ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)
 

مرقد شریف
امامکے دشمن آپ کے شہید ہونے پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ اگر انہیں اس عظیم سانحے میں انکے اپنے نقصان کا پتہ ہوتا تو وہ کبھی بھی ا س طریقے سے خوشی کا اظہار نہیں کرتے او ر صلح امام حسن کے بعد امیر معاویہ، آپ کے خلاف نازیبا اور توہیں الفاظ استعمال کرنے کی تحریک نہیں چلاتے اور طبری کے مطابق یہ عمل کوفہ میں سال ٤١ ھ ربیع الاوّل یا جماد ی الاوّل میں شروع ہو چکا تھا ۔ او ر بعدازاں امام علی کے خلاف سب و شتم کا سلسلہ تمام مسلم ممالک کی مساجد کے منبروں سے شروع ہوا اور تمام مساجد کے آئمہ و خطبا ء آپ سے برائت کرنے لگے جس کو ہم نے اپنی کتاب ''وَ مَا اَدْرَاکَ مَا عَلِی'' تفصیل سے بیان کیا ہے اور یہ سلسلہ نصف صدی سے بھی زیادہ جاری رہا۔ اور آپ کے جو بھی صحابی اس حوالے سے مزاحمت کرتے تھے تو ظالم حاکم نہ صرف انہیں قتل کرتے تھے بلکہ مثلی بھی کرتے تھے یعنی قتل کرنے کے بعد ان کے اعضاء کاٹتے تھے۔ اگر اس میں کافی اصحاب شہید ہوئے تاہم بعض کا یہاں پر ذکر کرتے ہیں کمیل بن زیاد النّخعی جسے حجاج نے قتل کیا۔ میثم تمّار ا سدی کو عبید اللہ ابن زیاد نے قتل کرنے کے بعد مثلی کر دیا ہانی ابن عروہ مرادی کو بھی ابن زیاد ہی نے قتل کرکے مثلی کردیا۔
حجر بن عدی اور ان کے اصحاب کو معاویہ بن ابی سفیان نے قتل کیا اس کے علاوہ سینکڑوں اصحاب مارے گئے لیکن اب حالت یہ ہے ان اصحاب کے قبور لوگوں کے مزار بن گئے لیکن ان کے دشمنوں کی قبور کا نام و نشان بھی موجود نہیں اور ان کا ذکر کرنا بھی ہر کوئی ننگ و عار محسوس کرتا ہے۔ لیکن امام علی کے شیعہ برے طریقے سے قتل ہوتے رہے اور ان پر کفر و گمراہی کے جھوٹے الزامات وغیرہ لگتے رہے جو آج تک جاری ہے۔
امام علی پر سب و شتم کا یہ سلسلہ بعد میں آکر عمر بن عبد العزیز کے دور میں بند ہوا ورنہ ان کا ارادہ تھا کہ یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے۔ اور ایک طرف تو اس سلسلہ کو بڑھاتے رہے اور لوگوں کو اکساتے رہے لیکن دوسری طرف لوگوں میں اور مسلمانوں کے دلوں میں امام کی معرفت و منزلت موجزن ہوتا گیا۔ اور آپ کا جسد خاکی اس بیابان تقریباً ایک صدی اور نصف سے زیادہ مدفون میں رہے سوائے آپ کے اہل بیت اور خاصّان کے کسی کو علم نہیں تھا اور تقریباً اٹھاسی سال تو اہل بیت اور خاصّان کے ساتھ قلیل تعداد میں لوگ چھپ کر زیارت کے لئے جاتے تھے۔
اس دوران بنی امیہ نے مختلف طریقے سے قبر شریف کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تاکہ جسد خاکی کی توہیں کریں اسی میں وہ اپنی نجات سمجھتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ حجّاج بن یوسف نے کوفہ کے کنارے میں تین ہزار قبور کھول کر وہاں سے نعشیں نکلواکر مثلی کروایا شیخ جعفر محبوبہ نے اپنی کتاب نجف کے ماضی اور حال، منتخب التواریخ اور روضات الجنات کے حوالے سے لکھتے ہیں ۔ ان قبور کو اس طرح ختم کیا گیا یہاں تک کہ آثار تک باقی نہیں رہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کا ارادہ خاک میں ملادیا اور اپنے ولی کی قبر کی ہر طریقے سے حفاظت کی۔٤٣سال تو قبر کی جگہ کی لوگوں کو پہچان ہوکر گزارا اور لوگ جوق در جوق وہاں جاتے رہے جس کی وضاحت ہم عنقریب کریں گے۔ لیکن ہمارے پاس کوئی ایک ایسا ماخذ اب تک موجود نہیں جو ہماری رہنمائی کرے کہ وہاں اس دوران کوئی اور بھی دفن ہوئے یا نہیں۔ ہاں بعد ازاں جب یہ زیادہ مشہور ہوا تو آنے والے زمانوں میں لوگ اپنے میتوں کو دفن کرتے رہے اور ساکنین نجف اس زمانے میں قبر شریف کے نزدیک نہیں رہتے تھے۔لیکن اتنا زیادہ دور بھی نہیں رہتے تھے جسے طبری اور بعض مورخین نے بیان کیا ہے۔ بعض اہل بیت شاید اس لیے بھی وہاں رہتے تھے ایک تو یہ مرکز کوفہ سے دور تھا دوسری بات وہاں آنے والے زائرین کی رہنمائی اور ان کی مہمانداری کرتے تھے لیکن یہ گمان غالب ہے کہ یہ سلسلہ عباسی انقلاب کامیاب ہونا تھا ۔ اور ١٤٤ ھ بمطابق ٧٦١ ء سے قبل خلیفہ منصور نے یہ حکم دیا تھا عبد اللہ بن حسن اور اہل بیت کومدینہ سے کوفہ لایا جائے اور ابن ھبیرہ کے قصر جو کوفہ کے مشرق میں واقع تھا میں قید کیا جائے یہ بات طبری نے اپنی تاریخ میں جبکہ ابن اثیر نے اپنی کتاب ''الکامل فی التاریخ''میں بیان کی ہے۔ لیکن طبری ایک روایت عبد اللہ بن راشد بن یزید سے نقل کی ہے کہ ''جب عبد اللہ ابن حسن اور اس کا خاندان قیدی بن کر نجف اشرف پہنچے تو انہوں نے اپنے خاندان سے کہا کہ کوئی ہے اس گاؤں میںجو ہمیں اس ظالم سے بچائے؟ اتنے میں ان کے بھائی حسن کے دو بیٹے تلوار اٹھاکر ان کے پاس آئے اور کہنے لگے یا ابن رسول اللہ ہم حاضر ہیں آپ جو چاہیں ہمیں حکم فرمائیں۔ تو انہوں نے فرمایا تم دونوں نے فیصلہ تو کرلیا ہے لیکن اب تم کچھ بھی نہیں کرسکتے اتنے میں وہ چلے گئے۔''
جبکہ ابن اثیر نے یہ روایت بغیر کسی نسبت کے نقل کیا ہے لیکن روایت کے اندر کچھ تبدیلی ہے جو محقق کی اپنی اجتہاد کی طرف نسبت دی گئی ہے یا یہ کاتب یا مولف کی غلطی ہوسکتی ہے اور روایت یوں ہے۔ جب یہ لوگ کوفہ پہنچے تو عبد اللہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کوئی ہے اس گاؤں میں جو ہمیں اس ظالم سے بچائے؟ تو کہتے ہیں کہ ان کے بھائی کے بیٹے حسن اور علی ان کے پاس تلوار اٹھاکر آئے اور کہا یا ابن رسول اللہۖہم حاضر ہیں ہمیں حکم کیجئے کہ آپ کیا چاہتے ہیں تو انہوں نے فرمایا تم دونوں نے اپنی ذمہ داری پوری کی اب تم کچھ نہیں کرسکتے اتنے میں وہ چلے گئے۔
اب آپ ملاحظہ فرمائیے کہ اس نے کہا جب یہ لوگ کوفہ پہنچے تو عبد اللہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کوئی ہے اس گاوں میں ؟جبکہ کوفہ کو گاوں نہیں کہا جاتا تھا ہاں شاید اس نے یہاں علیٰ سبیل غلبہ کیا ہو یا اصل عبارت یوں ہو۔ فلما قدمو لی نواحی الکوفہ جب وہ کوفہ کے مضافات میں پہنچے یا کوفہ کے مقام نجف میں اور ہر صورت میںان کی آمد نجف کی جانب ہی نظر آتی ہے جس سے مراد صرف مو ضع قبر نہیں ہے بلکہ پورا ٹیلہ جس کے احاطے میں امام علی کی قبر بھی شامل ہے اور بجائے بقعہ ''ٹیلہ ''کے روضہ کی موضع بیان کیا جاتا ہے یاا بن اثیر نے طبری سے لفظ نجف کی جگہ لفظ کو ہی نقل کیا ہو یا کاتب نے کتابت کرتے وقت کوئی تبدیلی کی ہو اس پرمستذاد یہ کہ محقق کو شبہ ہوا ہو تو اس نے حاشیہ میں بیان کیا ہے اور وہ صحیح ہو۔ اور طبری کے ہاں یہی صحیح ہو ۔ لیکن حسن وعلی کون تھے اور اس علاقے سے ان کی کیا نسبت تھی اور ان کا دعویٰ وہ وہاں رہتے تھے ان تمام نکات کے حوالے سے پھر بھی شک و شبہ باقی رہتا ہے۔
بہر حال یہ بات یقینی ہے کہ قبر شریف کی زیارت اور وہاں قیام کرنے کا رواج اہل بیت سے ہی ہوا تھا جب ان پر سختی کم ہوتی تھی تو ان کے ماننے والے وہاں زیارت اور قیام کی غرض سے آتے رہتے تھے اور جب حکومت کی طرف سے سختی میں دوبارہ شدّت ہوتی تھی زائرین کی تعداد میں کمی آتی تھی اور وہاں مجاورین چھپتے تھے تو گمان یہ ہے کہ اس طرح اُن کا وہاں کا قیام موسمی تھا یعنی مختلف مناسبات کی وجہ سے لوگ وہاں آتے تھے۔مثلاً حضور اکرمۖکی ولادت کے موقع پریوم غدیر اور خود امام کی ولادت شہادت کے ایام وہ مناسبات ہیں جو شیعوں کے ہاں اب بھی معروف و مشہور ہیں۔اور اس میں ماحول کا بھی عمل دخل تھا ہمارے خیال میں محمد بن زید الدّعی کے گھر کے نزدیک لوگوںکی رہائش تھی اس حوالے سے ہم عنقریب ذکر کریں گے لیکن میرے نزدیک قابل ترجیح بات یہ ہے کہ ہارون الرشید کے وہاں تعمیرات کرنے کے بعد ہی قبر شریف کے جوارمیں لوگ اپنے مردے زیادہ دفن کرنے لگے مگر ڈاکٹر شیخ محمد ہادی نے انسائیکلو پیڈیا میں جو اصحاب رسول اللہۖ نجف میں دفن ہیں تقریباً ایک سو پچاسی صحابی تک کا ذکر کیاہے اور ان کے حالات لکھے ہیں ۔لیکن ان میں کسی کی قبر امام علی کی قبر کے جوار میںنہیں ہے یہ انہوں نے صرف بیان کیا ہے تو اس حوالے سے یہ ہوسکتا ہے کہ یا تو یہ کوفہ یا اس کے مضافات کے قبرستان میں دفن ہیں یا بمقام ثویّہ جو خندق سابور اور حنانہ کے درمیان واقع ہے۔ شاید کمیل ابن زیاد النّخعی کے روضہ ان قبور کی طرف سے امام کی قبر سے نزدیک ہے اور کمیل کی قبریں اس وقت موجود ہے جو قبر امام سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ بات بھی ہمیں تاریخ میں ملتی ہے کہ ان اطراف میں خبّاب بن ارت بھی دفن ہیں۔ ا س حوالے سے شیخ محمد حسین حرز الدین فی کتاب تاریخ نجف اشرف میں حکم کی مستدرک الصّحیحین سے یوں نقل کرتے ہیں ۔ جب خبّاب کو تیر لگا تھا اور اسے مرنے کا احساس ہوا تو اس نے اپنے کو کوفہ کے کنارے دفن کرنے کی وصیت کی۔
ڈاکٹر شیخ محمد ہادی امیں نے اپنے مضمون بعنوان ''سب سے پہلے امام امیر المومنین کے دور میں کون دفن ہوئے ''کہ امام نے ان کی نماز جنازہ پڑھی ''پھر آپ ان کی قبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا اللہ خباب پر رحم کرے کیونکہ اس نے اپنی رغبت سے اسلام قبول کیا اور ہماری اطاعت میں ہجرت کی اور مجاہدانہ زندگی گزاردی اپنے جسم میں مختلف بلائیں جھیلی اللہ تعالیٰ کسی کے اچھے اعمال کے اجر ضائع نہ کرے ''۔اور ابن قتیبہ نے اپنی کتاب المعارف میں واقدی سے روایت کی ہے کہ ''خباب ٦٦سال کی عمر میں٣٨ ھ میں کوفہ میں وفات پائی اور یہ پہلا شخص ہے جسے علینے کوفہ میں دفن کیا اور اس کی نماز جنازہ پڑھاکر صفین کی جانب روانہ ہوئے۔''
اور اسی بات کو محمدصاحب المظفّر نے اپنی کتاب ''وادی السّلام ''اور تمیمی نے مشہد علی میں ذکر کیا ہے لیکن جو وہاں دفن ہوئے وہ دائرہ قبر امام علی سے باہر ہوئے تھے۔ کوفہ میں سب سے پہلے دفن ہونے والے اصحاب کو بیان کرنے والوںمیں ابو الغنائم بن الزّسی کا نام آتا ہے جو ٤٢٤ھ شوال کو پیدا ہوا وہ کہتا ہے کوفہ میں اہلسنّت والحدیث میں صرف اُبّی تھا جو یہ کہتا ہے کہ کوفہ میں کل (٣١٣) اصحاب دفن ہوئے جن میں صرف قبر علی کا پتہ ہے ۔اس روایت کو ابن جوزی نے اپنی کتاب بیان کیا ہے۔
اس زمانے میں وہاں روضہ کے آس پاس زندگی گزارنا سیاسی، قبائلی، ناگزیر ماحول کے باعث اتنی آسان نہیں تھی جس کی طرف ہم اشارہ کر چکے ہیں لیکن وہاں روضہ مقدس کے احاطے میں پانی نہیں تھا یا اس کا حصول مشکل تھا ان تمام مشکلات کے باوجود وہ لوگ رہے۔ اور مرور ایام کے اس ٹیلے کو روضہ مقدس کی وجہ سے مختلف ناموں سے پکارنے لگے جو کہ یوں ہیں:جرف، نجف، مسنّاة، شغیر الھضة جو کہ ہزار میٹر کے فاصلے پر ہیں۔ اور بعد کے دِنوں میں یہ ہر خاص وعام کے لئے شہر بن گیا۔
اور ایک دن یہ مرقد مقدس مزار بن گیا اور لوگوں کا بڑا اجتماع بغیر کسی خوف و مناسبت کے یہاں جمع ہوتے ہیں اور پھر وہاں قبّے، صحن وغیرہ بن گئے تو مشہد کے نام سے پکارا جانے لگا پھر آہستہ آہستہ روضہ مقدس کے اطرف بازار بننے لگے۔اور وہاں رہنے والوں کو مشہدی کہا جانے لگا اور اسی طرح مقام غرییّن یا الغرّی ، الغریّان سے قریب سے ہونے کی وجہ سے غروری بھی کہنے لگے۔
شاید شیعان علی پر جو سب سے زیادہ سخت دور گزرا ہے زیاد بن اُمیّہ کا دور اگرچہ زیاد امام علی کے معروف اصحاب میں تھے اور اس کا بیٹا عبید اللہ بن زیادہ جسے یزید بن معاویہ کی جانب سے کوفہ کا والی بنایا تھا۔
تو یہ دور اہل بیت رسولۖپر کٹھن اور دشوار ترین دور گزرا جس میں امام حسین اور ان کاخاندان بھی شہید کردیا گیا۔ اور دوسرا جو مشکل ترین دور بنی اُمیّہ کے حاکم حجّاج بن یوسف ثقفی کا دور حکومت تھا۔

امام زین العابدین ـ کی زیارت
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سانحہ کربلا کا واقعہ امام زین العابدین پر پہاڑ کی مانند ٹوٹ پڑا تھا جس کے برابری دنیا کی کوئی مصیبت نہیں کرسکتی ۔ اس حوالے سے ابن طاوس نے اپنی کتاب الفرحة میں روایت بیان کی ہے جس کے مطابق امام زین العابدین مدینہ سے باہر خیمہ لگا کر لوگوں سے الگ تھلگ اپنی عبادات و احزان میں مصروف رہتے تھے۔اور کبھی قریہ بلید کے نزدیک جو مدینہ سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہے رہتے تھے۔ یا قوت اپنی معجم البلدان میں بیان کرتا کہ یہ قریہ مدینہ کے کنارے ایک وادی میںآل علی ابن ابی طالب کا قریہ کہلاتا تھا اور بعید نہیں ہے یہی شدید ؟ دراصل امام کو اپنے باپ دادا اور خاندان کی زیارت کرنے پر مائل کرنا تھا۔ جنہیں آپ سرزمین کربلا کی تپتی ہوئی ریت پر چھوڑ آئے تھے اور چاہتے تھے وہاں جاکر ان پر ماتم کرکے اپنی مصیبت کی حرارت کو بجھادے اور ان کے قبروں پر روئے۔
ابن طاوس نے امام زین العابدین کی اپنے جدّ امیر المومنین کی زیارت کے حوالے سے چند روایتیں بیان کی ہیں ان میں سے وہ جابر بن یزید الجعفی سے ابو جعفر امام محمد باقر کی روایت بیان کی ہے کہ''میرے والد بزرگوار علی بن حسین قبر امیر المومنین کی جانب بمقام مجاز سے گزرے اور یہ مقام کوفہ کے کنارہ واقع ہے پھر وہاں ٹھہر کر رونے لگے۔''پھر اب طاوس ''کتاب الفرقة ''میں سابقہ زیارت دوسرے طراق سے امام علی بن موسی رضا سے روایت کرتے ہیں ۔ مذکورہ روایت کے ضمن میں جعفی کا بیان ہے کہ امام محمد باقر نے فرمایا۔ علی بن حسین نے اپنے والد حسین بن علی کی شہادت کے بعداپنے جانور کے بال کا خیمہ بنوا رکھا تھا اور بادیہ میں قیام کرنے لگے تھے ۔ اور چند سال لوگوں اور ان کے رہن سہن سے دور رہے اور وہ مقام عراق کے راستے میں واقع تھا اور وہیں سے اپنے جدّ بزرگوار کی زیارت کے لئے جاتے تھے اور کسی کو اس بات کا علم نہیں ہوتا تھا ۔ محمد بن علی کا بیان ہے ایک دن امام زین العابدین امیر المومنین کی زیارت کی غرض سے عراق کی طرف نکلے تو میں بھی ان کے ساتھ ہوا اور ہمارے ساتھ اونٹ مالکوں کے علاوہ کوئی بھی تھا۔ جب وہ بلاد کوفہ میں نجف کے مقام پہنچے اور ایک جگہ بیٹھ کر زارو قطار رونے لگے یہاں ان کی ریش مبارک آنسووں سے تر ہوگئی پھر انہوں نے فرمایا ......... اس روایت کی سند اگر امام محمد باقر سے صحیح ہے تو یہ بھی توثیق کرتی ہے امام زین العابدین نے روضہ مقدس کی زیارت اس سے قبل اپنے والد بزرگوار کی رفاقت میں بھی کی تھی۔ اور ابھی تک نجف اشرف میں ان مقامات سے ایک امام سجاد کی طرف منسوب ہے اس حوالے سے شیخ حرزالدین نے اپنی کتاب معارف الرجال میں بیان کیا ہے یہ مقام محلہ مسیل میں جو نجف کے مغرب کی جانب جرف سے پہلے واقع ہے ۔ انہوں نے کہا ایک دفعہ امام علی بن حسین اپنے جدّ بزرگوار امیر المومنین کی قبر کی زیارت کی غرض سے آکر اس مقام میں قیام کیا تھا اس لئے کہ اگر کوئی انہیں دیکھے تو شک و توہم ہوجائے ۔ امام اس راستے سے حج بیت اللہ کی نیت سے آئے ہیں پھر انہوں نے وہاں کنویں سے وضوء کیا یہ کنواں جو کہ قلیب کے نام سے مشہور ہے اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے١٠٠٠ میں شاہ عباس صفوی نے یہاں اور کنویں کھدوائے تھے اور مقام رحبہ میں بعض مومنین دفن ہیں جن میں ہمارے دادا الشیخ حسن الشیخ عیسٰی بن الشیخ حسن الفرطوسی النّجفی المعروف بہ فرطوسی کبیر بھی دفن ہیں جن کے بارے میں ان کے شاگرد شیخ محمد نے مذکورہ کتاب میں لکھا ہے ابن طاوس نے سابقہ مصدر میں ایک تیسری روایت بھی بیان کی ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام زین العابدین اپنے جدّ بزرگوار امیر المومنین کے روضہ کی زیارت جناب ابو حمزہ تمالی کی رفاقت میں کی جس میں ابو حمزہ نے کہا میں ان کے ناقہ سے سائے میں چل رہا تھا اورامام مجھ سے باتیں کر رہے تھے اتنے میں ہم مقام الغرییّن پہنچے یہ ایک سفید ٹیلہ سے روشنی پھوٹتی ہے تو وہ اپنے ناقہ سے اترے اور دونوں جوتے اتاردیئے اور مجھ سے فرمانے لگے اے ابو حمزہ یہ میرے بزرگوار علی بن ابی طالب کی قبر ہے پھر انہوںنے اس کی زیارت کی ۔ کوئی ایسی روایت نہیں یہ مذکورہ روایات کی صحت کو مشکوک یہ بعید ہے۔ اور اس میںکو ئی شک نہیں ہے کہ قبر کے اوپرکوئی علامت یا پتھر کا شاخص تھا جو ان کی رہنمائی کرتی تھی جب زیارت کے جاتے تھے جس کے بارے بعد میں بیان ہوا۔

شیعوں کی ایک جماعت قبر امامـ کی زیارت کرتی ہے
دوسری صدی ہجری کی تیسری دھائی میں جب بنی امیہ کی حکومت کمزور ہونا شروع ہوئی تو شیعہ گروہ در گروہ قبر امیر المومنین کے لئے آنا شروع ہوئے ہمارا خیال خاصّانِ اہل بیت کو تو موضع قبر کے بارے میں معلوم تھا بلکہ ان زائرین کا ایک بڑا گروہ مدینہ منورہ میں امام محمد باقر اور امام جعفر صادق سے موضع قبر کے بارے میں استفسار کیا تو ائمہ نے انہیں بتایا اور سمجھایااس حوالے سے ''کتاب الفرحة'' میں بہت ساری روایتیں موجود ہیں کہ ایک سے زیادہ مرتبہ ان دونوں آئمہ سے اس بارے میں پوچھا ہے تو یہ بعید نہیں ہے انہوں نے ان لوگوں کو زیارت کی تاکید کی ہو ۔ لیکن آئمہنے ان کو بچ بچاکر جانے کی نصیحت فرمائی تاکہ بنی اُمیّہ کے جاسوس کی نظروں سے زیارت گاہ محفوظ رہے۔
کتاب الصّحیفہ میں ایک روایت آئی جس کے مطابق شیخ مفید نے١٩مزار کا ذکر کیا ہے اور اسے ابن طاوس الفرحة میں بھی نقل کیا ہے ....... منع بن حجّاج ....... دھب القوی نے کہا میں ایک دن مدینہ منورہ میں اباعبد اللہ کے پاس چلا گیا اورکہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں امیر المومنین کی زیارت کے لئے آپ کے پاس آیا ہوں تو آپ نے فرمایا تو نے اچھا کام نہیں کیا اگر تم ہمارے شیعہ نہیں ہوتے تو ہم کبھی تمہاری طرف نہیں دیکھتے جن کی تو زیارت کیوں نہیں کرتے ان کی تو اللہ او ر اس کے رسولۖاور مومنین زیارت کرتے ہیں۔ بلکہ صفوان بن مہران جمّال کی روایت سے یہاں تک واضح ہوتی ہے کہ موضع قبر امام جعفر صادق اور عبد اللہ بن الحسن جب اپنے جدّ بزرگوار کی زیارت کیلئے تشریف لے جانے کے بعد مجہول بھی نہیں رہی یہ اس روایت کے آخر میں مذکور ہے اور یہ روایت مکمل عنقریب بیان کی جائے گی۔ ''یہ قبر جہاں لوگ آتے ہیں۔ ''
اور یہ روایت تاکید کرتی ہے لوگ مناسبت سے قبل بھی زیارت کو جاتے تھے تو یہ بدیہی بات زیارتوں کا سلسلہ تو سفّاح کے دور میں ہی تھا نہ کہ منصور کے دور میں شروع ہوا۔ اس سے ملتی جلتی ایک اور روایت بھی ابن طاوس ابی العوجاء الطّائی سے بیان کرتے ہیں کہ ایک انہوں نے امام جعفر صادق سے ایک قبر کے بارے میں پوچھا جو کوفہ کے کنارے واقع تھا اور کیا یہ امیر المومنین کی قبر ہے؟ تو آپ نے فرمایا ہاں واللہ شیخ اور یہ بات ابن عقیدہ کی کتاب فضائل امیر المومنین میں ہے میرے اندازے سے یہ خبر بھی ابی العباس سفّاح کے زمانے کی ہے ۔ روایت میں ابی العوجاء کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق ایک دو غلاموں کے ساتھ مقام حیرہ کی جانب گزرے تو دوسرے روز صبح ابو العوجاء ان کا انتظار کررہے تھے۔ اتنے میں امام تشریف لائے تو انہوں نے امام کا استقبال کیا اور ٹھنڈا پانی کے ساتھ کھجور پیش کیا اور اس قبر سے متعلق پوچھا۔

سفّاح کے زمانے میںامام جعفر صادق ـکامرقدامیرالمومنین کی زیارت کرنا
ایک پرانی غیر شیعی روایت کے مطابق امام جعفر صادق ابی عباس سفّاح کے دور میں عراق آئے تاکہ اس سے ملاقات اور اپنے جدّ بزرگوار امیر المومنین کی زیارت بھی کرسکے لیکن روایت اس زیارت کے بارے میں تفصیل نہیں بتاتی ۔ مگر میں اب اہلسنّت کی کوئی ایسی روایت نہیں دیکھی جو امام جعفر صادق کی عراق آمد یا سفّاح کے دور میں اس سے ملاقات کے واقعے کی تصدیق کرتی ہو۔ لیکن اس کے دور میں امام کی زیارت کے لئے نہیں جانا غیر منطقی ہے اور مشکوک دعویٰ ہے خاص اس کا موقف ظاہراً اپنی خلافت سے الگ نہیں تھا اور نہ اپنے بھائی کی خلافت سے مختلف تھا اور اس اہل بیت کو اپنے بیعت کرنے کیلئے انقلاب کے دوران یا کامیابی کے مجبور نہیں کیا تھا یہ تو معلوم ہے۔بہت سارے مصادر کے مطابق سفاح کی سیاست علویوں کے ساتھ اس کے بھائی منصور سے مختلف تھی کیونکہ سفاح نے امویوں اور ان کے ماننے والوں سے انقلاب کے بہانے خوب انتقام لیا اور علویین کو اپنے قریب کیا اور اب اس کے اطراف شیعہ تھے۔ اور جو علماء اہل بیت کی روایتوں کی تصدیق کرتی ہے کہ امام جعفر صادق اپنے چچا زاد بھائی عبد اللہ بن الحسن کے ساتھ سفّاح سے ملاقات کی اسے ابن کثیر نے اپنی تاریخ الکامل میں جبکہ ابن جوزی نے ''المنتظم'' میں بیان کی ہے۔
عبد اللہ بن حسن ابی العباس سفّاح کے پاس آئے اور سفّاح کے نزدیک بنی ہاشم اور اہل بیت وغیرہ کی عزت تھی۔ اس ملاقات میں اس نے عبد اللہ بن حسن کو درہم اور بہت سارا مال دیا تاکہ مدینہ منورہ لے جا کر بنی ہاشم کے درمیان تقسیم کرے اور کتاب المنتظم میں یہ بات آئی ہے کہ جب انہوں نے یہ اموال لاکر تقسیم کیا تو بنی ہاشم نے سفّاح کا شکریہ ادا کیا تو عبد اللہ نے کہا یہ لوگ بیوقوف ہیں اس آدمی کا یہ لوگ شکریہ اداکررہے ہیں جو بعض دوسرے لوگوں سے لاکر انہیں دیا جب یہ خبر سفّاح تک پہنچ گئی تو اس نے عبد اللہ کے خاندان کو یہ بتادیا تو انہوں نے کہا تو اسے ادب سکھاو تو اس نے کہا جس نے سختی کی تو اس کے ساتھ نفرت ہوگی اور جو نرمی کرتا ہے تو اس کی محبت لوگوں کے دلوں میں ہوگی۔ اور عفو در گزر بہترین تقویٰ ہے اور تغافل اہل کرم کا عمل ہوتا ہے۔
یہ بعید نہیں ہے کہ امام جعفر صادق اس مجلس میں ہاشمیوں کے سردار تھے خاص طور سے علماءے اہل بیت کی بعض روایات امام عبد اللہ بن حسن کی رفاقت میں سفاح سے ملاقات کی خبر کی توثیق کرتی ہیں جسے ہم بیان کریں گے۔ عبد الحلیم جندی نے الصحیفہ میں اپنی کتاب امام صادق سے یو ں نقل کیا ہے کہ سفّاح نے عبد اللہ بن حسن سے ان کے دو بیٹے محمد اور ابراہیم کے بارے میں پوچھا لیکن ان دونوں کے چھپنے کا پتہ چلا تو انہیں طلب کرنے کے حوالے سے خاموش رہا لیکن وہ اس روایت کے مصادر بیان نہیں کرتا اور میں اس بات کو نہیں مانتا اس لئے کہ میرے پاس تاریخی مصادر ہیں جو محمد ذی النّفس ذکیّہ کے قیام کے بارے میں ہے اگر یہ بات صحیح ہے یہ مقام حیرة میں ہوسکتے ہیں کیونکہ ابا العباس کوفہ میں زیادہ عرصہ نہیں رہا اور ١٣٢ ھ بمطابق ٧٥٠ ء کو وہ کوفہ چھوڑ کر حیرہ چلاگیا اور وہاں وہ اپنے چچا داود بن علی کو والی بنایا لیکن سفّاح وہاں بھی زیادہ عرصہ نہیں رہا١٣٤ھ بمطابق٧٥٢ ء میں وہ انبار چلاگیا ۔ ابن قتیبہ ، طبری، ابن اثیر کے مطابق وہ اپنی آخری عمر تک انبار کو ہی دارالخلافہ بناکر رکھا یہاں تک کہ وہ ١٣ذی الحجة ١٣٦ھ کو وفات پاگئے۔ گمان غالب یہ ہے کہ امام جعفر صادق اس دوران کوفہ اور حیرہ کے درمیان کہیں تھے جب امام زیارت کے لئے تشریف لے گئے تھے۔
بعض روایات یہ بھی بتاتی ہے کہ امام کوفہ سے قبر مطہر امیر المومنین کی طرف ایک مرتبہ گئے تھے اور حیرہ سے دوسری مرتبہ گئے تھے اور امام صادق کی اقامت وہاں اتنی کم نہیں تھی تو میرا نہیں خیال ہے کہ امام نے یہ طویل مجلس شاہی کی لالچ میں گزارے ہوں ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امام عراق میں سفاح یاکسی اور سے کوئی مال متاع حاصل کرنے کی غرض سے گئے تھے۔ بلکہ امام کے اہداف و مقاصد کچھ اور تھے۔ ان میں ایک مقصد تو یہ تھا کہ اپنے اہل بیت سے ضررّ ہٹانے کے لئے گئے تھے جو انہیں عباسیوں کی خلافت او رفتح و کامرانی کی خوشی میں شرکت نہیںکرنے کی وجہ ہوا تھا ۔ اس کے علاوہ اہل بیت کے ماننے والے اور وہاں کے شیعوں سے تجدید عہد کیلئے گئے تھے ۔ علوم آل محمد کی نشرو اشاعت بھی آپ کے مقاصد میں شامل تھی جسے اموی حاکموں نے پس پشت ڈال دیا تھا۔اس کے علاوہ شاید یہ بھی آپ کے مقاصد میں شامل تھا کہ آپ جد بزرگوار کی زیارت کریں اور موضع قبر مطہر کی آپ دوستداروں اور مسلمانوں کیلئے نشاندہی کریںخاص طور پر جب بعض ایسے اخبار رائج ہونے جن کی وجہ سے مسلمانوں کیلئے موضع قبر مطہر باعث تشویش ہوا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں جامع مسجد کوفہ میں کئی دفعہ امامصادق کے درس و مناظر ہوئے تھے آپ کی فیوضات سے پوری قوم مستفید ہوئی اس طرح علوم اہل بیت کی نشرو اشاعت ہوئی یہاں ممکن ہے مسجد کوفہ میں آپ سے بہت ساری روایتیں اور ان کی تفسیر بیان ہوئی یہ تو ہر ایک کو معلوم ہے کہ خلافتِ عباسیہ کے ابتدائی ایام علماءے اہل بیت کے سامنے ان کی علوم کی نشرو اشاعت کے دریچے کھل گئے اور ان کی پریشانیاں ختم ہوئیں اور قبر مطہر امام علی اور شہید اکبر امام حسین کی قبر زیارت عام ہوئی تو اہل کوفہ اور اس کے آس پاس وغیرہ کے لوگ جوق در جوق زیارت آئمہ کے لئے آنے لگے ۔ بعض روایات سے یہ بھی ظاہر ہے امام صادقـحیرہ میں سفاح کی مہمانی کے دوران رات کو نکل کر قبر امیر المومنین کی زیارت کیلئے جاتے تھے اور وہیں نماز پڑھ کر فجر سے قبل حیرہ واپس آتے تھے۔ ابن طاوس نے اس حوالے سے کتاب الفر حة میں اسحاق بن دیر سے ایک روایت نقل کی ہے جو کہ ثقہ بھی ہے۔امام صادق فرماتے ہیں کہ ''جب میں حیرہ میں ابی العباس کے پاس تھا تو رات کو قبر امیر المومنین پر آتا تھا جو حیرہ کے کنارے غری النّعمان کی جانب واقع تھی اور نماز شب وہاں پڑھ کر فجر سے قبل نکلتا تھا۔'' اس زیارت کی شیخ حواسی نے اپنی کتاب ''تہذیب الاحکام ''میں توثیق کی ہے انہوں نے عبد اللہ بن سلیمان سے روایت کی ہے کہ ''ابی العباس کے زمانے میں جب ابو عبد اللہ امام صادق کوفہ میں پہنچے تو لباس سفر میں ہی کوفہ کے پل پر آکر ٹھہرے اور اپنے غلام سے فرمایا کہ مجھے پانی پلادو تو اس ملاح کے کوزے سے پانی بھر کر آپ کو پلایا ''اگر چہ طوسی کی یہ روایت نہ زیادہ قبر امیر المومنین کے بارے میں بیان کر رہی ہے اور نہ ہی آپ کی سفاح سے ملاقات کا ذکر کر رہی ہے لیکن آپ کا ایسا کرنا محال ہے۔ کیونکہ آپ اپنے چچا زاد بھائی عبد اللہ بن حسن کے ہمراہ زیارت کی تھی جیسا کہ ''کتاب الفرحة ''میں عبد اللہ بن زید سے یوں بیان ہے کہ''میں نے جعفر بن محمد اور عبد اللہ بن حسن کو غرّی میں قبر امیر المومنین کے پاس دیکھا تھا اتنے میں عبد اللہ نے اذان دی اور نماز قائم ہوئی اور جعفر بن محمد کے ساتھ نماز پڑھی اور میں نے جعفر کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ قبر امیر المومنین ہے۔''شاید یہ زیارت وہی ہو جسے ابن طاوس نے صفوان بن مروان الجمّال سے روایت کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں اپنے اونٹ پر جعفر بن محمد بن علی نے امام صادقـکو بٹھا کر جب نجف پہنچے تو آپ نے فرمایا اے تھورا آہستہ چلا تاکہ حیرہ میں آتے اور جس جگہ کی طرف آپ نے اشارہ فر مایا جب ہم وہاں پہنچے تو آپ وہاں اُترے اور وضوء کیا پھر آپ اور عبد اللہ بن حسن آگے بڑھے اور ایک قبر کے پاس آپ دونوں نے نماز پرھی جب یہ دونوں نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے پوچھا میں آپ پر قربان ہوجاوں یہ کس کی قبر ہے؟تو آ پ نے فرمایا یہ علی بن ابی طالب کی قبر ہے جہاں لوگ آتے رہتے ہیں۔ اور کوئی دوسری زیارت ہو جو آپ نے اپنے چچا زاد بھائی کے ہمراہ ہی میں کی تھی۔
بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ علوی قافلہ امام جعفر صادق اور عبد اللہ بن حسن کی ہمراہی میں کوفہ میں پہنچے کسی کو پتہ بھی نہ چلا ''میرے نزدیک یہ بھی بعید نہیں ہے کہ ان دونوں کی استقبال کو پورا کوفہ نکلا تھا۔'' اس حوالے سے ابن طاوس کی روایت سے زیادہ مضبوط و محکم کوئی نہیں ہے جسے انہوں نے محمد بن معروف الہلالی سے نقل کی ہے کہ ''جب حیرہ میں جعفر بن محمد امام صادق کے پاس گیا وہاں پر لوگوں کی کثرت دیکھ کر میری سمجھ میں آیا کہ یہ لوگ یہاں کیونکر جمع ہیں۔ جب چار دن گزرے اور لوگ چلنے لگے تو امام نے مجھے اپنے پاس بلاکر کہا کہ یہ قبر امیر المومنین ہے تو میں ان کے ساتھ قبر کی جانب گیا۔''اگر چہ اس روایت میں موضع قبر کی تعین نہیں ہوئی ہے اور یہ زیارت ان کی پہلی زیارت بھی نہیں ہے یہاں پر ابن طاوس اور ایک روایت حسین بن ابی العلاء الطائی جس نے اپنے باپ سے نقل کی ہے کہ امام صادق حیرہ کی جانب چل پڑے اور ان کے غلام بھی تھا اور وہ تو سواری پر تھے تو یہ خبر کوفہ میں پھیل گئی ۔ وہ کہتا ہے میں نے ان سے پوچھا یہ جو اس کنارے پر جو قبر ہے''کیا امیر المومنین کی قبر ہے؟ ''تو انہوں نے فرمایا واللہ اے شیخ تم سچ کہہ رہے ہو۔ میرے خیال میں شاید امام نے جان بوجھ کر ایسا کیا تھا تاکہ یہ زیارت کی خبر لوگوں کے درمیان پھیل جائے اس لئے کہ کسی بھی مہم کو پھیلانے کیلئے یہ پہلا قدم ہوتا ہے۔
ابن طاوس نے امام صادق کی دوسری مرتبہ قبر علی کی زیارت کو معلی بن خنس سے نقل کی ہے جو خود امام کے ساتھ حیرہ میں موجود تھا۔ ہم آکر غرییّن میں پہنچے تو انہوں نے مجھے تھوڑی دیر رکنے کیلئے کہا پھر ہم چل پڑے یہاں تک ہم موضع پر پہنچے تو انہوں نے مجھے اترنے کو کہا اورخود بھی اتر گئے اورمجھ سے کہا یہ قبر امیر المومنین ہے پھر ہم دونوں نے نماز پڑھی ۔ اس روایت کو ابن عقدہ کو فی نے بھی اپنی کتاب فضائل امیر المومنین میں بیان کی ہے۔ اور ابن طاوس نے بعد میں ان کی تمام روایتوں کو بیان کیا ہے۔
مجھے لگتا ہے اس زیارت میں امام صادق اور عبد اللہ بن حسن کے ساتھ یزید بن عمر بن طلحہ اور اسماعیل بن امام صادق بھی تھے۔ کیونکہ ابن طاوس نے اس حوالے سے یزید بن عمر سے بھی روایت بیان کی ہے وہ کہتاہے ''جب وہ مقام ثویہ جو حیرہ اور نجف کے درمیان مقام ذکوات بیض کے نزدیک واقع ہے، پہنچے اور اترے ان کے ساتھ اسماعیل بھی اترے اور میں بھی ان دونوں کے ساتھ اترا پھر ہم نے ساتھ نماز پڑھی۔ ''راوی نے یہ تاکید ساتھ بیان کیا ہے کہ امام صادق نے ہی قبر علی کو عہد عباس میں ظاہر کیا جو عہد اموی میں پوشیدہ ہوگئی تھی۔ اور ایک سے زیادہ روائتیں ان کی حیرہ میں قیام کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
طوسی نے ''تہذیب الاحکام ''میں مذکورہ روایت کو عبد اللہ بن طلحہ النّھدی سے نقل کیا ہے لیکن مجھے یہ نہیں معلوم یہ وہی زیارت ہے یا کوئی اور زیارت جس میں نہدی بھی امام اور ان کے فرزند کے ساتھ تھا وہ کہتا ہے ''ہم جب عبد اللہ امام صادق کے ہمراہ مقام غرّی میں پہنچے تو وہاں ایک جگہ پر آپ نے نماز پڑھی پھر اسماعیل سے کہا اٹھو اور اپنے حسین کے سر مبارک کے پاس نماز پڑھو اتنے میں میں نے پوچھا کیا اسے شام نہیں لے جایا گیا تو آپ نے فرمایا لیکن ہمارے مولانا نے لاکر یہاں دفن کیا تھا۔'' اور یہی روایت کتاب ''کامل الزّیارات ''میں موجود ہے کہ'' اٹھو اپنے جدّ بزرگوار حسین پر سلام پڑھو اتنے میںمیں نے کہا میں آپ پر قربان جاوں کیا حسین کربلا میں نہیں ہے تو آپ نے فرمایا ہاں جب ان کا سر مبارک شام لے جایا جارہا تھا تو ہمارے مولا نے لاکر امیر المومنین کے پاس دفن کیا تھا۔ ''
اور یہ روایت ''کتاب الفرحہ ''میں بھی وارد ہوئی ہے آپ ملاحظہ کریں کہ یہ روایت سابقہ کے دائرہ میں ہی ہے لیکن راوی نے اس میں تھوڑا اضافہ کیا ہے یا انہوں نے اپنے تصورات سے امام کی نمازوں کی تفسیر کی ہے۔ شاید اس نے یہاں موضع راس الحسین کا ارادہ کیا ہو۔ کیونکہ اہل بیت سے روایات کے مطابق جب امام علی بن حسینـکو شام سے کربلا سر شہداء کے ساتھ لایا جارہاتھا تو اس سر مبارک حسین کو جسد مطہر سے ملادیا تھا۔ اور کہا جاتا ہے ہاشمی سواری جب قبر امیر المومنین کے نزدیک پہنچے تو ٹھہر گئے اور سر مبارک حسین کو وہاں رکھ کر مصیبت بیان کی ۔ اور ابھی اسی مقام پر روضہ مقدس امیر المومنین میں مسجد الراس کے نام سے ایک مسجد موجود ہے اگرچہ بعض روایات کے مطابق سر حسین اپنے والد بزرگوار کے پاس دفن ہوئے شاید موضع سے مراد امام علی کی قبر کی سر کی جانب والی جگہ ہو جہاں بعد میں مسجد الراس کے نام سے ایک مسجد بنی ہواور اسے ہم آگے سطروں میں بیان کرینگے۔ یہاں ہم یہ بھی بتانا ضرور سمجھتے ہیں کہ موضع سر مبارک ابی عبد اللہ حسین کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں ۔ جن میں سے ایک روایت کی مطابق امام علی بن حسین اپنی پھوپھی، شہزادی زینب اور باقی اسیران اہل بیت کے ہمراہ شام سے کربلا آرہے تھے تو آپ نے اپنے بابا کے سر مبارک کو بھی لاکر ان کے جسد مطہر سے ملاکر دفن کیے تھے۔ اور یہی مشہور ہے اور یہ بھی کہا جا تا ہے اسے لے جاکر مدینہ منورہ میں جنت البقیع میں قبر زہرا ء کے پاس دفن کیا گیا ایک قول یہ بھی ہے سر مبارک کو خود یزید کی الماری میں رکھا گیا اور اس کے مرنے کے بعد شام میں ہی سر مبارک کو دفن کیا گیا اور یہ بھی کہا جاتا ہے اہل عسقلان سے لاکر قاہرہ میں دفن کیا گیا ایک اور بات کہ مقام ''مرو ''میں دفن ہوا ، مقام رقّہ میں دفن ہوا۔ نجف اشرف میں دفن ہوا یہ تمام روایات کو ڈاکٹر حسن حکیم نے اپنی کتاب ''تاریخ نجف ''میں تفصیل سے بیان کیا ہے لیکن ان کی رائے میں نجف والی بات زیادہ قوی اور ثقہ ہے۔ واللہ اعلم!
کلینی نے ایک صفوان جمّال سے کافی میں نقل کیا ہے کہ امام صادق عامر بن عبد اللہ بن جزاعة اذری کو قبر امیر المومنین کے بارے میں یوں بتایا ''جب امیر المومنین شہید ہوئے تو امام حسن کو تشویش لاحق ہوئی پھر جنازے کو ظہر کوفہ نجف کے قریب لے کر آئے جو غرّی سے بائیں جانب جبکہ حیرہ کے دائیں جانب واقع ہے پھر زکوات بیض کے درمیان دفن کئے ۔ کچھ عرصے کے بعد میں وہاں گیا مجھے اس موضع کے بارے میں شک ہونے لگا تو میں آکر اس کے بارے میں بتایا۔ آپ نے مجھ سے تین مرتبہ فرمایا تم نے گریہ کی اللہ تم پر رحم کرے۔''
یہ روایت میں ابن طاوس کی ''کتاب الفرحة ''میں بھی موجود ہے اور اس میں لوگوں نے قبر علی کے متعلق ایک دوسرے سے پوچھتے رہے یہاںتک کہ امام صادق نے ان کو بتایا اور گمان غالب یہ ہے کہ ابن جزاعة ازری اکیلا قبر علی کی زیارت کے لئے نہیں گیا بلکہ بعض اصحاب بھی ہمراہ گئے اس طرح آہستہ آہستہ یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور پھر کوفہ میں یہ مشہور ہوگیا اس روایت کو ابن عقدہ نے اپنی کتاب ''فضائل امیر المومنین ''میں بیان کیا ہے جسے شیخ طوسی اور ابن طاوس دونوں نے بعد میں نقل کیا ہے ''یونس بن طغیان سے روایت ہے کہ میں ابو عبد اللہ امام صادق کے پاس گیا جب وہ حیرہ میں تھے انہوں ایک حدیث بھی بیان کی جسے ہم نے روایت کی کہ ایک وہ ان کے ساتھ ایک مخصوص جگہ پہنچے تو فرمایا اے یونس تو اپنی سواری کے قریب آو میں نے حکم کی تعمیل کی پھر انہوں نے اپنا ہاتھ بلند کیا اور خفی آوازمیں دعا کرنے لگے جسے میں نہیں سمجھ رہا تھا پھر وہ نماز پڑھنے لگے جس میں انہوں نے چھوٹی سورتیں آواز کے ساتھ پڑھیں میں بھی ان کی اتباع کی پھر انہوں نے دعا کی تب مجھے معلوم ہوا اور میں نے سمجھا اس کے بعد فرمایا اے یونس کیاتمہیں معلوم ہے کہ یہ کونسی جگہ ہے ؟ میں نے کہا آپ پر قربان ہوجاوں میرے مولا واللہ میں نہیں جانتا لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ میں اس وقت ایک صحرا میں ہوں اتنے میں آپ نے فرمایا یہ قبر امیر المومنین ہے''۔یونس کی روایا ت اگرچہ تفریشی کی کتاب ''نقد الرجال ''کے مطابق ضعیف شمار ہوتی ہیں لیکن اس کی بات اس حوالے سے دوسروں کی روایات میں رخنہ ڈالتی ہے۔
ہم نے جس زیارت کی بات کی جس میں صرف امام صادق اور ان کے رفقاء نے ہی نہیں کی اور مختلف زیارتیں مختلف شیعیان علی نے کی ہے جسے کلینی نے امکانی میںبیان کیا ہے اور ابن طاوس نے الفرحة میں بھی ذکر کیا ہے عبد اللہ بن سنان سے روایت ہے کہ انہوں نے قبر علی کی زیارت عمر بن یزید کی ہمراہی میں جو موضع قبر سے واقف تھا کی ہے۔ اور حفص الکناسی کہتا ہے کہ ہم ایک دفعہ مقام غرّی میں گئے تو وہاں ایک قبر دیکھی تو عمر بن یزید نے ہم سے کہا کہ'' تم سب یہاں اتر جاو یہ قبر امیر المومنین ہے ہم نے ان سے پوچھا تمہیں کیسے اس بارے میں معلوم ہے؟ تو اس نے کہا میں اس سے قبل بھی ابا عبد اللہ امام صادق کے ساتھ ایک سے زیادہ مرتبہ یہاں آ چکا ہوں انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ یہ قبر علی ہے ''جو اشخاص اس میں روایت امام صادق کے ساتھ شامل ہیں ان کی توثیق تفریشی نے اپنی کتاب ''نقد الرجال'' میں کی ہے۔
قارئین کرام آپ نے ملاحظہ کیا جو روضہ مقدس سے واقف لوگوں کا دائرہ وسیع اور زیادہ تھا۔ اور یہ تمام شیعیان اہل بیت خاص طور سے کوفہ والے جانتے تھے لیکن چونکہ ظالم حکومت موضع قبر علی کی توثیق کرنا نہیں چاہتی تھی جس کے باعث شکوک و شبہات نے جڑ پکڑی۔
الشیخ محبوبہ نے ابن طاوس کی ''الفرحة ''اور مجلسی کی ''تحفة الزّائر ''سے ایک روایت نقل کی ہے ''امام جعفر صادق جب حیرہ پہنچے توآپ نجف کی طرف گئے اس وقت وہاں پر تین قبور محرابیں تھیں ان میں ایک امیر المومنین کی قبر دوسری موضع سر حسین جبکہ تیسری موضع منبرالقائم تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روایت کی تفسیرمیں شیخ کی رائے صحیح جس کا انہوں نے حوالہ دیا ہے اور جب امام صادق کی زیارت کے وقت موضع قبرمیں کوئی محراب نہیں تھا اور امام نے ہر موضع پر یعنی موضع قبر علی ، موضع راس الحسین اور موضع منبر القائم پر نماز پڑھی ''اور یہ روایت ہے وہ کہتا ہے ''جب ابو عبد اللہ امامصادق مقام حیرہ میںتھے مجھ سے کہا تم لوگ اپنے خچر اور گدھوں پر زین کس دو اور سوار ہوجاو میں سوار ہوا یہاں تک کہ ہم مقام الجرف میں داخل ہوئے پھر امام وہاں اترے اور دو رکعت نماز پڑھی پھر تھوڑا آگے بڑھے دو رکعت نماز پڑھی پھر دوبارہ اور آگے بڑھے اور دو رکعت نماز پڑھی۔ اس کے بعد دوبارہ سوار ہوئے اور واپس آئے اتنے میں میں نے پوچھا کہ میں آپ پر فدا ہوجاوں یہ پہلی دو رکعتیں، پھر دوسری اور پھر تیسری دو رکعتیں کیا تھیں۔ تو آپ نے فرمایا پہلی دو رکعتیں موضع قبر امیر المومنین کی تھی۔ دوسری دو رکعتیں موضع راس الحسین پر جبکہ تیسری دو رکعتیں موضع منبر القائم پر تھیں۔''
ابن طاوس نے اس روایت کو مبارک الخبّار اور ابان بن لقلب سے الفرحة میں نقل کیاہے اور دوسری سند سے ابی الفرج السیّدی نے کہا ''میں عبد اللہ جعفر بن محمد کے ہمراہ تھا جب وہ حیرہ میں آئے تھے تو ایک رات انہوں نے خچر پر زین ڈالنے کو فرمایا پھر وہ سوار ہوئے میں بھی ان کے ہمراہ تھا ۔ یہاں تک کنارے پہنچے تو وہ اترے اور دو رکعت نماز پڑھی پھر آگے بڑھے دو رکعت نماز پڑھی پھر آگے بڑھے دو رکعت نماز پڑھی۔ میں نے پوچھا میں آپ پرقربان ہوجاؤں یا ابن رسول اللہۖ آپ نے تین مواضع میں نماز پڑھی؟ آپ نے فرمایاپہلا موضع قبر امیرالمومنین دوسرا موضع راس الحسین جبکہ تیسرا موضع منبر القائم ہیں۔''اس کے علاوہ بعض کتابوں میں زیادہ مبالغہ آرائی سے نظر آتی ہے جس کی کوئی ماخذ میں نہیں ملے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ توثیق کے بجائے مزید مشکوک بناتی ہے بلکہ آنے والوں کے لئے اس بارے میں وہم و گمان میں اضافہ ہوتا ہے اگر چہ کثرت حب وولاء کی وجہ سے ہوسکتی ہے مرقد امام علی اور ان کے روضہ ایک سے زیادہ امور سے بیان ہوجائے گی۔

مرقد امامـکی علامت
سیّد ابن طاوس کی ''کتاب الفرحة ''میں ایک روایت نقل ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام جعفرصادق وغیرہ جب امام علی کی قبر کی زیارت کے لئے گئے تھے تو انہوں نے پتھر یا کوئی چیز قبر علی اور موضع راس الحسین پر رکھ دیا تھا تاکہ بعد میں آنے والوں کیلئے علامت رہے۔ پس ایک روایت ابن طاوس نے اپنے چچا سے اور انہوں نے ابن قولویہ کی سند سے نقل کی ہے۔ علی ابن اسباط اس علامت کو اٹھاتے ہوئے کہا کہ ابو عبداللہ امام صادق نے فرمایا کہ تم جب کبھی غرّی میں آ و تو وہاں دو قبریں دیکھو گے ان سے ایک چھوٹی اور دوسری بڑی ہوگی بڑی قبر امیر المومنین ہے جبکہ چھوٹی راس الحسین ہے۔ یہ روایت ابن قولویہ کی کتاب ''کامل الزیارات ''اور ابن عقدہ کی ''فضائل امیر المومنین'' میں آئی ہے شاید اس بات سے ''وامّا الصّغیر فراس الحسین'' مگر چھوٹی راس الحسین سے مراد وہی موضع ہے جس کا ذکر گزر چکا لیکن یہ نہیں معلوم کہ یہ کب سے تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مرقد امام میں ایک علامت رکھی ہوئی تھی جس کے ذریعے ہر کسی کو اس موضع کے بارے میں معلوم ہوتا تھا۔یہ صرف قبر امیر المومنین کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ زمانہ قدیم و جدید ہر قبر کے ساتھ یہی ہوتا آرہا ہے دراصل یہ ایک غیر ارادی عمل ہوتا ہے یہاں تک نامعلوم میّتوں کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے تاکہ قبر کی مٹی بچ جائے اور قبر کے وجود کے بارے میں پتہ چل جائے۔اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ علامت امام کو دفن کرنے والوں نے ہی رکھی تھی۔
اس کی تائید سیّد ابن طاوس کی روایت سے بھی ملتی ہے جسے انہوں نے علی بن حسن نیشاپوری کی سند سے اپنی ''کتاب الفرحة ''میں بیان کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر بن محمد بن حسن بن حسن کو یہ فرماتے ہوئے سناہے انہوں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ صفوان الجمال نے کہا ''جب وہ مکہ میں تھے اُن سے قبر امیر المومنین کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے ایک لمبی حدیث بیان کی اور آخر میں کہا جب میں اور جعفر بن محمد امام صادق قبر امیر المومنین پر پہنچے تو جعفر بن محمد اترے اور وہاں کھودنا شروع کیا پھر وہاں سے ایک لوہے کا سکہ نکالا پھر زمین کی سطح کو برابر کیا اور نماز کی تیاری کی اور چار رکعات نماز پڑھی اس کے بعد مجھ سے فرمایا اے صفوان اٹھو اور وہی کرو جو میں نے کیا اور جان لو کہ یہ قبر امیر المومنین ہے ''۔قارئین کرام اب آپ ملاحظہ کریں کہ قبر امام لوگوں کی طبیعت کے اوپر نہیں چھوڑی گئی ہے کہ وہ جو چاہے کر گزرے بلکہ باقاعدہ وہاں علامت رکھی گئی ہے تاکہ زیارت کے لئے آنے والوں کی رہنمائی ہوسکے۔ صفوان نے یہاں جو لوہے کا سکہ کی بات کی اس حوالے سے گمان غالب ہے کہ یہ حسین نے رکھی ہو یا کسی اور نے رکھی ہو جو دفن کے موقع پر ساتھ تھے یا امام زین العابدین نے رکھی ہو جب آپ اپنے فرزند امام باقر کے ساتھ جدبزرگوار کی زیارت کے لئے تشریف لائے تھے تاکہ یہ علامت رہے اپنے اہل بیت اور آپ کے ماننے والوں کے لئے جو بعد میں وہاں آئیں۔

امام جعفر صادق ـکی مرقد امیر المومنین ـکی زیارت،خلافت منصور میں
جب سفاح نے اپنے چچازاد علوی بھا ئیوں کے ساتھ محبت و عاطفت کا اظہار کیا کیونکہ اسے یقین تھاکہ وہ بیعت کریں گے اور اسے اہل بیت کے خون کے انتقام کے اعلان کے بارے میں بھی معلوم تھا اور اس کی بیعت پر اہل بیت میں کچھ راضی ہوں گے اسے یہ بھی معلوم تھا جیساکہ مقام ابواء میں جو مدینہ منورہ کے قریب واقع ہیں۔ جہاںبنی امیہ کے آخری عہد میں محمد ذوالنفس الزکیہ بن عبداللہ ابن الحسن کی بیعت کی گئی تھی۔ان کے بیعت کرنے والوں میں سے کچھ لوگ ابھی تک زندہ تھے جن کابھا ئی ابوجعفر منصور تھا ۔ابن کثیر کے مطابق موصوف نے اس بیعت میں شرکت کی تھی ۔
اور سفاح محمد اور اس کے بھا ئی رو پو شی سے متعلق بھی جانتے تھے اور سال١٣٦ھ/ ٧٥٣ ء کو وفات پا گیا ۔اور اسی سال کے دوران ابو جعفر منصور نے اپنے طرف سے حج پر جانے کی اجازت مانگی اور اس میں اس کا بڑا مطلب تھا کہ محمد اور ابراہیم جو عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی ابن ابی طالب کے فرزند تھے جنہوں نے اس کے پاس آنے سے انکا ر کیا تھا جب بنی ہاشم کے دوسر ے تمام لوگ اس سے ملنے کے لیے آئے تھے ۔یہ بات طبری نے اپنی تاریخ میں بیان کی ہے ۔اور سال٢٤٠ھ/٧٥٧ ء وہ دوبارہ حج کے لئے روانہ ہو ئے اس زمانے میں مدینہ کا گورنرزیاد بن عبداللہ الحارثی تھا ۔ اسے یہ فکر لاحق تھی کہ عبداللہ بن حسن بن حسن ابن علی ابن ابی طالب کے فرزند محمد اور ابراہیم نے اس وقت اس کے پاس آنے سے مخالف کی جب تمام بنی ہا شم نے اس کے بھائی ابی عباس کی زندگی میں حج کے ایام میں ملاقات کی تھی ۔
ابو منصور نے زیاد بن عبداللہ الحارثی سے ان دونوں یعنی محمداور ابراہیم کے متعلق پوچھا تو زیاد نے اسے کہا ان دونوں سے تمہارا کیا کام ہے ۔میں ان دونوں کو تمہارے پاس لاوں گا۔ اور اس دوران ١٣٤ھ میں زیاد ابوجعفرکے ساتھ مکہ میں تھا۔ابو جعفر نے زیاد کو دوبارہ یاد دلایا تو انہوں محمد اور ابراہیم کو ان کے حوالے کر دیا ،اس مو قع پر طبری پلٹ کر دوبارہ اپنی تاریخ اس سے متعلق بیان کر تا ہے کہ منصور نے آل ابی طالب کو اس حج کے دوران کچھ بخشش دی تھی لیکن اس موقع پر فرزندان عبداللہ نہیں تھے ۔تو اس دن ان کے والد عبداللہ کے پاس گیا اور ان دونوں کے بارے میں پو چھا تو انہوں نے جواب دیا مجھے ان دونوں کے بارے کچھ معلوم نہیں ہے ۔
اتنے میں وہ ایک دم غصے میں آیا اور اسے قتل کرنے کا حکم دینے والا تھا لیکن زیاد ابن عبداللہ نے اپنی چادر ان پر ڈال کر انہیں بچایا اور کہا اے امیر المومنین یہ شخص مجھے دیجئے میں ان کے دونوں بیٹوں کو نکال دوں گا ۔ اس واقعے کو طبری نے بھی اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے ۔اس کے بعد منصور نے زیاد کو اس کے گھر والوں سمیت جیل بھجوا دیا ۔اور١٤٤ھ میں ریاح بن عثمان مدینہ کا گورنر بنا جب موسم حج میں منصور حج پر جارہے تھے تو ریاح نے مقام ربدہ میں ان کا استقبال کیا اس وقت منصور نے ریا ح سے عبداللہ کے بندے اور خاندان جن میں محمد بن عبداللہ وغیر ہ شامل تھے ۔ابن عثمان بن عفان جو عبداللہ بن حسن کی ماں کی طرف سے بھا ئی تھا ان سب کو ریاح سے طوق زنجیر پہنا کر ربدہ لایا ۔طبری نے اپنی تاریخ میں١٤٤ھ کے واقعات کو بیان کر تے ہوئے یہ لکھا ہے کہ امام صادق کو اپنے چچا زاد بھا ئی حسین بن زید بن علی ابن حسین کو ہتھکڑیا ں پہنا کر نکالنے کی خبر ملی تو آپ بارگاہ خداوندی میں کثرت سے ان کے حق میں دعا کر تے رہے ۔پھر اپنے غلام سے کہا ابھی ان کے پاس چلے جاو۔او ر جب انہیں لے جایا جائے تو مجھے خبر کر نا ۔اتنے میں قاصد آیا اور آپ کو بتا،یا کہ وہ لے گئے ہیں تو فورا جعفر ابن محمد امام صادق اپنی جگہ سے اٹھے اور پردے کے پیچھے کھڑے ہوئے جس کے پیچھے سے وہ دوسروں کو دیکھ رہے تھے لیکن انہیں کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا ۔جب جعفر کی نظر ان پر پڑھی تو اس کی آنکھیں نم ہو گئی اور داڑھی آنسوسے بھیگنے لگی پھر امام فرماتے ہیں وہ میرے پا س آکر کہنے لگااے اباعبداللہ قسم ہے خدا کی ان کے بعد اللہ کے لیے کسی کی حرمت باقی نہیں بچے گی ۔
اس میں کوئی شک نہیں یہ دن علویین اور عباسین کے درمیا ن ہمیشہ اور دائمی جدائی کا سبب تھا اس لیے منصور نے اس کے ساتھ ایک کھیل کھیلا کیو نکہ جب اِسی منصور نے عبداللہ ابن حسن کے مادرزاد بھائی پر ایک سو پچاس کو ڑے مارنے کا حکم دیا تھا اور ااس کے گردن میں پر طوق بھی تھا ۔اس نے لوگوں سے بچانے کی اپیل کی لیکن کسی نے بھی اس کی فریا د سننے کی جرات نہیں کی۔ اور عبداللہ بن حسن نے اس کے لیے پانی مانگا تھا تو ایک خراسانی نے آگے بڑھ کر اسے پانی پلایا تھا جب منصور کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے اس کو بھی باقی ہاشمیوں کی طرف دھکیل دیا ۔اور انہیں کو فہ بھیج دیا گیا تو وہ راستے میں انتقال کر گیا اور باقیوں کو کوفہ کے مشرق کی جانب واقع ابن ہبیرہ کی قصر میں قید کر نے کا حکم دیااور ان میں سب سے پہلے مرنے والوں میں عبداللہ بن حسن تھے جن کی نماز جنازہ ان کے بھائی حسن ابن حسن ابن حسن ابن علی پڑھائی ۔اس کے ساٹھ دن بعد منصور نے ان کے اوپر قصر کو گرا نے کا حکم دیا تو سارے شہید ہوئے ۔
اول رجب یا ماہ جمادی آخرہ سال ١٤٥ھ/٧٦٢ ء میں مدینہ میں ذولنفس الزکیہ نے انتقام کا اعلان کیا جب مدینہ کے گورنر ابن ریاح کو ان کے خروج کا علم ہوا تو اس نے حسینیوں کا ایک شخص اور بعض قریشیوں کو جن میںسر فہرست امام جعفرالصادق تھے پکڑوادیا ۔اتنے میں مسلم بن عقبہ المری نے ان کو قتل کر نے کا مشورہ دیا تو حسین ابن علی ابن حسین نے اس پر اعتراض کرتے ہو ئے کہا قسم خداکی یہ تمہاری طرح نہیں ہے ۔ہم تو مطیع ہیں ۔یہ بات ابن اثیر نے اپنی کتاب ''الکامل فی التاریخ'' میں لکھا ہے ۔اس کے بعد جلد ہی ذولنفس الزکیہ نے مدینہ کے گورنر کو شکست دی اور جیل میں ڈال دیا پھر بیت المال پر قبضہ کیا اس نے تمام لو گو ں کو قید سے آزاد کروایا ۔اس کے بعد ذولنفس الزکیہ کے پیچھے سوائے چند شخصیات کے باقی تمام قید سے باہر آئے طبری ۔ابن اثیر ،اور ابن کثیر وغیرہ کے مطابق اتنے میں مالک بن انس نے منصور کی بیعت سے بطلان کا اعلان کر دیا کیو نکہ یہ بیعت لوگوں سے جبرا لی گئی تھی۔اور محمد اور منصور کے درمیان کچھ خط کتابت ہوئی جس میں منصور نے معافی مانگنے کے علاوہ اور بہت سارے وعدے کئے لیکن وہ وعدہ خلافی کرنے میں بڑا مشہور تھا اس لیے اس کی یہ بات رد کی گئی تھی۔
جسے طبری نے اپنی تاریخ میں بیان کیا ہے ۔میں تم سے اس امر میں زیادی بہتر جانتا ہوں اور وعدہ وفائی میںزیادہ وفادار ہوں کیو نکہ جو عہد و امان مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی ہے توتو مجھے کونسی امان دوگے !!!۔ابن ہبیرہ کا امان یا تمہا را چچا عبداللہ بن علی کا امان ابی مسلم کا امان ۔اور ذولنفس الزکیہ کا ثورہ کے ساتھ فرزندان امام صادق موسیٰ اور عبداللہ بھی مل گئے ۔اگر چہ امام اس ثورہ کی مقاصد پر یقین تھا ابو الفرج نے اپنی کتاب ''مقاتل الطالبین ''میں لکھا ہے کہ نسل رسول اللہ کی انقطاع کے خوف سے امام صادق نے اپنے چچازاد''ذولنفس الزکیہ ''سے ان کے اعلان ثورہ کے بعد کہا تم کیا یہ بات پسند کرو گے کہ تمہارا خاندان ہو ،تو انہوںنے کہا ایسا ہرگز نہیں امام نے فرمایا اگر تم مجھے اجازت دینا پسند کرو گے تمہیں میرا سب معلوم بھی ہے ۔ انہوں نے کہا میںنے آپ کو اجازت دی پھر امام کے وہاں سے گزرنے کے بعد محمد ان کے فرزندان موسیٰ اور عبداللہ کی طرف متوجہ ہو ااور ان سے کہا کہ تم دونوں اپنے بابا کے ساتھ جاسکتے ہو میں تمہیں اجازت دیتا ہوں ۔تو وہ دونوں چلے گئے ۔پھر امام صادق نے انہیں اپنی طرف آتے دیکھا تو فرمانے لگے کہ تم دونوں کو کیا ہو ا کہنے لگے اس نے ہمیں اجازت دی ہے کہ آپ کے ساتھ جائیں اتنے میں امام نے فرمایا تم دونوں واپس چلے جاو مجھے تم لو گوں کی ضرورت نہیں ہے ۔
پھر دونوں محمد کے پاس چلے گئے ۔اس کے باوجود کہ امام صادق کو یقین تھا ،ذولنفس الزکیہ کا انقلاب کامیاب نہیں ہو گا اسے احجار زیت کے پاس شہید کیا جائے گا لیکن محمد کے والد عبداللہ کو اس بات پر یقین نہیں تھا ۔اور سوچا تھا کہ امام ان کے ساتھ حسد کر کے ایسا فرماتے ہیں ۔
ابو الفرج نے اپنی کتاب مقاتل میں لکھتا ہے کہ واقعاوہ ١٤٥ھ/٧٦٢ ء کو ماہ رمضان میں شہید کیا گیا اور اس کے بعد ماہ ذیقعدہ میںاس کے بھا ئی کو ماردیا گیا ۔کیونکہ امام صادق ذولنفس الزکیہ کے انقلاب کے بارے اچھی طرح جانتے تھے اور آپ نے انقلاب شروع ہونے پہلے سے کئی بار اعتراض کیا ۔جب مقام بوا میں اس کی بیعت ہو رہی تھی جس میں منصور بھی حاضر ہوا تھا اور اس کے بعد مسجد الحرام میں دوبارہ بیعت ہوئی ۔
ابو الفرج کے مطابق ابو سلمہ الخلال کے آنے پر ذولنفس الزکیہ کے چچا زاد بھا ئی عبداللہ بن حسن نے اعتر اض کرتے ہو ئے انہیں منع کیا تھا ،یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ منصور کی جال میں پھنس رہے ہیں جس کے پیچھے لالچ و طمع او ر آخر میں قتل وموت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ طبری نے اپنی تاریخ میں عبداللہ بن محمد بن علی ابن الحسین کی بیٹی سے ایک روایت نقل کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میںنے اپنے چچا جعفر ابن محمد سے کہا تھا میں آپ قر بان ہو جاوں محمد بن عبداللہ کا یہ کا م کیسا ہے ؟ آپ نے فرمایااس کا یہ فتنہ ہے اسی میں اسے ایک رومی کے گھر کے نزدیک مارا جائیگا اور اس کا بھا ئی عراق میں مارا جائے گا اور ان کے گھوڑوں کو پانی میں پھینکا جائے گا ۔یہی روائت عیسیٰ ابن علویہ سے یوں روایت ہے ۔'' حمزہ بن عبداللہ بن علی نے جب محمد کے ساتھ خروج کیا اوراان کے چچا جعفر اسے برابر منع کر تے رہے۔ لیکن زمانے کے طاقت ور محمد کے ساتھ تھے اس نے کہا کہ جعفر کہتا ہے کہ محمد (ذوالنفس)جلد قتل کیا جائے گا تو اس نے کہا کہ جعفر ڈرتے ہیں ''لیکن ہمارامقصد یہاں پر امام جعفر الصادقـکی اپنے جد بزرگوارزیارت کو ثابت کر نا جو منصور کی عہد خلافت میں آپ کا قیام کو فہ یا حیرہ کے دوران کی تھی۔جسے شیعہ مصادر نے توکثرت اور توثیق کے ساتھ بیان کیا ہے ۔جس کے لئے آپ اسد حیدر کی کتاب امام صادق اور مذاہب اربعہ ملاحظہ کر سکتے ہیں البتہ اصحاب حدیث کی مصادر بھی کوئی کم نہیں ہے ان میں بعض یہ اشارہ کر تی ہے ۔کہ سال ١٤٤ ھ /٧٦١ ء کو امام ،منصور سے ملے تھے ۔جب اس نے عبداللہ بن حسن اور اس کے خاند ان کو مدینہ میں قید کر وانے کا حکم دیا تھا ۔ابن عبدالربہ نے اپنی کتاب العقید ة الفرید میں ابی الحسن المدائنی میں ایک روایت نقل کی ہے ۔جب حج پر جاتے ہوئے مدینہ سے گزرے تو اس نے اپنے دربان ربیع سے کہا میر ے سامنے جعفر بن محمد کو حاضر کرو میںاسے ضرور قتل کروں گالیکن ربیع نے اس میں ٹال مٹول کیا مگر اس پر زور دیا گیا اتنے میںان دونوں کے درمیان راز کھل گیا اور اس کے قریب گیا اور اس کے سامنے کھڑا ہو کر جعفر نے ہونٹو ں سے اشارہ کیا پھر اس کے قریب گیا اور اسے سلام کیا تو اس نے کہا تم تواللہ کے دشمن ہو لہٰذاتم پر کوئی سلامتی نہیں ہے ۔
تم نے میری حکومت میں فسادپیدا کیا ہو ا ہے ۔اللہ مجھے زندہ نہیں رکھے اگر میں تمہیں قتل نہیں کروںتو اتنے میں جعفر نے کہا اے امیر المومنین جناب سلیمان جس پر اور محمدۖپر اللہ درود بھیجا تو اسے عطا کیا گیا اسے مقابلے میں اس نے بارگاہ رب العزت میں شکر بجا لایا۔ جناب ایوب پر مصیبتیں نازل ہوئی تو انہوں نے صبر کیا جناب یوسف پر ظلم کیا تو اس نے معاف کیا ۔اور آپ تو ان کے وارث ہو اور ان کی اتباع کر نے کے زیادہ حق دار ہیں ۔تو ابو جعفر نے عاجزی سے سر جھکا یاجعفر کھڑا تھا پھر سر اٹھایا اور کہا اے ابو عبدللہ آپ میرے پاس آئے ۔آپ رشتہ داری میں مجھ سے زیادہ قریب ہیں اور صلہ رحمی ہمارے درمیان زیادہ ہے اور آپ مجھے کم اذیت دینے والے ہیں ۔پھر اس نے دائیں ہاتھ سے مصافحہ کیا اور بائیں طرف سے معانقہ کیا اور اپنے ساتھ بٹھا یا اس سے بعض لوگ اس سے منحرف ہو ئے اور وہ باتیں کر نے لگے پھر کہا اے ربیع اباعبداللہ کے لئے خلعت اور انعام جلد لے آو ، ربیع نے کہا جب میرے اور اس کے درمیان پردہ کھل گیا تو میں نے جاکر ان کے قمیص پکڑ لی تو انہوں نے کہا اے ربیع تم ہمیں قید میں ہی دیکھو گے تو میںنے کہا نہیں آقا ایسی کوئی بات نہیں یہ میر ی ذمہ داری ہے اس کی نہیں تو آپ نے کہا یہ تو بہت آسان ہے پوچھ تمہا ری حاجت ہے۔میں نے کہا تین دن سے آپ کا دفاع کر رہا ہو ں اور آپ کی حفاظت کر رہاہو ں میں نے دیکھا کہ آپ ہو نٹوں سے اشارے کرتے ہو ئے داخل ہو ئے تھے پھر میں نے دیکھا آپ کے بارے میں بات واضح ہو گئی۔ میں تو ایک سلطان کابیٹا ہو ںمجھے اس کی ضرورت نہیں ہے ۔میں چاہتا ہوں کہ آپ کچھ علم مجھے تعلیم فرمائے ۔اتنے میں آپ نے فرمایا:اے اللہ میر ی حفاظت اپنی نہ سونے والی ذات سے فرما اور ہمیشہ اپنے حفظ وامان میں رکھ' تو نے مجھے اپنے رحمتوں سے محروم نہیں کیا لیکن میری طرف سے بہت کم شکر ادا ہو ا لیکن پھر بھی تونے مجھے اپنے رحمتوں سے محروم نہیں رکھا اور مجھ پر کتنی بلائیں نازل ہو ئی لیکن میں نے صبر نہیں کیا پھربھی تو نے میری آبروریزی نہیں کی ۔اے میرے اللہ تیر ے زریعے ہی میں اس کا مقابلہ کرونگا اور تجھ سے ہی میں اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں اور توہی ہر چیز پر قادر ہے اللہ محمد ہمارے سردار اور ان کی آل پر درود بھیج ۔اب آپ ملاحظہ کریں کہ امام جعفر الصادق نے منصور کے غصے کو کیسے قابو کیا یہ دلیل دیتے ہوئے کہ وہ اس کی خلافت کے معترف ہیں اور بیعت پر ملتزم ہے ۔اور اس کے خلاف خروج نہیںکریں گے اوراسے ارث سلیمان اور ایوب اور یوسف جذبہ دلاکر اس کے خوف ودبدبہ کو بٹھا یا ۔
تو اس کے پاس شیطان آیاجب اسے یہ پتہ چلا کہ امام اس کے خلاف کوئی تحریک چلانے والے ہیں اس بات کی طرف طبری نے اپنی تاریخ میں اشارہ کیا ہے ۔شاید اس ملاقات میں امام نے یہ بات اور تمام باتیں اس لیے کی ہوں کیو نکہ منصور نے ان کی زمین پر قبضہ کیا ہو تھا اور اس کے واپس مانگنے پر منصور امام کے قتل کاا رادہ رکھتا جسے طبری نے بھی اپنی تاریخ میں یو ں بیان کیا ہے ۔
مجھ پر جلدی مت کرو اس وقت میں تریسٹھ برس کا ہوچکا ہوں اور عمر کے اس حصے میں میرے والد بزرگواراور جد امیر المومنین علی ابن ابی طالب بھی وفات پا چکے ہیں۔اور میر ے نزدیک تو بر تر ہو گا اور اگر میں تمہا رے بعد زند ہ رہوں تو تمہا رے بعد جو آئے گا وہ معزز ہو گا اتنے میں اس کا دل نرم ہوا اور اسے معاف کیا ،اس میں کوئی شک نہیں کہ عباسیوں کو امام جعفر الصادق کی طرف سے اپنی حکومت کے لئے زیادہ خوف تھا باقی علویوں کی بہ نسبت کیو نکہ امام کی حیثیت اور تاثیر تمام مسلمانو ں میں خاص طور سے شیعیا ن علی ابن ابی طالب کے نفوس میں زیادہ تھی ۔جس کا اندازہ منصور کو تھا ۔اس دلیل کی بنا پر کہ ایک دن ابو جعفر منصور نے محمد ذوالنفس الزکیہ کو ایک خط لکھا اور وہ خط یہ ہے کہ ''تم لوگوں کے درمیان ان کے بعد بیٹے محمد بن علی جیسا کوئی نہیں جس کی دادی ام ولد ہے ۔اور وہ تمہا رے والد سے بہتر ہے اور ان کے بیٹے جعفر جیسا نہیں جو تم سے بہتر ہے ''اس حوالے سے ابن ربہ نے اپنی کتاب ''العقدالفرید ''میں لکھا ہے کہ اس کی تفصیل کوئی محبت و مودت میں نہیں تھی ۔بلکہ ان کے پیچھے ہونے کی خوف کی وجہ سے تھا جو اس کی حکو مت کے لیے ان کی طرف سے تھا۔اور یہ امام کی قتل کی ایک سازش تھی اور اس کو اکساناتھا اگر چہ بعد کے زمانے میں ہی کیوں نہ ہو ۔امام جعفر الصادق کو عراق طلب کیا اس حوالے سے میرے نزدیک صرف شیعہ روایات نہیں بلکہ دوسروں کی بھی ہیں کہ امام جو سال ١٤٣ھ/٧٦٠ ء کے اواخر یا١٤٤ ھ /٧٦٠ ء کے اوائل میں عراق طلب کیا گیا یعنی میر ے خیال میں عبداللہ بن حسن اور اس کے خاندان کو سزا دینے سے قبل کا زمانہ تھا ۔اس زیارت کی توثیق بحث کو جاری رکھنے کی زیادہ اہمیت کے حامل ہے۔جسے ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں بیا ن کیا ہے اور شیخ محمد حسین حرزلدین نے اپنی تاریخ نجف میں نقل کیا ہے۔کہ منصور نے خالد بن عبد اللہ القسری کے آقا رزام کو امام جعفر صادق کو مدینہ سے حیرہ لانے کے لیے بھیجاتھا ۔رزام کہتا ہے ۔جب انہیں لے آیا تو منصور حیرہ میں تھا اور جب ہم نجف پہنچے تو جعفراپنی سواری سے اترے او روضو کیا پھرقبلہ رو ہوکر دو رکعت نما ز پڑھی پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا ،رزام کہتا کہ جب میں ان کے قریب ہوا تووہ کہہ رہے تھے اے میرے پروردگارمیں تجھ سے ہی فتح و کامیابی مانگتا ہوں اور محمد جو تیرے بندے اور رسول ہیں سے مدد مانگتا ہوں۔ اے میرے پروردگار اس کی پریشانی آسان فرما اور اس کی سختی میر ے واسطے آسان فرمااورمیری آرزو سے زیادہ مجھے نیکی عطا فرما اور میرے خوف سے بڑی بدی کومجھ سے دوررکھ ۔جب امام پہنچے تو منصور نے بڑے اچھے طریقے سے ان کااستقبال کیا اوراپنے پاس بٹھاکرخوش ہوئے' پھر عبداللہ بن حسن کے بیٹے محمداورابراہیم کے بارے میں پوچھااوران کے قیام کے خوف سے متعلق بتایا جوان دونوںگھرانوں/خاندانوں یعنی عباسی اورعلویوںکے درمیان ہونے والے متوقع جدائی کا تھا۔ توامام نے جواب دیا کہ واللہ میں ان دونوںکو منع کر چکاہوںتوانہوںنے نہیں مانا پھر میں نے ان کوچھوڑدیااوران کے بارے میں،میں نہیں جانتا اور میں تمہارے ساتھ ہوں اتنے میں منصور نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔لیکن مجھے معلوم ہے کہ ان کے بارے میں جانتے ہیں اورجب تک مجھے ان کے بارے میںنہیںبتائیںگے میںآپ کوچھوڑنے والا نہیں ہوں تو آپ نے فرمایاکیاتم مجھے ایک آیت کی تلاوت کی اجازت دوگے ؟جس میں میرے آخری کام اور علم ہوگا۔اس نے کہا اللہ کے نام پرفرمایئے۔امام نے فرمایا:
(اَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَّ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمْ)
(لَئِنْ ُخْرِجُوا لاَیَخْرُجُونَ مَعَہُمْ وَلَئِنْ قُوتِلُوا لاَ یَنْصُرُونَہُمْ وَلَئِنْ نَصَرُوہُمْ
لَیُوَلُّنَّ الَْدْبَارَ ثُمَّ لاَ یُنْصَرُونَ) (سورہ حشر آیت١٢)
یہ سن کر ابوجعفرسجدے میںگر گیاپھر سراٹھاکرامام کی پیشانی چومنے لگے اور کہا مجھے صرف آپ چاہیے پھراس کے بعدکسی چیزکے بارے نہیںپوچھایہاںتک کہ ابراہیم اور محمدکے بارے میںبھی۔ ابن خلکان نے اپنی وفیات میں ایک روایت نقل کی ہے۔ جو امام کی منصور سے ملاقات'امام کے چچازادبھائیوںکوقتل سے پہلے ثابت کرتی ہے۔اور یہ روایت سابقہ سے ملتی جلتی ہے۔وہ کہتاہے کہا جاتاہے کہ منصور نے جعفر کو بلانے کیلئے محمدبن عبداللہ کے قتل سے پہلے بھیجا تھا جب وہ نجف پہنچے تو نماز کیلئے وضو کیاجیساکہ ہم نے پہلے اشارہ کیا۔ذی النفس الزکیہ کاانقلاب سال ١٤٥ھ/٧٦٢ ء میں تھا اورابن خلکان کی خبرسے ظاہر ہوتاہے کہ منصورنے عبداللہ اور اس کے بھائیوںکو اس کے بعدقتل نہیںکیا۔یہاںپرمحمد حسین حرزالدین نے ایک مناظرے کابھی ذکر کیاہے جوامام جعفر صادق اور ابوحنیفہ کے درمیان منصورکے مجلس میں ہو تھا جس کا زمانہ تقریبا١٤٣ھ /٧٦٠ ء کے آس پاس کاتھا۔ اورانہوںنے اس مناظرے کومناقب ابی حنیفہ سے نقل کیاہے .......اوروہ کہتا ہے کہ ''خوارزمی نے ابی حنیفہ النعمان سے روایت کی ہے وہ کہتاہے ایک دن منصورنے مجھے حیرہ بلایاتومیںچلاگیاجب میںان کے پاس پہنچاتو وہاںجعفر بن محمدکے دائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے لیکن جب میں نے ان کو دیکھاتو جعفربن محمدالصادق کیلئے میرے اندرایک خوف وہیبت پیدا ہوالیکن ابو جعفر منصورکی طرف سے کچھ ایسانہیں ہو اتو منصورنے تعارف کراتے ہوئے کہا اے ابا عبداللہ یہ ابو حنیفہ ہے۔تو آپ نے فرمایا:جی ہاں!اس بعد میری طرف متوجہ ہوکر کہااے ابوحنیفہ! اب تم اپنے مسائل اباعبدللہ امام صادق کے سامنے پیش کر دومیں نے مسائل پیش کرنا شروع کیا اورآپ جواب دیتے گئے اور فرماتے رہے تم لوگ ایسا کہتے ہو اور ہم اس کے جواب میں یوں کہتے ہیں کچھ ہماری اتباع کرتے ہیں کبھی کچھ ہم ساروں کی مخالفت کرتے ہیں۔یہاں تک کہ میں نے آپ کے سامنے چالیس مسائل پیش کئے جن میںکوئی ایسا نہیں رہاجس کاآپ نے جواب نہ دیا ہو پھر ابوحنیفہ نے کہاکیاہم نے یہ روایت نہیں کی کہ لوگوں میںسب سے زیادہ علم کون رکھتا ہے ۔اگرچہ لوگوں میں اختلاف ہی کیوں نہ ہو ۔''
یہ توسابقہ روایت سے واضح ہوتاہے کہ منصورنے اس کے بعد عبداللہ بن حسن اور اسکی خاندان کو سزانہیں دی لیکن اس سے بھی انکار نہیں ہے وہ زیارت ان کے مدینہ کی جیل کے دوران نہ کی ہو۔ جب منصورنے امام کاشانداراستقبال کیاتھااوران کے ساتھ گفتگوکے دوران محمد اور ابراہیم فرزندان عبداللہ بن حسن کے قیام سے لاحق ہو نے والے خوف کے بارے میں بھی گفتگو کی ہو ۔اس قیام سے ان کو خاندانوں کے درمیان ہونے والے متوقع جدائی کاخوف تھا۔لیکن اس کے بعدجدائی واقع نہیں ہوئی اور حدیث میں تہدید تھا اور ہم نے یہ بھی دیکھاکہ جب یہ نجف پہنچے تو اترے اورنمازپڑھی اور رزام نے ان کی دعابھی بیان کی لیکن میرا نہیں خیال کہ انہوں نے قبر امام پر ایساکیا ہویہاں پر اس زیارت کے درمیان ربط پیدا کرسکتے تھے۔ جو صفوان جمال نے ایک سے زائد مرتبہ اپنے امام کی ہمراہی میں یاخوداکیلاقبر مبارک کی ہے۔ اور یہ بات ابن طاوس کی ''کتاب الفرحہ ''کے مطابق بہت ساری کتابوں میں نقل ہوئی ہے۔ لیکن ہمارا مقصد اس زیارت کو بیان کر نا ہے جوابومنصورکے زمانے میں ہوئی تھی۔جسے محمد المشہدی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے۔اورگمان غالب ہے کہ یہ زیارت سال ١٤٣ھ /٧٦٠ ء میں واقع ہوئی تھی اور یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے امام کو منصور سے ملاقات پر مجبور کیا گیا کیونکہ اس سے قبل محمد اور اس کے بھائی نے خروج کیاتھا۔اس ضمن میں عبدالحلیم الجندی نے اپنی کتاب امام صادقـمیں ذکر کیا ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ ابوجعفر منصورنے جب ابراہیم بن عبداللہ کو مقام ''باخمری ''میں قتل کیا تو ہم سب مدینے سے نکل کر کوفہ آئے ۔ اور یہاں ہم ........ٹھہرے اور قتل ہونے کاانتظارکرنے لگے۔پھردربان ربیع ہمارے پاس آئے اورکہاعلوی خاندان کہاں ہے؟اورہم میںسنجیدہ افراد ،دو،دوکرکے امیرالمومنین کے پاس جانے کاحکم دیا تو میںاورحسن بن زید چلے گئے۔جب ہم اس کے پاس پہنچے توپوچھاکیاتم وہی ہوجوغیب جانتاہے ؟میںنے کہا غیب کاعلم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے پھر پوچھاکیا تم وہی ہو جس کو یہ خراج دیا جائے گا ؟میں نے کہا خراج آپ کو دیا جائے گا۔اس نے کہاکیا تم جانتے ہو کہ میں نے تم لوگوں کو یہاں کیوںبلایا ؟ اس نے کہامیں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری زمینوں کو ڈھادوں اور تمہا رے دلوں میں خوف پیداکروں اورتمہارے کھجور کے باغوں کو اکھاڑپھینکوںاورمیں تم لوگوں کوایساتنہا چھوڑوںکہ تمہارے پاس نہ تواہل حجازہوں اورنہ ہی اہل عراق کیونکہ تمہارے ساتھ فسادہے۔میں نے کہا اے امیرالمومنین نبی سلیمان کواللہ تعالیٰ نے سب کچھ عطاکیاتواس نے شکرادا کیا۔
اور ایوب پر بلائیں نازل ہوئی تو انہوں نے صبرکیا اوریوسف پر ظلم ہواتوانہوں نے معاف کیا اور آپ اسی ذریت سے ہیں۔اتنے میں وہ مسکرائے اور کہا جو میں کہتا ہوں تم بھی ایسا کہنا میں نے ایساہی کہا ۔زعیم قوم توتم جیساہوناچاہیے میں نے تمہیں معاف کیا اور تمہاری وجہ سے ان اہل بصرہ والوں کی خطائیںبخش دیتا ہوں۔ کہ بتاو تمہارا پسندیدہ شہر کونسا ہے؟ خداکی قسم!اب کے بعد میں تمہارے ساتھ صلہ رحمی کر تا ہوں پھر ہم نے کہا مدینہ جائیںگے۔
اور ہمیں مدینہ جانے کی اجازت دی اللہ اسے برکت دے یہاں اگر چہ جندی نے مصدرکو بیان نہیں کیا ہے لیکن اس کی یہ روایت دوسری مذکور ہ روایتوںکی تائید کرتی ہے۔جیساکہ میرا اسکے مصدر پر اعتراض کر نے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ روایت اس نے اپنے خیال سے پیش کی ہو۔محمد فخرالدین نے اپنی کتاب ''عباسی آخری دورکی تاریخ نجف ''میںبیان کیاہے کہ امام صادق ابوجعفر منصورکے عہدمیںعراق گئے اورزیارت کی۔یہ بات ابن مشہدی کی آنیوالی ایک روایت کی تائید کرے گی۔