|
عمارتِ مرقد، جلنے کے بعد
عضد الدّولہ کی عمارت تقریباً چار صدیوں تک باقی رہی لیکن ٧٥٥ھ/ ١٣٥٤ ء کو روضہ کی عمارت کو آگ لگنے کی وجہ سے بہت بڑا نقصان ہوا۔ جیساکہ سیّد محسن الامین نے اپنی اعیان الشیعہ میں عبد الرحمن العتائقی کی کتاب ''الاماقی فی شرح الا یلاقی ''سے نقل کی ہے اور یہ شخص اس زمانے میں حرم شریف میں مجاور تھا اور اس آگ کو دیکھنے والے عینی شاہدین میں سے تھا اور اس کی کتاب مخطوطہ شکل میں ابھی روضہ کے خزانے میں موجود ہے۔
سید محسن امین ذکر کرتے ہیں کہ عتایقی کہتے ہیں کہ ٧٦٠ھ / ١٣٥٧ ء میں مرقد مطہر سابقہ حالت سے بہتر طریقے میں موجود تھا لیکن وہ کیفیت تجدید کا ذکر نہیں کرتا ہے۔ نہ یہ ذکر کرتا ہے کہ کس نے عمارت کی اصلاح کی۔
شیخ جعفر محبوبہ نے اپنی کتاب میں اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اسے ایلخانیوں نے بنوائی تھی جیسا کہ وہ لکھتے ہیں: ''ایلخانیوں کی حکومت کے زمانے میں نجف میں جو مساجد و مدارس و مکانات کی تعمیرات ہوئی تھی اس دوران انہوںنے روضہ علوی کی تعمیر بھی کی تھی کیونکہ شیخ کے پاس نجف و کربلا کے حوالے سے بہترین آثار موجود ہیں تو ہمارا بھی اعتقاد ہے کہ یہ عمارت انہوںنے ہی بنوائی تھی۔''
لیکن محمد حسین کتابداری نجفی نسب شناش کہتا ہے:''اس عمارت کی اصلاح بہت سارے بادشاہوں نے کی ہے اور میں خود یہاں عضد الدّولہ کی تعمیرات کے آثار دیکھے ہیں۔ ''
اس بات کی مزید توسیع ڈاکٹر سعاد ماہر نے بہت سارے علمی و عملی تحلیلات کے ساتھ اپنی کتاب ''مشہد امام علی ''شیخ جعفر محبوبہ کی متابعت میں بیان کی ہے اور موصوفہ نے تاریخ ابن اثیر کی بات کو ترجیح دی ہے کہ سلطان غازان ایلخانی نے مشہد مقدس میں دار السّیادہ کے نام سے خاص طور سے سادات کے لئے ایک عمارت بنوائی تھی۔
اور اس میں صوفیوں کے لئے ایک خانقاہ بھی بنوائی تھی اس کے بعد حرم کے مغرب کی جانب کچھ عمارت بنوائی تھی مثلاً مسجد بالائے سر جس کے محراب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ساتویں صدی ہجری میں بنا ہے اور اس مسجد کی عمارت جو مشہد سے ملحق ہے اسے دیکھ کر شیخ جعفر کہتا ہے یہ ایلخانیوں کا عمل ہے۔ لیکن اس بات پر شیخ محمد حسین حرز الدّین اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ قابل اطمینان نہیں ہے اس لئے کہ ڈاکٹر سعاد جس بات کو مانتی ہے وہ اور ٧٦٠ھ / ١٣٥٨ ء والی عمارت کے درمیان تقریباً ایک صدی کا فاصلہ ہے۔
ڈاکٹر حسن حکیم اس عمارت کو اویس بن الجلائری سے منسوب کرتا ہے کیونکہ ڈاکٹر علی الوردی کے مطابق جلائری نے ہی اس عمارت کی تجدید کی تھی اور سنگ مرمر بچھایا تھا۔لیکن اور ایک مصنف محمد النّوینی کہتے ہیں کہ میں اس بات کو نہیں مانتا لیکن یہ بات حقیقت سے زیادہ قریب ہے کیونکہ ابو اُویس شیخ حسن جلائری خود حرم میں مدفون ہے اور اس کابیٹا امیر قاسم بن سلطان حسن نویان الجلائری ٧٦٩ھ/١٣٦٧ ء کو فوت ہوا تھا اور اپنے والد کے پہلو میں دفن ہوئے تھے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حقیقت سے قریب تر یہ ہے کہ مذکورہ عمارت ان کے والد شیخ حسن الجلائیری نے تعمیر کی ہے جو ٧٥٧ھ بمطابق١٣٥٦ ء کو بغداد میں فوت ہوا بعد میں نجف اشرف میں لاکر صحن شریف کے شمال کی جانب ایلخانیوں کے خاص قبرستان میں دفن کیا گیا اور شیخ حسن نے عراق پر سترہ سال حکومت کی تھی اور ان کا دا رالخلافہ بغداد تھا۔ انہوںنے بغداد اور نجف میں بڑی نفیس اور خوبصورت عمارتیں بنوئی تھی، ان باتوں سے یہ بعید نہیں ہے کہ روضہ مبارک کی تعمیر بھی انہوں نے نہ کی ہو ان سے پہلے شیخ جعفر بحرالعلوم نے بھی اسی سے ملتی جلتی بات کہی ہے ''شیخ حسن نو نیان المعروف شیخ حسن بزرگ ایلخانی جنہوں نے عراق پر ١٧سال حکومت کی پھر بغداد میں ٧٥٧ھ / ١٣٦٧ ء کو وفات پائی اور نجف لاکر دفن کیا گیا اور انہوں نے نجف میں عظیم المرتبت عمارتیں بنوائی تھیں۔
جب مولا المشعُشی نے ٧٥٧ھ / ١٤٥٣ ء کو دو مرتبہ حملہ کیا تو یہ عمارت بھی ان کی دست برد سے نہ بچ سکی ۔ شیخ محمد حسین لکھتے ہیں کہ انہوں نے مشہد علوی اور مشہد حسینی دونوں کو لوٹ لیا تھا اور مرقد غروی کے گنبد کو چھ مہینے تک کچن بناکر رکھا وہ اس حرم کے احترام کا اس بناء پر قائل نہ تھا کہ وہ حضرت علی کی شہادت کا منکر تھا اور وہ حضرت علیـ کی ذات اقدس کے بارے میں حد سے زیادہ غلو کرتا تھا اور یہاں تک کہتا تھا ۔ نعوذباللہ! ''حضرت علی رب ہیں اور رب مرتا نہیں ہے۔''
روضہ مبارک کے خزانے کے اندر نفیس قسم کے تلواریں وغیرہ ہیں جو بعض صحابہ ، خلفاء ، سلاطین سے منسوب ہیں۔ ڈاکٹر حسن حکیم کے مطابق ''یہ کارنامہ المشعشی کا ہے کہ انہوں نے صحابہ و سلاطین کی تلواروں کو نجف میں جمع کیا اس طرح کہ ان میں سے جو بھی خلیفہ یا سلطان مرجاتا تھا تو اس کی تلوار اس خزانہ میں جمع کرتاتھا۔''
امیر تیمور لنگ نے بھی تعمیر روضہ مبارک میں شرکت کی تھی کہ اس نے ٨٠٣ھ / ١٤٠٠ ء کو نجف اور کربلا کی زیارت کی تھی۔ شیخ محمد حسین کے مطابق انہوں نے نجف و کربلا میں تقریباً بیس دن قیام کیا اس دوران انہوں نے ان کی تعمیرات میں بھی حصہ لیا۔
شیخ محمد کاظم طریحی نے مستشرق انگریز (MR.BROWN)کی کتاب ''تاریخ ایران ''پر اعتماد کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ ٩٤١ھ / ١٥٣٤ ء کے اواخر میں سلطان سلیمان نے عراق کو قانونی اعتبار سے ایرانیوں سے واپس لیا تھا اور پھر اصلاحی کام انجام دیا نجف ، کربلا کی زیارت کی اور صفویوں سے زیادہ اصلاحات کی اور ان کی معیّت میں ایک بڑی جماعت تھی جس کے بارے میں شیخ نے بیان کیا ہے: اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض روایت کے مطابق ایک شخص ایک بڑی جماعت میں سے اس وقت نکلتا ہے جب اس کی نظر دور سے حرم مطہر کے گنبد پر پڑتی ہے تو اپنے گھوڑے سے اتر کر پیدل چلنے لگتا ہے۔ جب سلطان ناس کی وجہ دریافت کی تو اس نے جواب دیا کہ وہ خلیفہ رابع کی عزت و تکریم کی خاطر ایسا کرتا ہے یہ سن کر سلطان تھوڑا سا متردّد ہوا تو اس نے قرآن کریم سے استخارہ نکالا تو یہ آیت نکلی (فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ اِنَّکَ بِا لْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُویًیہ)دیکھ کر وہ بڑا حیران ہوا اور اپنے گھوڑے سے اترا اور پیدل چلنے لگا۔
ان میں سے اکثر روایات کو ڈاکٹر علی الوردی نے(STEPHEN HEMSLEY LONGRIGG) کی کتاب ''جدید عراق کی چار صدیاں'' کے تبصرے میں نقل کیا ہے کہ جب سلیمان کی نظر گنبد مبارک پر پڑی تو وہ امام کی شان میں اشعار کہتے ہوئے اور ان کی مدح کرتے ہوئے چلنے لگا'اسکے اعضاء کانپ رہے تھے لیکن وہ نجف کی جانب چل رہا تھا۔ روضہ مقدس کی تعمیر کے بعد بے شمار سلاطین، ملوک، روسائے جمہور، وزرا، امراء ، والیان، علماء ، اصحاب ذی شان و عزّت، سیاسی ، فکری، ثقافتی بڑے بڑے لوگ، مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد اسی مٹی میں صحن شریف میں یا آس پاس کے گھروں یا اسی محلّہ میں دفن ہیں اور امام کی سیرت، فقاہت کے حوالے سے بے شمارقصائد، اشعار، آپ کی مدح میں اور آپ کی مصیبت میں مراثی لکھے گئے ہیں۔
حرم مطہر کی اصلاحات مختلف سلاطین نے مختلف ادوار میں کی ہیں اور خاص طور سے اس بے آب و گیاہ جگہ یعنی نجف میں پانی پہنچانے کے لئے بے شمار سعی و کوشش کی گئی اور بے انتہا مال و دولت خرچ کیا گیا۔ اس حوالے سے مختلف مصنفین اور محققین نے سیر حاصل بحث و گفتگو کی ہے۔ اس کے اطراف میں مختلف مساجد، مدارس اور طلّاب کی رہائش کی جگہیں مختلف صدیوں میں بنتی رہیں جو تاحال جاری ہیں اور اس علمی شہر سے اب تک ہزاروں علماء ، مفکرین ، ادباء ،فقہاء ، اہل قلم، شعراء فارغ التّحصیل ہوئے ہیں اس پر مستزاد یہ کہ یہاں آنے والے بلاد اسلامیہ کے شرق وغرب سے صرف شیعہ ہی نہیں ہوتے بلکہ غیر شیعہ بھی ہوتے ہیں۔ جب میں نے مرقدمطہر کے بارے میں تحقیق شروع کی تو اس کے بارے میں ایسی احادیث سامنے آئیں کہ جس پر بحث و تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے میں خود اشتباہ کا شکار ہو رہا تھا۔
اس تحقیق نے مجھے جس ہدف کی طرف زیادہ متوجہ کیا وہ یہ تھا کہ وہ تمام تبرکات و نذورات جو روضہ کے اندر موجود ہیں انہیں ایک ایسی جگہ میں رکھا جائے جہاںلوگ ان کی زیارت کر سکیںاور ان سے استفادہ کرنا چاہیں تو ان سے استفادہ کر سکیں۔خود امام کی سیرت کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔
لیکن افسوس کہ اس حوالے سے کبھی توجہ نہیں دی گئی ۔
اے کاش !اب بھی کوئی توجہ کرے اور اس عظیم ورثہ کی حفاظت و نمائش کا اہتمام کرے تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ ہم کیسے عظیم ورثہ کے مالک ہیں اور وہ ہماری سرزمین کے بارے میں جانیں وہ سرزمین جو انبیاء کے نزول کی جگہ ہے جو امن و آشتی کی جگہ ہے۔
تعمیراتِ صفوی
روضہ مقدس کی موجودہ عمارت کے ڈانڈے گیارہویں صدی ہجری کے پانچویں چھٹی دہائی کے درمیان ملتے ہیں۔ اگر چہ تاریخ کے مرور مراحل کے ساتھ اسی میں تبدیلی آتی رہی لیکن اس میں اختلاف واقع ہوا کہ سب سے پہلے مذکورہ تعمیر کس نے کی۔ اس بارے میں سیّد محسن الامین نے اپنی کتاب اعیان الشیعہ میں لکھا ہے کہ اہل نجف کے درمیان یہ بات مشہور ہے کہ یہ تعمیر سب سے پہلے شاہ عباس صفوی اوّل نے کروائی تھی۔ جس کی انجینئرنگ اس زمانے کے مشہور معمار شیخ بہائی نے کی تھی اور انہوں نے گنبد کے سفید رنگ کو سبز رنگ میں تبدیل کیا تھا۔
سیّد محسن الامین کے یہ بات قبول کرنے میں کچھ مناسبت نہیں ہے کیونکہ کتاب ''نزھة اھل الحرمین ''کے مولف نے ''البحر المحیط''سے نقل کیا ہے کہ اس کی ابتداء تو ١٠٤٨ھ /١٦٣٧ ء کو شاہ عباس صفوی کے حکم سے ہوا تھا لیکن یہ عمل جاری رہا اور مکمل ہونے سے قبل شاہ صفوی ١٠٥٣ھ /١٦٤٢ ء کو انتقال کرگئے تو پھر بعد ان کے بیٹے شاہ عباس ثانی نے اسے مکمل کیا اور بعد میںشاہ عباس کی طرف منسوب ہوا ہے۔
اس پورے واقعے کا خلاصہ سیّد محسن الامین یوں فرماتے ہیں کہ روضہ مقدس کی شاہ عباس اوّل کے زمانے میں تعمیر شروع ہوئی اور ان کی وفات کے بعد جاکر یہ مکمل ہوا۔ اس کے بعد مرور ایام کے ساتھ جو خرابی ہوئی تھی دوبارہ تعمیر ان کے پوتے شاہ صفی کے زمانے میں ہوئی مثلاً انہوں نے صحن کو وسیع کیا۔
شاہ عباس اوّل نے اس زمانے میں روضہ کی جو اصلاح کی تھی وہ آج اس کی اصل صورت باقی نہیں ہے بلکہ اس میں تبدیلیاں آ چکی ہیں۔
شیخ محمد الکوفی الغروی نے کتاب نزھة الغریٰ میں بیان کیا ہے کہ شاہ عباس اوّل نے بغداد پر ١٠٣٣ھ / ١٦٢٣ ء کو قبضہ کیا تھا پھر نجف میں زیارت امیرالمومنینـکیلئے گیااور زیارت کے بعد شاہ اسماعیل کی بنوائی ہوئی نہر کی تعمیر شروع کی اور اسے مسجد کوفہ تک پہنچایا کیونکہ اس کا عزم تھا کہ کاریز اور کنویں کھدوا کر کسی نہ کسی صورت روضہ مبارک میں پانی پہنچا دے لہٰذا دوسرے سال نجف کی دوبارہ زیارت کے لئے گیاتوبغداد واپس جاتے ہوئے پانچ سوآدمیوں کو وہاں چھوڑ گیا اور انہیں روضہ مبارک و صحن شریف کی تعمیر کرنے کا حکم دیا۔اور خود جانب روانہ ہوگیا۔
اس حوالے سے شیخ محمد حسین حرز الدّین قدرے زیادہ وضاحت کے ساتھ شاہ عباس اوّل کی اصلاحات کو بیان کیا ہے وہ ''تاریخ عالم آراء ''پر اعتماد کرتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ شاہ عباس اوّل نے نجف اشرف کی ١٠٣٣ھ / ١٦٢٣ ء کو دو مرتبہ زیارت کی پہلی مرتبہ اس نے وہاں دس دن قیام کیا اس دوران انہوںنے اپنے جدّ اعلیٰ شاہ طہماسب کی کھدوائی ہوئی نہر طہمازیہ کی صفائی کروائی کیونکہ یہ نہر نہایت اہم تھی اس لئے کہ اس کے ذریعے نجف تک پانی پہنچتا تھا جہاں سے لوگ پانی حاصل کرتے تھے اور اضافی پانی یہاں سے گزر کر بحر نجف میں جاگرتا تھا۔
جب انہوں نے دوسری مرتبہ نجف کی زیارت کی تو اس دوران انہوںنے گنبد علویہ کی تعمیر نو اور حرم کی توسیع کروائی۔ اس تعمیر میں تین سال لگے۔ اس میں رواق عمران کا تھوڑا حصہ گراکر صحن میں شامل کیا گیاتاکہ عمارت کا زاویہ مربع اور اس کی انجینئرنگ خوبصورت ہو جائے۔
اس کے بعد محمد حسین حرز الدین کتاب ''المنتظم الناصری ''سے بھی اسی بات کو یوں نقل کرتے ہیں کہ شاہ عباس اوّل نے نجف کی زیارت کی اور روضہ مبارک کی تزین و آرائش کروائی۔
یہاں پر شیخ جعفر محبوبہ نے اپنی کتاب ''نجف کی ماضی اور حال ''میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ١٠٤٢ھ /١٦٣٣ ء کو شاہ صفی کے حکم پر سرزمین نجف پر فرات کا پانی پہنچایا گیا تھا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جو مذکورہ تین سال حرم کی تعمیر میں لگے وہ تعمیر دراصل شاہ صفی نے کی تھی۔ کتاب نزہة الغریٰ میں کچھ مطالب کے بیان میں اشتباہ ہوا ہے۔اس ایک وجہ شاید یہ ہے اس زمانے میں نجف ایک مرتبہ پھر ترکوں کے ہاتھوں میں آیا تھا۔ ١٠٣٤ھ / ١٦٢٤ ء میں پورے شہر کا محاصرہ کیا تھا۔ ١٠٣٥ھ / ١٦٢٥ ء کو سلطنت عثمانی کے والی مراد باشاہ یہاں آئے تو اس وقت حکومتی صورت حال کچھ ٹھیک نہیں تھی اس لئے کہ عثمانی اور صفوی فوجوں کے درمیان لڑائی چل رہی تھی۔
١٠٤٢ھ / ١٦٣٢ ء کو شاہ عباس اوّل کے پوتے شاہ صفی نے نجف کی زیارت کی اور اپنے وزیر میرزا تقی خان کو گنبد مر تضویہ کی تعمیر نو اور حرم کی توسیع کا حکم دیا تو وزیر نے نجف اشرف میں تمام کار مندان و با ہنر فراد کو جمع کیا اور دلجمعی کے ساتھ حرم کی تعمیرمیں مشغول ہوا۔ اس مقصد کیلئے نجف کے جنوب مغرب کی طرف سے سفید پتھر لائے گئے تاکہ خوبصورتی میں مزید اضافہ ہو۔ اس طرح انہوں نے وہاں مجاورین ، زائرین، فقراء کیلئے دارا لشّفاء ، باورچی خانہ، زائرین کی خاطر مہمان خانے ،صحن شریف کے اندر وضو کرنے کے لئے پانی کا حوض ، زائرین کے قیام کے لئے ایوان وغیرہ بنوائے یہ تمام کام تین سال کی مدت میں مکمل ہوا۔
ڈاکٹر حسن نے اپنی کتاب میں شاہ صفی کو شاہ عباس کا بیٹا لکھا ہے جبکہ صحیح یہ ہے کہ وہ ان کا پوتا تھا۔ اس بات کی طرف شیخ محمد السماوی نے بھی اشارہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:''پھر شاہ صفی صفوی جو ان کے پوتے تھے نے عمارت علویہ کو بڑے خوبصورت و شاندار انداز سے بنوایا۔ ''
سیّد جعفر بحر العلوم کے مطابق شاہ صفی نے عتبات مقدسہ کی زیارت ١٠٤١ھ / ١٦٣١ ء کو کی تھی مگر تجدید قبہ مرتضویہ اور توسیع حرم کا عمل ١٠٤٢ھ میں انجام دیا تھا اور اسی بات کو روضہ کی عمارت کی تاریخ لکھنے والے تمام حضرات نے بیان کیا ہے جن میں سرفہرست سیّد محسن الامین ہیں۔
شیخ محمد الکوفی الغروی اور شیخ محمد حسین حرز الدّین کے درمیان دونوں حرم امام کی تعمیر نو میں توافق نہیں پایا جاتا۔ اسی طرح تنظیف نہر کی نسبت شاہ عباس اوّل کی طرف ہونے میں بھی اتفاق نہیں ہے۔ لیکن اس بات پر دونوں متفق ہیںکہ شاہ عباس اوّل نے اپنے زمانے میں عمارت کی اصلاح کی تھی اور نجف تک پانی پہنچا یا تھا۔ لیکن دوسری طرف شاہ صفی نے اپنے دور میں نہ صرف حرم کی تعمیر نو کی بلکہ حلہ کے قریب سے کوفہ تک نہر کھدوائی ور وہاں سے خورنق پھر خورنق سے زیر زمین نالیاں نجف تک بنوالیں اور شہر میں ایک حوض بنوایا تاکہ پانی وہاں جمع ہو پھر وہاں سے شہر میں سپلائی کیا۔ اس کے بعد وہاں سے ڈول کے ذریعے اوپر شہر کی گلیوں اور صحن شریف میں پہنچا۔
یہ عمارت تمام قدیم و جدید عمارتوں سے منفرد و ممتاز ہے کیونکہ علمی حوالے سے پوری دنیا میں اس طرح کی اچھی انجینئرنگ سے بنائی ہوئی عمارت موجود نہیں ہے۔
اس حوالے سے شیخ جعفر محبوبہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اس حوالے سے تمام اساتذہ فن متفق ہیں کہ موسم گرما ہو یا سرما روضہ مقدس میں وقت زوال اور طلوع و غروب کا وقت معلوم ہو جاتا ہے کیونکہ باب کبیر ایسی جگہ بنایا گیا ہے جہاں سے سال کے اکثر ایام میں سورج طلوع ہوتے ہی اس کی روشنی روضہ مقدس میں داخل ہوتی ہے اور پھر وہاں سے شہر کے مشرقی دروازہ اور بازار میں ہر طرف پھیل جاتی ہے اس منظر کو میں خود دیکھ چکا ہوں۔
اس دروازے کی خاص انجینئرنگ کو میں نے آج تک کسی اور عمارت میں نہیں دیکھا ۔ کیونکہ اس کے اندر بائیں جانب سورج کی کرنیں پڑنے سے قوس و قزح بن جاتی ہے جس کی وجہ سے اندر وقت زوال کی تعیین ہو جاتی ہے یہ اس وقت ہوتا ہے جب سورج قوس کے درمیان میں پہنچتا ہے۔اس کی تفصیل سیّد عبد المطلب خراسانی نے اپنی کتاب ''مساجد و معالم فی الروضة الحیدریة ''میں لکھا ہے:
١٠٤٧ھ / ١٦١٧ ء کو عراق پر عثمانیوں کا قبضہ ایک مرتبہ دوبارہ ہوجاتا ہے جب زمام قیادت سلطان مراد چہارم کے ہاتھوں آئی تو وہ ایک بڑی فوج لے کر عراقی سرزمین میں داخل ہوا تھا۔
اس حوالے سے شیخ محمد کاظم طریحی نے اپنی کتاب میں یوں لکھا ہے:''بعض ترک مخطوطات میں یہ آیا ہے کہ سلطان مراد خود بروز پیر ١٨رمضان المبارک ١٠٤٩ھ / ١٦٣٩ ء کو بغداد زیارت امام علیـ و امام حسینـکے لئے گئے تھے ۔
لیکن اس معلومات کا موصوف نے کوئی حوالہ بیان نہیں کیا ہے۔
تعمیراتِ نادر شاہ
اگر نجف کو ہم سابقہ صدی کے نصف اواخر میں دیکھیں تو یہ شہر اس قدر وسیع وبا رونق نہیں تھا جہاں آج سورج کی روشنی حرم مطہر کے میناروں پر پڑکر دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کرد یتی ہے اور یہ صورت فضاء کے اندر ایک نہایت ہی خوبصورت منظر پیش کرتا ہے کہ تعریف کرنے والے عاجز ہوجاتے ہیںلیکن اس کے ضمیر و وجدان میں یہ منظر اور مضبوط ہوجاتا ہے حرم مطہر کے گنبد اپنے دونوں میناروں کے ساتھ، صحن اپنی دیواروں کے ساتھ اور خزانے قیمتی تحائف کے ساتھ پوری دنیا میں نمایاں ہیں۔ اس حقیقت کا اندازہ اس وقت بھی ہوا جب مشہور جرمنی سیاح(NABOOR)٧٦٥ھ /١١٧٩ ء کو نجف اشرف پہنچا تھا۔ تو وہ یوں لکھتا ہے کہ ''اس کی چھت پر کثیر رقم خرچ کی گئی ہے جس سے اس کی تزئین و آرائش دوبالا ہو گئی ہے اور اس کے اوپر سونے کے رنگ چڑھا ئے ہوئے ہیں، جس کی رونق و خوبصورتی کی مثال پوری دنیا میں نہیں ہے ۔''
موسوعہ نجف اشرف میں بھی آیا ہے کہ اس کے بارے میںایک انگریز سیاح LOFST جب نجف میں ١٢٦٩ھ / ١٨٥٣ ء میں پہنچا تھا تو جب اس کی نظر دور سے گنبد مبارک پر پڑی تو اس نے اپنے احساسات کا اظہار یوں کیا:''یہ بڑا گنبد جو سونے سے ڈھکا ہوا ہے جس کو دور سے دیکھنے والے کی آنکھیں خیرہ کرتی ہیں جب اس پر سورج کی شعاعیں پڑتی ہیں تو اس وسیع صحراء میں یہ ایک سونے کا ٹیلہ جیسا لگتا ہے ۔''
اس بے آب و گیاہ ٹیلے کی دہشت اس وقت ختم ہوجاتی ہے جب یہ معلوم ہو کہ وہاں اسلام کی رمز عظیم امام علی دفن ہیں اور لاکھوں ، کروڑوں لوگوں کی یہ خواہش و اصرار ہوتی ہے کہ اس کی قربت حاصل کرے اس کی زیارت کرے اورعذاب برزخ سے ان کی شفاعت سے نجات حاصل کرے اور دنیا و آخرت میں ان سے کامیابی و کامرانی کی امید لگاتے ہیں۔اگر ان کی روضہ مقدس کی تعمیر کے حوالے سے ١٣٢ھ/ ٧٥٠ ء میں جائزہ لیں تو کوشش کرتے ہیں کہ ہم جلد ہی اس خوبصورت اور پر کشش منظر تک پہنچ جائیں۔
ہم اس تاریخ سے گزرتے ہیں کہ ترک اور ایرانیوں کے درمیان اس زمانے تک چپقلش چل رہی تھی جس کی وجہ سے شہر نجف کے ارد گرد دیوار بنائی گئی جیسا کہ محمد حسین اپنی کتاب میں یوں لکھتے ہیںکہ ''اس کے پیچھے ایک بڑی خندق کھودی گئی اور خشکی کے طرف چونے کے پتھر سے دیوار چنی گئی'' لیکن موصوف نے اس دیوار کی نسبت کسی کی طرف نہیں دی ہے۔ عراق میں فارس اور عثمانی جھگڑوں و چپقلش کی وجہ سے اور دوسری طرف مذہب تشیع کی غلبہ کی وجہ سے روضہ مقدس کی زیارت و تعمیر نو زیادہ ہوئی جس کی وجہ سے اس شہر کی اہمیت اور بڑھ گئی۔
شیخ محمد حسین نے اپنی کتاب میں ''تاریخ الجزیرة والعراق والنّھرین ''سے نقل کیا ہے کہ والی عثمانیہ خاصکی باشاہ جس کی حکومت١٠٧٠ھ / ١٦٥٩ ء میں ختم ہوئی تھی نے مرقد میر المومنین پر ایک مینارہ کا اور اضافہ کیا تھا لیکن اس وقت اس کے کوئی آثار باقی نہیں ہیں اس کے چند برس بعد بنی عثمان کے بعض والیان جب نجف پہنچے تو انہوں نے شاہی نہر کی صفائی کروائی اس کے علاوہ اور بھی نہریں کھدوائیں تاکہ شہر میں پانی کا سلسلہ برقرار رہے اور ١١٢٦ھ / ١٧١٣ ء کو والی بصرہ حسن باشاہ نے روضہ مقدس کی تعمیر نو کی اور اسے خود انہوں نے مرقد مطہر میں رکھوا دی اور اس کے اوپر مناسب کپڑے ڈھانپ دئیے۔
شیخ محمد حسین یہ بھی لکھتے ہیں کہ انہوں نے گنبد کی بھی تعمیر نو کی تھی ''انہوںنے وہاں خوبصورت بلند و بالا چھت بنوائی تھی ، یہ واقعہ ١١٢٩ھ/١٧١٦ ء کا ہے، موصوف مزید آگے لکھتے ہیں کہ ''دوسال بعدحرم کے اندر لکھے ہوئے کتبات رکھے گئے اوریہ حرم کے اندر سب سے پرانی تاریخ ہے جو آج تک ہے۔''
جب نادر شاہ اِفشاری ایران سے اپنی فوج کے ساتھ ہندوستان فتح کرنے کیلئے نکلا تو دہلی کے مقام پر ١٧٣٨ ء کو ان کے اور ہندوستانی فوج کے درمیان معرکہ آرائی ہوئی جس کی وجہ سے ہندوستانی فوج کو بری طرح شکست ہوئی اور ہندوستانی بادشاہ شاہ محمد گرفتار ہوا لیکن نادر شاہ نے انہیں معاف کیا اور اس کی حکومت اس کو واپس دے دی اس کے عوض میں شاہ محمد نے اپنے اسلاف کے خزانے نادرشاہ کو پیش کئے جن میں عرش طاووس اور مشہور الماس جو آج کل حکومت برطانیہ کے پاس ہے اس کے علاوہ بے شمار و قیمتی اشیاء شامل ہیں۔ ڈاکٹر علی الوردی لکھتے ہیں کہ نادر شاہ نے ١١٥٣ھ /١٧٤٠ ء کو ان میں سے چند تحائف و ہدیے مرقد ابو حنیفہ اور دوسرے آئمہ کے مراقد کے بھیجے ۔'' اور جو تحائف مرقد علوی کے لئے مخصوص کئے تھے وہ بہت بڑے ہیں جو آج تک وہاں موجود ہیں اور احتمال قوی ہے کہ یہ وہی چیزیں ہیں جو انہوں نے ہندوستان سے لی تھی ''پھر انہوں نے بہت سارے اور بھی اموال بھیجے تاکہ مرقد مطہر کے گنبد ، مینار وں اور ایوان کے اوپر سونا چڑھا دیا جائے اور یہ کام ١١٠٠ھ / ١٧٤٢ ء کو شروع ہوا۔
ڈاکٹر الوردی نے یہ بھی لکھا ہے کہ نادر شاہ نے عثمانی بادشاہ کو ١١٥٦ھ /١٧٤٣ ء میں یہ پیغام بھیجا جس میں انہوںنے رسمی طور پر مذہب جعفری قبول کرنے کا تقاضا کیا لیکن باشاہ کے علماوں نے اس کا یوں جواب دیا ''شیعہ دین اسلام سے خارج ہے لہٰذا ان کو قتل کرنا اور قید کرنا شرعاً جائز ہے ''اور یہ جواب نادرشاہ تک پہنچا تو اس نے دولت عثمانیہ پر حملہ کرنے کی ٹھان لی، اور عراق کی جانب اس کی فوج بڑھی اور شہر مندلی سے داخل ہوئی پھر کرکوک' اردبیل کو ختم کرتے ہوئے ماہ ستمبر کے اواخر تک موصل کے قریب پہنچ گئی اور اسے بیالیس دن تک محاصرے میں رکھا اور آخر کار اس کے حاکم کے ساتھ صلح کرنے پر مجبور ہوئے اس کے بعد نادرشاہ وہاں سے بغداد کی طرف رخ کیا اور کاظمیہ میں اترے وہاں امام موسیٰ کاظمـاور امام محمد تقیـکے مرقد کی زیارت کی پھر دریا پار کرکے مرقد ابو حنیفہ کی زیارت کی اس کے بعد وہ اوروالی بغداد احمد بادشاہ کے درمیان خط وکتابت جاری رہی یہاں تک کہ اس نے آخر کار اقرار کیا کہ ''مذہب شیعہ صحیح ہے اور یہ تصدیق کی کہ یہ مذہب جعفر الصادقـ ہے پھر نجف میں جاکر امام علی ابن ابی طالب کی زیارت کی اور وہاں گنبد دیکھا تو اسے سونے سے تعمیر کرنے کا حکم دیا ''اس کے لئے ڈاکٹر علی الوردی کی کتاب ''لمحات'' کو ملاحظہ کیجئے۔
سیّد جعفر بحر العلوم کہتے ہیں کہ حرم شریف میں سونے کا کام ١١٥٤ھ /١٧٤٢ ء کو شروع ہوا اور ١١٥٦ھ / ١٧٤٣ ء کو مکمل ہوا۔
نادر شاہ نے صرف یہ کام سر انجام نہیں دیا بلکہ روضہ مقدس کیلئے اعلیٰ قسم کے تحفے تحائف اور ہدیے بھی وقف کئے جیسا کہ سیّد محسن الامین نے اپنی کتاب اعیان الشیعہ میں بیان کیا ہے کہ انہوںنے مشہد شریف کے لئے جواہر و تحفے اور بہت ساری چیزیں وقف کیں۔ یہ عطیات انہوں نے ١١٥٦ھ / ١٧٤٣ ء یا ١١٥٤ھ / ١٧٤١ ء کو دیئے تھے اور اپنا نام باب شرقی کے اندر طاقچہ میں اس طرح لکھا:
''المتوکّل علی الملک القادر السّلطان ناد ر''
سیّد جعفر بحر العلوم کے مطابق انہوں نے ''یہ ایوان شرقی پر جو رواق شرقی سے متصل ہے سونے کے حروف سے لکھا اور وہ عبارت یوں ہے:
''الحمد ﷲ تعالیٰ قد تشرّف بتذہیب ھذہ القبّة المنوّرة و الرّوضة المطھّرة الخاقان الاعظم سلطان السّلاطین الافخم ابوالمظفر المویّد بتائید الملک القاہر السّلطان نادرا دمَا للہُ ملکہ و سلْطَنَتہُ ''
اس کی تاریخ ١١٤٦ھ لکھی ہوئی ہے۔
اسی طرح محمد حسین حرز الدین نے بھی مختلف کتابوں کے حوالے سے مثلاً اپنے جد بزرگوار محمد حرز الدین کے حوالے سے لکھا ہے۔
سیّد جعفر بحر العلوم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ شاہ کی زوجہ گوہر شاہ بیگم نے صحن مقدس کی دیواروں کی کاشہ کاری کے لئے ایک لاکھ ایرانی تومان عطا کئے تھے اور سیّدہ رضیہ بنت سلطان حسین الصّفوی نے مسجد بالائے سرکی تعمیر کے واسطے بیس ہزار تومان عطا کئے۔
محمد حسین نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ سلطان نادر شاہ کی زوجہ ملکہ گوہر شاہ بیگم نے مرقد مقدس کی دیوار کی ترمیم کے واسطے ایک لاکھ نادری (سکہ)خرچ کیا اور صحن میں نئی قاشانی ٹائلیں لگانے کیلئے بے شمار رقوم عطا کیں اور یہ کام ١١٥٦ھ/١٧٤٣ ء کو شرع ہوا اور ١١٦٠ھ/ ١٧٤٧ ء کو مکمل ہوا۔ اسی طرح انہوں نے قیمتی پتھر سے بنی ہوئی ٹنکی اور پانی گرم کرنے کیلئے سونے کے برتن روضہ اقدس کو ہدیہ کیے۔ ''١١٥٦ھ / ١٧٤٣ ء کو حرم کے اندر گنبد پر کتابت کا کام بھی تمام ہوا'' یہ تمام کتابت سفید لاجورد سے خوبصورت لکھائی میں ہے اور اس کے کنارے اوپر سے مزین ہیں اوریہ تمام کام سلطان نادر شاہ کے آثار میں سے ہیں کیونکہ مذکورہ کام کاتب ''مہر علی ''کے ہاتھوں ١١٥٦ھ / ١٧٤٣ ء کو مکمل ہوا ہے۔
ڈاکٹر علی الوردی نے اپنے والد کے ڈائری اور اپنے جد بزرگوار کی کتاب ''النوادر ''سے نقل کی ہے کہ سلطان نادر شاہ نے ١١٥٧ھ / ١٧٤٤ ء کو بھی حرم مقدس کی زیارت کی تھی لیکن شاہ عباس اوّل کے بنائے مکانات جو حرم کے سامنے واقع ہے سے داخل نہیں ہوئے اور یہ جگہ کچھ عرصے بعد میں بازار بن گئی اب یہ نجف کے اہم اور بڑے بازاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ بلکہ نادر شاہ ایک چھوٹی سی تنگ گلی جو باب قبلہ کی طرف تھی سے داخل ہوئے اور صاحب حرم کے سامنے اپنے آپ کو گراکر انکساری کے ساتھ چلنے لگا۔ اس نیت سے انہوں نے اپنے گلے سے ایک سونے کی زنجیر باندھی اور ایک غیر معروف شخص سے حرم کی طرف ہنکوایا، یہ سونے کی زنجیر آج تک حرم کے باب شرقی کے ایوان میں لٹکائی ہوئی ہے۔ جس گلی سے نادر شاہ گزرا تھا جو بعد میں ''عکد الزّنجبیل''کے نام سے مشہور ہوئی۔
محمد عبود الکوفی نے اپنی کتاب ''نزھة الغری ''میں بیان کیا ہے کہ ''نادرشاہ الافشاری عراق کی طرف براستہ جانقین گیا اور موصل فتح کرنے کے بعد بغداد کی طرف ١١٥٦ھ / ١٧٤٣ ء کو رخ کیا پھر دوسرے دن نجف اشرف میں براستہ حلہ داخل ہوگیااور وہاں پر مذاہب اسلامیہ کے علماء کیلئے ایک مجلس منعقد کی جس میں مذہب جعفری کو مذاہب اربعہ کا پانچواں مذہب مقرر کیا۔ پھر ایک اقرار نامہ لکھا جو آج بھی روضہ حیدریہ میں محفوظ ہے۔ پھر گنبد اور ایوان پر سونا چڑھانے کا حکم دیا اس کے علاوہ ان کی زوجہ گوہر شاہ بیگم نے ایک لاکھ تومان نادری صحن کی کاشہ کاری اور تزئین کے واسطے اور بہت سارے مختلف انواع و اقسام کے خوبصورت خوشبودار پتھر اور سونے کے پتھر عطا کئے ۔''
ڈاکٹر الوردی نے بیان کیاکہ موصل میں پہنچ کر وہاں کے حاکم کے ساتھ صلح کی۔ انہوں نے اپنی کتاب ''لمحات ''میں بھی کہاہے کہ'' نادر شاہ جس مقام پر آکر ٹھہرا وہ نجف تھا وہاں پر انہوںنے ایک کانفرنس منعقد کی جس میں سنّی اور شیعہ کو متفق کرنے کیلئے اپنے اپنے علماوں کو مدعو کیا تو انہوں نے کربلاء سے سیّد نصر اللہ حائری کو بلایا اور عثمانی بادشاہ سے ایک سنی بھیجنے کا تقاضا کیا جو عراقی سنّیوں کی نمائندگی کرے تو انہوں شیخ احمد السویدی کو بھیجا اور کانفرنس میں شیعوں کی نمائندگی شیخ علی اکبر نے کی جو ایران میں ملّا باشی کا متولّی تھا۔ اور یہ کانفرنس ٢٢/١٠/١١٥٦ھ بمطابق ١١/١١/١٧٤٣ ء کو منعقد ہوئی اس میں مختلف قراردادیں منظور ہوئیں بعد میں شیخ عبد اللہ السّویدی کی ایک کتاب بنام ''الحج القطعیّة لاتفاق الفرق الاسلامیّة ''چھاپی جس میں اس کانفرنس کی تفصیل شائع ہوئی ہے۔ ''
عبودالکوفی کے بیان سے ظاہر ہوتاہے کہ گنبد اور ایوان پر ١١٥٥ھ / ١٧٤٣ ء کو سونا چڑھایا گیا تھا، کیونکہ اس کی تاریخ میں یہ کہا گیا ہے: ''آنستُ مِن جَانبِ الطُّور ناراً''جس کا عدد یہی بنتا ہے لیکن دونوں میناروں پر ١١٥٦ھ / ١٧٤٣ ء میں سونے کا کام ہوا تھا کیونکہ اس کی تاریخ یوں بنتی ہے۔ ''اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر ''جس کا عدد یہی بنتا ہے ۔ لیکن ڈاکٹر حسن حکیم کے مطابق نادر شاہ سے قبل دولت عثمانی نے گنبد روضہ پر سونے کا کام کروایاتھا اس لئے کہ ان کے ایک گورنر خاصکی محمد نے بغداد پر ١٠٦٧ھ سے ١٠٧٠ھ تک حکومت کی اس دوران انہوں نے نجف میں گنبد روضہ پر سونا چڑھانے کے کام کیلئے کافی مقدار میں سونا بھیجا تھا اور مینار بھی بنوایا تھا لیکن اس وقت ان کے کوئی اثار موجود نہیںہے۔
|
|