اخلاق اور عادات
امیر المؤمنین علی خندہ جبیں ، شگفتہ مزاج ، بے غرضی و اخلاص کا پیکر ، غریبوں کے ہمدرد ، یتیموں کے غم خوار اور اخلاق نبوی کا مکمل نمونہ تھے ، اعلیٰ و ادنیٰ سے یکساں خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے ، غلاموں سے عزیزوں جیسا برتاؤ کرتے ، عام لوگوں کی طرح سادہ اور معمولی خوراک کھاتے اور انہی کی طرح عام اور معمولی لباس پہنتے ، اکثر کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتے ، اپنی جوتیاں خود گانٹھتے ، کپڑوں میں پیوند خود لگاتے اور بازار سے سودا سلف خود خرید کر لاتے ، کھیتوں میں ایک مزدور کی طرح کام کرتے ، اپنے ہاتھ چشمے کھودتے ، درخت لگاتے اور ان کی آبیاری کرتے ، رنگ و نسل کا امتیاز اور طبقاتی تفریق گوارا نہ کرتے ، حاجت مندوں کے کام آتے مہمانوں کو بڑے احترام سے ٹھہراتے ، کسی سائل کو خالی نہ لوٹاتے ، دینی معاملات میں سختی برتتے اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ، حق وصداقت کے جادہ پر گامزن رہتے اور کسی کی رو رعایت نہ کرتے ، دشمن کے مقابلے میں مکر و فریب اور داؤ پیچ سے کام نہ لیتے ، رات کا بیشتر حصہ مناجات و نوافل میں گزارتے ، صبح کے تعقیبات اکے بعد قرآن و فقہ کی تعلیم دیتے ، خوف خدا سے لرزاں و ترساں رہتے اور دعا و مناجات میں اتنا روتے کہ ریش مبارک تر ہو جاتی ۔
ایک مرتبہ ضرار بن ضمرہ ضبائی معاویہ کے ہاں آئے ، معاویہ نے کہا کہ تمہیں تو امیر المؤمنین علی کی صحبت میں رہنے اور انہیں دیکھنے کا موقع ملا ہے ، کچھ ان کے متعلق بیان کرو ، ضرار نے معذرت چاہی ، جب اصرار زیادہ ہوا تو کہا :
کا ن واللہ شدید القویٰ یقول فصلًا و یحکم عدلًا یتفجر العلم من جوانبہ و تنطق الحکمة من نواحیہ و یستوحشمن الدنیا و زھرتھا ۔۔۔ لقد رأیتہ فی بعض مواقفہ و قد ارخیٰ اللیل سدلتہ و غارت نجومہ قابضًا لحیتہ یتململ تململ السلیم و یبکی بکاء الحزین و یقول : یا دنیا غری غیری الیّ تعرضت ام الیّ تشوقت ۔ ھیھات ھیھات قد باینتک ثلاثاً لا رجعة فیھا فعمرک قصیر و خطرک حقیر ، آہ من قلة الزاد و بعد السفر و وحشة الطریق۔ ( استیعاب ، ج۲،ص۴۶۳)
یعنی خدا کی قسم ! ان کے ارادے بلند اور قویٰ مضبوط تھیں ، فیصلہ کن بات کہتے اور عدل و انصاف کے ساتھ حکم کرتے ، ان کے پہلوؤں سے علم کے سوتے پھوٹتے اور کلام کے گوشوں سے حکمت و دانائی کے نقمے گونجتے تھے ، دنیا اور اس کی رونق و بہار سے وحشت کھاتے تھے (اور پھر آگے چل کر کہا ) خدا شاہد ہے :
” میں نے بعض مقامات پر جبکہ رات کے پردے آویزاں اور ستارے پنہاں ہوتے تھے انہیں دیکھا ہے کہ اپنی ریش مبارک کو ہاتھوں کو پکڑے ہوئے اس طرح تڑپتے تھے جس طرح کوئی مار گزیدہ تڑپتا ہے اور اس طرح روتے تھے کہ جیسے غمزدہ روتا ہے اور کہہ رہے تھے کہ اے دنیا! جا کسی اور فریب دے ، کیا میرے سامنے اپنے آپکو پیش کرتی ہے اور مجھ پر فریفتہ ہو کر آئی ہے یہ کیونکر ہو سکتا ہے ؟! میں تو تین بار تجھے طلاق دے چکا ہوں جس کے بعد رجوع کی صورت نہیں تیری عمر چند روزہ اور تیری اہمیت بہت کم ہے ، افسوس زاد راہ کم اور سفر طویل اور راستہ وحشت ناک ہے۔“
جب ضرار بن ضمرہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے اخلاق و کردار کا یہ نقشہ کھینچ رہے تھے، تو تاریخ بتاتی ہے کہ امیر شام جیسے شخص کے دربار میں موجود لوگ اس طرح دھاڑیں مار مار کر روئے کہ گلے میں پھندے پڑ گئے اور معاویہ کی آنکھیں بھی ڈبڈبا گئیں۔
یہ حسن سیرت و حسن عمل کا مقناطیسی اثر تھا ، جس کے تذکرے نے اغیارتک کے دل موم کر دیئے۔امیرالمؤمنین علیہ السلام ہیبت و صولت اور رحم و رافت کے امتزاج کا ایک دلکش پیکر تھے۔ آپ پہاڑ کی مانند سخت اور اڑتے ہوئے بادلوں کی طرح نرم تھے۔چنانچہ ملا علی آذربائیجانی کیا خوب کہا ہے :
اسد اللّٰہ اذا صال و صاح ابو الایتام اذاجاد وبر
یعنی جب دشمن کوللکارتے اور اس پر حملہ آور ہوتے تو اللہ کے شیر اور بخشش و احسان کرتے تو یتیموں کے باپ نظر آتے۔
پوشش و لباس
امیرالمؤمنین علیہ السلام سیدھی سادی وضع کا عام اور کم قیمت لباس پہنتے تھے جو عرب میں اس دور کا غریب طبقہ پہنتا تھا۔ بلکہ بعض اوقات اس سطح سے بھی گر جاتا تھا۔ لباس سے صرف تن پوشی مطلوب تھی نہ کہ نمود و نمائش ۔ اس لئے اس میں کوئی امتیاز گوارا نہ کرتے اور نہ گرمی و سردی کے موسم کا لحاظ رکھتے۔
مسعودی لکھتے ہیں : آپ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں کبھی نیا لباس نہیں پہنا۔
نوف بکالی کہتے ہیں : میں نے حضرت علی کو دیکھا آپ کے جسم مبارک پر ایک کرتہ تھا اور پیروں میں کھجور کی چھال کے جوتے تھے۔
طعام و آدابِ طعام
لباس کی طرح امیرالمؤمنین علیہ السلام کا کھانا بھی روکھا، پھیکا اور انتہائی سادہ ہوتا تھا۔عمومًا جوکے اَن چھنے آٹے کی روٹی اور ستو پر قناعت کرتے۔ روٹی کے ساتھ کبھی نمک ہوتا، کبھی سرکہ، کبھی ساگ اور کبھی کبھار دودھ، گوشت کا استعمال بہت کم کرتے تھے۔ چنانچہ ابن بی الحدید نے تحریر کیا ہے :
کان یائتدم اذا ائتدم بخل و ملح فان ترقی من ذلک فبعض نبات الارض فان ارتفع عن ذلک فبقلیل من البان الابل ولا یأکل اللحم الا قلیلًاو یقول لا تجعلوا بطونکم قبور الحیوان ۔ ( مقدمہ شرح نہج البلاغہ)
یعنی امیرالمؤمنین علیہ السلام اگر روٹی کے ساتھ کوئی پسند استعمال کرتے تو وہ سرکہ ہوتا یا نمک۔ اس سے آگے بڑھتے تو کوئی سی سبزی۔ اور اس سے بھی آگے بڑھتے تو تھوڑا سا اونٹنی کا دودھ اور گوشت بہت کم کھایا کرتے اور فرمایا کرتے : اپنے شکموں کو جانوروں کی قبرستان مت بناؤ۔
عدی ابن حاتم کہتے ہیں :
میں نے ایک روزدیکھا کہ حضرت علی کے آگے جو کی روٹی کے سوکھے ٹکڑے اور نمک رکھا ہے اور ایک چھاگل پانی سے بھری رکھی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ دن کے اوقات میں مصروف جہاد اور راتوں کے لمحات میں مشغول عبادت رہتے ہیں اور پھر یہ کھانا کھاتے ہیں ؟ َ امیرالمؤمنین علیہ السلام میری طرف دیکھ کر فرمایا: نفس کو ریاضت کا خوگر بناؤ تاکہ وہ طغیانی و سرکش پر نہ اتر آئے اور پھر یہ شعر پڑھا :
علل النفس بالقنوع و الا طلبت منک فوق مایکفیہا (مناقب ابن شہر آشوب )
سوید ابن غفلہ کہتے ہیں :
میں ایک مرتبہ عید کے موقع پر امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا حضرت کے آگے دستر خوان بچھا ہے اور اس پر روٹی اور خطیفہ ( آٹے اور دودھ کا دلیا)رکھا ہے۔ میں نے عرض کیا : آپ عید کے دن بھی ایسا کھانا کھاتے ہیں ؟
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا :
انما ھذا عید لمن غفر لہ
عید صرف اس کے لئے ہے جسے خداوندِ متعال نے بخش دیا ہو۔
اولیت اسلام
آپ اوائل عمر سے ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ساتھ رہے، انہی کی آغوش میں پرورش پائی،اور انہی کے عقائد و نظریات پر اپنے عقائد و نظریات کی بنیاد رکھی اور کبھی کفر و شرک سے واسطہ ہی نہیں رہا۔ چنانچہ احمد بن زینی دحلان لکھتے ہیں :
لم یتقدم من علی رضی اللہ عنہ شرک ابدًا لانہ کان مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی کفالتہ کاحد اولادہ وتبعہ فی جمیع امورہ۔“ ( سیرت نبویہ ص ۱۷۷)
یعنی امیرالمؤمنین علیہ السلام کو کبھی شرک سے سابقہ نہیں پڑا، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تربیت و کفایت میں ان کی اولاد کی مثل رہے۔ اور تمام امور میں انہی کی پیروی کرتے تھے۔
اور سب سے پہلے آپ ہی آنحضرت پر ایمان لائے۔ چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں :
انا اول من اسلم مع النبی ۔( تاریخ خطیب بغدادی ج۴ ص ۲۳۳)
سب سے پہلے میں نے نبی اکرم کی آواز پر اسلام قبول کیا۔
انس بن مالک کہتے ہیں : اوحی الی رسول اللہ یوم الاثنین و صلی علی یوم الثلاثاء ۔( مستدرک حاکم ۳۹ ص ۱۱۲)
یعنی پیر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی نازل ہوئی اور منگل کے دن علی علیہ السلام نے نماز پڑھی۔
مجاہد کا قول ہے : اول من صلی علی و ھو ابن عشر سنین ۔( طبقات ابن سعدج۳ ص ۳۱)
یعنی سب سے پہلے حضرت علی نے نماز پڑھی اس وقت آپ کی عمر دس سال تھی۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام کے دوسرے فضائل و امتیازات کی ماننداس امتیاز کو بھی مخدوش اور کم اہمیت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چنانچہ بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام بچوں اور نابالغوں میں سب سے پہلے اسلام لائے۔ جبکہ بالغوں اور مردوں میں سب سے پہلے ابو بکر نے اسلام قبول کیا۔حالانکہ تاریخ اسے تسلیم نہیں کرتی کہ وہ بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لائے، بلکہ ان سے پہلے کافی لوگ اسلام لاچکے تھے۔ چنانچہ محمد بن سعد کہتے ہیں میں نے اپنے والد سعد ابن ابی وقاص سے دریافت کیا کہ:أ کان ابوبکر اوّلکم اسلامًا فقال: لااسلم قبلہ اکثر من خمسین۔
( تاریخ طبری ج۲ ص۶۰)
یعنی کیا آپ لوگوں میں سے سب سے پہلے ابوبکر اسلام لائے تھے ؟ انہوں نے کہا : نہیں ، بلکہ پچاس سے زیادہ آدمی ان سے پہلے اسلام لا چکے تھے۔
اس کے علاوہ کبھی یہ شبہہ ایجاد کر کے آپ اولیت اسلام جیسی فضیلت کو کم اہمیت قرار دینے کی سعی اور یہ کہہ کہ سبقت کا پلہ سبک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ علی علیہ السلام صغیر السن( کم سن )و نابالغ تھے۔ انہوں نے صرف اپنے مربی کے زیر اثر اسلام قبول کیا۔ اس میں اگر سبقت ہو بھی تو یہ باعث امتیاز و فضیلت نہیں ہو سکتی، کیونکہ کم سنی کا اسلام علم و تحقیق پر مبنی نہیں بلکہ بزرگوں کی پیروی و تحقیق کے نتیجہ میں ہوتا ہے۔ البتہ جن لوگوں نے بعد از بلوغ اسلام قبول کیا ان کیا اسلام تحقیق اور حقیقت اسی پر مبنی تھا، اور تقلیدی اسلام سے تحقیقی اسلام کا درجہ بلند ترہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ بلوغ لحاظ احکام شرعیہ اور فقہیہ سے ہوتا ہے ۔ اور ایمان کا تعلق امور عقلیہ سے ہے۔ جس میں عقل شعور کا اعتبار ہوتا ہے یعنی اگرچہ حضرت علی فقہ کی نظر میں بلوغ تک نہیں پہنچے تھے۔ یعنی پندرہ سال کے نہیں ہوئے تھے اور یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ چنانچہ کبھی فقہی طور پر نابالغ ، بالغ مردوں سے زیادہ با فہم، باشعور اور عاقل ثابت ہوتا ہے۔
چنانچہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
و آتیناہ الحکم صبیًا
یعنی ابھی وہ بچے ہی تھے کہ ہم نے انہیں حکم و فہم سلیم عطا کیا۔
اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ انہوں نے گہوارے کے اندر سے کہا :
انی عبداللہ آتانی الکتاب وجعلنی نبیًا
یعنی میں اللہ کا بندہ ہو، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔
یہاں عقلی بلوغ اپنے عروج پر نظر آتا ہے، حالانکہ فقہی بلوغ کی منزل ابھی دور تھی۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام بھی اگرچہ فقہی اعتبار سے نابالغ تھے۔ لیکن عقلی اور شعوری طور پر بلوغ کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے۔ لہٰذا یہ اعتراض بھی وارد نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تائید و نصرت
دعوت ذوالعشیرہ کے دن امیرالمؤمنین علیہ السلام نے خدا اور رسول اکرم سے جو وعدہ کیا اسے پوری طرح نبھایا اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کردینِ خدا کی تائید و نصرت کی۔ اور رسول اکرم کا مکمل دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ بھر پور کمک کی۔
چنانچہ وہ مکہ و طائف کی وادیوں میں سر پر پتھر کھانے کا موقع ہو یا شعب ابی طالب میں پیٹ پر پتھر باندھنے کا۔ وہ شب ہجرت کا مرحلہ ہو یا جنگ بدر، احد، خندق و خیبر کا، فتح مکہ کا واقعہ ہو یا غزوہ تبوک کا اندیشہ ۔
الغرض جہاں بھی دین خدا اور رسول اکرم کا حضرت علی کی مدد و نصرت کی ضرورت پیش آئی آپ نے مکمل طور پر اپنے آپ کو وقف کر دیا۔اگر حکم ہوا جاؤ عمروبن عبدود کا منہ بند کرو۔ تو بلاخوف و خطر اس طرح بڑھے جیسے عقاب اپنے شکار چھبٹتا ہے۔ اور اگر حکم ملا کہ جاؤ مرحب کو پچھاڑ کر قلعہ خیبر کا دروازہ اکھاڑ دو تو بے درنگ آگے بڑھے اور شیر کی طرح مرحب پر لپکے اور اسے دو نیم کرنے کے بعد قلعہ خیبر کا دروازہ اکھاڑکر رکھ دیا۔اور اگر حکم ملا کہ آپ نے مدینہ میں ہی رہنا ہے۔ تو بلا چون و چرا قبول کرلیا۔ اور حاسدوں اور منافقوں کے طعنے بھی برداشت کرتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کو عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جارہے ہیں۔
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ۲۵ سال تک سکوت اختیار کرنا ضروری ہوا تو یہ بھی قبول کر لیا اور ۲۵ سال جتنا طویل عرصہ اس طرح گذار دیا کہ خود امیرالمؤمنین علیہ السلام کے اپنے بقول میری حالت یہ تھی، جیسے گلے میں ہڈی پھنسی ہو اور آنکھ میں کانٹا چبھا ہوا ہو۔بلکہ اس سے بڑھ کر اپنی اولاد کی اس طرح تربیت فرمائی کہ دیکھو اگر کل کلاں معاویہ جیسے شخص سے صلح کرنی پڑے تو نصرتِ دین کی خاطر کر لینا اور اگر دینِ خدا کے لئے کربلا جیسا واقعہ بھی جنم دینا پڑے تو دے دینا۔ اگر اپنے شِیر خوار بچے کو اپنے ہاتھوں میں خون میں لت پت ہوتے دیکھنا پڑے یا جوان سال بیٹے کے سینے سے برچھی کا پھل کھینچنا پڑے تو کھینچ لینا۔ اگر اپنی مخدراتِ عصمت کا حجاب لٹانا پڑے تو لٹا دینا، اگر انہیں اسیر دیکھنا برداشت کرنا پڑے تو برداشت کر لینا۔ لیکن یاد رکھو! دعوت ذوالعشیرہ کے دن میں اسلام کی تائید و نصرت کا جو وعدہ کیا ہے اس پر آنچ نہ آنے پائے۔
بہر حال جیسا کہ آغازِ تحریر میں عرض کیا تھا کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ تو محال و ناممکن ہے۔ لہٰذا صرف بعض پہلوؤں کا بحسبِ استطاعت جائزہ لیا جائے گا۔
|