31۔ آنحضرت کا اپنی فضیلت کے متعلق خطبہ
روایت ہے کہ جب معاویہ کوفہ آیا تو چند دن وہاں رہا۔ جب بیعت کی رسومات ختم ہوگئیں تو منبر پر گیا اور لوگوں کیلئے خطبہ پڑھا۔ امیرالموٴمنین علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام کو گالیاں دیں۔ امام حسین علیہ السلام وہاں موجود تھے، اٹھنا چاہا کہ اس کا جواب دیں۔ امام حسن علیہ السلام نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں بٹھا دیا، اور خود کھڑے ہوئے اور فرمایا:
اے علی کا نام لینے والے! میں حسن ہوں اور اس کا بیٹا ہوں ، اور تو معاویہ ہے، تیرا باپ صخر ہے۔میری والدہ فاطمہ ہیں، اور تیری ماں ھندہ ہے، اور میرا نانا رسولِ خدا ہے۔اور تیرا نانا حرب ہے۔ میری نانی خدیجہ ہیں اور تیری نانی نشیلہ ہے۔ خد العنت کرے تجھ پر اور تجھ میں سے اس شخص پر جس کی شہرت کم تر ،حسب پست تر، شر میں پہل کرتا ہو، اور کفر و نفاق میں پرانا ہو۔(کشف الغمہ، ج۱، ص۵۴۲)۔
32۔ آنحضرت کا خطبہ اپنی اور اپنے والد کی شان میں
روایت ہے کہ جب معاویہ کوفہ میں وارد ہوا تو اس سے کچھ لوگوں نے کہا کہ امام حسن علیہ السلام لوگوں کے نزدیک بڑا مقام رکھتے ہیں۔ اگر تو حکم دے کہ تم منبر کے نیچے والے زینے پر بیٹھو تو ان کیلئے گفتگو کرنا مشکل ہوجائے گی، اور لوگوں کے دل میں ان کی عزت ختم ہوجائے گی۔ معاویہ نے اس بات سے انکار کیا لیکن لوگوں نے ضد کی تو معاویہ نے ایسا ہی کیا۔ امام حسن معاویہ سے نیچے والے زینے پر کھڑے ہوگئے، اور خدا کی حمدوثناء کے بعد فرمایا:
اما بعد!اے لوگو! اگر مشرق سے مغرب تک تلاش کرو کہ ایسا شخص تمہیں مل جائے جس کا نانا رسولِ خدا ہو تو میرے اور میرے بھائی کے علاوہ کسی کو نہیں پاؤ گے۔ ہم نے اس ظالم شخص کو حکومت دیدی ہے(اور اپنے ہاتھ کے ساتھ منبر کے اوپر کی طرف اشارہ کیا
جہاں معاویہ اس جگہ پر بیٹھا ہوا تھا جو رسولِ خدا کا مقام تھا)، اور ہم نے مسلمانوں کے خون کی حفاظت کو خونریزی سے بہتر سمجھا، اور اس آیت کے ذریعے سے دلیل پیش کی:
(شاید یہ چیز تمہارے لئے امتحان تھی اور تھوڑی دیر کیلئے ان کو فائدہ دے)اور ساتھ ہی اپنے ہاتھ کے ذریعے سے معاویہ کی طرف اشارہ کیا۔
معاویہ نے کہا کہ اس کلام سے تمہارا کیا ارادہ تھا؟ امام نے فرمایا کہ میں نے اس سے وہ قصد کیا ہے جو خدا نے قصد کیا ہے۔ پھر معاویہ اٹھا اور خطبہ پڑھا جس میں علی علیہ السلام کو گالیاں دیں اور ان کا مذاق اڑایا اور توہین کی۔پھر امام حسن علیہ السلام اٹھے ،معاویہ ابھی منبرپر ہی تھا، تو اس سے کہا:
اے جگر کھانے والی عورت کے بیٹے! تجھ پر ہلاکت ہو۔ کیا تو امیرالموٴمنین علیہ السلام کو گالیاں دیتا ہے اور لعنت دیتا ہے، حالانکہ پیغمبرنے فرمایا ہے کہ جس نے علی کو گالیاں دیں، اس نے مجھ کو گالیاں دیں اور جس نے مجھے گالیاں دیں، اس نے خدا کو گالیاں دیں، اور خدا نے اسے جہنم کی آگ میں داخل کرنا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور ختم نہ ہونے والا عذاب ا س کیلئے ہے۔
اس کے بعد امام حسن علیہ السلام منبر سے نیچے اترے اور گھر کی طرف چلے گئے اور پھر کبھی وہاں پر نماز نہ پڑھی۔(احتجاج طبرسی، ج۱، ص۲۸۲)۔
33۔ آنحضرت کا اپنے اور خلیفہ کے اوصاف کے متعلق خطبہ
روایت ہے کہ ایک دن عمر بن عاص نے معاویہ سے کہا کہ حسن بن علی کے پاس کسی کو بلانے کیلئے بھیجو اور ا ن سے کہو کہ منبر پر جائیں اور خطبہ پڑھیں۔ شاید خطبہ نہ دے سکیں تو ہم اس وجہ سے ان کا مذاق ہر محفل اور مجلس میں اڑایا کریں گے۔ معاویہ نے کسی کو بھیجا۔ امام آئے اور منبر پر گئے جبکہ بہت سے لوگ اور شام کے سردار وہاں جمع تھے۔امام نے خدا کی حمدوثناء کے بعد فرمایا:
اے لوگو! جو مجھے جانتا ہے وہ جانتا ہے اور جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ میں علی ابن ابی طالب علیہم السلام کا بیٹا ہوں۔ میں رسولِ خدا کا بیٹا ہوں اور میں اس کا بیٹا ہوں جس کیلئے خدا نے زمین کو پاک اور سجدہ گاہ بنادیا ہے۔ میں روشن چراغ اور خوشخبری دینے والے کا بیٹا ہوں، اور ڈرانے والے کا بیٹا ہوں، اور میں خاتم النبیین کا بیٹا ہوں، اور رسولوں کے پیشوا ، پرہیزگاروں کے رہنما، خداوند ِ کائنات کے چنے ہوئے کا بیٹا ہوں۔ میں اس کا بیٹا ہوں جسے دونوں جہانوں کیلئے رحمت بناکربھیجا گیا ۔
جب معاویہ کو امام کی گفتگو پسند نہ آئی تو امام کے کلام کو کاٹ کر کہا : اے ابا محمد! یہ باتیں رہنے دو اور ہمیں کھجور کی خصوصیات کے متعلق بتاؤ۔ معاویہ کا ارادہ تھا کہ امام شرمسار ہوں گے اور گفتگو نہیں فرمائیں گے۔ امام نے فرمایا: کھجور کا درخت ہوا کے ساتھ پھل
دیتا ہے، اور سورج کی روشنی اسے پکاتی ہے، اور رات کی ٹھنڈک اسے خوشبودار اور تازہ کرتی ہے۔ پھر امام حسن علیہ السلام اپنی پہلے والی بات پر آگئے اور فرمایا:
میں اس کا بیٹا ہوں کہ جس کی دعا دربارِ خداوندی میں قبول ہوتی ہے۔ میں اس کا بیٹا ہوں کہ جس کی شفاعت قبول ہوگی۔ میں اس کا بیٹا ہوں جسے سب سے پہلے زمین سے اٹھایا جائے گا۔ میں اس کا بیٹا ہوں جو جنت کا دروازہ کھٹکھٹائے گا اور اس کیلئے دروازہ کھول دیا جائے گااور وہ داخل ہوجائے گا۔ میں اس کا بیٹا ہوں کہ جنگ میں فرشتے اس کی مدد کیلئے چلے آتے تھے۔غنیمت کو اس کے لئے حلال کیا گیا اور خوف کی وجہ سے ایک مہینہ یا اس سے زیادہ مدت کیلئے اُس کی مدد کی گئی۔
امام نے اس طرح کی اور بھی گفتگو کی اور ابھی فرمارہے تھے کہ معاویہ پر دنیا تاریک ہوگئی۔ اہلِ شام اور ان کے علاوہ جو لوگ امام علیہ السلام کو نہیں جانتے تھے، انہوں نے جان لیا۔
معاویہ نے کہا کہ تمہاری خواہش تھی کہ خلیفہ ہوتے لیکن خلیفہ تو نہیں ہو۔امام علیہ السلام نے فرمایا:
خلیفہ وہ ہے جو رسولِ خدا کی سیرت پر چلے اور خدا کی اطاعت میں اپنی گردن جھکائے۔ لیکن جو ظلم کرتا ہو، اور خدا کے احکام کو معطل کرتا ہو، اور دنیا کے ساتھ اپنے ماں باپ کی طرح لگاؤ رکھتا ہو، خدا کے بندوں کو غلام بناتا ہو، اور خدا کے مال کو لوٹتا ہو،
وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا۔لیکن ایسا شخص وہ ہوسکتا ہے کہ جس نے حکومت کو زبردستی اپنے ہاتھ میں لیا ہو، اور اس سے تھوڑی سی مدت کیلئے فائدہ اٹھائے اور بہت جلد اُس کا دورِ حکومت ختم ہوجائے، اور لذت ختم ہوچکی ہو۔ لیکن اُس کی سختیاں اُس پر باقی ہوں، اور وہ اس طرح ہو جیسیخدا فرماتا ہے تم نہیں جانتے کہ شاید یہ تمہارے لئے امتحان ہو اور تھوڑی سی مدت کیلئے فائدہ)،(ان کو چند سالوں تک فائدہ اٹھانے دیا پھر جس کا اُن سے وعدہ کیا گیا تھا(عذابِ خدا) اُس کا وقت آگیا، (اور جو کچھ اس سے فائدہ اتھاتے ہیں، انہیں بے نیاز نہیں کرتا)۔
پھر اپنے ہاتھ کے ذریعے معاویہ کی طرف اشارہ کیا اور منبر سے نیچے اتر آئے۔
ایک روایت میں اس طرح آیا ہے:
معاویہ نے کہا کہ قریش میں سے کوئی ایسا شخص نہ ہوگا جو ہماری نعمتوں اور ہماری عطا کردہ چیزوں سے فائدہ نہ اٹھاتا ہو۔ امام علیہ السلام نے فرمایا:
ہاں۔ وہ کون ہے جس نے ذلت و رسوائی کے بعد تجھے عزت دی ؟ وہ کون ہے جس نے تجھے کم مال سے کثیر مال والا بنا دیا؟
معاویہ نے کہا: اے حسن ! وہ کون ہیں؟ امام نے کہا کہ وہ ہیں جن کو تو جاننا نہیں چاہتا۔
پھر امام نے فرمایا:
میں اُس کا بیٹا ہوں جو قریش کے ہر جوان اور بوڑھے کا سردار تھا۔ میں اُس کابیٹا ہوں جو عزت و اکرام میں تمام لوگوں سے بڑھ کرتھا۔میں اُس کا بیٹا ہوں جو دنیا والوں پر سچ بولنے میں اور معاف کرنے میں آگے تھا۔ جو ایک پھل دار شاخ تھا اور فضیلتوں میں پیش پیش۔ میں اُس کا بیٹا ہوں کہ اُس کی مرضی خدا کی مرضی ہے اور اُس کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے۔اے معاویہ تیرے لئے مناسب ہے کہ تو ایسے شخص کے متعلق جسارت کرے؟
معاویہ نے کہا کہ نہیں۔ آپ کی بات درست ہے۔ امام نے فرمایا:
حق روشن ہے اور باطل تاریک۔جو حق کا سوار ہوگا وہ پشیمان نہ ہوگا اور جو باطل کا ہوگا ، اُس نے اپنا نقصان کیا، اور حق کو عقل والے ہی پہچانتے ہیں۔
معاویہ منبر سے نیچے آیا اور امام علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ جو بھی آپ کے ساتھ برائی کرے وہ اچھا آدمی نہ ہوگا۔(خرائج راوندی، ج۱، ص۲۳۷)۔
34۔ آنحضرت کا خطبہ اپنی فضیلت اور معاویہ کے متعلق
روایت ہے کہ معاویہ مدینہ آیا اور خطبہ پڑھا اور کہا کہ علی ابن ابی طالب علیہم السلام کہاں ہیں؟ امام حسن علیہ السلام اٹھے اور خدا کی حمدوثناء کے بعد فرمایا:
کہ کوئی نبی ایسا نہیں آیا مگر یہ کہ اُس کی اہل بیت سے اُس نبی کا جانشین مقرر کیا گیا،اور کوئی نبی ایسا نہ تھا کہ ظالم لوگ اُس کے ساتھ دشمنی کیلئے موجود تھے، اور علی رسولِ خدا کے بعد اُن کا وصی ہے۔ میں علی کا بیٹااور تو صخر کا بیٹا ہے۔ تیرا ناناحرب اور میرا نانا خدا کا رسول ہے۔ تیری ماں ہندہ اور میری والدہ فاطمہ ہیں۔ میری نانی خدیجہ اور تیری نانی نشیلہ ہے۔ خدا اپنی رحمت سے اُس شخص کو دوررکھے جو میرے اور تجھ میں نسبت کے لحاظ سے پست تر ہو، او رکفر کے لحاظ سے آگے ہو۔ جس کا ایمان کم اور منافقت زیادہ ہو۔
تمام لوگ جو مجمع میں حاضر تھے، کہنے لگے کہ خداوندا قبول فرما۔ معاویہ منبر سے نیچے آگیا اور اپنے خطبے کو ختم کردیا۔(احتجاج طبرسی، ج۱، ص۲۸۲)۔
35۔ آنحضرت کا خطبہ اپنی شان میں
روایت ہے کہ معاویہ نے امام حسن علیہ السلام سے درخواست کی وہ منبر پر جائیں اور اپنا نسب بیان کریں۔ امام منبر پر گئے اور خدا کی حمدوثناء کے بعد فرمایا:
اے لوگو! جو مجھے جانتا ہے وہ جانتا ہے اور جو نہیں جانتا بہت جلد میں اُس کیلئے اپنی پہچان کرواتا ہوں۔ میرا شہر مکہ اور منیٰ ہے۔ میں صفاء و مروہ کا بیٹا ہوں۔ میں خدا کی طرف سے چنے ہوئے نبی کا بیٹا ہوں۔ میں اُس کا بیٹا ہوں جو مضبوط پہاڑوں پر بلند ہوا۔ میں اُس کا بیٹا ہوں جو اپنے چہرے کو خوبصورتی کی وجہ سے چھپاتا تھا۔ میں
عورتوں کی سردار فاطمہ کا بیٹا ہوں۔ میں اُن کا بیٹا ہوں جن کے عیوب کم اور دامن پاک ہے۔
اسی وقت موٴذن نے اذان کہنی شروع کی اور یہ کہنا شروع کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد خدا کا رسول ہے۔
پھر امام نے فرمایا:
اے معاویہ ! محمد تیرا باپ ہے یا میرا باپ ہے؟ اگر کہے کہ میرا باپ نہیں ہے تو تو نے حق کو چھپایا اور اگر کہے ہاں تو اقرار کیا ہے۔
پھر فرمایا:
قریش باقی عربوں پر فخر کرتے ہیں کہ محمد ان میں سے ہیں اور عرب عجم والوں پر فخر کرتے ہیں کہ محمد ہم میں سے ہیں اور عجم والے عرب والوں کا احترام کرتے ہیں کہ محمد ان میں سے ہیں۔ حق ہمیں طلب کرتا ہے لیکن ہمارا حق ہمیں لوٹاتے نہیں ہیں۔(مناقب آل ابی طالب ، ابن شہر آشوب، ج۳، ص۱۷۸)۔
36۔ آنحضرت کا خطبہ ان حضرات کی اطاعت کرنے کے متعلق
اے لوگو! منکر برباد ہوگئے اور آثار ختم ہوگئے۔صبروحوصلہ کم ہوگیا۔ شیطانی وسوسوں اور خیانت کرنے والوں کے حکم کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں رہی۔ خدا کی قسم! ابھی حق کو ثابت کرنے والی دلیلیں اور خداکی نشانیاں بلند ہوتیں اور مشکلات ظاہر ہوتیں اور ہم ان نشانیوں کی تحقیق اور تاویل کے انتظار میں تھے۔ خدا فرماتا ہےمحمد صرف خدا کا رسول ہے۔ اُس سے پہلے بھی رسول گزرے ہیں ۔ اگر وہ مرجائے یا قتل ہوجائے تو کیا تم اپنے سابقہ دین کی طرف لوٹ جاؤ گے، اور جو بھی اپنے گزشتہ دین کی طرف لوٹ جائے ، خدا کوکوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور خدا شکر کرنے والوں کو اچھی جزا دیتا ہے)۔
خدا کی قسم! میرے نانا رسولِ خدا وفات پاگئے اور میرے والد قتل ہوگئے۔ وسوسہ ڈالنے والے شیطان نے چیخ ماری اور شک دلوں میں پیدا ہوگیا۔ فتنہ و فساد برپا کرنے والے کی ندا ظاہر ہوئی۔ سنت پیغمبر کے ساتھ مخالفت ہوئی۔ پس اندھے ، گونگے اور بہرے کے فتنہ سے ہلاکت ہے کہ بلانے والے کی آواز سنی نہیں جاتی، ندا دینے والے کی ندا کا جواب نہیں دیا جاتا، اور فتنہ کرنے والے کی مخالفت نہیں کی جاتی۔ نفاق ظاہر ہوچکا ہے اور اختلاف ڈالنے والے پرچم حرکت میں آچکے ہیں، اور دین سے خارج ہونے والے سپاہی شام و عراق سے جمع ہورہے ہیں۔ خدا تم پر رحمت فرمائے ، چمکتے ہوئے نور کی روشنی کی طرف آؤ اور طاقتور مرد کے پرچم کی طرف جلدی کرو۔
ایسا نور جو کبھی بجھنے والا نہیں ہے اور ایسا حق جو چھپنے والا نہیں ہے۔اے لوگو!غفلت کی نیند سے اٹھو اور وسیع فرصت سے فائدہ اٹھاؤ، اور زیادہ تاریکی اورراہِ نجات کی کمی سے خودکو بیدار کرو۔ مجھے قسم ہے اُس خدا کی جس نے دانے کو پھاڑا اور انسان کو خلق کیا اور لباسِ عظمت پہنے ہوئے ہے۔ اگر تم میں سے میرے ساتھ ایسا گروہ ہو کہ جن کے دل صاف اور نیتیں سچی ہوں اور اُن نیتوں میں نہ تو منافقت ہو اور نہ ہی تفرقہ پیدا کرنے کا ارادہ ، میں تلوار کے ساتھ قدم بقدم ان کے ساتھ مل کر جنگ کروں گا اور تلواروں اور نیزوں کو ان کی طرف رکھ دوں گا، اور اپنے گھوڑوں کو ان کی طر ف لے چلوں گا۔(ہدایہٴ حسین بن ہمدان، ص۲۱۰)۔
37۔ آنحضرت کا خطبہ صلح کے سبب کے متعلق
روایت ہے کہ جب امام پر زہر آلود خنجر کے ساتھ حملہ کیا گیا تو آپ اُس جگہ کی طرف چلے گئے جس کا نام( بطن جریح) ہے اور اس جگہ مختار کے چچا کی حکومت تھی۔ مختار نے اپنے چچا سے کہا کہ آؤ اور حسن بن علی علیہما السلام کو پکڑ کر معاویہ کے حوالے کردیں۔ جب شیعوں کو مختار کے ارادے کا پتہ چلا تو اُسے قتل کرنا چاہا۔ مختار کے چچا نے کہا کہ اسے معاف کردو تو انہوں نے معاف کردیا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:
تم پر ہلاکت ہو۔ میں قسم کھاتا ہوں کہ معاویہ نے میرے قتل کے بارے میں جو تم سے وعدہ کیا ہے، وہ کبھی پورا نہ کرے گا، اور میں جانتا ہوں کہ اگر اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں دے دوں اور اپنے آپ کو اس کے سپرد کردوں تو وہ مجھے اپنے نانا کے دین پر بھی نہیں رہنے دے گا۔
میں تو اکیلا بھی خدا کی عبادت کرسکتا ہوں لیکن مجھے تمہاری اولاد کی فکر ہے کہ جو اُن کے گھروں کے اردگرد جمع ہے اور جو خدا نے ان کو دے رکھا ہے، اُس کے بدلے وہ اُن سے پانی اور کھانے کو مانگ رہے ہیں۔ لیکن وہ ان کو دیتے نہیں ہیں۔ پس دوری اور عذاب ہے اُن لوگوں کیلئے ، اس وجہ سے جو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے کیا ہے، اور ظالم لوگ بہت جلد جان لیں گے کہ اُن کا ٹھکانا کیا ہے۔(علل الشرائع، شیخ صدوق ، ج۱، ص۲۲۰)۔
38۔ آنحضرت کا خطبہ جب آنحضرت کو بیعت کرنے کی وجہ سے لوگ ملامت کرنے لگے
ہلاکت ہوتم پر ، کیا تم نہیں جانتے کہ میں نے کیا کام کیا ہے؟ خدا کی قسم! میں نے ایسا کام کیا ہے جو ہمارے شیعوں کیلئے اُن تمام چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج طلوع و غروب ہوتا ہے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ میں نصِ پیغمبر کے ساتھ تمہارا امام ہوں اور میری اطاعت تم پر واجب ہے۔
اور جوانانِ جنت کے سرداروں میں سے ایک سردار ہوں۔تمام لوگوں نے کہا کہ ہاں۔ امام نے فرمایا:
کیا تم نہیں جانتے کہ جب حضرت خضر نے کشتی میں سوراخ ، دیوار کو تعمیر اور لڑکے کو قتل کیا تو موسیٰ کو بڑا غصہ آیا کیونکہ ان کاموں کی دلیل اور وجہ اُن کے لئے پوشیدہ تھی۔ لیکن خدا کے نزدیک وہ حکمت کے مطابق اور صحیح تھا؟ کیا تم نہیں جانتے کہ ہم اہل بیت میں سے کوئی فرد بھی ایسا نہیں ہے جس کی گردن پر طاغوت کی طرف سے بیعت موجود ہے سوائے قائم آل محمد کے جن کے پیچھے روح اللہ عیسیٰ ابن مریم نماز پڑھیں گے۔ خدا اُس کی ولادت کو پوشیدہ اور خفیہ رکھے گا، یہاں تک کہ اُس کے ظہور کے وقت کسی کی بیعت اُس کی گردن پر نہ ہوگی۔
وہ میرے بھائی حسین کا نواں بیٹا ہے۔ وہ عورتوں کی سردار کا بیٹا ہے۔ خدا اُس کی غیبت میں اُس کی عمر کو لمباکردے گا۔ پھر قدرتِ خدا اُسے چالیس سال کے جوان کی طرح بنا دے گی اور یہ اس لئے ہے تاکہ وہ جان لیں کہ خداہرچیز پر قادر ہے۔(احتجاج طبرسی، ج۲، ص۹)۔
39۔ آنحضرت کا خطبہ صلح کے سبب کے متعلق
خونریزی سے بچنے اور حفاظت کیلئے اور اپنی ، اپنے خاندان اور اپنے مخلص ساتھیوں کی حفاظت کی خاطر میں نے صلح کی ہے۔(تنزیة الانبیا، سید مرتضیٰ،ص۱۶۹)۔
40۔ آنحضرت کا خطبہ جب حضرت کے اصحاب نے چاہا کہ بیعت کو توڑدیں
تم ہمارے شیعہ اور دوست ہو۔ اگر میں چاہتا کہ میری کوشش دنیاوی امورمیں ہو اورمیں دنیاوی طاقت کی فکر میں ہوتا تو اس معاملہ میں معاویہ مجھ سے طاقتور اور قوت مند اور ارادہ میں آگے نہ تھا۔ لیکن میرا ارادہ وہ نہیں ہے جو تم سوچ رہے ہو اور جو کام میں نے کیا ہے، وہ خونریزی سے بچنے کیلئے کیا ہے۔
پس خدا کے فیصلہ کے ساتھ راضی ہوجاؤ اور اُس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردو اور اپنے گھروں میں خاموشی کے ساتھ رہو۔ یا امام نے یہ فرمایا کہ اپنے آپ کو روکے رکھو تاکہ نیک آدمی سکون کے ساتھ رہ سکیں یا ظالم شخص سے راحت میں رہیں۔(طبری، ج۲، ص۱۶۹)۔
|