوں کو شہر نہیں بلایا ۔
اسی سال ۹۰ھ میں اور ایک دوسری روایت کے مطابق ایک سال بعد امام جعفر صادق نے اپنے والد گرامی کے حلقہ درس میں حاضری دینا شروع کیا ۔
اس بات پر تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ جعفر صادق دس سال کی عمر میں اپنے والد کے حقلہ درس میں حاضر ہوئے محمد باقر کا حلقہ درس ایک شاندار مدرسہ تھا اور جو لوگ یہاں سے فارغ ہوتے تھے وہ اس زمانے کے علوم کو سیکھتے تھے لہذا جعفر صادق کی اعلی تعلیم کا آغاز دس سال کی عمر میں ہوا اور یہ بات ایک ذہین لڑکے کے بارے میں حیرت انگیز تھی ۔ مغربی دنیا کی چند ایسی مشہور شخصیتوں کے نام لئے جا سکتے ہیں جنہوں نے دس سال کی عمر میں یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کی ۔
جب امام جعفر صادق اپنے والد گرامی کے حلقہ درس میں شامل ہوئے تو پہلی مرتبہ محمد باقر نے بطلیموس کا جغرافیہ پڑھانا شروع کیا اور پہلے دن جعفر صادق نے بطلیموس کی کتاب المحسبتی کو پڑھا (یاد رہے یہ کتاب علم ہیت اور جغرافیہ کے بارے میں ہے )
آپ نے پہلے ہی دن پہلی مرتبہ اپنے والد سے سنا کہ زمین گول ہے کیونکہ بطلیموس نے جو دوسری صدی عیسوی میں زندہ تھا ‘ اپنی کتاب المحسبتی میں لکھا ہے کہ زمین گول ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لوگ کو پر نیک ‘ نجومی کے زمانے ہی سے جو ۱۴۷۳ عیسوی میں پیدا ہوا اور ۱۵۴۳ عیسوی میں فوت ہوا زمین کے گول ہونے کے قائل تھے ۔
اس صورت میں جبکہ تمام مصری سائنس دان جانتے تھے کہ زمین گول ہے کو پرنیک جو ابھی جوانی کے مرحلے میں داخل ہوا تھا اور اس نے ابھی زمین کے گول ہونے اور سوج کے گرد چکر لگانے کا نظریہ پیش نہیں کیا تھا کرسٹو فر کولمبس زمین کے کروی ہونے کی سند کے ساتھ مشرق کی جانب جہاں خوردنی دواؤں کے جزیرے تھے چل پڑا تاکہ مغرب کے راستے وہاں تک پہنچے ابھی تک کرسٹو فر کولمبس نے اپنی مشہور کتاب ( جس میں اس نے لکھا ہے کہ زمین اور دوسرے سیارے آفتاب کے گرد گھومتے ہیں ) لا طینی زبان میں شائع نہیں کی تھی کہ مالان ( ایک پرتگالی ) جو سپین کے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا ۔ اس نے اپنی کشتیوں کو سیویل کی بندر گاہ سے سمندری راستے پر ڈال دیا اور اس ساری زمین کا ایک مکمل چکر کاٹا اس کے ساتھی تین سال بعد ہسپانیہ واپس آ گئے جبکہ وہ فلپائن کے جزائر میں وہاں کے مقامی باشندوں کے ہاتھوں قتل ہوا اور پہلی بار زمین کے گول ہونے کو ثابت کیا اس طرح پہلی بار تصدیق ہوئی کہ زمین گول ہے ۔
کو پر نیک سے پہلے زمین کا گول ہونا ثابت تھا لیکن بطلیموس نے المحسبتی میں لکھا کہ زمین دنیا کا مرکز ہے اور سوج ‘ چاند ستاریا ور سیارے سب زمین کے گرد چکر لگاتے ہیں لیکن کوپر نیک نے کہا زمین دنیا کا مرکز نہیں ہے بلکہ سورج دنیا کا مرکز ہے اور زمین اور دوسرے سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں ۹۱ھ میں جب جعفر صادق اپنے والد کے حلقہ درس میں شریک تھے تو ان کو دو نئے واقعات پیش آئے جو ان کیلئے خاصی اہمیت کے حامل تھے ۔
پہلا واقعہ یہ تھا کہ امام محمد باقر کے مریدوں اور شاگردوں میں سے ایک جب اپنے وطن مصر سے واپس آیا تو اپنے ساتھ لکڑی اور مٹی سے بنایا ہوا جغرافیائی کرہ لایا کیوں کہ مصر میں مٹی سے بہت سی چیزیں تیار کی جاتی تھیں مثلا مجسمے وغیرہ اور مصر کے باہر رہنے والے لوگ ان اشیاء کو بطور تحفہ لے جاتے تھے یہ خاصی مہنگی فروخت ہوتی تھیں مٹی کا وہ جغرافیائی کرہ جو محمد بن فتی مصر سے محمد باقر کیلئے بطور سوغات لایا تھا ایک ایسے گول ستون کی مانند تھا جس پر کسی کرہ کو رکھتے ہوں گے ۔
یہ گول ستون زمین شمار کی جاتی تھی اور جو کرہ تھا وہ آسمان تھا اور اس کرہ آسمانی پر ستارے اس طرح لگائے گئے تھے جیسے بطلیموس نے دوسری صدی عیسوی میں اظہار خیال کیا تھا ۔ یا اس کا خیال تھا بطلیموس نے آسمانی ستاروں کیلئے جو اس زمانے میں دیکھے جاتے تھے اڑتالیس تصاویر کو مد نظر رکھا جیسا کہ ہم نے کہا ہے یہ تصاویر اس کی اختراع نہیں تھیں بلکہ اس سے پہلے کے نجومیوں نے انہیں ایجاد کیا تھا البتہ بطلیموس نے انہیں ایک مکمل شکل دی ۔ اس کے کہنے کے مطابق دنیا میں ثابت ستاروں کی تعداد اڑ تالیس تھی اور بطلیموس نے اس بڑے آسمانی کرہ پر ہر مجموعہ کی شکل بنائی اور ہر ایک کا نام مصری زبان میں لکھا ۔
اس آسمانی کرہ میں ستاروں کے بارہ مجموعے حمل سے لے کر حوت یعنی برہ سے ماہی تک کمر بند کی مانند اس کرہ کا احاطہ کئے ہوئے تھے اور سورج کو بھی کرہ کے اسی حصہ میں دکھایا گیا تھا تاکہ یہ دکھائیں کہ سورج سال میں ایک مرتبہ آسمان میں اس کمر بندی کے علاقے سے گزرتا ہے ۔ سورج کے علاوہ چاند اور سیارے بھی آسمانی کرہ میں نظر آتے تھے اور سیارے بھی سورج اور چاند کی طرح زمین کے ارد گرد گھومتے تھے ۔
مختصر یہ کہ اس آسمانی کرہ میں دنیا کا مرکز زمین تھا اور سورج چاند اور سیارے زمین کے ارد گرد حرکت کرتے دکھائے گئے تھے یہ پہلا کرہ آسمانی تھا جو آسمان کے متعلق امام صادق نے دیکھا تھا اور ابھی آپکی عمر گیارہ سال سے زیادہ نہیں ( اگر آپ کی تاریخ والدت ۸۰ھ مان لی
جائے ) کہ آپ نے اس کرہ اور بطلیموس کے جغرافیہ کے بارے میں اظہار خیال فرمایا اور کہا سورج سال میں ایک بار کرہ زمین کے ارد گرد چکر لگاتا ہے اور اس کی گردش کا راستہ بارہ برج ہے اور ان میں ہر برج کا تیس رات دن قیام ہے اس طرح تو ہمیں ہر وقت سورج دکھائی دینا چاہیے ۔
گیارہ سالہ بچے کا اظہار خیال نہایت ماہرانہ تھا اور جب آدمی یہ کرہ سوغات لے کر آیا تھا اس نے جوابا کہا بطلیموس کہتا ہے کہ سورج کی حرکات دو قسم کی ہیں ایک حرکت بروج کے احاطے میں ہے اور سورج سال میں ایک بار بارہ برجوں سے گزرتا ہے اور زمین کے ارد گرد چکر لگاتا ہے اور سورج کی دوسری حرکت کرہ زمین کے ارد گرد ہے ہر رات دن ایک دفعہ زمین کے گرد چکر لگاتا ہے اور نتیجہ ہم ہر صبح اسے طلوع ہوتے ہوئے اور ہر شام کو غروب ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔
جعفر صادق نے فرمایا ممکن ہے یہ دونوں حرکات ایک ساتھ ہوں کیونکہ سورج جب بروج کے احاطے میں گردش میں مشغول ہوتا ہے کس طرح سے چھوڑ کر زمین کے اردگرد چکر لگا سکتا ہے ۔
سوغات لانے والے نے کہا سورج رات کو بروج کے احاطے کو ترک کرتا ہے تاکہ زمین کے گرد چکر لگائے اور صبح کے وقت زمین کے مشرق سے طلوع کر سکے جعفر صادق نے فرمایا اس طرح تو سورج صرف دن ہی کو بارہ میں سے کسی ایک برج میں ہوتا ہے اور راتوں کو وہاں نہیں ہوتا کیوں کہ آپ کے بقول رات کو اسے چاہیے کہ وہ جگہ چھوڑ دے اور زمین کے گرد چکر لگائے تاکہ صبح زمین کے مشرق سے طلوع کر سکے اگر ایسا ہے تو رات کو سورج ہمیں کیوں دکھائی نہیں دیتا شاید اپنے چہرے پر پردہ ڈال دیتا ہے تاکہ دکھائی نہ دے ۔
جس وقت جعفر صادق نے اس آسمانی کرہ کو دیکھا تھا ۔ بطلیموس کی موت کو پانچ سو ساٹھ سال ہو گئے تھے اور ابھی تک کسی نے بھی غور نہیں کیا تھا کہ اس آسمانی کرہ کے بارے میں اظہار خیال کرے اور پوچھے کہ کس طرح سورج جو بقول بطلیموس ہر برج میں تیس دن سفر کرتا ہے اور زمین کے گرد بھی چکر کاٹتا ہے ہر روز و شب میں ایک مرتبہ اپنے ٹھکانے اور راستے کو بدلتا ہے تاکہ زمین کے گرد چکر لگائے ان پانچ سو ساٹھ سالوں میں کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ بطلیموس کی ہےئت پر تنقید کرے اور کہے کہ سورج کی زمین کے اردگرد گردش جو وہ بروج کے احاطے ہو کر کرے عقلی لحاظ سے قابل قبل نہیں ہے ۔
کسی نے بھی بطلیموس کی کتاب المحسبتی کو پڑھتے ہوئے ان پانچ سو سالوں میں کوشش نہیں کی کہ اپنی عقل کو استعمال کرے ۔ جب کہ علم نجوم کے بارے میں بطلیموس کا نظریہ کوئی بھی نہیں تھا کہ ہم کہیں اسے بلا چوں و چرا قبول کر لیا جانا چاہیے تھا البتہ پہلے زمانے میں دو باتیں سائنس دانوں پر تنقید سے روکتی تھیں پہلی یہ کہ استاد کا احترام ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا کہ جو کچھ استاد نے کہا ہے صحیح ہے اور اس پر تنقید نہیں کی جا سکتی اور دوسری پرانے لوگوں کی سستی ۔ اس سے ہماری مراد عام لوگوں کی ذہنی سستی ہے کیونکہ پرانے وقتوں میں عام لوگوں سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ علمی مسائل کے بارے میں اپنا اظہار خیال کریں اس کی وجہ ترویج علم کے وسائل کی محدودیت تھی اور صرف وہ لوگ جو مشرق و مغرب کے مدارس میں علم حاصل کرتے تھے انہیں علم سے دلچسپی تھی اور ان علمی مدارس کے باہر سے کوئی آدمی علم کے بارے میں اپنے شوق کا اظہار کرتا تو وہ بھی ان مدارس کے علماء سے رابطے کی وجہ سے علم سے لگاؤ پیدا کر لیتا تھا ۔
اور یہ صورت حال کم و بیش موجود تھی کہ چھپائی کی صنعت ایجاد ہوئی اور مغرب میں علم کو یونیورسٹی کی حدود سے نکال کر عام آدمی کی رسائی تک پہنچا دیا ۔ لیکن مشرق میں اس وقت تک علم مدارس سے باہر نہیں نکلا تھا ۔ بہر حال جس طرح مشرق کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں کسی نے بطلیموس نجومی کے نظریہ پر تنقید کرنے کی طرف توجہ نہیں دی ا سی طرح مغرب کی بڑی بڑی یونیورسٹیاں بھی اس بارے میں لا پرواہ رہی ہیں ۔
وہ پہلا شخص جس نے اس نظریہ کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ۔ وہ جعفر صادق تھے جب وہ اپنے والد کے حلقہ درس میں شریک تھے تو انہوں نے فرمایا کہ بطلیموس نجومی کا نظریہ عقلی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہے ۔
اس کے بعد اس ہونہار نے بطلیموس کے نظام نجوم کے بارے میں سوچنا شروع کیا کہ اس نظام میں کون سی خرابی ہے ؟ اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سورج بارہ برجوں میں زمین کے ارد گرد بھی گھومتا ہے اور اسی طرح ہر روز زمین کے مشرق سے طلوع اور غرب بھی ہوتا ہے ۔
جب جعفر صادق اپنے والد گرامی کے حلقہ درس میں ہر روز حاضر ہوئے تو ان کی نظر کرہ آسمانی پر پڑتی اور وہ بطلیموس نجومی کے نظام میں نقص کے مسئلہ کا اعادہ کرتے لیکن ان کے والد یہ کہہ کر خاموش کرا دیتے کہ بطلیموس نے علطی نہیں کی یہ فطری بات ہے کہ وہ گیارہ سالہ بیٹا باپ کے احترام میں خاموش ہو جاتا اور اپنی تنقید کو مزید آگے نہیں بڑھاتا تھا اور جو لوگ اس حلقہ درس میں حاضر ہوتے تھے ان سے بھی کوئی مدد حاصل نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ بھی معتقد تھے کہ بطلیموس نے غلطی نہیں کی اور سورج اس کے بتائے ہوئے نظام کے مطابق زمین کے ارد گرد چکر لگاتا ہے ۔
جیسا کہ ہم نے کہا امام محمد باقر کے حلقہ درس میں اس طرح جدت آئی کہ شروع میں وہاں جغرافیہ اور ہیئت ہی پڑھائی جاتی تھی لیکن بعد میں علم ہندسہ کی تعلیم بھی شروع ہوئی ۔ بہر کیف استاد محمد باقر ہی رہے علم ہندسہ بھی جغرافیہ اور ہیئت کی مانند قبطی دانشوروں کے ذریعے مصر کے راستے محمد باقر تک پہنچا اور انہوں نے یونانی اقلیدس (جو تین صدیاں قبل مسیح میں پیدا ہوا تھا ) کے علمی قواعد سے استفادہ کیا خود اقلیدس اور اس سے پہلے بھی لوگوں کا عقیدہ تھا کہ زمین گول ہے اگرچہ وہ ایک عظیم انجینئر تھا لیکن وہ زمین کے طول و عرض کا اندازہ نہیں کر سکا تھا ۔
اس سے پہلے کہ یونان کی تاریخ ترتیب دی جاتی اور ہم جانتے ہیں کہ یونانی لوگوں نے دن و رات کے تبدیل ہونے کے بارے میں کیا نظریہ پیش کیا تھا ؟ یونانی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ یونانی ہزاروں کی تعداد میں سورج کے وجود کے قائل تھے اور ان کا خیال تھا کہ جو سورج صبح طلوع اور شام کو غرب ہوتا ہے وہ ایک ایسی جگہ جاتا یا گرتا ہے جس کے بارے میں کچھ علم نہیں ہو سکتا اور جو سورج دوسرے دن مشرق سے طلوع ہوتا ہے وہ پہلے دن والا سورج نہیں ہے اس طرح قدیم یونانیوں کے عقیدہ کے مطابق ہر دن ایک نیا سورج طلوع ہوتا ہے اور پہلی دن والا سورج نہیں ہوتا ۔
وہ کہتے تھے کہ زؤس (خداؤں کا خدا ) جسے لا طینی میں جوپیٹر (jupitor)کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اس کے پاس بہت زیادہ آگ یا روشنی کے چراغ ہیں اور ہر صبح اس آگ یا چراغوں میں سے ایک کو آسمان کی طرف بھیجتا ہے تاکہ زمین کو روشن اور گرم رکھے اور جس وقت ختم ہو کر راکھ بن جاتی ہے یا چراغ میں تیل نہیں رہتا تو وہ غرب ہو جاتا ہے اور خاموش چراغ وہاں گرتے ہیں جہاں تک کسی کی رسائی نہیں ۔
کیا زؤس خداؤں کا خدا جو ہر دن ایک سورج کو آسمان پر بھیجتا تھا بجھے ہوئے چراغوں سے استفادہ کرتا تھا اور ان کا تیل بدلتا تھا تاکہ دوبارہ انہیں آسمان پر بھیجے ؟ اس سوال کا جواب مشکوک تھا ۔ اور بعض کا عقیدہ تھا کہ زؤس بجھے ہوئے چراغوں سے استفادہ کرتا ہے اور بعض کا یہ عقیدہ تھا کہ استفادہ نہیں کرتا ۔
قدیم یونانیوں نے ستاروں کے مسائل کو اپنے لئے آسان بنا دیا تھا اور ہر چیز کی وضاحت زؤس کے فیصلوں اور کاموں سے کرتے تھے ۔
پانچویں صدی قبل از مسیح جو یونانی دانشوروں کا عہد ہے اور ان کی علمی تاریخ بھی موجود ہے ۔ یونانی علماء نے اس طرف توجہ کی کہ دن رات کے فرق کی وجہ معلوم کریں جو کوئی قدیم یونان سے واقف ہے وہ اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ قدیم یونانی دانشوروں میں سے بہت کم ایسے تھے جنہوں نے دن و رات کے فرق کی وجہ معلوم کرنے کی طرف توجہ دی ۔
ان دانشوروں میں سے تین مشہور یعنی سقراط ‘ افلاطون اور ارسطوں ہیں یہ دوسرے علوم کے مقابلے میں علم الاجتماع سے زیادہ لگاؤں رکھتے ہیں یہاں تک کہ ارسطو جس نے فزکس اور ہوا کہ بارے میں بھی لکھا ہے وہ بھی علم الاجتماع سے خاص دلچسپی رکھتا تھا اور اس کا مستائی فلسفہ علم الاجتماع سے ملتا جلتا ہے ( مستی کے معنی ہیں راہ چلنا چونکہ ارسطو چلتے ہوئے پڑھاتا تھا ) جن چند لوگوں نے دن و رات کے فرق کی وجہ کو معلوم کرنے کی جانب توجہ کی ان میں سے ایک اقلیدس بھی تھا جس کا شمار نہ تو انجینئرز میں اورنہ نجومیوں (ماہرین فلکیات ) میں ہوتا تھا ۔ مشرق کی طرف سے اقلیدس کا خیال تھا کہ یہ کہانی زؤس ہر دن ایک گولہ آگ یا چراغ آسمان پر بھیجتا ہے ۔
یہ چراغ آسمان کو عبور کرنے کے بعد بجھ جاتا ہے درست نہیں ہو سکتی وہ بطلیموس سے ۴۵۰ سال پہلے اسکندریہ میں رہتا تھا اس نے کہا سورج جو دوسرے دن طلوع ہوتا ہے وہی سورج ہوتا ہے جو پہلے دن طلوع ہوتا ہے اور ایک دن بعد مشرق سے طلوع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تیسری صدق قبل مسیح ایک ایسی صدی تھی جس میں یونان اور اسکندریہ میں علم نے ترقی کی لیکن اس میں اتنی جرات نہیں ہوئی کہ وہ دن و رات کے وجود میں آنے کے سبب کو اپنی زندگی میں بیان کر سکے ۔
وہ ارسطو کے ایک صدی بعد دنیا میں آیا اور اس سے قبل ہی یونانی دانشوروں نے علم کو قبول کرنے کے لئے اذہان کو آمادہ کر لیا تھا اور اسی دور میں جس میں اقلیدس رہتا تھا ۔ پیرون نام کا ایک آدمی جس نے یونان میں نہ صرف یہ کہ ارسطو اور افلاطون کے نظریات کی مخالفت کی بلکہ یونانی خداؤں یعنی یونان کے سرکاری مذہب کی بھی مخالفت کی اور کہا کہ یونانی خدا محض ایک افسانہ ہیں ۔
لیکن پیرون جو ۲۷۰ قبل مسیح میں فوت ہوا اور اپنے نظریہ کو کھلم کھلا بیان کر سکتا تھا وہ اسکندریہ میں نہیں رہتا تھا بلکہ یونان اور الپز میں رہتا تھا اس زمانے میں یونان الپز یا خود مختار ریاستوں پر مشتمل تھا ۔
اقلیدس اسکندری میں بطالسہ سلسلہ کے پہلے یونانی بادشاہ کے دور میں ہو گزارا ہے اور اسکندریہ مقدونی کے سرداروں میں سے ایک بطلیموس نامی سردار تھا جو کہتا تھا علم ہر محکمہ میں رائج ہو سکتا ہے اور ہونا چاہیے ۔ لیکن وہ خداؤں کے متعلق کوئی بات نہ کہتا تھا اور بطلیموس اول کی علم پروری کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے ایک ایسا کتاب خانہ قائم کیا جس نے اسکندریہ میں اس قدر اہمیت اختیار کر لی کہ صدیوں بعد بھی جب مورخین کتب خانہ کا نام لیتے تھے تو ان کی مراد کتاب خانہ اسکندریہ ہوتا تھا ۔