واقعہ غدیر خم
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی سے کچھ ہی ہفتے پہلے ایک اہم حادثہ رونما ہو، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے بعد اہم ترین اور بافضیلت و بابرکت ترین واقعہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ بعثت کے نتیجے میں نبی اکرم جیسی عظیم المرتبت ہستی عالم ہستی کہ نصیب ہوئی۔ اور واقعہ غدیر کے نتیجے میں امیرالمؤمنین علیہ السلام جیسی کثیر الجہات اور جامع جمیع صفات و کمالات شخصیت نصیب ہوئی۔ جو مظہر تجلی خدا تھے۔
یہ واقعہ کچھ اس طرح سے ہے۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد جب مدینہ کی جانب روانہ ہوئے تو کم بیش ایک لاکھ کا مجمع آپ کے ہمرکاب تھا جو مختلف شہروں اور بستیوں سے سمٹ کر جمع ہو گیا تھا اور اب فرض سے سبکبار ہو کر خوش خوش اپنے گھروں کو پلٹ رہا تھا۔
غرض قافلہ رواں دواں تھا کہ مقام جحفہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک پُر خار وادی میں غدیر خم کہلاتی تھی، انہیں ٹھہر جانے کا حکم دیا گیا۔
اس کارواں کو روکنے کا مقصد یہ تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے لئے مناسب موقع و محل کے منتظر تھے۔ اور اس سے مناسب کوئی اور موقع نہ ہو سکتا تھا۔
واقعہ غدیرسُنی احادیث کی روشنی میں
(حدیث غدیر) یہ حدیث رسالتمآب صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ اورمدینہ کے مابین بمقام غدیر خم پر حجة الوداع سے واپسی ِ مدینے آتے ہوئے بیان فرمائی۔ اس حدیث کو اہل سنت کی کُتب کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔
۱) یہ حدیث اہل السنة کی کتب صحاح ستہ میں سے صر ف دو کتب ” جامع الترمذی “ کے باب المناقب باب مناقب علی میں زید ابن ارقم، حذیفہ ابن اُسید اور ابو الطفیل ان تین صحابہ سے روایت کی گئی ہے۔ جبکہ ” سنن ابن ماجہ “ میں سعد بن ابی وقاص اور براء بن عازب دو صحابہ سے روایت کی گئی ہے۔ گویا کہ صحاح ستہ میں پانچ صحابہ سے مروی ہے۔
۲) اہل السنة کی دیگر احادیث میں سے ” مسند احمد بن حنبل ، مسند ابی یعلیٰ موصلی ، مسند بزار، مسند ابی داؤد طیالیسی کے علاوہ دیگر کتب مسانید میں کئی صحابہ سے روایت کی گئی ہے۔
۳) یہ حدیث مستدرک حاکم (جلد ۳ صفحہ ۱۰۹،۱۱۰،۱۳۳ اور ۵۳۳) میں زید ابن ارقم، حضرت ابن عباس اور بریدة اسلمی سے روایت کی گئی ہے۔
۴) کتب معاجم میں ” المعجم الکبیر ، المعجم الاوسط اور المعجم الصغیر میں حافظ طبرانی نے متعدد صحابہ سے روایت کیا ہے۔ اس کے علاوہ”المعجم “ ابن المقریٴمیں حضرت علی علیہ السلام اور ابوھریرہ سے روایت کی گئی ہے۔
۵) حدیث غدیر کو امام نسائی نے اپنی کتاب ” السنن الکبریٰ اور خصائص علی “ میں عمران بن حصین، ابوالطفیل، زید بن ارقم، بریدة اسلمیٰ، سعد ابن ابی وقاص اور خود امیرالمؤمنین کے علاوہ عبداللّٰہ ابن مسعود سے روایت کیا ہے۔
۶) محدثین اہل السنة میں حافظ ذہبی، حافظ ابن کثیر، ملا علی قاری، جلال الدین سیوطی اور عبدالرؤف نساوی علاوہ دیگر کئی ایک محدثین نے اسے حدیث متواتر کہا ہے۔
۷) حافظ ابن حجر عسقلانی، حافظ ترمذی نے اسے حدیث صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔
۸) ابن حزم ظاہری نے اپنی کتاب ” الفِصل “ میں اور ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ” منہاج السنة “ میں اس حدیث کی صحت سے انکار کیا ہے۔
۹) ابن تیمیہ اور ابن حزم کی جرح کو کئی ایک محدثین اہل السنة نے رد کیا ہے۔ جن میں علامہ ناصر الدین البانی کے علاوہ دیگر ایک محدثین نے رد کیاہے۔
۱۰) حدیث غدیر ” من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ “ یا ” من کنت ولیہ فعلی ولیہ اور اللّٰھم وال من والاہ وعاد من عادہ“ کے الفاظ سے اکثر طور روایت کی گئی ہے۔
۱۱) حدیث غدیر ” من کنت مولاہ فعلی مولاہ “ مولا بمعنیٰ اولیٰ ہے۔ ” من کنت اولیٰ بہ فعلی اولی بہ“ کے الفاظ سے ” المعجم الکبیر “ میں طبرانی نے حضرت وھب بن حمزہ سے روایت کیا ہے۔
۱۲) ”حدیث غدیر“ حضرت عمر کی مبارک باد ” بخ بخ لک یا ابن ابی طالب اصحبت وا مسیت “ کے الفاظ کے ” مسند احمد ابن حنبل کتاب مصنّف ابن ابی شیبہ میں جبکہ مشکوةٰ شریف کے باب مناقب علی میں ذکر کی گئی ہے۔
۱۳) ” حدیث غدیر “ بروایت عمر بن الخطاب ” من لم یکن مولاہ فلیس بمؤمن “ کے الفاظ سے صواعق محرقہ میں روایت کی گئی ہے۔
۱۴) حدیث غدیر کو امیرالمؤمنین نے بمقام ” رحبہ “ کوفہ، مقام شوریٰ پر اپنی خلافت کے اثبات کے لئے بطور دلیل پیش کیا۔
۱۵) انس بن مالک اور زید ابن ارقم نے حدیث غدیر پر گواہی دینے سے انکار کیا، تو آپ نے دونوں کے حق میں بد دعا کی جس کی وجہ سے انس بن مالک کو برص ہو گیا جبکہ زید بن ارقم اندھا ہو گیا۔انس بن مالک کے برص ہونے کو ابن قتیبہ نے اپنی کتاب ” المعارف “ میں اور زید بن ارقم کے اندھے ہونے کو طبرانی نے اپنی کتاب ” المعجم الکبیر “ میں ذکر کیا ہے۔
۱۶) اہل السنة نے حدیث غدیر خم میں وارد شدہ لفظ ” مولا “ کو بھی دوست مراد لیا ہے۔ حالانکہ یہ معنی صحیح نہیں کیونکہ ” مولاہ بمعنی اولیٰ بہ “ خود کلام رسالتمآب میں موجود ہے جیسا کہ طبرانی نے وھب بن حمزہ سے مروی ہے۔
۱۷) مذکورہ حدیث میں پیغمبر اکرم نے صرف علی کے مولا ہونے کو بیان نہیں کیا کہ علی تمہارے مولا ہیں بلکہ فرمایا ” من کنت مولاہ فھذ ا علی مولاہ “ کہ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی بھی مولا ہیں۔
۱۸) ان الفاظ کے ساتھ پیغمبر اکرم نے کسی اور صحابی کی ولایت یا دوستی کا اعلان نہیں کیا کہ جس کامیں مولا ہوں اس کے فلاں بزرگ بھی مولا ہیں۔
۱۹) اہل السنة کی کتبِ احادیث میں ہے کہ بروز غدیر خم رسالتمآب کے اپنی دستار مبارک امیرالمؤمنین کے سر پر رکھی۔ جیساکہ مسند ابی داؤد طبال صفحہ ۲۳ اور عمدة القاری شرح صحیح بخاری موجود ہے۔
۲۰) آیتِ قرآن ہے :
یَا اَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآاُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسٰلَتَہط وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِط اِنَّ اللَّہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ
الْکَفِرِیْنَ۔ (سورةمائدہ : ۶۷)
بقول ابوسعید خدری اور ابن مسعود بروز غدیر خم حضرت علی کی فضیلت اور اعلانِ ولایت کے بارے میں اتری ہے۔ جیسا کہ علامہ سیوطی
نے ” دُرالمنثور جلد ۲ صفحہ ۲۹۸“ میں اور علامہ شوکانی نے تفسیر الغدیر میں ذکر کیا ہے۔
” وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِط “ اور اللہ آپ کو ان لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔تو آیت میں ’ الناس‘سے مراد کفار ومشرکین نہیں کیونکہ وہ تمام بڑے بڑے کفار و مشرکین مثلًا ابوجہل ، ابو لہب ،مرحب اور عمرو بن عبدود تو مر چکے تھے۔ بیرونی خطرہ کوئی نہیں کیونکہ یہ سورة مائدہ قرآن مجید کی آخری سورةہے۔
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضَیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (سورة مائدہ : ۳)
کہ جب دین پورا ہو گیا اور نعمت تمام ہو گئی تو سورة بھی آخری ہو گی ۔ یہ اس سورةکے آخری ہونے کی داخلی دلیل ہے۔ خارجی دلیل یہ ہے کہ بقول عائشہ یہ سورة قرآن مجید کی آخری سورة ہے۔
|