یا علی علیہ السلام
مصنف: محب علی
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
وبذکر مولانا المھدی (عج) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : من کنت مولا ہ فھذا علی مولاہ
امیر المؤمنین حضرت علی ابن ابیطالب علیہ افضل التحیة و الثناء و السلام کی ذات گرامی کے بارے میں لکھنا یقینًا بہت مشکل کام ہے اور خصوصًا یہ دعویٰ کرنا کہ آپ کی ذات گرامی کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے اور ان کے گوناگوں کمالات کو الفاظ کے پیرائے میں سجایا جائے، یقینًا محال و ناممکن ہے۔آخر ان کی ذات کو کس طرح الفاظ کی قیود میں قید کیا جاسکتا ہے یا ان کی ذات کو کیونکر صفحات میں محدودکیا جا سکتا ہے ؟کیونکہ ایک مجرد جو مادہ و مادیات سے ہی پاک و منزہ نہیں بلکہ زمان و مکان کی پابندیوں سے بھی آزاد ہے اسے کس طرح مادی کاغذ و سیاہی میں پابند کیا جا سکتا ہے؟ ! کیونکہ مجرد تو لامحدود ہوتا ہے اسے مادہ کی حدود میں محدود کرنا کس طرح ممکن ہے !!! اور شاید یہ کہنا بے جانہ ہو : سمندر کو کوزے میں بند کرنا ممکن ہو سکتا ہے، لیکن مجرد کو مادہ میں مقید کرنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ سمندر بھی کوزہ کی مانند مادی ہے اور مادی کو مادی میں سمونا شایدممکن ہو۔ لیکن مجرد کو مادی میں سمونا یقینًا محال و ناممکن ہے اور پھر جامع جمیع کمالات اور لا محدود صفاتِ حسنہ کا یعنی وہ ذات جس میں تمام کمالات و صفات پائی جاتی ہوں انہیں شمار کرنا کیسے ممکن ہے؟بھلا آسمان پر موجود تاروں کو کوئی گن سکتا ہے ؟ لیکن نہیں شاید یہ بھی ممکن ہو۔ کل کلاں کوئی تاروں کی تعداد، ان کا حجم، قُطر اور زمین سے فاصلہ تک بھی بتا دے۔ لیکن مولاعلی کی ذات میں موجود تمام کمالات شمار کرنا کبھی بھی ممکن نہیں ہو گا۔ اور پھر اس کے بارے میں کیا لکھا جائے جو خود مولا علی ارشاد فرماتے ہیں: ” تم جو کچھ ہم ( اہل بیت ) کی شان میں کہہ لو لیکن پھر جو کچھ ہمیں خدا ندِ متعال نے اپنے فضل و کر م سے عطا کیا ہے اس کی عشر عشیر کا عشر عشیر بھی نہیں بیان کر سکتے۔ “ پس اتنا کہا جا سکتا ہے: بعد از خدا توئی بزرگ قصہ مختصر اور یہ غُلوّ یا مبالغہ نہیں ہے۔ حدِ غلو تو امیر المؤمنین علیہ الصلوٰة والسلام نے خود یوں بیان کی ہے: ہمیں رب نہیں کہو باقی جو کچھ کہ سکتے ہو کہ لو۔ ان تمام اعتراضات اور مکمل عاجزی کے اقدار کے باوجود ذیل میں ہم امیر المؤمنین علی ابن ابیطالب علیہم الصلوٰة والسلام کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر نظر دوڑانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ مالا یدرک کلہ لایترک کلہجو تمام کام تمام درک نہ ہو سکے وہ سارے کا سارا ترک بھی نہیں کرنا چاہیئے تو آیئے آپ کی مبارک زندگی کا ایک جائزہ لیتے ہیں: حضرت امیرالمؤمنین علیہ الصلوٰة والسلام کے والد گرامی حضرت ابوطالب ابن عبدالمطلب ہیں۔ حضرت ابو طالب کااصلی نام اپنے جدِ اعلیٰ کے نام پر عبدمناف تھا اور بعض تذکرہ نگاروں نے عمران لکھا ہے۔ جبکہ اکثر علماء کے نزدیک آپ کی کنیت ابوطالب ہی تھی اورنام ابو طالب ہی تھا۔آپ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ۳۵ بر س بڑے تھے۔ آپ نے ۴۳ برس حضرت عبد المطلب جیسی عظیم شخصیت کے زیر سایہ بسر کیے۔ انہی سے حکمت و اخلاق کے سبق لئے اورعلم و ادب کے درس پائے، اور اسی تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں علمی و ادبی رفعتوں کے نقطہ کمال پر فائز ہوئے اور اپنے دور میں بلند پایہ ادیب، ممتاز سخن طراز، عظیم مفکر اور بالغ النظر قائد تسلیم کئے گئے۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ اس تاریک معاشرے میں جبکہ انسانیت کی قدریں دم توڑ رہی تھیں اور عرب اخلاقی پستی کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے۔ آپ نے اخلاقی رذائل سے اپنا دامن آلودہ نہ ہونے دیا۔جبکہ جگہ جگہ جؤا کھیلا جاتا تھا اور گھر گھر شراب پی جاتی تھی لیکن آپ نہ قمار بازی کی طرف رخ کیا اور نہ کبھی شراب کو منہ لگایا چنانچہ معروف سنی عالم دین اور مؤرخ احمد بن زینی دحلان لکھتے ہیں : کان ابو طالب ممن حرم الخمرعلی نفسہ فی الجاھلیہ کابیہ عبد المطلب ۔ (سیرت نبویہ ص۸۰) حضرت ابو طالب نے اپنے باپ حضرت عبدالمطلب کی مانند زمانہ جاہلیت میں بھی شراب اپنے اوپر حرام کر رکھی تھی۔ آپ کے حلم و بردباری کے بارے میں یہ کہ دینا کافی ہے: جب احنف ابن قیس سے جو عرب میں حلم و بردباری کے لحاظ سے شہد ہ آفاق تھے۔ پوچھا گیا کہ تم نے یہ حلم و بردباری کس سے سیکھی ہے،اس نے کہا:قیس بن عاصم المنقری سے۔اور جب قیس بن عاصم سے پوچھا گیا کہ تم نے حلم و بردباری کا سبق کس سے لیا ہے؟کہا حکیم عرب اکثم ابن صیفی سے۔اور اکثم ابن صیفی سے دریافت کیا گیا کہ تم نے حکمت،ریاست،حلم اور سرداری و سربراہی کے اصول کس سے سیکھے ہیں؟تو انہوں نے جواب دیا: من حلیف الحلم و الادب سید العھم و العرب ابی طالب ابن عبدالمطلب۔ (ھدیة الاحباب ص۲۵۲) یعنی سردار عرب و عجم،سراپا حلم و ادب ابوطالب ابن عبد المطلب سے۔ علاوہ ازیں آپ کے اشعار میں جو ( دیوان شیخ الابطحاء ) کے نام چھپ چکے ہیں، زمانہ جاہلیت کے دوسرے اشعار کے برعکس بے جا خود ستائی، ابتذال، اخلاقی باختگی اور بازاری پن کی جھلک تک نہیں پائی جاتی تھی۔ بلکہ روانی، سادگی، متانت، حسنِ نظر کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیمات، حق پرستی، حق نوازی کے زرین دروس سے بھرے ہوئے تھے۔ اسی لئے حضرت علی علیہ السلام ان کے اشعار کو عملی و اخلاقی سرمایہ قرار دیتے ہوئے فرماتے تھے: تعملّوہ و عَلّموہ اولادَ کم فانّہ کان علی دین اللّٰہ وفیہ علم کثیر۔ ( بحارالانوار ج ۹، ص ۲۴) ان کے اشعار پڑھو اور اپنی اولاد کو پڑھاؤ، اس لئے کہ وہ دینِ خدا پر تھے اور ان کے کلام میں علم کا بڑا ذخیرہ ہے۔ جبکہ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جس طرح محبت و دلسوزی کا مظاہرہ کیا اور جس طرح ان کی تربیت و پرورش کی اس کا ہر مؤرخ نے اعتراف کیا ہے۔چنانچہ ابن سعد لکھتے ہیں : کان یحبہ حبّا شدیدًا الا یحب ولدہ و کان لا ینام الا الی جنبہ و یخرج فیخرج معہ و حب بہ ابوطالب حسبابة لم یصیب مثلھا بشیٴٍ قط۔ (طبقات ابن سعد ج ۱، ص ۱۱۹) یعنی ابوطالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بے انتہا محبت کرتے اور اپنی اولاد سے زیادہ انہیں چاہتے تھے۔ ان کے پہلو میں سوتے اور جیسا کہیں باہر جاتے توانہیں ساتھ لے جاتے اور دنیا جہاں کی ہر چیز سے زیادہ ان پر فریفتہ و گرویدہ تھے۔ چنانچہ یہ واقعہ بھی تاریخ کی کتب میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شام تک گھر نہ پلٹے۔ ابو طالب کو فکر دامن گیر ہوئی۔ آپ نے ہر جگہ تلاش کیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہ ملے۔ آپ نے چندہاشمی جوانوں کو بلایا اور کہا : ” اپنی آستینوں میں تیز دھار خنجر چھپا کر سردارانِ قریش کے پہلو میں بیٹھ جاؤاور ایک ابو جہل کے پہلو میں بیٹھ جائے۔ اگر یہ سنو کہ محمد قتل کر دیئے گئے ہیں تو ان پر ٹوٹ پڑنا اور سب کو بے دریغ قتل کر دینا، لیکن جب آپ کو معلوم ہوا کہ رسول خدا صحیح و سالم ہیں اور اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ لیا تو ہاشمی نوجوانوں کو سردارانِ قریش کے پاس لے کر آئے اور کہا کہ انہیں اپنے خنجر دکھاؤ ۔“ اور پھر انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: واللّٰہ لو قتلتموہ ما بقیت منکم احدًا حتی نتفافی نحن و انتم ۔ ( طبقات ابن سعد ج۱ ، ص ۲۰۳) یعنی خدا کی قسم ! اگر تم محمد کو قتل کر دیتے تو میں تم میں سے کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑتا، ہم خود بھی مرجاتے اور تمہیں بھی موت کے گھاٹ اتار دیتے۔ اگرچہ بعض کج دھن اور کج فکر افراد نے آپ کے ایمان اور نجات پر شک و شبہ کرتے ہوئے نازیبا کلمات بھی استعمال کئے ہیں۔ لیکن خود آنحضرت اور آئمہ اہل بیت علیہم السلام ان کے ایمان اور ان کی اخروی نجات پر کیا رائے و یک زبان ہیں ۔ عباس ابن عبدالمطلب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا؟ آپ ابوطالب کی نجات کے بارے میں پُر امید ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ” کل الخیر ارجو من ربی۔“ (طبقات ابن سعد ج۱، ص ۱۲۴) یعنی میں ان کے لئے اپنے پروردگار سے ہر قسم کی بھلائی کا امیدوارہوں۔ امام محمد باقر علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں: مات ابوطالب ابن عبدالمطلب مسلمًا مؤمنًا۔ ( الحجت بن معد صفحہ ۲۷) یعنی ابوطالب دنیا سے مسلمان اور مومن اٹھے۔ اس طرح امام موسیٰ کاظم علیہ الصلوٰة والسلام سے درست ابن ابی منصور نے ایمان ابوطالب کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”اقر بالنبی و بما جاء بہ۔“( اُصول کافی صفحہ ۲۴۲) انھوں نے رسول خدا کا اور جن چیزوں کو وہ لے کر آئے سب کا اقرار کیا۔ امام حسن عسکری علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں: ”ان ابا طالب کمؤمن آل فرعون یکتم ایمانہ ۔“ ( الحجت بن معد صفحہ ۱۱۵) یعنی ابوطالب مومن آل فرعون کی مانند تھے جو اپنے ایمان کو مخفی رکھتے تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب آپ کا انتقال ہوا تو آنحضرت پر غم و الم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، آنکھوں سے آنسو امنڈ آئے اور گلوگیر آواز میں امیر المؤمنین علیہ الصلوٰة والسلام سے فرمایا: ”اذھب فغسلہ وکفنہ و وارہ غفراللہ و رحمہ ۔“ ( طبقات ابن سعدج ۱ صفحہ ۱۰۵) یعنی جاؤ ! انہیں غسل و کفن پہناؤ اور دفن کا سامان کرو۔ خدا انہیں مغفرت کرے اور اپنی رحمت ان کے شاملِ حال رکھے۔ اور جب محسن و مربی چچا کوکفن میں لپٹا ہوا دیکھا تو بہت روئے اور فرمایا: ”یا عم ربیّت صغیرا و کفلت یتیمًا و نصرت کبیرا جزاک اللہ عنّی خیرًا ۔“ ( تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۲۶) یعنی اے چچا ! آپ نے بچپن میں پالا، یتیمی میں میری کفالت کی، بڑا ہونے پر میری نصرت و حمایت کی، خداوندِ متعال میری طرف سے آپ کو جزائے خیر دے۔ حضرت ابو طالب کی وفات کے پانچ ماہ بعد آپ کو اس وقت ایک اور غم اور افسوس ناک حادثہ کا سامنا کرنا پڑا جب جناب خدیجہ کا انتقال ہوا۔ اس حادثہ پرآپ نے فرمایا: اجتمت علیٰ ھذہ الامة فی ھذہ الایّام مصیبتان لا ادری بایھما انا اشد جزعًا۔ ( تاریخ یعقوبی ، ج ۲، ص ۲۶) ان دنوں اس امت پر دو عظیم حادثے ایک ساتھ وارد ہوئے، میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ ان دونوں صدموں میں کون سا صدمہ میرے لئے زیادہ رنج و کرب کا باعث ہے ۔ |