دورِمنصور عباسی میں مرقد مطہر کی اصلاح اور زیارت کی اجازت
یہ ظاہرہے کہ امام صادق کے قافلہ منصور کے حکم پر حیرہ پہنچنے سے قبل امام کا اپنے جدّ بزرگوار امیر المومنین کی قبر پر رزام کے ساتھ زیارت ، نماز اور دعا پڑھی تھی جیسا کہ گزر چکا۔ پھر حیرہ یا کوفہ میں قیام کے دوران یا مدینہ کی طرف واپس تشریف لاتے وقت آپ نے اپنے جدّ بزرگوار امیر المومنین کی قبر کی زیارت اپنے اونٹ کے مالک صفوان کے ساتھ کی تھی۔ ابن طاوس نے اپنی ''کتب الفرحة'' میں بیان کیا ہے اور اس روایت کا اشارہ بھی گزر چکا جو محمد بن المشہدی کی سند سے ہشام بن سالم سے تھی کہ صفوان جمال کہتا ہے۔ ''میں امام جعفر صادق کے ہمراہ کوفہ میں ابو جعفرمنصور کے پاس جارہا تھا تو راستے میں امام نے فرمایا: اے صفوان یہاں سواری ذرا روک دو کیونکہ یہ میرے جدّ بزرگوار امیر المومنین کا حرم ہے۔تو میں نے سواری روک دی پھر آپ اترے اور غسل کیا لباس تبدیل کیا اس موضع کا بہت احترام کیا اور مجھ سے فرمانے لگے تو بھی وہی کر جو میں کرتا ہوں پھر مقام زکوات کی جانب بڑھے اور فرمایا اب تم آہستہ آہستہ چلنا اور جھک جھک کرچلنا'اس طرح ہم احترام و وقار کے ساتھ چلے ہم تسبیح و تقدیس و تہلیل کرتے ہوئے زکوات تک پہنچ گئے اور آپ نے دائیں بائیں نگاہ ڈالی اور اپنی عصا سے خط کھینچ لیا پھر میں نے بھی ان کی مدد کی اس طرح قبر مبارک ایک لکیر کے درمیان آگئی اس کے بعد آپ زارو قطار رونے لگے اور چہرہ مبارک آنسو سے تر ہوا اور آیت رجعت کی تلاوت فرمائی اور فرمایا اے متّقی و فرمانبردار وصی تم پر سلام ہو۔ اے عظیم خبر تم پر میرا سلام ہو'اے سچے شہید میرا سلام آپ پر اے پاک و پاکیزہ وصی آپ پر میرا سلام ہو۔اے ربّ العالمین کے پیغمبر کے وصی میرا سلام ہو آپ پر ، اے اللہ کی بہترین مخلوق میرا سلام ہو آپ پرمیں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے مخصوص و مخلص دوست ہو' اے اللہ کے ولی اور اس کے علم و راز و وحی کے خزانے و موضع میرا سلام ہو آپ پر پھر اپنے آپ کو قبر پر گرادیا اور فرمانے لگے اے حجت خصام میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں' اے بابِ مقام میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں اے اللہ کے نور تمام میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں میں گواہی دیتا ہوں آپ نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے پہنچادی ہے۔ اور جس کی آپ نے حفاظت کی اس پر عمل کیا اور جو امانت آپۖکے تھی اس کی بھرپور حفاظت کی اور آپ نے حلال اللہ حلال اور حرام اللہ کو حرام قرار دیا احکام خداندی کو قائم کیا اور حدود اللہ سے کبھی تجاوز نہیں کیا' اللہ کی آپ نے خلوص کے ساتھ عبادت کی یہاں تک کہ آپ کو یقین حاصل ہوگیا' اللہ آپ اور آپ کے آنے والے آئمہ پر درود بھیج دے ۔ صفوان کہتا ہے پھر آپ اُٹھے اور سر کی جانب پر چند رکعتیں نماز پڑھی اور فرمایا اے صفوان جو امیر المومنین کی زیارت کرے اور نماز پڑھے تو اپنے اہل کی طرف مغفور و مشکور ہوکر واپس لوٹے گا میں نے پوچھا اے میرے آقا کیا میںیہ خبر کوفہ میں ہمارے اصحاب کو بیان کر سکتا ہوں؟ فرمایا ہاں کیوں نہیں بتاسکتے اور مجھے چند درہم عطا کیے اور میں نے قبر شریف کی اصلاح کی۔ ''یہ روایت آپ تفریشی کی کتاب ''نقد الرجال ''میں ملاحظہ کرسکتے ہیں تاکہ آپ کو واضح ہو اور اس روایت میں ان تمام لوگوں نے اعتماد کیا ہے جنہوں نے زمانہ منصور میں امام صادق کی اپنے جدّ بزرگوار کی زیارت کے بارے میں بتایا ہے۔
ہمارے بھروسہ میںاس لیے اضافہ ہے کہ سابقہ روایت جسے محمد ابن مشہدی اپنی کتاب المزار میں بیان کیا ہے اور ابن طاوس نے بھی اسی سے نقل کی ہے اور اسے دو سو چودہ زیارتیں محمد بن کالد الطیاسی نے روایت کی ہے جن کی توثیق صاحب نقد الرجال تفریشی نے کی ہے ۔ تو اس روایت میں کوئی شک نہیں ہے لیکن صرف یہ تردد ہے کہ یہ اصحاب امام کاظم میں تھا نہیں یا یہ کہ انہوں نے اورکسی امام سے پھر ان کے بعد سیف بن عمیرة سے روایت بھی کی ہے لیکن یہ سیف بن عمیرہ تو تفریشی کے مطابق اصحاب امام کاظم سے تھا۔
کیونکہ ان روایتوں میں صرف صفوان اکیلا نہیں تھا بلکہ سیف بن عمیرہ اور اصحاب کی ایک جماعت ان کے ساتھ تھی جیسا کہ سیف کہتا ہے ''میں صفوان بن مہران جمال اور ہمارے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ غری گیا تھا جب ابا عبد اللہ امام صادق وہاں پہنچے تھے پھر امیر المومنین کی زیارت کی یہ روایت بھی کتاب المزار میں موجود ہے۔
اب ضروری نہیں ہے کہ قبر کو مضبوط بنایا گیا ہو یا کمزور یہ تو ان رقم پر منحصر ہے جو امام جعفر صادق نے صفوان کو اس کام کے لئے عطا کی تھی۔ کیونکہ صفوان اکیلا تو یہ کام انجام نہیں دے سکتا تھا تو ضروری تھا کوئی ان کی مدد کرے اور اسے پتھر اور دوسری چیزوں کی ضرورت بھی ہوئی ہوگی لیکن انہوں نے ایک چبوترہ نما ضرور بنایا تھا تاکہ مرور ایام سے قبر پر ریت جمع ہوکر دور نہ ہٹ جائے اسی لئے قبر شریف پر چاروں طرف سے گول یا مربع دیوار اٹھائی گئی تو بالآخر یہ ایک مسجد جیسی بن گئی تاکہ زیارت کے ساتھ نماز کا قیام ممکن ہوسکے۔ اس طرح عام طور سے غربی افریقہ کے مسلمان کیا کرتے ہیں کہ وہ بازاروں یا سڑکوں پر ایک جانب تھوڑی جگہ کے اوپر دیوار اٹھاکر مربع یا مستطیل کی شکل میں بناتے ہیں تاکہ وہاں سے گزرنے والوں کو یہ معلوم ہوسکے کہ نماز کی جگہ ہے اور اپنے پیروں سے ٹھوکریں نہ ماریں یا اس کے اوپر سے نہ چلیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں زیادہ گرمی ہوتی ہے یا لوگ مالی لحاظ سے تنگدست ہیں اور شاندار مساجد کی تعمیر نہیں کرسکتے ہیں۔
اس روایت سے ہم دو نکات اور نکال سکتے ہیں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ چبوترا یا پتھر یا اور اس سے ملتی جلتی چیز روضہ مبارک پر امام صادق کی منصور سے ملاقات سے قبل موجود تھا نہ معلوم کہ کس نے رکھا تھا یا یہ چبوترا بنایا تھا لیکن گمان غالب یہی ہے کہ خود امام نے رکھا تھا اوراہل بیت میں سے کسی کو حکم دیا تھا جب یہ تمام سفاح کے زمانے میں زیارت قبر علی کے لئے گئے تھے اور وہ چبوترا میں بارش ہوا اور گرمی کی شدت کی وجہ سے زنگ آلود اور پھٹا ہوا ا تھا۔ امام صادق صفوان اس کی اصلاح کا حکم دیا تھا۔ بقول صفوان'امام نے مجھے چند درہم عطا کی تو میں نے اس قبر کی اصلاح کی اور اگر یہ روایت صحیح ہو اگرچہ اس میں شک کی گنجائش نہیں تو پہلا گواہ یا پہلی علامت واضح ہے جو قبر شریف کی تصویر بغیر کسی شک و شبہے کے پیش کر رہا ہے جو امام صادق نے خود یا ان کے حکم سے رکھا گیا تھا۔
دوسرا نکتہ :دوسری بات یہ ہے کہ امام صادق نے اپنے اہل بیت کے ماننے والوں کو اس قبر کی زیارت کرنے کی اجازت دی تھی جس کی وجہ سے موضع قبر عوام کی توجہ میں آگئی ۔ اور اس سے یہ توجیہ بھی ہوسکتی ہے آپ نے اپنے چچا زاد بھائی عبّاسیوں کے ظلم و جور جو علویوں پر ہورہا تھا اس میں تخفیف کرنے کی طرف توجہ دلائی اور عبا سی ان کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہیں تھے ۔ کیونکہ یہ صاحب قبریعنی علی کے دور کو یاد کرتے ہیں اور عین ممکن تھا کہ وہ بنی عباس کے مقابلے میں اپنا لشکر تیار کرے اگر یہ وہ ظلم جاری رکھتے لہٰذا مام نے یہ رکوایا۔
اور یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم قبر مقدس کے اوپر کوئی کمرہ یا گنبد کے وجود کی توقع تاریخ کے اس زمانے میں کریں کیونکہ اس زمانے میں مسلمانوں کے قبور پر کوئی چبوترے یا قبے وغیرہ کا رواج نہیں تھا اگر ایسا ہوتا تو اموی اور عباسی ظالم حاکموں کی قبور پر بڑے بڑے چبوترے ہونا چاہیے تھے۔ہاں ہم عبد اللہ بن عباس جو خلافت عباّسیہ کا بانی ہے کی قبر پر گنبد دیکھتے ہیں۔ لیکن پہلی قبر جس پر گنبد تھا وہ منتصر با للہ بن متوکل کی قبر تھی جس کی تاریخ ٢٣٨ھ بمطابق٨٦٢ ء ہے۔ جیسا کہ طبری اور اس کے بعد ابن اثیر وغیرہ نے لکھا ہے یہ بنی عباس کا پہلا خلیفہ ہے جس کی قبر معروف تھی کیونکہ ان کی ماں امّ ولد رومیّہ تھی اس نے اپنے بیٹے کی قبر کو ظاہر کروایا تھا۔
اس سے ملتی جلتی ایک روایت مسعودی نے بھی اپنی ''مروّج الذّھب ''میں بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے ''یہ پہلا عباسی خلیفہ ہے جس کی قبر کو اس کی ماں جو حبشیہ تھی نے ڈھونڈ کر نکالی تھی جو سامراء میں تھی۔ '' ڈاکٹر سعاد ماہر نے اپنی کتاب ''مشہد امام علی'' لکھا ہے کہ اس کی ماں نے اس کی قبر میں روضہ بنوایا جو اس کے قصر سے دور تھا جہاں وہ رہتا تھا اور یہ ''صلیبیہ قبہ''سے مشہور ہے اور یہ روضہ شہر سامراء میں دریائے دجلہ کے مغربی کنارے میں واقع ہے اور ایک کمرے کے اوپر جو مربع شکل میں ہے جس کے اوپر قیمتی قبہ پر مشتمل ہے اور یہ قبہ ابھی تک موجود ہے۔
دراصل قابل ترجیح بات یہ ہے ابو جعفر منصور اور دوسرے خلفائے بنی عبا س نے علویوں اور ان کے شیعوں کو تنگ کر رکھا تھا تو چنانچہ یہ لوگ کھلم کھلا امام علی کی زیارت کیلئے نہیں جاتے تھے بلکہ چھپ چھپاکر بعض زائرین اہل بیت اور خلیفہ کے درمیان ہونے والے تعلقات کے نشیب و فراز کے مطابق جایا کرتے تھے خاص طور سے شروع کے عباسیوں کے عصر عہد کے نصف اوّل میںایسے تھا۔
ابو جعفر منصور کے حکم پر بنشِ مرقدمطہر
یہ بات مختلف کتب و دراسات میں موجود، اورمشہور ہے ۔کہ ایک دن ابو جعفر منصور نے مو ضع قبر مطہر کو کھودنے کا حکم دیاتاکہ یہ بات وضح ہوجائے کہ کیا یہاںواقعی امیر المومنین دفن ہیں ۔اس روایت پر بحث کر نے سے قبل ضروری ہے کہ اس کے بارے میں مکمل علم ہو ۔ابن طاوس اپنی ''کتاب الفرحہ ''میںکہتا ہے کہ ''احمدبن سہل نے کہامیںایک دن حسن بن یحییٰ کے پاس تھا اتنے میں اس کے پاس احمد بن عیسیٰ بن یحییٰ آیاجوان کے بھا ئی کا بیٹا تھا تو اس نے پوچھا، جسے میں سن رہاتھاکہ کیا تمہارے پاس قبرعلی کے بارے میں حدیث صفوان جمال کے علاوہ کوئی دوسری حدیث ہے ؟ تو اس نے کہا ہاں مجھے ہمارے مولا نے انہوں نے بنی عباس کے آقا کے حوالے سے بتایا اوروہ کہتا ہے کہ مجھے ابو منصور نے کہا اپنے ساتھ کدال اوربیلچہ اٹھاواور میر ے ساتھ چلو وہ کہتاہے میں اٹھا یا اور اس کے ساتھ رات کی تاریکی میں چل کر غری پہنچے تو وہاں پر ایک قبر تھی اس نے کہا یہاں کھودو۔میں نے کھودنا شروع کیایہاںتک کہ ایک لحد نکل آیا۔اتنے میں اس نے کہا۔آہستہ آہستہ کرو یہ قبر علی ابن ابی طالب ہے میں نے جاننے کے لیے ایساکیا تھا۔اس روایت میں غور کرنے سے یہ ترک کر دیا جاتا ہے۔اگر ہمیںاس کی تائید میں دوسری روایت نہ ملے تواس کوہم ترک کردیںگے کیونکہ اس سے شدید پریشانی لاحق ہوتی ہے۔اورزیادہ غور طلب ہے۔حدیث قبر صرف صفوان پر منحصرنہیںہے بلکہ اس کے ساتھ اور بھی لوگ آئمہ اہل بیت اورامام سجاد،امام باقر ،اور امام صادق کے ساتھ تھے ۔اس روایت کی طرق قابل غور ہے۔اس لیے اسے احمد بن محمدبن سہل کے آقانے بنی عباس کے آقاسے روایت کی ہے۔ اور عملی تحقیق میں اس قسم کی روایت کوقبول کرنامشکل ہے۔جب تک اس کی اطمینان بخش نہ ہوکیو نکہ روایت میں نہ پہلے آقا کانام صراحت سے ہے اورنہ ہی دوسرے آقا کا۔ابن طاوس کے اجتہادکوبھی قبول کرنامشکل ہے۔جس میںکہ منصور نے اس حوالے سے اہل بیت سے سناتھا،تواس نے حقیقت حال جاننے کارادہ کیاتواس کیلئے یہ واضح ہو گئی'' کیونکہ منصورامام کی شہادت اور ان کے قبرکے پوشیدہ رکھنے کے بارے میں سنناشک وشبہ سے خالی نہیںتھا۔کیونکہ اسے پتا تھا۔ علویوں اور عباسیوںنے امام کی تشیع جنازہ اور دفن میںشرکت کی ہے ۔جن میں سرفہرست عبیداللہ ابن عباس ہے۔اور آل جعفر کے شرکت کر نیوالوں میں عبیداللہ بن جعفر ہے جیساکہ بہت ساری روایات میںوارد ہے کہ کن لوگوں نے حسنین٭کے ساتھ ان کے والد گرامی کے تشیع جنازہ ،دفن اور ان کے لحد میں اتارنے اور نماز جنازہ میں شرکت کی تھی۔جیساکہ ہم نے ذکر کیا اس پر مستزاد یہ کہ امام کی سیرت اور ان کی شہادت کا قصہ، دفن اور موضع قبر ہاشمی خاندان کے درمیان مشہور ہے۔اور یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے شک وپریشانی ہو'تاکہ منصوراس کی صحت کے بارے میںاطمنان اوروثوق حاصل کرے ۔اگر یہ روایت صحیح ہو تو میرے حساب سے امام جعفر صادق کی زیارت کے بعد واقع ہواہو ۔جو انہوں نے ابوعباس السفاح کے دور میں کی تھی۔یا اس واقعے کے بعدہو جب منصور نے امام کو ١٤٣ھ /٧٦٠ ء میں کوفہ طلب کیا تھا۔اس واقعے کو ابن جوزی نے اپنی کتاب ''المنتظم'' میں اسی سال کا کہا ہے کہ میں نے بھی حج کا ارادہ کیا اور زاد راہ تیار کر لیا اورنکل گیا۔جب ہم کوفہ پہنچ گئے تو وہ نجف میں اترے اور چند دن قیام کیا اور شاید شیطان نے اس کو یہاں بہکا دیا ہو کہ وہ موضع قبرامیر المومنین کے بارے میں اطمینان حاصل کرلے تواس نے ایسا کیا ہو ۔اور یہ بعید نہیں ہے کہ موضع قبر کی معرفت حاصل ہونے کے بعدامام صادق کے حکم پر اس کی اصلاح ہوئی ۔اوراس کے بعدباقاعدہ علامت رکھی گئی ہو کیو نکہ یہ جگہ شدید ہو ا کی رخ کی جانب تھی گرد غبار اور ریت یہاں جمع ہوتا تھا اور پھر زیادہ بارش کی وجہ سے سیلاب آکر جمع ہونے کی وجہ سے وادی بن گئی ہوشایدیہی وجہ ہو بعد میں مرورایام کے ساتھ یہ تمام پتھر اور ریت جمع ہوکر ٹیلے کی شکل اختیار کر گیا ہو ۔
قبۂ رشید کی حکایت
مرقد مطہر اسی حال میں باقی رہا جس طرح امام صادق نے چھوڑا تھا ۔ہو سکتا ہے اس ٹیلے میں پوشیدہ ہواہوکیونکہ لوگ حکومتی جاسوسوں سے چھپ کر زیارت کرتے تھے عباسیوں نے علویوںکیساتھ وہی سلسلہ جاری رکھا ہو اتھا۔کبھی انہیں قید کرتے تو کبھی قتل اور ظلم کا نشانہ بناتے۔ اس طرح علویوں پر یہ دوراموی خلافت کے دورسے کم نہ تھا ۔ادھر منصور امام صادق کو زہر دینے میں کامیاب ہوااور ایام ١٤٨ھ /٧٥٦ ء میں شہید کیا گیا ،اور امامت ان کے بعد ان کے فرزندامام موسیٰ ابن جعفر میں منتقل ہوئی ۔اور منصورنے امام صادق کی وصیت تلاش کرنا شروع کر دی تاکہ یہ جان سکے کہ ان کے بعد امام کو ن ہے ؟ تو اس نے یہ پایا کہ انہوں نے پانچ لوگوں کیلئے وصیت کی ہیں'جن میں ایک خود منصور' مدینہ کاگورنر ابن سلیمان اور ان کے دوفرزند عبداللہ اور موسیٰ ،اور ان کی زوجہ حمیدہ تھی اور ان تمام کا قتل ایک طریقے سے ممکن نہ تھا۔یہ واقعہ عبدالحلیم جندی نے اپنی کتاب ''امام جعفر الصادق ''میںلکھا ہے۔ اور وہ فرزندامام کوقتل نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ وصیت میں معین نہیں تھا اسی سے ملتی جلتی ایک روایت ابوفرج نے اپنی کتاب ''مقاتل الطالبین ''میں نقل کیا ہے۔جس میں امام نے یحییٰ ابن عبداللہ ابن حسن ور ام موسیٰ اور ام ولد کے نام کی وصیت کی ہے ۔یحییٰ ابن عبداللہ سے ایک روایت ہے وہ کہتا ہے کہ انہوں نے جعفر ابن محمدموسیٰ اور امہ ولد کیلئے وصیت کی ہے کہ منصور مر گیا تو اس کے بعد مہدی خلیفہ بن گیا۔جس کے حکم سے امام موسیٰ کاظم کوبغداد بلایا گیا اور قید میں ڈالا گیا ۔ طبری کے مطابق مہدی نے ایک دن خواب میں امام علی ابن ابی طالب کو دیکھا جو فرمارہے تھے ۔
''فھل عسیتمان تولیتم ان تفسدوفی الارض وتقطعوا ارحامکم''
تو وہ خوف کی حالت میں نیند سے اٹھااور راتوں رات امام کو جیل سے نکالنے کا حکم دیا۔ اور ان سے عہد لیا کہ وہ ان کے خلاف خروج نہیں کریں گے ۔اتنے میں امام نے فرمایا:خداکی قسم یہ میر ی شان کے خلاف ہے اور نہ ایسی بات میرے ذہن میں ہے ۔تو اس نے کہا آپ نے سچ کہااور آپ کو تین ہزار درہم دینے کا حکم دیا ،پھر انہیں مدینہ واپس جانے کا حکم دیا اور خلافت رشیدہ کے دور میں جب اس نے حج کا ارادہ کیااور مدینہ پہنچ کر روضہ رسولۖ کی زیارت کی اور اس کے ساتھ موسیٰ کاظم تھے تو خلیفہ نے زیارت میں یہ جملہ کہا اے اللہ کے رسول اور میرے ابن عم آپ پر سلام ہو تو موسیٰ نے زیارت میں یہ جملہ کہا اے میر ے بابا تجھ پر میرا سلام ہو ۔ اتنے میں رشید نے کہا اے ابو الحسن یہ باعث فخر ہے۔پھر اس نے ١٦٩ھ میں امام کو طلب کیا اور لمبی مدت کیلئے قید کیا ۔طبری کے مطابق ماہ رجب یعنی ١٨٣ھ/٧٩٩ ء کو آپ کی وفات ہو گئی ۔اس سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ طبری نے امام کی گرفتاری کی تاریخ کو بیان کر نے میں شک کیا یا تحقیق کر نے میں غلطی کی یا طباعت میں غلطی ہوئی کیونکہ اس سال رشید خلیفہ ہی نہیں تھا اور اس نے اس سال حج بھی انجام نہیں دیا تھا کیو نکہ اس وقت اس کا بھائی ہادی خلیفہ تھا مگر جس حج کا طبری نے ذکر کیا اور اس سال اس نے بنی ہاشم کے رشتہ داروں میں مال تقسیم کرنے کاحکم دیا تھاجس طرح اس نے اہل حرمیں میں بھی بہت سارا مال تقسیم کیا تھا۔ اور١٧١ھ بمطابق٧٨٧ ء کو عبدالصمد بن علی نے حج بجالایا۔اس کے دوسرے سال یعقوب بن ابو جعفر المنصور نے حج کیا لیکن طبری ١٨٣ھ /٧٨٩ ء میں حج کیلیے گیا تو وہ زیادہ عرصہ وہاں نہیںٹھہر ا کیونکہ مکہ میں وبا ء پھیل گئی تھی ۔اس لیے گمان غالب ہے کہ اس کی ملاقات امام مو سیٰ بن جعفر کے ساتھ اس کے عمرہ کے دوران ١٧٥ھ بمطابق ٧٩١ ء کو ہو ئی تھی ۔ اور امام کو بلاکر ١٧٩ھ بمطابق ٧٩٥ ء میں گرفتار کیا تھانہ کہ ١٦٩ھ بمطابق ٧٨٥ ء جیسا کہ ا س نے ذکر کیا ہے اس کی توثیق ہمیں ابن خلقان کی اس حدیث سے بھی ہو تی ہے ۔جو اس نے امام مو سیٰ بن جعفر سے نقل کیا ہے ۔لیکن اس میں تاریخ اس نے ١٧٩ھ بمطابق ٧٩٥ ء لکھا ہے ۔اور وہ کہتا ہے کہ مہدی بغداد آیا اور اسے گرفتار کیا ،اور اس نے علی ابن ابی طالب خواب میں دیکھا ۔وہ ہارون رشید کے دور تک مدینے میں تھے۔جب ہارون الرشید ماہ رمضان ١٧٩ھ کو عمرے سے آیا تو اپنے ساتھ موسیٰ کو بغداد لایا اور انہیں وہاں قید کیا یہا ں تک کہ وہ قید میں ہی وفات پاگئے۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ اس نے ایسا اہل بیت٪ کے ماننے والوں کے خوف سے کیا اور خاص طور پر اس نے اپنے دونوںبیٹے امیں اور مامون کی خلافت کا عزم کر رکھا تھا اور امام کو گرفتار ہونے کے بعد رشید اپنے دونو ں مذکو رہ بیٹوں کے ساتھ١٨٦ھ کو حج کیلئے گیا اور ان دونو ں کے لیے عہد لیا ۔ ابن قتیبہ کے مطابق اس نے اپنے دونو ں بیٹوں کیلئے الگ الگ وصیت لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکا ئی تھی ۔بہر حال امام موسی ابن جعفر نے بھی مو ضع قبر علی کی نشاندہی فرمائی تھی اور لوگوں کی رہنمائی کی تھی ۔یہاں ایک بات جو مجھے سمجھ آتی ہے کہ آپ کو اپنے جد بزرگوار علی ابن ابی طالب کی زیارت آپ کے والد گرامی امام صادق کی وفات کے بعد میسر نہیں ہوئی کیو نکہ آپ کو ہر طرف سے مشکلات اور مسائل نے گھیر رکھا تھااسی لیے نہ آپ کو مہدی کے زمانے میں گرفتاری کے دوران اور نہ گرفتاری سے رہائی کے بعداور نہ رشید کے زمانے میں میسر ہوئی۔ ابن طاوس اپنی کتاب ''الفرحہ ''میں ابو علی ابن حما سے نقل کرتا ہے کہ موسیٰ ابن جعفر ان اماموں میں شامل ہیںجنہوں نے مشہد علی کی رہنمائی کیا ہے ۔ اور اس موضع کی طرف اشارہ کی ہے جو آج تک ہے اور کہتا ہے کہ ایو ب ابن نوح کہتا ہے میں نے ایک دن ابوالحسن مو سی ابن جعفر کو لکھا کہ ہمارے اصحاب زیارت قبر علی ابن ابی طالب کے حوالے سے اختلاف کر تے ہیں۔ بعض رحبہ کہتے ہے اور بعض غری ۔تو انہوں نے جوا ب لکھا کہ تم غری میں زیارت کرو ۔ایوب امام کاظم اور امام رضا کے وکیل تھے ۔اور ان دونوں کے نزدیک امانتدار'باعتماد اور متقی شخص تھا۔ یہ بات تفریشی نے اپنی کتاب ''نقد الرجال ''میںلکھا ہے۔اور محمد جواد فخر الدین وغیرہ امام کی زیارت کی بات کوترجیح دیتا ہے۔لیکن ان کے پیچھے کوئی قابل اطمنان دلیل نہیں ہے۔بہر حال اہل بیت ـمسلسل انقلاب نے عباسی خاندان کی کر سی ہلا کر رکھ دی تھی۔اور انہیں بے چین کیا تھا اور عباسیوں کا ظلم و جوراور ان کے ظالم اور جابر حکمرانوں کا بے رحمانہ سلوک ان پر جاری تھا۔ ایک دن منصور سے کہا گیا کہ ظلم میں رشید کا حصہ اس سے پہلے والے حکمرانو ں کے مقابلے زیادہ ہے لیکن اس کے دور میں اہل بیت٪کے قتل و غارت گری اورگرفتاریاں زیادہ ہوئی ۔اس حوالے سے اگر آپ ابو الفرج کی کتاب ''مقاتل الطالبین ''پر ملاحظہ کریں تو عباسیوں کا اہل بیت٪پر ظلم وجورکے واقعات جگہ جگہ نظر آتے ہیں ۔اس میں کو ئی شک نہیں کہ رشید کا یہ کارنامہ کہ اس نے امام مو سی بن جعفر کو زہر دیا ۔یہ اس کا عظیم اوربرے عزائم رکھنے کا نتیجہ ہے لیکن اللہ نے اس کا اس کے خاندان سے شدید انتقام لیا'جب مامون نے اپنے بھائی امین کو قتل کیا' لیکن سیرت علی کی روشنی نہ بجھ سکی بلکہ لوگوںکے دلوں میں اورزیادہ بڑھ گئی اور بہت سے انقلابات ان کی سیرت سے وجود میں آئے اور بہت سارے قائدین نے ان کی سیرت کے سایے میں لوگوں کی قیادت کی اور دوسری منصور اور اس کے بعد کے زمانوں میں کوفہ میںظالم حکمرانوں نے قبر علی کے زائرین پر سختی کرنا شروع کی۔ اور اس لمبے عرصے میں زائرین کی تعداد بہت کم ہوئی جس کے نتیجے میں بعض شیعوں کے درمیان موضع قبر کے بارے اختلاف در آیا لیکن مختلف مناسبات میں پوچھنے والوں کیلئے امام موسی ابن جعفر نے صحیح موضع کی طرف رہنمائی فرمائی۔
ابن کثیر''البدایہ والنہایہ ''کے مطابق ١٨٤ھبمطابق ٧٩٢ ء کو دیلم حسین بن یحییٰ بن عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی ابن ابی طالب نے ظہور کیا ۔اس کی بڑی تعداد میں لوگوں نے اتباع کی۔جس سے رشید بے قرار وبے چین ہو ا ۔تو اس نے پچاس ہزار جنگجو وں پر مشتمل فوج فضل بن یحییٰ بر مکی کی قیادت میں تیار کی اور فضل نے اپنی حکمت و سیاست کے ذریعے یحییٰ اور رشید کے درمیان صلح کرا نے کی کوشش کی اور ساتھ میں علویوں اور عباسیوں کے درمیان صلح کی بھی کوشش کی اور احتمال ہے کہ اس کے بعد یہ صلح اتنی زیادہ نہیں چلی ۔تو رشید کو فہ آیا ۔یا حج سے واپسی کے بعد یہاں پہنچا تھا ۔ اس نے یہاں تھوڑی دیر یا کچھ عرصہ آرام کر نے کا ارادہ کیا۔ اس دوران اس نے علویوں اور ان کے ماننے والوں کے ساتھ تھوڑی ہمدردی کا اظہار کیا ۔
اور ایک دن وہ ہرن کے شکار کیلئے نکلا جو کوفہ اور اس کے اطر اف میں زیادہ پائے جا تے تھے ۔ اور جو کوئی بھی یہاں آتا تو ان کی شکار کیلئے جا تا ۔ان ہر نو ں کی کثرت کے بارے میں شیخ محمد حرزالدین نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ ٤٨٠ھ بمطابق ١٠٨٧ ء میں سلطان ملک شاہ چار محرم کو کوفہ کے کنارے شکار کی غرض سے نکلا اور اس کا لشکر نے ہزاروں کی تعداد میں ہرنوں کا شکار کیا ۔اور ان کی کھو پڑیوں سے مکہ کے راستے میں واقع رحبہ کے مقام پر ایک بڑامینار بنانے کا حکم دیا۔جو آج تک ''ا رة القرون'' کے نام سے مو جو د ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس مینار میں چار ہزار کھوپڑیا ہیں اور نظام الملک جب کو فہ پہنچا تو اس نے مشہد علی اور اس مینار کو دیکھا اور وہ اسی ماخذ سے یہ بھی نقل کرتا ہے کہ میںارة القرون انہی شکاروںسے بنی ہے جو کو فہ کے کنارے میں واقع ہے۔ اور اس جیسا اور ایک مینار اس نے دریا کے پیچھے بنایا تھا ۔اور کہا جاتا ہے کہ اس نے خود دس (١٠)ہزار ہرنو ں کا شکا ر کیا تھا اور دس ہزار دینا رصدقہ دیا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ میں بلاوجہ ان جانوروں کی روح نکالنے سے ڈرتا ہوں۔اور ابھی تک پچھلے صدی کی پانچ دہایوںتک ہرن وہاں کثرت سے پائے جاتے تھے' جس کی طرف ہم اشارہ کر چکے ہیں اور درندوں کا قبر امام سے پناہ لینے کی حکایت جسے ہم ذکر کریں گے نے ہارون رشید کو حیران کر دیا اور اس جگہ کی راست کے بارے میں سوال کرنے پر مجبور کر دیا یوں تو اس طرح کی کرامات کی تعداد زیادہ تھی لیکن ان کی توثیق کرنا قدرے مشکل ہے کیو نکہ اس زمانے کے حکام اما م کے ساتھ بغض وعداوت کر تے تھے مگر وہ زیارت جو آگے آئے گی جس سے رشید کو پریشانی ہوئی تو اس نے اہل بیتکے ساتھ معذرت کی قابل قبول ہے چونکہ رشیدکو فہ میں تھا اور کوفہ عراق میں شیعوں کا مرکز تھا ۔او ر امام کا مر تبہ آپ کے دوستون اور دشمنوں کے ذہنون میں خاص طور پر رشید کی ذہن میں زیادہ تھا ۔وہ اگر چہ علویوں سے بچتا تھا اور ان کوختم کر نا چاہتا تھا لیکن اس کے دل میں امام کی عزت تھی جس کا وہ امام کو حقدار سمجھتا تھا ۔اس لیے اس نے قبر امام کی کئی مرتبہ زیارت کی اب یہاں دو باتیں قابل غور ہیں ۔ پہلی یہ کہ اس صلح کی تصدیق ہے جو رشید اور علویوں کے درمیان ہوئی تھی ۔دوسری یہ کہ اس نے اہل کوفہ کے لیے خاص طور سے امیر المومنینـکیلئے ہمدر دی کا اظہار کیا پھر اس زیارت کی اور قبر مقدس کا اصلاح کا حکم دیا ۔اگر چہ اصلاح سے مراد قبر پر جمی ہوئی مٹی کو جمع کر کے ایک ٹیلہ نما بنایا اوراس کے اوپر ایک بڑا چبوترا بنانے کا حکم دیا مگر جہاں تک اس گھڑے کی بات ہے اس کے بارے میں ابن الطہار لکھتے ہیں کہ کہ رشید قبہ کے اوپر رکھا تھا جو روضہ امیر المومنینـکی الماری میں چھٹی صدی کے نصف اول تک مو جود تھا ۔جس کا رشید کے ساتھ دور سے بھی واسطہ نہیں ہے اور یہ اس نے نہیں رکھا جیسا کہ بعد میں بیان ہو گا اور یہ ایک وہم ہے ۔جس کا سبب روایت میں نقطہ یا ابن الجمال کا ہو سکتا ہے لیکن روضہ کے الماری میںجو گھڑا موجو د ہے ۔وہ کو ئی دوسرا گھڑا ہے جس کے بارے میں ہم بیان کریں گے ۔بلکہ اس امر میں ابن طہال نے تجاوز کیا ہے اور کہا جاتا ہے ۔کہ رشید کا گھڑا الماری میں محفو ظ تھااورروضہ امام موسی کاظم کے الماریوں سے تبر کا ت منتقل کر تے وقت وہ گھڑا ٹوٹ گیا کیونکہ وہابیوںکے خوف سے یہ تمام تبرکا ت روضہ امام کاظم میں منتقل کیا گیا تھا ۔ یہ بعید نہیں کہ سبز گھڑاروضہ امام علیـکے الماری میں موجو د ہو جیسے روضہ کی تعمیر کے دوران شاہ صفی کی حکم سے رکھا گیا تھا ۔یا یہ بعد میں دوبارہ تعمیر کے دوران شاہ عباس صفوی اول کے حکم سے رکھا گیا ہو محمد حرزالدین نے اس حوالے سے ''معارف الرجال ''میں بیان کیا ہے کہ یہ قبہ سونا چڑھوانے سے پہلے نیلے رنگ کے کاشتکاری اور رنگ برنگ کے چھوٹے چھوٹے پتھروں کے ٹکڑوں کو جوڑکر مختلف اشکال اور قسم قسم کی صورتوں سے مزین کیا گیا تھا ۔اوراس کے اوپر ایک گھڑا رکھا ہو ا تھا جو بعد میں قبے کو سونا چڑانے کے بعد الماری میں رکھا گیا مگر وہ گھڑا جو رشید کی طرف منسوب ہے جس کا کوئی آثار نظر نہیں آتاہے جس کے کوئی آثار ٢٦٠ھ تک ہمیں نظر نہیں آئے ۔
خاص طور پر مرقد شریف پر قبہ سے پہلے چبو ترا تھا جیساکہ بیان ہو ا اور ہم یہاں یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اس عمارت پر ایسا قبہ بنایا گیا تھا جس کے چاردروازے تھے اور اس کے اوپر ایک سبز قیمتی گھڑا مو جو د تھا ۔
بلکہ شیخ کاظم حلفی نے یہاں تک لکھا ہے ''روضہ کے جواہرات سے مر صہ قندیل رکھا ہوا تھااورہر کسی نظرکو آتا تھا اور مجھے نہیں معلوم یہ ساری چیزیں کہا ںسے آئی ۔ اگر یہ سب چیزیں صحیح ہو تو یہ گھڑ ا اور قندیل کے اوپر تین صدیوں کے آس پاس میں ابن الطہار جو کہ قبہ رشید کے حدیث کے راوی ہیں کے مطابق کوئی وجو د نہیں تھا ۔ قبہ رشید کے روایت کی بات میرے خیا ل میں زیادہ قابل غور ہے کیو نکہ اس کے اند ر بعض محدثین اور متاخرین نے حد سے زیادہ مبالغہ آرائی سے کا م لیا ہے۔ اور قبر امیرالمومنینـ کو اس چیز کی ضرورت نہیں تھی کیو نکہ اس زمانے میں قبر وں پر قبے بنانا مشہور نہیں تھا ۔اگر مشہور ہو تا تو بنی امیہ کے قبورپر اور بنی عباسیوں کے خلافاء صفاء ،منصور ،مہدی ،ہادی، رشید وغیرہ اور اہل بیتـ کے مدینہ منورہ میں یا ان کے علاوہ بڑے بڑے صحابیوں کے قبروں پر قبے کے بارے میں سنتے یا لکھتے، اور مسعودی جو چوتھی کے مورخ ہیں اور مدینہ منورہ میںآئمہ اطہار٪ کے قبور کے بارے میں سوائے ان کے اوپر ایک کتبہ ان پر ان کے اسماء گرامی کے علاوہ کچھ بیان نہیں کر تا ہے ۔جیسا کہ بیان ہوا ''کتاب فرحہ ''میں زیارت رشید کی اصل روایت ابن عائشہ سے عبداللہ بن حازم سے ہے ۔اور اس روایت کے سلسلے میں شیخ طوسی اور شیخ مفید ہے۔اور ان کا نام اس روایت میں ہو نا مزید توثیق کر تا ہے اور یہ روایت شیخ مفید کی کتاب الارشاد میں ہے۔عبداللہ بن حازم کہتا ہے۔ایک دفعہ ہم رشید کے ساتھ کوفہ سے شکارکرتے ہو ئے غریین اور ثویہ کے کنارے پہنچے اورہم نے وہاں بہت سارے ہرنوں کو دیکھا'تو ہم نے ان پرشکار ی باز اورکتوںکو چھوڑاتو انہوں نے ایک گھنٹہ شکار کرنے کی کو شش کی۔ پھر یہ ہرن ایک ٹیلے کی طرف بھاگ گئے تو بازاورکتے واپس آگئے۔یہ منظر دیکھ کر رشید حیران ہو ا'پھر یہ ہرن دوبارہ جب ٹیلے کے نیچے نکلے توبازوں اور کتوں نے دوبار ہ پیچھا کر نا شروع کیا۔ اور ہرنوں نے جب یہ دیکھا تو دوبارہ ٹیلے کے پیچھے چلے گئے۔تو کتے اور باز واپس آگئے۔اس طرح تین مرتبہ ہوا تو ہارون نے اپنے ساتھیوںسے کہا:اس جگہ کی طرف جاؤ جوبھی ملے میرے پاس لے کر آو'تو ہم اس کے پاس سے بنی اسد کے ایک بزرگ کو لے کر آئے۔ ہارون نے اس سے پوچھا ،یہ ٹیلہ کیا ہے۔ بزرگ نے جواب دیا: اگر تم مجھے امان دو گے تو میں بتا وںگا۔ہارون نے کہا تمہارے لیے اللہ کا عہد اور میثاق ہو۔ میں تمہیں کو ئی اذیت نہیں دوںگا اتنے میں اس بزرگ نے کہا کہ میرے والد نے اپنے باپ کے حوالے سے مجھے بتایا کہ وہ کہا کر تے تھے یہ ٹیلہ علی بن ابی طالب کی قبر ہے ۔اللہ نے اس کو رحم قرار دیا جو کوئی یہاں آتا ہے اما ن پاتا ہے ۔ اتنے میں ہارون اترا اور پانی طلب کر کے وضو کیا اور اس ٹیلے کے پاس نماز پڑھی ۔اور وہاں دیر تک روتا رہا پھر ہم نکل گئے اس روایت کو قطب الدین راوندی نے اپنی کتاب ''الخرائج والجرائح ''اور شیخ مفید نے اپنی کتاب ''الارشاد''میں بیان کیا ہیلیکن یہ دونوں محمد بن عائشہ سے عبداللہ بن حازم کی روایت کر نے پر مطمئن نہیں ہیں ۔اس کی وجہ یا تو اس روایت میں مذکور کرامت ہے۔یا رشید کی زیارت قبر امیر المومنین سے دوری ہے لیکن اس حوالے سے یاسرکی روایت پر اعتماد کرتے ہیں جو کہ رشیدکے ساتھ حج میں تھا یا سر کہتا ہے کہ جب ہم مکے آکر کو فہ میں ٹھہر ے تھے تو ایک رات رشید نے مجھ سے کہا اے یاسر عیسیٰ ابن جعفر سے کہو کہ وہ میرے پاس آئیں۔ اور ہم سب سوار ہو کر چل نکلے یہاں تک کہ ہم غریین پہنچے ۔
مگر عیسیٰ تو جلدی سو گیا ،لیکن رشید ایک ٹیلے کی طرف آیا اور نماز پڑھنا شروع کیا۔ جب اس نے دو رکعتیں پڑھی اور ٹیلے پر گر کر دعا اور گریہ زاری کر نا شروع کیا ،پھر یہ کہنے لگا اے میرے چچا زاد! واللہ میں آپ کی فضیلت کو جانتا ہوں اورمیں نے آپ سے مسا بقت کی ہے اور واللہ میں آپ کے پاس بیٹھا ہو ں اور آپ آپ ہیں لیکن آپ کی اولاد مجھے اذیت دیتے ہیں اور میرے خلاف خروج کرتے ہیں پھر وہ اٹھتا ہے اور نماز پڑ ھتا ہے اور وہی بات دوہر اتا ہے یہا ں تک کہ سحر کاوقت ہو تا ہے ۔تو مجھے کہتا ہے:اے یا سر! عیسیٰ کو اٹھا و جب میں نے اٹھا یا تو رشید نے اسے کہا اور اپنے چچا زاد بھا ئی کے قبر پر نماز پڑھو عیسیٰ نے کہا یہ میرے کو ن سے چچازاد ؟ تو ہارون نے کہا یہ قبر علی ابن ابی طالب کی ہے ۔یہ سن کراس نے وضو کیا اور نماز پڑھنا شروع کیا اور فجر تک دونو ں بھا ئی نماز پڑھتے رہے۔ پھر میں نے کہ اے امیرالمومنین صبح ہو گئی۔ پھر ہم سوار ہو گئے اور کو فہ واپس آگئے ۔یہ روایت شیخ مفید نے بھی اپنی ''کتاب الارشاد ''میں ذکر کیا ہے ۔پھر ابن طاوس نے اپنی کتاب الفرحہ میں ایک روایت بیا ن کیا ہے جسے صفی الدین نے بعض قدیم کتابوں سے یوں بیان کیا ہے کہ ۔عبیداللہ بن محمد بن عائشہ سے روایت کرتے ہوئے عبداللہ بن عازم بن حزیمہ کہتا ہے کہ ایک دن ہم رشید کے ساتھ شکار کی غرض سے غریین اور ثویہ کے کنارے چلے گئے پھرمذکورہ حدیث کی عبارت ہے اور اس قول کے بعد کہ ہم کوفہ واپس آگئے ،اس عبارت کا اضافہ کیا ہے پھر ہم مقام رحبہ کی جانب نکل گئے اور وہاں ٹھہرے ہوئے تھے ایک سال بعد رشید نے مجھ سے کہا اے یاسر تمہیں غریین کی رات یا د ہے ؟میں نے کہا ہا ں یا امیرالمومنین۔تو اس نے پو چھا کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ کس کی قبر ہے ؟ میں نے کہا نہیں تو اس کہا وہ تو امیر المومنین علی ابن ابی طالبـکی قبر تھی ۔میں نے کہا اے امیر المومنین یہ کو ن سا تضاد ہے کہ آپ ان کے قبر سے ساتھ یہ سلوک کر تے ہیں اور انکے اولادوں کو گرفتار کر کے قید کرتے ہیں !تو اس نے کہا تم پر ہلاکت ہو یہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟
یہ لوگ مجھے اذیت دیتے ہیں اور میں ان کی مدد کر تا ہوں!تم دکھاو کہ ان میں سے کون جیل میں ہے ۔ہم نے بغداد اور رقہ کی جیلوں میں دیکھا تو پچاس آدمی تھے ۔ تو اس نے کہا ان میں سے ہر ایک کو ہزار ہزار درہم دے دو اور رہاکرو۔یا سر کہتا ہے کہ میں نے ایسا کیا تو مجھے احساس ہو اکہ اللہ کے نزدیک یہ میری سب سے بڑی نیکی ہے۔ابن عائشہ کہتا ہے کہ یاسر یہ حدیث جسے مجھے عبداللہ بن حازم نے بیان کی میرے نزدیک موثوق ہے۔اب ان تینوں روایتوں کے درمیا ن آپ کے سامنے ہے کہ پہلی روایت میں رشید شکار کیلیے نکلتا ہے اور وہاں ہرنوں کے ان ٹیلوں کے پاس پناہ لینے سے اس کو قبر مطہر کی پہچان ہوتی ہے جبکہ دوسری روایت میں وہ امیرالمومنینکی زیارت کی قصد سے ہی نکلا تھا۔ اور وہ موضع قبر اور صاحب قبرکے بارے میں جانتا ہے اور کو ئی اس کی رہنمائی بھی نہیں کرتا یہ بات زیادہ عقل کے قریب ہے اس لیے قبر مطہر تو دوسرے علویوں اور عباسیوںکے ہاں نا معلوم نہیں تھی اورجبکہ تیسری روایت میں وہ شکاراور زیادہ قبر مطہردونوںکی قصد سے نکلا تھا نہ صرف یہ کہ وہ موضع قبراور اس کی قدر کے بارے میں جانتا تھا اور ایک سال کے بعد قبر مطہر کی زیارت کی راز کو یا سر کو بتاتا ہے اور پھر یاسر کی ملامت اور علویوں کو قید سے رہا کروا تا ہے اور آپ نے ملاحظہ کی کہ ان تینوں روایتوں میں کہیں بھی اس کے قبر مطہر کی تعمیر کاذکر نہیں ہے ۔تیسری روایت کے مطابق وہ کو فہ دوبارہ واپس آتا ہے اور ایک سال کے بعد غریین میں آکر وہ یاسر کو صاحب قبر کا راز بتاتا ہے لیکن اس حوالے سے ''دمیری ''نے اپنی کتاب ''حیاةالکبریٰ ''میں ابن خلکان کی کتاب الوفیا ت سے فہد سے احادیث بیان کر تے ہوئے بیان کیا ہے۔ جس کے مطابق وہ شکار کیلئے نکلے تھے یہاں تک کہ شکاری جانور قبر اطہر کی طرف نہیں بڑھے ......!اس کے بعد یہ حدیث شروع ہو تی ہے کہ ''پھر اس نے وہاں کے ایک باشندہ کوبلایا اور اس سے اس نے دریافت کیا کہ یاامیرالمومنین اگرمیں آپ کو آپ کے ابن عم علی ابن ابی طالب کی قبر کی جانب رہنمائی کروں تو آپ کیادوگے ' رشید نے کہا ہم تمہا ری تعظیم کریں گے ۔ اتنے میں وہ آدمی کہتا ہے میں ایک دن اپنے باپ کے ساتھ یہاں سے گزراتو وہ اس قبر مطہر کی زیارت کر نے لگا اور مجھے بتایا کہ وہ امام جعفر صادقـ کے ساتھ یہاں آیا کرتے تھے اور جعفر اپنے والد بزرگوار محمد باقر کے ساتھ یہاں آیا کرتے تھے ۔اور علی ابن حسین اپنے پدر بزرگوار حسین کے ساتھ آکر زیارت کرتے تھے اور حسین اس قبر کے بارے میں ان سے زیادہ جاننے والے تھے یہ سن کر رشید نے اس موضع پر پتھر رکھنے کا حکم دیا اور یہ پہلی بنیا د تھی اس کے بعد سامانی اور بنی حمدان کے ایام میں اس پر مزید تعمیرات ہو ئی اور یہ سلسلہ دیلم کے دور میں او ربڑھ گیا ۔اور عضدالدولہ و ہی ہے جس نے قبر علی ابن ابی طالب کو ظاہر کیا اور اس پر مزار بنوایا اوروصیت کی کہ اسے یہاں دفنایا جائے۔ اورلوگوں کے در میان اس قبر کے بارے میں اختلاف ہے۔''دمیری ''کی یہ روایت دو روایتوں سے مخلوط ہے ،جس میں ایک کہ وفیات کے حوالے سے یہ بات کہ وہ شکار کیلئے نکلے پھر وہاں موضع قبر پر پتھر رکھنے کا حکم دیا۔ دوسری بات ابن خلکان کے مطابق کہ عضدالدولہ نے قبر امیرالمومنین کا انکشاف کیا ہے۔ اور پھر تعمیر کروائی اور وہا ں دفن ہو ئے اور اس میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہے ۔اگر ہم اختلاف والی بات کو زیادہ اہمیت نہیں دے تو اس روایت سے زیادہ سے زیادہ یہ بات نکلتی ہے کہ رشید نے قبر مطہر پر کو ئی چیز رکھی تھی ہم یہ توقع نہیں کر تے کہ رشید نے وہاں چبو ترا یاموضع قبر کے احاطے میں اور بھی پتھر رکھا ہو یا کوئی تعمیر کی بنیا د رکھی ہو یہ کام تو اس کے کارندے یا کو فہ کے گور نر کے حکم سے ہو تا ہے ۔پھر رقہ یا دوسری جگہ کی جانب چلا گیا ۔مگر جہاں تک بات رشید کے قبے کی ہے تو اس کی حکایت پر مجھے اطمینا ن نہیں ہے۔''صاحب الفرحہ ''نے اس حوالے سے ایک روایت بیان کی ہے۔ ابن طحال کہتا ہے کہ رشید قبر مطہر پر سفید سے تعمیر ات کی تھی جو موجود روضہ سے ایک ہاتھ چاروں طرف سے چھو ٹا تھا اور جب ہم نے روضہ شریف کو کھولا تو اس کے اوپر مٹی ور حرنا تھا ۔پھر رشید نے اس کے اوپر سرخ مٹی سے قبہ بنانے کا حکم دیا اور اس کے اوپر سبز یمنی چادر ڈال دی ۔اور مولوی کی تحقیق کے مطابق یہی قبہ ہے جو آ ج روضہ کی الماری میں مو جو د ہے ۔یہ روایت اور دوسری تمام روایات جو رشید کی عمارت کے حوالے سے ہیں ان تمام میں تبدیلی آئی ہے ۔ ڈاکٹر محمد حسن نے بھی اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ بعض مآخذ میں رشید کی تعمیر کے بارے میں یو ں بھی وارد ہو اہے کہ امیرالمومنین کی قبر پر قبہ ،صندوق اور سائباں بنایا ۔در اصل ماخذ تو صرف الفرحہ کی روایت ہی ہے ۔یہاں ڈاکٹر محمد حسن مو ضع قبر مطہر کی شہرت رشید کے زمانے میں دیکھ کر بہت غضبناک ہو کر کہتے ہیں ۔پھر ایک اور روایت ہے شاید ہارون رشید کے زمانے میں قبر مطہر کی کشف کرنے کے حوالے سے سب سے قوی روایت ہوگی جبکہ اس کی صورت سے لگتا ہے کہ یہ سب ضعیف روایت ہے۔مگر یہ جو بن طحال کے روایت کے اند ر مذکور ہے جس کے بارے میں سید تحسین مولوی نے مستد رکار علم الرجال کے حوالے سے کتاب الفرحہ کے حاشیے میں حالات زندگی بیان کی ہے لیکن اس میں مو صوف کو اشتباہ ہوا ہے ۔انہوں نے کہا ابن طحال جو کہ حسن بن حسین بن طحال مقدادی ہے جبکہ شیخ غازی اس کے بارے میں لکھتا ہے کہ وہ علی ابن طحال جو کہ مزار علی ابن ابی طالب کا ایک خادم تھا ۔
آپ نے ملاحظہ کیا ہے کہ اس کے اندر واضح فرق ہے ۔اور ڈاکٹر حسن حکیم نے بھی لکھا ہے کہ وہ مر قد شرف کا خادم تھا ۔پانچویں صدی تک روضہ مقدس کی خدمت گزاری حوالے سے کوئی اشارہ وغیرہ نہیں ملتا اور یہ بھی کہا جاتا ہے آل طحال کے خاندان کی طرف خدمت گزاری منسوب کیا جاتا ہے لیکن کو ئی قابل اعتماد سند نہیں ہے سواے محمد السماوی جس نے آل طحال کی خدمت گزاری پر اعتمادکیا ہے جس کی حالات زندگی ہم فخر الدین کی تحقیق میں دیکھا ہے وہ کہتا ہے آل طحال حرم شریف کے خداموں میں سے تھا لیکن کتاب الفرحہ کے حاشیہ شیخ مہدی نجف نے اس شخص کی حالات زندگی میں بیان کیا ہے کہ وہ حسن ابن محمد بن حسین بن علی بن طحال بغدادی ہے جو٥٨٤ھ بمطابق ١١٨٨ ء میں مر قد شریف کے خدام تھے۔ لیکن موصوف نے اس حوالے سے کو ئی ماخذ بیا ن نہیں کیا سوائے بعض معلومات اپنے والد اور داد اسے جمع کرنے کے۔
شیخ عبداللہ مامقانی نے اپنی کتاب ''تنقیح المقال ''میں حسن بن حسین بن الطحال مقدادی کے حالات زندگی کو یہ کہہ کر چھوڑدیا ہے کہ علماء رجال نے اسے بیان نہیں کیا ہے۔اس لیے یہ مہمل ہے' ان کا یہ احتمال قابل شک ہے کیو نکہ ان سے روایت ہو ئی ہے اور انہوں نے روایت بیان کی ہے۔ اگر ہم ابن طحال کی روایت پرنظر دوڑائیں تو ہمیں اس میں کو ئی سند اور ماخذ نظر نہیں آتا جو اس کی تائید کرے بلکہ مجھے ان کے اندر کو ئی تقویت نظر نہیں آتی بلکہ ایک دوسرے کی دفاع کرتی ہوئی نظر آتی ہے روضہ مقدس تیسری اور چھٹی صدی کے درمیان ایک سے زیادہ دفعہ بنایا گیا ہے ان عمارتوں میں زیادہ مشہور عضدالدولہ کی عمارت ہے جس میں ایک سفید قبہ تھا جس کو ہم یہا ں بیان کریں گے ۔ رشید کی عمارت کیسے مشہور ہوئی ۔ خود اس روایت کے اندر اضطراب ہے کہ ایک مرتبہ رشید دیوار بناتا ہے تو دوسری طرف قبہ بنانے کاحکم دیتا ہے اور قبر اور صاحب قبر کی احترام کے لیے اس کے اوپر ایک سبز یمنی چادر رکھتا ہے ۔اور قبہ سرخ مٹی سے تیار کراتا ہے بلکہ میر ے نزدیک تو شیخ مہدی کا نظریہ صحیح لگتاہے جس نے بجائے جرةکے (حبرہ) یعنی یمنی چادر کا ذکر کیا ہے ۔
اگر میں عمارت اور قبہ کی زینت کو نہیں مانتا توبالکل انکار بھی نہیں کر تا ۔سید جعفر بحر العلوم نے اپنی کتاب میں الفرحہ میں مو جود ان دونوں روایتوں کو ملاتے ہوئے بیان کیا ہے کہ ہارون رشید نے وہاں قبہ بنانے کا حکم دیا پھر لوگوں نے زیارت شروع کی اور اس کے ارد گرد اپنے مردوں کو دفن کرتے تھے اوریہ سلسلہ عضدوالدولہ کے زمانے تک تھا۔سید محسن امین صاحب ''اعیان الشیعہ ''کے مطابق ١٧٠ھ بمطابق ٧٨٦ ء کو سب سے پہلے ہارون رشید نے روضہ مقدس کی تعمیرکروائی تھی ۔اور دیلمی نے ''ارشاد قلوب ''میںروایت بیان کیا ہے کہ جب ہارون رشید نے زیارت قبر امیر المومنین کیلئے گیا تو وہاں چادر دروازوں پر مشتمل ایک قبہ بنوانے کا حکم دیا ۔اس پر حسینی نے اضافہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پھر لوگوں نے زیارت کرنا شروع کی اورقبہ اس کے ارد گرد اپنے مردوں کو دفن کرنا شروع کیا ۔دیلمی اپنی کتاب ''ارشاد القلوب'' میں بغیر سند کے ایک روایت بیان کرتے ہیں جس کے شروع سے آخر تک اخذ مشکل ہے وہ روایت کے شروع میں کہتا ہے کہ امیر المومنین کی جب روح قبض ہوئی غسل وکفن کے بعد مسجد کوفہ کی طرف چار تابوت نکالے گئے پھر نماز پڑھائی گئی 'پھر ایک تابوت ان کے گھر کی طرف لے جایا گیا باقی تین میں سے ایک بیت الحرام بھیجا گیا اور دوسرا مدینہ رسول بھیج دیا گیا جبکہ ایک تابوت بیت المقدس میں بھیج دیا گیا۔ یہ اصل میں آپ کو پوشیدہ رکھنے کے لیے ایسا کیا گیا تھا ۔
اسی طرح کی روایتوں پر ہم نے تبصرہ کیا ہے یہ صرف قیل وقال اور من گھڑت باتیں ہیں جو دفن کے حوالیسے دوسری معتبر روایات سے خاموش ہو تی ہے ۔سید حسن امین صاحب دائرة المعارف شیعہ نے لکھا ہے کہ رشید کے زمانے میں قبر شریف پر سائباں اور اس کے قبہ بنایا گیا تھا۔اس کے باوجود موصوف نے ماخذ کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی ہیں ۔اسی طرح ہم نے ارشاد دیلمی میں بھی دیکھا جس کے اندر طباعتی غلطیا ں بہت زیادہ تھی ۔اور بغیر سند کے یہ روایت لکھ دی ۔پھر اس چار دروازوں پر مشتمل عمارت بنانے کا حکم دیا اور یہ عضد الدولہ کے زمانے تک باقی رہا ۔
|