فصل : 29
قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم للحسنين : نعم الراکبان هما
(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین علیہما السلام سے فرمانا : یہ دونوں کیسے اچھے سوار ہیں)
98. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : خرج علينا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و معه حسن و حسين هذا علي عاتقه و هذا علي عاتقه.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک کندھے پر حسنں اور دوسرے کندھے پر حسینں سوار تھے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 440، رقم : 9671
2. حاکم، المستدرک، 3 : 182، رقم : 4777
حاکم اس کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔
3. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 777، رقم : 1376
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 179
5. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 228
6. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 2 : 71
7. مناوي، فيض القدير، 6 : 32
ہیثمی نے اس کے رواۃ کو ثقہ قرار دیا ہے۔
99. عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال : رأيت الحسن والحسين عليهما السلام علي عاتقي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فقلت : نعم الفرس تحتکما۔ قال : و نعم الفارسان هما۔
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حسن و حسین علیہما السلام کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر (سوار) دیکھا تو حسرت بھرے لہجے میں کہا کہ آپ کے نیچے کتنی اچھی سواری ہے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا : ذرا یہ بھی تو دیکھو کہ سوار کتنے اچھے ہیں۔‘‘
1.بزار، المسند، 1 : 418
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181
ہيثمی نے ابو یعلیٰ کی بیان کردہ روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
3. حسيني، البيان والتعريف، 2 : 263، رقم : 1672
4. شوکاني، در السحابه في مناقب القرابة و الصحابه : 308
5. ابن عدي، الکامل، 2 : 362
100. عن سلمان رضي الله عنه قال : کنا حول النبي صلي الله عليه وآله وسلم فجاء ت أم أيمن فقالت : يا رسول اﷲ لقد ضل الحسن و الحسين عليهما السلام قال : و ذلک راد النهار يقول ارتفاع النهار. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : قوموا فاطلبوا ابني. قال : و أخذ کل رجل تجاه وجهه و أخذت نحو النبي صلي الله عليه وآله وسلم فلم يزل حتي أتي سفح جبل و اذا الحسن والحسين عليهما السلام ملتزق کل واحد منهما صاحبه و اذا شجاع قائم علي ذنبه يخرج من فيه شه النار، فأسرع اليه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فالتفت مخاطبا لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ثم انساب فدخل بعض الأحجرة ثم أتاهما فأفرق بينهما و مسح و جههما و قال : بأبي و أمي أنتما ما أکرمکما علي اﷲ ثم حمل أحدهما علي عاتقه الأيمن والآخر علي عاتقه الأيسر فقلت : طوباکما نعم المطية مطيتکما فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : و نعم الراکبان هما۔
’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھے۔ ام ایمن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا حسن و حسین علیہما السلام گم ہو گئے ہیں راوی کہتے ہیں، دن خوب نکلا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چلو میرے بیٹوں کو تلاش کرو، راوی کہتا ہے ہر ایک نے اپنا راستہ لیا اور میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چل پڑا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل چلتے رہے حتیٰ کہ پہاڑ کے دامن تک پہنچ گئے۔ (دیکھا کہ) حسن و حسین علیہما السلام ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے ہوئے کھڑے ہیں اور ایک اژدھا اپنی دم پر کھڑا ہے اور اُس کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کی طرف تیزی سے بڑھے تو وہ اژدھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر سکڑ گیا پھر کھسک کر پتھروں میں چھپ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان (حسنین کریمین علیہما السلام) کے پاس تشریف لائے اور دونوں کو الگ الگ کیا اور اُن کے چہروں کو پونچھا اور فرمایا : میرے ماں باپ تم پر قربان، تم اللہ کے ہاں کتنی عزت والے ہو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں سے ایک کو اپنے دائیں کندھے پر اور دوسرے کو بائیں کندھے پر اُٹھا لیا۔ میں نے عرض کیا : تمہاری سواری کتنی خوب ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بھی تو دیکھو کہ دونوں سوار کتنے خوب ہیں۔‘‘
1.طبراني، المعجم الکبير، 3 : 65، رقم : 2677
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 182
3.شوکاني، در السحابه في مناقب القرابة والصحابه : 309
101. عن أبي جعفرص قال : مر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بالحسن و الحسين عليهما السلام و هو حاملهما علي مجلس من مجالس الأنصار، فقالوا : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! نعمت المطية قال : و نعم الراکبان.
’’حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کو اٹھائے ہوئے انصار کی ایک مجلس سے گزرے تو انہوں نے کہا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! کیا خوب سواری ہے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سوار بھی کیا خوب ہیں۔‘‘
ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 380، رقم : 32185
102. عن جابر رضي الله عنه قال دخلت علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم و هو يمشي علي أربعة، و علي ظهره الحسن و الحسين عليهما السلام، و هو يقول : نعم الجمل جملکما، و نعم العدلان أنتما۔
’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضي اﷲ عنہما بيان کرتے ہيں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چار (دو ٹانگوں اور دونوں ہاتھوں کے بل) پر چل رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر حسنین کریمین علیہما السلام سوار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : تمہارا اونٹ کیا خوب ہے اور تم دونوں کیا خوب سوار ہو۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 52، رقم : 2661
2. صيداوي، معجم الشيوخ، 1 : 266، رقم : 227
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 182
4. رامهرمزي، امثال الحديث : 128 رقم : 98
5. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 3 : 256
6. قزويني، التدوين في اخبار قزوين، 2 : 109
7. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 132
103. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : وقف رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم علي بيت فاطمة فسلم، فخرج إليه الحسن و الحسين عليهما السلام، فقال له رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ارق بأبيک أنت عين بقة و أخذ بأصبعيه فرقي علي عاتقه، ثم خرج الآخر الحسن او الحسين مرتفعة احدي عينيه، فقال له رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : مرحبا بک ارق بأبيک أنت عين البقة و أخذ بأصبعيه فاستوي علي عاتقه الآخر.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے گھر کے سامنے رکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمۃ الزھراء کو سلام کیا۔ اتنے میں حسنین کریمین علیہما السلام میں سے ایک شہزادہ گھر سے باہر آ گیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اپنے باپ کے کندھے پر سوار ہو جا تو (میری) آنکھ کا تارا ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ہاتھ سے پکڑا پس وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوش مبارک پر سوار ہو گئے۔ پھر دوسرا شہزادہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف تکتا ہوا باہر آگیا تو اسے بھی فرمایا : خوش آمدید، اپنے باپ کے کندھے پر سوار ہو جا تو (میری) آنکھ کا تارا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنی انگلیوں کے ساتھ پکڑا پس وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے دوش مبارک پر سوار ہو گئے۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 49، رقم : 2652
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 180
فصل : 30
کان يُطيل النبي صلي الله عليه وآله وسلم السجود للحسن و الحسين عليهما السلام
(حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کی خاطر سجدوں کو لمبا کر لیتے تھے)
104. عن أنس رضي الله عنه قال : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يسجد فيجئ الحسن أو الحسين فيرکب علي ظهره فيطيل السجود. فيقال : يا نبي اﷲ! أطلت السجود، فيقول : ارتحلني ابني فکرهت أن أعجله.
’’حضرت انس بن مالک رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں ہوتے تو حسن یا حسین علیہما السلام آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمر مبارک پر سوار ہو جاتے جس کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدوں کو لمبا کر لیتے۔ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا : اے اﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا آپ نے سجدوں کو لمبا کر دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر میرا بیٹا سوار تھا اس لئے (سجدے سے اُٹھنے میں) جلدی کرنا اچھا نہ لگا۔‘‘
1. ابو يعلیٰ، المسند، 6 : 150، رقم : 3428
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181
105. عن عبداﷲ بن شداد عن أبيه قال : خرج علينا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في احدي صلاتي العشاء و هو حامل حسناً أو حسيناً فتقدم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فوضعه ثم کبر للصلاة فصلي، فسجد بين ظهراني صلاته سجدة أطالها۔ قال أبي : فرفعت رأسي و اذا الصبي علي ظهر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهو ساجد فرجعت الي سجودي، فلما قضي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم الصلاة، قال الناس : يا رسول اﷲ انک سجدت بين ظهراني صلاتک سجدة أطلتها حتي ظننا أنه قد حدث أمر أو أنه يوحي إِليک. قال : ذلک لم يکن ولکن ابني ارتحلني فکرهت أن أعجله حتي يقضي حاجته.
عبداﷲ بن شداد اپنے والد حضرت شداد بن ھاد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز ادا کرنے کے لئے ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن یا حسین علیہما السلام (میں سے کسی ایک شہزادے) کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشریف لا کر اُنہیں زمین پر بٹھا دیا پھر نماز کے لئے تکبیر فرمائی اور نماز پڑھنا شروع کر دی، نماز کے دوران حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طویل سجدہ کیا۔ شداد نے کہا : میں نے سر اُٹھا کر دیکھا کہ شہزادے سجدے کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہیں۔ میں پھر سجدہ میں چلا گیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما چکے تو لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ نے نماز میں اتنا سجدہ طویل کیا۔ یہانتک کہ ہم نے گمان کیا کہ کوئی امرِ اِلٰہی واقع ہو گیا ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایسی کوئی بات نہ تھی مگر یہ کہ مجھ پر میرا بیٹا سوار تھا اس لئے (سجدے سے اُٹھنے میں) جلدی کرنا اچھا نہ لگا جب تک کہ اس کی خواہش پوری نہ ہو۔
1. نسائي، السنن، 2 : 229، کتاب التطبيق، رقم : 1141
2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 493
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 380، رقم : 32191
4. طبراني، المعجم الکبير، 7 : 270، رقم : 7107
5. شيباني، الآحاد والمثاني، 2 : 188، رقم : 934
6. بيهقي، السنن الکبري، 2 : 263، رقم : 3236
7. حاکم، المستدرک، 3 : 181، رقم : 4775
8. ابن موسي، معتصر المختصر، 1 : 102
9. ابن حزم، المحلي، 3 : 90
10. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 2 : 299
|