ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)
 

حدودِ صحن سے قریب عمارتیں
صحن شریف کے حدود کے قریب چند عمارتیں واقع تھیں ۔ان میں سے بعض ٢٠ویں صدی میں صحن کے احاطے کی سڑک کی توسیع کی وجہ ڈھائے گئے اور بعض کے کچھ حصے ڈھائے گئے جبکہ دوسرے ویسے ہی موجود ہیں۔ لیکن بعض کی نشانیاں روضہ مقدس کی مسلسل اصلاحات کی وجہ سے تبدیل ہوئی ہیں اور جو عمارتیں تھیں وہ یہ ہیں:

مسجد عمران
اس کی تاریخ کی بات گزر چکی یہ صحن شریف کی سب سے پرانی مسجد ہے بلکہ یہ نجف اشرف کی سب سے پرانی مسجدہے۔ اور اس کے ایوان علماء میں ١٣٣٤ھ /١٩١٦ ء میں سیّد محمد کاظم یزدی دفن ہوئے یہ ٢٠ ویں صدی کے ایک بزرگ شیعہ عالم تھے۔ اس مسجد میں بعض علماءے کرام نماز جماعت بھی پڑھاتے تھے۔ سیّد عبد المطلب الخرسانی نے اپنی متاب میں بیان کیا ہے:'' ہمیں معلوم ہے کہ مرجع دینی آیة اللہ العظمیٰ سیّد محسن طباطبائی یہاںموسم سرما میں نماز مغربین کی جماعت پڑھا کرتے تھے اور جب مسجد راس کی تعمیر ہورہی تھی تو یہاں اپنا درس بھی دیا کرتے تھے۔ ''
اس مسجد کے شمال مغرب کا ایک بڑا حصہ صحن شریف کے ساتھ ملا ہوا ہے اس کا ایک دروازہ رواق باب طوسی کے مغرب کی جانب کھلتا ہے جبکہ دوسرا دروازہ ایوان شمال کی طرف ہے اور جب سے عتبہ علویہ کے مرافق کو ڈھا کر وہاں اب نئی تعمیر نظر آتی ہے اور یہ پچھلے دس دہائیوں تک پانی کی ٹنکی کے لئے استعمال کیا گیا ۔ اس حوالے سے علاء حیدر المرعبی نے اپنے مقالے میں جو مجلہ الولایہ میں چھپا ہے لکھا ہے مسجد کی بنیاد میں پانی جانے کی وجہ سے نقصان ہو رہا تھا اس لئے اس کے پرانے ستون کی بنیادوں پر سیمنٹ کے مضبوط کنکریٹ لگائی گئی تاکہ مسجد کی بنیاد مضبوط ہو اور اس کے علاوہ مسجد کی بنیاد کے دوسرے اطراف میں کنکریٹ کی ڈی پی سی لگاکر مضبوط کیا گیا۔
اور یہ اصلاحات تا حال جاری ہے علاء حیدر المرعبی کے مطابق کہ انہوں نے عتبہ علویّہ کے شعبہ تعمیرات کے ڈائر یکٹر انجینئر مظفر محبوبہ سے نقل کرتے ہیں اس مسجد کو اپنی اصلی حالت میں محفوظ رکھا گیا ہے۔ جسے راقم نے خود 25-12-2008کو جاکر دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ اس کی وجہ سے بڑی اصلاحات ہوئی ہیں اور میں نے وہاں سے سمجھا کہ مسجد کے اندر سے سیمنٹ کے پلاسٹر کرکے پرانے شکل اسی طرح رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے اور صحن شریف کے اور بیرونی حجروں کے درمیان جو دیواریں تھی انہیں گرایا گیا ہے اس طرح اندرونی وسعت بھی ہوئی اور ایوانوں کی بیرونی شکل بھی پرانی حالت میں باقی رہے لیکن جس طرف لکڑی کاکام ہورہا تھا وہ اپنی حالت میں باقی رہے گا یا اس کے اوپر ساگوان کی لکڑی کا ہلکا سا غلاف چڑھایا جائے گا اس طرح قدیم نقوش بھی باقی رہے گا۔

مسجد الخضرة
یہ روضہ کی ان قدیم مساجد میں شامل ہیں جس کی تاریخ تعمیر بھی معلوم نہیں ہے یہ صحن شریف کی شمال مشرق کی ابتداء میں باب مسلم ابن عقیل کے قریب واقع ہے اور یہیں سے اس طرف ایک دروازہ بھی کھلتا ہے جبکہ دوسرا دروازہ صحن شریف کے ایوان ثانی کے مشرق کی جانب ہے ۔ ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق یہ ''مسجد مستطیل شکل میں ہے اور اس کا طول عرض سے دُگنا ہے اس کے درمیان میں ایک بڑا صحن ہے جس کے تین اطراف رواق پر مشتمل ہے لیکن قبلہ کی جانب والا رواق دو ایوان پر مشتمل ہے اس مسجد کی مشرق کی سمت کی دیوار کی لمبائی ساڑھے دو میٹر ہیں۔ رواق قبلہ اور صحن مسجد کے درمیان تین خوبصورت کاشانی طرز کی تین گنبد ہیں اور ایک کاشانی ٹائل پر مسجد کی تاریخ تجدید لکھی ہوئی ہے۔''
محمد الکوفی نے اپنی کتاب ''نز ہة الغری ''میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ترکھان علی بن مظفر نے اسے ایک نذر کی استجابت کی وجہ سے بنائی تھی کیونکہ اس کا کوئی مال گُم ہوا تھا لہٰذا اس نے یہ نذر کی تھی کہ ''اگر میرا یہ مال مجھے مل جائے تو میں اپنے مال میں سے یہ مجلس بناوں گا ''اب یہاں روایت میں لفظ مجلس آیا ہے اور اس سے مسجد مراد نہیں ہے لیکن ہوسکتا ہے یہاں لفظ مجلس مسجد ہی سے تحریف شدہ ہے کیونکہ روایت میں لفظ مجلس سے سیاق سباق سے کوئی معنی نہیں بنتا ہے لیکن پھر بھی ہم مراد تک نہیںپہنچتے کیونکہ اس سے تعین مکان نہیں ہوتا یعنی مسجد الخضرة کی طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا ہے اسی طرح روایت کا دوسرا حصہ بھی مبہم ہے کہ ''اس نے امیر المومنینـکو خواب میں دیکھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر باب وراع البرانی تک لے گئے اور اس مجلس کی طرف اشارہ کیا اتنے میں امام نے فرمایا:'' یُوفُونَ بِالنّذر'' تو میں نے فوراً کہا: '' حُبّا و کَرامةً یا امیرالمومنین'' ۔پھر وہ داخل ہوا اور کام کرنا شروع کیا۔
لیکن سیّد عبد المطلب الخرسان نے حسین شاکری کی کتاب ''کشکول ''سے نقل کی ہے کہ یہ مسجد عمران بن شاہین کی بہن ''خضراء ''نے بنوائی تھی ۔مگر سیّد عبد المطلب اس بات کو بعید گردانتے ہیں کیونکہ شاکری نے اس معلومات کا ماخذ بیان نہیں کیا ہے کیونکہ اس مسجد کا نام خضرہ ہے اور لفظ خضراء اس صدی کے لوگوں کیلئے جدید ہے۔بہر حال شاکری کی یہ رائے خوبصورت ہے اگر ہمیں خواہر عمران کی حالات زندگی معلوم ہوجائے یا کوئی ماخذ اس بات کی تائید کرے کیونکہ میرے خیال میں دراصل خضراء ہی نام تھا پھر الف ممددہ ہا ء میں تبدیل ہوا ہے ایسا عام طور پر عامةالناس تسہیل کی خاطر کرتے ہیں جعفر محبوبہ کے مطابق یہ اسم خضرہ ہے اسی وجہ سے مسجد کا نام خضرہ ہوا ہے یہ ان کا اجتہاد ہے لیکن اس کی تائید ہمیں کہیں سے نہیں ملتی ہے۔
شیخ محمد حرزالدین نے اپنی کتاب میں شیخ جعفر الشوشتری متوفی ١٣٠٣ھ/١٨٨٥ ء کی حالات زندگی میں مسجد کی وجہ تسمیہ کو بیان کیا ہے کہ ''ملالی کے زمانے میں ایک ہندی درویش نے اس مسجد سے متصل صحن میں سبزہ لگایا تھا بعد میں اسی مناسبت سے یہ مسجد الخضرہ سے مشہور ہوا۔ ''اس کی تائید سیّد عبد المطلب الخرسان کی بات سے ہوتی ہے جسے انہوںنے اپنی کتاب میں بیان کی ہے ''یہ مسجد دسویں صدی میں موجود تھی کیونکہ اس زمانے میں خاندان ملّالی کے جدّ اعلیٰ ملّا عبد اللہ صاحب ''حاشیة المنطق''شاہ عباس صفوی الاوّل متوفی ١٠٣٧ھ / ١٦٢٨ ء کی جانب سے حرم علوی کے خازن تھے۔''
لیکن خضرہ کے معنی یہاں واضح نہیں ہوا شاید یہ وجہ بھی ہوکہ مذکورہ درویش نے خاص طور سے اس مسجد کیلئے سبز رنگ کا کاشانی غلاف بنایا تھا اور اس مسجد کی ١٣٥٢ھ / ١٩٣٤ ء میں وزارت اوقاف نے تعمیر نو کی پھر یونین کونسل نے صحن سے ملحق سڑک کی تعمیر کی خاطر اس کا تیسرا حصہ ڈھایا اور ترمیم کے بعد سڑک کی جانب ایک دروازہ نکالا ١٣٨٤ھ / ١٩٦٤ ء میں مرجع دینی آیة اللہ العظمیٰ سیّد ابوالقاسم الخوئی کے حکم سے مسجد الخضرہ اور اس کے اطراف کی دوبارہ وسعت کے ساتھ شاندار انداز میں تعمیر نو ہوئی۔ یہ عمارت نجف کی مساجد میں سب سے بڑی عمارت شمار ہوتی تھی جس پر اس زمانے میں پچّیس ہزار دینار عراقی خرچ ہوا تھا اور حدودِ صحن کے مشرقی جانب ایک دروازہ نکالاگیا اور سیّد الخوئی خود یہاں درس دیتے تھے ۔ سیّد عبد المطلب الخراسان کے مطابق سیّد الخوئی اپنی ناسازی طبیعت کی وجہ سے اپنے داماد سیّد نصر اللہ المستنبط کو یہاں درس و تدریس اور اقامت جماعت کیلئے نائب قرار دیا تھا لیکن ان کے انتقال کے بعد یہ نیابت سیّد علی حسینی السیستانی کو تفویض کی جو چند سال جاری رہی پھر وزارت اوقاف نے ترمیم و تعمیر نو کے بہانے بند کروادی لیکن بروز پیر 25-05-2006کو سیّد السیستانی کے حکم سے دوبارہ کھولا گیا۔ سیّد الخوئی کا مقبرہ بھی اسی مسجد میں صحن شریف کی طرف ایک ایوان میں موجود ہے۔

مدرسة الغروریة ''حسینیة آل زینی''
یہ حدود سے ملحق عمارت ہے اور مشہور ہے کہ اسے نجف کے ایک سرمایہ دار سیّد ہاشم زینی نے بنوایا تھا۔ اور اس کے دائیں جانب شمالی حدود میں باب طوسی واقع ہے اسی میں یا اس کے قریب باب طوسی میں مجدّد شیرازی کے مقبرہ اور درس کی جگہ بھی ہے۔ اس حسینیہ کے اندر جانے کے لئے شمالِ مشرق کے زاویئے ایوان سوم میں ایک ہی دروازہ واقع ہے۔ سیّد عبد المطلب الخرسان کے مطابق اس عمارت کی پہلی منزل میں دو بڑے مستطیل شکل متوازی کمرے ہیں جن کے درمیان مربع شکل کھلا دالان موجود ہے اور اس تالان کے مغربی جانب وضو خانہ ہے ۔ جبکہ اس کی دوسری منزل میں پہلی منزل کے دو حجروں کے اوپر دو کمرے ہیں ۔ اور ان دونوں کمروں کے سطح میں دونوں منزلوں کے درمیان مستطیل الشّکل میں ایک ایوان ہے ''کتا ب الصّحیفہ ''میں یہ بھی موجود ہے کہ یہاں آب باراں اور وضو کیلئے پانی کے واسطے ایک بڑا کنواں موجود تھا۔اکتوبر ٢٠٠٥ ء کو اس حسینیہ کی عمارت کو تعمیر نو کی خاطر ڈھایا گیا اور صحن کے شمالی حدود میں مشرق کی جانب ایک نیا دروازہ نکالاگیا، اس کی تعمیر نئے طرز میں بڑے آب و تاب سے جاری ہے اس میں ان دیواروں کو بھی ڈھایا گیا جو صحن کے حجروں اور اس عمارت کے درمیان تھیں اس کے ساتھ اسماعیلی بادشاہوں کی قبروں کو بھی گرایا گیا لیکن ان قبور کے نشانات اور بیرونی شکلوں کو محفوظ رکھا گیا۔

کتب خانہ ِروضہ حیدریہ
یہ حدود صحن کے شمال مغرب میں واقع ہے یعنی مسجد عمران کے مغرب کی جانب اس کا ایک دروازہ بیرونی حدود سے ہے جبکہ دوسرا دروازہ صحن سے نکالاگیا ہے اس لائبریری کے اندر لاکھوں کی تعداد میں مطبوعہ اور مخطوطہ کتب موجود ہیں اس کے اندر خاص گوشہ ہے جہاں پر ہر زمانہ میں سیرت امیر المومنینـاور نہج البلاغہ اور اس کی شروح کی کتابیں ہیں اور اسی میں شعبہ تحقیق و نشرو اشاعت بھی ہے یہاں پر اہل مطالعہ اور محققین کیلئے بہت سارے کمپیوٹر اور ہزاروں سی ڈیز اور کھلے ریڈنگ رومز ہیں۔ بے شمار لوگوں نے اپنی پوری پوری لائبریریاں اٹھاکر اس عظیم کتب خانہ کیلئے وقف کی ہیں یہاں یہ کتابیں ان کے نام کے ساتھ محفوظ ہے وہ تمام کتب مخطوطہ بھی یہاں منتقل کی گئی ہیں جو اس سے قبل صحن سے ملحق ایک بڑے کمرے میں رکھی ہوئی تھیں۔ یہ کتب خانہ آج کل عراق کے بڑے کتب خانوں میں شمار ہوتا ہے۔

دارا لشفاء
شیخ محمدحسین حرز الدین کے مطابق یہ عمارت شاہ صفی کے حکم سے اس وقت بنایا گیا جب انہوں نے ١٠٤٢ھ / ١٦٣٢ ء میں نجف کی زیارت کی تھی اور یہ صحن شریف کے حدود کے جنوب مشرق میں واقع ہے بعد ازاں اسے گرایا گیا اور اس جگہ ایک مدرسہ بنایاگیا پھر حرم شریف سے ملحق سڑک کی توسیع کی وجہ سے اسے گرایا گیا۔