صحیفہ امام حسن علیہ السلام
 
22۔ آنحضرت کا خطبہ آپ کے اصحاب کے دھوکہ دینے کے متعلق
روایت ہے کہ جب امیرالموٴمنین علیہ السلام شہید ہوگئے تو لوگ آنحضرت کے پاس آئے اور کہا کہ آپ اپنے بابا کے خلیفہ اور جانشین ہیں۔ ہم آپ کے پیروکار اور آپ کی اطاعت کرنے والے ہیں۔ ہمیں اپنے حکم سے آشنا کریں۔ امام نے فرمایا: خدا کی قسم تم جھوٹ کہتے ہو۔ مجھ سے جو بہتر تھا، اس سے وفا نہیں کی تو میرے ساتھ کیا وفا کروگے۔ میں کس طرح تمہارے متعلق مطمئن ہوجاؤں جبکہ مجھے تم پر اعتماد نہیں ہے۔ اگر سچ کہتے ہو تو میری اور تمہاری وعدہ گاہ مدائن کا فوجی کیمپ ہے، وہاں آجاؤ۔
امام سوار ہوئے اور جو کوئی ارادہ رکھتا تھا، امام کے ساتھ سوار ہوگیا اور بہت سے پیچھے رہ گئے، اور اپنے قول سے وفا نہ کی۔ جیسے امیرالموٴمنین علیہ السلام سے دھوکہ کیا تھا، ایسے ہی امام حسن علیہ السلام کے ساتھ دھوکہ کیا۔ امام اٹھے اور فرمایا:
مجھے تم نے دھوکہ دیا ہے، جیسے مجھ سے پہلے دیا تھا۔ جیسے امیرالموٴمنین علیہ السلام کو دھوکہ دیا تھا، اسی طرح مجھے بھی دیا۔ میرے بعد کس امام کے ہمراہ جنگ کروگے، کافروظالم امام کے ہمراہ، اور جو خدا اور خدا کے رسول کے ساتھ ایک لحظہ بھی ایمان نہیں لایا، اسلام کو اس نے اور بنی اُمیہ نے قبول نہیں کیا۔
مگر تلواروں کے ڈر سے اگرچہ بنی اُمیہ کی ایک بوڑھی عورت جس کے منہ میں دانت نہ ہوں گے، باقی نہ رہے، یہ لوگ خدا کے دین کو ٹیڑھا کرتے رہے۔ رسولِ خدا نے اسی طرح فرمایا ہے۔
اس کے بعد کندہ قبیلے سے ایک شخص کو چار ہزار سپاہیوں کے ساتھ معاویہ کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ انبار میں جاکر پڑاؤ ڈالو جب تک تیرے پاس حکم نہ آئے،اس وقت تک کوئی کام نہ کرنا۔
اس کے بعد راوی نے ذکر کیا ہے کہ معاویہ نے اس کو طمع و لالچ دے کر اپنی طرف بلالیا۔ یہاں تک کہتا ہے کہ یہ خبرامام تک پہنچی۔ امام اٹھے اورفرمایا: یہ کندی معاویہ کی طرف چلاگیا ہے اور میرے ساتھ خیانت کرگیا ہے۔ میں نے تم کو بار بار خبر دی ہے کہ تم میں وفا نہیں ہے، اور تم دنیا کے بندے ہو، اور میں ایک اور شخص کو بھیجوں گا اور میں جانتا ہوں کہ وہ بھی ایسا ہی کرے گا، اور وہ میرے اور تمہارے متعلق خدا کا بھی خیال نہیں کرے گا۔ پس امام نے قبیلہ مراد سے ایک شخص کو چارہزار کا لشکر دے کر معاویہ کی طرف بھیجا اور لوگوں کے آگے آگے خود آرہے تھے، اور اسے با ربار تاکید فرمارہے تھے ۔ لیکن بڑی قسمیں کھائیں کہ وہ ایسا ہرگز نہیں کرے گا۔ امام نے فرمایا کہ وہ خیانت کرے گا۔ پھر راوی امام کے ساتھ اس کی خیانت کو بیان کرتا ہے۔(خرائج، راوندی ، ج۲، ص۵۷۶)۔

23۔ آنحضرت کا خطبہ جب آپ کے اصحاب معاویہ کے ساتھ جاملے
میرے والد کی تم نے مخالفت کی اور وہ تحکیم کے قبول کرنے پر مجبور ہوئے، حالانکہ وہ اس پرراضی نہ تھے۔ پھر اس کے بعد تمہیں شامیوں کے ساتھ مقابلے کیلئے بلایا لیکن تم نے انکارکیا، یہاں تک کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس کے بعد تم نے میرے ساتھ بیعت کی کہ جس کے ساتھ میں صلح کروں، تم بھی صلح کروگے اور جس کے ساتھ میں جنگ کروں، تم بھی جنگ کرو گے۔ لیکن مجھے اطلاع ملی ہے کہ تمہارے بزرگ معاویہ کے ساتھ جاملے اور اس کے ساتھ بیعت کرلی۔ پس میں نے تم کو پہچان لیا ہے۔ پس مجھے میرے دین اور میری جان کے بارے میں دھوکہ نہ دو۔(شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید، ج۱۶،ص۲۲)۔

24۔ آنحضرت کا کوفے میں صلح سے پہلے خطبہ
اے لوگو! خدا نے ہمارے بزرگوں کے ساتھ تمہاری ہدایت کی۔ اس چیز کیلئے مدت تھوڑی سی ہے، اور دنیا کسی اور کے ہاتھ میں چلی جائے گی، اور خداا پنے پیغمبر سے فرماتا ہے(اور تم نہیں جانتے کہ یہ چیز شاید تمہارے لئے آزمائش ہو اور معمولی سا فائدہ ہو)۔(طبری، ایڈیشن ۲، ص۱۶۷)۔

25۔ آنحضرت کا خطبہ جب آپ نے صلح کا ارادہ کیا
روایت ہے کہ جب معاویہ عراق کی طرف گیا تو امام مقابلے کیلئے تیار ہوئے اور لوگوں کو جہاد کیلئے بلایا۔ انہوں نے اس سے نفرت کا اظہار کیا۔ امام چلے اور ساباط پہنچے، اور وہاں رات گزاری ۔ دوسرے دن صبح کے وقت ارادہ کیا کہ اپنے اصحاب کا امتحان لیں، اور اپنے متعلق ان کی فرمانبرداری کو جان لیں تاکہ دوستوں اور دشمنوں کا پتہ چل جائے، اور سوچ سمجھ کر معاویہ کے مقابلے میں آئیں۔ حکم دیا کہ لوگوں کو بلاؤ۔
جب لوگ جمع ہوگئے تو آپ منبر پر تشریف لے گئے اور اس طرح فرمایا: تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں۔ اس وقت جب تعریف کرنے والاتعریف کرتا ہے ، اور گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ جب گواہی دینے والا گواہی دیتا ہے، اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اور ان کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، او ر اپنی وحی پر امین بنایا ہے۔
اما بعد! خدا کی قسم! میں امید رکھتا ہوں اور خدا کی مہربانی اور لطف کے صدقے بہترین نصیحت کرنے والا بنوں۔ کبھی بھی کسی مسلمان کے بارے میں دل میں بغض نہیں رکھتا، اور کسی کے متعلق بھی میرا ارادہ اور نیت بُری نہیں ہے، اور جو تم اتفاق و اتحاد میں بُرا سمجھتے ہو، وہ اس سے بہتر ہے جو تفرقہ میں ہے۔
وہ چیز جو میں تمہارے متعلق جانتا ہوں، اور چاہتا ہوں وہ اس سے بہتر ہے جو تم چاہتے ہو۔ پس میری نافرمانی نہ کرو، اور میرے مشورہ کو حقیر نہ جانو۔ خدا مجھے اور تمہیں بخش دے، اور ہمیں اس کی طرف ہدایت فرمائے جو وہ چاہتا ہے۔
راوی کہتا ہے کہ لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا: اس گفتگو سے ان کی مراد کیا ہے؟ کچھ نے کہا کہ ہمارے خیال میں چاہتے ہیں کہ معاویہ کے ساتھ صلح کر لیں، اور حکومت اس کے سپرد کردیں۔ پس انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم! وہ کافر(نعوذبااللہ) ہوگیا ہے۔ یہ کہہ کران کے خیمے پر حملہ کردیا، اور اسے لوٹ لیا، یہاں تک کہ ان کے بیٹھنے والا فرش بھی نیچے سے کھینچ لیا۔(حدیث کے آخر تک)۔(کشف الغمہ، ج۱، ص۵۲۹)۔

26۔ آنحضرت کا خطبہ جب زخم ٹھیک ہوا
اے کوفہ والو! اپنے ہمسائے اور مہمانوں کے متعلق خدا سے ڈرو، اور ا س اہل بیت کے متعلق خدا سے ڈرو کہ جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا ہے اور پاک و پاکیزہ کردیا ہے۔( طبری، ایڈیشن۲، ص۱۶۸)۔

27۔ معاویہ کے ساتھ صلح کے وقت آنحضرت کا خطبہ
امام سجاد علیہ السلام سے منقول ہے، جب امام حسن علیہ السلام نے معاویہ کے ساتھ صلح
کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے گھر سے نکلے اور اس سے ملاقات کی۔ جب دونوں جمع ہوئے تو معاویہ منبر پر گیا اور حکم دیاکہ امام ایک زینہ اس سے نیچے بیٹھیں۔ پھر معاویہ نے یہ گفتگو کی:
اے لوگو! یہ علی اور فاطمہ کا بیٹا حسن ہے اور یہ ہمیں خلافت کے لائق جانتا ہے، اور اپنے آپ کو اس کے لائق نہیں جانتا، اور آیا ہے تاکہ اپنے اختیار سے صلح کرے۔
پھر کہا : اے حسن ! اٹھو۔ امام اٹھے اور اس طرح گفتگو فرمائی:
تمام تعریفیں اس خد اکیلئے ہیں جو فراوان نعمتوں کی وجہ سے اور بلاؤں اور مصیبتوں کو دورکرنے کی وجہ سے جاننے والاہے، اور نہ جاننے والوں کیلئے قابل تعریف اور لائقِ حمد ہے۔ ایسے بندے جو اس کے وجود کا اعتراف کرتے ہیں، اس وجہ سے کہ وہ اپنی جلالت اور بزرگی کی وجہ سے وہم و گمان سے دور ہے، اور وہم اس تک پہنچ نہیں سکتے۔ اپنی مخلوقات کی فکروں میں آنے سے اور عقل مندوں کے احاطہ سے بلند ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ اپنی خدائی، اپنے وجود اور وحدانیت میں اکیلا ہے، بے نیازہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، ایسا اکیلاہے کہ اُسے مددگار کی ضرورت نہیں ہے۔
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔ اسے اس نے چنا اور منتخب کیا ہے، اور اس سے راضی ہوا ہے، اور اسے بھیجا تاکہ حق کی طرف بلائے۔جس چیز سے خدا کے بندے ڈرتے ہیں، اس سے ڈرانے والا ہے، اور جس چیز سے گنہگاروں کی اُمید ہے، اس کی خوشخبری دینے والا ہے۔ پس امت کو اس نے نصیحت کی اور اپنے پیغام کو انجام دیا، اور لوگوں کیلئے ان کے عمل و درجات واضح کئے۔ایسی گواہی کہ اسی عقیدہ پر مروں اور زندہ اٹھوں اور اسی کے ساتھ قیامت کے دن نزدیک رہوں اور خوش رہوں، اور میں تنہا ہوں۔
اے خدا کے بندو! اور تم دل اور کان رکھتے ہو، غوروفکر کرو۔ ہم وہ اہل بیت ہیں کہ جن کو خدا نے اسلام کے ساتھ عزت اور احترام دیا، اور ہمیں چنا اور منتخب کیا، اور ہمیں رجس سے دور رکھا اور پاک و پاکیزہ کردیا، اور رجس وہی شک و تردد ہے ۔ ہم کبھی بھی اس خدا اور دین کے بارے میں شک نہیں کرتے اور ہمیں ہر گمراہی اور رجس سے پاک کیا جبکہ ہم آدم سے پہلے، ہم خدا کیلئے خالص تھے، اور یہ خدا کی طرف سے ایک نعمت ہے۔ لوگوں کے درمیان جب بھی دو گروہوں ، جن میں ہم ہوں، تو ان میں خدا ہمیں بہترین قرار دیتا ہے۔
کتنے زمانے اور صدیاں گزرگئیں، یہاں تک کہ خدا نے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیغمبربناکر بھیجا اور رسالت کیلئے چنا، اور ان پر کتاب نازل فرمائی، اور پھر انہیں حکم دیا کہ لوگوں کو خدا کی طرف بلائیں۔ میرے والد سب سے پہلے وہ شخص تھے جنہوں نے خدا اور اس کے رسول کی بات کو قبو ل کیا اور سب سے پہلے شخص ہیں جو ان کے ساتھ ایمان لائے، اور خدا اور خدا کے رسول کی تصدیق کی۔
اورخدا اس کتاب میں جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی، اس طرح فرماتا ہے(کیا وہ شخص جس کے ساتھ اس کے خدا کی طرف سے نشانی ہو، اور وہ شخص جس کے ساتھ اس کے خدا کی طرف سے شاہد اور گواہی دینے والا ہو)، پس خدا کا رسول وہ ہے جس کے ساتھ خدا کی نشانی ہے، اور میرے والد وہ ہیں کہ جو اس کے ساتھ تھے۔
اور حج کے دوران سورئہ برأة کی تلاوت کرے تو فرمایا :اے علی ! مجھے حکم دیا گیا ہے کہ یہ لکھی ہوئی سورة یا تو میں خود لے کر جاؤں اور یا وہ لے کر جائے جو مجھ سے ہو، اور تو مجھ سے ہے۔ پس علی رسولِ خدا سے ہے اور رسولِ خدا علی سے ہیں۔
اور پیغمبر اسلام نے جب علی اور ان کے بھائی جعفر بن ابی طالب اور ان کے غلام زید بن حارث کے درمیان فیصلہ کیا تو علی کے متعلق فرمایا:اے علی ! بہرحال تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں، اور تم میرے بعد ہر مومن کے سرپرست ہو۔ پس میرے والد پیغمبر اسلام کی تصدیق کرنے والوں میں سے سب سے پہلے تھے، اور ان کی حفاظت اپنی جان کے ساتھ کی۔
پھر رسولِ خدا انہیں ہرجگہ پر ترجیح دیتے تھے، اور ہر مشکل کام کیلئے انہیں بھیجتے تھے کیونکہ ان پر اعتماد اور اطمینان تھا، اور یہ اس لئے تھا کہ وہ خدا اور اس کے رسول کے خیر خواہ تھے۔خدا اور رسول کے نزدیک ترین شخص تھے، اور خدا فرماتا ہے:(آگے جانے والے آگے چلے گئے ہیں اور وہی بارگاہِ خدا میں مقرب ہیں)۔
پس میرے والد خدا اور رسول کی طرف سب سے آگے جانے والے تھے، اور نزدیک ہونے والوں میں نزدیک ترین تھے، اور خدا فرماتا ہے:(کہ برابر نہیں ہیں وہ لوگ جو فتح مکہ سے پہلے خرچ کرتے تھے اور جنگ لڑتے رہے بلکہ وہ بلند درجات کے مالک ہیں)۔ پس میرے والد یہی اسلام لانے والے اور ایمان والے ہیں، اور سب سے پہلے خد اور رسول کی طرف ہجرت انہوں نے کی، اور رسولِخدا کے ساتھ جاکر ملے، اور سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے سرمایہ سے راہِ خدا میں خرچ کیا۔
خدا فرماتا ہے:(اور وہ لوگ جو بعد میں آئے ہیں او ر کہتے ہیں اے خدا! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں، بخش دے،اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے کے متعلق کینہ پید انہ کر، اے خدا! تو بے شک مہربان اور رحم کرنے والا ہے)۔
پس امت کے سارے افراد ان کیلئے بخشش کی دعا کرتے ہیں کیونکہ وہ سب سے پہلے رسولِ خدا کے ساتھ ایمان لانے والے ہیں، اور ان سے پہلے کوئی ایمان نہ لایا، اور خدا فرماتا ہے:(مہاجرین اور انصار میں سب سے سبقت لے جانے والے اور وہ جنہوں نے نیکی کے ساتھ پیروی کی)۔پس علی آگے جانے والوں میں سے سبقت لے جانے والے ہیں، اور پس جس طرح خدا نے آگے جانے والوں کو چھوڑ جانے والوں اور پیچھے رہ جانے والوں پر فضیلت دی ہے۔
اور خدا فرماتا ہے:( کیا تم حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد الحرام کی تعمیر کو خدا اور قیامت کے دن کے ساتھ ایمان لانے والوں اور خدا کے راستے میں جہاد کرنے کو برابر قرار دیتے ہو؟ بے شک وہ راہِ خدا کے مجاہد تھے)۔ یہ آیت ان پر اُتری ہے۔
ان لوگوں میں جنہوں نے رسولِ خدا کی دعوت کو قبول کیا۔ان کے چچا حمزہ اور ان کے چچا کے بیٹے جعفر تھے، اور یہ دونوں بہت سے اصحاب کے درمیان شہید ہوئے۔خدا ان دونوں سے راضی ہے۔
خدا نے ان شہداء میں سے حضرت حمزہ کو سید الشہداء قرار دیا، اور جعفر کیلئے دوپَر پیدا کئے کہ جدھر چاہیں فرشتوں کے ساتھ پرواز کریں۔ یہ ان کا مقام اور مرتبہ ہے، اس قرابت کی خاطر جو رسول کے ساتھ تھی۔
اور پیغمبر اسلام نے باقی شہداء میں سے حضرت حمزہ کیلئے نمازِ جنازہ میں ستر تکبیریں پڑھیں۔
خدا نے اسی طرح رسولِ خدا کی نیک بیویوں کیلئے دو اجر اور بد بیویوں کیلئے دوگنا عذاب قرار دیا ہے، اور یہ سزا اور عذاب میں اضافہ رسولِ خدا کی رشتہ داری کی وجہ
سے ہے۔
اور رسولِ خدا کی مسجد میں ایک رکعت نماز پڑھنے کو باقی مساجد میں ہزار رکعت نماز کے برابر قرار دیا ہے۔مکہ میں مسجد الحرام کے علاوہ جو خدا کے خلیل حضرت ابراہیم کی ہے، اور یہ فضیلت صرف اس لئے ہے کہ رسولِ خدا کے نزدیک بڑی عزت ہے۔
اور خدا نے اپنے نبی پر درود پڑھنے کو تمام مومنوں پر واجب کیا ہے،اور مومنوں نے کہا: اے رسولِ خدا! آپ پر درود کس طرح پڑھا جائے تو فرمایا کہ کہو:اے خدا! محمد اور اس کی آل پر درود بھیج۔ پس ہر مسلمان پر واجب ہے کہ خدا کے نبی کے ساتھ ہم پر بھی درود بھیجے۔
اور خدا نے غنیمت کا خمس اپنے نبی پر حلال کیا ہے، اور اپنی کتاب میں اس کو ان کیلئے واجب قرار دیا ہے۔ اس پر صدقہ حرام کیا ہے اور ہم پر بھی حرام ہے۔ پس تمام تعریفیں اس کیلئے ہیں کہ جس چیز میں اپنے نبی کو داخل کیا اور ہمیں بھی داخل کیا، اور جس چیز سے اپنے نبی کو پاک و صاف رکھا، ہمیں بھی پاک و صاف رکھا، اور یہ عزت ہے جو خدا نے ہمیں اپنے نبی کے ساتھ عطا فرمائی ہے، اور ایسی فضیلت ہے کہ ہمیں اس کے ذریعے سے دوسروں پر برتری دی ہے۔
اور جب اہلِ کتاب نے محمد کا انکار کیا اور ان سے استدلال و دلیل کو طلب کیا تو خدا نے فرمایا:(ان سے کہہ دو کہ تم اپنے بیٹے لے آؤ، ہم اپنے بیٹے لے آتے ہیں، تم اپنی عورتوں کو لے آؤاور ہم اپنی عورتوں کو لے آتے ہیں، تم اپنی جانوں کو لے آؤ، ہم اپنی جانوں کو لے آتے ہیں،پھر قسم دے کر مباہلہ کرتے ہیں، اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کرتے ہیں)۔خدا نے لوگوں میں سے اپنی جان کی جگہ میرے والد علی اور بیٹوں کی جگہ مجھے اور میرے بھائی کو اور عورتوں کی جگہ میری والدہ فاطمہ کو لیا۔پس ہم ان کے کان، خون اور جان ہیں۔ ہم ان سے ہیں اور وہ ہم سے ہیں۔
اور خدا فرماتا ہے:(سوائے اس کے نہیں کہ خدا چاہتا ہے، اے اہل بیت ! تم سے رجس کو دور رکھے اور تمہیں پاک و پاکیزہ رکھے)۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسولِ خدانے میرے بھائی، میری والدہ اور میرے والد کوجمع کیا اور اپنے ساتھ ہم سب کو امِ سلمہ کی عبا میں لیا اور یہ کام امِ سلمہ کے حجرہ میں اس دن ہوا جو دن امِ سلمہ کیلئے مخصوص تھا۔رسولِ خدا نے فرمایا:اے پروردگار! یہ میرے اہل بیت ہیں اور میرا خاندان ہے۔ پس ان سے رجس اور نجاست کو دور رکھ اور انہیں پاک و پاکیزہ رکھ۔
امِ سلمہ نے عرض کی: کیا میں بھی ان کے ساتھ داخل ہوجاؤں یا رسول اللہ؟آپ نے فرمایا کہ خدا تم پر رحمت فرمائے ، تو نیکی کے راستے پر ہے اور نیکی کی طرف جارہی ہے۔ میں تم سے راضی ہوں لیکن یہ بات میرے اور ان کے ساتھ خاص ہے۔
پھر رسولِ خدا اس واقعہ کے بعد جب تک زندہ رہے، ہر روز طلوعِ فجر سے پہلے ہمارے پاس آیاکرتے تھے اور فرماتے تھے کہ خدا تم پر رحمت کرے کہ خدا چاہتا ہے کہ اے اہل بیت ! تم سے رجس و پلیدی کو دور رکھے اور تمہیں پاک و پاکیزہ رکھے۔
اور رسولِ خدا نے حکم فرمایا ہے کہ جو دروازے مسجد کی طرف کھلتے ہیں، ان سب کو بند کردو، سوائے علی کے دروازے کے۔انہوں نے اعتراض کیا ۔آپ نے فرمایا کہ نہ میں نے تمہارے دروازے بند کروائے اور نہ اپنی مرضی سے علی کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ میں تو وحی کا پابند ہوں۔ خدا نے مجھے دروازے بند کرنے کا حکم دیا اور علی کا دروازہ کھلا رکھنے کا حکم دیا۔ اس واقعہ کے بعد کوئی بھی احتلام کی حالت میں مسجد نبوی میں داخل نہ ہوا، اور سوائے رسولِ خدااور میرے والد علی کے کسی کیلئے مسجد میں اولاد پیدا نہیں ہوئی، اور یہ خدا کی طرف سے ہمارے لئے عزت اور فضیلت ہے جس کو اس نے ہمارے ساتھ خاص کیا ہے، اور یہ میرے والد کے گھر کا دروازہ ہے جو رسولِ خدا کے گھر کے دروازے کے ساتھ مسجد میں ملا ہوا ہے۔
اور ہماری منزل رسولِ خدا کی منزلوں کے درمیان واقع ہے اور یہ اس لئے کہ خدا نے اپنے رسول سے فرمایا کہ مسجد بنائے۔
پیغمبر نے اس کے اردگرد دس گھربنائے۔ نو گھر اپنے بچوں اور بیویوں کیلئے اور دسواں گھر جو ان نو کے درمیان تھا، میرے والد علی علیہ السلام کیلئے بنایا، اور وہ اب بھی موجودہے۔پس اس کا گھر پاک و پاکیزہ مسجد ہے، اور وہ(علی ) ،خدا فرماتا ہے کہ اہل بیت سے ہے۔ پس ہم اہل بیت ہیں، اور ہم وہ ہیں جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا ہے او رپاک و پاکیزہ بنایاہے۔
اے لوگو! اگر ہم یہاں پر عرصہ دراز تک کھڑے رہیں، اور وہ چیزیں جو خدا نے ہمیں عطا کی ہیں اور اپنی کتاب میں جو فضیلت ہمارے ساتھ خاص کی ہے، اور جو چیزیں اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے ہماری شان میں بیان ہوئی ہیں، ذکر کرنا شروع کریں تو ہم گن نہیں سکتے۔ میں خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے اس نبی کا بیٹا ہوں جو روشن چراغ ہے۔ وہ ایسا نبی ہے جس کو خدا نے تمام کائنات کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے اور میرے والد مومنوں کے سرپرست اور ہارون کی مثل ہیں۔
معاویہ بن صخر خیال کرتا ہے کہ میں اسے خلافت کے لائق اور اپنے آپ کو اس کے اہل نہیں جانتا۔ پس معاویہ جھوٹ بولتا ہے۔ خدا کی قسم!ہم کتابِ خدا میں اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان میں سب لوگوں سے افضل ہیں۔ مگر یہ کہ ہم اہل بیت ، وفاتِ پیغمبر سے لے کر اب تک حالت ِخوف و ہراس میں ہیں اور مظلوم ہیں، اور ہمارا حق ضائع ہوا ہے۔
خدا ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے والا ہے جنہوں نے ہمارے حق کو ضائع کیا اورہم پر مسلط ہوئے، اور لوگوں کو ہمارے خلاف بھڑکایا، اور ہمارا حصہ جو غنیمت اور بغیر جنگ کے مال ملتا تھا،اور جس کا قرآن میں تذکرہ ہے، ہم سے روک دیا، اور ہماری والدہ کی وراثت(جاگیرفدک)ہمارے والد سے لے لی۔
ہم کسی کا نام نہیں لیتے لیکن میں خدا کی مضبوط قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر وہ لوگ خدا ور اس کے رسول کی بات کو غور سے سنتے تو آسمان ان پر بارش برساتا اور زمین ان کو اپنی برکتیں عطا کرتی، اور کبھی دو تلواریں آپس میں نہ ٹکراتیں، اور لو گ آرام و خوشی کے ساتھ زندگی بسر کرتے، اور اس وقت تو بھی اس خلافت کی طمع نہ کرتا۔
لیکن جب لوگوں نے حکمِ خدا کو پیچھے چھوڑ دیا اور اسے جڑ سے اکھیڑ کر پیچھے رکھ دیا تو قریش نے خلافت میں جھگڑا شروع کردیا، اور اسے ایک گیند کی طرح ایک دوسرے کی طرف پھینکنا شروع کردیا، یہاں تک کہ تو اور تیرے بعد تیرے ساتھی اس لالچ و طمع میں پڑگئے۔
اور رسولِ خدانے فرمایا: لوگ کبھی بھی کسی ایسے کو اپنا رہنما نہیں بناتے جس سے بڑھ کر کوئی اور بھی ان میں موجود ہو۔ اگر ایسا کریں گے تو تباہی کی طرف جائیں گے، اور پھر اسی کی طرف آئیں گے جو سب سے بہتر تھا۔ بنی اسرائیل نے جو حضرت موسیٰ کے اصحاب تھے، ہارون جو موسیٰ کے بھائی اور خلیفہ تھے ،کو چھوڑ کر بچھڑے کی پوجا شروع کردی اور سامری کی بات ماننے لگے حالانکہ وہ جانتے تھے کہ ہارون موسیٰ کا خلیفہ ہے۔
اور اس امت نے سنا کہ رسولِ خدا نے میرے والد علی علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ علی کی نسبت میرے ساتھ ایسے ہے جیسے ہارون کی موسیٰ کے ساتھ۔ مگریہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔
اور رسولِ خدا کو اس امت نے دیکھا کہ غدیر خم میں ان کوامامت کیلئے منصوب کیااور ان باتوں کو سنا کہ میرے والد کے متعلق انہوں نے ولایت کی بات کی تھی، اور پھر حکم دیا تھا کہ حاضرین پر موجود لوگوں کو یہ پیغام دیں، اور رسولِ خدا قوم کے ڈر سے شہر سے نکلے اور نماز کی طرف چلے گئے۔ جب قوم نے ان کے ساتھ دھوکہ کرنے کا ارادہ کیا تھا، اور یہ اس وقت تھا جب آنحضرت ان کو حق کی طرف بلا رہے تھے لیکن ساتھ موجود نہ تھے۔ اگر ساتھ موجود ہوتے تو ان کے ساتھ جنگ کرتے۔
میرے والد نے بھی جنگ نہ کی اور اپنے اصحاب کو قسم دی اور ان سے مدد طلب کی لیکن کسی نے ان کی مدد نہ کی، اور ان کی فریاد نہ سنی۔ اگر ساتھی اور دوست ہوتے تو کبھی بھی جنگ سے پیچھے نہ ہٹتے۔ خدا نے انہیں آرام و سکون میں رکھا ہوا ہے جیسے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آرام اور سکون میں رکھا ہوا ہے۔
لوگوں نے مجھے رسوا کیا، اس لئے اے حرب کے بیٹے!میں نے تیرے ساتھ صلح کی ہے۔ اگر میرے ساتھ ہوتے جو مجھے تجھ سے بچا سکتے تو میں ہرگز تجھ سے صلح نہ کرتا، اور خدا نے ہارون کو اس وقت سکون و آرام کے ساتھ رکھا جب لوگوں نے اسے کمزور کردیا تھا، اور اس کے دشمن اسی طرح ہیں۔
اور میرے والد بزرگوار خدا کی طرف سے سکون و آرام میں ہیں۔ اس وقت جب لوگوں نے ہمیں چھوڑ دیا اور ایک دوسرے کی بیعت کرلی، اور ہمارے ساتھی موجود نہ تھے، اور یہ طریقہ اور مثالیں ایک دوسرے کے بعد آرہے ہیں۔
اے لوگو!اگر پوری کائنات میں گھوم لو تو تم میرے اور میرے بھائی کے علاوہ کسی اور کو نہیں پاؤ گے جس کا نانا پیغمبر ہو، والد وصی ہو۔ پس خدا سے ڈرو اور مطلب کے بیان کے بعد گمراہ نہ ہوجاؤ۔ تم نے اس طرح کیسے کردیا؟ تم سے اس کی توقع نہ تھی۔ خبردار میں نے اس شخص (معاویہ کی طرف اشارہ کیا) سے صلح کی ہے، شاید یہ تمہارے لئے ایک امتحان ہو، اور تھوڑی مدت کیلئے فائدہ مند ہو۔
اے لوگو! کسی کو اس لئے بُرا نہیں کہاجاتا کہ اس نے اپنا حق کسی کو دیدیا ہے بلکہ بُرا تو اس کو بننا چاہئے جو ظلم کے ساتھ کسی کا حق چھین لے۔ ہر اچھا کام فائدہ دینے والا ہے اور غلط کام کرنے والوں کو وہ نقصان دیتا ہے۔ ایک مسئلہ پیش آیااورسلیمان سمجھ گیا، اور سلیمان کو فائدہ پہنچااور داؤد کو نقصان نہ پہنچا۔
رشتہ داری تو مشرک کو ہی فائدہ دیتی ہے حالانکہ خدا کی قسم! یہ رشتہ داری مومن کو زیادہ فائدہ دیتی ہے۔ رسولِ خدا نے اپنے چچا ابو طالب سے ان کی وفات کے وقت فرمایا کہ کہو خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔تاکہ قیامت کے دن تمہاری شفاعت کروں۔
یہ بات کبھی بھی پیغمبر نہ کہتے اور کبھی بھی شفاعت کا وعدہ ان کے ساتھ نہ کرتے اگر اپنے چچا کی طرف سے از لحاظ مطمئن نہ ہوتے، اور اس طرح کی بات پیغمبر نے ہمارے جد (ابوطالب ) کے علاوہ کسی سے نہ کی۔خدا فرماتا ہے:(ایسے لوگوں کیلئے تو یہ نہیں ہے جو برے کام کرتے رہے اور جب موت کا وقت آیا تو کہتے ہیں کہ اب ہم توبہ کرتے ہیں، اور نہ ان کے لئے توبہ ہے جو کفر کی حالت میں مرجائیں۔ ان کیلئے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے)۔
اے لوگو! سنو اور غورکرو۔ اللہ سے ڈرو اور ہماری طرف رجوع کرو۔ دور کی بات ہے کہ تم حق کی طرف رجوع کروکیونکہ حال یہ ہے کہ گمراہی نے تمہیں زمین پر دے مارا ہے۔ سرکشی اور بغاوت و انکار نے تمہیں گھیر رکھا ہے۔ آیا تمہیں اس پر مجبور کریں جبکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو، سلام ان پر جو ہدایت کی پیروی کرتے ہیں۔(بحار، ج۱۰، ص۱۳۸)۔

28۔ آنحضرت کا صلح کرنے کے بعد خطبہ
اے عراق والو! میں تین چیزوں کے بارے میں تمہیں عیب دار ٹھہراتا ہوں۔ تمہارا میرے والد کو قتل کرنا،مجھے زخمی کرنا اور میرے مال کو لوٹنا۔(مناقب آل ابی طالب ، ابن شہر آشوب، ج۳، ص۱۹۳)۔

29۔ آنحضرت کا خطبہ معاویہ کے ساتھ صلح کرنے کے سبب کے متعلق
روایت ہے کہ جب صلح انجام پاگئی اور کام مکمل ہوگیا تو معاویہ نے امام حسن علیہ السلام سے درخواست کی کہ لوگوں سے بات کریں او ر بتائیں کہ معاویہ کے ساتھ صلح کرلی ہے، اور حکومت اس کے سپرد کر دی ہے۔
امام علیہ السلام نے معاویہ کی بات کو مان کر تمام جمع شدہ لوگوں کے اجتماع میں خطبہ پڑھا۔ شروع میں خدا کی حمدوثناء کی اور اس کے رسول پر درود بھیجا، اور یہ ان کی گفتگو کا حصہ ہے کہ فرمایا:
اے لوگو! سب سے بڑی عقل مندی تقویٰ ہے، اور سب سے بڑی غلطی اور حماقت گناہ ہے۔ اگر تم پوری کائنات میں ایسا شخص تلاش کرنا چاہو جس کا نانا خدا کا رسول ہو تو میرے اور میرے بھائی حسین علیہ السلام کے علاوہ کسی کو نہیں پاؤ گے، اور تم جانتے ہو کہ خدا نے میرے نانا رسولِ خدا کے ذریعے سے تمہاری ہدایت کی او تمہیں گمراہی سے بچایا، اور جہالت اور بے علمی سے نجات دی، اور ذات اور رسوائی کے بعد تمہیں عزت دی اور تمہاری افرادی کمی کے بعد تمہیں زیادہ کردیا۔
اور معاویہ اس حق کے متعلق میرے ساتھ جھگڑا کررہا ہے جو میرا حق ہے اور میں نے اس اپنے حق کو امت کی مصلحت اور فتنہ و فساد کے ختم کرنے کیلئے چھوڑ دیا ہے، اور تم نے میرے ساتھ بیعت کی تھی کہ میں جس کے ساتھ صلح کروں گا، تم اس کے ساتھ صلح کروگے اور میں جس کے ساتھ جنگ کروں گا، تم اس کے ساتھ جنگ کروگے۔ پس میرا فیصلہ یہ ہے کہ معاویہ کے ساتھ صلح کرلوں اور اپنے اور اس کے درمیان جنگ کی حالت کو ختم کردوں، اور میں نے اس سے صلح کرلی ہے کیونکہ میں نے خونریزی کرنے سے اس سے بچنا بہتر سمجھا ہے، اور اس کام سے میرا ارادہ تمہارا فائدہ اور تمہاری بقاء ہے۔(کشف الغمہ، ج۱، ص۵۶۶)۔

30۔ صلح کرنے کے بعد آنحضرت کا اپنے والد گرامی کی فضیلت میں خطبہ
روایت ہے کہ جب امام علیہ السلام نے صلح کرلی تو معاویہ نے امام سے درخواست کی کہ خطبہ پڑھیں۔ امام نے انکار کیا۔ امام کو قسم دی کہ ضرور خطبہ دیں۔ امام کیلئے ایک جگہ تیار کی گئی۔ امام اس کے اوپر گئے اور فرمایا:
تمام تعریفیں اُس خدا کیلئے ہیں جو اپنی مملکت میں ایک ہے، اور خدائی میں تنہا ہے۔ جسے چاہتا ہے بادشاہ بنادیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس سے بادشاہی لے لیتا ہے۔ تمام تعریفیں اُس خدا کیلئے ہیں جس نے ہمارے مومنوں کو عزت بخشی ہماری وجہ سے اور ہماری وجہ سے تمہارے بزرگوں کو شرک سے نکالا، اور تمہارے ایک دوسرے گروہ کے خون بہانے سے حفاظت کی۔ پس ہمارا امتحان پہلے اور اب تمہارے پاس ایک بہترین امتحان ہے۔ چاہے شکرگزار بنو یانافرمان۔
اے لوگو! علی کا خدا علی سے زیادہ جاننے والا ہے۔ جب اس نے علی علیہ السلام کو اپنی طرف بلایا اور اسے اپنی فضیلت کے ساتھ خاص فرمایا کہ تم اس جیسا نہ پاسکوگے اور اس کی مثل دیکھ نہ سکو گے۔
بہت دور ہے ، بہت دور ہے، کتنے کاموں کو تم نے مشکل بنایا ہے، پھر خدا نے تمہیں اس پر کامیاب کیا، حالانکہ وہ تمہارے ساتھ بیٹھتا تھا۔ تمہارے ساتھ بدر میں جنگ لڑی اور مٹی ملا پانی تمہیں پلایا، اور کڑوا پانی تمہیں پلایا، اور تمہیں ذلیل کیا، اور تمہیں غمگین کیا۔ پس اس کے بغض سے تم اپنے آپ کو ملامت نہیں کرتے۔
خدا کی قسم! جب تک پیغمبر خدا کی امت کے رہنما اور رہبر بنی اُمیہ سے ہیں، یہ امت کسی مقام تک نہیں پہنچ سکتی۔ تمہاری طرف ایسا فتنہ اور آزمائش بھیجی گئی ہے کہ اس سے بچ نہ سکو گے۔ یہاں تک کہ تمہیں ظالم لوگوں کی اطاعت کی وجہ سے اور شیطانوں کی طرف سے پناہ لینے کی طرف سے ہلاک کردیا جائے۔پس وہ جو ہوچکا ، وہ جو پست افکار اور بُرے میلان و رغبت کی وجہ سے انجام پائے گا، اور میں اس کے انتظار میں ہوں۔ ان سب کا حساب خدا پر چھوڑتا ہوں۔
پھر فرمایا:
اے اہل کوفہ! کل تم سے وہ جدا ہوا ہے جو خدا کے تیروں میں سے ایک تیر تھا، اور خد اکے دشمنوں کو مارنے والا اور قریش کے بڑے لوگوں کو تباہ اور برباد کرنے والا تھا۔ ہمیشہ اس نے قریش کے بڑے بڑے لوگوں کو اپنے اختیار میں رکھا، اور وہ اس سے خوف و ہراس میں رہتے تھے۔ خدا کے احکام میں اسے کوئی ملامت نہ کرسکا، اور خدا کے مال سے اس نے کوئی چیز چوری نہیں کی ہے، اور خدا کے دشمنوں کے مقابلہ میں جنگ سے کبھی بھاگا نہیں۔ تمام قرآن اس کو دیا گیا۔ اس خدا نے اسے بلایا اور پس اس نے جواب دیا۔ خدا نے اس کی رہنمائی فرمائی، اس نے اتباع کی۔ خدا کے معاملات میں سرزنش اور بُرا بھلا کہنے والوں کی سرزنش سے خوف نہیں کھاتا تھا۔ پس خدا کا درود اور رحمت اُس پر ہو۔(شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص۲۸)۔