یا علی علیہ السلام
 
حضرت امیر المؤمنین علیہ الصلوٰة والسلام کی والدہ محترمہ حضرت فاطمہ بنت اسد
حضرت فاطمہ بنت اسد حضرت علی علیہ السلام کی والدہ گرامی تھیں۔ اور اسد، قبیلہ بنت عامر کے بطن سے حضرت ہاشم کے فرزند تھے۔ اس لحاظ سے آپ (فاطمہ بنت اسد) حضرت ہاشم کی پوتی تھیں۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پھوپھی اور حرمِ ابو طالب ہونے کی بناء پر چچی ہوئیں۔جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابو طالب کی کفایت میں آئے تو انہی کی گود پیغمبر اکرم ایسے ہادیٴ اکبر اور اہنمائے اعظم کی گہوارہ کی تربیت بنی اور انہی کی آغوش محبت و شفقت میں پرورش پائی۔ اور اس دلسوزی سے دیکھ بھال کی کہ یتیم عبداللہ کو ماں کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا۔اوررسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی انہیں ماں سمجھتے، ماں کہہ کر پکارتے اور ماں ہی کی طرح عزت و احترام کرتے تھے۔ چنانچہ ان کی شفقت و محبت کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا:
لم یکن بعد ابی طالب ابربی منھا۔ (استیعاب ،ج ۲ ، ص ۷۷۴)
یعنی ابو طالب کے بعد ان (فاطمہ بنت اسد ) سے زیادہ کوئی مجھ پر شفیق و مہربان نہ تھا۔
واضح رہے کہ آپ کے بطن سے ابوطالب کی سات اولادیں ہوئیں۔ جن میں تین صاحبزادیاں تھیں: ریطہ ، جمانہ اور فاختہ جو اُمّ ہانی کی کنیت سے معروف ہیں۔
اور چار صاحبزادے تھے : طالب ، عقیل ، جعفر اور علی علیہم السلام ۔
طالب عقیل سے دس سال بڑے، عقیل جعفر سے دس سال بڑے اور جعفر مولا علی سے دس سال بڑے تھے۔
اپنے آباؤ اجداد کی طرح مسلک ابراہیمی کی پابند، دین حنیف کی پیرو اور کفر و شرک کی آلائشوں سے پاک و صاف تھیں۔ چنانچہ آنحضرت سے حضرت علی سے صلبی و خلقی اشتراک کے سلسلے میں فرمایا:
ان اللہ عزوجل : ” نقلنا من صلب آدم فی اصلاب طاھرة الٰی ارحام زکیة فما نقلت من صلب و علی نقل فلم نزل کذلک حتی استودعنی خیر رحم وھی آمنة و استودع علیا خیر رحم و ھی فاطمة بنت اسد ۔“ ( کفایة الطالب ص۲۶)
یعنی خدائے بزرگ و برتر نے ہمیں حضرت آدم کی صلب سے پاکیزہ صلبوں اور پاکیزہ شکموں کی طرف منتقل کیا۔ جس صلب سے میں منتقل ہوا، اس صلب سے ایک ساتھ علی منتقل ہوئے، یہاں تک کہ خداوندِ عالم نے مجھے آمنہ کے شکم اطہر اور علی کو فاطمہ بنت اسد کے پاکیزہ شکم میں ودیعت فرمایا۔
اور جب دارِ دنیا سے آپ نے رحلت فرمائی تو حضرت علی روتے ہوئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اطلاع دینے آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو پوچھا کہ کیا بات ہے؟ عرض کیا : ابھی ابھی میری والدہ انتقال کر گیئں ہیں۔
آنحضرت نے آبدیدہ ہو کر فرمایا:
خدا کی قسم ! وہ میری بھی ماں تھیں۔
اور پھر اپنی پیراہن اتار کر دی اور فرمایا :”یہ پیراہن انہیں کفن کے طور پر پہنائی جائے۔“
اور جب قبر کھودی جا چکی تو انہیں دفنانے سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود قبر میں اترے، اسے کناروں سے کھود کر کشادہ کیا اور کچھ دیر کے لئے لحد میں لیٹ گئے۔ اور دائیں بائیں کروٹ لینے کے بعد باہر آئے اور روتے ہوئے فرمایا:
جزاک اللّٰہ من ام خیر اللّٰہ کنت خیر ام ۔( تاریخ خمیس ج ۲ ص ۵۲۶)
اے مادر گرامی ! خدا آپ کو جزائے خیر دے آپ بہترین ماں تھیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس امتیازی برتاؤ کو دیکھ کر کچھ لوگوں نے کہا ۔یا رسول اللہ ! کسی اور کے لئے یہ چیزیں آپ سے دیکھنے میں نہیں آئیں ۔فرمایا:
میرے چچا ابو طالب کے بعد اس خاتون کے سب سے زیادہ مجھ پر احسانات ہیں۔

حضرت علی علیہ الصلوٰة و السلام کی ولادت با سعادت
حضرت علی علیہ السلام خداوندِ عالم کے پاک و پاکیزہ، متبرک اور باعظمت گھر میں روزِ جمعہ تیرہ رجب تیس عام الفیل ہوئے ۔ اور یہ شرف نہ اس سے پہلے کسی کو ملا اور نہ ان کے بعد کسی کو حاصل ہو گا۔اسے تمام محدثین و اہل سِیَر( سیرت نویس حضرات )نے قبول کیاہے۔
چنانچہ معروف سنی محدث حاکم نیشاپوری تحریر کرتے ہیں :
تواترت الاخبار ان فاطمة بنت اسد ولدت امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجھہ فی جوف الکعبة۔
( مستدرک الحاکم ج ۳ ص ۴۸۳)
یعنی اخبار متوارة سے ثابت ہے کہ امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجھہ خانہ کعبہ کے اندر فاطمہ بنت اسد کے بطن سے متولد ہوئے۔
اس طرح شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بھی اس کی تصریح کرتے ہوئے قمطراز ہیں :
تواترت الاخبار ان فاطمة بنت الاسد ولدت امیرالمؤمنین علیًا فی جوف الکعبة فانہ ولد فی یوم الجمعة ثالث عشر بن شھر رجب بعد عام الفیل بثلثین سنة فی الکعبة و لم یولد فیھا احد سواہ قبلہ والا بعدہ۔ ( تاریخ الخلفاء)
یعنی متواتر روایات سے ثابت ہے کہ امیرالمؤمنین علی روز جمعہ تیرہ رجب تیس عام الفیل کو کعبہ کے اندر فاطمہ بنت اسدکے بطن سے پیدا ہوئے۔ اور آپ کے علاوہ نہ آپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد کوئی خانہ کعبہ میں پیدا ہوا۔

نام ،لقب ،کنیت
حضرت ابو طالب نے اپنے جد قصی ابن کلاب کے نام پر آپ کا نام زید رکھا۔ اور فاطمة بنت اسد نے انپے باپ کے نام پر حیدر نام تجویز کیا۔(اسد اور حیدر دونوں کے معنی شیر کے ہیں ) ۔ چنانچہ آپ نے جنگ خیبر میں مرحب کے رجز کے جواب میں فرمایا:
ان الذی سمتنی امی حیدرہ
میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے۔
آپ کے القاب آپ کے گوناگوں اوصاف کے لحاظ سے متعدد ہیں جن میں سے مرتضٰی، وصی اور امیرالمؤمنین زبان زدِ عام ہیں۔
جب کہ مشہور و معروف کنیت ابو الحسن اور ابو تراب ہے۔ پہلی کنیت بڑے بیٹے حسن علیہ السلام کے نام پر ہے۔ اور عربوں کے ہاں رواج تھا کہ وہ بڑے فرزند کے نام پر کنیت رکھتے تھے۔
اور دوسری کنیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تجویز فرمائی تھی۔ چنانچہ سیرت ابن ہشام میں ہے کہ غزوہ عشیرہ کے موقع پر حضرت علی اور عمار یاسر بنی مدلج کے ایک چشمہ کی طرف نکل گئے اور درختوں کے سایہ میں ایک نرم و ہموار زمین پر لیٹ گئے۔ ابھی لیٹے زیادہ دیر نہ گذری تھی کہ رسول اکرم بھی ادھر آ گئے۔ اور علی کا بدن خاک میں اٹا ہوا دیکھ کر فرمایا:
ما لک یا ابا تراب؟ اے ابو تراب! یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟!

حلیہ و سراپا
سیرت و تاریخ کی کتب کی رو سے امیر المؤمنین علی کا حلیہ مبارک یہ تھا: جسم بھاری بھر کم ، رنگ کھلتا ہوا گندم گوں ،خدوخال انتہائی مو زوں اور دلکش ، چہرہ متبسم اور رات کے چودھویں رات کے چاند کی طرح درخشاں ۔
ابو الحجاج مدرک کہتے ہیں :
کان من احسن الناس وجھاً
یعنی امیر المؤمنین علی سب لوگوں سے زیادہ وجیہہ اور حسین تھے ۔
جبکہ ان کی پیشانی کشادہ تھی ، ابن عباس کہتے ہیں :
ما رایت احسن من شرصة علی
یعنی میں نے امیر المؤمنین علی کی کنپٹیوں سے حسین تر کنپٹیاں کسی کی نہیں دیکھیں۔
اسی طرح آپ کے ماتھے پر سجدوں کی کثرت سے گھٹا پڑا ہوا ، متوازن ناک ، آنکھیں بڑی اور سیاہ اور ان میں عزم و ایقان کی چمک ، پتیاں روشن ، بھنویں قوس نما ، پلکیں لمبی ، دانت سلکِ منظم کی طرح ضیا بار ، گردن صراحی دار ، سینہ چوڑا چکلا اور اس پر بال ، بازوں کی مچھلیا ابھری ہوئیں ، شانے بھرے بھرے ، کلائیاں ٹھوس ، کلائیوں اور بازؤں میں جوڑ کا پتہ نہ چلتا تھا ، ریش مبارک گھنی اور عریض ، سر اور داڑھی کے بال سفید قد میانہ سے کچھ نکلتا ہوا ، آواز پُر شکوہ ، چال بوقار اور جب میدان جنگ میں دشمن کی طرف بڑھتے تو تیزی کے ساتھ چلتے اور آنکھوں میں سرخی دوڑ جاتی تھی ۔