حرم کے داخلی رواق اور دروازے
روضہ مطہرہ کے چاروں اطراف میں رواق کے ساتھ مغربی جانب ایک کمرہ ہے اس کے علاوہ مسجد بالائے سر اور تکیہ بکتاشی کا یک حصہ بھی اس میں شامل کیا ہے کیونکہ حرم مطہرکے زائرین کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ لیکن ان رواق کی سطح سے بلندی اور دیوار ڈھائی میٹر ہے اور اس کے فرش پر سفید سنگ مرمر بچھے ہوئے ہیں یہ تمام پتھر نجف اشرف کے اطراف ایک مقام سے لایا گیا ہے جو''مظلوم ''کے نام سے مشہور ہے اسے بعد میں چوتھی صدی ہجری کے اوائل میں سبزدی سنگ مرمر میں تبدیل کیا گیا ۔ ڈاکٹر حسن حکیم کے مطابق ١١٩٣ھ / ١٧٧٨ء میں شاہ ناصر الدین قاچاری کا ایک شخص جس کا نام باشی تھا اس نے تین رواقوں کی تعمیر نو کی اور اس کی تاریخ ابجدی حساب کے مطابق درج کی۔
اس حوالے سے سیّد جعفر بحر العلوم نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ ١٢٨٤ھ /١٨٦٧ ء میں ایک تاجر حمزہ تبریزی نے مشرقی جانب رواق کی شیشہ کاری میں تین ہزار تومان خرچ کئے تھے۔ لیکن شیخ محمد الکوفی کے مطابق یہ کام حمزہ تبریزی نے ١٢٨٥ھ / ١٨٦٨ ء میں انجام دیا تھا۔ لیکن باقی تین رواقوں کی شیشہ کاری اور تزئین و آرائش حاج ابو القاسم بو شہری اور ان کے بھائی حاج علی اکبر بو شہری نے ١٣٠٧ھ / ١٨٩٠ ء میں شروع کی اور ١٣٠٩ھ / ١٨٩٢ ء میں مکمل کی ۔ ڈاکٹر حسن کے مطابق نوے سال بعد دونوں دروازوں کے درمیان یہ شیشہ کاری اکھاڑ کر دوبارہ ١٣٦٩ھ / ١٩٥٠ ء میں جدید انداز میں انجام دیا گیا۔
ڈاکٹر سعاد ماہر کہتی ہے کہ ان ارواق کے اوپر چھوٹے بہت سارے گنبد بنے ہوئے تھے اور ان میں سے ہر گنبد ہشت پہلو مرکز پر بنا ہوا تھا اور ساتھ میں ہر ایک کے ساتھ کھڑکی بنی ہوئی ہے تاکہ اس سے روشنی داخل ہونے کے ساتھ ہر رواق سے تازہ ہوا آتی رہے۔
شیخ محمد حسین حرز الدین اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے تزئین و آرائش تبدیلی سے قبل دیکھی ہے جسے شاہ محمد رضا نے اتار کر دوبارہ تبدیل کروایا انہوں نے روضہ اور رواق پر دوبارہ شیشہ کای کی جو فن اسلامی کی پوری دنیا میں بے مثال خوبصورت نشانی و علامت ہے اور یہ حقیقت ہے کہ فن اسلامی کی بلندی کی تعریف سے قلم قاصر ہے بلکہ جو کوئی مسلمان جب زیارت کی غرض سے روضہ مبارک میں داخل ہوتا ہے تو وہاں دیواروں اور ہر زاویوں میں فن اسلامی کے کمال و جمال دیکھ کر عقل و نظر دنگ کر رہ جاتی ہے اور وہاں مدفون صاحب عظمت امام علی کو نہیں معلوم کہ وہاں کی مٹی نے کیسے برداشت کیا ہے جو کہ تمام تمجیدوجلال و عظمت کی علامت ہے تو مبارک ہو ان کے ماننے والوں کو کہ ان کے امام نے اسلام کی عظمت و عدل کو بلند کیا۔
اس کے علاوہ شیخ محمد حسین نے ١٣٥٨ھ / ١٩٣٩ ء ، ١٣٧١ھ / ١٩٤٠ ء ۔ ١٩٥٢ ء کے سالوں میں رواق کی اصلاحات کی طرف اشارہ کیاہے۔ ان اصلاحات میں شیشہ کاری کے نقصان ، بعض عمارتوں کی تبدیلی، جو ان رواقوں کے چھتوں پر تھا جسے عراقی وزارت اوقاف نے بنوایا تھا جو ابھی تک جاری ہے اور اس کی فن بے مثالی ہر زمانے میں باقی رہے گی۔ ہم رواق کے تمام جہتوں میںموجود کمروں کی طرف بھی اشارہ کریں گے۔
حرم کے داخلی دروازے
روضہ طاہرہ میں داخل ہونے کے لئے نصف مشرقی رواق کی جانب طلائی ایوان کے وسط میں واقع دروازے کے مقابلے میں دو چاندی کے دروازے ہیں ۔ جن میں سے جو روضہ کے دائیں جانب ہے اسے عثمانی شہزادہ عبد العزیز کے عہد میں لطف علی خان ایرانی نے اس کا خرچ برداشت کیا تھا ۔ اور اسے ١٢٨٣ھ / ١٨٧٠ ء میں اس وقت نصب کروایاتھا جب نجف اشرف میں زیارت امام سے مشرف ہوئے تھے اور ان کانام دروازے کے پیچھے لکھا ہوا ہے ۔ اسی میں رواقِ شمالی کی جانب بھی دو دروازے واقع ہیں اور جنوبی جانب ایک دروازہ بعد میں عورتوں کے لئے مخصوص بنوایا گیا ۔
شیخ محمد حسین کے مطابق روضہ مبارک کے چاروں اطراف سے زمانہ قدیم سے ہی اندر داخل ہونے کی جگہ تھی ان میں مغربی جانب والی جگہ بند کیا گیا اس میں دو چاندی کے دروازے نصب تھے ان دروازوں کے پیچھے ایک بڑی اسٹیل کی کھڑکی تھی جس کے اوپر پیلے پیتل چڑھا ہوا تھا ١٣٦٦ھ / ١٩٤٧ ء میں ان دونوں دروازوں کو شمالی جانب منتقل کیا گیا ۔ اس سے قبل یہاں پر ایک بڑا پیتل کا دروازہ تھا اور اس دروازے کو اکھاڑ کر اسکے ساتھ مغربی جانب کی پیتل کی کھڑکی بھی اکھاڑ کر دوسرے نوادرات کے ساتھ الماری میں رکھی گئی اور اس جگہ قبر مطہر پر پہلے سے لگی ہوئی پرانی ایک چاندی کی کھڑکی کو نصب کیا گیا ۔ شیخ محمد حسین کہتے ہیں کہ روضہ مبارک کے شمالی جانب بھی ایک اسٹیل کا دروازہ تھا جسے امین الدولہ کی بیٹی زوجہ علی نے ہدیہ کیا تھا اور یہ ١٣١٦ھ / ١٨٩٨ ء میں نصب کیا گیا تھا۔
اور موصوف نے بھی اشارہ کیاہے کہ جنوبی جانب بھی ایک دروازہ تھا جسے بروز بدھ آٹھ ربیع الثانی ١٣١٨ھ /١٩٠٠ ء کو ایک نیک آدمی حاج غلام علی مسقطی نے نصب کروایا تھا لیکن اسے بعد میں بند کیا گیا۔
اس وقت حرم میں جو مین گیٹ ہے وہ مشرقی رواق کے درمیان دو طلائی دروازوں پر مشتمل ہے اس سے قبل یہ چاندی کے تھے ۔ یہ دونوں دروازے خوبصورتی کے کمال کو چھو رہا تھا اور ان پر احادیث نبویۖقرآنی آیات ، سید موسیٰ بحر العلوم کے دو قصیدے لکھے ہوئے ہیں اس کے علاوہ موصوف کا ایک قصیدہ ان دونوںدروازوں کے پیچ میں موجود مستون پر بھی آبگینہ سے لکھا ہوا ہے۔یہ ١٣٧٣ھ / ١٩٥٣ ء میں آٹھ شعبان کو نصب ہوا اس پر تمام اخراجات حاج مرزا مہدی مقدم' ان کے بھتیجے حاج کاظم آغا توکلیان اور حاج مرزا عبد اللہ مقدم نے برداشت کئے۔ لیکن جنوبی رواق کی طرف سے ایک جدید دروازہ عورتوں کے لئے نکالا گیا ہے تاکہ انہیں حرم میں داخل ہونے میں مشکلات نہ ہو۔
روضہ مبارک
روضہ مبارک کی تعمیرو اصلاحات مختلف ادوار سے گزرتی رہیں جس میں محمد ابن زید ٢٨٣ھ بمطابق ٨٩٦ ء کی تعمیر سے لے کر آج تک سینکڑوں شخصیات جن میں خلفاء ، سلاطین، ملوک، امراء ، وزراء ، اہل ثروت، شامل ہیں جن کا شمار ممکن نہیں ہے تاہم ان میں سے بعض اصلاحات (جو موجودہ صورت میں ہمارے سامنے ہے)کی طرف اشارہ قدرے مشکل نہیں ہے خاص طور سے قدیم کاشانی طرز و طریقے اور عہد صفوی کے خوبصورتی و جمال کے حوالے سے ہم بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اور میں یہاں پر روضے کے مطابق باقی باتوں کے علاوہ شیخ جعفر محبوبہ کی کتاب ''نجف کے ماضی و حال ''ڈاکٹر سعاد ماہرکی کتاب ''مشہد الامام علی ''اورشیخ محمد حسین حرز الدین کی کتاب ''تاریخ نجف اشرف ''سے بھی مدد لوں گا۔ کیونکہ ان میں تمام شخصیات کا ذکر تفصیلی انداز سے بیان ہواہے ۔ اس کے علاوہ ماخذ کا بھی ذکر ہے اس کے ساتھ ڈاکٹر حسن حکیم کی کتاب ''مفصّل تاریخ نجف ''اور بعد میں راقم مرقد مقدس کی زیارت سے مشرف ہوا تو مزید اہم معلومات حاصل ہوئیں میں نے مذکورہ کتابیں اُن کے تاریخ طباعت کے حساب سے ذکر کی ہیں اور یہاں پر یہ اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان میں شیخ جعفر محبوبہ کی کتاب دیگر کتب کیلئے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ اس میں روضہ مطہر کے حوالے سے بہت ساری تاریخی معلومات کا ذکر ہوا ہے لیکن اس کے باوجود اس کے بعد لکھنے والوں کی کوششیں بھی کم نہیں ہیں۔
روضہ مبار ک کا صحن تقریباً درمیان میں مغرب کی جانب واقع ہے اور یہ ایک چوکور شکل کی عمارت ہے جس کی لمبائی ١٣میٹر٣٠ سینٹی میٹر مربع ہے۔ اور اس کی پیمائش ١٧٦میٹر اور ٨٩سینٹی میٹر مربع ہے اور اس کی بلندی ساڑھے تین ہیں جس کے اوپر دو گنبد ہیں جوایک دوسرے کے اوپر ہیں ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق بیرونی گنبد بیضوی شکل کا موٹا ہے۔ جس کی بلندی ٨٠ سینٹی میٹر ہے اور سطح صحن سے ٤٨میٹر اور٥٠ سینٹی میٹر ہیں اس کا قطر ١٢میٹر اور٦٠ سینٹی میٹر ہیں اس کا احاطہ٥٠ میٹر ہے۔ لیکن داخلی قُبّہ جو کہ تقریباً گول دائرے کی شکل میں ہے اور اس کی بلندی ٦٠ سینٹی میٹر اورقطر ١٢میٹر اور٥٠ سینٹی میٹر ہے۔ سطح حرم سے اس کی بلندی ٢٣میٹر اور٥٠ سینٹی میٹر ہے اور روضہ مبارک کی تزین و آرائش نفیس جڑی بوٹوں کی شکل اور انتہائی خوبصورت نباتی علامات سے کی گئی ہے اور قرآنی آیات، امامکی شان میں وارد احادیث آپ کی مدح میں کہی گئی خوبصورت اشعار اور آئمہ اہل بیت کے اسمائے گرامی کی کتابت سے روضہ مبارک کی تزئین و آرائش میں مزید اضافہ کیا گیا ہے اور فرش پر اعلیٰ قسم کے سنگ مرمر کی ٹائلیں لگی ہوئی ہیں اور دیواروں پر انتہائی مہارت سے شیشہ کاری کی ہوئی ہے یہ خوبصورت منظر دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کرتا ہے۔
روضہ مبارک کے اندرونی حصوں کی خوبصورتی حد کمال کو چھو رہی ہے۔ ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق کہ ان دونوں گنبدوں میں ٹوٹل(١٣٠٠٠) اینٹیں استعمال ہوئی ہیں۔ لیکن یہ تعداد گنبدوں کی مساحت اور لمبائی کے حساب سے کم ہے شاید صحیح تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔ ان دونوں گنبدوں کے تعلق کے حوالے سے ایک مصری انجینئر محمد مدبولی خضیر جسے عراقی حکومت نے حرم اور اس کے نوادرات کے بارے میں جاننے کے لئے مدعو کیا تھا ان کے ملاحظات یوں ہیں:
''ان دونوں گنبدوں کو لکڑی کے مختلف ٹکڑوں سے جوڑا گیاہے۔ اور اس کے بعد چونے کے ذریعے مضبوط کیا گیا ہے اور گنبد ایک گول دائرہ جس کی بلندی ١٢ میٹر ہے کے اوپر کھڑا ہے اور اس دائرے کے اندر آئمہ اہل بیت٪کی تعداد کی مناسبت سے ١٢کھڑکیاں نکالی گئی ہیں۔ جنہیں اوپر کی طرف محرابی شکل کی ہے اور اس دائرے کے بیچ میں چار محرابیں ہیں۔ لیکن مربع سے مرکزی دائرہ تک وسط میں تین گول دائرے بنے ہوئے ہیں جو رکن مربع میں واقع ہے اس طرح ہمیں نیچے سے اوپر تک واضح نظر آتا ہے ۔ اس طرح کا اسلوب ہمیں اسلامی عمارتوں میں دسویں ہجری کے سوا کہیں اور نظر نہیں آتا۔ کہاجاتا ہے کہ یہ طریقہ روضہ مبارک میں ہواداری کے حساب سے انتہائی جدید فن معماری میں شمار ہوتا ہے اور یہ آج کل جدید کشتیوں کے اندرونی حصوں میں ہواداری کی طریقوں سے مشابہت رکھتا ہے اور روضہ مبارک اور چھت کے درمیان محرابوں میں گزرنے کی جگہ بنی ہوئی ہے اور اس کے درمیان ہواداری میں ١٥سینٹی میٹر قطر کا لوہے کی شیٹ لگی ہوئی ہے اور بلندی میں چھت سے١٥ سینٹی میٹر ہے تاکہ بارش کا پانی اس میں نہ جاسکے اور دونوں گنبدوں کے درمیان مختلف مقامات پر کھلے ہوئے ہیں اور یہاں آب باراں کیلئے پر نالے وغیرہ بھی بنائے ہوئے ہیں۔لیکن مربع کی دیوار کی بلندی ڈاکٹر حسن کے مطابق ١٧میٹر ہے۔گنبد کے اوپر طلائی تختیوں کی تعداد سات ہزار سات سو ستر تک پہنچتی ہے کہا جاتا ہے کہ اس تعداد میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔''
شیخ محمد حسین بیان کرتے ہیں کہ اوپر والا گنبد کا سرا نچلے گنبد کے سرے سے چار میٹر بلند ہے اور وہاں ایک لکڑی کا زینہ ہے جو بارہ میٹر لمبا ہے جو بالائی گنبد اوپر کھڑکی تک جاتا ہے اور اس کھڑکی کیلئے چھوٹے پیتل کا دروازہ لگا ہوا ہے۔ جس کا ظاہر طلا نما لگتا ہے اور اس گنبد کے بالکل اوپر ایک بہت بڑا طلائی انار بنا ہوا ہے جس کے اوپر ایک بہت بڑا طلائی پنچہ ہے جس پر یہ آیت لکھا ہوا ہے۔ (یَدُ اﷲِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ) اسے نادرشاہ نے روضہ مبارک پر طلاء چڑھوانے کے لکھوایا تھا اب یہ پنچہ ایک بڑے روشنیوں کے مجموعے میں تبدیل ہوگیا ہے جو انتہائی شعلہ دار ہے جس سے لفظ ''اللہ ''بنتا ہے۔
ڈاکٹر سعاد ماہر گنبد کے داخلی تزئین و آرائش کے حوالے سے بھی بیان کرتے ہیں کہ ایک بہت بڑا دائرہ جو گنبد کے گردن کے ارد گرد ہے اور اس کے اوپر چھوٹے چھوٹے گول دائروں کے ٹکڑے ہیں اور ٹکڑے چھ لائنوں میں ہے اور ہر لائن کی لمبائی ٢٥سینٹی میٹر ہے ۔ گنبد کی گردن شیشہ کاری سے انتہائی خوبصورت انداز میں سجائی گئی ہے جس کے اوپر کاشانی ٹائل خط کی صورت میں لگی ہے جس پر سورة النباء کی کتابت کی ہوئی ہے اور یہ خط ان بارہ کھڑکیوں تک جاتی ہے جو آئمہ اثنا عشر کے تعداد کی مناسبت سے ہے اور تمام محرابوں میں جیومیٹری کی مختلف اشکال کمال دقت اور بے مثال انداز میں بنی ہوئی ہیںاور اوپر سے قرآنی آیات کی لکھائی ہے لیکن گنبد کے ڈھانچہ پر بے مثال کاشانی ٹائلوں اور مختلف رنگوں کے بیل بوٹے بنے ہوئے ہیں۔
یہاںشیخ محمد حسین گنبد کے اندرونی حصے کی تعریف میں اشارہ کرتے ہیں کہ آیات کریمہ آبگینہ و بلور سے کتابت کی ہوئی ہے بلکہ ہر گنبد کے باطنی حصہ میں مختلف جڑی بوٹی کے نقشے معجزانہ انداز سے نقش کئے ہوئے ہیں اور خاص طور سے نیچے کی جانب ایک نقشے میں شیروں کے سر بنے ہوئے ہیں اس طرح ٢٤عدد شیر ہیں اور بالکل اوپر کی جانب ١٢عدد فریم بنے ہوئے ہیں ان میں سے ہر ایک میں آئمہ اثنا عشر کے اسمائے گرامی کی کتابت کی ہوئی ہے گنبد کے گردن کے ارد گرد نیچے سے امام علی کی مدح میں ایک قصیدہ اس طرح لکھا ہوا ہے کہ ہر آدھے شعر سے ایک خط ایک پیلے رنگ کی پیٹی پر خوبصورت انداز میں بنی ہوئی ہے اور اس طرح دوسرے خطوط سے ملی ہوئی ہے اس طرح آیات مبارکہ اس خوبصورت اشعار کی زنجیر کے درمیان نظر آتی ہیں۔
گنبد کے پر فضاء کے اوپر خوبصورت ثریات سے روشن ہے اور ثریات وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتی رہتی ہے اور ہر مہینے کے شروع میں ایک مرتبہ حرم کے خدّام ان فانوسوں کے ساتھ مرقد مطہر کے اندرونی حصوں کی صفائی کرتے ہیں اور اس دوران ان نذورات کو بھی نکالتے ہیں جو زائرین دوران زیارت پھینکتے ہیں۔ یہ نذورات ، نقد، یا معدن، بعض سبز کپڑوں کے ٹکڑے یا مرقد مطہر کے اوپر چڑھائی گئی چادروں وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ لیکن ان کو نقود سے زیادہ قیمت پر تبرکاً خریدا جاتا ہے اور کپڑوں کے ٹکڑے اور چادریں زائرین میں تقسیم کرتے ہیں ۔ چودھویں صدی ہجری میں ایک سے زیادہ مرتبہ گنبد کی ترمیم ہوچکی ہے اور ماہ ذی الحجہ ١٣٠٤ھ /اگست ١٨٨٨ء میں بعض جگہ دراڑ پڑنے کی وجہ سے ترمیم ہوئی۔اس ترمیم کے بعد لوہے کی تختیاں چڑھائی گئیں پھر بعد میں انہیں طلائی تختیوں میں تبدیل کیا گیا اور یہ ترمیم اسی سال ربیع الاوّل کے آخر میں مکمل ہوئی ۔ اس میں شریک کار معمار حاجی محسن اور کار پینٹر حسین شمس رہے۔
دوبارہ بعض جگہ دراڑ پڑ جانے کی وجہ سے ترمیم کی ضرورت ہوئی کیونکہ اندر پانی جانے کی وجہ سے طلائی تختیاں نکلنا شروع ہو گئی تھیں اور یہ ترمیم ١٣٤٧ھ /١٩٢٨ ء کو شروع ہوئی اور اسی سال سابقہ معماروں کے ہاتھوں ماہ ربیع الثانی میں مکمل ہوئی اور شیخ محمد حسین کے مطابق یہ دو گنبدوں میں ١٣٨٦ھ بمطابق١٩٦٦ ء میں دوبارہ ترمیم ہوئی اور راقم بھی انکے ساتھ اتفاق کرتا ہے۔
شیخ محمد حسین ہی وہ شخص ہے جنہوں نے دونوں گنبدوں کے درمیان داخل ہوکر معلومات جمع کی ہیں اس بارے میں وہ یوں بیان کرتے ہیں:
'' بروز پیر١٩ شعبان ١٣٩٠ ھ بمطابق اکتوبر ١٩٧٠ ء کو میں حرم کے چھت پر چڑھ کر آثار کو اپنے آنکھوں سے دیکھا اور گنبد کے درمیان سوراخ اور گزرگاہ میں داخل ہوا ۔ اور ایک کاغذ کے اوپر دائیں بائیں اور سامنے سمتوں کا اشارہ لکھا تاکہ مجھے نکلنے میں آسانی ہو کیونکہ اندر اس کی بناوٹ میں مختلف شاخیں بنی ہوئی تھی اور اس کے حجم کا اندازہ ایسا تھا کہ ایک آدمی جھک کر داخل ہوسکتا تھا اسی لئے محققین اس زحمت کو برداشت نہیں کرتے تھے اس عمل میں میرے ساتھ اُستاد معمار شیخ محمد علی جو کہ معمار حاج سعید نجفی کے نائب تھے ان کی مدد شامل رہی۔
موصوف نے ١٨٩٠ھ / ١٩٧٠ ء میں گنبد کے ایک اور جانب ترمیم کے بارے بتایا کہ
''وہ دوبارہ دوسرے دن بروز منگل مشرق کی جانب ایک چھوٹے طلائی دروازے سے چڑھا تھا۔ یہاں سے حرم کی چھت پرجانے کے لئے لکڑی کا زینہ لگا ہوا ہے اور وہاں سے اسی زینے سے گنبد کے اندر داخل ہوسکتے ہیں اس طرح بعد میں گنبد کی ترمیم کے دوران ماہرین پورے گنبد کو ایک ہی دفعہ میں گرانے کے بجائے پہلے آدھا میٹر توڑتے تھے پھر اس کو بناتے تھے ۔ اس کے بعد آگے توڑتے تھے ا س طرح اس طریقے سے پورے گنبد کاکام مکمل کرتے تھے اسکی وجہ یہی تھی کہ دونوں گنبدوں کی اصل شکل باقی رہنے کے ساتھ خوبصورت کاشانی ٹائل کو نقصان نہ پہنچے جو گنبد کے داخلی حصے کو مزین کیا ہوا ہے۔نچلے گنبد کے طلائی رباط کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے گرایاگیا تھا پھر دوبارہ جدید رباط لگایا جسے قرآنی آیات سے مزین کیا ہوا ہے۔''
١٣٥٩ھ / ١٩٤٠ ء سے قبل فرشِ روضہ مبارک پر سفید رنگ کے سنگ مرمر بچھے ہوئے تھے جو نجف اشرف کے جنوب سے بمقام ''مظلوم ''سے لایا گیا تھا لیکن اسی سال بوہری امام طاہر سیف الدین نے اعلیٰ قسم کی اٹلی کے سنگ مرمر میں تبدیل کیا جسے شیخ جعفر محبوبہ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ شیخ محمد حسین حرز الدین کے مطابق مذکورہ امام صاحب نے قبر مطہر میں ایک چاندی کی کھڑکی بھی نصب کروائی تھی جبکہ ڈاکٹر حسن حکیم بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے روضہ مبارک کیلئے انتہائی قیمتی سنگ مرمر ١٩٣٧ ء کو ہدیہ کیا تھا۔
یوں تو روضہ مبارک ١٢٠٤ ھ / ١٧٩٠ ء میں ہی کاشانی طرز کے آرائش سے مزین کیا ہوا تھا اور روضہ مبارکہ چاروں اطراف میں دیواروں پر نیچے سے اوپر تک تزئین و آرائش کا مجسمہ بنا ہوا ہے اور اس کے اوپر مختلف فنی اشکال و جیومیٹریکل اشکال بنی ہوئی ہے۔ شیخ محمد حسین کے مطابق اس تزئین و آرائش کے اخراجات کس نے کی اس کا کوئی نام درج نہیں ہے سوائے یہ کہ اس تعمیر نو کی تاریخ ابجدی حساب میں جنوبی طرف بالائے سر کی جانب چار میٹر کی بلندی پر لکھا ہوا ہے۔
ایرانی شاہ محمد رضا پہلوی نے بارہ ہزار دینار روضہ مبارک کی شیشہ کاری کے لئے وقف کئے تھے اور ماہ شعبان ١٢٦٩ھ /١٩٥٠ ء میں قدیم شیشوں کو اکھاڑنا شروع کیا گیا اور گنبد کا گردن کے نیچے بارہ مثلث کی شکل ہے جس میں ہر شکل مثلث میں بارہ اماموں کے اسمائے گرامی کی کتابت بڑے خوبصورت انداز میں کی ہوئی ہے اور شیشہ کاری کا یہ عمل ٢٦جمادی الاوّل ١٣٧٠ھ / ١٩٥١ ء تک جاری رہا اس فن کا نظریہ حسین کیانفر نے پیش کیا جبکہ اسے عملی جامہ حاجی سعید نجفی نے پہنایا۔ اس علامت کی تاریخ فارسی کے شعر میں موجود ہے جو روضہ مبارک کے دائیں جانب مشرقی دروازے کی دیوار پرلکھا ہواہے لیکن پرانے سابقہ مآ خذ میں دوسری تاریخیں ابجدی حساب کے عدد میں لکھی ہوئی ہیں جو بعض شعراء کی طرف اشارہ ہے جن میںشیخ عبد المنعم الفرطوسی بھی شامل ہے۔
بیرونی گنبد پر باہر سے کاشانی ٹا ئلیں لگی ہوئی تھی یہاں تک کہ نادر شاہ کے عہد ١١٥٦ھ بمطابق١٧٤٣ ء تھا پھر انہوںنے ان تمام تختیوں کو طلائی مربع شکل میں جن کی لمبائی ٢٠سینٹی میٹر ہے ان ٹائلوں کی کل تعداد ٧٧٧٢ہے اس طلائی عمل میں بے تحاشہ اموال خرچ ہوا ہے اور دو سو(٢٠٠)کے قریب کارمندوں نے شرکت کی جن میں مختلف ممالک عربی، فارسی، ترکی، چینی
ماہرین تھے۔ ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق اس پر تقریباً ٥٠ملین دینار خرچ ہوا جبکہ شیخ جعفر محبوبہ نے مختلف تواریخ سے نقل کیا ہے کہ اس کار خیر پر تقریباً ٠٠٠ ٥تومان خرچ ہوا پھر وہ اپنی کتاب کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ مذکورہ رقم صرف کام کی اجرت ہے جبکہ پیتل، طلاء ، جو نادرشاہ نے دی تھی وہ الگ ہے اور آگے وہ مزید بیان کرتے ہیں کہ ایک شاہی تومان سو تومان رائجہ کے برابر ہے ۔ عزّاوی کے مطابق ایک تومان دس ہزار دینار کے برابر ہے اور ہر دینار چھ درہم کے برابر ہے ، ایک جرمنی سیاحNABURجب ١٧٦٠ ء میں نجف اشرف پہنچا تو اس زمانے میں ایک چوکور پیتل کی تختی پر طلاء چڑھانے کی مزدوری ایک طلائی تومان سے زیادہ ہوتا تھا ۔ روضہ مبارک ، رواقوں، اور طلائی ایوان کی دیواروں پر خوبصورت اٹلی کے سنگ مرمر لگنے سے قبل ریشم کے پردے لگے ہوئے تھے ایک بادشاہ حرم مبارک میں زیارت کے لئے آئے تو انہوں نے سنگ مرمر کے ٹائل لگوائے۔
مرقد مطہر کی جالی
مرقد کی کھڑکی کے حوالے سے صحیح تاریخ معلوم نہیں کہ یہ سب سے پہلے کب نصب ہوئی؟ ہاں!تاریخ کی کتابوں میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ ١٠٧٣ھ/١٦٦٣ ء سے قبل قبر مبارک پر کھڑکی تھی اور اسی سال ایک وبائی مرض میں مبتلا خاتون صاحب مرقد کی برکت سے شفا یاب ہوئی تھی اس حکایت کو علامہ مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار میں بیان کیا ہے لیکن ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق سب سے پہلی کھڑکی کی خوبصورتی اور فن اسلوب دسویں صدی ہجری عہد صفوی میں ملتا ہے اور مذکورہ کھڑکی ابھی تک روضہ مبارک کی اسٹورمیں محفوظ ہے۔ اس حوالے سے شیخ جعفر محبوبہ اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ وہاں صندوق میں ایک لوہے کی فولادی کھڑکی رکھی ہوئی ہے کیونکہ اس کے بعد چاندی کی لگی تھی پھر اس کے کئی مرتبہ اصلاحات ہوئی اسی طرح ایک مرتبہ ١٢٠٣ھ میں بھی اصلاحات ہوئی تھی۔ ''کتاب تحفة العالم ''میں نقل ہوا ہے کہ مذکورہ کھڑکی کی تعمیر سلطان محمد شاہ قاچاری نے اس طرح کی تھی کہ انہوں نے ایران میں ١٢١١ھ بمطابق ١٧٩٧ ء میں یہ کھڑکی بنواکر کر علامہ آقا محمد علی الہزار جریبی کے ہمراہ نجف اشرف میں بھجوائی تھی اور مذکورہ کتاب کے حاشیے میں یہ درج ہے کہ موصوف آقا نے ١٢٦٢ھ /١٨٤٦ ء میں وفات پائی اور ایوان العلماء میں دفن ہوئے لیکن ان کی حالات زندگی ایک اور کتاب ''تکملة امل الآمل ''میں بھی بیان ہوئی ہے اس کے مطابق قمشہ فارس میں ١٢٣٥ھ کو وفات ہوئے اور شاہ سید علی اکبر کے مقبرے کے پاس دفن ہوئے ۔ ڈاکٹر حسن حکیم نے اپنی کتاب میں یہ اشارہ کیا ہے مرقد مطہر پر ١٢٠٢ھ /١٧٨٨ء میں نصب ہوئی تھی تاہم یہ بات انہوں نے ''العالم العربی'' نامی ایک اخبار میں 6-6-1942کو چھپے ہوئے ایک مضمون پر اعتماد کرتے ہوئے بیان کیا ہے ۔ جبکہ شاہ محمد خان قاچاری نے ١٢٠٣ھ / ١٧٨٩ ء کو اس کی تعمیر کی تھی لیکن الکوفی اپنی کتاب ''نزہة الغریٰ ''میں نقل کرتے ہیں کہ ١٢٠٢ھ میں روضہ مبارک پر چاندی کی کھڑکی نصب تھی پھر ١٢٠٣ھ میں اس کی تعمیر ہوئی اس کے بعد ١٢٠٥ھ میں دوبارہ تعمیر ہوئی ۔ کہا جاتا ہے کہ سلطان محمد شاہ بن عباس شاہ کے وزیر عباس قلی خان نے ١٢٦٢ھ /١٨٤٦ ء میں روضہ مبارک کے لئے ایک نئی جالی ہدیہ کی تھی جس کے اطراف میں بالائی محرابوں پر قرآنی آیات، آئمہ کرام کے نام اور فارسی اشعار امام علی کی شان میں لکھے ہوئے تھے اور چاروں کونوں کے اوپر خالص طلائی گول گنبد بنی ہوئی تھی ۔ پھر مشیر سیّد محمد شیرازی نے بھی اسے چاندی میں تبدیل کیا اس کے دروازے پر اپنا نام اورتاریخ تعمیر بڑے سنہرے حروف میں لکھوادی۔ یہاں پر شیخ محمد حسین اپنی تاریخ میں یوں بیان کرتے ہیں کہ
''ہم نے اسی کھڑکی کو وہاں پر نصب ہوا دیکھا اور مذکورہ کتابت پڑھی اور اس کی بناوٹ لاثانی تھی جس پر قرآنی آیات اور احادیث نبویۖکمال دقت کے ساتھ نقش کی ہوئی تھیں اور اس کے ساتھ ابن ابی الحدید معتزلی کے قصیدے چند اشعار اور ایک شاعر شیخ ابراہیم صادق عاملی متوفی ١٢٨٨ھ بمطابق١٨٧١ ء کے چند اشعار کھڑکی کے سامنے اور بالائے سر کی جانب والے حصوں پر سنہرے حروف سے لکھے ہوئے تھے۔ ''
کہا جاتا ہے کہ یہ کھڑکی ١٣٦١ھ / اپریل ١٩٤٢ ء میں اکھاڑکر صحن شریف کے جنوب مشرقی جانب ایک کمرے میں رکھی کی گئی اور پھر ٢٥سال بعد اسے حرم کے دوسرے نوادرات کے ساتھ مخصوص اسٹور میں منتقل کی گئی۔
موجودہ کھڑکی کی جالی
اگر چہ شیخ جعفر محبوبہ اور ڈاکٹر سعاد ماہر نے سابقہ کھڑکی کو اس کی خوبصورتی اور دقیق فن آرائش کی وجہ سے باقی کھڑکیوں پر فضیلت دی ہے لیکن اس کے باوجود موجودہ کھڑکی کی بڑائی اہل بیت کے مراقد کی تمام کھڑکیوں سے قیمتی، خوبصورتی، طرز بناوٹ کے لحاظ سے زیادہ ہے اور پوری دنیا میں تمام مشہور تحفوں سے بڑا ہے اور دیکھنے والا ان اہل فن و ماہرین کے احترام کئے بغیر نہیں رہ سکتے جنہوں نے ان منفرد و ممتاز تحفے کو وجود میں لایا جس کی خوبصورتی قلم بیان کرنے سے قاصر ہے ۔
اس نادر تحفے کو ہندوستان کے بوہری امام طاہر سیف الدین نے ہدیہ کی تھی اور اس کے بنانے اور طلائی کرنے میں ہندوستان کے مشہور ماہرین نے شرکت کی تھی اور اس کار خیر کو انہوںنے پانچ سال کی مدت میں مکمل کیا۔ اور کہا جاتا ہے کہ اس پورے عمل پر دس ملین گرام چاندی اور٥٥٥٢گرام سونا خرچ ہوا تھا اور اس زمانے کے لحاظ سے یہ اسّی ہزار دینار کے برابر ہوتا تھا اور یہ جالی دار کھڑ کی روضہ مقدس کے ٣٠سینٹی میٹر بلند نفیس اٹلی کے سنگ مرمر پر نصب کی گئی تھی اور اس کھڑکی کے لئے بالکل جنوب مشرق میں پرانے جالی دار دروازوں کی طرح ایک چاندی کا دروازہ ہے اور یہ صرف عظیم الشان علماء ، ملوک، سلاطین، کے لئے کھلتا ہے ، مرقد مطہر پر ایک صندوق بھی ہے جو اس دروازے سے تقریباً ایک میٹر کے فاصلے پر ہے اس کے مختلف تالے لگے ہوئے ہیں ۔ آج کل یہ ہر مہینے میں صرف ایک بار حرم کی کمیٹی کے ارکان کے سامنے کھلتا ہے اور ان کے ساتھ ایک قاضی بھی شامل ہوتے ہیں پھر وہاں موجود تمام نذورات کو نکالا جاتا ہے اور پلاسٹک کے تھیلوں میں ڈالا جاتا ہے اس کے بعد دوبارہ مضبوطی سے یہ دروازہ بند کیا جاتا ہے اس کے یہ تمام نذورات کی فہرست تیار کرکے ایک رجسٹر میں لکھا جاتا ہے قاضی سمیت کمیٹی کے تمام افراددستخط کرتے ہیں۔پھر ان تمام چیزوں کی کسی خاص مقام میں صفائی کی جاتی ہے اس دوران خدام کا گروہ روضہ مبارک کے اندر و باہر اور مرقد مطہر کے تمام اطراف کی صفائی کرتے ہیں اس مناسبت سے بعض مہمان وہاں پر نماز و زیارت سے مشرف ہوتے ہیں ۔ راقم کو اس اعزاز بڑی لمبی مدت بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا تھا جب ١٣ذی القعدہ ١٤٢٩ھ / 12-11-2008کو بعض مہمان کے ہمراہ کمیٹی کے بعض افراد کے ساتھ روضہ مبارک کے اندر داخل ہونے کا شرف حاصل ہوا اور میں اسی کھڑکی سے وہاں موجود صندوق کی طرف داخل ہوا اور سر امیر المومنین کے پاس نماز ادا کرنے کی توفیق حاصل ہوئی اور میرے اندر اس مناسبت سے ایک روحانی اثر داخل ہوا جسے میری زبان و قلم بیان کرنے سے عاجز ہے۔
ڈاکٹر حسن حکیم اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں ١٣رجب المرجب ١٣٦١ھ بمطابق ٢٧جون ١٩٤٢ ء امیر المومنینـکی ولادت کی مناسبت کے موقع پر اس کھڑکی سے پردے ہٹائے گئے اور وہاں عظیم جشن کا اہتمام ہوا جس میں عراقی وزیر اعظم نوری سعیدی اور رکن پارلیمنٹ سید عبد المہدی المنتفکی نے بھی شرکت اور خطاب کیا اور بہت سارے قصیدے امام کی شان میں کہے گئے۔
روضہ مبارک سے متعلق تمام کتابوں میں محدثین نے شدید تعجب میں مبتلا ہو کر بڑی خوبصورت نعتیں کہیں اور یہ ہے بھی بجا کیونکہ یہ پوری دنیا کے خوبصورت فنی آثار میں شامل ہیں اور اس حوالے سے جو شیخ محمد حسین نے بیان کیا ہے میں ان پر اعتماد کروں گا کہ اس کے چاروں اطراف پٹیاں طلائی حروف سے یوں لکھی ہوئی ہیں:
پہلی پٹی
جو کہ سب سے نیچے ہے جس پر ہدیہ کرنے والا یعنی طاہر سیف الدین کا قصیدہ لکھا ہوا ہے اس کے بعد اس جگہ ابن ابی الحدید کے امیر المومنین کی مدح میں کہا ہوا قصیدہ لکھا یا ہے ۔ دراصل یہ کام ایران میں ہوا تھا کہ ایک چاندی کی پٹی پر آبگینہ آسمانی اور مختلف رنگوں میں لکھا گیا اور یہ لاکر متبرع امام طاہر سیف الدین کے قصیدے کے اوپر رکھا گیا اور یہ کام تمام فن کمالات سے پُر کیا ہوا ہے اور اس پٹی پر جگہ جگہ خوبصورت بیل بوٹوں کو مختلف رنگوں میں دکھایا گیا اور اس نقوش کے درمیان احادیث نبویۖلکھ کر اسے اوج کمال تک پہنچایا گیاہے۔
دوسری پٹی
اس پر قرآنی سورتوں کی کتابت ہوئی ہے جو کہ سورة الدہر جنوب مغربی رکن سے شروع ہوتی ہے پھر اس کے بعد سورة الغاشیة، سورة الانشراح، سورة الکوثر، سورة الاخلاص، اور آیة الکرسی پر ختم ہوتی ہے۔
تیسری پٹی
یہ دوسری پٹی کے اوپر ہے اس پر امیر المومنین اور آئمہ معصومین کی شان میں احادیث کی کتابت ہوئی ہے جو جنوب مغربی رکن پر ختم ہوتی ہے اور آخر میں یہ عبارت درج ہے:
'' عبد اﷲ وعبد ولیّہ ا میر المومنین الدّاعی لی حبّ آل محمّد الطّاہرین ابو محمد طاہر سیف الدّین من بلاد الھند سنة ١٣٦٠ھ / ١٩٤١ ئ۔''
اور اس پٹی کے نیچے چاندی پر ایک زرکش ہے جو انگور کے درخت اور بیلوں اور بڑے واضح گچھوں کا خاکہ پیش کرتا ہے اور اس کے اوپر چھوٹے چھوٹے ستوں پر لمبائی میں ٢٨تاج جبکہ چوڑائی میں ٢٢تاج ہیں اور ہر تاج کے درمیان میں اسمائے حسنی سنہرے حروف سے لکھا ہوا ہے۔
چوتھی پٹی
اس پر سورة مبارکہ الرحمن کی کتابت ہوئی ہے اور بالائی جالیوں کے شرفوں کو بڑے بڑے طلائی گولوں سے مزین کیا ہوا ہے ان کی تعداد لمبائی عدد جبکہ چوڑائی میں ٢٢عدد گولے ہیں اور جالی مغرب کی طرف لمبائی میں پانچ چھوٹے چھوٹے پنجرے لگے ہوئے ہیں جبکہ چوڑائی میں چار چھوٹی جالیاں لگی ہوئی ہیں۔
|