بسم اللہ الرحمن الرحیم
5- امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت
از:زہراءاصغری
امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت یوں تو بہت ہیں اور یہ کہ اس جہان میں کوئی شی اور کام بغیر کسی ہدف اور حکمت و مصلحت کے نہیں ہے حکیم کا کوئی بھی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا غیبت امام مہدی علیہ السلام میں بھی ہدف اور حکمت موجود ہے اصل فلسفہ اور حکمت سے تو صرف خداوندعالم واقف ہے عام لوگ اس حکمت و مصلحت سے واقف نہیں ہے لیکن جس طرح بہت سے واجبات اور احکامات تعبدی محض ہے اور کسی کو اس کی اصل مصلحت اور حکمے کے بارے میں علم نہیں اسی طرح غیبت امام زمانہ علیہ السلام بھی مصلحت و حکمت خداوندی کی بناءپر عمل میں آئی ہے جیسے طواف کعبہ، رمی حمرہ اور تعداد رکعات نماز، تعداد خازنان جہنم وغیرہ جس کی اصل حکمت و فلسفہ سے صرف خدا آگاہ ہے البتہ بعض مصلحتیں حکمتیں اور اہداف قرآنی آیات میں موجود ہے اور پیغمبر اکرم اور آئمہ طاہرین علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے جو خود معلمین و راہنمائے بشریت ہے اور ارشاد خداوندی کے مطابق من یطلع الرسول فقد اطاع اللہ (سورہ نباءآیت۰۸) جس نے پیغمبر کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی کیونکہ پیغمبر کوئی قدم خدا کی معثیت کے خلاف نہیں اُٹھاتا اس کی گفتار، کردار اعمال سب کے فرمان کے مطابق ہیں اور اس طرح آیہ تطہیر اور اولی الامر کے مطابق چونکہ اہلبیت علیہ السلام ہر رجس سے پاک ہیں اور ان کی طاعت واجب ہے یہ روایات مدرک قطعی کے مطابق روایات متواترہ میں سے ہیں یہ مسلم ہے کہ زمین حجت خدا اور امام زمانہ علیہ السلام سے خالی نہیںرہ سکتی اور چونکہ حجت خدا اس وقت حضرت مہدی علیہ السلام کے سوا کوئی نہ تھا اور انہیں دشمن قتل کر دینے پر تلے ہوئے تھے اس لیے محفوظ و مستود کر دیا گیا کیونکہ مثیت خداوندی یہی ہے کہ زمین حجت سے خالی نہ ہو حدیث میں وارد ہے کہ حجت خدا کی وجہ سے بارش ہوتی اور انہیں کی وجہ سے اور انہیں کے ذریعے روزی تقسیم کی جاتی ہے(بحار) یہ بھی مسلم ہے کہ حضر مہدی علیہ السلام جملہ انبیاءکے مظہر تھے اس لیے ضرورت تھی کہ انہیں کی طرح ان کی غیبت بھی ہوئی یعنی جس طرح بادشاہ وقت کے مظالم کی وجہ سے حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی اپنے عہد حیات میں مناسب مدت تک غائب رہ چکے تھے اسی طرح یہ بھی غائب رہتے بادشاہ وقت خلیفہ محمد عباسی جو اپنے آباءو اجداد کی طرح ظلم و ستم کا خوگر اور آل محمد کا جانی دشمن تھا اور اس کے کانوں میں مہدی علیہ السلام کی ولادت کی خبر کم و بیش بڑھ چکی تھی اس نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد تکفین و تدفین سے پہلے حضرت کے گھر پر پولیس کا چھاپہ ڈبوایا اور چاہا کہ امام مہدی علیہ السلام کو گرفتار کرا لے اور چونکہ آپ کو اپنی جان کا خوف تھا اور یہ طے شدہ بات ہے کہ جیسے اپنے نفس اور اپنی جان کا خوف ہو وہ پوشیدہ ہونے کو لازمی جانتا ہے سورہ انا انزلناہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نزول ملائکہ شب قدر میں ہوتا رہتا ہے یہ ظاہر ہے کہ نزول ملائکہ انبیاءو اوصیاءہی پر ہوا کرتا ہے لہذا امام مہدی علیہ السلام کو اسی لیے موجود اور باقی رکھا گیا ہے تا کہ نزول ملائکہ کی مرکزی غرض و مقصد پوری ہو سکے اور شب قدر میں انہیں پر نزول ملائکہ ہو سکے حدیث میں ہے کہ شب قدر میں سال بھر کی روزی وغیرہ امام مہدی علیہ السلام تک پہنچا دی جاتی ہے اور وہی اس سے تقسیم کرتے رہتے ہیں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق امام مہدی علیہ السلام کو اس لیے غائب کیا جائے گا تا کہ خداوند عالم اپنی ساری مخلوقات کاامتحان کر کے یہ جانچے کہ نیک بندے کون ہیں اور باطل پرست کون لوگ ہیں زمانہ غیبت میں مصائب و مشکلات کے ذریعے شیعوں سے امتحان لیا جائے گا آپ کی غیبت کے متعلق قرآن مجید میںارشاد خداوندی ہے: الم ذالک الکتاب لاریب فیہ ھدی للمتقین الذین یومنون بالغیب مفسر اعظم حضرت محمد فرماتے ہیں کہ ایمان بالغیب سے امام مہدی علیہ السلام کی غیبت مراد ہے نیک بخت وہ لوگ ہیں جو ان کی غیبت پر صبر اور زمانہ غیبت مراد ہے نیک بخت وہ لوگ ہیں جو ان کی غیبت پر صبر اور زمانہ غیبت میں ان پر ہونے والے مشکلات پر صبر کریں گے اور مبارک باد اور آفرین کے قابل ہیں وہ لوگ جو غیبت میں بھی ان کی محبت پر قائم رہیں گے اور شاید آپ کی غیبت اس لیے واقع ہوئی ہے کہ خداوند عالم ایک وقت معین میں آل محمد پر جو مظالم کیے گئے ہیں ان کا بدلہ امام مہدی علیہ السلام کے ذریعے سے لے گا عبدالسلام بن صالح ہروی سے مروی ہے کہ اس نے کہا میں نے امام رض علیہ السلام سے کہا اے فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام سے ملنے والی حدیث میں فرمایا گیا کہ جب ہمارا قائم علیہ السلام ظاہر ہو گا تو وہ قاتلان حسین علیہ السلام کی اولاد کو ان کے اجداد کے جرائم کی پاداش میں قتل کرے گا امام رض علیہ السلام نے فرمایا یہ درست ہے میں نے کہا خدا نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ولا تزر وازرة وزراخریٰ کوئی شخص کسی دوسرے (گناہ) کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا اس کا کیا مفہوم ہے آپ نے فرمایا خدا نے اپنے تمام کلام میں سچ کہا ہے لیکن چوکہ امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کی اولاد اپنے اجداد کے اعمال پہ راضی اور اس پہ فخر کرتے ہیں اس لیے وہ بھی قتل کیے جائیں گے جو شخص کسی کے عمل پر راضی ہو تو گویا وہ اس عمل کے بجا لانے میں اس کا شریک ہے اگر کوئی انسان مشرق میں قتل کیا جائے اور مغرب میں کوئی اس کے قتل پر خوش ہو تو خداوندعالم کے نزدیک وہ بھی اس قتل کا ساتھی ہے حضرت قائم علیہ السلام ے ہاتھوں ان کے قتل ہونے کا یہی سبب ہے اور شاید ایک سبب اور حکمت امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا یہ بھی ہو بقول محقق طوسی کہ وجودہ لطف وتصرفہ لطف اٰخروعدمہ منا امام زمانہ علیہ السلام کا وجود لطف ہے اور ان کا تصرف دوسرا لطف ہے اور ان کی غیبت ہماری طرف سے ہے مقصد یہ ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا سبب اور ان کا امور مسلمین میں تصرف نہ فرمانا یہ سب اس لیے ہے کہ ابھی تمام مسلمان حضرت کی اطاعت پر آمادہ نہیں ہیں اور مستضعفین کو متکبرین اور طاغوت کے شر سے نجات دلانا اور سارے جہاں میں عدل عمومی کی آمادگی شرط اول ہے اور ابھی تک اس تصرف کی شرائط فراہم نہیں ہوئیں بقول شہید مطہری کہ یہ دنیا کا دستور ہے کہ جب کسی اہم مہمان کو دعوت دیتے ہیںتو بہت اہتمام کرتے ہیں اور اپنے گھر کی صفائی کرتے ہیں لذیذ کھانے تیار کرتے ہیں تو کس طرح ممکن ہے کہ ہم اس عظیم شخصیت کو دعوت دیں اور اپنے دل کے گھر کو ہر گناہ اور خلاف ورزی سے صاف نہ کریں کیونکہ امام زمانہ علیہ السلام کا ایک شرعی فرض یہ ہے کہ وہ زمانہ غیبت کے لیے اپنے جانشینوں کا تعین فرمائیں خواہ لوگ انہیں تسلیم کریں یا نہ کریں اس سے آپ کا شرعی فریضہ پورا ہو جائے گا اور آپ نے ان جانشینوں کے بارے میں فرمایا ہے ان کی بات رد کرنے والا ہماری بات کو رد کرنے والا ہے اور جس نے ہماری بات کو رد کیا اس نے خدا کے فرمان کو رد کیا اور خدا کے فرمان کو رد کرنے والا حد شرک میں داخل ہو جاتا ہے ایک اور روایت میں امام زمانہ علیہ السلام سے یہ الفاظ مروی ہےں آپ نے فرمایا امورو احکام ان علمائے الہیٰ کے ہاتھوں جاری ہون گے جو حلال و حرام کے لیے اللہ کے امین ہوں گے اب یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم مسلمانوں میں سے کتنے لوگ ان جانشینوں کی اطاعت کرتے ہیں اور ظہور امام زمانہ علیہ السلام کے لیے اپنے دل کے گھر کو آمادہ کرتے ہیں رہبر کی اطاعت مسلمانوں پر فرض ہے کیونکہ اس سے نظام اسلام کی بقاءوابستہ ہے اور مسلمانوںکے اجتماعی امور اور ان کی فلاح و دستگاری کا انحصار اسی پر ہے کہ وہ ایک مرکز سے وابستہ ہوں تا کہ مضبوط مرکز کی وجہ سے طاغوت و استکبار کے تسلط سے محفوظ رہیں ارشاد خداوندی ہے سورہ بقرہ ولنبلونکم بشیءمن الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات و بشرالصابرین الذین اذا اصابتھم مصیبة قالو انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اور ہم یقینا تمہیں تھوڑے خوف، تھوڑی بھوک اور اموال، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر آپ ان صبر کرنے والوں کو شہادت دے دیں جو مصیبت پڑنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جانے والے ہیں اس نفسا نفسی اور دہشت گردی کے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان دنیا کے کسی بھی خطے میں محفوظ نہیں ہیں نہ مالی لحاظ سے اور نہ جانی لحاظ سے جس ملک میں بھی اسلامی حکومتیں ہیں اس ملک کو اس کے باشندے اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو اس کا الزام مسلمانوں کے اوپر ہے یہ سب امتحان نہیں تو اور کیا ہے خدا کریں کہ ہم ان مصائب پر صبر کر کے اور دشمنان اسلام کے نا پاک عزائم کو نا کام بنا کے اس آیت کے مصداق بن جائیں۔
انا وجدناہ صابر انعم العبد انہ اواب۔(سورہ ص)
ہم نے اسے صابر پایا بہترین بندہ جو ہماری طرف بہت ہی رجوع کرنے والا ہے علامہ شیخ قندوزی بلخی حنفی لکھتے ہیں کہ سدیر صیرفی کا بیان ہے کہ ہم اور مفضل بن عمر، ابو بصیر، ابان بن تغلب ایک دن صادق آل محمد کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ زمین پر بیٹھے تھے اور رو رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے کہ اے محمد تمہاری غیبت کی خبر نے میرا دل بے چین کر دیا ہے میں نے عرض کی حضور خدا آپ کی آنکھوں کو کبھی نہ رولائے بات کیا ہے کس لیے حضور گریہ کناں ہیں فرمایا اے سدیر میں نے آج کتاب جفر جامع میں بوقت صبح اما مہدی علیہ السلام کی غیبت کا مطالعہ کیا ہے اے سدیر یہ وہ کتاب ہے کہ جس میں جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے سب اس میں لکھا ہوا ہے اے سدیر میں نے اس کتاب میں دیکھا ہے کہ ہماری نسل سے امام مہدی علیہ السلام ہوں گے پھر وہ غائب ہو جائیں گے اور ان کے غیبت نیز طول عمر ہو گی ان کی غیبت کے زمانے میں مومنین مصائب میں مبتلا ہوں گے اور ان کے امتحانات ہوتے رہیں گے اور غیبت میں تاخیر کی وجہ سے ان کے دلوں میں شکوک پیدا ہوں گے غیبت کی طویل ہونے اور ظہور میں تاخیر خود ایک بہت سخت اور دشوار امتحان ہے جس مومنین حقیقی اور غیر حقیقی کی پہنچا ہو جائیں گے اس دور میں جب اسلام دشمن عناصر مسلمانوں کو گمراہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور شب و روز کوششوں میں مصروف ہیں اور ہر قسم کے حربے استعمال کرتے ہیں تا کہ مسلمانوں کو ان کے دین و مذہب سے دور کرکے اور ان کو اسلام سے بدظن کر کے یہ تاثیر دلا دے کہ جو دیندار ہو گا ان کی مال و جان عزت و آبرو خطرے میں ہو گا اسی لیے اب تو بعض نوجوان اس روز کے واقعات و حادثات سے ننگ و آکر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ آخر امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور کب ہو گا ہم کب تک انتظار کریں اس مذہب کا کیا فائدہ جس کی وجہ سے ہم ہر روز قتل ہو جائیں عزیزان امتحان بہت مشکل ہے اس لیے تو حدیث میں وارد ہے کہ آخرالزمان علیہ السلام میں ایمان کی حفاظت کرنا گرم لو ہے کو پکڑنے سے زیادہ دشوار ہے اسی طرح کمزور ایمان والے غیبت امام مہدی علیہ السلام اور تاخیر ظہور کی وجہ سے فرامین پیغمبر اور آئمہ علیہ السلام کی تکذیب کر رہے یں اور بلا وجہ اعتراضات کر کے اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں اور احادیث میں اپنی طرف سے تاویل و تفسیر کر کے ایک نیا راستہ تلاش کر رہے ہیں جو کہ یقینا ان لوگوں سے قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ سورہ آل عمران آیت ۵۸ میں انہی لوگوں کے بارے ارشاد رب العزت ہے۔ ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو من الاخرة من الخاسرین۔
اور جو اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین تلاش کرے گا تو وہ دین اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور قیامت کے دن خسارہ والوں میں سے ہو گا جو لوگ توحید اور ایک خدا کی بندگی کی راہ میں ثابت قدم ہوتے ہیں ان کے قدم نہ مال و مقام کے امتحانج سے ڈگمگاتے ہیں اور نہ شہوت و لزت کے سامنے ٹھوکر کھاتے ہیں جو لوگ ایمان و عمل ثابت قدم ہوتے ہیں وہ دنیا کے تمام امتحانات میں ثابت قدم ہوتے ہیں اور دشمن کے کسی حربے اور طاقت سے مرعوب نہیں ہوتے حتیٰ کہ قتل ہو جانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں مگر اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کے لیے حاضر نہیں ہوتے اس لیے کہ اسلام و مسلمین کے ساتھ خیانت دراصل خدا کے ساتھ خیانت ہے پس حقیقت صرف یہ ہے کہ دنیا کی تمام مشکلات کا حل تمام دکھوں دردوں اور پسماندگیوں کا علاج اور مسلم امر کی ترقی و خوشحالی کا واحد راستہ تمسک بالثقلین ہے یعنی قرآن مجید اور عترت رسول کی پیروی ہے حضرت محمد و ال محمد سے بہتر کوئی پیشوا نہیں اور کوئی ان کے برابر نہیں امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت یہ بھی ہے کہ خداوند متعال چاہتا ہے کہ اپنے بندوں کی تربیت کر کے انہیں ظہور مہدی علیہ السلام کے لیے آمادہ کرین کیونکہ انتظار ظہور مہدی علیہ السلام تربیت کنندہ بھی ہے اور افضل ترین عمل بھی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: افضل اعمال امتی انتظار الفرج من اللہ عزوجل۔
یعنی میری امت ترین اعمال میں سے ظہور کا انتظار کرنا ہے۔
کسی نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو ہادیان بر حق کی ولایت رکھتا ہے اور حکومت حق کے ظہور کے انتظار میں رہتا ہے اور اسی حالت میں دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: وہ اس شخص کی طرح ہے جو اس رہبر انقلاب کے خیمہ میں اس کی فوج کے سپاہیوں میں ہو پھر آپ نے کچھ توقف کیا پھر فرمایا اسی شخص کی طرح جو پیغمبر اسلام کے ساتھ ان کے معرکوں میں شریک ہو حضرت رسول اور آئمہ علیہ السلام طاہرین علیہ السلام کہ جو شخص قیام مہدی علیہ السلام کا انتظار کرتے ہوئے مر جائے اس کی مثال ایسی ہے گویا وہ امام علیہ السلام کے ساتھ جہاد میں شریک ہے جب کہ اس کا ثواب پچیس شہیدوں کے ثواب کے برابر محی الدین اردبیلی کہتا ہے کہ ایک دن میں بیٹھا اُونگھ رہا ہے ایسی حالت میں یکایک اس کے سر سے عمامہ گر گیا اس کے سر پر زخم کا نشان نمایاں تھا میرے والد نے پوچھا یہ زخم کیسا ہے؟ اس نے جواب دیا یہ جنگ صفین کے زخم کا نشان ہے میرے والد نے اس سے پوچھا تم نے کہاں اور جنگ صفین کہاں؟ یہ کیا معاملہ ہے اس نے جواب دیا میں مصر کی طرف سفر کر رہا تھا غزہ کا رہنے والا شخص بھی ہمراہ ہو گیا اثنائے راہ میں جنگ صفین پر گفتگو چھڑ گئی میرا ساتھی کہنے لگا اگر میں جنگ صفین میں ہوتا تو اپنی تلوار کو علی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے خون سے سیراب کرتا میں نے بھی اس کے جواب میں کہا اگر میں جنگ صفین میں ہوتا تو اپنی تلوار کی پیاش کو معاویہ اور اس کے ساتھیوں کے خون سے بچھاتا اب میں اور تم علی علیہ السلام اور معاویہ کے ساتھیوں میں سے ہیں کیوں نہ باہم جنگ کر لیں آپس میں اچھی خاصی جنگ ہوئی یکایک میں نے محسوس کیا کہ میرے سر پر زخم لگا اور فوراً ہی میں بیہوش ہو گیا اسی اثنا میںمیں نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے نیزے کے سرے سے مجھے بیدار کر دیا ہے جب میں نے آنکھ کھولی تو وہ سوار گھوڑے سے اتر آیا اور اپنا ہاتھ میرے سر کے زخم پر پھیرا میرا زخم ٹھیک ہو گیا فرمایا اسی مقام پر رک جاﺅ کچھ دیر بعد سوار غائب ہو گیا میں نے دیکھا ان کے ہاتھ مین میرے اس ساتھی کا کٹا ہوا سر ہے جو میرے ساتھ سفر کر رہا تھا اور اس کے مال مویشی بھی ان کے ساتھ ہیں واپس آکر مجھ سے فرمانے لگے یہ تیرے دشمن کا سر ہے تو نے ہماری نصرت میں قیام کیا پس ہم نے بھی تمہاری مدد کی جو بھی خداوند عالم کی مدد کرتا ہے خدا اس کی نصرت کرتا ہے میں نے پوچھا آپ کون ہے؟ تو فرمایا میں ہی صاحب الامر علیہ السلام تمہارے زمانے کا امام علیہ السلام ہوں پھر فرمانے لگے جو بھی اس زخم کے متعلق سوال کرے اسے بتانا کہ یہ جنگ صفین کا زخم ہے حضرت مہدی علیہ السلام کی عادلانہ حکومت اور عالمی مصلح کے قیام کا انتظار دو عناصر کا مرکب ہے ایک نفی کا عنصر اور دوسرا مثبت کا عنصر، منفی عنصر موجودہ حالت کی ناپسندیدگی ہے اور مثبت عنصر بہتر اور اچھی حالت کی آرزو ہے اب اگرچہ دونوں پہلو روح انسانی میں اتر جائیں تو دو قسم کے وسیع اعمال کا سر چشمہ بن جائیں گے ان دو قسم کے اعمال میں ایک طرف تو ظلم و فساد کے عوامل سے ہر طرح کا تعلق ترک کرنا ہے یہاں تک کہ ان سے مقابلہ اور جنگ کرنا ہے اور دوسری طرف خودسازی ہے اگرہم اچھی طرح غورکریں تو دیکھیں گے کہ اس کے دونوں حصے اصلاح کن، تربیت کنندہ اور تحرک، آگاہی اور بیداری کے عوامل ہیں سچے انتظار کرنے والوں کی ساتھ ساتھ یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ فقط اپنی اصلاح نہ کریں بلکہ ایک دوسرے کے حالات پر بھی نظر رکھیں اور اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسروں کی اصلاح کی بھی کوشش کریں کیونکہ جس عظیم پروگرام کی تکمیل کے وہ منتظر ہیں انفرادی نہیں بلکہ ایسا پروگرام ہے جس میں تمام عناصر انقلاب کو شرکت کرنا ہو گی ایک اجتماعی اور وسیع جنگ کے میدان میں کوئی شخص دوسرں کے حال سے غافل نہیں رہ سکتا بلکہ اس کی ذمہ داری ہے کہ کمزوری کا کوئی نقطہ اسے جہاں نظر آئے اس کی اصلاح کرے تنہا جو چیز انسان میں امید کی روح پھونک سکتی ہے انہیں مقابلے اور کھڑے رہنے کی دعوت دے سکتی ہے اور انہیں فاسد ماحول میں گھل مل جانے سے رک سکتی ہے وہ ہے مکمل اصلاح کی امید صرف یہی صورت ہے کہ جس میں وہ اپنی پاکیزگی کی حفاظت کر سکتے ہیں اور دوسروں کی اصلاح کی جدوجہد کو جاری رکھ سکتے ہیں خلاصہ یہ کہ جس قدر دنیا فاسد اورخراب ہو گی مصلح کے ظہور کے انتظار میں امید بڑھے گی جو معتقدین پر زیادہ روحانی اثر ڈالے گی برائی اور خرابی کی طاقتور موجوں کے مقابلے میں یہ امید ان کی حفاظت کرے گی اور وہ نہ صرف ماحول کے دامن فساد کی وسعت سے مایوس نہیں ہوں گے بلکہ وعدہ وصل کی نزدیکی سے ان کی آتش عشق تیز ہوں گی بقول شاعر
وعدئہ وصل چون شود نزدیک
آتش عشق تیز نستر گردد
یہ تھی فلسفہ و حکمت غیبت امام زمانہ علیہ السلام خدا سے دعا گو ہوں کہ ہم سب کو اپنے محبوب و معشوق امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے اور ان کے سچے پیروکار اور منظر حقیقی ہونے کی توفیق عطا فرمائیں مضمون کے اختتام میں فرزندان اسلام سے بالعموم اور شیعیان حیدر کرار علیہ السلام سے بالخصوص دردمندانہ اپیل کرتی ہوں ہ خدا را اپنے اعمال پر نظر ڈالیں اور اپنے اعمال کی اصلاح کریں اور اپنی دو عملی سے اسلام و مسلمین کی بد نامی کا ذریعہ نہ بنیں جناب رسالت مآب اور ہادیان دین نے ہمیشہ اپنے کردار سے اسلام کی تبلیغ کی اور آج دنیا آپ کے عمل کو دیکھ رہی ہے آج کا دور جو کہ الیکٹرانک میڈیا اور پریس کی بے تحاشا قوت کا دور ہے دنیا اپنے ذرائع ابلاغ سے آپ کی بد اعمالیوں کو نمایاں کر رہی ہے اور آپ کی بد عملی اسلام کی نشرواشاعت میں رکاٹ بن رہی ہے آج کے اس دور میں وحدت و اتحاد اور بھائی چارہ کی اشد ضرورت ہے ہمیں چاہتے کہ اپنے آپ کو ظہور مہدی علیہ السلام کے لیے آمادہ کریںخداوند ہم سب کو دیدار مہدی علیہ السلام کا شرف عطا فرمائیں۔
الہیٰ بہ امید شفاعت فاطمہ علیہ السلام
مآخذ: منتہی الآمال، مہدی علیہ السلام موعود، سیرہ آئمہ تفسیر نمونہ کتاب آیت اللہ دستغیب۔
|