حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)
تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں
 

تیاری کی شرائط
تیاری کی جتنی اقسام ہیں جیسا کہ بعد میں بیان ہوگا، اسے ایک دائرہ میں اور کچھ شرائط کے تحت ہونا ہوگا اس کے لئے ضوابط اور قوانین ہیں جو مل کر مطلوبہ ہدف کو حاصل کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان امور میں اشارہ ممنوع ہے کیونکہ ایسی حکومت کے قیام کی بات کر رہے ہیں۔جس میں ظلم نہیں ہو گا جس میں رشوت نہیں ملے گی، جس میں دھوکہ نہیں ہوگا، جس میں بغض، کینہ،حسد نہیں ہوگا۔
ضروری ہے کہ جو تیاری کے مرحلہ سے گزرنا چاہتا ہے وہ ایسے صفات سے خالی ہو کہ تیاری کے مرحلہ میں یا پروگراموں کی ترتیب دینے میں کہیں بھی کوئی خطا ہو گئی تو وہ اس حکومت کے قیام پر اثر انداز ہو گی یا اس کے قیام کو دور کر دے گی جب کہ بعض خیال کر رہے ہوں گے کہ اس کی تشکیل قریب ہے۔
یہ معلوم نہیں کہ آدھے راستہ میں پہنچ کر آغاز میں جن غلطیوں کا ارتکاب کیا جا چکا ہو ان کا ازالہ کرنا ممکن ہوگا؟نتیجہ یہ ہوا کہ جو افراد، شخصیات، ادارہ جات ، حکومتیں مختلف میدانوں میں تیاری کے مراحل سے گزر رہے ہیں وہ کسی بھی قانون کو وضع کرنے یا کسی حکم کو لاگو کرنے یا کسی قسم کی ہدایت دینے سے پہلے اچھی طرح اس کے بارے جائزہ لے لیں، اس کا مطالعہ کر لیں اور اس کی جو شرائط ہیں انہیں دیکھ لیں تاکہ بعد کے نقصان سے بچا جا سکے تیاری کے مراحل کی شرائط حسب ذیل ہیں۔

پہلی شرط:۔ عزم اور اخلاص
عزم، پختہ ارادہ پہلا قدم ہے ۔ ہر عمل کے لئے یہ امر بڑا واضح ہے جب انسان یہ ارادہ کر لیتا ہے کہ اس نے عدالت اور پاکیزگی پر مبنی حکومت کی طرف بڑھنا ہے تو اسے یہ معلوم ہو کہ یہ ہدف بہت ہی عمدہ اور شریف ہدف ہے تو اس مقصد کے حصول میں اخلاص ضروری ہے۔ لیکن ہر قسم کی دورنگی سے پاک ہو یہ کہ انسان نیت کرے جس وقت وہ مختلف امور سے کسی بھی امر کی تیاری کے لئے یا کریمہ حکومت، عادلانہ حکومت کے حالات کے لئے کسی بھی جماعت کے لئے تیاری کی صورت میں اسے تقرب الی اللہ کی نیت کرے تاکہ حق کا کلمہ بلند ہو اور باطل کا کلمہ ختم ہو جائے اور باطل سے متعلقات کا خاتمہ، یعنی الٰہی عدالت کے نفاذ کے لئے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے لئے خود کو آمادہ کرے اور قربت الی اللہ کی نیت کرے، اس میں ریائ، دکھاوا نہ ہو، کسی ذاتی مفاد کے لئے نہ ہو، اس مرحلہ پر ریاءکاری درست نہیں کیونکہ یہ بات بہت ہی جلدی کھل جائے گی کہ حضرت امام زمانہ(عج)کی حکومت کے عنوان سے جس تیاری میں لگا ہوا ہے یہ دکھاوا ہے ، ریاءکاری ہے اس میں رضائے الٰہی نہیں ہے، تقرب آل محمد نہیں ہے، پس جو شخص نیت میں اخلاص پیدا نہیں کرسکتا تو اسے چاہیے کہ پیچھے ہٹ جائے اور پہلے اپنی ذات کو ریاءکاری سے پاک کرے۔

دوسری شرط:۔ عمل میں تسلسل
ایک مشکل یہ ہے کہ عمل اور ہدف کے لئے جدوجہد میں ابتداءہی میں رک جاتے ہیں اور عمل کو جاری نہیں رکھتے یا کسی حد تک عمل کو جاری رکھتا ہے لیکن کچھ عرصہ بعد جب اس منصوبہ کا انچارج بدل جاتا ہے یا وہ انچارج مر جائے یا کوئی مخصوص تبدیلی رونما ہو جائے تو کچھ اس سلسلہ کو وہیں چھوڑ کر اپنے لئے الگ راستہ اپنا لیتے ہیں، شروع کیے ہوئے عمل کو ترک کردیا جاتا ہے اس کی جگہ دوسرے منصوبہ کا آغاز کر دیا جاتا ہے اس بارے پہلے والے تجربات اور اس بارے حاصل شدہ معلومات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے یہی حالت اس کے لئے بھی جو بعد میں آتا ہے جس کی وجہ سے نتیجہ اور ہدف کا حصول مو ¿خر ہو جاتا ہے۔
پس جو شخص حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے لئے تیاری کے مرحلہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ اداروں کی اہمیت کو قبول کرے ، افراد اور شخصیات سے خود کو وابستہ نہ کرے اس کے لئے وہ ہدف معین کرے اور سب مل کر اس ہدف کے لئے کام کریں اس میں فرق نہیں کہ وہ کام موجودہ نسل کے ذریعہ پورا ہو یا بعد والی نسل اسے پورا کرے، موجودہ افراد اس میں کامیاب ہوںگے یا بعد والے شخصیت پرستی سے اسے باہر آنا ہوگا، ہدف کو اہمیت دینا ہوگی۔
یہ اس صورت میں ہے جب تیاری اس کی اجتماعی انداز میں علمی لحاظ سے اور سیاسی عنوان سے ہواسی طرح ہے اگر عبادتی عمل ہو کیونکہ ایک طے شدہ عمل میں تسلسل عبادت گذار کے روح پر مناسب اثرات چھوڑنا ہے اور ہدف الٰہی تک پہنچنے میں اس مخصوص عبادتی عمل تک پہنچنے کے لئے جلد کامیابی حاصل کر سکتا ہے، خلاصہ امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے لئے تیاری کے عمل میں تسلسل ہونا چاہیئے۔

تیسری شرط :۔ کسی مناسب شخص کا بطور راہنما انتخاب
ترقی کے راستے پر چلنے اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے، عمومی ہدایت کے واسطے لائق اور قابل افراد کا انتخاب کرنا ہوگا اور ان لائق افراد کو دوسروں پر ترجیح دینا ہوگی اداروں کی تقویت کے لئے، تنظیمات کی کامیابی کے واسطے اور کسی بھی منصوبہ کی کامیابی کے لئے لائق اور قابل افراد کا انتخاب کرنا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے طالوت کے قصہ میں بیان فرمایا ہے:
ان کے لئے ان کے نبی نے فرمایا کہ بتحقیق تمہارے لئے طالوت کورہبرکمانڈربنایا ہے انہوں نے جواب میں کہا اس کے لئے ہمارے اوپر اختیار اور اقتدار کیسے ہوگا ہم اس اقتدار کے اس سے زیادہ حقدار ہیں اس کے پاس تو اتنا مال اور ثروت نہیں ہے۔ نبی نے بیان کی اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے اوپر چن لیا ہے اور اسے علم دیا ہے، جسمانی طور پر مضبوط بنایا ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے اقتدار دیتاہے اور اللہ تعالیٰ تو واسع اور علیم ہے۔(سورہ بقرہ آیت ۶۴۲،۷۴۲)
اللہ تعالیٰ نے طالوت کو مقدم کیا باوجودیکہ وہ مالی طور پر کمزور تھے، جس وجہ سے عوام میں ان کا کوئی مقام نہ تھا جو مالداروں کا ہوتا ہے، لیکن وہ قابل شخصیت تھے علمی لحاظ سے، عقل اور شعور کے اعتبار سے، پس جو شخص اپنے ہدف کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ ایسے افراد کو آگے کرے جو علمی، سیاسی، سماجی، اجتماعی لحاظ سے زیادہ مضبوط ہوں کسی کی مالی پوزیشن یا کسی اور وجہ سے معاشرہ میں نام اور مقام کو سامنے نہ رکھا جائے اور انسان یہ بھی نہ سوچے کہ سب کام خود کرے گا جو شخص حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عادلانہ حکومت کے لئے حالات سازگار بنانا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ باصلاحیت افراد کو سامنے لائے اور باصلاحیت افراد کے ذریعہ اس بڑے ہدف کے حصول کے واسطے کام کرے اور اس میں اگر کوئی ایک فرد لائق اور قابل مل جائے تو اسے بعنوان راہنما لے لیں اور اپنے ہدف کے لئے اس کی ہدایات کے مطابق کام شروع کر دیں جب ہدف الٰہی ہے اور امام زمانہ (عج) کی حکومت کے قیام کے لئے ہے تو باصلاحیت افراد کو مقدم کیا جائے اور کم صلاحیت والے افراد خود ہی پیچھے ہوجائیں جس شخص میں اس بڑی ذمہ داری کو نبھانے کی قابلیت نہیں ہے تو وہ اس کام کو دوسرے کے حوالے کر دے کیونکہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی خاطر قائم تحریک کوئی تجارتی عمل نہیں ہے اور نہ ہی مال وصول کرنے کی کمیٹی ہے بلکہ یہ ایک الٰہی تحریک ہے اسے بہت سارے مشکل اور کٹھن مراحل کا سامنا کرنا پڑے گا،پیچیدہ حالات اور واقعات سے گزرنا ہو گا ، پوری دقت سے اور کم ترین نقصانات پر ضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔
شیخ الطوسیؒ سے حدیث روایت ہوئی ہے انہوں نے اپنی سند سے اس حدیث کو ابوبصیر سے اور انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے:
امام جعفر صادق علیہ السلام: قائم علیہ السلام کے خروج کے لئے تم جلد بازی کیوں کر رہے ہو؟ خدا کی قسم اس کا لباس موٹا، چھوٹا ہوگا اس کا کھانا چھلکے واے جو سے بنا ہو گا اور وہ نہیں آئیں گے مگر تلوار کے ہمراہ اور تلوار کے سایہ تلے موت ہو گی۔
(بحارالانوار ج۲۵ص۴۵۳باب ۷۲ذیل ۵۱۱)

چوتھی شرط:۔ خفیہ کاری اور رازداری
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: اپنی حاجات کے پورا ہونے کےلئے خفیہ کاری، بات کو پوشیدہ رکھنے کے وسیلہ سے مدد حاصل کرو۔(الرواشح السماویہ ص۳۱۳)
امیرالمومنین علیہ السلام:عقل مند کا سینہ راز کا صندوق ہوتاہے۔(نہج البلاغہ ج۴فرمان۴)
امیرالمومنین علیہ السلام: جس نے اپنے راز کو چھپائے رکھا تو اختیار اس کے اپنے ہاتھ میں ہوگا۔(نہج البلاغہ فرمان ۱۴)
امیرالمومنین علیہ السلام: اپنے امور اور معاملات کے لئے پوشیدہ کاری اور رازداری سے مدد لو کیونکہ جس کے پاس کوئی نعمت ہوتی ہے تو اسی سے حسد کیا جاتا ہے۔
(تحف العقول ص۸۴)
اہل البیت علیہم السلام نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم جو کام انجام دیں اس میں رازداری کا لحاظ رکھیں اسے مکمل ہونے سے پہلے تشہیر نہ کریں اسے اس کے وقت سے پہلے عام نہ کریں تاکہ حسد کاشکار نہ ہو جائیں، مقابلہ بازی نہ شروع ہو جائے، سازشیں کامیاب نہ ہو جائیں ، انحراف نہ آجائے، یہ بات تو عام کاموں، منصوبہ جات اور پروگرام سے متعلق ہے۔
مولا علی علیہ السلام فرمان یہ بھی ہے کہ کسی منصوبہ کو اس کے مستحکم ہونے سے پہلے کھول دینا اس منصوبہ کو ناکام بنانے اور اسے فاسد کرنے کا سبب بنے گا لیکن وہ پروگرام اور منصوبہ جات جن کا تعلق حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عالمی اسلامی الٰہی حکومت بارے ہیں تو اس کے لئے رازداری زیادہ ضروری ہے اس کے دشمن تاک میں بیٹھے ہیں اور وہ ہم سے زیادہ چوکنے ہیں وہ بھی اس بات کا تعین رکھتے ہیں اس دنیا کی چکی اسی طرح نہیں چلے گی اس کا اختتام ایک دن ہونا ہے اور آخری زمانہ میں عدل اور ظلم کے درمیاں فیصلہ کن معرکہ لڑاجانا ہے اور بعض نے اس آخری جنگ کو”ہرمجدون“ کی جنگ قرار دیا ہے جسے بڑی عالمی جنگ اور ملحمہ گیری کا نام بھی دیا گیا ہے اور ہمارا دشمن اس جنگ کی تیاری میں ہے اس جنگ کا میدان مقبوضہ فلسطین کی سرزمین ہے جس پر اسرائیل کی حکمرانی ہے۔(دیکھیں ہرمجدون کی لڑائی، جمال الدین احمدامین مصری اردوترجمہ)
ادارہ جات، شخصیات اور افراد پر سب سے پہلی بات یہ لازم ہے کہ وہ خفیہ کاری سے تیاری کے بارے ایسے قوانین وضع کر دیں تو اس تیاری کے عمل کے نفاذ کو یقینی بنائیں اور سارا عمل رازداری سے انجام دیجئے یعنی عمل زیادہ اور ڈھنڈورا کم اور پھر ان کی طرف سے عملی تعاون بھی ہو، یعنی جتنے ادارے، افراد اس مقصد کے لئے کام کر رہے ہوں وہ خود عملی طور پر ان امور کی پابندی کریں کہ انہوں نے سب کاموں کو پوری رازداری کو دقت سے انجام دیناہے۔

پانچویں شرط:۔ عمل میں پختگی
یہ شرط تیسری شرط سے مختلف ہے وہ شرط لیڈر، لائق افراد ، عملی بنیادوں پر پروگراموں کی تشکیل اور ان پر عملدرآمد سے لائق افراد کا انتخاب تھا اس شرط سے یہ مراد ہے کہ ان باصلاحیت افراد اور لیڈر سے جن افراد نے استفادہ کرنا ہے یعنی جو متعلمین ہیں، ان کا باصلاحیت افراد سے جوہدایات لینے والے افراد ہیں جو اس وقت سیکھنے کے مرحلہ میں ہیں اور بعد میں وہ بھی قیادت کے مرحلہ میں آملیں گے آج کے متعلمین کل کے قائدین
عمل میں پختگی کا معنی یہ ہے کہ جو نظریہ پیش کیا جائے جو پروگرام دیا جائے اس میں پوری دقت کی جائے اس میں انسان کی یہ کوشش نہ ہو کہ نچلی سطح پر پاسنگ مارکس لے لے بلکہ اعلیٰ درجہ کے حصول کی کوشش ہو، سند لینے کی بجائے اپنی قابلیت بنانے پر توجہ دی جائے، بعض علوم اور فنون میں طلباءغیر معمولی نمبروں پر اکتفاءکر لیتے ہیں ،بعض تحقیقی مواد پر درمیانی پوزیشن لینے پر اکتفاءکی جاتی ہے لیکن جس کا تعلق عادلانہ حکومت کے قیام سے ہے جس سے عدل کا خواب پورا ہوگا ایسا امرجس میں ....اللہ تعالیٰ سے معاملہ پیدا ہو جاتا ہے ایک ایسے امر کے بارے جوسخت ترین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مو ¿خر کر رکھا ہے آخری زمانہ کے لئے جس نے امام منتظر مہدی علیہ السلام کے ہاتھوں پورا ہونا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی صداقت پوری ہوگی ”اِنِّی جَاعِل µ فِی ال اَر ضِ خَلِی فَة“ زمین کا حاکم خلیفہ بتحقیق بنا رہا ہوں۔(بقرہ ۰۳)
زمانہ کے شروع میں یہ خطاب حضرت آدم علیہ السلام سے تھا مگر اس وقت سے لے کر آج تک روئے زمین پر کوئی ایسا نہیں آیا جس نے پوری زمین پر اللہ تعالیٰ کی خلافت اور حکومت کو قائم کیا ہو اور اللہ تعالیٰ کے اقتدار اعلیٰ کو یقینی بنایا ہو اللہ تعالیٰ کے احکام کی نفاذ پوری زمین پر کیا ہے نتیجہ یہ ہے کہ جو انسان اس حکومت کی تشکیل میں شراکت دار بننا چاہتا ہے تو اسے ظاہری طور پر معمولی سطح کی سند حاصل نہیں کرنا بلکہ اس پرلازم ہے کہ اپنی پڑھائی پر، بلکہ اپنے پروگراموں کے بارے اپنے تمام کاموں میں جو بھی ہوں پوری دقت سے اور مکمل مضبوطی اور استحکام کے ساتھ محنت کرتے ہوئے اس مسئلہ کے ساتھ جو مناسب ہے ویسے قیام کرے عمل میں پختگی اور دقت پوری توجہ اہم شرط ہے۔

چھٹی شرط:۔ عمل سے پہلے منصوبہ بندی، پلاننگ قبل از وقت
اس امر پر خصوصی توجہ دینا ہوگی، ماہر افراد کے ذریعہ پلاننگ کرنا ہو گی بغیر منصوبہ بندی کے جو کام کیا جائے گا اس کے لئے بعد میں پشیمان ہونا پڑے گا۔
مثال کے طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ سال۰۵۰۲ءمیں کچھ ممالک اور مناطق پانیوں میں ڈوب جائیں گے جیسے مصر کا اسکندریہ شہر، ریاستہائے متحدہ امریکہ کی بعض ریاستیں، چین کے کچھ علاقے بالکل پانی ان پر چھا جائے گااوریہ سارے شہر پانی کے نیچے چلے جائیں گے کیونکہ سمندروں کا پانی زیادہ ہو جائے گا اور ان شہروں کے اردگرد کے جو حالات ہیں وہ انہیں پانی میں ڈبو دیں گے۔
اس طرح ماحول کی آلودگی کا مسئلہ ہے کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ماحول اور فضاءکی آلودگی زندگی کے امکانات ختم کر دے گی۔
اگر۰۵۰۲ میں پیش آنے والے خطرات کا پیشگی انتظام نہ کیا گیا اور یہ حادثہ رونما ہو گیا یا ایسا شروع ہو گیا تو پھر اس حالت میں اس کا حل ممکن نہ ہوگا۔
لیکن اگر اس کا حل ابھی سے تلاش کرنا شروع کر دیا جائے اگرچہ تیس سال پہلے سے ہی اس پر کام شروع کیا جائے تو بہت سارے حادثات اور سانحات سے بچا جا سکے گا حل میں دیر کرنا، یا اس خطرہ کو نظرانداز کر دینا بعض ذاتی مفادات کی وجہ سے تو یہ بہت سارے منصوبہ جات اور اہم پروگراموں کو برباد کر دینے کا سبب ہوگا۔
اس بات کو تمام معاملات میں دیکھنا ہوگا بلکہ اخلاقی امور میں بھی اس بات کا خیال رکھنا ہوگا فساد کی بعض اقسام کا مقابلہ کرنے کے لئے اگر شروع میں یا ان کے وقوع سے پہلے سوچ لیا جائے تو پھر ان اخلاقی فسادات سے بچنا ممکن ہو سکتاہے(پاکستان اس وقت دہشت گردی، خودکش حملوں کی زد میں ہے اگر اس فتنہ کے شروع ہونے سے پہلے جس وقت اس کے آثار نمودار ہو رہے تھے اس کے لئے دقیق منصوبہ بندی کر لی جاتی تو آج پاکستانی حکومت، پاکستانی عوام اور پاکستانی فورسز جن مشکلات سے دوچار ہیں یہ صورتحال پیش نہ آتی اب نقصان بھی جانی و مالی بہت زیادہ ہو رہا ہے اور اس کا حل بھی نظر نہیں آ رہا ہے اور اسے سامنے رکھ کر پلاننگ کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے اسی تناظر میں آپ بجلی کے بحران کو دیکھ سکتے ہیں ہمارے ہمسایہ ملک نے دریاﺅں پر کتنے ڈیم بنا لئے ہیں اور بڑے منصوبہ جات بھی رکھتا ہے جب کہ ہماری پلاننگ اس قدر بھی نہ تھی کہ ہم مستقبل کے خطرات اور اپنی ضروریات کا اندازہ لگا سکتے اسی طرح سرکاری اثاثہ جات کو بیچنے کی بات ہے اس میں بھی بغیر پلاننگ کے کام کیا جا رہا ہے جس کے خطرناک نتائج اب سامنے آ چکے ہیں کوئی ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر بغیر پلاننگ اور منصوبہ بندی سے اپنے مسائل اور مشکلاب پر قابو نہیں پا سکتا اسی طرح باقی امور میں ایک چھوٹے سے گھر کے امور کو چلانے سے شروع کریں اور ایک بڑے ملک کے معاملات کو لیں ایک چھوٹی سے تنظیم سے شروع کریں اور ایک بڑی جماعت کو لیں، ایک چھوٹے سے سکول سے لیں اور یونیورسٹی تک جائیں، چھوٹے سے کاروبار سے بڑی تجارتی مراکز تک ہر جگہ پلاننگ اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور کام سے پہلے منصوبہ بندی اور مکمل جائزہ لے کر منصوبہ بندی کامیابی کی ضمانت ہے....ازمترجم)
اجتماعی معاملات، خاندانی مسائل، ازدواجی زندگی کے حوالے سے اگر آغاز میں منصوبہ بندی موجود ہو تو بہت ساری خرابیوں اور ناکامیوں سے بچا جا سکتا ہے بالکل اسی طرح ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے لئے تمہیدی کاموں میں پہلے سے پلاننگ اور اچھی منصوبہ بندی کرنا ہوگی اگر ہم نے تیاری کے عمل کو دسیوں سال پہلے شروع کیا ہوتا تو وہ اس سے بہتر ہوتا کہ جو آج ہم شروع کر رہے ہیں اور اگر آج ہم کام شروع کر دیں تو یہ بہتر ہے اس سے کہ ہم اسے کئی سال گزرنے کے بعد شروع کریں دست تنگ ہو رہا ہے فساد عام ہو رہا ہے اور نئے فتنے جنم لے رہے ہیں اور فساد اور بے راہ روی کے مظاہر مضبوط ہوتے جا رہے ہیں، ان حالات میں منصوبہ بندی ضروری ہے اور اس کام میں جلدی کرنا بھی ضروری ہے، وقت گزر رہا ہے، جو افراد حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں انہیں منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنا چاہیئے اور فساد، ظلم، جبر، استبداد، بدامنی کا خاتمہ کرنے کے لئے تیزی سے مناسب حل پیش کرنا ہوں گے، اس کا توڑ دینا ہوگا اور عملی اقدامات میں تیزی دکھانا ہو گی سست روی سے باہر آنا ہو گا۔ ڈھنگ ٹپاﺅ پالیسیوں سے گریز کرنا ہوگا، باہدف، بامقصد اور لمبی مدت کے لئے اصلاحی پالیسیاں تیارکرنا ہوں گی اور ان پر عمل کرنے کے لئے لیڈر سازی کے واسطے ضروری اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

ساتویں شرط:۔ رقابت
رقابت سے مراد نگرانی اور چیکنگ کا عمل ہے، دفتری انداز سے کام کرنا ہوگا، جو کام شروع کر رکھے ہیں ان پر چیک بھی رکھنا ہوگا کسی بھی عمل، تحریک اور منصوبہ کی کامیابی کے لئے چیک اینڈبیلنس اور نگرانی کا عمل بہت ہی ضروری ہے۔ عملی اقدام کے وقت جو خرابیاں سامنے آئیں یا کام کرنے کے دوران جو انحرافات ہو رہے ہیں ان پر نظر رکھنا ہو گی اور ضروری تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ یہ عمل اس لئے ضروری ہے کہ اس کے منفی اثرات سے بچا جا سکے۔جو ابتداءمیں غلطیاں سرزد ہوں ان کا ازالہ کر دیا جائے تاکہ مستقبل میں ایسی غلطیاں نمودار نہ ہوں۔

متبادل کی تیاری
یہ اس لئے ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا زمانہ اور وقت معلوم نہیں ہے بلکہ ہم انتظار کر رہے ہیں اسی لئے تو اس حکومت کے قیام کے لئے تیاری ضروری ہے اور یہ تیاری ہر زمانہ کے حالات سے مناسبت رکھتی ہو، کیونکہ اس سے ناواقف ہیں کہ کون سے افراد حضرت امام مہدی علیہ السلام کے قیام میں ان کے کمانڈر ہوں گے اور انہیں قیادتی اور رہبری کا کردار سونپا جائے گا۔
لہٰذا موجودہ قائدین پر لازم ہے کہ وہ اپنے بعد کے لئے قائدین کی تربیت کریں، اپنی جگہ پر نئے افراد کو لانے کے لئے تیاری کے عمل سے گزریں، متبادل افراد کی موجودگی ضروری ہے جو اس کی عدم موجودگی میں ان کی ذمہ داریوں کو نبھائیں گے ان کی وفات کی صورت میں یا ان کی عدم موجودگی میں قیادت اور رہبری کا خلا پیدا نہ ہو۔ یعنی لیڈرسازی اور لائق اور باصلاحیت افراد کی تیاری کا عمل مسلسل جاری رہے(جس طرح نظام مرجیعتی میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت صغریٰ میں نئے نائب خاص بننے کے لئے ایک نہیں چند لائق افراد تربیت وارموجود ہوتے تھے اور امام علیہ السلام ان میں سے جو سب سے زیادہ لائق ہوتا اسے یہ منصب دے دیتے اور آخری نائب علی محمد سمری کو منع کر دیا کہ اب غیبت کبریٰ شروع ہو رہی ہے کسی کو متعین نہ کیا جائے بلکہ اب نیا انداز ہو گا اور وہ فقہاءکے ذریعہ اسلام کے احکام سمجھنے ہوں گے اور فقہاءہی مخصوص صفات کے مالک، امام زمانہ (عج) کی عمومی نیابت کا منصب سنبھالیں گے۔
تو اس وقت سے لے کر ہر دور کی مرجعیت اپنے بعد کے لئے ایک نہیں بلکہ سینکڑوں فقھاءاور مجتہدین کی تربیت کر دیتے ہیں اور یہ سلسلہ آج تک منقطع نہیں ہوا اور مرجعیت کے میدان میں خلاءپیدا نہیں ہوا یہ بھی درحقیقت ایک پہلو سے امام زمانہ (عج) کے قیام کے لئے قیادت فراہم کرنے کا فورم بھی ہے آپ کی حکومت کے قیام کے لئے تیاری کے عمل اس کا خاص خیال رکھنا ہوگا....ازمترجم)
یہ جائز نہیں ہے کہ اس وقت جن کے ہاتھ میں معاملات ہیں، زمام امور ہے وہ اپنے تجربات، اپنی معلومات اپنی نئی ایجادات کو مخفی رکھیں اور اگلی نسل کے لئے اسے منتقل نہ کریں ان افراد کو ہر بات بتانا ہو گی اور انہیں وہ سب کچھ سمجھایا اور بڑھانا ہو جس کی ضرورت ایک قائد ، ایک رہبر کے لئے ضروری ہے علمی ترقی کا عمل جاری رہے، کسی مرحلہ پر جمود نہ آئے۔
اجتہاد میں تطور اور ترقی کے لئے زمان اور مکان کے عنصر کو بڑی اہمیت ہے کیونکہ جگہوں اور وقت کے بدلنے سے تقاضے بدل جاتے ہیں، جو افراد حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے لئے تیاری کے عمل سے گزر رہے ہیں تو وہ اس سلسلہ کو جاری رکھنے کے لئے اگلی نسل تک وہ سب کچھ منتقل کرنے کا انتظام کریں جس کی انہیں ضرورت ہو گی۔

تیاری اور آمادگی کی اقسام
عدالت پر مبنی حکومت کے قیام کی علیہ السلام کسی خاص قسم سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ظہور کے زمانہ سے زندگی کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر تمام میدانوں میں علیہ السلام کرنا ہوگی چاہے وہ عسکری ہوں، ثقافتی ہوں، امنیت کے حوالے سے ہوں، سلامتی کے امور ہوں، امن عامہ کے مسائل ہوں، صحت عامہ کے مسائل ہوں، اقتصادی مسائل ہوں سب میدانوں میں علیہ السلام کرنا ہوگی۔

۱۔ عسکری میدانوں میں تیاری
نعمانی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام: حضرت قائم علیہ السلام کے ظہور کے لئے تم میں سے ہر ایک کو علیہ السلام ضروری کرنا ہو گی اگرچہ ایک تیر لے کر رکھنے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کو اس کی نیت کا علم ہو کہ اس نے یہ ایک تیر اس غرض سے خرید کررکھا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی عمر کو بڑھا دے گا۔(غیبة نعمانی ص۳۷۱، باب ماجاءفی ذکرالشیعہ)
الکافی میں ہے ابوعبداللہ الجعفی سے روایت ہے:
ابوجعفر محمد بن علی علیہ السلام: تمہارے پاس کتنی رباط( گھوڑے کا بند)موجود ہیں؟
راوی: میں نے کہا چالیس
امام علیہ السلام: لیکن ہمارے ساتھ ربط جوڑنے اور ہمارے مرکز سے اپنی رستی باندھنے کے لئے تو ہم پورے دھر کا سلسلہ رکھتے ہیں ہمارے رباط( )تو پورے دھر کے رباط میں جس نے ہماری خاطر ایک چوپائے(سواری) کو باندھ رکھا تو اس کے لئے ا س سواری کا وزن ہوگا اور اس کا وزن بھی اس کے لئے ہوگا جب تک وہ اس کے پاس ہو گا جس شخص نے ہماری نصرت کے لئے اسلحہ باندھ کر رکھا تو اس کے لئے جو کچھ اس کے پاس ہے، اس کا وزن ہوگا تم ایک دفعہ، دو دفعہ، تین دفعہ، چار دفعہ سے گھبراﺅ نہیں ہماری مثال تو بنی اسرائیل کے اس نبی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ عزوجل نے اسے وحی کی کہ اپنی قوم کو جنگ کی علیہ السلام کے لئے بلاﺅ تو میں تمہاری مدد کروں گا اس نبی نے پہاڑوں کی چوٹیوں سے اور دوسری جگہوں سے اپنی قوم کو جنگ کی خاطر اکٹھا کیا لیکن انہوں نے نہ تلوار چلائی اور نہ نیزہ پھینکا اور شکست سے دوچار ہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے دوبارہ اس نبی علیہ السلام کو وحی کی کہ اپنی قوم کو جنگ کے لئے بلاﺅ تو میں تمہاری مدد کروں گا تو اس نے قوم کو بلایا لیکن انہوں نے اس سے کہا کہ تم نے ہمیں پہلے بلایا اور ہم سے مدد کا وعدہ کیا لیکن ہماری مدد نہیں کی تو اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی دو ہی راستے ہیں یا جنگ وگرنہ جہنم۔
نبی علیہ السلام: اے رب جنگ کرنا میرے نزدیک آتش جہنم سے زیادہ محبوب ہے۔
نبی علیہ السلام:نبی علیہ السلام نے قوم کو جنگ کے لئے دعوت دی تین سو تیرہ آدمی بدر میں اصحاب کی تعداد کے برابر جمع ہوئے ان کو ساتھ لے کر جنگ کے لئے نبی علیہ السلام نکل کھڑے ہوئے لیکن انہوں نے نہ تلوار چلائی اور نہ ہی نیزہ مارا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے فتح دے دی۔(اصول الکافی ص۱۸۳ج۶۷۵)
علامہ مجلسیؒ: امام علیہ السلام نے فرمایا:رباطنا رباط الدھر، ہماری ربط تو دھر کی رباط ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ شیعوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو امام برحق کی اطاعت پر قائم رکھیں اپنی گردنوں کو امام برحق کی اطاعت سے باندھ دیں، امام حق کی انتظار میں رہیں اور ان کی مدد کرنے کے لئے مسلسل علیہ السلام میں رہیں۔
یہ جو کہا گیا ہے کہ اس کے لئے اس پوری کے وزن برابر ہے اور جتنے دن اس کے پاس ہو گا تو اس کے وزن برابر ہے، تو ان سے مراد یہ ہے کہ اس جانور، سواری یا اسلحہ کا جو وزن ہے اس کے برابر سونا اور چاندی اگر وہ صدقہ اور خیرات کرے تو اس کا جتنا ثواب اسے ملے گا تو ہماری خاطر سواری کو تیار رکھنے والے شخص کے لئے بھی اتنا ثواب ہے اسی طرح جو ہماری خاطر اپنا اسلحہ تیار رکھے گا اس کے لئے اسی طرح کا ثواب ہے، ثواب کو ایک محسوس شئی سے تشبیہ دی گئی ہے)
(اس روایت میں بہت ساری تربیتی باتیں موجود ہیں ایک بات یہ ہے کہ علیہ السلام کے مرحلہ میں فکر مند نہ ہوں کہ دیر کیوں ہو رہی ہے؟ہر دور میں رہنے والے شیعہ پر ہے کہ وہ اپنے امام علیہ السلام کی نصرت کے لئے خود کو تیار رکھے، اب عملی طور پر میدان میں اس سے یہ کام لیا جانا ہے یا نہیں تو وہ اس کی پرواہ نہ کرے اسے ثواب ملتا رہے گا۔
بعض روایات میں ہے کہ جو اس نیت سے تیار رہے گا تو اگر اسے امام علیہ السلام کے ظہور سے پہلے موت آ گئی تو امام علیہ السلام اسے قبر سے اٹھائیں گے اور وہ امام علیہ السلام کی فوج میں شامل ہو کر جہاد میں حصہ لے گا، اسی حوالے سے ورزش کرنا، اپنی صحت کا خیال رکھنا، خود کو بیماریوں سے بچا کر رکھنا اور ہر قسم کی تربیت لینا، عسکری تیاری میں رہنا، البتہ علیہ السلام کا حکم ہے نہ کہ بے گناہوں کے خلاف چڑھائی کرنے کا یا ازخود میدان جنگ میں کود جانے کا یا ماحول کو خراب کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ انسان شخصی طور پر خود کو امام علیہ السلام کی نصرت کے لئے ہر لحاظ سے اور اسلحہ کے اعتبار سے تیار رکھے تاکہ امام علیہ السلام کے ظہور کے وقت امام علیہ السلام کا ساتھ دے سکے، ضروری نہیں کہ اس وقت اس کے اس اسلحہ کی ضرورت ہو جیسا کہ نبی علیہ السلام کے ساتھ جو لوگ آئے اپنا اسلحہ لے کر آئے لیکن انہیں اسلحہ استعمال کئے بغیر فتح مل گئی تو ساری بات نیت کی ہے، نیت کے مطابق اجروثواب ملے گا....ازمترجم)

مسلح ہونا، اس کا ثواب ، اس کی اہمیت اور ضرورت
روایات میں ہے جیسا کہ آپ نے دیکھا عسکری تیاری کے سلسلہ میں ایک قسم کو بیان کیا گیا ہے اور وہ ہے خود کو مسلح رکھنا(جہاں پر بغیر لائسنس کے اسلحہ رکھنے کی سرکاری طور پر اجازت نہیں ہے تو وہاں پر اسلحہ کا لائسنس بنوانا بھی اسی عنوان میں شامل ہوگا....ازمترجم)اور اس زمانہ میں جو اسلحہ استعمال ہوتا تھا اور جس قسم کی سواری درکار تھی اس کا ذکر کیا گیا ہے یہ بطور نمونہ ہے اس کے سوا کچھ نہیں کیونکہ زمانہ کی حکومت کے لئے اپنے انداز کی فوج اور اپنے انداز کا اسلحہ ہے۔
اس سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلحہ رکھنے کا حکم حکومتوں کی سطح پر نہیں ہے بلکہ یہ افراد کو بھی شامل ہے کیوں کہ امام علیہ السلام نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کو حضرت قائم علیہ السلام کے خروج کے لئے خود کو تیار رکھنا چاہیئے اگر ایک تیر کے رکھنے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو(ہمارے پاکستان میں جب ایٹم بن بنا لیا گیا تو پوری دنیا کے مسلمان خوش ہوئے کہ یہ ایٹم بم اسلامی ایٹم بم ہے اسلام کے مفاد کے لئے ہے یہ اس دور کا تقاضا تھا اور جو پاکستان کے حصہ میں آیا، آخری زمانہ میں پوری دنیا پر اسلام کی عادلانہ حکومت ہو گی اور اسلامی نظام ہی پوری دنیا میں امن دے گا اس عالمی اسلامی حکومت کے لئے حکومتوں نے بھی علیہ السلام کرنا ہے اصل بات نیت کی ہے یہ ہمارے ملک کا ایٹم بم بھی اسلام کے لئے ہے اور پورے عالم میں امن قائم کرنے کے لئے اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام میں مدد بننے کے لئے ہے....ازمترجم)
اس جگہ یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ افراد اسلحہ کی نمائش کریں، خاص کر موجودہ زمانوں میں، ہر ملک کے قوانین میں اسلحہ کی نمائش سے اجتماعی خطرات جنم لے سکتے ہیں بدامنی پھیل سکتی ہے اس سے مراد علیہ السلام ہے ، آمادگی ہے اور اپنے پاس محفوظ رکھنا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں، احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اسلحہ لے کر رکھنا چاہیئے ہو سکتا ہے کہ ایسا وقت آ جائے جب اسلحہ لینا ممکن نہ ہو اور امام علیہ السلام کے ظہور کا اعلان ہو جائے اور اس وقت یہ شخص خالی ہاتھ ہو(اسی ضمن میں اسلحہ رکھنے کے لئے لائسنس بنوانا ہے انسان کو اپنی شخصی حفاظت، نجی املاک کی حفاظت کے لئے بھی اس کی ضرورت ہے اور ہر وقت اسلحہ کے لائسنس جاری نہیں ہوتے تو جب ایسا ممکن ہو اس کے لئے فوری اقدام کر لینا چاہیئے یہی احتیاط کا تقاضا ہے، اسی ضمن میں عسکری تربیت بھی ہر شخص کو لینی چاہیئے اکثر ممالک میں آج بھی ہر شہری کے لئے عسکری ٹریننگ لینا لازمی ہے اور جس جوان نے عسکری ٹریننگ نہیں لی ہوتی اسے سرکاری محکموں میں ملازمت نہیں ملتی اور بھی بہت ساری مراعات سے وہ محروم رہ جاتا ہے تو جو افراد امام زمانہ (عج) کی نصرت کے لئے علیہ السلام کرنا چاہتے ہیں کہ اس وقت پورے عالم میں امن کے لئے امام علیہ السلام کا ساتھ دے سکیں تو انہیں عسکری ٹریننگ لینی چاہیئے اور اسلحہ کی انواع اور اقسام سے اس کی آگاہی ہو اور وہ ہر قسم کا اسلحہ چلانا بھی جانتا ہو وگرنہ وہ شخص علیہ السلام کرنے والوں سے شمار نہ ہوگا، خاص کر عسکری میدانوں میں....ازمترجم)
امام علیہ السلام کے بیان میں ”لیعدن“ اس میں آپ اس شخص کو خطاب کر رہے ہیں جو ایک تیر یا اس جیسا جنگی ہتھیار رکھنے کی قابلیت رکھتا ہے تو اسے کہا جا رہا ہے کہ وہ ضرور تیار رہے، کیونکہ اس امر کے لئے سینکڑوں سال بھی لگ سکتے ہیں، خاص کر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے علم امامت سے اس بات سے آگاہ تھے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام اس صدی میں تو ہرگز قیام نہیں کریں گے جو صدی اس حدیث کے بعد والی ہے تو پھر اس روایت کا مفہوم اسلحہ آمادہ رکھنا بنتا ہے اور یہ کہ اپنے قریب ترین افراد سے بھی اس بات کو پوشیدہ رکھا جائے ۔تیر لے کر رکھنے کو بطور مثال فرمایا ہے ہر دور کے لحاظ سے اسلحہ کی نوعیت بھی بدل جائے گی اور اسے محفوظ رکھنا خاص کر آج کے زمانوں میں جدید ترین اسلحہ آ گیا ہے، پرانے ہتھیاروں کو تلف کر دیا جاتا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہر زمانہ کے حوالے سے بات کر رہے ہیں جن میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا احتمال دیا جا سکتا ہے تو پھر ہتھیاروں کی مناسبت سے تبدیلی لائی جائے گی اور پرانے ہتھیاروں کی جگہ نئے ہتھیار رکھنا ہوں گے یہ اس لئے تاکہ وہ اپنے امام علیہ السلام سے ملاقات کے لئے خود کو تیار اور آمادہ رکھے۔،
اس روایت کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں فقط ہتھیار محفوظ کرنے کی بات نہیں فرمائی بلکہ اس کے لئے حو صلہ بھی بندوایا ہے اور شوق دلایا ہے کہ جو اس کام کو انجام دے گا اس کی عمر بڑھ جائے گی ظاہر ہے ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کی عمر لمبی ہو تو لمبی عمر پانے کا ایک نسخہ اپنے زمانہ کے امام کی نصرت کے لئے خود کو تیار کرنا ہے اور ان کی مدد کے لئے ہتھیار لے کر رکھنا ہیں، مومن اس سے خوش ہوتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں لمبی عمر نصیب ہو، لمبی عمر ایک مومن، متدین بھی چاہتا ہے اور ایک بے عمل اور کمزور عمل والا بھی چاہتا ہے، غیر مومن بھی چاہتا ہے کیونکہ وہ بھی بقاءچاہتاہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جس کی یہ خواہش ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کا سپاہی ہو ان کے خادموں سے ہو تووہ ایسا عمل کرنے یعنی امام علیہ السلام کی نصرت کے لئے ہتھیار لے کر رکھے ظاہر ہے ہر مومن چاہتا ہے کہ وہ امام علیہ السلام کے لشکر سے ہو تو وہ اسی شوق میں اس کام کو انجام دے گا۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہتھیار لے کر رکھنے کے فوائد میں لمبی عمر پانا اور امام زمانہ (عج) کے قاصدوں اور ان کی فوج میں شمولیت کو ملا کر بیان کیا ہے اس سے شوق دیا ہے۔
دوسری روایت جو حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ہے اس میں ایک اور نکتہ ہے وہ یہ بات ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مایوس نہ ہو ایک دفعہ یا دو دفعہ یا تین دفعہ جو شخص اسلحہ تیار رکھتا ہے ہو سکتا ہے کہ فتح حاصل ہو لیکن اسلحہ استعمال ہی نہ کرنا پڑے اس حدیث میں ایک خود کو مسلح رکھنے اور دوسرا ہتھیاروں کو آمادہ و تیار رکھنے کا حکم ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس میں تسلسل رہے، مایوسی نہ ہو، اس حدیث میں آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ نبی نے پہاڑوں کی چوٹیوں سے لوگوں کو اکٹھا کیا اب معلوم نہیں کہ ان کو اکٹھا کرنے میں اس نبی نے زور لگایاہوگا پھر جب جنگ میں شکست ہوئی، غیبی مدد نہ ہوئی تو اس پہلی مرتبہ اور دوسری مرتبہ لوگوں کو جمع کرنے میں کتنا فاصلہ تھا اور اس زمانہ میں نقل و انتقال اور آنے جانے کے ذرائع بھی یقیناصرف ہوں گے لیکن دوسری مرتبہ ساری علیہ السلام کر لی گئی لیکن اسلحہ کے استعمال کی نوبت ہی نہ آئی اور فتح حاصل ہو گئی ۔ابوبصیر کی روایت سے ہے کہ ایسا وقت بھی آسکتا ہے جب اسلحہ لینا مشکل ہو گاتو پہلے سے ہی علیہ السلام رکھنی چاہیے
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: ان جھنڈوں میں یمانی کے جھنڈے سے زیادہ ہدایت والا جھنڈا نہ ہو گا یمانی کا جھنڈا ہدایت پر مبنی جھنڈا ہے کیونکہ اس پرچم والے تمہارے صاحب(امام مہدی علیہ السلام)کے لئے دعوت دیں گے پس جس وقت یمانی کا خروج ہو گا تو پھر لوگوں پر اسلحہ فروخت کرنا حرام ہو گا اور ہر مسلمان پر بھی جب یمانی خروج کرے تو تم اٹھ کھڑے ہونا اور اس کی حمایت میں جانا کیونکہ اس کا پرچم ہدایت کا پرچم ہے کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اس کے پرچم کو سرنگوں کرے جو بھی ایسا کرے گا تو وہ جہنمی ہوگا کیونکہ یمانی حق کی طرف دعوت دے گا اور صراط مستقیم کی جانب دعوت دے گا۔(غیبت نمانی ص۶۵۲)

اسلحہ کی ٹریننگ لینا
عسکری تیاری اسلحہ لینے سے نہیں ہے بلکہ یہ ایک حالت ہے اسی کے ضمن میں اسلحہ چلانا بھی ہے عقل کا حکم ہے کہ جب روایات میں اسلحہ لے کر رکھنے کی بات ہوتی ہے تو اسی کے ضمن میں یہ بھی آ جاتی ہے کہ اسلحہ کی پہچان اور اسلحہ چلانے کا طریقہ اسے محفوظ رکھنے کا طریقہ بھی آتا ہو، اس کی صفائی کرنا بھی سیکھے، کیونکہ علیہ السلام سے مراد اسے استعمال میں لانا بھی ہے فقط اسلحہ رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں مزید برآں کہ روایات میں یہ بھی تو آیا ہے کہ گھوڑسواری، تیرچلانا اور تیراکی سیکھی جائے۔
(الکافی ج۶ص۷۴ حدیث ۴ ۔ مستدرک الوسائل ج۴۱ص۷۷ حدیث ۴۱۶۱)
یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ علیہ السلام میں فنون حرب کو سیکھنا بھی ضروری ہے اور جنگی ہتھیاروں کے بارے آگہی اور ان کے چلانے کی ٹریننگ بھی ضروری ہے اور اس میں ڈرائیونگ بھی شامل ہے۔
یہ بات معلوم ہے کہ تیر چلانا سیکھنے کا حکم نمونہ کے طور پر ہے، ہرزمانہ میں اسلحہ کی نوعیت کے مطابق تربیت لینا ہو گی ، سکھلائی ہرزمانہ کے ہتھیاروں کی مناسبت سے ہوگی۔ آج کے دور میں ٹریننگ ایک نئے انداز سے ہو گی علمی اعتبار سے بھی اور عملی لحاظ سے بھی اس کی ڈیوٹی اس فن کے ماہرین پر ہے۔

اسلحہ کی ایجاد، اسلحہ سازی
عسکری تیاری میں اسلحہ کی تجدید اور نئی ایجادات پر بھی توجہ دینا ہو گی ،عسکری تعلیمی ادارہ جات اس کام کو انجام دیا جانا ہوگا، مختلف حکومتوں میں یہ کام انجام دیا جانا چاہیئے، اسلامی ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میدان میں مناسب اقدام کریں اور اسلحہ کے میدان میں ترقی کی راہیں اپنائیں جس طرح ہمارے معاشرہ کے لئے ڈاکٹروں، انجینیئروں، سائنس دانوں کی ضرورت ہے۔
ہمارا معاشرہ ، ہمارا اجتماع اس کا متقاضی ہے کہ ہم حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عدالت کے قیام کے لئے علیہ السلام کے عمل میں شریک ہوں، افراد سے زیادہ اسلامی حکومتوں کا کام ہے اسلحہ کی علیہ السلام، جدید ہتھیار بنانا ، بین الاقومی طور پر اسلحہ کی جو دوڑ ہے اس میںخود کو شامل رکھنا تاکہ ضرورت پڑنے پر اسلامی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے اور اسلام کی بالادستی کے لئے اپنا کردار ادا کیا جا سکے اس کا احساس دلاتا اور حکومتوں کو متوجہ کرنا بھی اسی علیہ السلام کا حصہ ہے، سب سے اہم بات اسلامی ممالک کے سربراہان کو یہ یقین دلایا جائے کہ ان کا مفاد اسلام میں ہے اور ان کا تحفظ اور عزت اسلامی مملکت کے قیام میں ہے اور وہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی قیادت میں ہوگا اس کے لئے وہ اپنا کردار ادا کریں۔

افواج کی تیاری
عسکری آمادگی میں لشکر تیار کرنا، فوج بنانا بھی شامل ہے تاکہ وہ امام زمانہ علیہ السلام(عج) کی خدمت میں ہوں۔اس امر میں جو بات اہمیت رکھتی ہے وہ ایک قانون وضع کرنا ہوگا جس کے تابع یہ افواج ہوں گی اور جس کی بنیاد پر یہ لشکر حضرت امام مہدی علیہ السلام کے لئے ہوگا ہماری مراد قانون سے عسکری قوانین ہیں یہ بات اس کتاب کے موضوع سے باہر ہے اور میں اس سے آگاہ بھی نہیں ہوں بلکہ اس قانون سے مراد دینی، اخلاقی سیرت و کردار، عملی زندگی، معاشرتی آداب کے حوالے سے ہے جو اس شخص کی نجی زندگی پر اپنے اثرات چھوڑے اور ایک ایمانی روح اس میں ایجاد کرے اور وہ ایمانی قوت ہو گی جو اسے بڑے بڑے معرکوں میں بے جگری سے لڑنے پر آمادہ کرے گی۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس قانون کو وضع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس فوج کو افراد کے اعتبار سے بھی اور ایک مجموعہ کے لحاظ سے بھی، تمام شرعی احکام اور اسلامی تعلیمات کا پابند بنانا ہو گا اور ہر قسم کے حرام سے دور رہنا ہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ وہ مستحبات اور شرعی آداب کا بھی پابند ہو اور مکروہات سے خود کو دور رکھے، محرمات اور واجبات سے حوالے سے یہ بات بڑی واضح ہے جو بھی امام مہدی علیہ السلام کا لشکری بننا چاہتا ہے اس کی پہلی شرط بھی یہی ہے کہ تمام واجبات کو انجام دیتا ہو اور تمام محرمات سے دوررہتاہو۔
جوبات اس حوالے سے زیادہ اہم ہے کہ وہ مستحبات کو بجا لاتا ہو، اسلامی آداب کا پابند ہو، مکروہات سے دور ہو، مروت کے منافی کاموں سے دور رہے، اعلیٰ قدریں اس کے لئے اہمیت رکھتی ہیں ان کا وہ عامل ہو ۔
یہ امور اگرچہ اس کتاب کے موضوع سے باہر ہیں لیکن چند باتوں کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے وہ کچھ اس طرح ہیں۔
۱۔ نماز پنجگانہ کے جو مستحب اعمال ہیں ان کو انجام دیتا ہو، جیسے باجماعت اور اول وقت میں نماز، پنجگانہ نمازوں کے نوافل ، مسجد میں نمازپڑھنا، نماز کی تعقیبات، تسبیح جناب سیدہ فاطمة الزہراءسلام اللہ علیہاہر فریضہ نماز کے بعد پڑھنا، اذان اور اقامت ۔
۲۔ قرآن سے کچھ آیات کی باقاعدگی سے روزانہ تلاوت کرنا ، ہرفریضہ کے بعد صدقہ دینا اگرچہ مختصر ہی کیوں نہ ہوہرشب جمعہ اور ہر روز جمعہ ۔
جمعہ کے دن غسل کی پابندی کرنا، خمیس اور جمعہ کو ناخن اتارنا ، باوضورہنا خاص کر جب گھر سے باہر جائے، ہر جمعہ کی صبح دعائے ندبہ پڑھنا، دعائے عہد پڑھنا، دعائے بیعت روزانہ پڑھنا، جنابت کا غسل کرنے میں جلدی کرنا، جنابت کے بعد کچھ نہ کھانا اور جنابت کی حالت میں نہ سونا، مگر یہ کہ پہلے وضو کر لے یادونوں ہاتھوں کوتین مرتبہ دھو لے، اسی طرح تین مرتبہ کلی کرنا اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالنا، اسی طرح کے مستحبات ہیں جو دعاﺅں اور زیارات کی کتابوں میں درج ہیں۔

عسکری تیاری کا مقصد
کیا اس عسکری تیاری کا مقصد اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے انتقام لینا ہے، ان پر سخن کرنا ہے، یا عدالت کا عام کرنا ہے، جو کچھ روایات اور قرآنی آیات سے سمجھا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ جنگ کرنااصل ہدف نہیں ہے بلکہ ہدف کے حصول کے لئے وسیلہ ہے ۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دعوت کو عام کرنا چاہتے تھے اس کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تو ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے جنگیں کی گئی ہیں لہٰذا حضورپاک کی اللہ کے دشمنوں کے خلاف تقریباً ساری جنگ میں سوائے ایک ....کے دفاعی ہیں۔
”وَقَاتِلُو ±ا ال ±مُش ±رِکِی ±نَ کَافَةً کَمَا یُقَاتِلُو ±نَکُم ± کَافَةً“(التوبہ آیت ۶۳)
ترجمہ:۔”اور تم سارے مشرکین کے خلاف جنگ کرو جس طرح وہ تمہارے ساتھ جنگ کر رہے ہیں“۔
جہاد، جنگ ،اسلام کی حمایت اور اپنے نظریہ کے دفاع کے لئے شروع ہوئے، اسے ہم چوتھی فصل میں بیان کریں گے۔
لہٰذا عسکری تیاری عدالت عام کرنے اور روئے زمین پر امن کا قیام ہے اور جو اس ہدف کے سامنے رکاوٹ بنیں گے تو پھر ان کے خلاف جنگ بھی کی جائے گی۔

سختی کے بارے اسلام کا نظریہ
یہ مضمون رہبر اسلام حضرت آیت اللہ السید علی خامنہ کے خطاب سے لیا گیا ہے:
اسلام کی سختی کے بارے بڑی واضح اور روشن رائے ہے اسلام اصولی طرح پر سختی کو اپنے عمل کی بنیاد نہیں بناتا لیکن سختی کرنے کی نفی بھی نہیں کرتا جہاں پر قانون کے اندر رہتے ہوئے سختی کی ضرورت پیش آئے تو اس کی اجازت دی ہے۔

قانونی سختی اور غیر قانونی سختی
ہمارے ہاں سختی کی دو اقسام ہیں (۱)قانونی (۲)غیرقانونی
قانون ضرورت کے وقت سختی کرتا ہے مثلاً حکم دیتا ہے کہ اگر فلاں شخص فلاں جرم کا ارتکاب کرے تو اسے جیل میں ڈالا جائے ، فلاں جرم کرے تو اسے یہ سزا دی جائے تو یہ سختی جو ہے بری نہیں ہے کیونکہ یہ چیز انسانی حقوق کو پامال نہیں ہونے دیتی۔مجرموں کی کارروائیوں کو روکنے کا ذریعہ ہے۔ اگر مجرموں کے ساتھ قانون سختی نہ کرے تو پھر جرائم بڑھ جائیں گے اور معاشرہ بے امن ہو جائے گا ایسی حالت میں سختی ضرور ہو جاتی ہے۔
دوسری سختی غیر قانونی ہے جس کی اسلام نے اجازت نہیں دی وہ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے جب کہ اس کا دل چاہے اور بغیر وجہ اور بغیر دلیل اپنی من مانی کرے قانون اور دستور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسا اقدام اٹھائے، ایک خودسر شخص اپنی مرضی سے لوگوں پر سختی کرتا ہے ان سے زیادتی کرتا ہے اور اپنے ذاتی مفادات حاصل کرتا ہے تو واضح ہے کہ اس قسم کی سختی کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔
اسلام کا یہ پہلو ہمہ جہتی دین ہے اس میں آفاقیت ہے اسلام میں یکطرفہ سوچ غالب نہیں جس وقت اسلامی حکومت یہ چاہتی ہے کہ وہ طاقت، زیادتی، دھونس، دھاندلی، قانون کی خلاف ورزی کے سامنے کھڑی ہو تو اس کے لئے طاقت کی ضرورت ہے، واضح موقف جاننے بلاخوف و خطر اور کسی مصلحت کو دیکھے بغیر کسی خاص جہت کا لحاظ رکھے بغیر اپنی بات کہے اور اس پر عمل کرے، حکومت جب عوام سے سامنا کرے یعنی افراد کی بات ہے تو اس کا رویہ نرم ہو رعیت سے پیار و محبت کا رویہ اپنائے نرمی ، پیار، شفقت کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ کا رسول اللہ کے لئے فرمان ہے کہ”عَزِی ±ز µ عَلَی ±ہِ مَا عَنِتُّم ± حَرِی ±ص µ عَلَی ±کُم ± بِال ±مُو ¿مِنِی ±نَ رَو ¿ُو ±ف µ رَّحِی ±م µ“(التوبہ آیت ۸۲۱)
ترجمہ:۔”نرمی کا حکم ہے حضورپاک کی صفت سے کہ وہ مومنوں کی بھلائی پر حریص ہیں ان پر روﺅف مہربان ہے“۔
قانونی سختی اتنی مقدار میں ہے جس کی اسلام نے اجازت دی ہے یہ کام فقط اچھا ہی نہیں بلکہ بہت ضروری بھی ہے۔غیر قانونی سختی تو جرم ہے فقط ایک برائی نہیں، اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس رویہ کو کچلنا ہوگا، یہ اسلام کی رائے ہے۔ اس میں کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی اس قسم کا جھگڑا ہے۔ بعض بغیر آگہی رکھے کرتے ہیں اور اسلام کی بنیادی سیاسی ہر بات کرتے ہیں جب کہ انہیں معاملات کی حقیقت بارے علم نہ ہے بعض اخبارات کے صفحات کو انہوں نے بے مغز عناوین پر بعض اشتعال انگیز عناوین سے بھر رکھاہے۔
ضروری بات یہ ہے کہ دین کے دشمنوں کی یہ خواہش ہے کہ وہ اسلامی میدانوں میں بحث و جدل کو کھینچ کر لے آئیں ان کے مقاصد کچھ اور ہیں یہ سختی کو ایک کلی عنوان دے کر پیش کرتے ہیں۔ وہ قانونی اور غیر قانونی سختی کے درمیان فرق نہیں کرتے وہ قانونی سختی کے موافق نہیں ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی گروہ تہران کی سڑکوں پر ماحول خراب کرے توڑ پھوڑ کرے ،فتنہ ایجاد کرے، لوگوں کا سکون برباد کرے ، ان کے اموال کو ضائع کرے، ان کے فرزندوں کی جانوں کو خطرہ میں ڈالے، وہ کہتے ہیں کہ ان کو کچھ نہ کہا جائے ان سے سختی کرنا ٹھیک نہیں ہے جب کہ پورے عالم میں وہ پرتشدد کارروائیاں کرتے ہیں، اپنے مخالفین کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں اور تشدد کی متعدد اقسام کو استعمال میں لاتے ہیں صیہونی حکومت جس کی خبررساں ایجنسیاں تشدد اور سختی کے خلاف تحریک میں پیش پیش ہیں اسے فلسطین میں عوام ان کی پرتشدد کاروائیاں نظر نہیں آتی جنوبی لبنان پر بچوں، عورتوں اور شہریوں کا قتل عام نظر نہیں آتا۔ جنوبی لبنان کی فضاءسے آگ کے گولے برستے انہیں دکھائی نہیں دیتے اور یہ عمل ان کے نزدیک سختی نہیں ہے اسی طرح ایک دوسرے کے رفقاءپورے عالم میں اپنے مخالفین کے ساتھ ایسا ہی کر رہے ہیں اور بھی لوگ عالمی نشریاتی اداروں پر مسلط ہیں اور اپنی مرضی سے قانونی تشدد اور سختی کو مذموم قرار دیتے ہیں اور انہیں خود اپنا غیر قانونی تشدد نظر نہیں آتا۔(خطاب ۹ محرم ۱۲۴۱ہجری قمری ۔طہران)