مرج البحرين في مناقب الحسنين
 



فصل : 21
قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : اللهم عاد من عاداهم و وال من والاهم
(حضور صلي اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اﷲ! جو ان سے عداوت رکھے تو اس سے عداوت رکھ اور جو ان کو دوست رکھے تو اسے دوست رکھ)

79. عن أم سلمة رضي اﷲ عنها قالت : جاء ت فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم متورکة الحسن و الحسين، في يدها برمة للحسن فيها سخين حتي أتت بها النبي صلي الله عليه وآله وسلم فلما وضعتها قدامه، قال لها : أين أبو الحسن؟ قالت : في البيت. فدعاه، فجلس النبي صلي الله عليه وآله وسلم و علي و فاطمة و الحسن و الحسين يأکلون، قالت أم سلمة رضي اﷲ عنها : وما سامني النبي صلي الله عليه وآله وسلم وما أکل طعاما قط إلا و أنا عنده إلا سامنيه قبل ذلک اليوم، تعني سامني دعاني إليه، فلما فرغ التف عليهم بثوبه ثم قال : اللهم عاد من عاداهم و وال من والاهم.
’’اُم المومنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا بنت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السلام کو پہلو میں اٹھائے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ کے ہاتھ میں پتھر کی ہانڈی تھی جس میں حسن کے لئے گرم سالن تھا۔ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے جب اسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے لا کے رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : ابوالحسن (علی) کہاں ہے تو سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے جواب دیا : گھر میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بلایا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسنین کریمین سلام اﷲ علیہم بیٹھ کر کھانا تناول فرمانے لگے۔ ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کہتی ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے نہ بلایا۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہ ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری موجودگی میں کھانا کھایا ہو اور مجھے نہ بلایا ہو۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھانے سے فارغ ہوئے تو ان سب کو اپنے کپڑے میں لے لیا اور فرمایا : اے اﷲ! جو ان سے عداوت رکھے تو اس سے عداوت رکھ اور جو ان کو دوست رکھے تو اسے دوست رکھ۔‘‘
1. ابويعلیٰ، المسند، 12 : 383، رقم : 6915
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 166
3. حسيني، البيان والتعريف، 1 : 149، رقم : 396


فصل : 22
النبي صلي الله عليه وآله وسلم حرب لمن حارب الحسن والحسين عليهما السلام
(جس نے حسن و حسین علیہما السلام سے جنگ کی اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان جنگ فرما دیا)

80. عن زيد بن أرقم رضي اﷲ عنه، أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال لعلي و فاطمة و الحسن و الحسين رضي اﷲ عنهم : أنا حرب لمن حاربتم، و سلم لمن سالمتم.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین سلام اﷲ علیہم سے فرمایا : جس سے تم لڑو گے میری بھی اس سے لڑائی ہو گی، اور جس سے تم صلح کرو گے میری بھی اس سے صلح ہو گی۔‘‘
1. ترمذی، الجامع الصحيح، 5 : 699، ابواب المناقب، رقم : 3870
2. ابن ماجه، السنن، 1 : 52، رقم : 145
3. ابن حبان، الصحيح، 15 : 434، رقم : 6977
4. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 378، رقم : 32181
5. حاکم، المستدرک، 3 : 161، رقم : 4714
6. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 40، رقم : 20 - 2619
7. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 184، رقم : 31 - 5030
8. طبراني، المعجم الاوسط، 5 : 182، رقم : 5015
9. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 555، رقم : 2244
10. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ : 62
11. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 2 : 125
12. مزي، تهذيب الکمال، 13 : 112

81. عن زيد بن ارقم رضي الله عنه ان النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال لفاطمة و الحسن و الحسين : أنا حرب لمن حاربکم و سلم لمن سالمکم.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین سلام اﷲ علیہم (تینوں) سے فرمایا : جو تم سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گا اور جو تم سے صلح کرے گا میں اس سے صلح کروں گا۔‘‘
1. ابن حبان، الصحيح، 15 : 434، رقم : 6977
2. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 179، رقم : 2854
3. طبراني، المعجم الصغير، 2 : 53، رقم : 767
4. ہيثمی نے ’مجمع الزوائد (9 : 169)‘ میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے ’الاوسط‘ میں روایت کیا ہے۔
5. هيثمي، موارد الظمآن : 555، رقم : 2244
6. محاملي، الامالي : 447، رقم : 532
7. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 7 : 220

82. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : نظر النبي صلي الله عليه وآله وسلم إلي علي و فاطمة و الحسن و الحسين، فقال : أنا حرب لمن حاربکم و سلم لمن سالمکم.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین علیہما السلام کی طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا : جو تم سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گا، جو تم سے صلح کرے گا میں اس سے صلح کروں گا (یعنی جو تمہارا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے اور جو تمہارا دوست ہے وہ میرا بھی دوست ہے)۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 442
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 767، رقم : 1350
3. حاکم نے ’المستدرک (3 : 161، رقم : 4713)‘ میں اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے جبکہ ذہبی نے اس میں کوئی جرح نہیں کی۔
4. طبرانی، المعجم الکبير، 3 : 40، رقم : 2621
5. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 7 : 137
6. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 2 : 122
7. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 3 : 58 - 257
8. ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (9 : 169)‘ میں کہا ہے کہ اسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی تلیدبن سلیمان میں اختلاف ہے جبکہ اس کے بقیہ رجال حدیث صحیح کے رجال ہیں۔

83. عن أبی بکر الصديق رضي الله عنه قال : رأيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم خيم خيمة و هو متکئ علي قوس عربية و في الخيمة علي و فاطمة والحسن والحسين فقال : معشر المسلمين أنا سلم لمن سالم أهل الخيمة حرب لمن حاربهم ولي لمن والاهم لا يحبهم إلا سعيد الجد طيب المولد ولا يبغضهم إلا شقي الجد ردئ الولادة.
’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خیمہ میں قیام فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عربی کمان پر ٹیک لگائے ہوئے تھے اور خیمہ میں علی، فاطمہ، حسن اور حسین بھی موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے مسلمانوں کی جماعت جو اہل خیمہ سے صلح کرے گا میری بھی اس سے صلح ہو گی جو ان سے لڑے گا میری بھی اس سے لڑائی ہو گی۔ جو ان کو دوست رکھے گا میری بھی اس سے دوستی ہو گی، ان سے صرف خوش نصیب اور برکت والا ہی دوستی رکھتا ہے اور ان سے صرف بدنصیب اور بدبخت ہی بغض رکھتا ہے۔‘‘
محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشره، 3 : 154