ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)
 

تعمیرات ِعضد الدولہ بو یہی
عراق نے جو تعمیراتی کام عضد الدولہ بویہی کے دور میںدیکھا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا خاص طور سے تیسری صدی کے نصف میں زوال خلافت عباسیہ کے وقت اگرچہ اس کی حکومت پانچ سال سے زیادہ عرصہ نہیں رہی پھرتاتاریوں کے ہاتھوں ٦٠٦ھ /١٢٥٨ ء میں ان کی حکومت ختم ہوئی۔ اس حوالے سے ہم نے اپنی کتاب نصوص فی ادب العربی میں کچھ کچھ تذکرہ کیاہے۔
اب ہم آپ کو ابن اثیر کی کتاب الکامل سے نقل کرتے ہیں ۔ تاکہ آپ کو عضد الدّولہ کے عظیم کاموں، عدالت ، فہم و فراست، صحت اور معاشرہ کے لئے اقدامات ، خاص طور سے پانی کا اہتمام جس پر پوری اقتصادیات منحصر ہے کا انداز ہو۔ اور آپ یہ جان کر بھی حیران ہوںگے کہ پانی کے حصول کیلئے اس نے کیا کیا زحمتیں اُٹھائی جس کے لئے انہوں نے کنویں کھد وایا اور دریا سے پانی کے نلکے لگوائے اور جو پہلے خراب حالت میں تھی انہیں دوبارہ ٹھیک کروایا اور جس کی وجہ سے ذراعت و پیداوار اچھی ہوئی جس کی ملک اشد ضرورت تھی کیونکہ پچھلے سالوں میں ملک عراق جن خراب حالات سے گزرا تھا اب اس کی وجہ سے بہتری کی طرف آنے لگا۔
ان کی یہ تمام خدمات ایک طرف جبکہ دوسری طرف انہوں نے علم و علماء کو ترغیب دی اور دین و مذہب کے جھگڑے کو ختم کروایا اور ملک کے اندر امن و آشتی لایا اس طرح عراق کافی عرصے کے بعد ثقافتی طور پر دوبارہ کھڑا ہوا۔ میں اس میں مبالغہ نہیں کرتا کہ یہ ایک بہترین مثال ہے جوکہ بلا د اسلامیہ کے حکمرانوں میں اتنے عرصے حکومت کرنے کے باوجود بہت کم ہے کیونکہ وہ اپنے بُرے عزائم و فتنے کے ساتھ ہمیشہ اپنے آنے والے اپنے وارثین کو حکومت تحویل کرنے کی فکر میں ہوتے تھے جس کی وجہ سے رعیت پر پوری توجہ نہیں دیتے تھے۔اور اپنی کرسی بچانے کی خاطر کچھ مظالم آل بویہ کی طرف منسوب کرتے ہیں تو دوسری جانب بعض حرص و لالچ کی وجہ سے انہیں اچھے لباس میں ڈال کر پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ابن اثیر کہتا ہے'' عضد الدّولہ نے بغداد کی تعمیر٣٦٩ھ /٩٨٠ ء میں شروع کی۔ جو مسلسل فتنوں کی وجہ سے خراب ہوتا جارہا تھا لہٰذا س نے وہاں مساجد، بازاروں کی تعمیر کی، اور آئمہ مساجد، موذنین، علماء ، قرّاء ، غرباء ، ضعفاء جو مساجد میں رہتے تھے مال کی فراوانی سے نوازا۔ اور پچھلے بادشاہوں کے دورجو میں عمارتیںخراب حالت میں تھی اُن کی تعمیر کروائی جو نہریں بند ہوگئی تھی انہیں دوبارہ کھدوایا اس طرح لوگوں کے کندھے سے کدال و بیلچہ چھڑوایا اور عراق سے مکہ معظمہ تک کے راستے صحیح طریقے سے بنوایا اور مکہ معظمہ میں رہنے والے اہل شرف و ضعفاء اور مکہ کے آس پاس رہنے والوں کے درمیان ارتباط قائم کیا۔ اسی طرح مزار علی و حسین بھی بنوایا۔ اور لوگوں کو سکھ و چین کا سانس ملا اور فقہاء ، محدثین، متکلمین، مفسرین، اُدباء ، شعراء ، علماءے نسب شجرہ نسب جاننے والے، اطباء ، ریاضی دانوں ، اور مہندسیوں ( انجینئر وں ) کے لئے وظیفے مقرر کیے۔ اور اپنے وزیر نصر بن ہارون جو نصرانی تھا کو خرید و فروختگی کے لئے دکانیں بنانے کی اجازت دی اور فقراء میں مال تقسیم کروای، ابن اثیر نے یہ بھی کہا ہے۔ اُس کی عمر وفات کے وقت ٤٧سال تھی ۔ اور وہ عاقل ، فاضل ، اچھا سیاست دان، صابر، با ہمت ، اہل فضیلت کے لئے اچھی سوچ رکھنے والا سخی، دست دراز، موقع محل سمجھ کر خرچ کرنے والا، انجام کار میں نظر رکھنے والا، عد ل و انصاف کرنے والا، اہل علم کو پسند کرنے والا انسان تھا، اس طرح وہ علماء کا منظور نظر بنا تو انہوں نے اس کے نام پر عظیم کتابیں تالیف کی ''۔ان میں سے ابو علی فارسی ہے جس نے اس کے نام پر کتاب تالیف کی اسی طرح ابو اسحاق نے اس کی حکومت کے حوالے سے کتاب لکھی ، وہ ہر سال کے شروع میں بہت زیادہ مال نکال کر تمام بلاد میں جو اس کی حکومت کے اندر تھی، صدقہ کرتا تھا۔ اُن کی بعض خدمات کی طرف محمد جواد فخر الدین نے اشارہ کیا ہے۔ انہی میں سے وہ بیمارستان بھی ہے جسے اُس نے بغداد میں بنوایا تھا۔
'' اس بناء پر ہم دیکھتے ہیں عضد الدّولہ البویہی صرف نجف اور کربلا کی طرف توجہ نہیں تھی جس کی وجہ بعض اس کی مذہب کو قرار دیتے ہیں۔ اپنی حکومت کے اس پانچ سال میں اس نے اپنی تمام کوششیں اس بلاد کی دوبارہ احیاء کے لئے صرف کی جسے خراب اور بگاڑ دیا گیا تھا۔'' اُس نے قبر مقدس پر تعمیر کروانے کے ساتھ اس کے ارد گرد رہنے والے بنی تحتیہ او فو قیّہ کے لئے بھی تعمیر و ترقی جاری رکھی اگرچہ عمارت کے شروع کی تاریخ کچھ ہے۔ جس طرح اُس حوالے سے معلومات بھی کم ہے شاید اُس نے اس کی اور مَر قدابی عبد اللہ ِ الحسین کی تعمیر کا حکم ٣٦٩ھ /٩٨٠ ء میں کیا تھا۔ جیسا کہ ابن اثیر میں کہا۔''عضد الدّولہ نے ٣٦٩ھ /٩٨٠ ء میں تعمیرات شروع کی ....... اور اسی طرح مزار علی وحسین بھی بنوائے'' لگتا ہے مرقد امیر المومنین اور مرقدابی عبد اللہ ِالحسین ٣٧١ھ کے نصف ثانی میں مکمل ہوا تھا۔ اور اُسی سال جماد ی الا وّل میں مرقد امیر امو منین کی زیارت کے لئے آنے والوں کو روضہ مقدس کی عمارت کے بارے میں معلوم ہوا۔ اور انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ بنی تحتیہ روضہ کی خدمت کر رہی تھی اس طرح وہاں قُرب و جوار میں لوگ رہنے لگے۔ اور مرور ایام کیساتھ یہ ایک آبادی پر مشتمل شہر بن گیا ۔ اس حوالے سے ابن طاوس کی روایت ہے ہمیں یحیٰ ابن علیاں نے جو مزار امیر المومنین علی بن ابی طالب کا خازن تھا، کہا کہ اس نے اپنے باپ دادا شیخ ابی عبد اللہ محمف بن السری جو ابن البرسی سے مشہور ہے اور روضہ کے قریب میں رہتا تھاسے ایک کتاب ملی اس کتاب میں وہ لکھتا ہے۔ کہ عضدالدّولہ نے مزار علی اور مزار حسین کی زیارت ماہ جما دی الاوّل ٣٧١ھ میں کی سب سے پہلے وہ حائر آتے ہیں اور امام حسین کی زیارت کی اُس کے بعد کوفے میں داخل ہوا۔ اور مزار علی ابن ابیطالب کی زیارت کی اور وہاں پر موجود صندوق میں کچھ درہم ڈالے بعد میں علویوں کے جب درمیان تقسیم کیا۔ تو ہر ایک حصے میں ٢١،٢١ درہم آیا، اور وہاں علویوں کی تعداد ١٧٠٠تھی، اور وہاں کے مجاورین کیلئے ٥٠٠٠درہم ، زائرین کے لئے ٥٠٠٠درہم اور وہاں نوحہ کناں کے لئے ١٠٠٠٠درہم اور قرآن پڑھنے والے فقہاء ، منتظمین جن میں سے خازن نائبین، ابو الحسن علوی، ابو القاسم بن عابد اور ابو بکر سیّار کے ہاتھوں کافی مال دیا ''۔اس سے مجھے لگتا ہے کہ اس نے جوار حرم کو ایک شہر میں تبدیل کرنے کا مصمم عزم کر رکھا تھا۔ یہ اُس وقت پتہ چلا جب اس نے اپنے آپ کو وہاں دفن کرنے کی وصیت کی، یہ روایت زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ اس کے مطابق کہ وہاں رہائش اس کی تعمیر سے پہلے بھی موجود تھی۔ اور جب وہ یہاں آیا تو بہت سارے علویین، مجاورین، نوحہ کناں، قرآن پڑھنے والے، فقہاء کے علاوہ مرقد مقدس کے خازن ،اور ان کے نائبین بھی تھے نوحہ کناں اور قرآن شریف پڑھنے والوں کا وجود یہ بتاتا ہے کہ جوار امام میں دفن ہونے کا عمل اس کی تعمیر سے غیر محدود مدّت پہلے سے مشہور تھا۔ سید ابن طاووس نے ابن طحّال سے نقل کیا ہے ''کہ عضد الدّولہ نے وہاں عمارت بنوائی اور بہت سارے اموال بھیجا اور ان امور کے مکمل ہونے کی تاریخ روضہ میں بالائے سر کی جانب زمین سے ایک قامت اوپر دیوار پر لکھا ہوا ہے اور اس سے یہی ثابت ہوتا ہے ''لیکن مجھے وہاں پر کوئی تاریخ نظر نہیں آئی البتہ میں سیّد محسن امین کی اعیان الشّیعہ میں اقوال کو دیکھا جو دیگر اقوال کی نفی کرتا ہے جو کہتے ہیں کہ ''٣٣٨ھ/٩٤٩ ء یا ٣٧٦ھ /٩٨٦ ء ہے کیونکہ پہلی تاریخ عضد الدّولہ کی حکومت سے ولادت کے قبل ہوتی ہے جبکہ دوسری تاریخ ان کی وفات کے بعد واقع ہوتی ہے تو وہ لکھتا ہے ظاہر ہے کہ عمارت کی تاریخ ٣٦٩ھ ہی ہے۔''
پھر سید محسن امین نے دیلمی کی روایت نقل کی ہے جس میں اس نے رشید کی عمارت کے بارے میں گفتگو کی ہے جو کہ ایک قبّہ اور چار دروازوں پر مشتمل تھا ۔ اس کے گمان کے اسی وقت عضد الدّولہ وہاں پہنچا تھا اور وہ لکھتا ہے عضد الدّولہ جب وہاں آیا ''اور وہاں تقریباً ایک سال قیام کیا اور اس کے ساتھ اس کی فوج بھی تھی اور وہیں اطراف سے ہنر مند اور استادوں کو بلایا اور مذکورہ عمارت کو گروایا اور کثیر مال خرچ کرکے ایک شاندار عمارت تعمیر کی اور یہ عمارت آج کے عمارت سے پہلے تھی۔''
یہ بات واضح ہے کہ دیلمی کو یہاں عمارت عضد الدّولہ اور رشید کی عمارت کے درمیان اشتباہ ہوا ہے اور مبالغہ کیا ہے کہ عضد الدّولہ اپنی فوج کے ساتھ وہاں تقریباً سال عمارت مکمل ہونے تک قیا م کیا۔ اگر ہم عضد الدّولہ کی حالات زندگی کا طائرانہ جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بغداد میں چند مہینے نہیں ٹھہر سکتا تھا کیونکہ اس کی جنگی مصروفیات بلاد فارس و عراق وغیرہ میں زیادہ تھی تو اس نجف میں اتنا لمبا قیام کیسے کر سکتا ہے اور اس بات کو سیّد جعفر بحر العلوم بھی نہیں مانتے ہیں اور ان کے ساتھ محمد جواد فخر الدین نے بھی اپنی کتاب میں اس روایت کو رد کیا ہے۔ ''لگتا ہے دیلمی نے اس بات میں زیادہ مبالغہ سے کام لیا ہے کیونکہ یہ تصور سے خالی ہے کہ عضد الدّولہ عمارت کو مکمل ہونے تک وہاںمکمل ایک سال ٹھہرا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے لئے بہت سارے اہم حکومتی و انتظامی و سیاسی ذمہ داریاں تھی'' اور سید محسن امین نے یہاں اس عمارت سے متعلق صاحب عمدة الطالب کے قول کو بھی بیان کیا ہے ''کہ عضد الدّولہ نے وہاں اوقاف معین کیا تھا اور اس کی یہ عمارت ٧٨٢ھ /١٣٥٢ ء تک باقی نہیں رہی اور دیوار جس پر لکڑی کی کاشہ کاری کی تھی وہ سب ختم ہوا تھا اور اس کے بعد میں جلایا گیا اس کی جگہ نئی عمارت بنی جو آج ہے لہٰذا عضد الدّولہ کی عمارت زیادہ عرصہ نہیں رہی اور آلبویہ کی قبور مشہور ہیں جو نہیں جلی تھیں''۔ اور اس عمارت کے جلنے کی بات کو سیّد محسن امین کتاب الاماقی سے صحیح مانا ہے کیونکہ ''عبد الرحمن العتایقی الحلّی جو نجف اشرف کے مجاور تھے اور اس کی کتاب کا روضہ علوی کی الماری میں ایک نسخہ تھاجسے اس نے ماہ محرّم ٧٥٥ھ /١٣٥٤ ء میں مکمل کی تھی۔ وہ کہتا ہے اسی سال روضہ مقدس کو آگ لگی تھی۔ پھر ٦٧٠ھ /١٢٨٢ ء سے بہتر طریقے سے اور شاندار انداز میں تعمیر ہوئی اور موصوف اس جلنے کے حوالے سے دیلمی سے زیادہ جانتے ہیں کیونکہ اس نے خود اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور دیلمی اس سے متاخر ہے کیونکہ اس کی وفات ٨٤١ھ /١٤٣٧ ء میں ہوئی تھی ۔ یہ ہم نے پہلے کہا تھا کہ دیلمی کی تمام روایات جو قبر مطہر اور عمارت روضہ سے متعلق ہیں نجس نہیں ہے اطمینان ہے کیونکہ اس کے بارے میں مشہور ہے وہ بھولتا زیادہ تھا۔
جہاں تک عضد الدّولہ کے عظیم کارنامے کی بات ہے جو انہوں نے روضہ مقدس کی خدمت میں انجام دی ان میں پانی کا انتظام جس کے لئے انہوں نے فہم و فراست کی اپنے زمانے میں انتہا کردی۔ کیونکہ یہ مشہور ہے کہ نجف اشرف ایک پہاڑی تھی جو موجودہ کوفہ میں دریائے فرات کی سطح سے زیادہ بلندی پر واقع تھی۔ پانی اس بلندی پر پہنچانے کے لئے بہت سے لوگوں نے کوشش کی لیکن عضد الدّولہ کی کوشش کامیاب ہوئی ۔ لیکن زمانے کی نشیب و فراز کی وجہ سے دوبارہ یہ سلسلہ جلد ختم ہوا تو نجف میں پانی کا مسئلہ پھر ہوا اور یہ مسئلہ اس وقت حل ہوا جب الحاج محمد بو شہری جس کا لقب معین التّجار تھا نے ١٩٢٧ ء میں پانی پھینکنے کا پمپ خریدا اور اسی سال ہر گھر میں پانی کوتقسیم کیا گیا اور محمد کاظم طریحی کے مطابق ١٩٤٣ ء میں پانی و بجلی کے منصوبے کی بنیاد رکھی گئی۔
سیّد جعفربحر العلوم مزید آگے اس حوالے سے لکھتے ہیں ، دولت عثمانیہ نے جب یہ محسوس کیا کہ نجف کے لئے کوئی نہر نکال کر پانی لے جانا مشکل ہے تو یہ جنگ عظیم اوّل سے پہلے یہ طے کیا کہ پمپ کے ذریعے ہی اس مسئلے کو حل کیا جائے اور اسی سال ایک جرمن کمپنی سے پائپ خریدنے کا معاہدہ طے ہوا تھا جو کہ کوفہ اور نجف کے درمیانی راستے میں بچھانا تھا لیکن جنگ کی وجہ سے یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا اور پائپ وہیں پڑے رہے یہاں تک کہ بعد میں یہ اندر ریت جمع ہونے کی وجہ سے خراب ہوگئے۔
شیخ محمد حسین نے اعیان الشیعہ سے اس حوالے سے ایک واقعہ نقل کیا ہے جس سے عضد الدّولہ کے انجینئروں کی ابتکاری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ایک ٹنل بنایا تھا جو قناتِ آل بویہ سے مشہور تھا۔ جو انہوں نے دریائے فرات سے کھودا تھا پھر زمین کو چیرتا ہوا نجف تک پہنچا پھر نجف کو نیچے سے چیراگیا اور پانی شہر کے غرب میں نچلی طرف گرایا جہاں بحر نجف تھا تو وہاں ایک چشمہ وجود میں آیا اوریہ پانی جاکر اس چشمے سے مل گیا جس کی وجہ سے یہ پانی میٹھا نہیں ہوا اور پانی اسی چشمے سے جاری رہا جو پانی کے علاوہ باقی ضروریات کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اور دو نالیاں کھودی گئیں ایک اوپر اور دوسری نیچے جن میں ایک پانی کے لئے تھی جبکہ دوسری ہوا کے آنے جانے کے لئے اور راستے میں جگہ جگہ سوراخ رکھے گئے تھے تاکہ ان نالیوں کی صفائی ستھرائی کے ساتھ خراب ہونے کی صورت میں اس کو ٹھیک کیا جائے جس کے آثار اب بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ حر ز الدین نے اپنے جدّ کی کتاب النّوادر سے کنویں اور نالیوں کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ ان کے راستے اور کھودنے کے طریقے اور اندر سے ڈھانپے۔ گہرائی وغیرہ شامل ہیں، مثلاً شہر کے حدود میں ایک کنواں کی گہرائی چالیس ہاتھ یعنی تیس میٹر سے زیادہ تھی۔اس زمانے میں بے سرو سامانی کی حالت میں اور اس سخت زمین کو اتنی مقدار تک کھودنا محنت کی اعلیٰ مثال ہے۔ اور اس میں مبالغہ نہیں کر رہا ہوں کہ یہ کھودنے والے دن میں آدھے میٹر سے زیادہ نہیں کھود سکتا تھا اس کی وجہ کنویں کی تنگی تھی جس کے اندر دو یا تین آدمی سے کام نہیں کرسکتے تھے۔ اور زمین کی سختی اپنی جگہ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود ان کی فہم و فراست اور ان کے انجینئروں کی بدولت ٣٦٩ھ/٩٨٠ ء میں اس منصوبے کو مکمل کرنے میں کامیاب ہوا۔ (K.LASTRANJ)نے یہاں پر مستوفی سے اپنی کتاب میں نقل کی ہے ''عضد الدّولہ البویھی نے ٣٦٦ھ/٩٧٧ ء میں روضہ مقدس کی تعمیر کی جو مستوفی کے زمانے تک قائم و دائم تھا اور وہ موضع اس وقت ایک چھوٹا شہر تھا جو ٢٥٠٠قدم پر محیط تھا اور ابن اثیر کی تاریخ میں آیا ہے کہ عضد الدّولہ ان کی وصیت کی مطابق اسی شہر میں دفن کیا گیا۔ اور ان کے بعد ان کیدونوں بیٹے شرف الدّولہ اوربھاء الدّولہ بھی یہاں دفن ہوئے اور ان کے آثار بعد میں آنے والے بہت ساروں نے دیکھا۔
ابن کثیر نے اپنی کتاب البدایة میں لکھا ہے ''عضد الدّولہ ماہ شوال ٣٧٣ھ /٩٨٢ ء میں انتقال ہوا اور اس کا جنازہ لاکر مزار علی میں دفن کیا گیا جہاں رافضی اور شیعہ ہیں اور اس کی قبر پر لکھا ہوا تھا:یہ عضد الدّولہ تاجِ شجاع رکن الدّولہ کی قبر ہے اور یہ اس متّقی امام کی مجاورت سے زیادہ محبت کرتا تھا (یَوْمَ تَا تِیْ کُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَفْسِھَا)
اور سیّد محسن امین اپنی کتاب اعیان الشّیعہ میں لکھتے ہیں ''عضد الدّولہ نے اپنے لئے نجف میں مزار مقدس کے جوار میں مغرب کی جانب ایک عظیم قبّہ بنوایا تھا اور خود کو ہاں دفن کرنے کی وصیت کی تھی اور بعد میں اس کی وصیت پر عمل ہوا اور سلطان سلیمان عثمانی جب ٩٤٠ھ /١٥٣٣ ء عراق میں داخل ہوا تو اسے گرادیا اور اسے بکتاشی گروہ کے لئے تکیہ قرار دیا اوریہ ا س وقت تک باقی رہااس کا دروازہ صحن شریف کے مغرب کی طرف کھلتا ہے اور بعض کا گمان ہے یہ کام سلطان سلیم نے انجام دیا تھا لیکن صحیح یہ ہے کہ اس کا بیٹا سلیمان نے کیا تھا سلیم کی طرف منسوب اس کی شہرت کی وجہ سے ہوا تھا۔''
یہ اشتباہ ہے کیونکہ ان کا مدفن حرم امیر المومنین کے مشرق کی طرف رواق کے آخر میں ہے۔ اس حوالے سے شیخ محمد حسین حر ز الدین نے ایسے اہم معلومات فراہم کی ہے جس میں عضد الدّولہ کی قبر ، روضہ کی دہلیز اور سردابوں کے بارے میں ہیں جو قابل دیدہے۔اور مرزا ہادی خراسانی جو حرم امیر المومنین سے متعلق بعض آثار کے بارے میں سراغ لگانے والوں میں شامل ہے وہ عضد الدّولہ کے قبر کے بارے میں کہتے ہیں جسے شیخ محمد حسین حرز الدین نے بھی روایت کی ہے ''کہ عضد الدّولہ البویھی کی قبر حرم امیر المومنین کے مشرق کی طرف کے رواق کے سرداب میں ہے۔ جو ایوان طلاء کا مدخل ہے اور اس سرداب کا دروازہ صحن میں چراغ کے نیچے ہے اور مرزا اسی مدخل سے ہاتھ میں روشنی لے کر اپنے بعض ساتھیوں کے ساتھ داخل ہوتا ہے اور اس جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں عضد الدّولہ کی قبر ہے اور اس کی قبر پر ایک نفیس پتھر کی لوح پر لکھا ہواہے ''یہ سلطان عضد الدّولہ بن رکن الدّولہ بن سلطان البویھی کی قبر ہے جس نے اپنے آپ کو امیر المومنین کے قدموں میں دفن کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ ان کی مرقد میں عضد الدّولہ کے سر اور شانے کے اوپر آئے'' اور آل بویہ کے باقی مشہور شخصیات جیسے بھاء الدّولہ صحن میں باب التکیّة کے پاس دفن ہیں۔''
اور یہ بھی ذکر ہوا ہے ''عضد الدّولہ نے یہ وصیت بھی کی تھی کہ اس کی گردن میں چاندی کے زنجیر باندھ کر قبر امیر المومنینکے نیچے سے داخل کیا جائے اور اس کے منہ پر ایک رقعہ رکھا جائے جس پر یہ آیت لکھی ہو: (وَ کَلْبُھُمْ بَاسِط ذَرَا عَیْہِ بِا لْوَصِیْدِ) اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ عضد الدّولہ کی قبر مرقد امیر المومنین کے دوسرے دروازے کے آخری دہلیز کے نیچے ہے۔ پھر دور عثمانی میں ان آثار میں کافی تبدیلیاں ہوئی ہیں لہٰذا ان میں سے زیادہ تر کانہ کوئی آثار ہیں اور نہ کسی نے اسے دیکھا ہے۔''اس بناء پر آل بویہ کے قبرستان جسے سیّد محسن امین نے بیان کیا عضد الدّولہ کی حکم سے نہیں بنا تھا بلکہ شاید ان کے کوئی بیٹے صمصام الدّولہ کے حکم سے بنا تھا۔
اب یہ اہم نہیں ہے کہ عضد الدّولہ نے کتنی بار روضہ مقدس کی زیارت کی اور نہ اس کی وجہ سے زیارت امیر المومنین لوگوں کے لئے عام ہوئی اس حوالے سے ممکن ہے کوئی شعر کہا ہو اور جو وہاں گئے ہیں بہت ساری چیزیں دیکھی ہو اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ مرقد مقدس پر جو قبّہ بنا یا گیا اس کا رنگ سفید ہے اس کے بارے میں میرا گمان غالب ہے کہ اس کی وجہ وہ سفید پتھر ہیں جو وہاں موجود نجف کے بعض گرے ہوئے چٹانوں کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی رنگ کی شہرت شاید اس شعر کی وجہ سے بھی ہو جو ابن حجّاج نے کہا تھا۔
ترجمہ شعر:
اے نجف میں صاحب قبہ بیضاء جو
تیری قبر کی زیارت اور شفاء مانگتا ہے تو مل جاتی ہے

بتایا جاتا ہے یہ شعر عضد الدّولہ کے سامنے کہا گیا تھا جب وہ شریف مرتضیٰ اور ابن حجاج کے ہمراہ تھے شریف مر تضیٰ نے ابن حجاج کی ہجو گوئی کی اور ایک رات امیر المومنین ابن حجاج کے خواب میں آئے اور اسے بتا یا کہ مرتضیٰ تمہارے پاس آکر معذرت کرے گا اور اسی رات مرتضیٰ نے بھی خواب میں امیر المومنینکو دیکھا جو انہیں ابن حجّاج کے ساتھ کرنے والے سلوک پر ملامت فر مارہے تھے۔اور جب وہ بیدار ہوا تو فوراً ابن الحجاج کے پاس جاکر اس سے معذرت کرلی اور دوسرے دن عضد الدّولہ کے سامنے یہ شعر کہہ دی ۔ لیکن اس واقعے کے ساتھ مرتضیٰ شریف کی عمر مناسبت نہیں رکھتی جو ٣٥٥ھ میں پیدا ہوا تھا۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابن حجّاج نے یہ شعر عضد الدّولہ کے علاوہ کسی اور کے پاس کہا تھا۔ اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ابو اسحاق الصّابی جسے عضد الدّولہ نے جیل میں ڈالا تھا پھر ھ میں اسے رہا کیا گیا تھا ابن اثیر کے مطابق انہوںنے ایک قصیدہ عضد الدّولہ کی مدح سرائی اور ان کی تعمیر روضہ کے مناسبت میں انہیں بھیجا تھا۔ اور مرور ایام کے ساتھ بعد میں اس عمارت میں اصلاحات ہوتی رہی اور قبر علی پر جانے کا خوف آہستہ آہستہ ختم ہوا۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابو محمد بن سہلان جو ٤٠٦ھ/١٠١٥ ء کو عراق کا والی بنا اور ایک دن وہ شدید بیمار پڑا تو اس نے نذر کی اگر وہ اس بیماری سے شفایاب ہوجائے تو مزار علی امیر المومنین کے چار دیوار بنوائے گا اور جب اس کی نذر قبول ہوئی اورصحت یاب ہوئے تو اس نے روضہ کے ارد گرد دیوار اٹھانے کا حکم دیا۔

مسجد و رواقِ عمران بن شاہین
عضد الدّولہ کی عمار ت کی طرح باقی رہنے ایک اور عمارت ہے جس کے آثار ابھی تک باقی ہے اور اس کو عمران بن شاہین کی طرف منسوب کیا جاتاہے اور اس کا عضد الدّولہ کی عمارت کے ساتھ تعلق ہونے میں مختلف اخبار کی وجہ سے شدید اختلاف ہے۔ اس حوالے سے سیّد ابن طاووس نے اپنی کتاب الفرحة میں ایک حکایت نقل کی ہے۔ شیخ حسن بن حسین بن طحال المقدادی کہتا ہے کہ ایک دن عمران نے عضد الدّولہ کی نافرمانی کی جس کی وجہ سے اسے طلب کیا گیا تو وہ بھاگ گیا اور امام علی کے روضہ میں چھپ گیا ایک دن اس نے امیر المومنین کو خواب میں دیکھا اور امام نے اسے عضد ولہ اسی رات کے صبح آنے کے بارے میں بتایا اور اسے یہ بھی فرمایا کہ اس کا نام یہاں کوئی بھی نہیں جانتا ہے جو ''فنا خسرو ''ہے۔ اور امام نے اس کی رہنمائی کی کہ عضد الدّولہ کس جگہ سے حرم میں داخل ہوگا۔ اور حرم کے ایک کونے میں اس کے لئے جگہ معیّن کی تاکہ وہ وہاں کھڑے ہوکر عضد الدّولہ کی راز و نیاز سنے اور وہ یہ دعا کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی تعاقب میںاس کی مدد کرے اب وہ عضد الدّولہ کے قریب ہوکر یہ پوچھے کہ تمہارا مطلوب شخص اگر دکھادے تو اسکے بدلے کیا دوگے اور عمران سے امام نے فرمایا کہ عضد الدّولہ اس موقع پر عمران کی معافی مانگی جائے تو وہ اسے معاف کرے گا۔ بہر حال عمران نے امام کے حکم کے مطابق ان تمام کام کو انجام دیا اور بالآخر عضد الدّولہ نے اس کو بخش دی اور اسے یہ بھی بتادیا کہ اسے عضد الدّولہ کے نام پر یہاں کھڑا رکھوایا جسے کوئی جانتا نہیں ہے وہ یہی صاحب روضہ ہیں۔ پھر عمران نے اپنا پورا خواب اسے سنایا خلعت وزارت اس کے سامنے اتاردی صاحب الرّوایة کہتا ہے کہ دراصل عمران نے یہ نذر کی تھی کہ اسے جب بھی عضد الدّولہ کی طرف سے بخشش ہوگی تو وہ امیر المومنین کی زیارت پا برہنہ کریگا۔
شیخ حسن الطحّال جو اس خبر کے راوی ہے کہتا ہے ''جب رات چھاگئی تو میرے دادا نے مولا امیر المومنین کو عالم خواب میں دیکھا جو ان کو یہ فر ما رہے تھے ولی کہ عمران بن شاہین کو دروازہ کھول کر ان کے سامنے بیٹھ جاو اور جب صبح ہوگئی اور عمران بن شاہین آگئے تو شیخ نے کہا بسم اللہ مولانا، عمران نے کہا میں کون ہوں؟ شیخ نے کہا عمران بن شاہین ، عمران نے کہا میں ابن شاہین نہیں ہوں ۔ شیخ نے کہا میں نے رات کو امیر المومنین کو عالم خواب میں دیکھا تھا تو انہوں نے مجھے عمران بن شاہین کو دروازہ کھولنے اور ان کے بیٹھنے کو کہا تھا یہ سن کر وہ حیران ہوا اور روضہ مقدس پر اپنے آپ کو گرا کر عتبہ کا بوسہ دینے لگا اوراپنے اس ضامن کو ساٹھ دینار دیا جو ان کے ساتھ مچھلی پکڑا کرتا تھا کیونکہ ان کا مچھلی کا کاروبار تھا جس میں ان کے پاس بہت سارے ملازمین تھے جو ان کے ساتھ مچھلی پکڑا کرتے تھے۔''
اس موقع پر سیّد ابن طاووس کہتا ہے ''غرّی ( نجف)حائر(کربلا)میں مزار مقدس کی تعمیر عمران نے کروائی اور میرے حساب سے ابن طحّال کی بعض روایات کی وجہ سے زیادہ اشتباہ ہوا ہے جس کے اندر ادب و احترام، دینی جذبات کی وجہ سے کثرة مبالغہ ہے۔ جن پر اکثر طورپر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ ابن طحّال کی روایت اور عمران ابن شاہین کے درمیان تعلق پر بحث کرنے سے قبل ضروری ہے عمران کی روضہ حیدریة اور روضہ حسینیة کے ارد گرد برآمدے کی تعمیر پر گفتگو کی جائے۔
اس موقع پر یہ بتایا جاتا ہے کہ مشہور سیاح ابن بطوطہ جب یہاں پہنچا تھا تو وہ روضہ مقدس کے گنبد کے دروازوںکے بارے میں لکھتا ہے ''اس گنبد کے لئے ایک دروازہ اور ہے جو چاندی سے بنا ہوا ہے جہاں سے مسجد میں داخل ہوتا ہے جس کے چار دروازے ہیں جو چاندی سے بنے ہوئے ہیں'' یہاں سیّد محسن امین اپنی کتاب اعیان الشّیعہ میں حاشیہ دیا ہے ''یہ عمران بن شاہین نے عضد الدّولہ کی تعمیرات کے بعد بنایا تھا ''لہٰذا یہ عمران کے لئے ثابت ہونا مشکل ہے کیونکہ وہ ٣٦٩ھ/٩٨٠ ء میں فوت ہوا تھا اس بات کے خود سیّد محسن امین اور ان سے قبل ابن اثیر اور ابن کثیر بھی قائل ہیں جبکہ عضد الدّولہ کی عمارت ھ کے نصف میںبنی ہے تویہ تاریخی حقیقت ہے۔
مگر محمد الکوفی الغروری نے عمران بن شاہین کے رواق کی روایت کے بارے میں تشریح کرتے ہوئے لکھتاہے اہل نجف کے ہاں یہ مشہور ہے کہ باب طوسی کی جانب جو مسجد ہے وہ مسجد عمران ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ ا س مسجد کے رواق عمران بن شاہین نے ہی بنوایا تھا جبکہ ایسا ہونا بعید ہے اور ممکن نہیں ہے کیونکہ رواق کا مطلب لغت اور عرف میں کسی گھر کے ارد گرد دیوار چننے کو کہا جاتا ہے اسی لئے لیکن بعض یہ گمان کرتے ہیں کیونکہ کہ انہوں نے اس مسجد کا بعض حصہ صحن شریف میں داخل کرایاتھا لیکن اب اس کو رواق تو نہیں کہا جاسکتا ۔ اب یہ مسجد ہے ہاں!ہوسکتا ہے شاید اسے بعد میں عمران بن شاہین کے خاندان نے بنوایا ہو اور مرور ایام کے ساتھ یہ مسجد عمران کے نام سے مشہور ہوا ہو واللہ اعلم اور یہی گمان غالب ہے جو عنقریب واضح ہوجائے گا پھر اس کے بعدمحمد جواد فخر الدین آتا ہے اور مسجد عمران یا رواق کے پا س کافی دیر تک کھڑے رہنے کے بعد مسجد اور رواق کے درمیان ربط پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بالآخر نہ صرف وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اس کے درمیان ربط ہے بلکہ عمران اور عضدالدّولہ کی ملاقات بھی اسی مقام ہوا تھا لیکن شیخ محمد رضا الشّیبی اس رابطے اور ملاقات کو نہیں مانتے کیونکہ عضد الدّولہ نے ٣٧١ھ بمطابق ٩٨١ ء میں صرف ایک ہی مرتبہ نجف کی زیارت کی تھی جبکہ عمران کی وفات ٣٦٩ھ /٩٨٠ ء کو ہوچکی تھی۔ لیکن فخر الدین شیبی کی اس بات کو نہیں مانتے کیونکہ عمران کے معز الدّولہ اور ان کے بیٹے عزّالدّولہ کے درمیان تعلق ٹھیک نہیں تھے نہ کہ عضد الدّولہ کے ساتھ بلکہ احتمال قوی یہ ہے کہ عمران کی آخری عمر تک ان کے درمیان اچھے تعلقات تھے اس لئے ابن طاووس کا قول قابل ترجیح ہے لیکن شیخ محمد رضا شیبی کی کتاب ''النّجف'' جو مجلہ آفاق نجفیّہ کے پہلے شمارے میں شائع ہوا ہے کہ ان دونوں کے درمیان صلح اس وقت عمل میں آئی جب عضد الدّولہ نجف کی زیارت کے لئے آیا تھا اور وہ ایک سے زیادہ مرتبہ یہاں زیارت کے لئے آیا تھا۔
''مشہد علی میں تعمیرات کرنے والوں میں آل بویہ کے عہد میں امیر عمران بن شاہین ملک بطیحة کا نام بھی آتا ہے جنہوں نے رواق اور مسجد بنوائی تھی جو آج تک مزار کے مشرق کی جانب ان کے نام سے مشہور ہے۔ ''اس نص میںکوئی ایسی بات نہیں ہے جو فخر الدین نے شیخ شیبی کی طرف منسوب کی تھی۔ پھر فخر الدین صاحب ''نزہة الغری''کی رائے کو شیخ جعفر محبوبہ کی کتاب سے نقل کیا ہے کہ یہ معلوم نہیں کہ یہ مسجد عمران ہے بلکہ مشہور یہ ہے کہ عمران نے حرم کے رواق بنوایا تھا۔ پھر اس کے بعدیہ حرم سے آہستہ آہستہ جدا ہوا اور بعید نہیں کہ بعد میں یہاں مسجد کے آثار مرتب ہوئے ، مگر موجودہ آثار اور قرآنی آیت کی نشانیاں ہیں ان کے بارے میں احتمال ہے کہ یہ عمران کی عمارت کی نشانی نہیں ہے موصوف اپنی کتاب میں لکھتا ہے ''بل نقطع بعدم بقاء عمارة عمران''بلکہ ہمیں یقین ہے کہ یہ عمران کی عمارت نہیں ۔ آخر میں فخر الدین ''کتاب الصحیفة ''سے یہ قول نقل کرتا ہے۔اس بناء پر ممکن ہے عمران نے جو رواق بنایاتھا اس پر بعد میں مسجد کے آثار مرتب ہوئے۔''اس حوالے سے انہوںنے حسینی صاحب کتاب لو لو ة الصّدف، کا قول بھی بیان کرتا ہے کہ عمران ابن شاہین نے رواق اور مسجد بنوایا تھا اور متقدمین اور متاخرین بھی اسی بات پر قائل ہیں کہ یہ مسجد عمران ابن شاہین کے نام سے مشہور ہے یہی ہے ۔ جو رواق حرم علوی کے شمال کی جانب ہے اور موجودہ رواق سے چند قدم کے فاصلے پر صحن شریف کے اندر ہے اور باب طوسی کے نزدیک اس کے دو دروازے ہیں اور ایک دروازہ صحن میں ہے اور اب بعض علماء کے دفن ہونے کی وجہ سے وہ آثار مٹ چکے ہیں۔
شیخ محمد حسین حر ز الدین نے اپنی کتاب ''تاریخ نجف اشرف ''میں عمران بن شاہین کے نجف میں دفن ہونے کے حوالے سے اہم معلومات پیش کی ہے جسے انہوں نے اپنے دادا کی کتاب ''مراقد المعارف ''سے نقل کی ہے کہ بطیحہ میں عمران بن شاہین الخفاجی امیر بطیحہ ٣٦٩ھ بمطابق٩٧٩ ء کو فوت ہوا اور انہیں نجف میں منتقل کیا گیا اور صحن شریف کے قریب محلہ مشراق میں اپنے گھر جو باب طوسی سے سو ہاتھ کے فاصلے پر واقع ہے میں دفن کیا گیا ۔ عمران کے بارے میں جو کتاب المختصر میں آیا ہے کہ وہ واسط کا رہنے والا تھا اور وہاں سے جرم کرکے بطیحہ کی طرف بھاگا تھااور وہاں کے جھاڑیوں اور گنجان درختوں کے بیچ میں رہنے لگا اور مچھلی اور آبی جانور کا شکار کرنے لگا۔تو اِس کے پاس اور بھی شکاری اور لٹیرے آتے تھے جس کی وجہ سے اُس نے تقویت حاصل کی اور ٣٣٨ھ بمطابق ٩٤٩ ء کو معز الدولہ کے دور میں بطیحہ کا والی بنا ۔ اور معز الدولہ کی فوج اور اس کے درمیان بہت ساری لڑائیاں ہوئی جس سے اُس کو کامیابی ملی۔ ایک دن معز الدولہ مزید فوج بھیجنے پر مجبور ہوا تاکہ اُس کا محاصرہ کیا جائے۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرسکااور جب معز الدولہ مرگیا تو فوج کی ذمہ داری بختیار کے ہاتھوں میں آگئی۔ اور اُس نے بھی عمران کو زیر کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا۔ پھر جب ٣٦٩ھ بمطابق٩٧٩ ء کو جب عمران مرگیا تو اُس کا بیٹا حسن بن عمران رئیس بنا۔ پھر محمد حسین ابن طاووس کا قول نقل کرتا ہے اور اس کے ساتھ ابن مسکویہ کی کتاب سے بھی لکھتا ہے کہ عمران کی رواقِ حرم بنانے کی وجہ یہ ہے کہ اُس نے سلطان عضد الدّولہ پر خروج کیا تھا جس پر اُس کو کامیابی ملی اور وہ بطائع کی مملکت کا گورنر بنا اور عمران نے یہ نذر کی تھی کہ اگر سلطان اُسے معاف کریں تو وہ رواقِ حرم کی تعمیر کرے گا جسے محمد حسین یوں نقل کرتا ہے۔ ''جب سلطان عضد الدّولہ البویہی مرقد امیرالمومنین کی زیارت کے لئے آیا تو عمران نے اُن سے ملاقات کی ، اس طرح سلطان نے اُسے معاف کیا۔ اِس طرح اُس کی منّت پوری ہوئی تو اُس نے نجف اور کربلا کے حرموں میں رواق بنوایا۔''
جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے کہ بطائح کی سطح نچلی تھی جس کی وجہ سے دریائے فرات اور دجلہ کا پانی عراق کے بیچ اور جنوب میں جمع ہوتا تھا اور آہستہ آہستہ یہ سلسلہ پھیلتا گیا اور چوتھی صدی میں یہ واسط سے بصرہ تک پہنچا۔ اور بعد میں یہ جگہ جھاڑیوں اور آبی گھاس پھوس سے بھر گئی اور ابھی تک یہ علاقے الاجھوار کے نام سے مشہور ہے۔ جہاں پر حکومت کے جبر سے بھاگے ہوئے لوگ آکر پناہ لیتے تھے اور یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ عمران وغیرہ بھی یہاں نہ آئے ہو۔اور جو اس جگہ سے واقف ہے وہ اِس میں فوجی نظام کو چلانے کی صلاحیت رکھتا۔ اگر ہم عمران بن شاہین اور مسجد جو اس کے نام سے مشہور ہے یا رواق جو اس کی طرف منسوب ہے کے درمیان تعلق و ارتباط کے بارے میںدیکھتے ہیں تو ان اخبار و روایت کے درمیان جو بعد و فاصلہ دیکھ کر حیران ہوجاتے ہیں جیسا کہ گزر چکا۔ پس ابن اثیر اور ابن کثیر کی روایت عمران اور عضد الدّولہ کی ملاقات کے بارے میں ہیں دوسری روایتوں کے ساتھ ملتی نہیں ہے جن کے مطابق عمران اور مسجد یا رواق کے درمیان دور سے بھی تعلق نظر نہیں آتے ہیں ۔ اس لئے میرا گمان غالب ہے کہ مسجد اور رواق اس کے مرنے کے بعدبنی ہے اور بعد میں اس کی شہرت کی وجہ سے اس سے منسوب ہوا ہے اور ابن اثیر نے اپنی کتاب ''الکامل فی التاریخ ''میں لکھا ہے کہ عمران اور اس کی طاقت کا ظہور ٣٣٨ھ /٩٤٩ ء میں ہوا تھا جس کے مقابلے کے لئے معزّ الدولہ نے اپنے وزیر ابی جعفر الصمیری کی قیادت میں دستہ بھیجا تھا اور اسے کامیابی ملنے والی تھی لیکن اس سال عماد الدّولہ کی موت کی وجہ سے معزالدولہ مجبور ہوگئے صمیری کو شیراز میں امور حکومت سنبھالنے کیلئے بھیجا جائے اور اگلے سال ٣٣٩ھ/٩٥٠ ء کو معز ّالدّولہ نے روز بھان کی قیادت میں عمران کے خاتمے کیلئے ایک اور دستہ بھیجا لیکن وہ بھی ناکامی سے دوچار ہوا پھر معزّالدّولہ نے روز بھان کیلئے مزید کمک بھیجی لیکن اس دفعہ اسے زیادہ ہزیمت اٹھانا پڑی اور عمران نے اسے گرفتار کیا تو باقی فوج اپنی جان بچاتے ہوئے تیرا کی کرتے ہوئے بھاگ گئے اور بالآخر معزّ الدولہ عمران کے ساتھ مصالحت پر مجبور ہوئے اس طرح گرفتار فوجیوں کو رہا کردیا۔
پھر ابن اثیر مزید آگے لکھتا ہے کہ ان کے درمیان یہ مصالحت زیادہ عرصہ نہیں چلی۔٣٤٤ھ بمطابق٩٥٥ ء میں جب معز الدولہ بیمار ہوا تو یہ مشہور ہوا کہ وہ مرچکا ہے اس دوران معزالدّولہ کے نام بھیجے گئے کچھ اموال چند تاجروں کے مال کے ساتھ بطا ئح میں لوٹ لیا گیااور تمام اموال عمران کے ہاتھ لگ گیا اور جب اسے معزّ الدّولہ کی زندہ ہونے کی خبر ہوئی تو انہوں نے اگرچہ تما م اموال اس کی طرف بھیج دیا گیا لیکن اس واقعے کی وجہ سے ان کے درمیان صلح ختم ہوگیا اور حالات پہلے سے کشید ہ ہوگئے۔
اس کے بعد ابن اثیر بالکل خاموش ہوتا ہے اور عمران کے بارے میں کچھ نہیں کہتا پھر وہ اچانک ہمیں کہتا ہے کہ عمران ٣٦٩ھ /٩٧٩ ء کو بطیحہ میں طبعی موت مرگیا اور بطائح کی حکومت ان کے بیٹے حسن بن عمران میں منتقل ہوئی۔ تو عضد الدّولہ کو ایک مرتبہ پھر بطیحہ پر قبضہ کرنے کی سوجھی لہٰذا اس نے اپنے وزیر مطہر بن عبد اللہ کی قیادت میں ایک دستہ تیار کیا اور مال و سلاح کے ساتھ روانہ کردیا اور اس کے ساتھ محمد بن عمر العلوی بھی تھا۔ لیکن اس دفعہ بھی عضد الدّولہ کی فوج کو بری طرح ناکامی ہوئی اور اس کے وزیر کے مرنے کے بعد عضد الدّولہ نے فوج کی حفاظت کے لئے کسی اور کو بھیجااور حسن ابن عمران اور عضد الدّولہ کے درمیان مصالحت ہوئی اور حسن نے ان کے گرفتار شدہ لوگوں کو مال ادا کرنے کے شرط پر رہا کردیا۔
ابن اثیر نے یہ بھی لکھا ہے کہ صمصام الدّولہ بن عضد الدّولہ کی حکومت کے ایام میں ابوالفرج بن عمران بن شاہین نے اپنے بھائی حسن کو بغض و حسد اور لوگوں کی اس کے ساتھ محبت کی وجہ سے برے طریقے سے قتل کر دیا۔اس طرح انہوں نے اپنے فوجی سربراہان اور والد کے زمانے کے ان فوجی سربراہان سے چھٹکارا حاصل کیا جن سے انہیں امن کی امید نہیں تھی۔ ان میں سے ایک ابومظفر ہے جسے ابو الفرج نے قتل کردیا اور اس کے بعد ابو المعالی بن حسن بن عمران کو ذمہ داریدی، اس طرح اس نے حکومت کا دائرہ اپنے تک محدود کیا اور عمران کے پوتوں کا صرف برائے نام مداخلت تھی۔ لیکن صرف اس پر انہوں نے اکتفاء نہیں کیا بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھا اور ایک چال چلی کہ صمصام الدّولہ کی طرف سے جعلی خط بنوایا جو ابو المعالی کے معزول کرنے کے بارے میں تھا پھر اسے اپنی ماں کے ساتھ واسط نکال دیا اس طرح بالآخر عمران بن شاہین کا خاندن ختم ہوا۔
اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ عضد الدّولہ اور عمران بن شاہین کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی اور عمران اپنی امارت میں اتنا کمزور بھی نہیں تھا کہ عضد الدّولہ کے سامنے جھک جائے اور وہ اپنے بیٹے حسن کو حکومت منتقلی کے وقت بھی مضبوط تھا، بلکہ حسن عضد الدّولہ کو دھمکیاں دیتے رہتے تھے اور وہ چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی مصالحت کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔
اگر یہ تمام روایات جسے ابن اثیر اور ان کے بعد ابن کثیر نے بیان کیا صحیح ہوتو ممکن ہے ہم ایک نتیجہ پر پہنچے جو شاید حقیقت سے زیادہ قریب ہو اور شہبات قدیم مصنفین اور محدّثین کے درمیان ابن شاہین کی رواق یا مسجد کے بارے میں پیداہوئی ہے ختم ہو سکے۔ کیونکہ عمران سے منسوب مسجد اور ان کی قبر ابھی تک موجود ہیں۔ ان دونوں کی حقیقت سے ان کی شہرت کی وجہ سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے لیکن یہ بھی شرط نہیں ہے کہ جو بھی عمارت اس کے نام پرہے اسی نے بنایا ہو اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسجد یا رواق جسے ان کا بیٹا حسن ابن عمران بن شاہین نے عضد الدّولہ سے صلح کے بعد بنوایا تھا اور اس نے یہ اپنے باپ کے نام پر رکھ دیا تھا۔ بعد میں ان کی شہرت کی وجہ سے اسی نام سے مشہور ہوا اس حوالے سے ابن طحّال کی روایت کی صحت کے بارے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے کہ حسن ابن عمران بن شاہین نے منّت مانی تھی اور پورا ہونے پر بنوائی تھی نہ کہ ان کے والد نے لیکن بعد میں باپ کی شہرت کی وجہ سے عمارت ان سے منسوب ہوئی لیکن اس روایت کے علاوہ دیگر لگتا ہے صحت سے بعید ہے۔
اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عضد الدّولہ اور حسن بن عمران کے درمیان صلح روضہ مقدس میں قرار پایا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حسن بن عمران نے عضد الدّولہ کے تمام اصحاب کے سامنے اطاعت و محبت کا اقرار کیا ہو اور یہ مناسبت دونوں طرفین کے لئے باعث اعتماد ہو جس کی وجہ سے علاقے میں امن و امان کی صورت بہتر ہوئی ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حسن بن عمران نے امام کے لئے نذر مانی ہو اور اس کے پورا ہونے پر وہاں عمارت بنوائی ہو اور کوفہ سے نجف پابرہنہ پیادہ سر برہنہ آیا ہو اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ یہ تمام بعد میں ان کے باپ کی شہرت کی وجہ سے ان سے منسوب ہوا ہو یا حسن نے خود اپنے باپ کا نام رکھ دیا ہو یا تاکہ یاداشت رہے۔
اس موقع پر ڈاکٹر سعاد ماہرلکھتی ہے کہ آثار الشّیعہ امامیہ میں یہ بات آئی ہے کہ وہ مسجد جو حرم مقدس کے رواق سے متصل تھی پھر شاہ عباس صفوی نے صحن میں شامل کیا ہے۔اور شیخ محمد حسین حرز الدین نے شیخ میرزا ہادی خراسانی متوفی ١٣٥٣ھ /١٩٣٤ ء سے روایت کی ہے جس کو ہم نے بیان کیا کہ جو آثار قبور رواق حرم شریف کے دائیں طرف داخل ہونے کے بعد بائیں جانب ایوان الاذہب کے پہلے دروازہ میں موجود ہے کے بارے میں یوں لکھتا ہے ''وہاں ایک قبر میں سے ایک سفید پتھروں سے بنے ہوئے مختلف شکل و صورت والے ٹکڑے ملے ہیں جن پر مختلف فنی نقوش بنے ہوئے تھے جو کافی قیمتی ہیں جب اسے بغداد لے جایا گیا لیکن اس کی حالت معلوم نہیں ہوسکی، کہا جاتا ہے کہ ان میں سے جو مسجد رواق کے دیواروں کے اوپر ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ عمران بن شاہین سے منسوب ہے۔''عنقریب ہم مسجد عمران سے متعلق مزید باتیں کریں گے اور ساتھ یہ بھی بتائیں گے کہ ان کے بعد کیسے اس میں وسعت و ترمیم ہوئی۔

عضد الدّولہ کے جانے کے بعد نجف کی حالت
ہمارا مقصدعضد الدّولہ کی عمارت پر جو اصلاحات ان کے بعد ہوئی ہیں پر رکنا نہیں ہے اور نہ ہی اس پر اکتفا کرنا ہے کہ یہ مقدس شہر ترقی و تنزّلی کے جن مراحل سے گزرا کبھی وہاں کی آبادی زیادہ ہوئی اور کبھی کم۔ لیکن ہم یہاں دو اہم نکات ضرور بتا دیتے ہیں جن میں سے پہلا نکتہ شیخ طوسی کا نجف کی جانب ہجرت کرنا اور وہاں علمی و ثقافتی انقلاب برپا کرنا جبکہ دوسرا نکتہ مشہور سیاح ابن بطوطہ کا دنیا کا سفر کرتے کرتے ٧٢٦ھ/١٣٢٥ ء کو وہاں پہنچنا اور وہاں کے شہر روضہ کی صورت حال کا جائزہ لینا۔
لیکن ان دونوں نکات پر بات کرنے سے قبل میں چاہتا ہوں ان باتوں کی طرف اشارہ کروں جنہیں میں نے اس سے قبل بغیر مناسبت ذکر کیا تھا۔ کہ مختلف قبائل و فرقوں کی سیاسی کشمکش کی وجہ سے جو آثار باقی ہے جس میں صرف مسلمان نہیں تھے بلکہ غیر مسلم بھی تھے جیسا کہ ہم پڑھ کر آئے ہیں کہ عیسائی فرقے کیتھولک پروٹسٹنٹ اور آرتھوڈکس وغیرہ کے درمیان بھی اختلاف کچھ کم نہیں تھے۔ مثلاً کیتھولک اور پرو ٹسٹنٹ آپس میں شادی نہیں کرسکتے تھے سوائے یہ کہ ایک دوسرے کے مذہب کو قبول کرنے کے ۔ اس طرح عراق میں طوائفی سیاست مختلف مراحل میں سخت طریقے سے شہادت امیر المومنین کے حوالہ سے طول تاریخ میں نشیب و فراز کے ساتھ جاری رہی اور قتل و غارت کی آگ اس طرح پھیل گئی جسے حکومتیں بھی بجھا نہ سکیں۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی تاریخ میں گزرا ہے کہ ٤٤٢ھ بمطابق ١٠٥١ ء کو بغداد میں اہل تشیع اور اہل تسنن کے درمیان قربت کی فضاء قائم ہوئی کہ ایک دوسرے کے دینی مناسبت میں شریک ہونے لگے یہاں تک کہ بغداد کی مساجد کے میناروں سے حیّ علیٰ خیر العمل کی صدائیں بلند ہونے لگی اور کرخ میں صحابہ کرام کے فضائل بیان ہونے لگے۔ اور مختلف مناسبات میں نجف و کربلا میں زیارت کیلئے ساتھ جانے لگے اور یہ محبت و بھائی چارگی و قربت کا ایک خوبصورت منظر تھا جو تاریخ میں اس سے قبل کبھی نہیں ہوا جسے ابن اثیر وغیرہ اور تاریخ عراق کے دیگر مورخین نے جا بجا بیان کئے ہیں۔

شیخ طوسی کی نجف کی جانب ہجرت
لیکن یہ خوبصورت جشن کا سماں اتنا زیادہ عرصہ نہیں چلا جب ٤٤٧ھ /١٠٥٥ ء میں طغرل بک امیر سلجوقی عراق میں داخل ہوا تو اچانک طوائفی فتنے کی آگ پھیلانا شروع ہوگئی اور خاص طور سے امیر موصوف نے بغداد میں شیعوں کا قتل عام کیا اور وزیر بہا ء الدّولہ البویہی نے سابور بن اردشیر کی لائبریری کو جلانے کا حکم دیا اور یہ لائبریری اس زمانے کی سب سے عظیم اور اہم لائبریری تھی۔ اور یا قوت نے اپنے ''معجم البلدان ''میں کرخ کی جانب حدود کے اندر ایک محلہ کے بارے میں بحث کرتے وقت اس لائبریری کے اندر قیمتی کتب کا تذکرہ بھی کیاہے کہ ''اس لائبریری کے اندر موجود کتابیں تھی وہ ابو نصر سابور اردشیر وزیر بہا ء الدّولہ نے وقف کی تھی ایسی اچھی کتابیں پوری دنیا میں نہیں تھیں۔ اور یہ تمام کتابیں معتبر آئمہ کے ہاتھوں لکھی ہوئی اصولی کتابیں تھی اور یہ تمام اس وقت کرخ میں جلائی گئی جب آل سلجوق کا پہلا بادشاہ طغرل بک ٤٤٧ھ کو بغداد میں وارد ہوا۔ ''اور اس طرف ابن خلکان نے بھی اپنی ''الوفیات ''میں اشارہ کیا ہے کہ...... اس کے لئے بغداد میں دار علم تھا جس طرف ابو العلا المصری نے اپنے ایک قصیدہ میں اشارہ کیا ہے ۔
٤٤٨ھ /١٠٥٦ ء میں شیعہ فقیہ شیخ طوسی ابوجعفر بن حسن بن حسین اپنے گھر بار لٹنے ، درس کرسی چھننے اور کتابیں اور باقی اثاثہ جات جلائے جانے کے بعد بغداد کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، ان واقعات کو ابن اثیر ، ابن جوزی وغیرہ نے تفصیل سے بیان کیا ہے اور جلد ہی شیخ نے ایک سال بعد یعنی ٤٤٩ھ /١٠٥٧ ء میں ہی بغداد کو خیر باد کہہ دیا اور نجف اشرف کی طرف روانہ ہوئے اور وہیں پرمستقل سکونت اختیار کی۔
اگرچہ شیخ طوسی کے وہاں جانے سے پہلے بھی علمی سلسلہ موجود تھا جس کی طرف محمد جواد فخر الدین، شیخ محمد حسین حرز الدین نے اپنی اپنی تاریخ کی کتابوں میں اشارہ کیا ہے کہ بعض علمی شخصیات وہاں رہتی تھیں یا زیارت کی غرض سے یا وہاں موجود شخصیات سے کسب فیض کے لئے گئے ہوئے تھے اور ڈاکٹر حسن حکیم نے بھی ان باتوں کا ذکر اپنی کتاب مفصّل تاریخ نجف اشرف میں کیا ہے۔
لیکن ان تمام کے باوجود شیخ الطائفہ کی ہجرت وہاں کے علمی و ثقافتی تحریک میں پہلا دور شمار کیا جاتا ہے بلکہ ان کی وجہ سے یہ شہر مرور ایّام کے ساتھ طلّب علوم دینی اور علماء کے توجہ کا مرکز بنا اور جب تک کربلا و حلہ میں بعض علماء و طلاب نہ گئے نجف اشرف شیعہ دینی مرجعیت کا مرکز تھا لیکن بعد میں کچھ اسباب کی بنا پر بعض علماء اور ان کے ساتھ اکثر طلاب نجف چھوڑ کر کربلا و حلہ کی طرف چلے گئے اور وہاں بھی حوزہ علمیہ کی بنیاد ڈالی۔
یہ شہر اس زمانے میں عراق کی اقتصادیات کی بہتری میں معاون بن رہاتھا اسی طرح امن وامان کی صورتحال کی بنا پر آس پاس کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مثلاً ترکی، ایران، وغیرہ سے سیاسی تعلقات پیدا ہوئے لیکن شیخ الطائفہ کے وہاں جانے کے بعد جو علمی ، ثقافتی روشنیاں پیدا ہوئی تھیں وہ مستقل نہ رہ سکیں اور ایک مرتبہ پھر یہ شہر تہہ و بالا ہو کر رہ گیا اور شدید قحط کی وجہ سے یہاں سے لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد یہ شہر دوبارہ زائرین کا مرجع بن گیا، شیخ محمد حسین حرزالدین کے مطابق یہاں دسیوں شخصیات، خلفاء ، وزراء ، فوج کے قائدین یہاں زیارت کیلئے آئے اور یہاں دفن ہوئے اور شیخ الطائفہ کے یہاں داخل ہونے کے بعد بے شمار مدارس اور لائبریریاں بنیں جن کی کڑی آل بویہ کی تعمیرات تک ملتی ہیں۔

ابن بطوطہ کی زیارتِ نجف اشرف
روضہ مقدس کے ارد گرد خاص طور پر پانی وافر مقدار میں نہ ہونے کے باوجود اس مشکل اور سخت ماحول میں یہاں عضد الدّولہ کی تعمیرات سے قبل یا اسی دوران آل علی کے سترہ سو افراد فقہاء ، قاری، اور نوحہ خواں وغیرہ کے علاوہ بھی کافی تعداد میں لوگ رہتے تھے اور یہ تعداد محمد بن السرّی المعروف ابن البرسی کے حساب کے مطابق ہے اورعضد الدّولہ جب بھی یہاں زیارات کیلئے آتے تھے ان میں اموال تقسیم کیا کرتے تھے اور ان میں سے اکثر اس کی تعمیرات میں شریک بھی نہیں ہوئے اگرچہ وہ اس سے پہلے وہاںموجود تھے۔
لہٰذا مجھے جو ظن غالب ہے کہ علویوں کے لئے مشکلات خاص طور سے محمد بن یزید کی عمارت سے قبل اور بعد میں تھی اس کا انداز اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابن بطوطہ ٧٢٦ھ بمطابق١٣٢٥ ء کو یہاں پہنچا تو اس وقت اس شہر میں کافی ترقی ہوئی تھی اور انہوں نے اپنے اس مشہور سفرنامہ میں اس شہر کا پور ا جائزہ لیا ہے جو موسوعہ نجف اشرف میں نشر ہوا ہے جس میں اس سفر سے متعلق اکثر محدثین کی کتابوں میں بھی ذکر ہوا ہے اس سے لگتا ہے کہ ابن بطوطہ اپنے حج کی ادائیگی سال ٧٢٦ھ /١٣٢٥ ء کے بعد ہی عراق کی زیارت کے لئے آئے تھے کیونکہ ہر کوئی حج کے لئے جاتا تھا وہ ضرور نجف سے ہی گزرتا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسی وجہ سے ہی نجف پہنچا تھا ۔ لیکن جب وہ یہاں سے نکلا تو اس شہر کے حوالے سے اچھے تاثرات لے کر نکلا تھا اور کثرت بازار کے باوجود یہاں کی صفائی ستھرائی، نظم و ضبط نے اسے حیران کر رکھا تھا تو دوسری جانب یہاں کا نظام حکومت ایسا تھا جس میں لوگ آزادی کے ساتھ خوشحال زندگی گزارتے تھے۔
ابن بطوطہ لکھتاہے :''یہاں بڑے بڑے امراء اور بڑے بڑے نامور پہلوان گزرے ہیں اور صبح و شام شہر کے دروازے پر طبل بجاتے تھے جو شہر کے حاکم کی اجازت سے ہوتا تھا اور یہاں اس کے علاوہ اور کوئی والی نہیں تھا، نہ حکومت کا اشتیاق رکھنے والے تھے۔ اس شہر میں کسی کو نقصان پہنچانے والے نہ رہتے تھے بلکہ یہاں رہنے والے سخی تھے اور اپنے زائرین سے اچھا سلوک کیا کرتے تھے اور تین دن انہیں دو وقت کا کھانا کھلاتے تھے جس میں گوشت ، روٹی اور کھجور ہوتے تھے اور ان لوگوں کا پیشہ تجارت تھا اور وہاں روضہ مقدس سے ملحق ایک عظیم مدرسہ تھا جس میں شیعہ طلاب اور صوفی زوّار رہتے تھے اور روضہ مقدس سے گنبد تک جانے کے راستے آسان تھے مگر خاص روضہ مقدس پر جانے کے لئے باب گنبد پر رکنا پڑتا تھا کیونکہ وہاں حجاب اور پردے لگے ہوئے تھے اور مرقد مطہر پر جانے کیلئے زائروں کو اجازت لینا پڑتی تھی اور انہیں عتبہ چومنے کیلئے کہا جاتا تھا اور یہ عتبہ چاندی سے بناہوا تھا اور اسی طرح چوکھٹ کے دونوں بازوں بھی چاندی سے بنے ہوئے تھے اور اس کے اندر سونے چاندی کے چھوٹے بڑے فانوس لگے ہوئے تھے اور گنبد کے بالکل وسط میں ایک چوکور اوپر سے لکڑی سے ڈھکا ہوا چبوترا تھا جس کے اوپر سونے کے تار سے لکھے ہوئے چند صحیفے تھے جو چاندی کے میخوں سے مضبوط کیے ہوئے تھے ، اور اس چبوترے کی لمبائی ایک قامت سے زیادہ نہیں تھی اور اس کے اوپر تین قبریں تھیں اور وہ لوگ گمان کرتے تھے کہ ان میں ایک قبر حضرت آدمـاور دوسری حضرت نوحـ جبکہ تیسری قبر علی ابن ابی طالبـاور ان قبروں کے درمیان سونے چاندی کے سلفچے بنے ہوئے ہیں جس کے اندر آب گل مشک اور انواع و اقسام کے خوشبوئیں ہیں زائر اس میں ہاتھ ڈالتے ہیں پھر اپنے چہرہ پر تبرکاً ملتا ہیں۔''
وہ یہ بھی کہتا ہے:''اس گنبد کے لئے ایک دروازہ اور ہے یہ بھی چاندی سے بنا ہوا ہے جس پر رنگ برنگ ریشم کے پردے لگے ہوئے ہیں ۔ اس دروازے سے اندر کی جانب مسجد ہے جس کے اندر اچھے قالین بچھے ہوئے ہیں اور دیواریں اور چھت پر ریشمی پردے لگے ہوئے ہیں اور اس کے چار دروازے ہیں اور یہ چاندی سے بنے ہیں جس پر ریشمی پردے ہیں۔''
یہ بعید نہیں ہے کہ ابن بطوطہ جس مسجد کا ذکر کر رہے ہیں وہ مسجد بالائے سر ہو شاید یہ اس زمانے میں موجودہ مسجد کی طرح اتنی بڑی نہ ہو گی لیکن اس سے مسجد عمران مراد نہیں ہوسکتی کیونکہ جب بھی عمران سے منسوب عمارت کی طرف اشارہ ہوا ہے اس کے ساتھ رواق کا بھی ذکر ہوا ہے اور شاید یہ مسجد پرانی ہو جیسا کہ شیخ جعفر اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس کی دیوار سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسجد حرم علوی کے ساتھ بنی ہے۔
سیّد جعفر بحرالعلوم نے اپنے کتاب میں اس ضمن میں لکھا ہے کہ سیّدہ رضیہ بنت سلطان حسین الصّفوی نے خلف ظہر میں واقع مسجد کی تعمیر کے لئے بیس ہزار تو مان دیئے تھے اور قول مرجوح یہ ہے کہ اس سے مراد مسجد بالائے سر ہی ہے اور اس حوالے سے خاص طور سے علماءے اہل بیت کی روایات تواتر سے ہیں۔ جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ موضع بالائے سر قدیم ہے۔ واللہ اعلم
لگتا ہے روضہ حیدریہ کی تجوری بھی بہت پرانی ہے۔ اس حوالے سے ابن بطوطہ کہتا ہے: ''روضہ کی تجوری بہت بڑی ہے جس کے اندر بے شمار امانات رکھے ہوئے ہیں ان میں تمام یا زیادہ تر امانات وہ نذورات ہیں جو روضہ مقدس کے زائرین وقف کیا کرتے ہیں اور حرم مطہر کے خدام ان نذور کی حفاظت میںکو تاہی نہیں کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے ان خزانوں کی حد المقدور حفاظت ہو۔ ''
وہ کہتا ہے:بلاد عراق وغیرہ کے لوگ اس زمانے میں جب وہ بیمار ہوجاتے تھے تو روضہ مقدس کے نام اموال نذر کرتے تھے اوروہ شفا پاتے تھے اور ان میں سے بعض اپنا سر نذر کرتے تھے تو یہ منّت و نذرپورا ہونے پر سونے یا چاندی سے سر کا مجسمہ بناکر حرم میں لاکر رکھتے تھے اسی طرح ہاتھ پیر یا دوسرے اعضاء وغیرہ بھی۔
مزید آگے لکھتا ہے کہ'' اور یہ شہر والے تمام رافضی(شیعہ)تھے اور اس قبر علی کی وجہ سے روضہ مقدس کے بارے میں ان کے لئے بہت ساری کرامات ثابت ہوئی تھیں۔ اس سے ملحق مدارس اور دوسرے کمرے کی عمارت شاندار انداز میں بنائی گئی اوراس کے برابر میں مدارس اور چھوٹی چھوٹی گلیاں خوبصورت انداز سے بنی ہوئی تھی اور ان کی دیواروں پر خوبصورت نقش و نگار بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے دیواریں چمک رہی تھیں۔''
اس کے باوجود کہ موصوف نے روضہ سے متعلق مختلف شکوک و شبہات منسوب کرنے کوشش کی ہے لیکن پھر بھی اس کی کرامات سے متعلق طویل گفتگو کی ہے اور لکھا ہے کہ دور دراز علاقوں سے یہاں شفاء طلب کرنے کے لئے آتے تھے۔ خاص طور سے ستائیس رجب کو۔
موصوف اس بارے میں مزید یوں لکھتے ہیں:''اس روضہ پر بلاد عراق، خراسان، فارس، روم سے تیس تیس ،چالیس چالیس کے گروہ میں لوگ آتے ہیں۔ جب عشاء کا وقت ہو جاتا تھا تووہ ان تمام مریضوںکوروضہ مقدس کے پاس لٹا دیتے ہیں اور پھر ان کے صحت یاب کے انتظار میں نماز و ذکر تلاوت قرآن شریف میں مشغول ہوتے تھے جب آدھی رات یا اس سے زیادہ گزر جاتی تھی تو تمام مریض صحت یاب ہوکر یہ کہتے ہوئے اُٹھتے ''لَا اِ لٰہَ اِلاَّ اﷲُ مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللہ عَلِیْ وَلِیُّ اللّٰہ''
پھر لکھتے ہیں:''یہ بات ان کے ہاں مشہور ہے جسے میں نے خود اہل ثقاة سے سُنا ہے لیکن میں اس رات کو حاضر نہیں ہو سکالیکن میں نے تین آدمیوں کو مدرسہ کے مہمان خانہ میں دیکھا ان میں ایک کا تعلق روم سے تھا دوسرا اصفہان سے تھا جبکہ تیسرا خراسان سے، وہاں بیٹھ کر گفتگو کر رہے تھے ، جب میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کیا گفتگو کر رہے ہیں تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ آج شب بیداری تو نہیں کر سکے لہٰذا اب وہ آئندہ سال کے لئے لائحہ عمل بنا رہے ہیں۔''
شیخ محمد حسین حرز الدین نے عہد ایلخانی کے اقتصادی و تجارتی خوشحالی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ عہد ایلخانی ٦٥٦ھ /١٢٥٨ ء سے ٧٣٦ھ /١٣٣٥ ء پر محیط تھااور اس وقت شہر کا رقبہ ٧٤٠ھ بمطابق ١٣٣٩ ء میں مستوفی القزوینی کے مطابق دو ہزار پانچ قدم تھا ۔ لیکن اس کی آمدنی چھہتر ہزار دینار تک پہنچ چکی تھی جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب ''نزعة القلوب ''اور ''تاریخ آل الجلائر'' سے نقل کیا ہے۔
عضد الدّولہ کے روضہ مقدس کی تعمیر نو کے بعد نجف اشرف کے اندر نئے انداز سے تبدیلیاں شروع ہوچکی تھیں،کیونکہ وہاں صاحب شان لوگ جیسے علماء ، بادشاہان، امراء اور وزرا وغیرہ زیارت کے لئے آتے تھے اور اہم اصلاحات وغیرہ انجام دیتے تھے اور بعض تو وہاں رہنے والے علماء اور خدمت گزارانِ روضہ کو وظیفے بھی دیتے تھے اور صاحب شان و عزت افراد وہاں دفن کے لئے لائے جاتے تھے تو ان کے ساتھ ہبات و بخشش کے طور پر مال دیا جاتا تھا یا پھر کوئی عمل خیر انجام دیا جاتا تھا اور متوفی کی شان کے حساب سے دفن کے لوازمات بھی زیادہ ہوتے تھے۔ یہ تمام امور شہر کی اقتصادی اور سماجی حوالے سے ترقی اور خوشحالی میں شامل ہیں۔
عضد الدّولہ کی تعمیرات کے بعد سے دیگر افراد کی وہاں تدفین شروع ہوئی۔ اس سلسلے میں شہر کے حالات میں کیسی تبدیلی آئی ، ہم سمجھتے ہیں ان کا تاریخی ادوار کے ساتھ ذکرکریں اور ان تمام باتوں کو شیخ محمد حسین حرزالدّین نے اپنی کتاب ''تاریخ نجف اشرف ''میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔
.......مشہد امام میں اوائل جمادی الا خر ٣٧٩ھ /٩٨٩ ء کو شرف الدّولہ بن عضد الدّولہ دفن ہوا۔
.......پھر ٤٠٠ھ / ١٠٠٩ ء کو سلطان الدّولہ البویہی کے وزیر ابو محمد ابن سہلان نے روضہ امیر المومنین اور روضہ امام حسین کے ارد گرد دیوار بنوانے کا حکم دیا۔ اسی سال عید غدیر کے موقع پر شیخ مفید کے استاد ابو عباس احمد بن علی النجاشی الاسدی یہاں آئے۔
.......٤٠٣ھ /١٠١٢ ء کو بہا ء الدّولہ بن عضد الدّولہ نے شہر ارجان میں وفات پائی بعد میں ان کا جنازہ نجف منتقل کیا گیا۔
.......٤١٣ھ /١٠٣٩ ء کو عضد الدّولہ کا پوتا جلا ل الدّولہ یہاں اپنی اولاد اور وزیروں کے ہمراہ آیا۔ابن جوزی نے اپنی کتاب المنتظم میں بیان کیا ہے کہ جب وہ کوفہ سے گزرا تو اپنی سواری سے اترااور پا برہنہ پیادہ روضہ مقدس کی زیارت کی۔
.......٤٤٨ھ / ١٠٥٦ ء کو شیخ طوسی نے یہاں ہجرت کی اور ٤٦٠ھ /١٠٦٧ ء یہیں پر وفات پائی اور دفن ہوئے۔
.......٤٤٦ھ /١٠٧١ ء امیر النّاقد شاعر ابن سنان الخفا جی کو زہر دے کر قتل کر دیا گیا اور موصوف روضہ امیرالمومنین کے لئے ہر سال سونے کا ایک فانوس بھیجا کرتا تھا اس طرح روضہ کے خزانے میں چالیس فانوس جمع ہوئے۔
.......٤٧٩ھ /١٠٨٦ ء کو ملک شاہ سلجوقی نے مرقد مطہر کی زیارت کی یہ وہی شخص ہے جو ہرنوں کا شکار کیا کرتا تھا اور پھر ہرنوں کے سروں سے مینار بنوایا کرتا پھر وہ صدقہ نکالا کرتا تھا ابن جوزی نے کتاب المنتظم میں لکھا ہے کہ ''اس نے اپنی زیارت کے دوران یہاں دریائے فرات سے نجف تک نہر نکالنے کا حکم دیا تھا ''اور انہوں نے نجف میں ایک دعوت کا انعقاد کیا تھااور روضہ کے خدمت گزاروں کے درمیان تین سو دینار تقسیم کئے تھے۔
.......یہ بات بھی ظاہر ہے کہ نجف اقتصادی بحران کی دشواریوں سے بھی گزرا ہے جس کے باعث ٥٠١ھ /١١٠٧ ء کو اکثر لوگ یہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے کیونکہ روٹی کی قیمت بھی لوگوںکے قوت خریدسے تجاوز کر گئی تھی۔
.......ماہ رمضان ٥٣٢ھ /١١٣٧ ء کو بغداد میں خلیفہ مسترشد کے وزیر انتقال ہوا تو اس کاجنازہ نجف اشرف لاکر دفن کیا گیا۔
.......٥٤٠ھ/١١٤٥ ء کو شیخ الطائفہ طوسی کے پوتے نے وفات پائی جو نامور علماء میں شمار ہوتے تھے ، جس کی سمعانی نے تعریف کی ہے جبکہ عماد الطبری نے لکھا ہے کہ اگر انبیاء کے علاوہ کسی پر درود جائز ہوتا تو میں اس پر درود پڑھتا۔
.......٦٧٨ھ /١١٨٢ ء کو امام زاہد صوفی شیخ ابو العباس احمد الرّفاعی نے مرقد امیرالمومنین کی زیارت کی اور جب انہوں نے دور سے گنبد کو دیکھا تو اپنے جوتے اتار دیئے اور اس مناسبت سے چند اشعار کہے جو آج تک روضہ شریف پر نقش ہے۔
.......٥٧٩ھ /١١٨٣ ء کو کوفہ میں مشہور سیاح ابن جبیر آیا تھا لیکن وہ کہتا ہے کہ مشہد امام سے ایک فرسخ کے فاصلے پر تھا اور لیکن سفر میں جلدی جانے کی وجہ سے وہ روضہ کی زیارت نہیں کرسکا۔
.......٦٠٢ھ / ١٢٠٥ ء کو امیر مجیر الدّین طا شکین مستنجدی فوت ہوا اور اس کی وصیت کے مطابق اس کے جنازہ کو لاکر نجف میں دفن کیا گیا۔
.......٦٠٦ھ /١٢٠٩ ء کو خلیفہ ناصر الدّین اللہ احمد بن المستضی نے بنی عباس کے سب سے زیادہ عر صہ حکومت کرنے والا ہیبت ناک خلیفہ حسن بن مستنجدالعبّاسی کے حکم پر روضہ مقدس کی زیارت کی اور شیعہ ہوا تھا اور اس نے مشہد امام موسیٰ بن جعفرـکو مکان امن قرار دیا تھا، اوران کی فضائل امیر المومنین کے بارے میں ایک کتاب بھی ہے۔
.......٦٣٣ھ / ١٢٣٥ ء کو خلیفہ مستنصر با اللہ عبّاسی نے نجف میں فقراء آل علی کے درمیان دو ہزار دینار تقسیم کرنے کا حکم دیا روضہ مقدس کی ترمیم اور اس کے حجروں کی اصلاح بھی کروائی۔ کتاب الفرحہ میں آیا ہے کہ اس نے ضریح مقدس کیلئے بہت سا کام کروایا۔ سید جعفر بحرالعلوم کے مطابق مستنصر وہی ہے جس نے روضہ مقدس کے جلنے کے بعد دوبارہ تعمیر کروائی تھی۔ لیکن یہ صرف ان کا اشتباہ ہے کیونکہ جلنے کا واقعہ مستنصر کی وفات کے دسیوں سال بعد پیش آیا تھا۔
.......٦٤١ھ /١٢٤٣ ء کو خلیفہ مستعصم اپنی والدہ کے ہمراہ حج بیت اللہ جاتے وقت نجف کی طرف سے ہوتے ہوئے مرقد امیر المومنین کی زیارت کی اور یہاں بہت سارا مال کی تقسیم کیا۔
.......٦٦١ھ /١٢٦٢ ء میں علا ء الدّین بغداد پر حاکم بنا اور شیعہ ہوا۔ کہا جاتا ہے اس کی شیعہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے بھائی شمس الدین جو کہ صاحب دیوان بھی تھے اور ان کے بیٹے ہارون کے ہمراہ مشہد مقدس میں زیارت کیلئے آئے اور زیارت کے دوران ان کے درمیان مذہب کے بارے میں بات چھڑی تو ہارون نے کہا میرا مذہب اس مصحف میں سے جو نکلے گا وہی ہے اور قبر کے اوپر صندوق پر رکھے ہوئے مصحف کو کھولا گیا تو اس میں ایک پیپر رکھا ہوا تھا اس پر یہ لکھا ہوا تھا:
''قَالَ یٰہٰرُوْنُ مَا مَنَعَکَ اِذْ رَاَیْتَہُمْ ضَلُّوْآ اَلَّا تَتَّبِعَنِ اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ.(فَتَشَیَّعُوا)''
اور ٦٦٦ھ /١٢٢٧ ء کو علا ء الدّین نے مشہد علی کے پاس وہاں رہنے والوں کیلئے مکانات بنانے کا حکم دیا ''اور حرم کیلئے اموال کثیرہ وقف کیا اور رہنے والے محتاجوں کے کثیر تعداد میں انفاق کیا ''اور مکانات کی جگہ بکتاشی تکیہ اور مسجد بالائے سر کی جانب ہے۔
.......٦٧٢ھ/١٢٧٣ ء کو علاء الدّین الجوینی نے دریائے فرات قدیم جو کہ کوفہ کی جانب مسیب کے قریب ہے سے ایک نہر کھودنے کا حکم دیا جس پر اس نے ایک لاکھ سونے کے دینا ر خرچ کئے اور اس نہر کا نام نہر التّاجیّة رکھا گیا بعد میں یہ نہر سید تاج الدّین سے منسوب ہوئی جسے جوینی نے اس کام پر ما مور کیا تھا اس نہر کی تکمیل کے بعد کوفہ سے کافی تعداد میں لوگ نجف کی طرف منتقل ہوئے جہاں سال ہا سال ٹیلوں پر ٹیلے تھے کوئی آنے والا نہیں تھا اب وہاں پانی ہونے کی وجہ سے ہر طرف اصلاح ہونے لگی کثیر تعداد میں گاوں محلے بننے لگے اور اس نہر سے مزید شاخیں نکالی گئیں۔
.......٦٧٦ھ /١٢٧٧ ء کو عطاء الملک کے حکم سے بھی نجف میں پانی پہنچانے کے لئے کوفہ سے زمینی ٹنل کھودی گئی جس کی گہرائی پچیس میٹر سے زیادہ تھی جیسا کہ محمد حسین حرز الدّین نے بیان کیا کہ نجف کوفہ سے پچیس میٹر بلند تھا۔
.......٦٦٢ھ /١٢٦٣ ء کو بغداد کے حاکم کا نالی جلائر ی نے دریائے فرات سے نجف اشرف کی جانب نہر کھودنے کا حکم دیا جس کا نام انہوں نے نہر شہب رکھا اور اسی سال ایلخانی بادشاہ کے ایک امیر جلا ل الدّین بھی یہاں آئے تھے۔
اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ شہر اقتصادی حوالے سے اس زمانے میں عراق کے مشہور شہروں میں شمار ہوتا تھا۔ محمد حسین نے کتاب ''روضة الصّفاء ''اور الحوادث الجامعہ دونوں سے نقل کیا ہے کہ اس شہر میں بسنے والے تمام شیعہ تھے اور یہ لوگ اپنے کرم و سخاوت کی وجہ سے مشہور تھے۔
.......ماہ ربیع الا خر کے تیر ویں تاریخ بروز جمعرات بوقت صبح ٦٧٦ھ /١٢٧٧ ء کو شیخ فقیہ ابوالقاسم جعفر بن الحسن المعرف محقق حلّی فوت ہوئے پھر انہیں مشہد امیر المومنین لا کر دفن کیا گیا۔ ان کی مشہور کتابوں میں سے ایک ''شرائع الاسلام ''ہے جوکہ آج تک فقہ جعفریہ کی فقہ کی بنیاد ی کتابوں میں شامل ہے۔
.......٦٨٦ھ /١٢٨٧ ء کو رضی استر آبادی کی وفات ہوئی ان کی مشہور کتاب شرح الکافیة فی النّحوہے جسے انہوں نے ٦٨٣ھ /١٢٨٤ ء کو حرم مقدس کے جوار میں رہ کر مکمل کی تھی۔
.......٧٠٩ھ /١٣٠٩ ء کو سلطان محمد بن ارغون بن بغابن ہلاکو بن تولی بن چنگیز خان منگولی جو خداندہ کے نام سے مشہور تھا۔عبد اللہ کے مسلک تشیّع اختیار کی وجہ محسن الامین نے علامہ مجلسی کی کتاب ''شرح الفقیہ ''سے نقل کی ہے کہ مذکورہ بادشاہ نے ایک ہی دن میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں۔ لیکن بعد میں اسے پشیمانی ہوئی اور رجوع کا ارادہ کیا تو اسے کہا گیا کہ اس کیلئے حلالہ کروانا پڑے گا۔ وہ اسی پریشانی میں تھا اتنے میں اس کے ایک وزیر نے کہا حلّہ میں ایک عالم ہے جو اس طلاق کو باطل قرار دیتا ہے۔ یہ سننا تھا ان کے پاس بیٹھے ہوئے علماء نے کہا کہ اس کا مذہب باطل ہے اور اس کے اس نظریہ کاکوئی عقلی ثبوت نہیں ہے اورنہ ہی اس کے اصحاب کے مذہب صحیح ہے۔ لیکن بادشاہ نے اس عالم کو حاضر کرنے کا حکم دیا ، جب اسے لایا گیا اور ان کے درمیان طلاق کے مسئلہ پر کافی و بحث و مباحثہ ہوا با لآخر ان علماء نے اس کی فضیلت کا اعتراف کیا اور بادشاہ کی طلاق کو باطل قرار دیا کیونکہ اس نے بغیر گواہوں کے طلاق دی تھی۔
یہ عالم دین فقہ جعفریہ کے بزرگ عالم علامہ حلیتھے اس مناظرہ میں ان کی جیت اور مدلل انداز گفتگو سے بادشاہ بہت متاثر ہوا اس کے بعد بادشاہ نے علّامہ حلّی سے فقہ جعفریہ کے بارے میں جاننا چاہا تو علامہ حلی نے بہترین انداز میں فقہ جعفریہ کے بارے میں بادشاہ کو آگاہ کیا علامہ حلی کے بیان کردہ دلائل کو غور سے سننے کے بعد بادشاہ نے مذہب تشیّع اختیار کر لیا۔
.......ہفتہ کی رات ماہ محرم الحرام کی ٢١ویں تاریخ ٧٢٦ھ /١٣٢٥ ء کو شیخ جمال الدّین الحسن بن سدیدالدّین المعروف علامہ حلّی نے وفات پائی اور بعد ان کے جنازے کو نجف منتقل کیا گیا حرم شریف کے رواق میں دائیںجانب مینار کے پاس ١٣٧٣ھ /١٩٥٣ ء کو دفن کیا گیا۔جس حجرے میں علامہ دفن ہوئے اس طرف ''الطارمة ''ہال کی جانب ایک دوسرا دروازہ کھولا گیا تاکہ ان کی قبر تک عام و خاص سب لوگ آجا سکیں اور اس پر چاندی کی کھڑکی بنی ہوئی ہے۔
.......اسی سال مشہور سیاح ابن بطوطہ بھی نجف پہنچا تھا جس کے بارے میں تفصیلات گزر چکی۔
.......٧٣٤ھ/ ١٣٣٣ ء کو ابو سعید بہادر نے امیر منگولی مبارز الدّین محمد بن امیر مظفر کے ساتھ نجف کی زیارت کی۔
.......٧٤٥ھ / ١٣٤٤ ء کو ملک سواکن نقیب عز الدّین زید اصغر بن ابی نمی حسینی حلّہ میں فوت ہوا اور نجف لاکر دفن کیا گیا۔