ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)
 

صندوق مر قد مطہر
اس میں کوئی شک نہیں کہ مرقد مطہر پر درمیان میں گنبدیں ہیں شاید یہاں صندوق رکھنے کا رواج بہت پرانا ہے اس کا ذکر ابن بطوطہ نے ٧٢٧ھ / ١٣٢٧ ء میں کیا ہے ''گنبد کے درمیان ایک چوکور بینچ ہے جوکہ لکڑی سے ڈھانپا ہوا ہے ۔ اس کے اوپر منقوش طلائی سلیٹ مضبوطی سے لگی ہوئی ہے پھر اسے چاندی کی میخوں سے اور زیادہ مضبوطی سے رکھی ہوئی ہے اور اس کے اوپر زیادہ لکڑی ہونے کی وجہ سے کوئی چیز زیادہ ظاہر نہیں ہوتی اور اس کی بلندی ایک قد سے کم ہے ''اور یہ بدیہی بات ہے کہ یہ مذکورہ بینچ اس تاریخ سے قبل مرقد مطہر پر نصب تھا اور یہ بھی واضح ہے کہ اس سے پہلے بھی ابن بطوطہ نے اس طرح کی بینچ مختلف عمارتوں میں دیکھی تھیں۔
اور یہ بھی واضح ہے کہ جس بنچ کوابن بطوطہ نے بیان کیا تھا وہ ٧٥٥ھ /١٣٥٤ ء کو روضہ مبارک کو آگ لگنے کی وجہ سے تبدیل ہوا تھا اور پھر حسن الجلائری نے اسے بھی روضہ مبارک کے ساتھ دوبارہ تعمیر نوکی لیکن یہ نہیں معلوم کہ اگر اس صندوق کی تجدید ٧٥٥ھ /١٣٥٤ ء کے درمیان ہوئی ہے کیونکہ جو صندوق ٧٥٧ھ/ ١٤٥٣ ء میں مرقد مطہر پر تھا اسے مشعشع نے نجف اشرف میں داخل ہوتے وقت توڑا تھا توضروری ہے کہ اس کے یہاں سے نکلنے کے اور خطرہ ٹلنے کے بعد اس صندوق کی دوبارہ تعمیرنوہوئی ہو لیکن یہ نہیں معلوم کہ کس نے اس عمل کو انجام دیا اور اس دوران مرقد مطہر پر جالی نصب کرنے والا بھی معلوم نہیں ۔ اس حوالے سے پہلے صندوق ہدیہ کرنے والے کے بارے میں ہمیں ١٩١٤ ء میں پتہ چلتا ہے جیسا کہ ڈاکٹر علی الوردی نے اپنی کتاب''تاریخ کے عراق کے لمحات اجتماعیہ''میں محمد جواد المغنیہ کی کتاب ''تاریخ میں شیعوں کی حکومت ''سے نقل کیا ہے شاہ اسماعیل نے اس سال بغداد کو فتح کرنے کے بعد عتبات مقدسہ کی زیارت کا رخ کیا تو انہوں نے نجف ، کربلا، کاظمیہ، سامراء میں آئمہ اطہار کے روضہائے مبارک پر پرانے صندوقوں کو تبدیل کرواکے نئے صندوق رکھنے کا حکم دیا پھر ایک اور صندوق کی طرف ١١٢٦ھ / ١٧١٤ ء میں موجود ہونے کا اشارہ ملتا ہے جیسا کہ شیخ محمد حسین حرزالدین نے شیخ محمد جواد عواد کے حالات زندگی کے ذکر میں بیان کیا ہے کہ'' ان کا ایک مجموعہ مخطوطہ کتب کا ہے اور ان مجموعوں میں ان کا ایک قصیدہ بھی ہے جن میں انہوںنے وزیر حسن باشاہ کی مدح کی ہے جنہوں نے مرقد مطہر امیر المومنین پر ایک قیمتی صندوق ١١٢٦ھ / ١٧١٤ ء میں بنواکر رکھوایا تھا۔
لیکن اس میں انہوںنے کوئی قدیم صندوق کا ذکر نہیں کیا ہے اور نہ ہی کوئی جدید صندوق کا تو ہمارا خیال ہے جو بینچ ابن بطوطہ نے وہاں دیکھا ہے اس سے پہلے اور بعد میں مرقد مطہر پر مختلف صندوق رکھے گئے ہیں۔
جیسا کہ شیخ محمد حسین اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ ١٢٠٢ھ /١٧٨٨ء میں محمد جعفر بن محمد صادق نامی ایک شخص نے روضہ مبارک پر ایک صندوق رکھا تھا جس پر یہ لکھا تھا کہ ''اس صندوق کو رکھنے کا شرف توفیق اللہ تعالیٰ اور اس کے ولی و اولیاء کیلئے نہایت ادب و خلوص کے ساتھ سگِ عتبہ علی امیر المومنین علی بن ابی طالب محمد جعفر بن محمد صادق ادام اللہ تا ئیدہ کو ١٢٠٢ھ بمطابق ١٧٨٨ء میں ہوا ہے اور آخر میں ان کے دستخط کے بعد عمل بندہ خاکسار محمد حسین نجار شیرازی ہے اور اسے محمد بن علاوء الدین محمد الحسینی سال ١١٩٨ھ / ١٨٨٤ء نے کتابت کیا ہے۔ ''مذکورہ صندوق کو صندوقِ خاتَم کہا جاتا ہے اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کیونکہ اس کی نوعِ صناعت کو ''فن خاتمی ''کہا جاتا ہے اور اس عظیم فن کے حوالے سے ایران کے شہر اصفہان مشہور ہے۔ لیکن جوصندوق وہاں ہے وہ ایک نایاب لکڑی جو ہندوستان میں پائی جاتی ہے اس سے بنا ہوا ہے اور اس کے اوپر گوہر، عاج، ابنوس، صندل کے نقوش بنے ہوئے ہیں اور مختلف طرز میں عربی عبارت کندہ کی ہوئی ہے اس کے بالائی حصہ جنوبی جہت میں سورة الدھر کی کتابت سفید عاج سے کی ہوئی ہے پھر طلاء اور نقرہ کی پالش کی ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ سورة القدر اور سورة الاعلیٰ کی کتابت بھی اسی طرح کی ہوئی ہے اور دو انگلیوں کے فاصلے پر یہ آیت لکھی ہوئی ہے۔ (اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُونَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللہَ یَدُ اللہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ)اور اس صندوق کی مشرقی سمت میں بالائی جانب سورة النّباء ،نیچے کی جانب سورة العادیات جبکہ جنوبی سمت میں سورة الملک اور بالائے سر کی جانب خطبہ حجة الوداع امام صادق کی روایت سے لکھا ہوا ہے اس کے بعد تسلسل کے ساتھ ان کے فرزندان معصومین کی شان میں احادیث نبویۖ لکھی ہوئی ہیں۔ اسکے علاوہ اسی جہت میں حضور اکرم ۖکا یہ قول بھی ہے کہ'' یَا عَلِیُ اَنْتَ اَخِیْ وَاَنَا اَخُوْکَ''یہ صندوق علی مراد خان کے حکم سے بنا تھا۔
جیسا کہ شیخ محمد حسین نے ایک فارسی کتاب سے نقل کیا ہے لیکن علی مراد خان یہ کام مکمل ہونے سے قبل مر گیا پھر ان کے بیٹے جعفر خان نے یہ کام شروع کیا لیکن وہ بھی یہ کام مکمل نہیں کرسکا اور مرگیا تو ان کے بیٹے لطف علی خان بن جعفر خان نے یہ کام مکمل کیا۔ اور اس کی ابتداء ١١٩٨ھ /١٧٨٤ ء میں ایک نجار کے ہاتھوں ہوا تھا جس کا نام اسی صندوق پر مذکورہ ہے جبکہ اس پر کتابت کرنے والے خطّاط کا نام بھی مذکور ہے اس کے بعد شیخ محمد حسین بیان کرتے ہیں کہ '' اس صندوق کو میں نے ١٣٦١ھ /١٩٤٢ ء میں دیکھا تھا جب روضہ مبارک سے فولادی پرانی جالی اور چاندی کی جالی اکھاڑدی گئی تھی اور اس کی جگہ نئی جالی لگی اسے ہند کے بوہری امام نے وقف کیا تھا اس کام کو صندوق سے گردو غبار ہٹاتے ہوئے جاری رکھا۔ ''
شیخ جعفر محبوبہ نے بھی اپنی کتاب ''نجف کے ماضی اور حال ''اس حوالے سے گفتگو کی ہے کہ
''میں اس صندوق کو ١٣٦١ھ /١٩٤٢ ء میں اس وقت دیکھ چکا تھا جب روضہ مبارک کی چاندی کی جالی کی تبدیلی ہورہی تھی۔ ''
لیکن انہوں نے سابقہ صندوق اور اس صندوق کے درمیان خلط کیا ہے اور یہ شاید یہ خلط مطلب ان کی کتاب سے موسوعہ النّجف میں نقل ہوا ہو۔ ڈاکٹر سعاد ماہر نے بھی اپنی کتاب ''مشہد امام علی '' میں بیان کیا ہے اس کے علاوہ روضہ مبارک سے متعلق تمام کتابوں میں یہ بحث آئی ہے۔
ڈاکٹر حسن حکیم نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ استاذ علی خاقان نے اپنی کتاب ''شعراء الغری ''میں یوں بیان کیا ہے:
''میں نے اس خاتم(صندوق)کو چاندی کی جالی کی تبدیلی کے موقع پر دیکھا اس دوران میں قریب جاکر اسے چھو بھی چکا ہوں اگر میں یوں کہوںتو مبالغہ نہیں ہوگا۔ اس صندوق کا حجم لمبائی میں ٦فٹ ٣سینٹی میٹر، اور چوڑائی ١٠فٹ٣ سینٹی میٹر ہے اور عرض ٣میٹر٣ سینٹی ہے۔ جبکہ اس کی بلندی ١میٹر٨٣ سینٹی میٹر ہے ۔''
ڈاکٹر حسن وغیرہ بیان کرتے ہیں کہ اس صندوق کے اوپر ١٣٦١ھ / ١٩٤٢ ء میں شیشے کے پلیٹ چڑھا کر اس کی خوبصورتی کو دوبالا کردیا گیا صندوق اور اس کی تاریخ کے بارے میں بہت سارے شعراء کے قصائد اور اشعار ہیں، اللہ نے مجھے یہ توفیق دی کہ میں مرقد میں جالی کے دروازے سے داخل ہوکر سر امام کے نزدیک نماز پڑھی ، اُس دوران میں نے وہاں ایک عجیب امتزاج پایا کہ اس جگہ کی قد سیت اور فنی خوبصورتی کو کسی بھی آنکھ نے اس کائنات میں نہیں دیکھا ہو گا۔ یہ واضح ہے کہ مرقد مطہر کا صندوق قدیم زمانے سے مرور ایام کے ساتھ مختلف غلاف اس کے اوپر چڑھتے گئے ان میں سے بعض روضہ مبارک کے اسٹور میں موجود ہیں۔ لیکن شیخ محمد حسین نے ایک ایسے قدیم غلاف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جس کی انہوں نے یوں تعبیر کی کہ اس کپڑے پر سونے اورچاندی کے تار سے موتیوں سے پرویا ہوا کپڑا تھا، جو کہ عہد بویہی کی طرف پلٹتا ہے اور وہ مزید آگے کہتا ہے کہ شیخ علی شرقی نے اس غلاف کو احمد شاہ قاچاری کی زیارت کے دوران عراق پر برطانیہ کے قبضے کے ایّام میں دیکھا تھا اور کہا جاتا تھا کہ یہ عضد الدّولہ البویہی کے تحائف میں سے تھا، جسے انہوں نے روضہ مبارک کیلئے وقف کیا تھا ڈاکٹر سُعاد ماہر کے مطابق یہ غلاف روضہ مبارک کے مہنگے ترین تحائف میں شامل ہے۔
شیخ محمد حسین نے قلقشندی کی کتاب ''صبح الاعشی ''سے نقل کیا ہے کہ سب سے پہلے حجر النبویۖکو حسین بن ابی الہیجا نے غلاف ہدیہ کیا تھا اور موصوف آخری خلفاء فاطمین کے وزیر صالح بن زریک کے داماد تھے، اور یہ غلاف سفید دھاگے سے بُنا ہوا ہے۔ جس کے اوپر مکمل سورہ یٰسین کی کتابت ہوئی ہے۔
عباسی خلیفہ مستضی باللہ نے بنفشی ابوریشم کا ایک پردہ جس کے اوپر خوبصورت ڈیزائن بنے ہوئے تھے جس کے اندر مستضی باللہ کا نام لکھا ہوا ہے۔ روضہ رسول ۖکے لئے بھیجا گیا۔ تو پرانا غلاف وہاں سے اُتار کر مشہد امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کے لئے بھیجا گیا اور مستضی باللہ کا پردہ روضہ رسول ۖپر چڑایا گیا۔

روضہ مبارک کے تجوری کی حالت اور اس کی تا ریخ
شہر نجف اشرف کے بعض صالح افراد نے مختلف مناسبات میں روضہ مقدس کیلئے ایک اسٹور کی ضرورت کا شدت سے اظہار کیا تاکہ نوادرات و تبرکات کی حفاظت کی جائے۔ روضہ مبارک کے نوادرات کے ضائع ہونے کے مختلف اسباب ہیں مثلاً
مدحت پاشاہ کے زمانے میں ان میں سے بعض نوادرات یہ کہہ کر فروخت کئے گئے کہ ایران اور نجف اشرف کے درمیان ریلوے لائن بچھائی جائے گی تاکہ زائرین امام کے لئے سہولت حاصل ہو۔
اس ارث کی حفاظت کرنے والوں کی ایک رائے یہ تھی کہ بعض ہاتھوں کو اس کی اہمیت کا اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہونے کا خطرہ رہا اور ضائع ہوتے رہے۔
ان تمام نوادرات کی جدید طریقوں سے حفاظت نہیں کی گئی شاید اسی لئے آج ان تبرکات و نوادرات کی تعداد بہت کم ہے کیونکہ مختلف کیڑے مکوڑے آفات، رطوبت، شدید خشکی کی وجہ سے کچھ خراب ہوئے جبکہ بعض دوسرے زنگ لگنے کی وجہ سے، گلنے سڑنے کی وجہ سے ضائع ہوئے پھر ان امانات کی طرف کچھ ایسے ہاتھ بھی بڑھے جنہوں نے اس امانت میں خیانت کی اور ان امانتوں کو دوسروں کے ہاتھ تحفتاً یا قیمتاً دے دیا ۔ اس کی بہترین مثال ہمارے پاس کتب خانہ امیر المومنین کی حالت ہے جس میں بعض محققین نے دنیا کی قیمتی کتب خانوں سے کتابیں لاکر جمع کی تھیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس کتب خانہ کیلئے سب سے پہلے عضد الدّولہ نے کتابیں وقف کی تھیں اور سیّد ابن طاووس نے بھی۔ اب اس کتب خانہ کے ١٩٧٠ ء میں اصلاح کے بعد ٧٥٢کتب مخطوط میں سے ١٥٢کتابیں بچی ہیں۔ اسی طرح کتب خانہ کے بہت سارے نوادرات ضائع ہوئے۔
اس حوالے سے محمد ہادی امینی نے موسوعہ نجف اشرف میں (خزانہ حرم شریف میں موجود تحائف)کے موضوع پر ایک مقالہ لکھا تھا جو شائع ہوا۔ میں اس کی بعض عبارات کا یہاں ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں وہ لکھتے ہیں کہ ''بعض اہل نجف بیان کرتے ہیں کہ کتب خانہ علوی کے شلف میں ہزاروں کتابیں تھیں جن میں قرآن کریم کے نسخے اور کتب ادعیہ و اوراد وغیرہ شامل تھیں لیکن بعض ناپاک ہاتھوں نے ان نفیس کتابوں کو ضائع کیا۔ آج کل تقریباً ٤٠٠نسخوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور یہ بعد میں پتہ چلا کہ ان میں سے بعض نسخے بھی لوگوں کے گھروں میں چلے گئے تھے اور کچھ لوگوں کے پاس آج تک ان کے کتب خانوں میں موجود ہیں اور بہت سارے نسخے دوبارہ پرانے اوراق خریدنے والوں کے پاس سے نکل آئے جو انہیں کوڑیوں کے دام فروخت کئے گئے تھے اور نہیں معلوم کہ ان تک یہ کتابیں کہاں سے اور کیسے پہنچیں؟''
وہ مزید بیان کرتے ہیں کہ جو اس حوالے سے مزید جاننا چاہتا ہے وہ اس مقالہ کا ملاحظہ کرے۔ اس حوالے سے جہاں تک میری معلومات ہیں کہ وقف شدہ اشیاء کو شریعت کے بیان کردہ اسباب کے علاوہ فروخت کرنا جائز نہیں ہے لیکن نہیں معلوم اس کتب خانہ سے کتابیں پہلے عاریةً پھر انہیں بیچا جانا کیسے جائز ہوا؟
اس موقع پر علامہ امینی نے بھی بعض حکایات خزانہ امیر المومنین کے بعض تحائف کے بارے میں بیان کی ہیں جن میں سے بعض تحائف قصر عبدالالٰہ میں، تو بعض قصر نوری سعید پہنچے ہیں یہاں تک بعض تو مختلف مناسبات میں لوگوں کو بطور ہدیہ پیش کرتے ہیں جو کہ نہ شرعاً اور نہ ہی قانوناً جائز ہے شاید اس سے بھی زیادہ لوگوں کی نظروں سے غائب ہو۔
مرحوم جعفر الخلیلی موسوعہ عتبات مقدسہ کے نجف سے مخصوص حصے کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ایک فانوس جو انتہائی قیمتی پتھروں سے سجایا ہوا ہے اور روضہ مبارک کے اندر ایک طلائی زنجیر کے ذریعے بالکل وسط میں لٹکایا ہوا ہے پچھلی صدی میں ایک چور کے ہتھے چڑھنے والا ہی تھا کہ خداوند عالم کی عنایت شامل حال نہ ہوتی تو خزانہ روضہ مبارک کا ایک اہم نوادر ضائع ہوجاتا۔ اس طرح کے قیمتی فانوس کم از کم میں نے بہت ہی کم دیکھے ہیں۔
ڈاکٹر حسن کہتے ہیں کہ ''خزانہ روضہ مبارک ابھی تک اسی لئے پوشیدہ ہے محققین کے لئے وہاں پہنچنا مشکل ہے کیونکہ ان میں سے بعض تو زیر زمین صندوقوں میں رکھے ہوئے ہیں اور بعض دوسرے ایسی الماریوں میں رکھے ہوئے ہیں جہاں پہنچنا مشکل ہے اس حوالے سے صرف اللہ جانتا ہے کہ وہ کس حالت میں ہیں؟
اور ہم باربار سنتے رہتے تھے کہ روضہ مبارک پر مامور خدام نے فلاں بادشاہ یا فلاں رئیس کو کوئی تلوار یا کوئی قیمتی مصحف ہدیہ کیا ہے لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ موصوف کے لئے یہ تصرف کیسے جائز ہوا؟ اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ اس تمام خزانے کو کسی ایک میوزیم میں نہ رکھنے کا نتیجہ ہے اور تمام وثیقہ جات وغیرہ کو رسمی طور پر تدوین نہ رکھنے کا لازمہ ہے کہ خدّام وغیرہ کو بھی ہر طرح کا تصرف حاصل ہے۔''
استاد محمد سعید الطریحی نے ١٩٩٠ ء میں اس مضمون کو دوبارہ شائع کروایا تھا جس کو ایک مصری ماہر محمد الماحی نے اس وقت تیار کریاتھا جب وہ ١٩٣٧ ء میں حکومت عراق کی دعوت پر عراق آئے تھے اور یہ یہاں کے میگزین کے پانچویں شمارے میں شائع ہوا تھا جو کہ ''عتبات مقدسہ کے تحائف کی صورتحال ''کے بارے میں تھا جس میں موصوف نے ان تحائف کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک اور کسی اچھے ادارے کا نہ ہونے کے بارے میں بیان کیا تھا۔ یہاں پر میں اپنا یہ فرض سمجھتا ہوں کہ ان خزانوں پر مامور افراد کی توجہ اس طرف مبذول کراوں کہ وہ ان خزانوں کی جتنا ممکن ہوسکے جلد از جلد حفاظت کرے اور یہاں میں موصوف کے کہے ہوئے ایک جملہ کا ذکر کروں جو انہوں نے اس خزانے کے ایک قالین کے بارے میں بتایا ہے جس کا سائز نو مربع میٹر ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ''ان آثار کو اہمیت نہ دینے اور ان تحائف کے عظیم قیمتوں کے بارے میں اندازہ نہ کرنے کو دیکھ کر میں جس رنج و غم میں مبتلا ہوا جس کا میں اندازہ نہیں لگاسکتا ۔ اس کی مثال یہ ایک ہاتھ سے بُنا ہوا قالین ہے جو ریشم و اون سے بنا ہوا ہے جسے آج کل کے لوگ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں اور وہاں پر ایسے پردے بھی ہیں جن کو موتیوں سے سجا یا ہوا ہے اور دوسرے وہاں پر موجود کپڑے وغیرہ بھی ہیں جن کی قیمت کا اندازہ بادشاہ اور کروڑ پتی افراد بھی نہیں لگاسکتے اور یہ چیزیں ایک ایسے کمرے میں پڑی ہوئی ہیں جہاں پر سورج کی روشنی بالکل بھی نہیں پڑتی، اس کمرے کے لئے صرف ایک چھوٹی سی کھڑکی ہے جہاں سے ہوا بھی داخل نہیں ہوتی اور یہ قیمتی کپڑے جمع کرکے ایک مرطوب جگہ میں رکھے ہوئے ہیں جو کیڑے مکوڑے لگنے کی وجہ سے ضائع ہورہے ہیں ۔ میں نے خود ہاتھ لگاکر دیکھا ان خوبصورت ریشمی قالینوں کی انتہائی خراب حالت تھی اور یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ یہ بے بہا چیزیں یوں ضائع ہورہی ہیں۔ اس مضمون کو آج سے ٧٠ سال پہلے محمد الماحی نے عراقی حکومت کو پیش کیا تھا، اس مضمون پر صحیح طریقے سے عمل درآمد نہیں ہوا اور وہاں موجود چیزوں کو صحیح طریقے سے رجسٹرڈ نہیں کیا گیا اور عتبات مقدسہ کے نوادرات کی مزید رجسٹریشن نہیں ہوئی اور ان کی صحیح طریقے Classificationنہیں ہوئی اور اس حوالے سے یہ ایک رنج اور تعجب کا مقام ہے۔ جسے میں نے پڑھا اور وہ لکھتے ہیں ''کہ حرم امیر المومنین ، حرم حسین اور حرم عباس کے جو کمیٹی بنی ہوئی ہے۔ ان میں سے مدیر اوقاف کربلا نے ان نوادرات کی رجسٹریشن کی ذمہ داری لی تھی، اور انہوں نے 15-6-1936کو کربلا اور نجف میں موجود عتبات مقدسہ سے مدیر کو لکھا تھا کہ ان میں سے ہر ایک کے نوادرات کی چار چار کاپیاں بنائی جائیں۔ جن پر ایک دینار خرچ ہوگا اور اس نے گزارش کی کہ مذکورہ رقوم خرچ کرنے کی اسے اجازت دی جائے اور اس تاریخ کو ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود ان نوادرات کی کاپیاں مدیر اوقاف کربلا کی طرف سے موصول نہیں ہوئی ہیں۔''
ان تحائف کی حالت زار کو بیان کرنے کے لئے میں آپ کے سامنے روضہ مقدس کے ایک تحفے کی صورت حال نئے انداز میں کروں گا جس سے باقی تحائف و نوادرات کی حالت زار کا اندازہ بخوبی ہوگا۔ وہ ایک گلدان یا عود سوز ہے، جو الماس ، زبرجد یاقوت اور موتیوں سے خوبصورت انداز میں سجا ہوا ہے۔ جسے نادرشاہ نے ہدیہ کیا تھا اور ان مقدس پتھروں کی قیمت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں اور آپ یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ روضہ مبارک کے جالی نصب کرتے وقت کچھ تحائف کے حالت زار کا انکشاف ہوا۔
ان میں سے بعض کی قیمت کا تعین کوئی نہیں کرسکا ۔ اور یہ چیزیں اس وقت تک محفوظ نہیں رہتی جب تک انہیں شیشے کے صندوقوں میں اس طریقے سے نہ رکھا جائے کہ اُن پر ہوا لگتی رہے۔ میں یہاں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ عجیب بات ہے کہ اس شہر کے اندر ایسے معتبر افراد بھی ہیں اس کے باوجود یہاں کی ثقافتی ورثے کی کما حقہ حفاظت نہیں ہوتی جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا روضہ مبارک کے خزانے کی حفاظت کے لئے کوئی بھی عراقی ماہر آثار اسلامیہ نے زحمت نہیںکہ اگر ایک مصری محققہ ڈاکٹر سعاد ماہر محمد اپنی وسیع کوشش کو بروئے کار نہ لاتی تو خزانہ روضہ مبارک کے اکثر نوادرات کے بارے میں کسی کو بھی معلوم نہیں ہوتا بلکہ اگر موسوعہ نجف اشرف ان کے بارے میں معلومات جمع نہیں کرتا اور اُسے جعفر دجیلی شائع نہیں کرتا تو بہت سارے لوگوں کے لئے ڈاکٹر سعاد ماہر کی کتاب ''مشہد امام علی ''کے بارے میں بھی پتہ نہیں چلتا جسے دار المعارف مصر نے ١٩٦٩ ء میں شائع کیا تھا اور اس کتاب کی دو جلدیں دوم و سوم مذکورہ موسوعہ میں شائع ہوئی ہیں اسی طرح اس میں بہت ساری بحوث و معلومات شہر نجف کی تاریخ، وہاں کے معروف افراد اور اس کے ساتھ روضہ مبارک کے بارے میں بہت ساری تعریف و ستائش ہے ۔ کیونکہ اس حصول کے لئے جو زحمتیں اُٹھائی ہیں، یقینا اس کار خیر کی جزاء اُسے ملے گی اور میرا خیال ہے کہ انہوں نے اپنی اس کتاب کے ذریعے دُنیا و آخرت میں ایک سے زیادہ مرتبہ عزت حاصل کی کیونکہ انہوںنے خزانہ روضہ مبارک اور اس کی تاریخ کے بارے میں کوئی معمولی چیزیں ہمیں نہیں دیں۔ اس کام کی حصول کے لئے اُس نے کافی صعوبتیں برداشت کیں کہ خود خزانے میں داخل ہوئیں اور نوادرات کو دیکھا علامہ امینی اس خاتون کے بارے میں لکھتے ہیں کہ''اس خاتون نے گودام میں موجود تحائف کو دیکھنے کیلئے کافی صعوبتیں برداشت کیں کیونکہ وہ صرف رات کو ہی ان نوادرات کو دیکھتی تھی اور ان کی تصویر کھینچواتی تھی اور یہ عمل رات دس بجے سے صبح چار بجے تک ہوتا تھا ''اور وہاں پر ایسے بھی تحائف ہیں جن کے بارے میں موصوفہ ہمیں اطلاع فراہم نہیں کرتی جن میں سے بعض کی قیمت کاکوئی تعین نہیں کرسکتا۔
اس بارے میں وہ کہتی ہے ''روضہ حیدریہ کے حرم کے جنوبی رواق میں موجود ایک الماری کے اندر ان نوادرات میں بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ جن کی تعداد ٢٠٢٠تحائف تھی ''موصوفہ نے ان میں سے بعض نوادرات کے بارے میںپڑھا جو خدّام کے پاس ایک رجسٹر میں محفوظ تھا کیونکہ یہ ہر ایک کے لئے نہیں کھولا جاتا جمہوری دور میں یہ صرف دو مرتبہ کھولا گیا تھا اور انہوں نے بعض نوادرات دوسرے گوداموں میں دیکھے۔
اس حوالے سے امینی نے اپنے سابقہ مضمون میں اشارہ کیا ہے کہ روضہ مبارک کے اندر کل چار گودام ہیں ان میں ایک جنوبی مینار میں ایک کمرے کے اندر زیر زمین ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ گودام دور جدید میں صرف دو مرتبہ کھلا ہے پہلی مرتبہ سلطان ناصرالدین شاہ قاچاری کے لئے اس وقت کھو لا گیا جب وہ ١٢٨٧ھ / ١٨٧٠ ء حرم مقدس کی زیارت کے لئے آئے تھے ان کے ساتھ قیمتی پتھروں اور آثار کے ماہرین بھی تھے جبکہ گودام میں ان کے ساتھ عالم دین سید علی بحر العلوم اور مرقد مقدس کے خازن تھے اور انہیں دکھانے کے بعد فوراً دوبارہ بند کروایا گیا ۔ اس کے اندر صرف معدنی تحائف نہیں ہیں بلکہ بعض اہم مخطوطات اور قیمتی کتابیں بھی ہیں۔ ڈاکٹر علی الوردی اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں شاہ قاچاری نے جب روضہ مقدس کی زیارت کی تو انہوں نے وزیر مدحت باشا کو بھی ساتھ چلنے کو کہا تاکہ وہ اسے مرقد مقدس میں موجود خزانے کے بارے میں بتادے۔ مدحت باشا نے اسے وہاں موجود صحیفے، قدیم مخطوطے نکال کر دکھائے جو ان کی حفاظت نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہو رہے تھے اور یہ زیر زمین تھے۔'' مجھے نہیں لگتا کہ مخطوطات کو کسی دوسری جگہ منتقل بھی کیا گیا ہو بلکہ شاید ابھی تک وہیں پر پڑی ہوئی ہو کیونکہ الملکی کے زمانے میں اسے دوبارہ نہ کھولنے کا طے ہوا تھا ۔ اگر کھولا جائے تو صرف شاہی اجازت سے ممکن تھا اور دوسری مرتبہ یہ ١٣٥٣ھ /١٩٣٥ ء میں کربلاء کے گورنر صالح جبر کے لئے کھو لا گیا ان کے ساتھ چند نمائندہ علماء اور ماہرین اور خازن حرم تھے محمد ہادی امینی نے اپنے سابقہ مضمون میں یہ لکھا ہے کہ'' اس واقع کے بعد ان تمام نوادرات کو انتہائی احتیاط کے سے محفوظ انداز میں روضہ مبارک کے اندر منتقل کیا گیا ہے جہاں پر ایک لوہے کے بڑے صندوق میں پہلے کپاس رکھا گیا پھر اس کے اوپر ان نفیس نوادرات کی پہلے ایک فہرست تیار کی گئی پھر ان کو ترتیب کے ساتھ رکھا گیا بعد ازاں وہاں موجود تمام افراد نے اس فہرست پر دستخط کی اور اس صندوق کو بند کرکے ایک اندھیرے کمرہ میں رکھا گیا ''۔ان میں ایک ماہر جو اس کمیٹی میں شامل تھے کہتے ہیں کہ ''اس خزانے میں موجودقیمتی نوادرات کے ایک ٹکڑے کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ اس سے نجف اور کربلا ء کے درمیان ایسی خوبصورت شاہراہ کی تعمیر ہوسکتی ہے جس کے فٹ پاتھوں پر ٹائلیں اور دونوں اطراف میں درخت لگائے جائیں اور راستے میں ان درختوں کی آبیاری کے لئے جگہ جگہ فوارے بنائے جائیں''۔ یاد رہے اس سڑک کے دونوں اطراف میں ٹائلوں کی بات کی ہے کیونکہ اس زمانے میں سڑکیں آج کی طرح نہیں تھیں اور اس کی سڑک کی لمبائی 80KMہے ۔ اس حوالے سے یوسف ہرمز نے ایک مقالہ ''نجف میں دودن ''کے عنوان سے لکھا ہے جسے استاد محمد سعید الطریحی نے ١٩٩٠ ء کے فصلنامہ میں دوبارہ شائع کیا ہے۔ مذکورہ گودام کو آخری دفعہ ١٩٨٨ ء میں کھو لا گیا جیسا کہ ڈاکٹر حسن حکیم نے اپنی سابق الذکر کتاب میں بیان کیا ہے کہ ''خزانہ حیدریہ بعض علماءے نجف اور روساء کے سامنے کھو لا گیا اور تمام موجود نوادرات کو ان کے فہرست سے مطابقت کی پھر دوبارہ اپنی جگہ رکھ دیئے گئے ''اور یہ بھی منقول ہے کہ نجف اور کربلاء کے خزانوں میں محفوظ طلاء و چاندی کا وزن سات ٹن ہے اور ان نفیس چیزوں میں زمرد سے بنا ہوا ایک چراغ ہے، خالص طلاء سے بنا ہوا فانوس ہے جو یا قوت سے مزین کیا ہوا ہے اس کے علاوہ موتی پرویا ہواایک قالین ہے۔ جب راقم نجف اشرف میں زیارت سے مشرف ہوا تو اپنے ایک دوست ڈاکٹر حمید رفیعی کو اس خزانے تک راقم کے ساتھ تعاون کرنے کی زحمت دی کیونکہ موصوف خدّام کے خاندان میں سے ہیں اور عراق پر اغیار کے قبضے کے بعد اور نجف میں جو واقعات رو نما ہوئے تھے موصوف بیان کر رہے تھے کہ اس وقت بھی روضہ مبارک میں کوئی چوری ڈکیٹی نہیں ہوئی کیونکہ اس دوران روضہ مبارک بالکل بند رہا۔ الحمدللہ!وہاں کوئی نقصان نہیں ہوا اور نہ ہی دوسرے خزانوں کو کوئی نقصان پہنچا۔
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب امیر المومنین کی برکت کی وجہ سے ہے اس کے ساتھ روضہ مبارک کے خداموں کی امانتداری بھی اس میں شامل ہے اگر ان کی امانتداری اور برکت امیر المومنین جس کی اکثر خدّام اعتراف کرتے ہیں شامل حال نہ ہوتی تو ان نفیس اشیاء میں سے کوئی چیز بھی باقی نہ رہتی اور ان خدّام محترمین کی نجابت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ عراق ایک ایسی پسادینے والی اقتصادی حالت سے گزرا لیکن پھر بھی ان میں سے کسی نے کوئی خیانت نہیں کی۔ لیکن اس کی وسعت کا اندازہ جو ہم نے وہاں دیکھا لگانا قدرے مشکل ہے اور وہاں آج کل کافی ترقی ہے اس کی وجہ ان دونوں شہروں نجف و کربلا ء میں مخفی حبّ و تقدیس ہے۔
مجھے میرے چچا زاد بھائی انجینئر صفاء الفرطوسی نے حال ہی میں روضہ مبارک کے نوادرات کی صفائی کے لئے جو کمیٹی بنی ہے ان میں سے نقل کرتے ہوئے کہا کہ روضہ کی توسیع نو کے دوران ایک جدید خزانہ کا انکشاف ہوا ہے جو آپ کے سامنے بعض ناگزیر حالات کو پیش کرتا ہے جسے دیکھ کر بہت رنج ہوتا ہے میں آپ کو یہاں اپنی اس عظیم سعادت کا ذکر نہیں کرنا چاہتا کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ امانات عتبہ علویہ مقدسہ پر مامور افراد ان خزانوں کی طرف متوجہ ہوئے ہیں لہٰذا انہوں نے اس کیلئے کچھ محققین (جو اپنے علم و تقویٰ کے لحاظ سے مشہور ہیں) پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو ان خزانوں کو علمی طریقے سے ترتیب دے اور میری درینہ خواہش تھی کہ یہ کام آثار قدیمہ کے ماہرین جو اسلامی ورثہ سے واقفیت رکھتے ہیں اور بعض دیگر اہل فن کے ساتھ مل کر اس کارخیر کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
25-11-2008کو راقم نے اس جدید خزانے کی زیارت کی جو حدودِ صحن کے شمال مغربی جانب واقع ہے وہاں پر میں نے دیکھا کہ ہاتھ اور مشین سے بُنے ہوئے قالینوں کی جدید طریقے سے حفاظت کی گئی ہے۔لیکن جو سب سے زیادہ قیمتی قالین ہے وہ خزانے کے اندر بند ہیں اور یہ تمام امانتیں عتبہ علویہ مقدسہ کے امانتدار کی موجودگی کے بغیر کھولنا ناممکن ہے۔
جس گودام کو ابن بطوطہ نے ٧٦٢ھ / ١٣٢٦ ء میں دیکھا اسکے بارے میں وہ یوں لکھتا ہے کہ ''یہ ایک بڑا گودام تھا جس کے اندر اتنے زیادہ اموال تھے جنہیں سنبھالا نہیں جاتا تھا ''ہم اس کی تاریخ تو نہیں بتا سکتے البتہ لگتا ہے یہ شیخ طوسی کے نجف اشرف میں داخل ہونے سے پہلے کے زمانے کا ہے کیونکہ اس زمانے میں حرم کی خدمت کیلئے جو متولی تھے وہ سیّد ابن طاووس کے مطابق شیخ طوسی کے داماد ابا عبد اللہ بن شہریار متوفی ٥٠١ھ / ١١٠٨ ء تھے اور یہ اپنے زمانے کی جلیل القدر اور پرہیز گار عالم دین تھے ۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ عضد الدّولہ البویہی کے زمانے سے قبل کا ہے لیکن اس خزانے کو ایک سے زیادہ مرتبہ نقصان پہنچا ایک دفعہ ٥٢٩ھ / ١١٣٥ ء کو اسے نقصان پہنچا تھا۔ اس حوالے سے شیخ محمد حسین حرز الدین نے اپنی کتاب میں ''مناقب آل ابی طالب ''سے نقل کیا ہے کہ عباسی خلیفہ مترشد باللہ نے کربلا میں حرم حسینی سے اور نجف سے اموال یہ کہہ کر اٹھالئے کہ قبر کو اموال کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور لے جاکر فوج پر خرچ کیا اور اس سے ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ خود قتل ہوا ''یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ جب بھی کوئی مراقد اہل بیت کے ساتھ برا سلوک کیا ہے اس کا انجام آخرت سے پہلے اسی دنیا میں ہی خراب ہوا ہے آپ کو تاریخ نے متوکل و مشعشع وغیرہ کے قتل ہونے کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔
ان نوادرات کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ٥٧٢ھ / ١١٧٦ ء میں نجف اشرف کے ایک علمی شخصیت شیخ علی بن حمرہ ابن محمد بن احمد بن شہر یار نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی اس حوالے سے شیخ محمد حسین بھی بیان کرتے ہیں کہ یہ شخص نجف اشرف میں حرم علوی کے مشہور خازن تھے جنہوں نے احسن طریقے سے مشہد امیر المومنین کے خزانے کے ادارے کو چلایا وہ مزید یہ بھی کہتے ہیںکہ اس خزانے میں چالیس قندیلیں تھی جن کے اوپر سنان الخفا جی متوفی ٤٦٦ھ / ١٠٧٤ ء کا نام ہے۔
اور موصوف نے ابن کثیر کی کتاب ''البدایہ و النہایہ ''سے نقل کیا ہے کہ ماہ شعبان ٦٥٧ھ بمطابق١٢٥٩ ء میں بد ر الدین لو لو کا انتقال ہوا جس نے ٥٠سال موصل پر حکومت کی تھی اور موصوف مشہد علوی کے لئے سالانہ طلائی قندیل بھیجا کرتا تھا جس کی قیمت ایک ہزار دینا ر ہوتی تھی۔ نہیں معلوم کہ روضہ مبارک کو ٧٥٥ھ میں آگ لگنے کے وجہ سے کیا کیا چیزیں جل گئیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت ساری اونی کپڑے ، قالین وغیرہ اور اسی طرح اہم آثار خطیّہ جل کر راکھ بن گئے۔ ہاں!کچھ نفیس چیزیں اس آفات سے بچ بھی گئیں جیسا کہ اس زمانے میں پرانا کولر پانی ٹھنڈا کرنے کی مشین جو کہ عضد الدّولہ البویہی سے منسوب کیا جاتا ہے اور یہ آج تک محفوظ ہے اور روضہ مبارک کے مہنگے ترین تحائف میں شامل ہے محمد حسین ابن عنبہ الحسینی کی کتاب ''عمدة الطالب ''سے نقل کرتے ہیں کہ روضہ مبارک کے اندر ایک مصحف تھا جو کہ تین جلدوں پر مشتمل تھا اور امیر المومنین کے دست مبارک سے لکھا ہوا تھا۔وہ اس آگ کے ضمن میں آکر جل گیا وہ بیان کرتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ یہ بات مذکورہ مصحف کے آخری جلد تھی جس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ ''اس مصحف کو علی بن ابی طالب نے لکھا ہے ''اس حوالے سے محقق محمد بن القاسم الحسینی اور ان کے نانا جعفر محمد حسین بن حدید الاسدی بیان کرتے ہیں کہ ''یہ جو وہ آخری مصحف میں علی بن ابی طالب کا نام تھا اس میں لفظ علی کا ''یاء ''،''واو ''جیسا تھا جو کہ خود علی ابن ابی طالب خط کوفی میں لکھتے تھے راقم نے ایک مصحف بمقام ''مزار ''میں عبید اللہ بن علی کے مزار میں دیکھا تھا جو کہ ایک جلد میں تھا جس میں پورے قرآن مجید کی کتابت مکمل کرنے کے بعد لکھا ہوا تھا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم اس مصحف کو علی ابن ابی طالب نے لکھا ہے لیکن مصحف غروی (یعنی مذکورہ بالا )مصحف کے مطابق لفظ علی کا یاء واو سے مشابہت رکھتا تھا اس کے بعد مجھے پتہ چلا کہ عبید اللہ ابن علی کامزار کو آگ لگنے کی وجہ سے جل چکا ہے اس کے ساتھ وہ مصحف بھی جل چکا ہے ''۔اسی بات کی طرف اشارہ ان سے قبل سید جعفر بحر العلوم نے بھی اپنی کتاب میں کیا تھا ۔ اب ہم آپ کو شہر مزار کے رہنے میں سیاسی اتار چڑھاو کے حوالے سے یاقوت کی کتاب معجم البلدان سے نقل کرتے ہیں کہ مزار (ایک گاوں ہے یہاں پر ایک عظیم الشان عمارت ہے جس پر کثیر اموال خرچ کیا گیا ہے اور یہ عبد اللہ بن علی ابن ابی طالب کا مزار ہے اوریہاں رہنے والے سارے غالی شیعہ ہیں اور جانوروں کی طرح پست لوگ ہیں)اب یہاں موصوف کو مذکورہ قبر عبد اللہ سے منسوب کرنے میں اشتباہ ہوا ہے کیونکہ عبد اللہ امام حسین کے ساتھ کربلاء میں شہید ہوئے تھے جیسا کہ ابو الفرج نے اپنی کتاب ''مقاتل الطالبین'' میںلکھا ہے لیکن مذکورہ شخص ابولفرج کے مطابق امیر مختار اور مصعب بن زبیر کے درمیان ہونے والی جنگ میں شہید ہوا تھا اور یہ غیر معروف شخص ہے۔
شاید یہ بھی ہوسکتا ہے کہ روضہ مبارک میں موجود تحائف مثلاً تلواریں، قندیلیں، طلائی ، چاندی، پیتل کے اور معدن کے چیزیں اس لگنے والی آگ سے محفوظ رہی ہو بلکہ ہوسکتا ہے روضہ مبارک کے اس خزانے کو آگ ہی نہ چھوئی ہو کیونکہ ضروری ہے ان تمام اشیاء کوکسی محفوظ اور خاص کمرے میں رکھا گیا ہو۔
لیکن مذکورہ خزانہ اس وقت نہیں بچ سکا جب اسی سال ٨٥٧ھ / ١٤٥٣ ء میں علی بن محمد بن فلاح جن کا لقب مشعشی تھا نے لوٹ مار شروع کی کہا جاتا ہے اسی سال یکم ذی قعدہ کو حج کے ایام میں میر علی کیوان کو حجاج کا امیر بنا کر بغداد سے روانہ کیا یہ لوگ جب نجف اشرف میں داخل ہوئے تو انہوں نے اپنے سامان وہاں اتاردیا اتنے میں مشعشی نے ان پر حملہ کردیا اور ان کی قتل و غارت گری کردی اور ان میں سے صرف وہ لوگ بچ گئے جنہوں نے حرم علوی میں پناہ لی تھی تو ان کو محاصرہ کرلیا اتنے میں وہ مشعشی کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوگئے تو مشعشی نے ان سے وہاں پر موجود قندیلیں' تلواریں طلب کیں۔ اس وقت خزانے میں سات سو سال پرانی تلواریں تھیں کیونکہ صحابہ کرام کی تلواریں اور اسی طرح سلاطین کی تلواریں یہاں پر جمع ہوتی تھیں ۔ ہوتا یہ تھا کہ کوئی بھی بادشاہ یا خلیفہ عراق میںمرجاتا تھا تو اس کی تلوار اس خزانے کیلئے بھیجی جاتی تھی اسی طرح ایک سو پچاس تلواریں یہاں جمع ہوئی تھیں اور اسی طرح بارہ قندیلیں تھی جن میں چھ سونے کی اور چھ چاندی کی تھی۔
لیکن اس ظالم نے ماہ ذی الحجہ میں مشہد مقدس نجف و کربلاء میں دوبارہ حملہ کیا اور لوٹ مار کی ہوا یہ کہ وہ نجف میں داخل ہوئے اور روضہ مبارک کے دروازے کھول کر گھوڑے سمیت حرم مقدس میں داخل ہوئے اور صندوقِ روضہ کو توڑا اور جلانے کا حکم دیا اور باقی چیزیں مثلاً قندیلیں ، تلواریں وغیرہ اٹھایا اور لوگوں کو برے طریقے سے ان کے گھروں میں قتل عام کیا۔ لیکن ا س ظالم کو بعد میں اپنے کئے کی سزا مل گئی ہوا یہ کہ ٧٦١ھ / ١٤٥٦ ء یہ برے طریقہ سے قتل ہوا اور اس کا سر کاٹا گیا۔ ا س کی کھال اتار دی گئی اور اس کی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے بغداد بھیجا گیا شیخ محمد حسین کے مطابق بعد میں اس کے والد محمد بن فلاح نے وہ تمام قندیلیں اور دیگر چیزیں جو اس کے بیٹے نے لوٹ لیا تھا دوبارہ نجف اشرف میں روضہ علی کو بھیج دیا۔
جیسا کہ ہم بیان کر چکے کہ ڈاکٹر حسن حکیم نے بیان کی ہے کہ مشعشی کے نجف اشرف پر حملے سے قبل صحابہ کرام' سلاطین میں سے جو بھی انتقال کرتاتھا ان کی تلواریں روضہ مبارک علی بن ابی طالب میں بھیجا جاتا تھا اس حوالے سے اور مشعشی کے حملے کے بارے میں مزید معلومات جاننے کے لئے کتاب ''النجف الاشرف مدینة العلم و العمران ''کی طرف رجوع کریں ٩١٤ھ بمطابق١٥٠٨ ء میں شاہ اسماعیل صفوی عراق پر قبضے کے بعد جب مرقد امیر المومنین کی زیارت کے لئے گئے تو روضہ مبارک کے لئے بہت سارے نوادرات فاخرہ ہدیہ کئے۔ اس کے علاوہ دریائے فرات سے نہر کھودنے کا حکم دیا اور زیر زمین کاریز کے بنوا کر اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا یا یہ نہر بعد میں شہزاد ہ سلیم کے عہد میں عثمانیوں نے جب نجف کا محاصرہ کیا اس وقت تک باقی تھا لیکن جو تحائف شاہ اسماعیل نے حرم علوی کے لئے پیش کی ان میں کوئی معروف نہیں ہے ١٠٣٣ھ / ١٦٢٤ ء کو شاہ عباس اوّل صفوی نے جب مرقد امیر المومنین کی زیارت کی شیخ محمد حسین کے مطابق موصوف نے روضہ مبارک کے لئے نفیس چیزیں پیش کی تھی۔ لیکن تاریخ ان نفیس اشیاء کی خصوصیت کی تفصیلات بیان نہیں کرتی ہاں مشہور فرسیسی سیاح Tarfirnihنے اپنے سفر نامے میں شاہ عباس کی پیش کی ہوئی چیزوں کی طرف اشارہ کیاہے ان میں ایک کمان بھی تھا جو کہ موسوعہ نجف اشرف میں بھی آیا ہے ۔ اس خزانے میں موجود نفیس تحائف کی معنوی و مادّی قیمتوں کا انداز جب شاہ عباس اوّل کو ہوا تو انہوں نے ملا عبد اللہ بن شہاب الدین حسین یزدی کو'' حرم مقدس کا متولّی قرار دیا لہٰذا انہیں حرم و بڑے خزانے جس کے اندر دفاع حرم و نجف اشرف کے لئے وقف شدہ اسلحے موجود تھے اور وہ خزانہ جس کے نفیس آثار قدیمہ میں رکھے ہوئے تھے کی چابیاں حوالے کی ''اور موصوف شاہ عباس صفوی کی وفات تک رہے اور شاہ جب انتقال کرگئے تو اسے حرم کے اندر ایک سرداب میں عضد الدّولہ جہاں دفن ہیں وہاں دفن کیا گیا ۔ شیخ محمد حسین نے بیان کیا ہے کہ نواب احمد خان متوفی١١٩٩ھ/١٧٨٥ ء نے ١١٩٨ھ بمطابق ١٧٨٤ ء مرقد کے گنبد اور صحن شریف کی ترمیم مکمل کی اور حرم مقدس کے لئے مقدس پتھروں جواہر سے سجی ہوئی قندیلیں پیش کیں۔
امینی روضہ مبارک کی کتب خانہ کی باقیات کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ''ان کتب خانہ کی باقیات میں چند مخطوطات تھی جسے فاضل شیخ محمد سماوی نجفی نے صحن شریف کے ایک دوسرے حجرے میں بڑی محنت سے منتقل کی اور ان کے اوراق بکھرے پڑے تھے تو انہوں نے جمع کرکے انہیں ترتیب دیا اور ان کی خواہش تھی کہ کوئی ان مخطوطات کی جلد کا انتظام کرے جب ہم اس کتب خانہ میں گئے تو ہم نے ان باقیات کا مشاہدہ کیا ان میں اہم صحیفے جانوروں کے کھال پر لکھا ہوا تھا اور ان میں بعض آئمہ معصومین٪سے منسوب تھا کہ خود آئمہ٪نے ان کی کتابت کی تھی اور بعض پتلی لکڑی پر لکھا ہوا تھا تو کوئی بعض کاغذ پر لکھا ہوا تھا ان میں بعض مکتوبات امام امیر المومنینـ سے منسوب ہے اس میں تاریخ کتابت ٤٠ھ / ٦٦٠ ء لکھا ہوا تھا جسے ہم نے اپنے اس سفر ١٣٥٢ھ / ١٩٣٣ ء میں مشاہدہ کیا۔
اس مخطوطات والے حجرے میں راقم 25-11-2008کو داخل ہوا یہ حجرہ امانات عتبہ علویہ کے نزدیک ہے اب اس میں سے ان مخطوطات کو کسی اور جگہ منتقل کیا گیا ہے تاکہ اس حجرہ کی ترمیم کی جائے۔ ہم نے اپنے غم و اندوہ کو یہاں بیان کرنے کی کوشش کی اس امید کے ساتھ کہ عنقریب انشا ء اللہ ہم اسے ختم کریں گے۔

روضہ مبارک کی تجوری
پچھلے چند دہائیوں کے دوران راقم کو دنیا کے بعض اہم تجوریوں کو دیکھنے کا موقع ملا ان میں سے ہم یہاں بطور مثال چند تجوریوں کا ذکر کریں گے ۔ جن میں سے شاہ ایران کی تجوری جو ایرانی مرکزی بنک میں محفوظ ہے، اسکندریہ میں مصری خاندان کی سونے کی تجوری کا ایک حصہ ایک خاص میوزیم میں رکھا ہوا ہے اس کے علاوہ باقی مصر میں ایک اور میوزیم میں بھی ہے۔ تاج فرانسیسی کے سونے کی تجوری لوفر میوزیم پیرس میں واقع ہے اس کے علاوہ عثمانی تحائف حصے توپ کاپی سرائے میوزیم استنبول میں موجود ہے اس کے علاوہ بہت سارے سونے، تاجوں، فنی کتابت اور آثار قدیمہ کے چیزیں ہالینڈ کے بعض میوزیم وغیرہ میں ہے لیکن روضہ امیر المومنین کے تجوری کے بارے میں معلومات حاصل ہونے کے بعد میں بالکل یقین و اطمینان سے کہہ سکتا ہوں یہاں قیمتی ، نادر پتھر ، مہنگے فنی تحائف جن کی صیاغت ہوئی اور جو بنی ہوئی کندہ ہے بغیر کسی مبالغے کے یہ باقی تمام عالمی تجوریوں سے مادّی ، معنوی ، تاریخی حوالے سے کئی گنا زیادہ ہے بلکہ اس سے بھی دوگناہوسکتا ہے جب یہ روضہ امام علی ابن ابی طالب کے لئے ہدیّہ ہو ۔ یہ تجوریاں آج تک سینکڑوں سال سے روضہ مبارک کے اندر موجود ہے سوائے چند گنے چنے لوگوں کے علاوہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے اس لئے کہ اس حوالے سے کوئی لٹریچر دقیق انداز سے نہیں لکھا گیا ۔ ان تحائف میں سے اکثر کا معروف رجسٹروں میں اندراج تک نہیں ہوا ہے۔یہ صرف امیر المومنینـکی برکت سے ہی محفوظ ہیں ان کے پوشیدہ ہونے میں بھی اس صورت کے علاوہ کوئی نہیں ہے بلکہ اگر یہ ایسے ہی چھوڑ کر رکھا جائے تو ہوسکتا ہے ضائع ہو اس لئے مناسب ہے کہ ان کو زیرقلم لایا جائے اور انہیں رجسٹر میں درج کیا جائے تا کہ دنیا کو اس پڑی آفات کا معلوم ہو جو اس شہر نجف کے ساتھ ہوا تھا اور ابھی تک میرے اندر سے ضمیر اکساتی رہتی ہے کہ اسے ایک دن کسی مناسب جگہ میں رکھ کر اس مناسب دینی ، معنوی، مادی قیمت کو دیکھوں۔ اور ہوسکتا ہے امانت عتبہ علویہ کی کمیٹی روضہ مبارک کے احاطے کے تعمیر و ترمیم کے ساتھ جلد ہی اس کے لئے بھی کچھ بندوبست کرنے میں کامیاب ہوجائے ۔
اگرچہ روضہ مقدس علوی کے ایک بہت ساری تجوریاں ہیں ان میں سے ہم نے ایک کی طرف اشارہ کیا جوکہ جنوبی مینارئہ اذان کے ساتھ والے حجرے میں رکھی ہوئی ہے اس میں انتہائی نادر تحائف اور ہدیے شامل ہیں جسے نادر شاہ اور ان کی زوجہ اور بیٹے وغیرہ نے روضہ مقدس کے لئے وقف کئے تھے اس کے علاوہ ایک اور نسبتاً اس سے چھوٹی تجوری بھی روضہ کے اندر موجود ہے۔
اس کی قیمت بھی پہلے والی سے کم نہیں ہے جس کے اندر نفیس چیزیں ہے ان میں سے بعض روضہ مبارک کے محرابی جالی کے پیچھے سے نظر آتی ہے جو کہ صندوق خاتم کے اوپر رکھی ہوئی ہے اور بعض ایک شیشے کے پنجرے میں جالی کے اندر موجود ہے اور صندوقِ مرقد مقدس کے جنوبی سمت میں ایک بڑا نادر جواہرات سے مرصع کیا ہوا ہے اور ایک نسبتاً چھوٹا مغربی سمت بڑے خوبصورت و زیبائش کے ساتھ لٹکایا ہو اہے ۔ محرابی جالی کے دروازے کے دائیں جانب ایک لوہے کی تجوری کے اوپر ایک بڑا خوبصورت گل دان رکھا ہوا ہے۔یہ تمام تحائف راقم نے ١٣ذی قعدہ ١٤٢٩ھ / ١٢ نومبر ٢٠٠٨ ء کو محرابی جالی کے اندر داخل ہوکر سر امام کے پاس نماز ادا کرتے وقت دیکھ چکا ہوں اور تصویر کشی کی کوشش کی تھی لیکن روشنی کا شعلہ زیادہ تیز ہونے کی وجہ سے کوئی مناسب تصویر نہیں بنی۔ شیخ محمد حسین نے اپنی کتاب میں بیان کیاہے کہ ''یہ تمام خالص سونے سے بنا ہوا ہے اور مقدس لعل جواہرات سے مرصع کی ہوئی ہے ان تحائف میں کچھ طلائی الماس و یاقوت سے سجی ہوئی قندیلیں ، زبر جد و الماس سے مرصّع کی تاجیں اور مختلف اقسام کے ہار، تمغے ، بڑے بڑے طلائی پھولیں، خط امام علی کے لکھے ہوئے صحیفے، موتیوں کا مجموعہ ، ایک ہیروں کا گُچھّہ جس کے اندر ٢٤شاخیں اور ہر شاخ میں ٩بڑے بڑے ہیرے، زمرد اور یا قوت ہیں۔ ''ڈاکٹر حسن حکیم نے بیان کیاہے کہ نادرشاہ نے یہ تاج ١١٥٦ھ / ١٧٤٣ء جنگ ہندوستان سے قبل روضہ مقدس کے لئے ہدیہ کر کے سر مبارک کے اوپر معلق کیا تھایہ بھی راقم نے اپنی زیارت کے دوران دیکھا۔
اس کے علاوہ شیخ محمد حسین اور ڈاکٹر حسن حکیم دو اور تجوریوں کا ذکر کرتے ہیں ان میں سے ایک مرقد مقدس کے سر کی جانب والی رواق میں واقع ہے جس کے اندر ایک نادر قالین موجود ہے جبکہ دوسری تجوری صحن حیدری میں قبلے کی جانب واقع ہے واضح رہے کہ یہ تجوری خاص طور سے حرم کی کتب خانہ کے باقیات کے حوالے سے ہے۔ جیسا کہ اس کی ترتیب کے بارے میں اشارہ بھی ہوچکا کہ شیخ محمد سماوی نے ان کتابوں کو صحن کے کمروں میں منتقل کرنے میں بہت کوشش کی یا یہ کہ یہ بعض اہم صحیفے یہاں رکھے ہوئے تھے اور بعد میں یہ صحیفے اور مخطوطات کے لئے کتب خانہ حرم کے نیچے ایک محفوظ خاص جگہ بنائی گئی ہے۔ مخطوطات قدیمہ کا یہ حجرہ امانات عتبہ علویہ کے جوار میں جنوب مشرق کی جانب واقع ہے۔
شیخ محمد حسین نے ایک اور تجوری کا بھی ذکر کیا ہے جو ایک بند رواق کے کمرے میں ہے اس حوالے سے وہ یوں بیان کرتے ہیں ''روضہ شریفہ میں بہت سارے بڑے بڑے طلائی قندیلیں حرم کے چاروں کونوں میں مضبوط زنجیروں سے ستونوں ساتھ کے لٹکائے ہوئے ہیں اور یہ اتنے بڑے ہیں کہ انسان کے لئے ان کو اٹھانا طلائی وزن کی وجہ سے مشکل ہے اور اسے ہم لمبے عرصے سے دیکھ رہے ہیں۔١٣٦٩ھ /١٩٥٠ ء میں ان طلائی قندیلوں، باقی قیمتی چیزیں، شمع دانیں، چراغات، اور ان میں ایک بارہ سنگ کا خوبصورت سینگ جس کے درخت کی بہت ساری شاخیں ہیں اور حدّ درجہ وزنی بھی ہے ایک اور تجوری جو بند رواق کے کمروں میں ہے ان کمروں کے دیواروں پر شیشے کی نقش و نگاری کے اخراجات محمد رضا شاہ ایران نے برداشت کی اور موصوف ایک بیرونی تجوری اور دوسری تجوریوں کا بھی ذکر کرتے ہیں جہاں بہت سارے تحائف رکھی ہوئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ'' ان ہدایا و تحائف میں ایک بڑا ایرانی قالین، اسلحے، طلائی قندیلیںجو داخل حرم میں معلق تھی۔'' یہ اشارہ گزر چکا کہ حرم کے قالین اس جدید تجوری میں منتقل ہوا جو حدود حرم کے شمال مغرب میں کتب خانہ کے نیچے بنائی گئی تھی موصوف اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ ''دوسری منزل کے رواق کے کمرے بند ہیں ان میں داخل ہونے کے راستے بھی معلوم نہیں یہاں تک کہ ١٣٥٩ھ / ١٩٤٠ ء میں داخلہ ممکن ہوا اس لئے کہ جب رواق و حرم مبارک کے چھتوں میں اصلاحات شروع ہوئی تو ان کمروں کے دروازوں کا پتہ چلا اس کے بعد کمیٹی نے ان کمروں کے لئے چھٹے چھوٹے کھڑکیاں نکالی ہے تاکہ صحن کے دونوں شمالی و جنوبی اطراف میں ہوا کا آناجانا ہو ۔ آج کل اس کمرے میں حرم مطہر کے بعض آثار مثلاً تلواریں، پرانی صدیوں میں سلاطین ، مسلم امراء کی طرف وقف کئے قدیم بنوقیں رکھی ہوئی ہیں اس سے قبل یہ اسلحے صحن شریف کے جنوبی جانب ایک کمرے میں کتب مخطوطہ کے خزانے کے ساتھ رکھی ہوئی تھی۔ پھر ١٣٧١ھ / ١٩٥٢ ء میں ان قدیم اسلحوں کو جنوبی رواق کے دوسری منزل میںمنتقل کی گئی اور ہم خاص طور سے اچھی طرح دیکھ چکے ہیں کہ متولّیان حرم شریف و خدّام ان کو اٹھا اٹھاکر جنوبی رواق کے دائیں جانب سے چڑھتے تھے۔''
کہا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض اسلحے تیروہوں صدی ہجری کے نصف میں ابن سعود کے عربوں کی غارت گری کی وجہ سے استعمال ہوا تھا ۔ اس وقت مرجع الدینی شیخ جعفر کاشف
الغطاء نے اسلحوں کو نکال کر مجاہدین کے لئے شہر سے باہر مشق کرنے کا حکم دیا تھا اس دوران شہر نجف کی آخری دیوار نہیں بنی تھی۔
اس موضوع کے بیان کے حوالے سے ١٢١٣ھ/١٧٩٨ ء کے واقعات کا بھی ذکر کیا ہے۔ شیخ محمد حسین نے روضہ مقدس کے اندر ایک قدیم دروازوں والی تجوری کا بھی ذکر کیا ہے حال ہی میں ترامیم کے دوران مغربی رواق کی ایک اور نئی تجوری کا انکشاف ہوا ہے لیکن اس کے اندر موجودات کا ابھی تک اعلان نہیں ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری چیزوں کا انکشاف ہوا ہے جو آج کل ترتیب و تصنیف کے مراحل میں ہے لیکن ان کی حالت آپ کو انکشاف سے پہلے کا حال بتاتی ہے۔ واضح رہے کہ بکتاشی تکیہ بھی آج کل بعض آثار قدیمہ رکھنے کے لئے استعمال ہورہا ہے سید عبد المطلب الخرسان کے مطابق مذکورہ مقام میں قالین، فانوسیں، قدیم نقرے کے دروازے رکھے ہوئے ہیں۔
شیخ علی الشرقی نے شاہ احمد قاچاری کے زیارت کے دوران مشاہدہ کئے ہوئے تحائف کے حوالے سے لکھاہے کہ ''میں نے ایک صندوق کے لئے ایک تاریخی چادر دیکھی اس پر طلائی و نقرائی دھاگے سے ہیرے اور موتیاں پروئی تھی کہا جاتا ہے یہ کپڑا آل بویہ کے زمانے کا ہے۔ روضہ کے اندر بعض طلائی قندیلیں ہیں، یہاں بہت سارے قدیم و جدید تحائف حرم کے لئے وقف شدہ ہیں اور بہت سارے نفیس نگینے، طلائی تلواریں، گھڑیاں، قیمتی پتھریں، چراغات، قرآن کریم کے مخطوط نسخے، اور میں نے وہاں ایک نفیس انتہائی خوبصورت لاثانی قالین کو دیکھا جو ابو ریشم اور اون سے بُنا ہوا تھا۔جس کی لمبائی تقریباً ٢میٹر جبکہ اس کا عرض ایک میٹر سے تھوڑا کم ہے۔ اور محرابی شکل میں مصلیٰ کے لئے رکھا ہوا ہے اور اس کے چاروں اطراف میں فریم میں آیت الکرسی کی کتابت بُنی ہوئی ہے اس کے بالائی جانب شیر کی تصویر بنی ہوئی ہے یہ علامت امیر المومنین سے منسوب کیا جاتا ہے جبکہ دونوں اطراف پر قرآن کریم کے گیارہ چھوٹی چھوٹی سوروں کی کتابت بُنی ہوئی ہے یہ علامت ہے جو آئمہ معصومین جو امیر المومنین کی ذریت میں ہیں۔
اس قالین پر سورہ توحید و سورہ حمد و تسبییحات اربعہ، تشہد ، تسلیم بھی لکھا ہوا ہے ، میں نے وہاں چار نفیس ابو ریشم سے بُنے ہوئے چار قالین دیکھے یہ صفوی خاندان کے بادشاہوں کی ازواج نے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہیں اس لئے انہوں نے اپنے نام کے ساتھ کام کی تاریخ بھی لکھ دی ہے اس کے علاوہ اسماعیل البرنس صفوی کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن کریم کا ایک نسخہ ہے جس پر ٩٩١ھ مکتوب ہے اس کے غلاف پر آب طلاء اور قیمتی پتھروں سے نقش و نگار بنا ہوا ہے۔اسی طرح ایک اور نسخہ عاج سے بنی کرسی جو قیمتی پتھروں سے سجی ہوئی ہے رکھا ہوا ہے اور اس کو ایک کپڑے میں لپیٹا ہوا ہے جو ریشم اور سونے کے تاروں سے بُنا ہوا ہے اور انتہائی فن کمالات کے ساتھ یہ غلاف بنا ہوا ہے اس کے علاوہ قرآن کریم کا ایک نسخہ اور ہے جو ایک خوبصورت کرسی پر رکھا ہوا ہے اس نسخہ پر ایک فارسی تفسیر بھی ہے اس کی کتابت میں سونے سے محلول بہت سارا رنگ استعمال ہوا ہے اور یہ آثار قدیمہ کے بے مثال نمونہ ہے۔ ''یہ دیکھ کر میرا رنج و الم تھوڑا سا کم ہوا اب کیونکہ حرم کے کمیٹی بنی ہے جس کے اندر معتبر افراد شامل ہیں جو ان تحائف کی ترتیب کر رہے ہیں اس حوالے سے جب میںدسمبر ٢٠٠٨ ء کو وہاں کیا تھا تو میں چند کارڈ وغیرہ اس مقصد کے لئے بنا ہوا دیکھا اگرچہ یہ افراد شکریہ کے مستحق ہیں لیکن انہیں چاہیے اپنے ساتھ اس عمل میں زمانہ وسطی کے اسلامی آثار قدیمہ چند ماہرین کو بھی شامل کریں کیونکہ ایسے یہ کام پہلے سے کر رہے ہیں بہت سارے ایسے لوگ بھی ہیں جو ٹوٹے ہوئے ابریق وغیرہ اور پھٹے ہوئے قالینوں کی دوبارہ رفو وغیرہ کرسکتے ہیں لہٰذا اس عمل میں کمیٹی کو جلد اقدام کرنا چاہیے اور باقی تجوریوں کی حفاظت کے لئے بھی اقدام ضروری ہے ۔ مجھے معلوم ہے اور میں اس کا گواہ ہوں کہ یہ کام بہت بڑا ہے لیکن اسے صبر و تحمل کے ساتھ پائے تکمیل تک پہچانا چاہیے۔
میرا خیال ہے کہ یہ پہلا اقدام ہوگا جو یہ کمیٹی انتہائی مشقت کے ساتھ انجام دے رہے ہونگے اوراگر وہ اس میں کامیاب ہوتو ان کو جو فخر و ثنا و عظیم ثواب نصیب ہوگا اس سے پہلے پوری تاریخ میں روضہ مبارک میں کسی خدام کو نصیب نہیںہوئی ہوگی۔ ڈاکٹر سعاد ماہر نے بعض ایسے آثار قدیمہ کے ٹائل اور محرابوں کا ذکر کیا ہے اور بعض تربت حسینیہ بھی فنی مہارت سے بنی ہوئی پائی گئی جس کا موصوفہ تعریف کرتی ہے اور وہ اس حوالے سے شیعوں کے نماز پڑھنے کے طریقے سے واقف ہوئی کیونکہ شیعہ اہل بیت کے تقلید کرتے ہو ئے نماز ادا کرتے ہیں۔ لہٰذاموصوفہ (تربت کربلاء نجف)کی عنوان سے مزید تحقیق کی ہے پھر بعض تربتوں کو بیان کیا ہے جو فنی طریقے سے بنائی گئی ہے لیکن موصوفہ نے جو تحائف دیکھی ہے انہیں وہ چھے اقسام میں تقسیم کرتی ہیں۔

١_ مخطوط صحیفے
موصوفہ اپنی کتاب الصحیفہ میں بیان کرتی ہیں کہ ''اس تجوری میں ٥٥٠ قیمتی صحیفے ہیں جن کی قدامت پہلی صدی ہجری سے لے کر چودہویں صدی ہجری تک ہے ان میں سے بعض مخطوطے جانوروں کی کھال پر جبکہ بعض دوسرے ہڈیوں پر مختلف اسلوب و طرز خط عربی میں کتابت ہوئی ہے ۔ پس بعض خط کوفی، نسخ، فارسی نستعلیق، ثلث، خط کوفی چوکور، خط ہمایونی، عثمانی، اور خط رقعہ میں کتابت ہوئی ہے ان تمام صفات کا مشاہدہ کرکے ایک محقق یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان صحیفوں کی کتابت نے تاریخ کے گزرنے کے ساتھ کیسے ترقی کی ہے جیسا کہ وہاں موجود بعض صحیفے خط کوفی میں کتابت ہوئی ہے انہیں امام علی،امام حسن ، امام زین العابدین سے منسوب کرتے ہیں انہیں دیکھ کر لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں قدرواحترام بڑھ جاتا ہے۔ لیکن شیخ محمد حسین کے مطابق اس تجوری کی کتابیں ستمبر ١٩٧٠ ء میں علامہ محقق سیّد احمد حسینی کے ہاتھوں نجف اشرف کے نائب سیّد عبد الرّزاق الحبوبی اور قاضی شیخ حسن الشمیساوی کے زیر نگرانی گنی جاچکی تھی۔ ''تو وہاں کل تاریخی کتب کی تعداد ٧٥٢ تھی جن کتب مخطوطہ اور قدیم مطبوعہ کی تعداد ٧٠٠تھی۔ ''جب ڈاکٹر سعاد ماہر کی کتاب بیسویں صدی کے ٧٠کے دہائی کے اوائل میں منظر عام پر آئی تو موصوفہ ایک اور تجوری کے بارے میں بیان کرتی ہیں جس میں وہ صحیفے تھے جو اس تجوری کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتی تھی ۔ کیونکہ شیخ محمد حسین روضہ کے تجوریوں کے بارے میں بتاتے وقت ایک تجوری کے بارے میں بتاتے ہیں جو ''خزانہ کتب و قرّا ''سے مشہور تھا۔ جس کے اندر کچھ قدیم قیمتی صحیفے موجود تھے ڈاکٹر سعاد ماہر نے اسی کی طرف اشارہ کیا تھا اس لئے جس تجوری کی کتابوں کی گنتی ہوئی وہ اس مذکورہ تجوری کے علاوہ تھی۔

٢_معدنی تحائف
ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق اس تجوری میں ٧٢٠تحائف کے نمونے موجود ہیں جن میں سے بعض طلائی ہاریں ، قیمتی جواہرات، زبر جد، یاقوت، الماس، ہیرے فیروزے سے مزین ہیں جبکہ ''بعض طلائی قندیلیں قیمتی پتھروں، آنگینہ سے نقش و نگا، کی ہوئی ہے اور عود سوز، آب گلاب کے برتن' شمعدانیں' کتبات' تاج' ہار' گلدانیں' ہاتھ دھونے کے طشت'کشکول (جس کے ذریعے شیعہ درویش بھیک مانگتے ہیں)، بڑے بڑے اسلحوں کا ایک مجموعہ، جھنڈے ، روضوں کے نمونے '' جن میں ٥٦عدد روضہ مبارک کے رجسٹروں کے مطابق ایوان طلاء کے تجوری میں ہیں۔ یہ تعداد ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق ہے جسے اس نے دیکھایا پڑھا ہے لیکن حقیقی تعداد جو روضہ مبارک کے موجودہ تجوریوں میں ہے اس کا جاننا مشکل ہے۔جن کے کچھ نمونے کا ہم یہاں ذکر کرتے ہیں۔ ایک تلوارہے جس کا دستہ الماس کے پتھروں طلائی غلاف سے مزین ہے اور ا س کے لئے ایک ہُک بھی ہے اس کے دھات پر ''حسن رضا کی جانب سے علی بن ابی طالب کے لئے تحفہ ''لکھا ہوا ہے۔
٭ پانچ طلائی قندیلیں ہیں ان میں سے ہر ایک میں چھ طغرے ہیں جن میں آٹھ قیمتی پتھریں جڑے ہوئے ہیں اور اس کے بیچ میں ایک زبر جد کا پتھر ہے اور ہر طغرے کے ارد گرد زبر جد کے بڑے بڑے پھول ہیں اور ان پھولوں کے ارد گرد بارہ یاقوت کے پتھر جڑے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر طغرے کے اوپر ہیرے سبز زبرجد کے بارہ پتھروں کے ساتھ ہیں اور اس کا بالائی حصہ اور نیچے والا حصہ نادر و نایاب جواہرات سے پُر ہیں جو عقل حیران کرتی ہے ان قندیلوں کو سلطان حسین نے ہدیہ کیا ہے۔
٭ ان کے علاوہ کچھ قندیلیں بھی ہیں جو پہلے کی طرح خوبصورت پتھروں سے سجاوٹ کی ہوئی ہے اور ان میں ہر قندیل کا وزن ٧١٦٠گرام ہے اسے زینب بیگم شاہ طہماز صفوی نے ہدیہ کی ہیں۔
٭ طلائی عود سوز اس کو نادرشاہ نے ١١٥٦ھ /١٧٤٣ ء میں ہدیہ کی تھی اور یہ ہشت پہلو شکل میں ہے اسکے اوپر کا ڈھکن گول جالی دار اور مختلف قیمتی پتھروں سے سجاوٹ کی ہوئی ہے لیکن کچھ چار کونہ شکل عوز سویں بھی ہیں ان میں ہر ایک خوبصورت پتھر کے فریم میں ہے اور اس فریم میں دس عدد چار زبرجد' ایک بڑا یاقوت'الماس کے چند پتھر ہیں جو فن تعمیر کے اہم علامت ہیں اور ان کا وزن٧٣٤٥ گرام ہے۔
٭ طلائی جھنڈے جو قیمتی بڑے چھوٹے پتھر اور آبگینہ نقوش سے مزین ہیں۔
٭ طلائی گلدان جوکہ مخروطی شکل کا ہے پتھر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے مزین اور آبگینہ نقوش سے بنی ہوئی ہے اسے حاج بن درگاہ نے ١١٨٢ھ /١٧٦٨ء میں ہدیہ کی تھی۔
٭ طلائی ہار یہ سبز آبگینہ رنگوں سے مزین ہے جس میں تین عدد یاقوت کے پتھر ہیں اس کے پتھر کے درمیان میں شش زاویہ ایک بڑا دائرہ ہے اور اس دائرے کے اندر ہی ایک اور چھوٹا دائرہ ہے جسے آبگینہ آسمانی رنگ میں بندہ شاہ ولایت سلطان حسین ١١١٢ھ/١٧٠٠ ء لکھا ہوا ہے۔
٭ طلائی جھالر دار پٹی اس کے اندر ٤٠طلائی کی گانٹھیں بندھی ہوئی ہیں اور ہر گانٹھ میں زبر جد کے دو پھول اور اور ہر پھول میں آٹھ یا قوت اور زبر جد ہیں۔
٭ طلائی دل نُما۔ یہ بڑے کے الماس کے پتھر اور زبرجد یاقوت سے سجاوٹ کی ہوئی ہے۔
٭ نارو نایاب بیضوی شکل کا فیروزہ جس کے اوپر طلاء لگا ہوا ہے اس کی لمبائی ٥سے٦ سینٹی میٹر اور عرض ٤سینٹی میٹر ہے۔
٭ مختلف سائز کے نقرے برتن جس کا وزن ٧٦٩٦٠گرام ہے۔
٭ حرز بابند۔ اس کو نادر شاہ نے ہدیہ کیا تھا یہ بیضوی شکل کا ہے جس کے اندر ایک بڑا سفید دائرہ ہے اور ایک دائرہ جو بھورا چنا نیلے زبر جد، سرخ یاقوت وغیرہ پر مشتمل ہے ۔ ان ٹکڑوں کے بارے میں موصوفہ کہتی ہیں کہ یہ وہ اہم تحائف ہیں جوحرم کے اندر صندوقوں میں موجود ہیں جن میں اکثر کے بارے میں یہ معلوم نہیں کہ کس نے ان کو ہدیہ کیا تھا۔
اس کے بعد بیرونی تجوری میں موجود تحائف کو دو قسموں میں تقسیم کرتی ہیں ان میں سے پہلی قسم میں مندرجہ ذیل چیزیں ہیں
١۔ پردے، روضہ حیدری کے خاص ایرانی قالین ، معلق قدیم و جدید کرسٹل کے قندیلیں جو قیمتی جواہرات سے مزین ہیں۔
٢۔ قدیم بندوقیں، خوبصورت نیام والی تلواریں، بڑے طلائی قندیلیں جو حرم کے اندر معلق ہیں اور یہ روضہ کو شیشہ کاری کرنے کے دوران اٹھائی ہیں اور یہ مختلف سائز ہیں۔
جبکہ دوسری قسم میں٣٦مختلف نمونے ہیں جن میں معدنی ٹکڑے'پردے'قالین' منسوجات' چار صحیفے:
١۔ طلاء سے مزین قیمتی پتھروں سے مرصّع جسے اسماعیل حیدر الحسینی نے ٩٢١ھ میں وقف کی ہے۔
٢۔ ایک اور صحیفہ امام حسن کے خط سے ہے جو کہ قدیم خط کوفی میں کھال پر لکھا ہوا ہے۔
٣۔ بڑے حروف سے لکھی ہوئی مکتوب جو امام امیر المومنین سے منسوب ہے۔
٤۔ قدیم خط کوفی میں مکتوب جس کے آخر میں لکھا ہوا ہے''اسے علی ابن ابی طالب نے لکھا ہے ''اس حوالے سے ماہرین خطاط جب نجف اشرف میں زیارت کیلئے گئے تو انہوںنے بتایا کہ یہ عہد خلفائے راشدین کے خط ہے اس لئے یہ خط امام علی کی ہے۔
یہاں پر ڈاکٹر حسن حکیم نے ایک نسخہ قرآن مجید کا ذکر کیا ہے کہ ''ایک عاج کی خوبصورت کرسی پر قیمتی پتھر سے رکھا ہوا ہے اور یہ ایک سونے کے تار سے بنے ریشم کے کپڑے میں لپٹا ہوا تھا جو خارق فنی و بارع صناعت میں تھا اور بیل بوٹوں آبگینہ سے نقش و نگار کیا ہو اایک غلاف میں یہ خوبصورت خط نسخ میں لکھا ہوا ہے لیکن اس میں کوئی تاریخ درج نہیں ہے۔''
شاید اس حوالے سے ڈاکٹر سعاد ماہر کے اطلاع میں نہ ہو کیونکہ سابقہ تمام نمونے کی قیمت برابر نہیں ہے کیونکہ بعض معدنیات میں سے ہے یا دیگراشیاء سے متعلق ہیں۔ ہم یہاں چند نمونے اس تجوری سے بیان کرتے ہیں۔
٭ ایک جوڑا مخمل کے پردے میں جس کے اطراف میں ہیرے اور رنگ برنگ کے موتیاں پروئی ہوئی ہے اور ہر پردے پر سبز رنگ کے اطلسی ریشم کے کپڑوں سے مور کی شکل کی بنی ہوئی ہے۔ یہ پردے انتہائی نادر و نایاب ہے جس کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں اور ڈیزائننگ اہم نشانیوں میں شامل ہے ان دونوں پردوں کو ہندوستان کے ایک حاکم شہاب الدین کی زوجہ سیّدہ گوہر نے ہدیہ کی ہے۔
٭ عدد نادرو نایاب جائے نماز ہیں ان میں ہر ایک کی سائز181 X 390ہے جن کے رنگ پیلے ہیں اس کے چار خانوں والے تین حصے میںمحرابی شکل ہے جن کے اندر چاندی سے نقوش بنے ہوئے ہیں یہ کام ایران میں ہوا ہے۔
٭ ایک تاج ہے جس پر بارہ گلاب کے پھول بنے ہوئے ہیں اور ہر پھول میں چھ الماس کے پتھر اس طرح لگے ہوئے ہیں کہ اس کے اطراف میں زبر جد کے بڑے پتھر لگے ہوئے ہیں اس کے ایک طرف دو بڑے زبر جد کے پتھر ہے اور اس کا تاج سر عمامہ ہیرے کے پتھروں سے سجایا ہوا ہے اور اسے تاج النساء بیگم نے ١٢٤٠ھ / ١٨٢٥ ء میں ہدیہ کئے۔
٭ ایک جوڑا گوشوارہ یہ دو بڑے پتھر میں رکھا ہوا ہے اور ان کے اطراف میں چھوٹے چھوٹے قیمتی پتھر جڑے ہوئے ہیں ڈاکٹر حسن حکیم کے مطابق ان میں سے ہر ایک کا وزن٢٦ قیراط ہے ان کی قیمت ٧٠ء کی دہائی میں سونے کا ساٹھ ہزار پاونڈ تھا۔
٭ طلائی نگینے جو الماس سے مزین ہے اس پر تتلی کی شکل الماس و زبر جد سے بنی ہوئی ہے ۔
٭ ڈاکٹر سعاد ماہر نے بعض خوبصورت طلائی قندیلوں کا بیان کیا ہے کہ ''لیکن جو نفیس قندیلیں ہیں وہ طلاء سے بنے ہوئے ہیں جن کے اوپر آبگینہ سے نقوش بنی ہوئی ہے۔ ان نقوش میں ایک بیضوی شکل ہے جس کا حجم ٧٣سینٹی میٹر ہے اور دو اطراف کے بالائی اور زیریں قطر تقریباً ٢٠سینٹی میٹر ہے اور اس گیند کے اوپر سے نیچے کا درمیانی احاطہ ٤١سینٹی میٹر ہے اور یہ اشکال بعض سے بعض متصل ہیں جوکہ بڑے قیمتی پتھر یاقوت، الماس، لعل، ہیرے ، زبر جد سے بنی ہوئی ہے اس کاایک حصے میں ایک قیمتی اشیاء سے نقش و نگار کی ہوئی ہے اسے ملک فارس کے علی مراد نے ١١٩٦ھ /١٧٨٢ ء میں ہدیہ کی تھی وقف کنندہ کا نام فارسی زبان میں کلب علی مراد لکھا ہوا ہے۔
٭ ڈاکٹر حسن حکیم کے مطابق نادرشاہ نے پانچ قیمتی نگینے جڑے ہوئے قندیلیں مرقد امام علی کے ١١٥٣ھ / ١٨٤٠ ء میں ہدیہ کی تھی۔
اور موصوف یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ہندوستانی طرز کے خنجر جوکہ روضہ کی جالی سے معلق ہے قیمتی پتھروں سے مزین ہے اسے ہندوستان کے مغل بادشا اورنگزیب نے ہدیہ کی تھی۔ اس کے بارے میں مشہور سیاح NAIBOORنے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے کہ اس خنجر کی کوئی قیمت تعین نہیں کیا جا سکتا اور جب میں حرم میں داخل ہوا تو میں نے یہ روضہ مقدس کے جالی کے اندر اسے دیکھا جو مغربی جانب صندوق میں معلّق تھا اور موصوف نے یہ بھی کیا ہے کہ اس کے اندر تین الماس کے تاجیں ہیں اور ہر تاج کے وسط میں زبر جد ہے شاید یہ وہی تاج ہے جس کا ذکر ہو چکا ہے۔
٭ وہ یہ بیان کرتا ہے کہ عثمانی شہزادہ عبد الحمید نے روضہ مبارک کیلئے موئے مبارک نبی اکرم ۖ١٣٠٣ھ /١٨٨٦ء میں ہدیہ کیا تھا۔
٭ محمد ہادی امینی نے اپنے سابقہ مضمون میں کچھ اور نوادرات کا ذکر کیا ہے ان میں سے یہ ہے کہ طلائی انگھیٹی عود سوز جس میں سُرخ یاقوت کے چمکدار پتھریں ہیں اس میں الماس کے بڑے گڈّے ہیں اور اس پر نادر لکھا ہوا ہے۔
٭ یہ اشارہ گزر چکا ہے کہ بد ر الدین لو لو نے ٦٥٧ھ / ١٢٥٩ ء میں چار قندیلیں ہدیہ کی ہے شیخ محمد حسین کے مطابق یہ وہی تجوری ہے لیکن میں نے ڈاکٹر سعاد ماہر کی کتاب میں نہیں دیکھا ہے۔

٣_دوسری قسم منسوجات
ڈاکٹر سعاد ماہر نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ اس تجوری میں ٤٨٤نمونے ہیں ۔ اس میں شک نہیںکہ موصوفہ نے قدیم فہرست سے یہ تعداد حاصل کی ہے لیکن حقیقی تعداد اس سے زیادہ ہے ان میں بہت سارے سونے چاندی کے تاریں ہیں جن سے قیمتی پتھریں اور ہیرے جواہرات کی سجاوٹ کی ہوئی ہے ڈاکٹر موصوفہ نے ان میں سے بعض کی تفصیلات اور ان کی قیمتیں ،تاریخیں اور نابغہ ماہرین کے نام کے حوالے سے روشنی ڈالی ہے۔

٤_جائے نماز
اس تجوری میں ٣٢٥نادر جائے نماز ہیں ۔ ڈاکٹر سعاد ماہر نے اپنی کتاب میں یوں بیان کیا ہے کہ روضہ مبارک میںایک نادر جائے نماز کا مجموعہ ہیں جو پوری دنیا میں فنی و معنوی اعتبار سے بے مثال ہیں۔
اور وہ اس دوران بعض ہیروں کے بارے میں یوں بیان کرتی ہیں کہ ''یہ ذوطرفین ہیں اور ہر سمت پر مختلف رنگوں سے نقش و نگار ہے۔
جیسا کہ ہم بیان کرچکے کچھ قالین شاہ عباس صفوی نے ہدیہ کی تھی ان میں سے ایک کی قیمت پچھلی صدی کے ٧٠ کی دہائی میں ٤ملین ڈالر سے زیادہ تھی جس وقت ایک گرام سونے کی قیمت آدھے سے زیادہ ہے تو مذکورہ قالین کی قیمت کیا ہوگی؟ اس پر مستزاد یہ کہ بہت سارے ایسے نمونے ہیں جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ہے ڈاکٹر سعاد ماہر نے اپنی کتاب میں نو جائے نمازوں کا ذکر کیا ہے۔
یہ جائے نمازیں ریشم و حریر اور سونے کے تاروں سے بنی ہے اور ان تمام کی قیمت کا اندازہ لگانا قدرے مشکل ہے ان میں سے ایک جائے نماز کا جائز 323x20ہے اس کے بارے میں ڈاکٹر موصوفہ بیان کرتی ہیں یہ جائے نماز اپنی صناعت کے اعتبار سے کسی معجزے سے کم نہیں ہے اس کے دونوں اطراف میں خوبصورت نقش و نگار بنا ہوا ہے اور اس نقش و نگار میں اس بات کا لحاظ کیا گیا ہے کہ دونوں صورتوں کے رنگ مختلف ہیں۔ ''اور یہ حاج محمد رضا قمی نے ١٢٦٤ھ /١٨٣٨ء میں ہدیہ کی تھی یہ تاریخ فارسی میں لکھا ہوا ہے ۔ ڈاکٹر حسن حکیم نے اپنی کتاب میں بیان کی ہے کہ بعض صفوی امراء کی زواج نے چار ریشم کے جائے نماز اپنے ہاتھوں سے بناکر روضہ مقدس کو ہدیہ کی تھی اور ان پر ان کے دستخط اور بننے کی تاریخ درج ہے۔

٥_شیشے کے نمونے
تجوری کے اندر ١٢١نمونے شیشے کے مختلف اشکال میں ہے بعض نادر بلوری فانوس ہے تو بعض دوسرے قندیلیں کی شمع روشن ہوتا ہے شیشے کے گیندے کو اہل یورپ اہل مشرق کے انڈے کہتے ہیں ۔ ان میں سے بعض قیمتی پتھروں سے مرصّع ومزین ہیں ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق مذکورہ بالا تعداد صحیح ہے لیکن آج کل حرم میں شیشے کے نمونوں کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

٦_لکڑی کے تحائف
ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق ان میں کل ١٥٦میں سے اکثر ساج ہندی بدیع الصناعت اور نقش و نگار سے مزین ہیں لیکن اس وقت مذکورہ تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔
اگر ہم ان تجوریوں کا اضافہ کریں جن کی طرف محققین نے توجہ نہیں دی ہے اور نہ ہی روضہ کے کسی رجسٹر وغیرہ میں درج ہوئے ہیں وہ نقرئی دروازے جو منفرد انداز سے بنے ہوئے ہیں وغیرہ ان کی مادی و معنوی اہمیت کا انداز لگانا مشکل ہے ۔ یہ ایسے کنوزو خزانے ہیں جن کی معنوی قیمت مادی قیمت سے کئی گنا زیادہ ہے اس لئے کہ یہ امیر المومنین کے اسم سے مشرف ہے۔
لیکن مادی قیمت یہ تو تصور سے بالاتر ہے اس بات میں دو لوگ بھی اختلاف نہیں کرسکتے ہیں کہ ان تمام تحائف کو ایسے ہی چھوڑ کر رکھنا جہاں اس پر آشوب دور میں ان کی طرف غیر محفوظ دست دراز ہونے میں دیر نہیں لگتی کیونکہ جو لالچ و خوف ہم سنتے آرہے ہیں جس میں ان تمام نفیس تحائف کا محفوظ طریقے سے ہم تک پہنچنا تعجب ہے۔
اگر ان موتیوں کے ایک میوزیم بنانے کا وقت ابھی نہیں پہنچا ہے تو کم از کم انہیں روضہ مبارک کے اندر ایک مناسب مقام میں ترتیب و تنظیم کے ساتھ رجسٹر میں درج کرکے مختلف حصوں اور سمتوں میں تقسیم کرکے رکھا جائے تاکہ ہر خاص و عام کے نظروں کے سامنے رہے۔
میری نیک شگونیاں گزرے کل کی نسبت آج زیادہ ہیں کیونکہ مجھے یہاں جدید علوم کے مطابق حرص، زینت حزن و ملال نظر آتا ہے اور مجھے یہ یقین ہے کہ ایک دن ایک نئی صبح یہ نوید دے گی کہ ان ہیروں کی طرف دیکھ کر عتبہ علویہ مقدسہ کے لاکھوں زائرین کی نظریں جھوم اُٹھیں گی اللہ سے میری دعا ہے کہ وہ ہمیں مرنے سے قبل اس صبح سے نوازے۔
الحمد للہ ترجمہ تمام شد
یکم اکتوبر ٢٠١٠،جمعتہ المبارک بوقت شب ٢٠:١٢
محمد تقی
*****