فصل : 25
نزل النبی صلی الله عليه وآله وسلم من المنبر للحسن و الحسين عليهما السلام
(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کی خاطر اپنے منبر شریف سے نیچے اتر آئے)
88. عن أبي بريدة رضي الله عنه يقول : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يخطبنا إذ جاء الحسن و الحسين عليهما السلام، عليهما قميصان أحمران يمشيان و يعثران، فنزل رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من المنبر فحملهما و وضعهما بين يديه، ثم قال : صدق اﷲ : (إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَ أَوْلَادُکُمْ فِتْنةٌ) فنظرت إلي هذين الصبيين يمشيان و يعثران، فلم أصبر حتي قطعت حديثي و رفعتهما۔
’’حضرت ابوبریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، اتنے میں حسنین کریمین علیہما السلام تشریف لائے، انہوں نے سرخ رنگ کی قمیصیں پہنی ہوئی تھیں اور وہ (صغرسنی کی وجہ سے) لڑکھڑا کر چل رہے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (انہیں دیکھ کر) منبر سے نیچے تشریف لے آئے، دونوں (شہزادوں) کو اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر فرمایا : اﷲ تعالیٰ کا ارشاد سچ ہے : (بیشک تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہی ہیں۔ ) میں نے ان بچوں کو لڑکھڑا کر چلتے دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا حتی کہ میں نے اپنی بات کاٹ کر انہیں اٹھا لیا۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 658، ابواب المناقب، رقم : 3774
2. نسائي، السنن، 3 : 192، کتاب صلاة العيدين، رقم : 1885
3. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 345
4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 770، رقم : 1358
5. ابن حبان، الصحيح، 13 : 403، رقم : 6039
6. بيهقي، السنن الکبري، 3 : 218، رقم : 5610
7. هيثمي، مواردالظمآن، 1 : 552، رقم : 2230
8. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 18 : 143
9. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 4 : 377
10. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 403
11. ابن جوزي، التحقيق، 1 : 505، رقم : 805
فصل : 26
الحسن والحسين عليهما السلام کانا يمصّان لسان النبي صلي الله عليه وآله وسلم
(حسنین کریمین علیہما السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک چوستے تھے)
89. عن أبي هريرة رضي الله عنه فقال : أشهد لخرجنا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حتي إذا کنا ببعض الطريق سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم صوت الحسن و الحسين، و هما يبکيان و هما مع أمهما، فأسرع السير حتي أتاهما، فسمعته يقول لها : ما شأن ابني؟ فقالت : العطش قال : فاخلف رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم الي شنة يبتغي فيها ماء، و کان الماء يومئذ أغدارا، و الناس يريدون الماء، فنادي : هل أحد منکم معه مائ؟ فلم يبق أحد الا أخلف بيده الي کلابه يبتغي الماء في شنة، فلم يجد أحد منهم قطرة، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ناوليني أحدهما، فناولته اياه من تحت الخدر، فأخذه فضمه الي صدره و هو يطغو ما يکست، فأدلع له لسانه فجعل يمصه حتي هدأ أو سکن، فلم أسمع له بکاء، و الآخر يبکي کما هو ما يسکت فقال : ناوليني الآخر، فناولته اياه ففعل به کذلک، فسکتا فما أسمع لهما صوتا۔
’’حضرت ابو ہريرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ (سفر میں) نکلے، ابھی ہم راستے میں ہی تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن و حسین علیہما السلام کی آواز سنی دونوں رو رہے تھے اور دونوں اپنی والدہ ماجدہ (سیدہ فاطمہ) کے پاس ہی تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے پاس تیزی سے پہنچے۔ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا سے یہ فرماتے ہوئے سنا : میرے بیٹوں کو کیا ہوا؟ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے بتایا انہیں سخت پیاس لگی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانی لینے کے لئے مشکیزے کی طرف بڑھے۔ ان دنوں پانی کی سخت قلت تھی اور لوگوں کو پانی کی شدید ضرورت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو آواز دی : کیا کسی کے پاس پانی ہے؟ ہر ایک نے کجاؤوں سے لٹکتے ہوئے مشکیزوں میں پانی دیکھا مگر ان کو قطرہ تک نہ ملا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا سے فرمایا : ایک بچہ مجھے دیں اُنہوں نے ایک کو پردے کے نیچے سے دے دیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا مگر وہ سخت پیاس کی وجہ سے مسلسل رو رہا تھا اور خاموش نہیں ہو رہا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کے منہ میں اپنی زبان مبارک ڈال دی وہ اُسے چوسنے لگا حتی کہ سیرابی کی وجہ سے سکون میں آ گیا میں نے دوبارہ اُس کے رونے کی آواز نہ سنی، جب کہ دوسرا بھی اُسی طرح (مسلسل رو رہا تھا) پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دوسرا بھی مجھے دے دیں تو سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے دوسرے کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کر دیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بھی وہی معاملہ کیا (یعنی زبان مبارک اس کے منہ میں ڈالی) سو وہ دونوں ایسے خاموش ہوئے کہ میں نے دوبارہ اُن کے رونے کی آواز نہ سنی۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 50، رقم : 2656
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181
ہیثمی نے اس کے راوۃ ثقہ قرار دیئے ہیں۔
3. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 231
4. ابن عساکر، تاريخِ دمشق، 13 : 221
5. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 2 : 298
6. شوکاني، در السحابه في مناقب القرابه و الصحابه : 306
7. سيوطي، الخصائص الکبریٰ، 1 : 106
فصل : 27
الحسن والحسين عليهما السلام کانا يلعبان علي بطن النبي صلي الله عليه وآله وسلم
(حسنین کریمین علیہما السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکم مبارک پر کھیلتے تھے)
90. عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه قال : دخلت علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم والحسن والحسين يلعبان علي بطنه، فقلت : يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ! أتحبهما؟ فقال : و مالي لا أحبهما و هما ريحانتاي.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو (دیکھا کہ) حسن اور حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکم مبارک پر کھیل رہے تھے، تو میں نے عرض کی : یا رسول اﷲ! کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ان سے محبت کیوں نہ کروں حالانکہ وہ دونوں میرے پھول ہیں۔‘‘
1. بزار، المسند، 3 : 287، رقم : 1079
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181
3. شوکاني، درالسحابه : 307
ہیثمی نے اس کے رواۃ صحیح قرار دیئے ہیں۔
91. عن انس بن مالک رضي الله عنه قال : دخلت أو ربما دخلت علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم والحسن والحسين يتقلبان علي بطنه، قال : و يقول : ريحانتي من هذه الأمة.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوتا یا (فرمایا) اکثر اوقات حاضر ہوتا (اور دیکھتا کہ) حسن و حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکم مبارک پر لوٹ پوٹ ہو رہے ہوتے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہوتے : یہ دونوں ہی تو میری امت کے پھول ہیں۔‘‘
1. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 49، رقم : 8167
2. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 150، رقم : 8529
فصل : 28
رکب الحسن والحسين عليهما السلام علي ظهر النبي صلي الله عليه وآله وسلم خلال الصلوة
(حسنین کریمین علیہما السلام دورانِ نماز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے )
92. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : کنا نصلي مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم العشاء، فإذا سجد وثب الحسن و الحسين علي ظهره، فإذا رفع رأسه أخذهما بيده من خلفه اخذاً رفيقا و يضعهما علي الأرض، فإذا عاد، عادا حتي قضي صلاته، أقعدهما علي فخذيه.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ نماز عشاء ادا کر رہے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں گئے تو حسن اور حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدے سے سر اٹھایا تو ان دونوں کو اپنے پیچھے سے نرمی کے ساتھ پکڑ کر زمین پر بٹھا دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ سجدے میں گئے تو شہزادگان نے دوبارہ ایسے ہی کیا (یہ سلسلہ چلتا رہا) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز مکمل کر لی اس کے بعد دونوں کو اپنی مبارک رانوں پر بٹھا لیا۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 513، رقم : 10669
2. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 51، رقم : 2659
3. حاکم، المستدرک، 3 : 183، رقم : 4782
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181
5. ابن عدي، الکامل، 6 : 81، رقم : 1615
6. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 3 : 256
7. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 2 : 258
8. شوکاني، نيل الاوطار، 2 : 124
9. سيوطي، الخصائص الکبري، 2 : 136
10. ابن کثير، البدايه والنهايه، 6 : 152
93. عن زر بن جيش رضي الله عنه قال : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ذات يوم يصلي بالناس فأقبل الحسن و الحسين عليهما السلام و هما غلامان، فجعلا يتوثبان علي ظهره إذا سجد فأقبل الناس عليهما ينحيانهما عن ذلک، قال : دعوهما بأبي و أمي.
’’زر بن جیش رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے کہ حسنین کریمین علیہما السلام جو اس وقت بچے تھے آئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں گئے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہونے لگے، لوگ انہیں روکنے کے لئے آگے بڑھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے ماں باپ ان پر قربان ہوں! انہیں چھوڑ دو۔ ۔ ۔ یعنی سوار ہونے دو۔‘‘
بيهقي، السنن الکبریٰ، 2 : 263، رقم : 3237
94. عن عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يصلي فإذا سجد وثب الحسن و الحسين علي ظهره، فإذا أرادوا أن يمنعوهما أشار إليهم أن دعوهما، فلما صلي وضعهما في حجره.
’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے، جب سجدے میں گئے تو حسنین کریمین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، جب لوگوں نے انہیں روکنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو اشارہ فرمایا کہ انہیں چھوڑ دو. یعنی سوار ہونے دو، پھر جب نماز ادا فرما چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کو اپنی گود میں لے لیا۔‘‘
1. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 50، رقم : 8170
2. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 2 : 71
3. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 122
95. عن البراء بن عازب رضي الله عنه قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يصلي فجاء الحسن و الحسين عليهما السلام (أو أحدهما)، فرکب علي ظهره فکان إذا سجد رفع رأسه أخذ بيده فأمسکه أو أمسکهما، ثم قال : نعم المطية مطيتکما۔
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھاتے تو حسن و حسین علیہما السلام دونوں میں سے کوئی ایک آکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو جاتا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں ہوتے، سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے اگر ایک ہوتا تو اس کو یا دونوں ہوتے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو تھام لیتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : تم دو سواروں کے لئے کتنی اچھی سواری ہے۔‘‘
1. طبراني، المعجم الاوسط، 4 : 205، رقم : 3987
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 182
96. عن أنس بن مالک رضي الله عنه قال : کتب النبي صلي الله عليه وآله وسلم لرجل عهدا فدخل الرجل يسلم علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يصلي، فرأي الحسن والحسين يرکبان علي عنقه مرة و يرکبان علي ظهره مرة و يمران بين يديه و من خلفه، فلما فرغ الصلاة قال له الرجل : ما يقطعان الصلاة؟ فغضب النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقال : ناولني عهدک. فأخذه فمزقه، ثم قال : من لم يرحم صغيرنا و لم يؤقر کبيرنا فليس مناولا أنا منه.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شخص کو عہدنامہ لکھ کر دیا تو اس شخص نے حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حالت نماز میں سلام عرض کیا، پھر اس نے دیکھا کہ حسن اور حسین علیہما السلام کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک اور کبھی پشت مبارک پر سوار ہوتے ہیں اور حالت نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے پیچھے سے گزر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس شخص نے کہا : کیا وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز نہیں توڑتے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جلال میں آ کر فرمایا : مجھے اپنا عہد نامہ دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے لے کر پھاڑ دیا اور فرمایا : جو ہمارے چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کا ادب نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں اور نہ ہی میں اس سے ہوں۔‘‘
محب طبري، ذخائر العقبیٰ، 1 : 132
97. عن بن عباس رضي اﷲ عنهما قال : صلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم صلاة العصر، فلما کان في الرابعة أقبل الحسن والحسين حتي رکبا علي ظهر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فلما سلم وضعهما بين يديه و أقبل الحسن فحمل رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم الحسن علي عاتقه الأيمن والحسين علي عاتقه الأيسر.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضي اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ عصر ادا کی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چوتھی رکعت میں تھے تو حسن و حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہوگئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام پھیرا تو ان دونوں کو اپنے سامنے بٹھا لیا حسن رضی اللہ عنہ کے آگے آنے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے دائیں کندھے پر اور حسین رضی اللہ عنہ کو بائیں کندھے پر اُٹھا لیا۔‘‘
1. طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 298، رقم : 6462
2. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 66، رقم : 2682
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 184
فصل : 29
قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم للحسنين : نعم الراکبان هما
(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین علیہما السلام سے فرمانا : یہ دونوں کیسے اچھے سوار ہیں)
98. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : خرج علينا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و معه حسن و حسين هذا علي عاتقه و هذا علي عاتقه.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک کندھے پر حسنں اور دوسرے کندھے پر حسینں سوار تھے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 440، رقم : 9671
2. حاکم، المستدرک، 3 : 182، رقم : 4777
حاکم اس کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔
3. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 777، رقم : 1376
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 179
5. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 228
6. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 2 : 71
7. مناوي، فيض القدير، 6 : 32
ہیثمی نے اس کے رواۃ کو ثقہ قرار دیا ہے۔
99. عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال : رأيت الحسن والحسين عليهما السلام علي عاتقي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فقلت : نعم الفرس تحتکما۔ قال : و نعم الفارسان هما۔
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حسن و حسین علیہما السلام کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر (سوار) دیکھا تو حسرت بھرے لہجے میں کہا کہ آپ کے نیچے کتنی اچھی سواری ہے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا : ذرا یہ بھی تو دیکھو کہ سوار کتنے اچھے ہیں۔‘‘
1.بزار، المسند، 1 : 418
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181
ہيثمی نے ابو یعلیٰ کی بیان کردہ روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
3. حسيني، البيان والتعريف، 2 : 263، رقم : 1672
4. شوکاني، در السحابه في مناقب القرابة و الصحابه : 308
5. ابن عدي، الکامل، 2 : 362
100. عن سلمان رضي الله عنه قال : کنا حول النبي صلي الله عليه وآله وسلم فجاء ت أم أيمن فقالت : يا رسول اﷲ لقد ضل الحسن و الحسين عليهما السلام قال : و ذلک راد النهار يقول ارتفاع النهار. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : قوموا فاطلبوا ابني. قال : و أخذ کل رجل تجاه وجهه و أخذت نحو النبي صلي الله عليه وآله وسلم فلم يزل حتي أتي سفح جبل و اذا الحسن والحسين عليهما السلام ملتزق کل واحد منهما صاحبه و اذا شجاع قائم علي ذنبه يخرج من فيه شه النار، فأسرع اليه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فالتفت مخاطبا لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ثم انساب فدخل بعض الأحجرة ثم أتاهما فأفرق بينهما و مسح و جههما و قال : بأبي و أمي أنتما ما أکرمکما علي اﷲ ثم حمل أحدهما علي عاتقه الأيمن والآخر علي عاتقه الأيسر فقلت : طوباکما نعم المطية مطيتکما فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : و نعم الراکبان هما۔
’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھے۔ ام ایمن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا حسن و حسین علیہما السلام گم ہو گئے ہیں راوی کہتے ہیں، دن خوب نکلا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چلو میرے بیٹوں کو تلاش کرو، راوی کہتا ہے ہر ایک نے اپنا راستہ لیا اور میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چل پڑا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل چلتے رہے حتیٰ کہ پہاڑ کے دامن تک پہنچ گئے۔ (دیکھا کہ) حسن و حسین علیہما السلام ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے ہوئے کھڑے ہیں اور ایک اژدھا اپنی دم پر کھڑا ہے اور اُس کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کی طرف تیزی سے بڑھے تو وہ اژدھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر سکڑ گیا پھر کھسک کر پتھروں میں چھپ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان (حسنین کریمین علیہما السلام) کے پاس تشریف لائے اور دونوں کو الگ الگ کیا اور اُن کے چہروں کو پونچھا اور فرمایا : میرے ماں باپ تم پر قربان، تم اللہ کے ہاں کتنی عزت والے ہو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں سے ایک کو اپنے دائیں کندھے پر اور دوسرے کو بائیں کندھے پر اُٹھا لیا۔ میں نے عرض کیا : تمہاری سواری کتنی خوب ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بھی تو دیکھو کہ دونوں سوار کتنے خوب ہیں۔‘‘
1.طبراني، المعجم الکبير، 3 : 65، رقم : 2677
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 182
3.شوکاني، در السحابه في مناقب القرابة والصحابه : 309
101. عن أبي جعفرص قال : مر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بالحسن و الحسين عليهما السلام و هو حاملهما علي مجلس من مجالس الأنصار، فقالوا : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! نعمت المطية قال : و نعم الراکبان.
’’حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کو اٹھائے ہوئے انصار کی ایک مجلس سے گزرے تو انہوں نے کہا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! کیا خوب سواری ہے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سوار بھی کیا خوب ہیں۔‘‘
ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 380، رقم : 32185
102. عن جابر رضي الله عنه قال دخلت علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم و هو يمشي علي أربعة، و علي ظهره الحسن و الحسين عليهما السلام، و هو يقول : نعم الجمل جملکما، و نعم العدلان أنتما۔
’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضي اﷲ عنہما بيان کرتے ہيں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چار (دو ٹانگوں اور دونوں ہاتھوں کے بل) پر چل رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر حسنین کریمین علیہما السلام سوار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : تمہارا اونٹ کیا خوب ہے اور تم دونوں کیا خوب سوار ہو۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 52، رقم : 2661
2. صيداوي، معجم الشيوخ، 1 : 266، رقم : 227
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 182
4. رامهرمزي، امثال الحديث : 128 رقم : 98
5. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 3 : 256
6. قزويني، التدوين في اخبار قزوين، 2 : 109
7. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 132
103. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : وقف رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم علي بيت فاطمة فسلم، فخرج إليه الحسن و الحسين عليهما السلام، فقال له رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ارق بأبيک أنت عين بقة و أخذ بأصبعيه فرقي علي عاتقه، ثم خرج الآخر الحسن او الحسين مرتفعة احدي عينيه، فقال له رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : مرحبا بک ارق بأبيک أنت عين البقة و أخذ بأصبعيه فاستوي علي عاتقه الآخر.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے گھر کے سامنے رکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمۃ الزھراء کو سلام کیا۔ اتنے میں حسنین کریمین علیہما السلام میں سے ایک شہزادہ گھر سے باہر آ گیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اپنے باپ کے کندھے پر سوار ہو جا تو (میری) آنکھ کا تارا ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ہاتھ سے پکڑا پس وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوش مبارک پر سوار ہو گئے۔ پھر دوسرا شہزادہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف تکتا ہوا باہر آگیا تو اسے بھی فرمایا : خوش آمدید، اپنے باپ کے کندھے پر سوار ہو جا تو (میری) آنکھ کا تارا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنی انگلیوں کے ساتھ پکڑا پس وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے دوش مبارک پر سوار ہو گئے۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 49، رقم : 2652
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 180
فصل : 30
کان يُطيل النبي صلي الله عليه وآله وسلم السجود للحسن و الحسين عليهما السلام
(حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کی خاطر سجدوں کو لمبا کر لیتے تھے)
104. عن أنس رضي الله عنه قال : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يسجد فيجئ الحسن أو الحسين فيرکب علي ظهره فيطيل السجود. فيقال : يا نبي اﷲ! أطلت السجود، فيقول : ارتحلني ابني فکرهت أن أعجله.
’’حضرت انس بن مالک رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں ہوتے تو حسن یا حسین علیہما السلام آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمر مبارک پر سوار ہو جاتے جس کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدوں کو لمبا کر لیتے۔ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا : اے اﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا آپ نے سجدوں کو لمبا کر دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر میرا بیٹا سوار تھا اس لئے (سجدے سے اُٹھنے میں) جلدی کرنا اچھا نہ لگا۔‘‘
1. ابو يعلیٰ، المسند، 6 : 150، رقم : 3428
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181
105. عن عبداﷲ بن شداد عن أبيه قال : خرج علينا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في احدي صلاتي العشاء و هو حامل حسناً أو حسيناً فتقدم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فوضعه ثم کبر للصلاة فصلي، فسجد بين ظهراني صلاته سجدة أطالها۔ قال أبي : فرفعت رأسي و اذا الصبي علي ظهر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهو ساجد فرجعت الي سجودي، فلما قضي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم الصلاة، قال الناس : يا رسول اﷲ انک سجدت بين ظهراني صلاتک سجدة أطلتها حتي ظننا أنه قد حدث أمر أو أنه يوحي إِليک. قال : ذلک لم يکن ولکن ابني ارتحلني فکرهت أن أعجله حتي يقضي حاجته.
عبداﷲ بن شداد اپنے والد حضرت شداد بن ھاد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز ادا کرنے کے لئے ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن یا حسین علیہما السلام (میں سے کسی ایک شہزادے) کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشریف لا کر اُنہیں زمین پر بٹھا دیا پھر نماز کے لئے تکبیر فرمائی اور نماز پڑھنا شروع کر دی، نماز کے دوران حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طویل سجدہ کیا۔ شداد نے کہا : میں نے سر اُٹھا کر دیکھا کہ شہزادے سجدے کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہیں۔ میں پھر سجدہ میں چلا گیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما چکے تو لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ نے نماز میں اتنا سجدہ طویل کیا۔ یہانتک کہ ہم نے گمان کیا کہ کوئی امرِ اِلٰہی واقع ہو گیا ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایسی کوئی بات نہ تھی مگر یہ کہ مجھ پر میرا بیٹا سوار تھا اس لئے (سجدے سے اُٹھنے میں) جلدی کرنا اچھا نہ لگا جب تک کہ اس کی خواہش پوری نہ ہو۔
1. نسائي، السنن، 2 : 229، کتاب التطبيق، رقم : 1141
2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 493
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 380، رقم : 32191
4. طبراني، المعجم الکبير، 7 : 270، رقم : 7107
5. شيباني، الآحاد والمثاني، 2 : 188، رقم : 934
6. بيهقي، السنن الکبري، 2 : 263، رقم : 3236
7. حاکم، المستدرک، 3 : 181، رقم : 4775
8. ابن موسي، معتصر المختصر، 1 : 102
9. ابن حزم، المحلي، 3 : 90
10. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 2 : 299
فصل : 31
کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يضمّ الحسن والحسين عليهما السلام إليه تحت ثوبه
(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں شہزادوں کو چادر کے اندر اپنے جسم اطہر سے چمٹا لیتے تھے)
106. عن أسامة بن زيد رضي اﷲ عنهما قال : طرقت النبي صلي الله عليه وآله وسلم ذات ليلة في بعض الحاجة فخرج النبي صلي الله عليه وآله وسلم وهو مشتمل علي شئ لا أدري ما هو فلما فرغت ما حاجتي قلت : ما هذا الذي أنت مشتمل عليه؟ فکشفه فإذا حسن و حسين علي و رکيه فقال : هذان أبناي.
’’حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا : میں ایک رات کسی کام کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شے کو اپنے جسم سے چمٹائے ہوئے تھے جسے میں نہ جان سکا جب میں اپنے کام سے فارغ ہوا تو عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے کیا چیز اپنے جسم سے چمٹا رکھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کپڑا ہٹایا تو دیکھا کہ حسن و حسین علیہما السلام دونوں رانوں تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چمٹے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ میرے دونوں بیٹے ہیں۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 656، ابواب المناقب، رقم : 3769
2. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 149، رقم : 8524
3. ابن حبان، الصحيح، 15 : 423، رقم : 6967
4. بزار، المسند، 7 : 31، رقم : 2580
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 378، رقم : 32182
6. مقدسي، الاحاديث المختارة، 4 : 94، رقم : 1307
7. هيثمي، مواردالظمآن، 1 : 552، رقم : 2234
8. ابن حجر مکي، الصواعق المحرقه، 2 : 404
107. عن أنس بن مالک رضي الله عنه يقول : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول لفاطمة : أدعي أبني فيشمهما و يضمهما إليه.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا سے فرمایا کرتے : میرے دونوں بیٹوں کو بلاؤ پھر آپ ان دونوں (پھولوں) کو سونگھتے اور اپنے سینۂ اقدس کے ساتھ چپکا لیتے۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 657، ابواب المناقب، رقم : 3772
2. ابويعلیٰ، المسند، 7 : 274، رقم : 4294
3. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 121
فصل : 32
أوّل من يدخل الجنة مع النبي صلي الله عليه وآله وسلم هو الحسن والحسين عليهما السلام
(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جو جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے وہ حسنین کریمین علیہما السلام ہیں)
108. عن علي رضي الله عنه قال : أخبرني رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ان أول من يدخل الجنة أنا و فاطمة و الحسن و الحسين. قلت : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! فمحبونا؟ قال : من ورائکم.
’’حضرت علي رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بتایا کہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والوں میں، میں (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ خود)، فاطمہ، حسن اور حسین ہیں۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! ہم سے محبت کرنے والے کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے پیچھے۔‘‘
1. حاکم، المستدرک، 3 : 164، رقم : 4723
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 14 : 173
3. هندي، کنز العمال، 12 : 98، رقم : 34166
4. ابن حجر مکی نے ’الصواعق المحرقہ (2 : 448)‘ میں کہا ہے کہ اسے ابن سعد نے بھی روایت کیا ہے۔
5. محب طبری، ذخائر العقبیٰ فی مناقب ذوی القربیٰ 1 : 123
109. عن علیّ بن أبي طالب رضي الله عنه قال : شکوت الي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حسد الناس اياي، فقال : أما ترضي أن تکون رابع أربعة أول من يدخل الجنة : أنا و أنت و الحسن و الحسين.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کی کہ لوگ مجھ سے حسد کرتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چار مردوں میں چوتھے تم ہو (وہ چار) میں، تم، حسن اور حسین ہیں۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 624
2. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 319، رقم : 950
3. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 41، 2624
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 131، 174
5. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 16 : 22
6. محب طبري، ذخائر العقبیٰ فی مناقب ذوی القربیٰ، 1 : 90
7. ابن حجر مکی، الصواعق المحرقه، 2 : 466
فصل : 33
تزيين اﷲ عزوجل الجنة بالحسن و الحسين عليهما السلام
(اﷲ تعالیٰ کاحسنین کریمین علیہما السلام کی موجودگی کے ذریعے جنت کو آراستہ کرنا)
110. عن عقبة بن عامررضي الله عنه، أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : الحسن و الحسين شنفا العرش و ليسا بمعلقين، و إن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : إذا استقر أهل الجنة في الجنة، قالت الجنة : يا رب! وعدتني أن تزينني برکنين من أرکانک! قال : أولم أزينک بالحسن و الحسين؟
’’عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین عرش کے دو ستون ہیں لیکن وہ لٹکے ہوئے نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب اہل جنت، جنت میں مقیم ہو جائیں گے تو جنت عرض کرے گی : اے پروردگار! تو نے مجھے اپنے ستونوں میں سے دو ستونوں سے مزین کرنے کا وعدہ فرمایا تھا۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میں نے تجھے حسن اور حسین کی موجودگی کے ذریعے مزین نہیں کر دیا؟ (یہی تو میرے دو ستون ہیں)۔‘‘
1. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 108، رقم : 337
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 184
3. ذهبي، ميزان الاعتدال، 1 : 278
4. عسقلاني، لسان الميزان، 1 : 257، رقم : 804
5. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 2 : 239، رقم : 697
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 13 : 228
7. مناوي، فيض القدير، 3 : 415
8. ابن حجر مکي، الصواعق المحرقه، 2 : 562
111. عن أنس رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : فخرت الجنة علي النار فقالت : أنا خير منک، فقالت النار : بل أنا خير منک، فقالت لها الجنة إستفهاما : و ممه؟ قالت : لأن في الجبابرة و نمرود و فرعون فأسکتت، فأوحي اﷲ اليها : لا تخضعين، لأزينن رکنيک بالحسن و الحسين، فماست کما تميس العروس في خدرها.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک مرتبہ جنت نے دوزخ پر فخر کیا اور کہا میں تم سے بہتر ہوں، دوزخ نے کہا : میں تم سے بہتر ہوں۔ جنت نے دوزخ سے پوچھا کس وجہ سے؟ دوزخ نے کہا : اس لئے کہ مجھ میں بڑے بڑے جابر حکمران فرعون اور نمرود ہیں۔ اس پر جنت خاموش ہو گئی، اﷲ تعالیٰ نے جنت کی طرف وحی کی اور فرمایا : تو عاجز و لاجواب نہ ہو، میں تیرے دو ستونوں کو حسن اور حسین کے ذریعے مزین کر دوں گا۔ پس جنت خوشی اور سرور سے ایسے شرما گئی جیسے دلہن شرماتی ہے۔‘‘
1. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 148، رقم : 7120
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 184
اس حديث کے ایک راوی ’’عباد بن صہیب‘‘ پر بعض محدثین نے کلام کیا ہے مگر امام احمد بن حنبل، ابوداؤد، عبدان اھوازی نے اس کو صادق قرار دیا اور یحییٰ بن معین نے ابو عاصم النبیل سے اس کی روایت ثابت کی ہے۔
1. ابن شاهين، تاريخ اسماء الثقات، 1 : 171
2. ذهبي، المغني في الضعفاء، 1 : 326
3. ابن عدي، الکامل، 4 : 347
112. عن العباس بن زريع الأزدي عن أبيه مرفوعا، قال : قالت الجنة : يا رب! حسنتني فحسن أرکاني، قال : قد حسنت أرکانک بالحسن و الحسين.
’’حضرت عباس بن زریع ازدی اپنے والد سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ جنت نے (اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں) عرض کیا : اے میرے پروردگار! تو نے مجھے حسین و جمیل بنایا ہے تو میرے ستونوں کو بھی حسین بنا۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے تیرے ستونوں کوحسن اور حسین علیہما السلام کے ذریعے حسین و جمیل بنا دیا ہے۔‘‘
1. عسقلاني، لسان الميزان، 6 : 241، رقم : 848
2. ذهبي، ميزان الاعتدال، 7 : 157، رقم : 9458
3. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 1 : 287
فصل : 34
يکون الحسن و الحسين عليهما السلام في قبة تحت العرش يوم القيامة
(حسنین کریمین علیہما السلام قیامت کے دن عرش الہٰی کے گنبد کے نیچے ہوں گے)
113. عن أبي موسي الأشعري رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أنا و علیّ و فاطمة و الحسن و الحسين يوم القيامة في قبة تحت العرش.
’’حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں، علی، فاطمہ، حسن اور حسین قیامت کے دن عرش کے گنبد کے نیچے ہوں گے۔‘‘
1. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 174
2. هندي، کنز العمال، 12 : 100، رقم : 34177
3. عسقلاني، لسان الميزان، 2 : 94
4. زرقاني، شرح الموطا، 4 : 443
114. عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : إن فاطمة و عليا و الحسن و الحسين في حظيرة القدس في قبة بيضاء سقفها عرش الرحمن.
’’حضرت عمر بن خطاب رضي اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک فاطمہ، علی، حسن اور حسین جنت الفردوس میں سفید گنبد میں مقیم ہوں گے جس کی چھت عرش خداوندی ہو گا۔‘‘
1. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 14 : 61
2. هندي، کنز العمال، 12 : 98، رقم : 34167
115. عن علیّ رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : في الجنة درجة تدعي الوسلية؟ فإذا سألتم اﷲ فسلوا لي الوسيلة؟ قالوا : يا رسول اﷲ! من يسکن معک؟ قال : علي و فاطمة و الحسن و الحسين.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جنت میں ایک مقام ہے جسے وسیلہ کہتے ہیں، پس جب تم اﷲ سے سوال کرو تو میرے لئے وسیلہ کا سوال کیا کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک و آلک وسلم! (وہاں) آپ کے ساتھ کون رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی، فاطمہ اور حسین و حسین (وہاں پر میرے ساتھ رہیں گے)۔‘‘
1. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 45
2. هندي، کنز العمال، 12 : 103، رقم : 34195
فصل : 35
يکون الحسن و الحسين عليهما السلام مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم القيامة
(حسنین کریمین علیہما السلام قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہیں گے)
116. عن علي رضي الله عنه قال : دخل علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و انا نائم علي المنامة فاستسقي الحسن او الحسين قال فقام النبي صلي الله عليه وآله وسلم الي شاة لنا بکي فحلبها فدرت فجاء ه الحسن فنحاه النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقالت فاطمة : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! کانه احبهما اليک قال : لا ولکنه استسقي قبله، ثم قال : إني و اياک و هذين و هذا الراقد في مکان واحد يوم القيامة.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں اپنے بستر پر سویا ہوا تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے حسن یا حسین علیہما السلام (میں سے کسی ایک) نے پانی مانگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری بکری کے پاس آئے جو بہت کم دودھ والی تھی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا دودھ نکالا تو اس نے بہت زیادہ دودھ دیا، پس حسنں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے فرمایا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لگتا ہے یہ آپ کو ان دونوں میں زیادہ پیارا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ اس نے پہلے پانی مانگا تھا پھر فرمایا : میں، آپ، یہ دونوں اور یہ سونے والا (حضرت علی رضی اللہ عنہ کیونکہ وہ ابھی سو کر اٹھے ہی تھے) قیامت کے دن ایک ہی جگہ پر ہوں گے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 101، رقم : 792
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 13 : 228
3. شيباني، السنة، 2 : 598، رقم : 1322
4. بزار، المسند، 3 : 30، رقم : 779
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 170
6. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 692، رقم : 1183
7. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 25
117. عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم دخل علي فاطمة رضي اﷲ عنها فقال : أني و اياک و هذا النائم. . . يعني عليا. . . و هما. . . يعني الحسن و الحسين. . . لفي مکان واحد يوم القيامة.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے گھر تشریف لائے اور فرمایا : میں، تم اور یہ سونے والا (یعنی علی وہ ابھی سو کر اٹھے ہی تھے) اور یہ دونوں یعنی حسن اور حسین علیہما السلام قیامت کے دن ایک ہی جگہ ہوں گے۔‘‘
1. حاکم، المستدرک، 3 : 147، رقم : 4664
2. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 405، رقم : 1016
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 171
حاکم نے اس روايت کي اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔
118. عن أبي فاختة رضي الله عنه قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم و علي و فاطمة و الحسن و الحسين في بيت فاستسقي الحسن، فقام رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في جوف الليل، فسقاه، فسأله الحسين فأبي أن يسقيه، فقيل : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! کأن حسنا أحب اليک من حسين؟ قال : لا ولکنه استسقاني قبله، ثم قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : يا فاطمة! أنا و انت و هذين و هذا الراقد (لعلي) في مقام واحد يوم القيامة.
’’حضرت ابو فاختہ (سعید بن علاقہ) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، علی، فاطمہ، اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم گھر پر تھے کہ حسن نے پانی مانگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آدھی رات کو اُٹھ کر اسے پانی پلایا۔ (اسی دوران جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسنں کو پانی پلانے ہی والے تھے) کہ حضرت حسین نے وہی پانی طلب کیا، جسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے دینے سے انکار فرمایا (کیونکہ حسین ان سے قبل پانی مانگ چکے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی ترتیب سے دینا چاہتے تھے یہ بغرض تعلیم و تربیت تھا)۔ عرض کیا گیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! لگتا ہے کہ آپ کو حسین سے زیادہ حسن محبوب ہے؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ وجہ نہیں بلکہ حسن نے حسین سے پہلے مانگا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے فاطمہ! میں، تم، یہ دونوں (حسن و حسین) اور یہ سونے والا (یعنی علی) قیامت کے دن ایک ہی جگہ پر ہوں گے۔‘‘
ابن عساکر، تاريخ دمشق، 13 : 227، رقم : 3204
فصل : 36
إستعاذة النبي صلي الله عليه وآله وسلم للحسن و الحسين عليهما السلام
(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین علیہما السلام کے لئے خصوصی دم فرمانا )
119. عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يعوذ الحسن و الحسين، و يقول : إن أباکما کان يعوذ بها إسماعيل و إسحاق : أعوذ بکلمات اﷲ التامة من کل شيطان وهامة و من کل عين لامة.
’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن و حسین علیہما السلام کے لئے (خصوصی طور پر) کلمات تعوذ کے ساتھ دم فرماتے تھے اور ارشاد فرماتے کہ تمہارے جد امجد (ابراہیم علیہ السلام بھی) اپنے دونوں صاحبزادوں اسماعیل و اسحاق (علیھما السلام) کے لئے ان کلمات کے ساتھ تعوذ کرتے تھے ’’میں اللہ تعالیٰ کے کامل کلمات کے ذریعے ہر (وسوسہ اندازی کرنے والے) شیطان اور بلا سے اور ہر نظر بد سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 3 : 1233، کتاب الانبياء، رقم : 3191
2. ابن ماجه، السنن، 2 : 1164، کتاب الطب، رقم : 3525
120. عن علي رضي الله عنه قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يعوذ حسنا و حسينا، فيقول : أعيذکما بکلمات اﷲ التامات من کل شيطان و هامة و من کل عين لامة. قال : و قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : عوذوا بها أبنائکم، فإن إبراهيم کان يعوذ بها ابنيه إسماعيل و إسحاق.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن و حسین علیہما السلام کو دم کرتے ہوئے فرماتے تھے : میں تمہارے لئے اﷲ کے کلمات تامہ کے ذریعے ہر وسوسہ انداز شیطان و بلا اور ہر نظر بد سے پناہ مانگتا ہوں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (امت کیلئے بھی) فرمایا : تم اپنے بیٹوں کو انہی الفاظ کے ساتھ دم کیا کرو کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے بیٹوں اسماعیل اور اسحاق (علیھما السلام) کو ان کلمات سے دم کیا کرتے تھے۔‘‘
1. عبدالرزاق، المصنف، 4 : 336، رقم : 7987
2. طبراني، المعجم الاوسط، 9 : 79
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 5 : 113
121. عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما، قال کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يعوذ الحسن و الحسين : أعيذکما بکلمات اﷲ التامة من کل شيطان و هامة و من کل عين لامة. ثم يقول : کان أبوکم يعوذ بهما إسماعيل و إسحاق.
’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضي اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن و حسین علیہما السلام کو (ان کلمات کے ساتھ) دم کیا کرتے تھے : میں تمہیں اﷲ کے کلمات تامہ کے ذریعے ہر وسوسہ انداز شیطان و بلا سے اور ہر نظر بد سے اﷲ کی پناہ میں دیتا ہوں، پھر ارشاد فرماتے : تمہارے جد امجد (ابراہیم علیہ السلام بھی) انہی کلمات کے ساتھ اپنے بیٹوں اسماعیل و اسحاق (علیھما السلام) کو دم کیا کرتے تھے۔‘‘
1. ابوداؤ، السنن، 4 : 235، کتاب السنة، رقم : 4737
2. نسائي، السنن الکبریٰ، 6 : 250، رقم : 10845
3. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 236، رقم : 2112
4. ابن حبان، الصحيح، 3 : 291، رقم : 1012
5. حاکم، المستدرک، 3 : 183، رقم : 4781
6. ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 47، رقم : 23577
7. ابن راهويه، المسند، 1 : 36، رقم : 4
8. طبراني، المعجم الاوسط، 5 : 101، رقم : 4793
9. طبراني، المعجم الصغير، 2 : 31، رقم : 727
10. بخاري، خلق افعال العباد، 1 : 97
11. ابن جوزي، تلبيس ابليس، 1 : 48
122. عن عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال : کنا جلوسا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إذ مر به الحسن و الحسين و هما صبيان، فقال : هاتوا ابني أعوذ هما بما عوذ به إبراهيم إبنيه إسماعيل و إسحاق، قال : أعيذکما بکلمات اﷲ التامة من کل عين لامة و من کل شيطان و هامة.
’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حسن و حسین علیہما السلام جو کہ ابھی بچے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے دونوں بیٹوں کو لاؤ، میں انہیں دم کر دوں جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) اپنے دونوں بیٹوں اسماعیل و اسحاق (علیہم السلام) کو دم کیا کرتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میں تمہیں اﷲ تعالیٰ کے کلمات تامہ کے ذریعے ہر نظر بد سے، ہر وسوسہ انداز شیطان و بلا سے اﷲ کی پناہ میں دیتا ہوں۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 10 : 72، رقم : 9984
2. بزار، المسند، 4 : 304، رقم : 1483
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 13 : 224
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 5 : 113
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 10 : 187
123. عن زيد بن أرقم رضي الله عنه قال : إني سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : اللهم! أستودعکهما و صالح المؤمنين يعني الحسن و الحسين.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اﷲ! میں ان دونوں حسن و حسین کو اور نیک مومنین کو تیری حفاظت خاص میں دیتا ہوں۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 85، رقم : 5037
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 194
3. هندي، کنز العمال، 12 : 119، رقم : 34281
فصل : 37
ضوء الطريق للحسن و الحسين عليهما السلام ببرقة
(آسماني بجلی کا حسنین کریمین علیہما السلام کے لئے راستہ روشن کرنا)
124. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : کنا نصلي مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم العشاء، فإذا سجد وثب الحسن و الحسين علي ظهره، فإذا رفع رأسه أخذهما بيده من خلفه اخذاً رفيقاً و يضعهما علي الأرض، فإذا عاد، عادا حتي قضي صلا ته، أقعدهما علي فخذيه، قال : فقمت إليه، فقلت : يا رسول اﷲ ! أردهما فبرقت برقة، فقال : لهما : الحقا بأمکما، قال : فمکث ضوئها حتي دخلا.
’’حضرت ابوہريرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ نمازِ عشاء ادا کر رہے تھے، جب آپ سجدے میں گئے تو حضرت حسن اور حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدے سے سر اٹھایا تو ان دونوں کو اپنے پیچھے سے نرمی سے پکڑ کر زمین پر بٹھا دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ سجدے میں گئے تو حسن اور حسین علیہما السلام نے دوبارہ ایسے ہی کیا حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز مکمل کرنے کے بعد دونوں کو اپنی (مبارک) رانوں پر بٹھا لیا۔ میں نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک و آلک وسلم! میں انہیں واپس چھوڑ آتا ہوں۔ پس اچانک آسمانی بجلی چمکی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (حسنین کریمین علیہما السلام) کو فرمایا کہ اپنی والدہ کے پاس چلے جاؤ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے گھر میں داخل ہونے تک وہ روشنی برقرار رہی۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 513، رقم : 10669
2. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 51، رقم : 2659
3. حاکم، المستدرک، 3 : 183، رقم : 4782
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181
5. ابن عدي، الکامل، 6 : 81، رقم : 1615
6. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 3 : 256
7. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 2 : 258
8. شوکاني، نيل الاوطار، 2 : 124
فصل : 38
تشجيع النبي صلي الله عليه وآله وسلم و جبريل عليه السلام للحسنين عليهما السلام علي المصارعة
(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیلں کا حسنین کریمین علیہما السلام کو داد دینا)
125. عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : کان الحسن و الحسين عليهما السلام يصطرعان بين يدي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فکان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : هي حسن. فقالت فاطمة سلام اﷲ عليها : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! لم تقول هي حسن؟ فقال : إن جبريل يقول : هي حسين.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حسنین کریمین علیہما السلام کشتی لڑ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : حسن جلدی کرو. سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے کہا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ صرف حسن کو ہی ایسا کیوں فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا : کیونکہ جبرئیل امین حسین کو جلدی کرنے کا کہہ کر داد دے رہے تھے۔‘‘
1. ابويعلیٰ، المعجم، 1 : 171، رقم : 196
2. عسقلاني، الاصابه، 2 : 77، رقم : 1726
3. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 2 : 26
4. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 134
5. ابن عدي، الکامل، 5 : 18، رقم : 1191
126. عن محمد بن علي رضي اﷲ عنهما قال : اصطرع الحسن و الحسين رضي اﷲ عنهما عند رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فجعل رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : هي حسن. قالت له فاطمة : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! تعين الحسن کانه أحب إليک من الحسين؟ قال : إن جبريل يعين الحسين و أنا أحب أن أعين الحسن.
’’محمد بن علی رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حسنین کریمین علیہما السلام کشتی لڑ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : حسن جلدی کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیدہ فاطمہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ حسن کی مدد فرما رہے ہیں لگتا ہے وہ آپ کو حسین سے زیادہ پیارا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (نہیں) جبرئیل حسین کی مدد کر رہے تھے اسلئے میں نے چاہا کہ حسن کی مدد کروں۔‘‘
1. هيثمي، مسند الحارث، 2 : 910، رقم 992
2. سيوطي، الخصائص الکبري، 2 : 465
3. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي، 1 : 134
127. عن بن عباس رضي اﷲ عنهما قال : اتخذ الحسن والحسين عند رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فجعل يقول : هي يا حسن! خذ يا حسن! فقالت عائشة : تعين الکبير علي الصغير. فقال : إن جبريل يقول : خذ يا حسين.
’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں حسن و حسین علیہما السلام ایک دوسرے کو پکڑنے میں کوشاں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمانے لگے حسن جلدی کرو! حسن پکڑ لو تو اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ چھوٹے کے مقابلے میں بڑے کی مدد فرما رہے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اس لئے کہ) جبرئیل امین (پہلے سے ہی) حسین کو حوصلہ دلاتے ہوئے پکڑلو، پکڑلو کہہ رہے تھے۔‘‘
ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 13 : 223
فصل : 39
کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يقبل الحسن و الحسين عليهما السلام
(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کا بوسہ لیتے تھے)
128. عن ابی هريره رضي الله عنه قال : خرج علينا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و معه حسن و حسين، هذا علي عاتقه و هذا علي عاتقه، وهو يلثم هذا مرة و يلثم هذا مرة.
’’حضرت ابوہريرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حسنین کریمین علیہما السلام تھے ایک (شہزادہ) ایک کندھے پر سوار تھا اور دوسرا دوسرے کندھے پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کو باری باری چوم رہے تھے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 400، رقم : 9671
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 777، رقم : 1376
3. حاکم، المستدرک، 3 : 182، رقم : 4777
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 179
5. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 228
6. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 2 : 71
7. مناوي، فيض القدير، 6 : 32
129. عن أبي المعدل عطية الطفاوي عن أبيه أن أم سلمة حدثته قالت : بينما رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في بيتي يوما اذ قالت الخادم أن عليا و فاطمة بالسدة، قالت : فقال لي : قومي فتنحي لي عن أهل بيتي، قالت : فقمت فتنحيت في البيت قريبا، فدخل علیّ و فاطمة و معهما الحسن و الحسين و هما صبيان صغيران، فأخذ الصبيين فوضعهما في حجره فقبلهما.
’’ابو معدل عطيہ طفاوی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہیں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا نے بیان کیا کہ ایک دن جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر تشریف فرما تھے خادم نے عرض کیا : دروازے پر علی اور فاطمہ علیہما السلام آئے ہیں۔ ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا : ایک طرف ہو جاؤ اور مجھے اپنے اہل بیت سے ملنے دو۔ ام سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں : میں پاس ہی گھر میں ایک طرف ہٹ کر کھڑی ہو گئی، پس علی، فاطمہ اور حسنین کریمین علیہم السلام داخل ہوئے اس وقت وہ کم سن تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں بچوں کو پکڑ کر گود میں بٹھا لیا اور دونوں کو چومنے لگے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 296، رقم : 26582
2. ابن کثير، تفسيرالقرآن العظيم، 3 : 485
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 166
4. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 22
130. عن يعلي بن مرة رضي الله عنه قال : إن حسنا و حسينا أقبلا يمشيان إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فلما جاء احدهما جعل يده في عنقه، ثم جاء الآخر فجعل يده الأخري في عنقه، فقبّل هذا، ثم قبّل هذا.
’’حضرت يعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حسن و حسین علیہما السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلتے ہوئے آئے، جب ان میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک بازو سے اسے گلے لگا لیا، پھر جب دوسرا پہنچا تو دوسرے بازو سے اسے گلے لگا لیا، پھر دونوں کو باری باری چومنے لگے۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 32، رقم : 2587
2. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 274، رقم : 703
3. قضاعي، مسند الشهاب، 1 : 50، رقم : 26
4. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 122
131. عن عتبة بن غزوان رضي الله عنه قال : بينما رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم جالس إذ جاء الحسن و الحسين فرکبا ظهره، فوضعهما في حجره فجعل يقبل هذا مرة و هذا مرة.
’’عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے کہ حسن و حسین علیہما السلام آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو اپنی گود میں بٹھا لیا اور باری باری دونوں کو چومنے لگے۔‘‘
ابن قانع، معجم الصحابة، 2 : 265، رقم : 786
فصل : 40
ذهب النبي صلي الله عليه وآله وسلم للمباهلة و معه الحسن والحسين عليهما السلام
(حضور صلي اللہ علیہ وآلہ وسلم مباھلہ کے وقت حسنین کریمین علیہما السلام کو اپنے ساتھ لے گئے)
132. عن الشعبي رضي الله عنه قال : لما أراد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أن يلا عن أهل نجران، أخذ بيد الحسن والحسين و کانت فاطمة تمشي خلفه.
’’حضرت شعبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل نجران کے ساتھ مباھلہ کا ارادہ فرمایا تو حسنین کریمین علیہما السلام کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے لیا اور سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل رہی تھیں۔‘‘
1. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 389، رقم : 36184
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 426، رقم : 37014
3. عسقلاني، فتح الباري، 8 : 94، رقم : 4119
133. عن ابن زيد قال : قيل لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : لو لاعنت القوم بمن کنت تأتي حين قلت : ابناء نا و ابناء کم قال : حسن و حسين.
’’ابن زيد سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عیسائی قوم کے ساتھ مباھلہ ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے قول ’ہمارے بیٹے اور تمہارے بیٹے‘ کے مصداق کن کو اپنے ساتھ لاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین کو۔‘‘
طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 3 : 301
134. عن علباء بن احمر اليشکري قال : لما نزلت هذه الأية (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَ نَا وَ أَبْنَاءَ کُمْ وَ نِسَاءَ نَا وَ نِسَاءَ کُمْ. . . ) أرسل رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم الي علي و فاطمة و ابنيهما الحسن والحسين.
’’علباء بن احمر یشکری سے روایت ہے کہ جب یہ آیت. . . اے حبیب فرما دیجئے! آؤ بلاتے ہیں ہم اپنے بیٹوں کو اور تم اپنے بیٹوں کو اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو. . . نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، سیدہ فاطمہ اور ان کے بیٹوں حسن و حسین علیہم السلام کو بلا بھیجا۔‘‘
1. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 13 : 301
2. سيوطي، الدر المنثور، 2 : 233
135. عن جابر رضي الله عنه أن وفد نجران اتوا النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقالوا : ما تقول في عيسي بن مريم؟ فقال : هو روح اﷲ و کلمته و عبد اﷲ و رسوله. قالوا له : هل لک أن نلاعنک؟ إنه ليس کذلک. قال : و ذاک أحب إليکم؟ قالوا : نعم. قال : فإذا شئتم فجاء النبي صلي الله عليه وآله وسلم و جمع ولده والحسن والحسين.
’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضي اﷲ عنھما سے مروي ہے کہ نجران کا ایک وفد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا کہ آپ کی عیسیٰ بن مریم کے بارے میں کیا رائے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ روح اﷲ، کلمۃ اﷲ، اﷲ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس وفد نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا : کیا آپ ہمارے ساتھ مباھلہ کرتے ہیں کہ عیسیٰ ایسے نہ تھے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم یہی چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جیسے تمہاری مرضی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لائے اور اپنے بیٹوں حسن و حسین علیہما السلام کو ساتھ لے جانے کے لئے جمع کیا۔‘‘
1. حاکم، المستدرک، 2 : 649، رقم : 4157
2. سيوطي، الدر المنثور، 2 : 231
مآخذ و مراجع
1۔ القرآن الحکیم
2۔ ابن ابی شیبہ، ابو بکر عبداﷲ بن محمد بن ابراہیم بن عثمانی کوفی (159۔ 235ھ / 776۔ 849ء)۔ المصنف۔ ریاض، سعودی عرب : مکتبۃ الرشد، 1409ھ۔
3۔ ابن اثیر، ابو الحسن علی بن محمد بن عبدالکریم بن عبدالواحد شیبانی جزری (555۔ 630ھ / 1160۔ 1233ھ)۔ اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ۔ بیروت، لبنان : دارالکتب العلمیہ۔
4۔ ابن احمد خطیب، ابوالعباس احمد بن احمد (م۔ 810ھ)۔ وسیلۃ الاسلام بالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ بیروت، لبنان : دارالغرب الاسلامی، 1984ء
5۔ ابن جارود، ابو محمد عبداﷲ بن علی النیشاپوری (م : 307ھ)۔ المنتقیٰ۔ بیروت، لبنان : موسسۃ الکتاب الثقافیہ، 1408ھ / 1988ء۔
6۔ ابن جوزی، ابو الفرج عبدالرحمٰن بن علی بن محمد بن علی بن عبید اﷲ (510۔ 579ھ / 1116۔ 1201ء)۔ صفوۃ الصفوہ۔ بیروت، لبنان : دارالکتب العلمیہ، 1409ھ / 1989ء۔
7۔ ابن جوزی، ابو الفرج عبدالرحمٰن بن علی بن محمد بن علی بن عبید اﷲ (510۔ 579ھ / 1116۔ 1201ء)۔ العلل المتناھیہ۔ بیروت، لبنان : دارالکتب العلمیہ، 1403ھ۔
8۔ ابن جوزی، ابو الفرج عبدالرحمٰن بن علی بن محمد بن علی بن عبید اﷲ (510۔ 579ھ / 1116۔ 1201ء)۔ التحقیق فی احادیث الخلاف۔ بیروت، لبنان : دارالکتب العلمیہ، 1415ھ۔
9۔ ابن جوزی، ابو الفرج عبدالرحمٰن بن علی بن محمد بن علی بن عبید اﷲ (510۔ 579ھ / 1116۔ 1201ء)۔ تلبیس ابلیس۔ بیروت، لبنان : دارالکتاب العربی، 1405ھ / 1985ء
10۔ ابن حبان، ابو حاتم محمد بن حبان بن احمد بن حبان (270۔ 354ھ / 884۔ 965ء)۔ الصحیح۔ بیروت، لبنان : مؤسسۃ الرسالہ، 1414ھ / 1993ء۔
11۔ ابن حبان، ابو حاتم محمد بن حبان بن احمد بن حبان (270۔ 354ھ / 884۔ 965ء)۔ الثقات۔ بیروت، لبنان : دار الفکر، 1395ھ / 1975ء۔
12۔ ابن حجر مکی، ابو العباس احمد بن محمد بن محمد بن علی ہیتمی (م 973ھ)۔ الصواعق المحرقۃ علی اھل الرفض والضلال والنزندقۃ۔ بیروت، لبنان : مؤسسۃ الرسالۃ، 1997ء۔
13۔ ابن حزم، علی بن احمد بن سعید بن حزم اندلسی (384۔ 456ھ / 994۔ 1064ء)۔ المحلی۔ بیروت، لبنان : دار الآفاق الجدیدہ۔
14۔ ابن حیان، ابو محمد عبداﷲ بن محمد بن جعفر الانصاری (274۔ 369ھ)۔ طبقات المحدثین باصبھان۔ بیروت، لبنان : مؤسسۃ الرسالہ، 1412ھ / 1992ء۔
15۔ ابن خزیمہ، ابو بکر محمد بن اسحاق (223۔ 311ھ / 838۔ 924ء)۔ الصحیح۔ بیروت، لبنان : المکتب الاسلامی، 1390ھ / 1970ء۔
16۔ ابن راہویہ، ابو یعقوب اسحاق بن ابراہیم بن مخلد بن ابراہیم بن عبداﷲ (161۔ 237ھ / 778۔ 851ء)۔ المسند۔ مدینہ منورہ، سعودی عرب : مکتبۃ الایمان، 1412ھ / 1991ء۔
17۔ ابن راشد، معمر ازدی (م۔ 151ھ)۔ الجامع۔ بیروت، لبنان : مکتبۃ الایمان، 1995ء۔
18۔ ابن رشد، ابو الولید محمد بن احمد بن محمد (م۔ 559ھ)۔ بدایۃ المجتھد۔ بیروت، لبنان : دارالفکر۔
19۔ ابن شاہین، ابو حفص عمر بن احمد الواعظ (297۔ 385ھ)۔ تاریخ اسماء الثقات۔ کویت : الدارالسلفیہ، 1404ھ۔
20۔ ابن عبدالبر، ابو عمر یوسف بن عبداﷲ بن محمد (368۔ 473ھ / 979۔ 1071ء)۔ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب۔ بیروت، لبنان : دارالجیل، 1412ھ۔
21۔ ابن عبد البر، ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن محمد (368۔ 463ھ / 979۔ 1071ء)۔ التمہید۔ مغرب (مراکش) : وزات عموم الاوقاف و الشؤون الاسلامیہ، 1387ھ۔
22۔ ابن عدی، ابو احمد عبداﷲ جرجانی (277۔ 365ھ)۔ الکامل فی ضعفاء الرجال۔ بیروت، لبنان : دارالفکر، 1409ھ / 1988ء۔
23۔ ابن عساکر، ابو قاسم علی بن حسن بن ہبۃ اﷲ بن عبداﷲ بن حسین دمشقی (499۔ 571ھ / 1105۔ 1176ء)۔ تاریخ دمشق الکبیر (تاریخ ابن عساکر)۔ بیروت، لبنان : دار احیاء التراث العربی، 1421ھ / 2001ء۔
24۔ ابن قانع، ابو الحسین عبدالباقی بن قانع (265۔ 351ھ)۔ معجم الصحابۃ۔ المدینہ المنورہ، سعودی عرب : مکتبۃ الغرباء الاثریہ، 1418ھ۔
25۔ ابن کثیر، ابو الفداء اسماعیل بن عمر (701۔ 774ھ / 1301۔ 1373ء)۔ البدایہ والنہایہ۔ بیروت، لبنان : دارالفکر، 1419ھ / 1998ء۔
26۔ ابن کثیر، ابو الفداء اسماعیل بن عمر (701۔ 774ھ / 1301۔ 1373ء)۔ تفسیر القرآن العظیم۔ بیروت، لبنان : دارالمعرفہ، 1400ھ / 1980ء۔
27۔ ابن کثیر، ابو الفداء اسماعیل بن عمر (701۔ 774ھ / 1301۔ 1373ء)۔ فصول من السیرۃ۔ بیروت، لبنان : مؤسسۃ علوم القرآن، دار القلم، 1399ھ۔
28۔ ابن ماجہ، ابو عبداﷲ محمد بن یزید قزوینی (209۔ 273ھ / 824۔ 887ء)۔ السنن۔ بیروت، لبنان : دارالکتب العلمیہ، 1419ھ / 1998ء۔
29۔ ابن ملقن انصاری، عمر بن علی (773۔ 804ھ)۔ خلاصۃ البدر المنیر۔ ریاض، سعودی عرب : مکتبہ الرشد، 1410ھ۔
30۔ ابن موسیٰ، ابو المحاسن یوسف الحنفی۔ المعتصرمن المختصر من مشکل الآثار۔ بیروت، لبنان : عالم الکتب۔
31۔ ابو داؤد، سلیمان بن اشعث سجستانی (202۔ 275ھ / 817۔ 889ء)۔ السنن۔ بیروت، لبنان : دارالفکر، 1414۔
32۔ ابو نعیم، احمد بن عبداﷲ بن احمد بن اسحاق بن موسیٰ بن مہران اصبہانی (336۔ 430ھ / 948۔ 1038ء)۔ حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء۔ بیروت، لبنان : دار الکتاب العربی، 1400ھ / 1980ء۔
33۔ ابو یعلیٰ، احمد بن علی بن مثنی بن یحیی بن عیسیٰ بن ہلال موصلی تمیمی (210۔ 307ھ / 825۔ 919ء)۔ المسند۔ دمشق، شام : دارالمامون للتراث، 1404ھ / 1984ء۔
34۔ ابویعلی، احمد بن علی بن مثنی بن یحیی بن عیسیٰ بن ہلال موصلی تمیمی (210۔ 307ھ / 825۔ 919ء)۔ المعجم۔ فیصل آباد، پاکستان : ادارۃ العلوم و الاثریہ، 1407ھ۔
35۔ احمد بن حنبل، ابو عبداﷲ بن محمد (164۔ 241ھ / 780۔ 855ء)۔ فضائل الصحابہ۔ بیروت، لبنان : مؤسسۃ الرسالہ۔
36۔ احمد بن حنبل، ابو عبداﷲ بن محمد (164۔ 241ھ / 780۔ 855ء)۔ المسند۔ بیروت، لبنان : المکتب الاسلامی، 1398ھ / 1978ء۔
37۔ بخاری، ابو عبداﷲ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ (194۔ 256ھ / 810۔ 870ء)۔ الادب المفرد۔ بیروت، لبنان : دارالبشائر الاسلامیہ، 1409ھ / 1989ء۔
38۔ بخاری، ابو عبداﷲ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ (194۔ 256ھ / 810۔ 870ء)۔ الصحیح۔ بیروت، لبنان + دمشق، شام : دارالقلم، 1401ھ / 1981ء۔
39۔ بخاری، ابو عبداﷲ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ (194۔ 256ھ / 810۔ 870ء)۔ خلق افعال العباد۔ ریاض، سعودی عرب : دارالمعارف السعودیہ، 1398ھ / 1978ء۔
40۔ بزار، ابو بکر احمد بن عمرو بن عبدالخالق بصری (210۔ 292ھ / 825۔ 905ء)۔ المسند۔ بیروت، لبنان : 1409ھ۔
41۔ بغوی، ابو محمد حسین بن مسعود بن محمد (436۔ 516ھ / 1044۔ 1122ء)۔ معالم التنزیل۔ بیروت، لبنان : دارالمعرفہ، 1407ھ / 1987ء۔
42۔ بیہقی، ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبداﷲ بن موسیٰ (384۔ 458ھ / 994۔ 1066ء)۔ السنن الکبریٰ۔ مکہ مکرمہ، سعودی عرب : مکتبہ دارالباز، 1414ھ / 1994ء۔
43۔ بیہقی، ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبداﷲ بن موسیٰ (384۔ 458ھ / 994۔ 1066ء)۔ المدخل الی السنن الکبریٰ۔ کویت : دار الخلفاء للکتاب الاسلامی، 1404ھ / 1984ء۔
44۔ ترمذی، ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن موسی بن ضحاک سلمی، (210۔ 279ھ / 825۔ 892ء)۔ الجامع الصحیح۔ بیروت، لبنان : داراحیاء التراث العربی۔
45۔ حاکم، ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ بن محمد (321۔ 405ھ / 933۔ 1014ء)۔ المستدرک علی الصحیحین۔ بیروت۔ لبنان : دارالکتب العلمیہ، 1411ھ / 1990ء۔
46۔ حسینی، ابراہیم بن محمد (1054۔ 1120ھ)۔ البیان والتعریف۔ بیروت، لبنان : دارالکتاب العربی، 1401ھ۔
47۔ حکمی، حافظ بن احمد (1342۔ 1377ھ)۔ معارج القبول بشرح سلم الوصول الی علم الاصول۔ دمام : دار ابن قیم، 1410ھ / 1990ء۔
48۔ حلبی، علی بن برہان الدین (1404ھ)۔ السیرۃ الحلبیۃ / انسان العیون۔ بیروت، لبنان، دارالمعرفہ، 1400ھ۔
49۔ خطیب بغدادی، ابو بکر احمد بن علی بن ثابت بن احمد بن مہدی بن ثابت (392۔ 463ھ / 1002۔ 1071ء)۔ تاریخ بغداد۔ بیروت، لبنان : دارالکتب العلمیہ۔
50۔ دارقطنی، ابو الحسن علی بن عمر بن احمد بن مہدی بن مسعود بن نعمان (306۔ 385 / 918۔ 995ء)۔ علل۔ ریاض، سعودی عرب : دار طیبہ، 1405ھ / 1985ء
51۔ دورقی، ابوعبداﷲ احمد بن ابراہیم بن کثیر (168۔ 246ھ)۔ مسند سعد بن ابی وقاص۔ بیروت، لبنان : دارالبشائر الاسلامیہ، 1407ھ۔
52۔ دولابی، الامام الحافظ ابو بشر محمد بن احمد بن محمد بن حماد (224۔ 310ھ)۔ الذریۃ الطاہرہ النبویہ۔ کویت : الدارالسلفیہ، 1407ھ۔
53۔ دیلمی، ابو شجاع شیرویہ بن شہردار بن شیرویہ بن فناخسرو ہمذانی (445۔ 509ھ / 1053۔ 1115ء)۔ الفردوس بماثور الخطاب۔ بیروت، لبنان : دارالکتب العلمیہ، 1986ء۔
54۔ ذہبی، شمس الدین محمد بن احمد (673۔ 748ھ)۔ سیر اعلام النبلاء۔ بیروت، لبنان : مؤسسۃ الرسالۃ، 1413ھ۔
55۔ ذہبی، شمس الدین محمد بن احمد (673۔ 748ھ)۔ میزان الاعتدال فی نقد الرجال۔ بیروت۔ لبنان : دارالکتب العلمیہ، 1995ء۔
56۔ ذہبی، شمس الدین محمد بن احمد (673۔ 748ھ)۔ المغنی فی الضعفاء۔
57۔ رامہرمزی، ابوالحسن بن عبدالرحمٰن بن خلاد (م۔ 576ھ)۔ امثال الحدیث۔ بیروت، لبنان : مؤسسۃ الکتب الثقافیہ، 1409ھ۔
58۔ رویانی، ابوبکر محمد بن ہارون (م 307ھ)۔ المسند۔ قاہرہ، مصر : مؤسسۃ قرطبہ، 1416ھ۔
59۔ زرقانی، ابو عبداﷲ محمد بن عبدالباقی بن یوسف بن احمد بن علوان مصری ازہری مالکی (1055۔ 1122ھ / 1645۔ 1710ء)۔ شرح الموطا۔ بیروت، لبنان : دارالکتب العلمیہ، 1411ھ۔
60۔ سخاوی، شمس الدین محمد بن عبدالرحمٰن (831ھ / 902ء)۔ اِستجلاب اِرتقاء الغرف بحب اَقرباء الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وذَوِی الشرف۔ بیروت، لبنان : دارالمدینہ، 1421ھ / 2001ء۔
61۔ سیوطی، جلال الدین ابو الفضل عبدالرحمٰن بن ابی بکر بن محمد بن ابی بکر بن عثمان (849۔ 911ھ / 1445۔ 1505ء)۔ الخصائص الکبریٰ۔ فیصل آباد، پاکستان : مکتبہ نوریہ رضویہ۔
62۔ سیوطی، جلال الدین ابوالفضل عبدالرحمٰن بن ابی بکر بن محمد بن ابی بکر بن عثمان (849۔ 911ھ / 1445۔ 1505ء)۔ الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور۔ بیروت، لبنان : دار المعرفہ۔
63۔ سیوطی، جلال الدین ابو الفضل عبدالرحمٰن بن ابی بکر بن محمد بن ابی بکر بن عثمان (849۔ 911ھ / 1445۔ 1505ء)۔ تنویر الحوالک شرح موطا مالک۔ مصر : مکتبہ التجاریہ الکبریٰ، 1389ھ / 1969ء۔
64۔ شاشی، ابو سعید ہیثم بن کلیب بن شریح (م 335ھ / 946ء)۔ المسند۔ مدینہ منورہ، سعودی عرب : مکتبۃ العلوم و الحکم، 1410ھ۔
65۔ شوکانی، محمد بن علی بن محمد (1173۔ 1250ھ / 1760۔ 1834ء)۔ نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار۔ بیروت، لبنان : دارالفکر، 1402ھ / 1982ء۔
66۔ شوکانی، محمد بن علی بن محمد (1173۔ 1250ھ / 1760۔ 1834ء)۔ درالسحابہ فی مناقب القرابہ والصحابہ۔ دمشق، شام : دارالفکر، 1494ھ / 1984ء۔
67۔ شیبانی، ابوبکر احمد بن عمرو بن ضحاک بن مخلد (206۔ 287ھ / 822۔ 900ء)۔ الآحاد و المثانی۔ ریاض، سعودی عرب : دار الرایہ، 1411ھ / 1991ء۔
68۔ شیبانی، ابوبکر بن عمرو بن ضحاک بن مخلد شیبانی (206۔ 287ھ / 822۔ 900ء)۔ السنہ۔ بیروت، لبنان : المکتب الاسلامی، 1400ھ۔
69۔ صنعانی، محمد بن اسماعیل (773۔ 852ھ)۔ سبل السلام شرح بلوغ المرام۔ بیروت، لبنان : داراحیاء التراث العربی، 1379ھ۔
70۔ صیداوی، محمد بن احمد بن جمیع، ابوالحسین (305۔ 402ھ)۔ معجم الشیوخ۔ بیروت، لبنان : مؤسسۃ الرسالۃ، 1405ھ۔
71۔ طبرانی، سلیمان بن احمد (260۔ 360ھ / 873۔ 971ء)۔ المعجم الاوسط۔ ریاض، سعودی عرب : مکتبۃ المعارف، 1405ھ / 1985ء۔
72۔ طبرانی، سلیمان بن احمد (260۔ 360ھ / 873۔ 971ء)۔ المعجم الصغیر۔ بیروت، لبنان : دارالکتب العلمیہ، 1403ھ / 1983ء۔
73۔ طبرانی، سلیمان بن احمد (260۔ 360ھ / 873۔ 971ء)۔ المعجم الکبیر۔ موصل، عراق : مطبعۃ الزہراء الحدیثہ۔
74۔ طبرانی، سلیمان بن احمد (260۔ 360ھ / 873۔ 971ء)۔ المعجم الکبیر۔ قاہرہ، مصر : مکتبہ ابن تیمیہ۔
75۔ طبری، ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید (224۔ 310ھ / 839۔ 923ء)۔ جامع البیان فی تفسیر القرآن۔ بیروت، لبنان : دارالمعرفہ، 1400ھ / 1980ء۔
76۔ طیالسی، ابو داؤد سلیمان بن داؤد جارود (133۔ 204ھ / 751۔ 819ء)۔ المسند۔ بیروت، لبنان : دارالمعرفہ۔
77۔ عبدالرزاق، ابو بکر بن ہمام بن نافع صنعانی (126۔ 211ھ / 744۔ 826ء)۔ المصنف۔ بیروت، لبنان : المکتب الاسلامی، 1403ھ۔
78۔ عجلونی، ابو الفداء اسماعیل بن محمد بن عبدالہادی بن عبدالغنی جراحی (1087۔ 1162ھ / 1676۔ 1749ء)۔ کشف الخفاء و مزیل الالباس۔ بیروت، لبنان : مؤسسۃ الرسالہ، 1405ھ۔
79۔ عسقلانی، احمد بن علی بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ھ / 1372۔ 1449ء)۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ۔ بیروت، لبنان : دارالجیل، 1412ھ / 1992ء۔
80۔ عسقلانی، احمد بن علی بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ھ / 1372۔ 1449ء)۔ تلخیص الحبیر۔ مدینہ منورہ، سعودی عرب : 1484ھ / 1964ء۔
81۔ عسقلانی، احمد بن علی بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ھ / 1372۔ 1449ء)۔ تہذیب التہذیب۔ بیروت، لبنان، دارالفکر، 1404ھ / 1984ء۔
82۔ عسقلانی، احمد بن علی بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ھ / 1372۔ 1449ء)۔ لسان المیزان۔ بیروت، لبنان، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1406ھ / 1986ء۔
83۔ عسقلانی، احمد بن علی بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ھ / 1372۔ 1449ء)۔ فتح الباری۔ لاہور، پاکستان : دارنشر الکتب الاسلامیہ، 1401ھ / 1981ء۔
84۔ قرطبی، ابو عبداﷲ محمد بن احمد بن محمد بن یحییٰ اُموی (284۔ 380ھ / 897۔ 990ء)۔ الجامع لاحکام القرآن۔ بیروت، لبنان : داراحیاء التراث العربی۔
85۔ قزوینی، عبدالکریم بن محمد الرافعی۔ التدوین فی اَخبار قزوین۔ بیروت، لبنان : دارالکتب العلمیہ، 1987ء۔
86۔ قضاعی، ابو عبد اللہ محمد بن سلامہ بن جعفر بن علی بن حکمون بن ابراہیم بن محمد بن مسلم قضاعی (م 454ھ / 1062ء)۔ مسند الشہاب۔ بیروت، لبنان : مؤسسۃ الرسالہ، 1407ھ / 1986ء۔
87۔ کنانی، احمد بن ابی بکر بن اسماعیل (762۔ 840ھ)۔ مصباح الزجاجۃ فی زوائد ابن ماجہ۔ بیروت، لبنان : دارالعربیۃ، 1403ھ۔
88۔ مبارک پوری، ابو علا محمد عبدالرحمٰن بن عبد الرحیم (1283۔ 1353ھ)۔ تحفۃ الاحوذی۔ بیروت، لبنان : دار الکتب العلمیہ۔
89۔ محاملی، ابو عبداﷲ حسین بن اسماعیل بن محمد بن اسماعیل بن سعید بن ابان ضبی (235۔ 330ھ / 849۔ 941ء)۔ الامالی۔ عمان + اُردن + الدمام : المکتبۃ الاسلامیہ + دار ابن القیم، 1412ھ۔
90۔ محب طبری، ابو جعفر احمد بن عبداﷲ بن محمد بن ابی بکر بن محمد بن ابراہیم (615۔ 694ھ / 1218۔ 1295ء)۔ ذخائر العقبیٰ فی مناقب ذَوِی القربیٰ۔ جدہ، سعودی عرب : مکتبۃ الصحابہ، 1415ھ / 1995ء۔
91۔ محب طبری، ابو جعفر احمد بن عبد اللہ بن محمد بن ابی بکر بن محمد بن ابراہیم (615۔ 694ھ / 1218۔ 1295ء)۔ الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ۔ بیروت، لبنان : دار الغرب الاسلامی، 1996ء۔
92۔ مزی، ابو الحجاج یوسف بن زکی عبدالرحمٰن بن یوسف بن عبدالملک بن یوسف بن علی (654۔ 742ھ / 1256۔ 1341ء)۔ تہذیب الکمال۔ بیروت، لبنان : مؤسسۃ الرسالہ، 1400ھ / 1980ء۔
93۔ مسلم، ابن الحجاج قشیری (206۔ 261ھ / 821۔ 875ء)۔ الصحیح۔ بیروت، لبنان : دار احیاء التراث العربی۔
94۔ مقدسی، محمد بن عبد الواحد حنبلی (م 643ھ)۔ الاحادیث المختارہ۔ مکہ مکرمہ، سعودی عرب : مکتبۃ النہضۃ الحدیثیہ، 1410ھ / 1990ء۔
95۔ مناوی، عبدالرؤف بن تاج العارفین بن علی بن زین العابدین (952۔ 1031ھ / 1545۔ 1621ء)۔ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر۔ مصر : مکتبہ تجاریہ کبریٰ، 1356ھ۔
96۔ نبہانی، یوسف بن اسماعیل بن یوسف (1265۔ 1350ھ)۔ الشرف المؤبد لآل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ فیصل آباد، پاکستان : چشتی کتب خانہ، 1986ء۔
97۔ نسائی، احمد بن شعیب (215۔ 303ھ / 830۔ 915ء)۔ السنن۔ حلب، شام : مکتب المطبوعات الاسلامیہ، 1406ھ / 1986ء۔
98۔ نسائی، احمد بن شعیب (215۔ 303ھ / 830۔ 915ء)۔ السنن الکبریٰ۔ بیروت، لبنان : دارالکتب العلمیہ، 1411ھ / 1991ء۔
99۔ نسائی، احمد بن شعیب (215۔ 303ھ / 830۔ 915ء)۔ فضائل الصحابہ۔ بیروت، لبنان : دارالکتب العلمیہ، 1405ھ۔
100۔ نسائی، احمد بن شعیب (215۔ 303ھ / 830۔ 915ء)۔ خصائص علی۔ کویت : مکتبہ المعلا، 1406ھ۔
101۔ نووی، ابو زکریا، یحییٰ بن شرف بن مری بن حسن بن حسین بن محمد بن جمعہ بن حزام (631۔ 677ھ / 1233۔ 1278ء)۔ تہذیب الاسماء واللغات۔ بیروت، لبنان : دار الکتب العلمیہ۔
102۔ وادیاشی، عمر بن علی بن احمد اندلسی (723۔ 804ھ)۔ تحفۃ المحتاج الیٰ ادلۃ المحتاج۔ مکہ مکرمہ، سعودی عرب : دار حراء، 1406ھ۔
103۔ ہندی، علاؤ الدین علی المتقی بن حسام الدین (م۔ 975ھ)۔ کنز العمال فی سنن الافعال والاقوال۔ بیروت، لبنان : مؤسسۃ الرسالہ، 1399ھ / 1979ء۔
104۔ ہیثمی، نور الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر بن سلیمان (735۔ 807ھ / 1335۔ 1405ء)۔ مجمع الزوائد۔ قاہرہ، مصر : دارالریان للتراث + بیروت، لبنان : دارالکتاب العربی، 1407ھ / 1987ء۔
105۔ ہیثمی، نور الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر بن سلیمان (735۔ 807ھ / 1335۔ 1405ء)۔ موارد الظمآن اِلی زوائد ابن حبان۔ بیروت، لبنان : دارالکتب العلمیہ۔
106۔ ہیثمی، نور الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر بن سلیمان (735۔ 807ھ / 1335۔ 1405ء)۔ مسند الحارث (زوائد الہیثمی)۔ المدینہ المنورۃ، سعودی عرب : مرکز خدمۃ السنۃ و السیرۃ النبویۃ، 1413ھ / 1992ء۔
|