مرج البحرين في مناقب الحسنين
 



فصل : 39
کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يقبل الحسن و الحسين عليهما السلام
(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کا بوسہ لیتے تھے)

128. عن ابی هريره رضي الله عنه قال : خرج علينا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و معه حسن و حسين، هذا علي عاتقه و هذا علي عاتقه، وهو يلثم هذا مرة و يلثم هذا مرة.
’’حضرت ابوہريرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حسنین کریمین علیہما السلام تھے ایک (شہزادہ) ایک کندھے پر سوار تھا اور دوسرا دوسرے کندھے پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کو باری باری چوم رہے تھے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 400، رقم : 9671
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 777، رقم : 1376
3. حاکم، المستدرک، 3 : 182، رقم : 4777
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 179
5. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 228
6. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 2 : 71
7. مناوي، فيض القدير، 6 : 32

129. عن أبي المعدل عطية الطفاوي عن أبيه أن أم سلمة حدثته قالت : بينما رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في بيتي يوما اذ قالت الخادم أن عليا و فاطمة بالسدة، قالت : فقال لي : قومي فتنحي لي عن أهل بيتي، قالت : فقمت فتنحيت في البيت قريبا، فدخل علیّ و فاطمة و معهما الحسن و الحسين و هما صبيان صغيران، فأخذ الصبيين فوضعهما في حجره فقبلهما.
’’ابو معدل عطيہ طفاوی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہیں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا نے بیان کیا کہ ایک دن جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر تشریف فرما تھے خادم نے عرض کیا : دروازے پر علی اور فاطمہ علیہما السلام آئے ہیں۔ ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا : ایک طرف ہو جاؤ اور مجھے اپنے اہل بیت سے ملنے دو۔ ام سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں : میں پاس ہی گھر میں ایک طرف ہٹ کر کھڑی ہو گئی، پس علی، فاطمہ اور حسنین کریمین علیہم السلام داخل ہوئے اس وقت وہ کم سن تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں بچوں کو پکڑ کر گود میں بٹھا لیا اور دونوں کو چومنے لگے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 296، رقم : 26582
2. ابن کثير، تفسيرالقرآن العظيم، 3 : 485
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 166
4. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 22

130. عن يعلي بن مرة رضي الله عنه قال : إن حسنا و حسينا أقبلا يمشيان إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فلما جاء احدهما جعل يده في عنقه، ثم جاء الآخر فجعل يده الأخري في عنقه، فقبّل هذا، ثم قبّل هذا.
’’حضرت يعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حسن و حسین علیہما السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلتے ہوئے آئے، جب ان میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک بازو سے اسے گلے لگا لیا، پھر جب دوسرا پہنچا تو دوسرے بازو سے اسے گلے لگا لیا، پھر دونوں کو باری باری چومنے لگے۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 32، رقم : 2587
2. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 274، رقم : 703
3. قضاعي، مسند الشهاب، 1 : 50، رقم : 26
4. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 122

131. عن عتبة بن غزوان رضي الله عنه قال : بينما رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم جالس إذ جاء الحسن و الحسين فرکبا ظهره، فوضعهما في حجره فجعل يقبل هذا مرة و هذا مرة.
’’عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے کہ حسن و حسین علیہما السلام آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو اپنی گود میں بٹھا لیا اور باری باری دونوں کو چومنے لگے۔‘‘
ابن قانع، معجم الصحابة، 2 : 265، رقم : 786


فصل : 40
ذهب النبي صلي الله عليه وآله وسلم للمباهلة و معه الحسن والحسين عليهما السلام
(حضور صلي اللہ علیہ وآلہ وسلم مباھلہ کے وقت حسنین کریمین علیہما السلام کو اپنے ساتھ لے گئے)

132. عن الشعبي رضي الله عنه قال : لما أراد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أن يلا عن أهل نجران، أخذ بيد الحسن والحسين و کانت فاطمة تمشي خلفه.
’’حضرت شعبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل نجران کے ساتھ مباھلہ کا ارادہ فرمایا تو حسنین کریمین علیہما السلام کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے لیا اور سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل رہی تھیں۔‘‘
1. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 389، رقم : 36184
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 426، رقم : 37014
3. عسقلاني، فتح الباري، 8 : 94، رقم : 4119

133. عن ابن زيد قال : قيل لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : لو لاعنت القوم بمن کنت تأتي حين قلت : ابناء نا و ابناء کم قال : حسن و حسين.
’’ابن زيد سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عیسائی قوم کے ساتھ مباھلہ ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے قول ’ہمارے بیٹے اور تمہارے بیٹے‘ کے مصداق کن کو اپنے ساتھ لاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین کو۔‘‘
طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 3 : 301

134. عن علباء بن احمر اليشکري قال : لما نزلت هذه الأية (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَ نَا وَ أَبْنَاءَ کُمْ وَ نِسَاءَ نَا وَ نِسَاءَ کُمْ. . . ) أرسل رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم الي علي و فاطمة و ابنيهما الحسن والحسين.
’’علباء بن احمر یشکری سے روایت ہے کہ جب یہ آیت. . . اے حبیب فرما دیجئے! آؤ بلاتے ہیں ہم اپنے بیٹوں کو اور تم اپنے بیٹوں کو اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو. . . نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، سیدہ فاطمہ اور ان کے بیٹوں حسن و حسین علیہم السلام کو بلا بھیجا۔‘‘
1. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 13 : 301
2. سيوطي، الدر المنثور، 2 : 233

135. عن جابر رضي الله عنه أن وفد نجران اتوا النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقالوا : ما تقول في عيسي بن مريم؟ فقال : هو روح اﷲ و کلمته و عبد اﷲ و رسوله. قالوا له : هل لک أن نلاعنک؟ إنه ليس کذلک. قال : و ذاک أحب إليکم؟ قالوا : نعم. قال : فإذا شئتم فجاء النبي صلي الله عليه وآله وسلم و جمع ولده والحسن والحسين.
’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضي اﷲ عنھما سے مروي ہے کہ نجران کا ایک وفد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا کہ آپ کی عیسیٰ بن مریم کے بارے میں کیا رائے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ روح اﷲ، کلمۃ اﷲ، اﷲ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس وفد نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا : کیا آپ ہمارے ساتھ مباھلہ کرتے ہیں کہ عیسیٰ ایسے نہ تھے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم یہی چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جیسے تمہاری مرضی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لائے اور اپنے بیٹوں حسن و حسین علیہما السلام کو ساتھ لے جانے کے لئے جمع کیا۔‘‘
1. حاکم، المستدرک، 2 : 649، رقم : 4157
2. سيوطي، الدر المنثور، 2 : 231