بسم اللہ الرحمن الرحیم
3- حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت
از: حماد رضا شاہ
تعارف امام زمانہ علیہ السلام:
بارہ آئمہ معصومین علیہ السلام پر عقیدہ رکھنا ہمارے مذہب تشیع کا اُصول ہے۔
ہمارے آئمہ میں سب سے پہلے حضرت علی علیہ السلام ہیں اور یہی سلسلہ امامت، ہمارے آخری امام زمانہ علیہ السلام حضرت محمد مہدی علیہ السلام پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
آپ کی ولادت با سعادت ۵۵۲ہجری میں ہوئی آپ سامرہ میں پیداہوئے آپ کے والد گرامی حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ہیں جو سلسلہ امامت کی گیارہویں کڑی ہیں آپ کی والدہ کا نام نرجس خاتون علیہ السلام ہے۔
بمطابق عقیدہ اہل تشیع آخری امام علیہ السلام کی ولادت ہو چکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو طولانی عمر سے نوازا اور حکمت خداوندی کے تحت امام مہدی علیہ السلام غیبت میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
احادیث میں صفات کریمہ کے اعتبار سے امام مہدی علیہ السلام کے متعدد اسمائے گرامی منقول ہیں مثلاً مہدی علیہ السلام، حجت علیہ السلام، منتظر علیہ السلام، خلف صالح علیہ السلام، صاحب الامر علیہ السلام۔
ادوار غیبت:
امام مہدی علیہ السلام کی غیبت دو ادوار پر مشتمل ہے۔
غیبت صغریٰ غیبت کبریٰ
غیبت صغریٰ:
غیبت صغریٰ کا دور ۵۵۲ہجری آپ کی ولادت سے شروع ہوتا ہے اور یہ دور ۹۲۳ ہجری تک جاری رہتا ہے۔
غیبت کبریٰ:
اس دور کی ابتداء۹۲۳ہجری میں ہوئی اور یہ دور امام علیہ السلام کے اعلان ظہور پر اختتام پذیر ہو گا۔
غیبت اسلام کے مفادات کے عین مطابق:
غیبت امام علیہ السلام بے مقصد نہیں بلکہ یہ حالات کا تقاضا ہے یہ وقت کی ضرورت ہے اور امام مہدی علیہ السلام بھی ایک مخصوص ہدف کے تحت غیبت میں اپنی حیات مبارکہ رہے ہیں غیبت امام علیہ السلام کے مفادات اور حالات کے تقاضوں کے عین مطابق واقع ہوئی اور امام علیہ السلام کی شخصیت ایک بے مثل و بے نظیر رہنماکی حیثیت سے اپنی تیز بین فکر و نظر کے ساتھ امت محمدیہ اور اپنے حامیوں پر نظر رکھتے ہیں فکری و علمی میدانوں میں امام علیہ السلام کا اپنے حامیوں سے رابطہ بر قرار رہتا ہے۔
خداوند متعال حقیقی رازدان:
بعض اوقات انسان کے ذہن میں یہ سوال بھی اُبھرتا ہے کہ آخر غیبت کی اصل اور حقیقی راز یا حکمت کیا ہے؟
اس کے جواب میں دو باتیں ممکن ہیں۔
آپ علیہ السلام کی غیبت کی وجہ اس وقت واضح ہو گی جب آپ ظہور فرمائیں گے مثلاً جس طرح حضرت خضر علیہ السلام کے اعمال کی حکمت وقتی طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بالکل معلوم نہ ہوئی مگر جب آپ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام سے جداہونے لگے تو تمام حکمتین جناب خضر علیہ السلام نے بیان فرما دیں۔
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
وللہ غیب السموات والارض۔(سورہ ہود ۳۲۱)
اور سارے آسمان و زمین کی پوشیدہ باتوں کا علم خاص خدا ہی کو ہے۔
پس حقیقی مقصد غیبت خدا کو معلوم ہے۔
م ©صلحت خداوندی:
حکیم کا فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔
یہ الگ بات ہے کہ عوام اس حکیم کی حکمت کو سمجھنے سے قاصر ہوں اسی طرح امام علیہ السلام کو غیبت اسی مصلحت و حکمت خداوندی کی بناءپر عمل میں آئی جیسے طواف کعبہ، رمی جمرہ وغیرہ جن کی مصلحت خدا ہی معلوم ہے ہماری محدود فکر و نظر کے مطابق اگر اس زمانے میں بھی ظہور فرمائیں تو یہ منفعت بخش اور بہتر ہے مگر خدا نے اس مقدس وجود کو لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ رکھا ہے اور کے کام بڑے استحکام کے ساتھ مصلحتوں کے مطابق اور قطعی اور واقعی حکمتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انجام پاتے ہیں لہذا صاحب الامر علیہ السلام کی غیبت کی بھی کوئی نہ کوئی علت و حکمت ہو گی اگرچہ اس تفصیل ہمیں معلوم نہیں۔
مختلف اور متضاد نظریات کا جائزہ اور حقیقت:
جب بعض لوگ مختلف اور متضاد واقعات و نظریات کو پڑھتے ہیں تو شک میں پڑھ جاتے ہیں مثلاً آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ ظلم و جور روز افزوں ہے امن کی کوئی جگہ نظر نہیں آتی ہر طرف ظلم کا پہرہ معلوم ہوتا ہے اور امام علیہ السلام اس کے باوجود غیبت میں ہیں حالانکہ امام علیہ السلام کے فرائض میں سر فہرست ظلم و ستم کا خاتمہ ہے لہذا امام مہدی علیہ السلام کو لوگوں کی نظروں سے غائب نہیں ہونا چاہیے اور پردہ غیبت سے نکل کر امن و سکون کا تمام دنیا میں نفاذ کرنا چاہیے اس طرح ظلم کا خاتمہ ہو جاتا اور فرض امام علیہ السلام ادا ہو جاتا ہے۔
مندرجہ بالا استدلال کا مطلب ہے کہ
اگر ظلم و جور ہے تو دو ہی باتیں ممکن ہیں۔
یا تو امام علیہ السلام کا وجود (نعوذ باللہ) ہی نہیں بلکہ صرف نظریہ ہے۔
یا پھر امام علیہ السلام واقعی موجود ہیں زندہ اور غائب ہیں اور مظلومین پر ظلم و جور دیکھ رہے ہیں تو یقینا فرض پورا نہیں کر رہے۔
اسی قسم کے نظریات انسان کو گمراہی کے قریب لے جاتے ہیں مگر اگر فکر و نظر کو تھوڑی سی وسعت دی جائے تو حقیقت کا ادراک بھی ممکن ہے یعنی مندرجہ بالا استدلال کو تھوڑا سا مزید آگے بڑھایا جائے۔
غلط استدلال کا ثبوت:
استدلال کو غلط ثابت کرنے کے لیے ثبوت کی ضرورت ہے لہذا اس سلسلے میں دو واضح باتیں (ثبوت) مندرجہ ذیل ہیں۔
امام علیہ السلام کی غیبت چونکہ معشیت ایزدی کے تحت ہوئی لہذا جب خداوندمتعال چاہے گا اسی وقت ظہور امام علیہ السلام ہو گا چاہے لوگا جتنا فریاد کریں کیونکہ امام علیہ السلام عوام کی خواہشات کے تحت نہیں کہ جب بھی لوگ ظلم سے تنگ آ کر امام علیہ السلام کو پکاریں اور امام علیہ السلام حاضر (نعوذ باللہ) ہو جائیں۔
ظلم و جور اور امام علیہ السلام دونوں اکٹھے نہیں ہو سکتے لہذا اگر امام علیہ السلام ہوتے تو ظلم نہ ہوتا۔
اس استدلال کے غلط ہونے کا ثبوت مندرجہ ذیل بھی ہے۔
کیا یہ استدلال خدا کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔
یعنی اگر خدا ہوتا تو ظلم و جور نہ ہوتا پس خدا کا وجود ہی (نعوذ باللہ) نہیں پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ غیبت بے معانی نہیں بلکہ با مقصد ہے اور غیبت حقیقت میں مشیت ایزدی ہے یہ خدا کی مرضی چاہے ایک دن غائب رکھے چاہے تو صدیوں بلکہ نامعلوم تک غائب رکھے اس کی مشیت پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
گزشتہ حکمتیں اور غیبت امام علیہ السلام:
امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کوئی نئی بات نہیں کیونکہ غیبت امام علیہ السلام پہلے کئی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن کا ایک عام شخص کو نقصان نظر آ رہا ہوتا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے مثلاً عبداللہ بن فضل نے روایت کی ہے کہ اس نے کہا میں نے جعفر بن محمد امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا ہے کہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں۔
صاحب الامر علیہ السلام کے لیے غیبت ہے جو ضرور ہونی ہے ہر باطل پرست اس میں شک کرے گا۔
پس میں نے عرض کیا یہ غیبت حضرت علیہ السلام کے لیے کیوں قرار دی گئی؟
ایسے امر کی خاطرمیں جس کو کھولنے کی ہمیں اجازت نہیں دی گئی یعنی ہم تم کو نہیں بتا سکتے۔
میں نے عرض کیا امام علیہ السلام کی غیبت میں کیا حکمت ہے؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ وہی حکمت ہے جو گزشتہ حج خدا کی غیبتوں میں ہوتا رہا ہے اس میں حکمت کی وجہ ہے وہ ظاہر نہ ہو گی مگر آپ علیہ السلام کے ظہور کے بعد جس طرح جو شخص خضر علیہ السلام کے پاس آیا تھا اس کے لیے کشتی میں سوراخ کرنے لڑکے کو قتل کرنے اور بغیر اجرت کو دیوار بنانے کی حکمت حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جب تک ظاہر نہ ہوئی دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوئے اے ابن فضل یہ اللہ کے امر میں سے ایک امر ہے اس کے رازوں میں سے ایک راز اور اس کے غیب میں سے ایک غیب ہے اور جب ہمیں علم ہے کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے ہم تصدیق کرتے ہیں کہ اس کے افعال کی ایک حکمت ہے اگرچہ اس کی وجہ ہمارے لیے ظاہر و منکشف نہ ہو۔
(بحارالانوار ج۲۵ ص۱۹)
غیبت کبریٰ سے پہلے غیبت صغریٰ کیوں؟
الناس ا ¿عرآءما جھلوا۔
جس چیز کو لوگ نہیں جانتے اس کے دشمن ہوتے ہیں۔(نہج البلاغہ ص۷۸۷)
عوام الناس کے امام علیہ السلام اور رہبر کا نظروں سے اوجھل ہو جانا اور وہ بھی طویل مدت کے لیے ایک ایسا معاملہ ہے جو نہایت عجیب و غریب اور غیرمانوس لگتا ہے اور اس پر لوگوں کا یقین کامل بھی مشکل تھا پس سب سے بڑی وجہ ہی تھی جس کے لیے غیبت کبریٰ امام مہدی علیہ السلام وفات امام حسن عسکری علیہ السلام کے فوراً بعد شروع نہ ہوئی اگر غیبت شہادت امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعد فوراً وقوع پذیر ہوتی تو ممکن تھا کہ امام علیہ السلام زمانہ کا وجود مقدس فراموش کر دیا جاتا فرمان امیرالمومنین علیہ السلام حضرت علی علیہ السلام کے مطابق لوگ چونکہ غیبت پہلے نہیں دیکھ چکے ہوتے اور انہیں غیبت کے بارے میں علم بھی چونکہ کچھ زیادہ نہ تھا لہذا جو بھی غیبت کا نام لیتا جھٹلا دیا جاتا کیونکہ اس کے بارے میں کم علمی کیوجہ سے غیبت کی مخالفت کرتے ہیں اس مسئلے کے پیش نظر غیبت کبریٰ سے پہلے غیبت صغریٰ واقع ہوئی تا کہ شیعان بذریعہ نائبین امام علیہ السلام سے تعلق بر قرار رکھ سکیں اور امام علیہ السلام کی علامات اور کرامتوں کا مشاہدہ کر لیں تا کہ یقین کامل حاصل ہو جائے۔
امتحان و آزمائش مومنین:
وہ لوگ یا گروہ جو ایمان محکم نہیں رکھتے ان کا باطل کھل کر سامنے آجاتا ہے اور وہ جن کے دلوں کی گہرائی میں ایمان نے جڑ نہ پکڑ رکھی ہے عہد کشائش کے انتظار، مصیبتوں پر صبر اور ایمان بالغیب کی وجہ سے ان کی قدر و قیمت معلوم ہوجاتی ہے اور وہ حصول ثواب کے درجات پر فائز ہو جاتے ہیں حضرت علی علیہ السلام روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے فرمایا آخر زمانہ میں فتنے برپا ہوں گے ان فتنوں سے لوگ اس طرح چھنٹ جائیں گے جس طرح سونا کان سے چھانتا جاتا ہے۔ (مجمع الزاوئد، ج۷ ص۷۱۳، المتدرک ج۴ ص۶۵۵)
(یعنی فتنوں کی کثرت و شدت کی وجہ سے مومن ہی ایمان پر ثابت قدم رہیں گے)
ایک اور مقام پر موسیٰ ابن جعفر علیہ السلام نے فرمایا:
جس وقت امام ہفتم کی پانچویں نسل کا فرزند غائب ہو تو اپنے دین کی حفاظت کرنا کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی تمہیں دین سے خارج کر دے اے فرزند صاحب الامر علیہ السلام کی غیبت مجبوراً ہو گی اس سے کہ مومنین کا ایک گروہ اپنے عقیدے سے منحرف ہو جائے گا اور خدا غیبت کے ذریعے مومنین کا امتحان لیتا ہے۔(بحارالانوار ج۲۵ص۳۱۱)
ظالم حکمرانوں کی بیعت اور ظلم سے محفوط:
حسن ابن فضال کہتے ہیں علی ابن موسیٰ رض علیہ السلام نے فرمایا:
”گویا میں اپنے شیعوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ تیری نسل کے فرزند یعنی حسن عسکری علیہ السلام کی وفات کے بعد اپنے امام علیہ السلام کی تلاش میں جگہ جگہ مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن اس کو پا نہیں رہے میں نے عرض کیا اے فرزند رسول کیوں؟ فرمانے لگے اس وجہ سے کہ ان کا امام علیہ السلام غائب ہو جائے گا میں نے عرض کیا کیوں غائب ہو جائیں گے؟ فرمانے لگے“ اس لیے کہ ایک وقت شمشیر بکف ہو کر قیام کرے گا اور کسی کی بیعت اس کی گردن پر نہیں ہو گی۔(بحارالانوار ج۱۵ ص۲۵۱)
مندرجہ بالا روایت میں ایک وجہ غیبت بیان ہوئی ہے کہ جب بھی حضرت حجت علیہ السلام ظہور فرمائیں تو کسی بھی حکمران یا بادشاہ کی بیعت ان کے لیے نہ ہو اور وہ ظلم و ستم کا نشانہ بننے سے محفوظ رہیں۔
حیات امام علیہ السلام کی محافظت:
ایک مقصد غیبت امام زمانہ علیہ السلام جو احادیث نبویہ اور روایات آئمہ علیہ السلام سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کی زندگی خطرے میں تھی کیوکہ بنی عباس اور دیگر حکمران جنہوں نے صدیوں تک امت مسلمہ پر حکومت کی یہ لوگ ہر دور میں ہر وقت امام مہدی علیہ السلام کے در پے آزاد ہوتے خصوصاً ایسی صورت میں جب احادیث نبویہ سے انہیں یقین تھا کہ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ان کی حکومتوں کے لیے جب زوال ہو گا ان کے تخت الٹ جائیں گے اور ان کی من مانیاں کافور ہو جائیں گی۔
اگر مسلم احادیث کی بیان کردہ نظریہ کی روشنی میں آئمہ اہل بیت علیہ السلام کی تاریخ حضرت امام علی علیہ السلام سے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام تک دیکھی تو یہ معلو م ہو گا کہ کوئی امام بھی اپنی طبعی موت کی وجہ سے دنیا سے رخصت نہیں ہوا بلکہ امام علیہ السلام کو تلورا یا زہر سے شہید کر دیا گیا جب کہ ان آئمہ معصومین علیہ السلام کے قاتل جانتے تھے کہ قیام عدل و انصاف کی جو بشارت حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حق میںآئی وہ کسی امام علیہ السلام کے لیے نہیں بتائی گئیں یہ بھی معلوم تھا کہ امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کائنات عالم پر ہو گی گو اپنے مقام پر آئمہ علیہ السلام کو تو علم تھا کہ ہم امام مہدی علیہ السلام نہیں لیکن ان حکمرانوں کو کیسے یقین آتا کہ یہ امام مہدی علیہ السلام نہیں ہیں بلکہ ممکن ہے امام حسین علیہ السلام کے قتل میں بھی یہ راز ہو کہ جب مہدی علیہ السلام اولاد حسین علیہ السلام سے ہو گا تو پھر اس کو ختم کر دیا جائے تا کہ نہ یہ رہے (نعوذ باللہ) اور نہ امام مہدی علیہ السلام آئے پھر ہمیشہ اسی فکر نے ہر حکمران کو ہر امام علیہ السلام کا دشمن بنائے رکھا اور انہیں شہید کرتے رہے پس اسی وجہ سے امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کو پوشیدہ رکھا گیا اور خداتعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو لوگوں کی نظروں سے غائب کر دیا تا کہ فراعنہ وقت اس کا سراغ پہ ہی نہ سکے اور انہیں شہید نہ کر سکے۔
یہ طے شدہ ہے کہ:
من خاف علی نفسہ احستاج الی استتار۔
جسے اپنے نفس اور جان کا خوف ہو وہ پوشیدہ ہونے کو لازمی جانتا ہے۔(المرتضیٰ)
اگر امام زمانہ علیہ السلام ہوتے تو ان کے لیے کیا خطرہ تھا؟
بعض لوگ وجود امام علیہ السلام کے قائل تو ہیں لیکن غیبت نے ان ضعیف عقائد بیچاروں کو پریشان کر رکھا ہے۔
کتاب امام المہدی علیہ السلام (ولادت سے ظہور تک) متصنف السید محمد کاظم القزوینی ص ۴۶۱ تحریر فرماتے ہیں کہ:
نجف اشراف میں ایک بے نام قصیدہ آیا شاعر نے اپنا نام اور مقام نہیں لکھا اس قصیدہ میں بعض شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور بعض منابعے دیئے گئے ہیں۔
ان میں سے غیبت کے متعلق شاعر تحریر کرتا ہے کہ ص ۷۶۱ نمبر۹۱
وان قیل من خوف الا ذاة تراختفیٰ نزلک قول من مصائب یفتعر
ترجمہ: اگر یہ کہا جائے کہ امام مہدی علیہ السلام خوف تکالیف میں چھپے بیٹھے ہیں تو یہ ناقابل قبول اور ناقص نظریہ ہو گا۔
شاعر کے شعر کا مطلب ہے کہ امام علیہ السلام کا ظہور فرما کر تکالیف برداشت کرنی چاہیے غیبت نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ بزدلی کی علامت ہے اور امام علیہ السلام بزدل نہیں ہوسکتا لہذا بہترین راستہ ظہور ہے۔
مندرجہ بالا نظریہ قبول کرنے سے عقل قاصر نہیں کیونکہ جب سرور کونین کو یقین تھا کہ میرا دین تمام مذاہب کا ناسخ ہے پھر کیا وجہ تھی کہ شب ہجرت غاز میں چھپے؟
کن وجوہات کی بناءپر آپ مدینہ سے آئے تھے اور معروف راستہ چھوڑ کر غیر موزوں راستہ اختیار کیا حالانکہ آپ بر حق پیغمبر خدا تھا۔
سورہ قصص آیت نمبر ۸۱ حضرت موسیٰ علیہ السلام مدائن میں ڈرتے ہوئے کیوں داخل ہوئے کیا آپ علیہ السلام انبیاءمیں سے نہ تھے۔
قصص آیت ۱۲ مصر سے ڈر کر کیوں نکلے کیا (نعوذ باللہ) بزدل تھے۔
کیا فقران شجاعت کے باعث تین سال اور کئی ماہ شعب ابو طالب علیہ السلام میں محصور ہو کر گزارے۔
اور بعد از بعثت زمانہ فرت میں چھپ کر تبلیغ کرتے کیا آپ علیہ السلام کو خدا پر بھروسہ نہ تھا۔
کیا خدا صحابہ کرامؓ اور نبی کی حفاظت کرنے پر قادر نہ تھا کہ ارقم کے گھر میں چھپ کر عبادت خدا کرتے تھے۔
پس شاعر کا عقیدہ درست نہیں اور مصلحت خداوندی ہے کہ امام علیہ السلام وقت نا معلوم تک غیبت میں رہیں۔
کذاب مدعی نبوت، حقیقی امام علیہ السلام کی حفاطت:
کتاب الامام المہدی علیہ السلام میں شاعر کا ایک شہر ہے کہ جس کا مفہوم ہے کہ اگر ایک چھوٹے مدعی نبوت کو کوئی کچھ نہیں کہتا توپھر سچے حقیقی امام علیہ السلام کو کوئی کیا کہہ سکتا لہذا امام علیہ السلام کی زندگی کو کوئی خطرہ لا حق اور غیبت بے معنی ہے۔
جواب:
ظاہراً استدلال کافی مضبوط ہے لیکن حقیقتاً یہ اعتراض و استدلال سو فیصد غلط ثابت ہوا ہے کیونکہ
صرف ایک مدعی نبوت (غلام احمد قادیانی) کی مثال دی گئی ہے۔
اور مثال بھی ایسے ملک کی دی گئی ہے جہاں بیسواں (کئی) مذاہب کے معتقد بستے ہیں۔
اگر کسی اور مدعی نبوت اور اسلامی ملک مثلاً ایران کی طرف نگاہ ڈالی جائے تو وہاں محمد علی نے بھی یہ دعویٰ کیا پہلے دعویٰ کیا کہ میں مہدی علیہ السلام تک پہنچنے کا دروازہ ہوں کچھ پختگی آگئی تو کہہ دیا کہ میں ہی مہدی علیہ السلام ہوں۔
لیکن ایران بھارت نہ تھا۔
محمد علی کو ایسی جگہ ڈال دیا گیا جہاں کتوں نے اسے بھبھوڑ ڈالا۔
لہذا شاعر کا استدلال کا ظاہر ہو گیا جھوٹے دعویٰ کرنے والے محفوظ رہ جاتے ہیں تو حقیقی مہدی علیہ السلام محفوظ کیوں نہیں رہ سکتا؟
حق و باطل میں فرق: (بحارالانوار ج۵ص۹۱۲،۲۲۲)
طوالت کے خوف سے روایت مختصر نقل کی گئی۔
سریر الصیرفی کہتا ہے میں مفضل بن ابوبصیر اور بان بن تغلب اکٹھے مولا عبداللہ جعفر علیہ السلام بن محمد کے پاس داخل ہوئے آپ فرما رہے تھے امام مہدیع کی آمد میں تاخیر حضرت نوح علیہ السلام سے اس طرح مشابہ ہے کہ جب حضرت نوح علیہ السلام نے قوم پر عذاب کی خواہش کی تو جبرائیل علیہ السلام اللہ کی طرف سے گھٹیاں لے کر آئے اور کہا:
اللہ کے نبی! اللہ کا پیغام آپ کے لیے یہ ہے کہ یہ لوگ میری مخلوق ہیں میں انہیں آسمانی بجلی سے ختم نہیں کرنا چاہتا مگر یہ کہ اتمام حجت ہو جائے پس تم دوبارہ کوشش کرو اور ان گھٹلیوں کو زمین میں بودو جب یہ پھل دینے لگیں تو اس وقت فرج ہو گی۔
جب درخت پھل دینے لگے تونوح علیہ السلام نے پھر وعدہ یاد دلایا تو خدا نے کہا انہیں دوبارہ بودو جب یہ پھل دینے لگے تو تمہیں فتح نصیب ہو گی صبر سے کام لو اور محنت جاری رکھو۔
پس حضرت نوح علیہ السلام نے انہیں پیغام پہچایا جو ایمان لا چکے تھے ان میں سے تین مرتد ہو گئے اور کہنے لگے:
اگر نوح علیہ السلام کا وعدہ سچا ہوتا اور اس کی بات خدا کی طرف سے ہوتی تو خدا اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔
پس باقی ایمان لانے والے سے زائد رہ گئے اس وقت جی کی۔
اے نوح علیہ السلام! تیری رات گزر گئی اور صبح.... طلوع ہو گئی اور جب خالص حق آ گیا اور گدلا سے صاف جدا ہو گیا کیونکہ جتنے افراد کی طینت میں کھوٹ تھا یا ملاوٹ تھی وہ سب مرتد ہوئے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اسی طرح حضرت قائم علیہ السلام کی غیبت کے ایام طولانی ہوں گے تاکہ خالص حق رہ جائے اور ایمان گدے پن سے صاف ہو جائے تمام کھرے سکے رہ جائیں تمام کھوٹے یا خراب چلے جائیں۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔
امام مہدی علیہ السلام کو اس لیے غائب کیا جائے گا تا کہ خداوندعالم اپنی ساری مخلوقات کا امتحان کر کے یہ جانچے کہ نیک بندے کون ہیں اورباطل پرست کون لوگ ہیں۔ (اکمال الدین)
غلبہ دین اور وعدہ الہیٰ:
مومنین کی حکومت اور پورا عالم دین اسلام کا غلبہ قرآن میں کئی جگہ ذکر ہوا ہے۔
مثلاً سورہ روم آیت نمبر ۱ تا ۵
سورہ قصص آیت نمبر ۵ تا ۶
سورہ انبیاءآیت نمبر ۵۰۱
سورہ قصص کی آیت نمبر ۵ اور ۶ کے بارے میں بحارالانوار علامہ مجلسی ج۱۵ ص۳۶ حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے۔
قرآن کریم نے جن مجبور و بے بس لوگوں کی حکومت کا وعدہ کیا ہے اس سے مراد اہل بیت علیہ السلام ہیں۔
زمین حجت خدا کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی:
یہ مسلمات اسلامی سے ہے کہ زمین حجت خدا (امام زمانہ علیہ السلام) سے خالی نہیں رہ سکتی۔(اُصول کافی ۳، اطبع نولکشور)
چونکہ امام علیہ السلام کے علاوہ کوئی حجت خدا نہیں ہے اور دشمن وقت ولادت اور خاص طور پر وفات پر امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعد امام مہدی علیہ السلام کو قتل کرنے پر تلا ہوا تھا لہذا انہیں محفوظ دستور کر دیا گیا اور اس کے علاوہ اس لےے بھی حجت خدا کا ہونا ضروری ہے کہ بمطابق احادیث بارش برستی ہے تو اور روزی تقسیم کی جاتی ہے تو یہ بغیر حجت اللہ علیہ السلام کے نہیں ہو سکتا انہیں کی وجہ سے بارش برستی ہے۔
تقاضا عدل خدا (کلمہ یافتہ):
خداوندکریم نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:
وجعلھا کلمة باقیة فی عقبہ۔
نسل ابراہیم میں کلمہ باقید کو قرار دیا گیا (چودہ ستارے نجم الحسن کراروی)
نسل ابراہیم دو فرزندوں سے چلی
حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام
حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل خداوندمتعال نے جناب عیسیٰ علیہ السلام کو باقی زندہ رکھا اور آسمان پر محفوظ کر چکا تھا۔
اب یہ قضائے انصاف ضرورت تھی کہ نسل اسماعیل علیہ السلام سے بھی کسی ایک کو باقی رکھے اور وہ کبھی روئے ارض پر کیونکہ آسمان پر ایک باقی (عیسیٰ علیہ السلام) موجود تھا لہذا امام المہدی علیہ السلام کو جو نسل ابراہیم علیہ السلام میں سے ہیں کو زندہ اور باقی رکھا گیا اور دشمنوں کے شر سے محفوظ کر دیا گیا۔
نزول ملائکہ:
قرآن مجید کی پارہ نمبر ۰۳ میں سورہ قدر سے معلوم ہوتاہے کہ نزول ملائکہ شب قدر میں ہوتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ فرشتے ہمیشہ اوصیا و انبیاءمعصومین علیہ السلام پر نزول کرتے ہیں لہذا نزول ملائکہ جو شب قدر کو ہوتا ہے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی وجہ سے بر قرار ہے۔
حدیث میں ہے کہ شب قدر سال بھر کی روزی امام علیہ السلام تک پہنچا دی جاتی ہے اور اسے وہی تقسیم کرتے ہیں۔
مظلوموں کا حقیقی سہارا:
ظلم کی چکی میں پسنے والا مظلم و بے نوا لوگوں کے دکھی دلوں کو بھی صرف اسی بات میں ایک پاکیزہ روشنی اور امید کی کرن نظر آتی ہے کہ بالآخر ایک دن ایسا آئے گا کہ جب مظلوموں کا سہارا لاکھوں افراد کی پکار، نسلوں کی دل کی دھڑکن، امتوں کی نگاہوں کا انتظار اور گروہوں کی آرزو امام مہدی علیہ السلام ظہور کرے گا اور ایک عظیم خدائی عطا کردہ قوت سے ظالموں سے مظلوموں کا حق دلائے گا اور ایک ایسا عظیم انقلاب برپا کر دے گا جس سے مستضعفین کو منکرین اور ستم گروں پر غلبہ حاصل ہو جائے گا لہذا اللہ نے اس لیے کہ امیر غربا اور محتاج لوگوں کی امید کی کرن ختم نہ ہونے پائے لوگ مایوس ہو کر خود کو بے سہارا نہ سمجھیں آخری امام علیہ السلام کے ایام امامت کو طویل اور عمر کو طوالت بخشی۔
امام علیہ السلام کے غائب کا فائدہ:
امام علیہ السلام کا وجود مقدس انسانیت کی غایت نوع اور فرد کامل ہے اور علم مادی و عالم ربوبی کے درمیان واسطہ ہے اور نوع بشر کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اسی امام صاحب الزمان علیہ السلام کی برکت کی وجہ سے ہے۔
امام مہدی علیہ السلام پر ایمان رکھنا ان کے عہد پر سکون کا انتظار اور ان کے ظہور کا انتظار کرنا پر امید رہنے کا سبب ہے اور مسلمانوں کے دلوں کو آرام بخشنے کا باعث ہے۔
اور یہ پر امید ہونا منزل کی طرف بڑھنے اور کامیابی حاصل کرنے کا سبب ہے۔
ہر وہ طبقہ جس کے دل کو مایوسی، بد حالی، نا امیدی نے تاریک کر رکھا ہے اور امید اور آرزو کا چراغ اس میں روشن نہیں وہ ہر گز کامیاب و کامران نہیں ہو گا۔
ہاں البتہ زمانے کے افسوسناک اور خراب حالات عوام اور معارف کی بے قدری کمزور اور پستہ طبقہ کی روز افزوں محرومی، استعماری طاقتوں اور ان کے حربوں کی وسعت سرد و گرم جنگیں اور شر ق و غرب کی اسلحہ کی دوڑ میں جو مقابلے ہیں اس نے دنیا کے خیر خواہ اور روشن فکر افراد کو اس طرح پریشان کر رکھا ہے کہ وہ کبھی کبھی بشر کی صلاحیت ہی سے انکار کر دیتے ہیں۔
امید کا واحد ذریعہ اور راستہ جو انسان کے لیے موجود ہے امید کی تنہا کرن ہے جو اس تاریک جہاں میں پھوٹتی ہے اور وہ صرف امام علیہ السلام کے عہد کشائش حکومت توحید کی تابناک عہد کے پہنچ جانے اور الہیٰ حکومت کے نفوذ کا انتظار ہے۔
مہدی موعود علیہ السلامپر ایمان نے روشن مستقبل اور فرحت بخش مستقبل کو شیعوں کی نگاہوں میں مجسم کر رکھا ہے۔
اور وہ اس دن کی آمد کے خیال سے مسرور ہیں۔
سورج سے تشبیہہ ایک پاکیزہ پہلو:
سوال: امام مہدی علیہ السلام جو غائب ہیں اور عام نگاہوں سے اوجھل ہیں ان کے وجود سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟
جواب: © جواب کے لیے پیغمبر کا وہ فرمان نہایت اطمینان بخش ہے جو آنحضرت نے جابر انصاری سے فرمایا تھا جابر نے حضور سے پوچھا کہ امام علیہ السلام غائب لوگوں کی رہنمائی کے لیے کیا اثر رکھتے ہیں؟
تو آپ نے جواب دیا:
ان کی مثال اسی طرح ہے جسے سورج کے پیچھے بادل۔
وضاحت بادل کے پیچھے رہ کر بھی سورج فائدہ بخش ہے:
ماہرین کی تحقیق کے مطابق۔
انژری کی وہ مقدار جو سورج سے اس کے لیے نظام شمسی جس میں ایک ہماری یہ زمین ہے تک پہنچ سکتی وہ سورج سے نکلنے والے انژری کا(2/100000000000) حصہ ہے۔ لہذا اگر کروہ ارض کے کسی ایک حصے پر اس کی روشنی براہ راست نہ پڑے بلکہ بادل کے پیچھے ہی نور افشانی جاری ہو تو کیا سورج کے دیگر بیشمار فوائد و خصوصیات کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے ہر گز نہیں۔
اس کے علاوہ بادل کے پیچھے رہ کر سورج سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ براہ راست ملنے والی روشنی سے حاصل نہیں ہوتے اس لحاظ سے امام زمانہ علیہ السلام کے وجود مقدس کا پردہ غیبت میں رہ کر فیض رسانی کرنا بھی اسی طرح ہے کہ لوگ آنجناب کے ظاہری دیدار سے تو محروم ہیں لیکن آپ کے وجود سعود کی برکتیں انہیں حاصل ہوتی رہتیں ہیں امام مہدی علیہ السلام کے ہی وجود ذیجود سے انسان نعمات الہیہ سے بہرہ ور ہو رہا ہے آپ علیہ السلام ہی کے نور انور سے حیات عالم کا نظم قائم ہے۔
|