تیسرا حصه
حضرت ولی عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ)
کی طویل عمر
طولانی عمر
انسانیت ہمیشہ سے جن چیزوں کی متلاشی ہے ان میں سے ایک مسئلہ طویل عمر کا بھی ہے،صحت وتندرستی کے ساتھ طویل عمر ایسی بیش بہا نعمت ہے جس کی کوئی قیمت معین نہیں کی جاسکتی۔
انسانی وجود میں حب ذات، حبّ بقا ودوام اور فطری خواہشات ہمیشہ سے انسان کو طویل عمر کا عاشق وشیدا بنائے ہوئے ہیں اور یہی چیزیں انسان کو اس راہ میں سعی پیہم اور جہد مسلسل پر آمادہ کرتی ہیں کہ بہت کم مدت کے لئے ہی سہی مگر سلسلہٴ عمر کچھ اور دراز ہوجائے۔
اس موضوع سے متعلق مطالعہ وجستجو سے یہ بات تو صاف طور پر عیاں ہوتی ہے کہ ”بہت طویل عمر کا امکان“ تو ہمیشہ سے مسلم رہا ہے اورآج تک کسی نے بھی طول عمر کے ممکن نہ ہونے یا محال ہونے کاد عویٰ نہیں کیا ہے۔
ہم پہلے عصری علوم جیسے علم طب، زولوجی اور دیگر مخلوقات کے بارے میں موجودہ معلومات کی روشنی میں انسان کی صورت حال کا موازنہ کریں گے اس کے بعد آسمانی مذاہب میں تلاش کریں گے کہ آسمانی مذاہب کی روسے طو ل عمر کا نظریہ ممکن اور قابل قبول ہے یانہیں؟
طول عمر سائنٹفک نقطہٴ نظر سے
آج سائنسی نقطہٴ نظر طول عمر کی مکمل تائید کرتا ہے اور سائنس کے اعتبار سے طول عمر کے لئے کی جانے والی انسانی کوششیں نتیجہ خیز ہیں اوراس میں کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہیں ان کوششوں کو جاری رہنا چاہئے اورسائنس کے لحاظ سے طول عمر کی کوئی حد معین نہیں کی جاسکتی۔
سائنس کے مطابق آج شرح اموات میں کمی اورعمر کو طولانی کرنے کی بات تھیوری کے مرحلہ سے نکل کر عملی منزل میں داخل ہوچکی ہے اور بہت تیزی کے ساتھ ترقی کے مراحل طے کررہی ہے اور ایک صدی سے کچھ زیادہ عرصہ میںعمرکا اوسط ۴۷ سے بڑھ کر ۷۴ ہوچکا ہے۔
ڈاکٹر الکسیس کارل نے ۱۹۱۲ءء میں ایک مرغ کو تیس سال تک زندہ رکھا جب کہ مرغ کی زندگی دس سال سے زیادہ نہیں ہوتی ہے (۱)
آٹھ سو سال زندگی
ڈاکٹر ہنری حیس کہتا ہے کہ عمومی شرح اموات کو دس سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات کے برابر پہنچانا چاہئے اور جس دن ایسا کرنا عملاً میسر ہوجائے گا مستقبل کا انسان آٹھ سو سال زندگی بسر کرے گا(۲)
دنیاکے دانشور حضرات انسان کی طبیعی عمر کے لئے آج تک کوئی حتمی سرحد معین نہیں کرسکے ہیں اور ان دانشوروں نے اپنے اپنے لحاظ سے الگ الگ حد معین کی ہے ”پاولوف“کا خیال ہے کہ انسان کی طبیعی عمر ۱۰۰ سال ہے جبکہ ”مچنیکوف“ کے خیال میں اوسط عمر ۱۵۰ سے ۱۶۰ سال کے درمیان ہونا چاہئے۔
جرمنی کے مشہور ومعروف ڈاکٹر ”گوفلاند“ کا نظریہ ہے کہ عموما ًانسان کی اوسط عمر ۲۰۰سال ہے۔
انیسویں صدی کے معروف فزیشین ”فلوگر“ کے مطابق طبیعی عمر ۶۰۰ سال اور انگلینڈ کے
”روجر بیکن“ نے ۱۰۰۰ سال بیان کی ہے(۳)
----------
(۱/۲)روزنامہ اطلاعات شمارہ ۱۱۸۰۵۔
(۳) مجلہ دانشمند شمارہ ۶۱۔
لیکن ان میں سے کسی نے بھی ایسی کوئی دلیل پیش نہیں کی ہے جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ اس کی بیان کردہ عمر حرف آخر ہے اوراس سے زیادہ عمر کا امکان ہی نہیں ہے۔
روس کے معروف ماہر طب اور فزیالوجسٹ ”ایلیا مچنیکوف“ کا نظریہ ہے کہ ”انسان کے بدن کے خلیوں (Cells) کی تعداد تقریباً ۶۰ کھرب (ٹرملین) ہے جو آنتوں خصوصاً بڑی آنت کے بیکٹریا سے مترشح ہونے والے مادہ کی وجہ سے مسموم ہوتے رہتے ہیں، آنتوں سے روزانہ تقریباً ۱۳۰کھرب بیکٹریا پیدا ہوتے ہیں، بہت سے بیکٹریا بدن کے لئے نقصان دہ نہیں ہوتے لیکن بعض بیکٹیریا زہریلے اور نقصان دہ ہوتے ہیں، ایسے بیکٹیریا بدن کو اندر سے اپنے زہر کے ذریعہ مسموم کرتے رہتے ہیں جس کے نتیجہ میں انسانی بدن کو صحیح وسالم رکھنے والے اجزاء اور خلیے قبل از وقت ضعیفی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ضعیف ہونے کے بعد حیات کی ضرورتوں کو پورا کرنا ان کے لئے مشکل ہوجاتا ہے اور یہ خلیے مردہ ہوجاتے ہیں(۱) کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر ”اسمیس“ کا کہنا ہے کہ ”سن اور عمر کی حد بھی صوتی دیوار کی طرح ہے اور جس طرح آج صوتی دیوار ٹوٹی ہے اسی طرح ایک نہ ایک دن عمر کو محدود کرنے والی دیوار بھی ٹوٹ جائے گی۔“ (۲)
سترہزار سال عمر
پانی کے بعض چھوٹے جانوروں پر کی گئی تحقیقات کے نتیجہ میں سائنس داں کافی حد تک پر امید ہیں، دوران زندگی میں تبدیلی کا امکان بہر حال ہے، اسی طرح محققین نے پھلوں پر پائی جانے والی مکھیوں پر جو تجربات کئے ہیں اس کے نتیجہ میں ان کی طبیعی عمر میں ۹۰۰ گنا کا اضافہ ہوگیا ہے،(۳) اسی طرح اگر ایسا تجربہ انسان پر بھی کیا جائے اور وہ تجربہ کامیاب رہے اور انسان کی طبیعی عمر۸۰ سال
------------
(۱) مجلہ دانشمند شمارہ ۶۱۔ (۲)اطلاعات ۱۱۸۰۵۔ جیٹ اور سپر سونیک طیاروں سے پہلے یہ تصور عام تھا کہ آواز کی رفتار سے تیز سفر کرنا ممکن نہیں ہے گویا آواز کی رفتار سرعت کی راہ میں حائل ہے لیکن سوپر سونیک طیاروں کے وجود میں آنے سے یہ حائل ختم ہوگیا۔ (مترجم)
(۳) الہلال، شمارہ ۵ ص۶۰۷، منتخب الاثر، ص۲۷۸۔
فرض کی جائے تواس بات کا امکان ہے کہ انسان کی عمر ۷۲ ہزار سال ہوجائے۔
اسی طرح حیوانات پر دوسرے تجربات بھی کئے جارہے ہیں جس کے نتائج انسان کے لئے امید افزا ہیں اور توقع کی جاتی ہے کہ مستقبل میں طول عمر اور جوانی کی واپسی ،ہر ایک کے اختیار میں ہوگی۔
بہت سے محققین کے نزدیک اصل مساٴلہ، جوانی کے برقرار رہنے یااس کی واپسی کا ہے نہ کہ طول عمر کاان کے خیال میں طول عمر اور مخصوص حالات وشرائط میں زندگی کی بقا تومسلّم ہے گویا یہ معمہ تو حل شدہ ہے بس ضعیفی کے لئے کوئی راہ حل تلاش کرنا چاہئے۔
کوئی ایسا انجکشن تلاش کرنا چاہئے جو ضعیفی کو روک دے اس لئے کہ اگر عمر طولانی ہوجائے مگر اس کے ساتھ بڑھاپے کی زحمتیں ہوں توایسی عمر لذت بخش نہ ہوگی۔
میڈیکل سائنس کے بعض ماہرین نے اس سے بڑھ کر مبالغہ سے کام لیا ہے اور کہتے ہیں کہ ”موت دنیا کے حتمی اصولوں میں سے نہیں ہے“(۱) ان کے خیال میں موت نہ طول عمر کا نتیجہ ہے اور نہ بڑھاپے کا بلکہ بیماری اور حفظان صحت اور مزاج کی سلامتی کے اصولوں کی رعایت نہ کرنے کا نتیجہ ہے اگر انسان ان عوامل پر غلبہ حاصل کرلے جو مزاج کو متاثر کرتے ہیں تو موت کا اختیار انسان کے ہاتھ میں ہوگا۔
ان عوامل سے مراد ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی کے مزاج کی صحت، انھیں تولید مثل اور حفظان صحت کے طبی اصولوں کا علم، آداب نکاح، دوران حمل ماں کے مزاج کا اعتدال، حمل اور رضاعت کے دوران حفظان صحت کے اصولوں کی رعایت، حسن تربیت، مناسب آب و ہوا، آرام دہ مشاغل، معاشرت اور لباس وغیرہ میں اعتدال، نیک باایمان، پاک باز، پاک طینت، خرافات اور باطل عقائد سے منزہ افراد کی صحبت، صحیح اور مناسب غذا، نشہ آور چیزوں سے پرہیزوغیرہ ہیں اور چوں کہ
-----------
(۱)البتہ قرآن مجید کی صریحی آیات کے مطابق ہر جاندار کے لئے موت ایک حتمی مرحلہ ہے اوران سائنس دانوں کا یہ نظریہ مبالغہ آمیز ہے۔
ان میں سے اکثر انسان کے اختیار میں نہیں ہیں اس لئے انسان مغلوب ہوکر موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے، بیمہ کمپنیوں کی جانب سے اموات کے بارے میں اعداد وشمار شائع ہوتے ہیں ان کے مطابق مختلف مشغلوں،ماحول اورسکونت سے تعلق رکھنے والے افراد کی موت کی شرح مختلف ہوتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوسط عمر کا تعلق بیرونی عوامل سے ہے اور جس حد تک یہ عوامل کم ہوتے جائیں گے عمر طولانی ہوتی جائے گی، بارہا ایسے افراد دیکھنے کو ملتے ہیں جن کی عمر ۱۵۰، ۱۶۰، ۱۷۰، یا دو سو سال سے بھی زیادہ ہے ، ہمارے دور میں بھی ایسے افراد موجود ہیں جن کی عمر ۱۵۰سال سے زیادہ ہے اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ موت کے عوامل ان کے قریب نہ آسکے۔
خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ طویل عمر کا امکان علم وسائنس کے نقطہٴ نظر سے سوفیصدی قابل قبول اور ناقابل تردید ہے۔
اکثر وبیشتر ہم زیادہ طولانی عمر پر اظہار تعجب کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مختصر عمر سے مانوس اور اسی کے عادی ہیں اس سلسلہ میں انگلینڈ کے ایک ڈاکٹر کی رائے پر غور فرمائیں، یہ ڈاکٹر کہتا ہے کہ اگر پنامانہر کے علاقہ کو جہاں بہت بیماریاں پائی جاتی ہیں دنیا کے دوسرے حصوں سے جدا کردیا جائے اور ہم پنامانہرکے علاقہ میں زندگی بسر کریں اور ہمیں دنیا کے دوسرے حصوں کی شرح موت وحیات کے بارے میں کوئی اطلاع نہ ہو تو اس علاقہ میں اموات کی کثرت اور عمر کی قلت کو دیکھ کر ہم یہی فیصلہ کریں گے کہ طبیعی طور پر ہر انسان کی عمر اتنی ہی ہے اوراس میں کوئی تبدیلی علم وسائنس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے جس سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ چوں کہ بعض بیماریا ں ابھی لاعلاج ہیں لہٰذا شرح اموات میں کمی اورعمر کو طولانی بنانا مشکل نظر آتا ہے اگر کوئی مجھ سے اس بارے میں بحث کرے اور کہے کہ شرح اموات یہی ہے اور عمر کا اوسط بہرحال معین ہے تو اس سے سوال کروں گا کہ کون سی اوسط عمر معین ہے؟ ہندوستان کی اوسط عمر یا نیوزی لینڈ یا امریکہ یا پناما نہر کی؟
وہ کون سے پیشے یا مشاغل ہیں جن کی اوسط عمر مقرر ہے؟
کیا آپ علم افلاک اور علم نجوم کے پیشہ کی عمر کو مقررہ حد مانتے ہیں جس کی شرح اموات اوسط سے ۱۵ سے ۲۰فیصدی کم ہے؟
یا وکالت کے پیشہ کو جس کی شرح اموات حد متوسط سے ۵ سے ۱۵فیصد ی زیادہ ہے؟نالوں وغیرہ کی صفائی کا پیشہ جس کی شرح اموات اوسطاً ۴۰ سے ۶۰ فیصد زیادہ ہے؟ پیشہ ومشغلہ کی لحاظ سے اوسط عمر کے درمیان اختلاف کی یہ چند مثالیں تھیں ان کے علاوہ بھی ہمارے پاس اور بہت سی دلیلیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مصنوعی وسائل کے ذریعہ دوران حیات میں تبدیلی ممکن ہے کیوں کہ اب تک بعض جانوروں پر جو تجربات کئے گئے ہیں وہ سب کامیاب رہے ہیں(۱)
طول عمر اور دین
تمام ادیان میں متفق علیہ طور پر کچھ لوگوں کی بہت طویل عمر کے بارے میں بیان کیا گیا ہے:
تحریف شدہ موجودہ توریت جس پر یہودونصاریٰ ایمان رکھتے ہیں سفر تکوین اصحاح ۵ آیت ۵، ۸، ۱۱، ۱۴، ۱۷، ۲۰، ۲۷، ۳۱، اصحاح ۹ آیت ۲۹، اصحاح، ۱۱ آیت ۱۰ تا ۱۷۔ اور دیگر مقامات پر صراحت کے ساتھ متعدد انبیائے کرام اور دیگر افراد کے اسماء کا تذکرہ ہے جن کی عمریں چار سو، چھ سو، سات سو، آٹھ سو یا نو سو سال تھیں۔ (۲)
اس کے علاوہ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ ”ایلیا“ کو زندہ ہی آسمان پر اُٹھا لیا گیا ہے تاکہ انھیں موت کی اذیت برداشت نہ کرنا پڑے، ایک یہودی مفسر ”آدم کلارک“کہتا ہے کہ : ”اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ایلیا کو زندہ ہی آسمان پر اُٹھا لیاگیا۔(۳)
----------
(۱)الہلال، شمارہ ۵ طبع ۱۹۳۰،منتخب الاثر ۲۷۷و۲۷۸۔
(۲) عبرانی، کلدانی اور یونانی زبان سے عربی میں ترجمہ شدہ توریت مطبوعہ بیروت ، ۱۸۷۰ءء کی طرف رجوع فرمائیں۔
(۳) اظہار حق، ج۲ص۱۲۴۔
دین مبین اسلام
دین اسلام کی رو سے طولانی عمر کا مسئلہ قطعی طور پر متفق علیہ ہے، قرآن کریم سورہٴ عنکبوت آیت ۱۴ میں حضرت نوح کی طولانی عمر کے بارے میں صراحت کے ساتھ اعلان کرتا ہے:
”فلبث فیہم اٴلف سنة الا خمسین عاماً“
اس آیت کریمہ کے مطابق حضرت نوح علی نبینا وآلہ وعلیہ السلام اپنی قوم کے درمیان طوفان سے قبل نو سو پچاس سال تبلیغ کرتے رہے، تبلیغ سے قبل اورتبلیغکے بعد آپ کتنی مدت تک زندہ رہے اسے خدا ہی جانتا ہے۔
تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ جناب عیسیٰ بلکہ جناب خضر، جناب الیاس اورادریس اب بھی زندہ ہیں، اور حضرت عیسیٰ آخری زمانہ میں زمین پر تشریف لائیں گے اور حضرت مہدی (عج) کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے۔
تاریخی لحاظ سے بھی طویل عمر کامسئلہ مسلّم ہے جو تاریخ ہماری دست رس میں ہے اس کے مطابق بے شمار افراد نے طویل عمر پائی ہے۔
طویل عمر بسر کرنے والوں کے بارے میں کتابیں بھی لکھی گئی ہیں جن میں ابوحاتم سجستانی (متوفی ۳۵۰) کی کتاب ”المعمّرون“ بہت مشہور ومعروف ہے،افراد کے حالات زندگی اور علم رجال کے لئے یہ کتاب ماخذ ومنبع کی حیثیت رکھتی ہے کچھ عرصہ قبل جدید فہرست اور نفیس اسلوب کے ساتھ شائع ہوئی ہے اس کتاب میں تاریخی حوالوں کے ساتھ طول عمر کے مسئلہ کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
نتیجہ
گذشتہ باتوں کی روشنی میں جس چیز کو بھی معیار قرار دیا جائے طویل عمر بہرحال ممکن ہے چاہے عہد قدیم کی تاریخ ملاحظہ کی جائے یا علم قدیم اور فلسفہٴ یونان کو معتبر تسلیم کیا جائے یا جدید علوم پر اعتماد کیا جائے یا انبیاء ومرسلین کی خبروں کو بنیاد بنایا جائے یہ تمام چیزیں طویل عمر کے نہ صرف امکان بلکہ اس کے وقوع کو بھی ثابت کرتی ہیں اور ان تمام منابع کے مطابق طولانی عمر کوئی خارق العادات یا معجزاتی چیز نہیں ہے بلکہ عالم طبیعت کے تمام قوانین میں شامل ہے۔
البتہ اتنا ضرور ہے کہ چونکہ طولانی عمر کے افراد بہت کم ہوتے ہیں لہٰذا ہمارا ذہن اتنی طویل عمر سے ذرا نامانوس ہوتا ہے اور ہمیں عجیب سا محسوس ہوتا ہے جب کہ علم وسائنس کے مطابق مختصر اور کم عمر، خلقت اور عالم طبیعت پر حکمراں قوانین کے خلاف ہے اور اگر سابق الذکررکاوٹیں دورہوجاتیں تو مختصر عمر بھی غیر عادی شمار کی جاتی۔
|