شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علي عليہ السلام
 

شہادت حضرت علي عليہ السلام کي مصيبت:
ماہ رمضان کي اکيسويں تاريخ ٤٠ ھجري قمري، شہادت اميرالمومنين عليہ السلام کا دن ہے ،ذرا اس غم انگيز دن کو ياد کريں،تصور تو کريں کوفہ آج ماتم کدہ بنا ہوا ہے آپ وہ گھڑي اپني نگاہوں ميں رکھيں جب سارے تہران والے سمجھ گئے کہ امام خمیني ۲ اب اس دنيا ميں نہيں رہے،کيا شور و غوغا تھا،ايک کہرام مچ گيا،دل لرزنے لگے جيسے زلزلے کے جھٹکے آرہے ہوں،جب کہ امام خمیني ۲ پہلے سے کچھ عليل تھے دلوں ميں پہلے سے ايک خوف و ہراس تھا،بہرحال دھڑکا لگا ہوا تھا کہ خدانخواستہ کبھي بھي کوئي ناگوار صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے،ليکن اميرالمومنين عليہ السلام ابھي کچھ ہي دير پہلے مسجد ميں لوگوں کو نماز پڑھنے کے لئے بيدار کر رہے تھے،کچھ دير پہلے آپ کي اذان شايد پورے کوفہ ميں گونج چکي تھي ابھي کل تک آپ کي ملکوتي آواز لوگوں کے کانوں سے ٹکرا رہي تھي آپ کے گوہر بار کلمات حلقہ بگوش تھے اور مسجد کوفہ ابھي بھي آپ کے صوتي تاروں سے حالت مستي ميں تھي۔ابھي کچھ ہي دير پہلے تو لوگوں نے آپ کي آواز سني تھي ،لوگ اپنے گھروں ميں بيٹھے تھے کہ اچانک ايک دلخراش و غمو اندوہ سے بھري آواز نے سب کے جگر پارہ پارہ کر دےئے جيسے کوئي فرياد کر رہا تھا’’ الا تھدمت ارکان الھديٰ،قتل علي المرتضيٰ ‘‘ پہلے اھل کوفہ (اور پھر سارے عالم اسلام نے) کچھ اس طرح شہادت اميرالمومنين کي خبر سني۔
اگرچہ بارہا خود اميرالمومنين عليہ السلام نے يہ خبر غم سنائي تھي اور آپ کے قريبي رشتہ داروں کو اس کا علم بھي تھا حيات پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ميں،جنگ خندق کے موقع پر اميرالمومنين عليہ السلام ايک چند سالہ نوجوان ہي تھے۔کہ عمر وبن عبدود سے آپ کا مقابلہ ہوا،اور يہ عرب کا نامي گرامي پہلوان ۔جس کے بارے ميں لوگوں کا يہي خيال تھا کہ اب توپيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور اسلام کا صفايا ہو جائے گا۔وہ حضرت عليہ السلام کے مقابلہ ميں آيا اور ادھر واصل جہنم ہو گيا مگر اسي جنگ ميں آپ کي پيشاني مبارک زخمي ہو گئي آپ اسي حالت ميں آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي خدمت اقدس ميں حاضر ہوئے،آنحضرت نے آپ کے بہتے ہوئے خون کو ديکھا تو دل تڑپ گيايہ جانثار و فدا کار،نوجوان،يہ عزيز و محبوب نبي اکرم(ص) جو ابھي ابھي ايک عظيم کارنامہ انجام دے کر بيٹھا ہے،حالت يہ ہے کہ پيشاني خون سے تر بتر ہے،پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا:۔ميري جان علي عليہ السلام ،تھوڑا بيٹھو تو سہي،اميرالمومنين عليہ السلام بيٹھ گئے،آنحضرت(ص) نے ايک رومال منگوايا،شايد بنفس نفيس، پيشاني سے خون کو صاف کر رہے تھے اور دو خواتين جو مجاھدين کے زخموں کي مرہم پٹي کر رہي تھيں ان سے خطاب کر کے فرمايا کہ اچھي طرح علي عليہ السلام کے زخم کي مرہم پٹي کرو اور جس وقت آنحضرت(ص) يہ حکم کر رہے تھے اسي وقت جيسے حضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو کچھ ياد آگيا ہو کہ آنکھيں اشک بار ہو گئيں،اميرالمومنين عليہ السلام کي طرف ايک نظر کي اور فرمايا ميري جان علي عليہ السلام ! آج تو تمہارے زخم کي مرہم پٹي ميري آنکھوںکے سامنے ہو گئي اس ليے کہ ميں زندہ ہوں ليکن بتاو جب تمہاري داڑھي،تمہارے سر کے خون سے خضاب ہو گي تو پھر زخم پر مرہم لگانے کے لئے کون ہوگا؟ اس وقت ميں کہاں ہونگا؟ ’’ اين اکون اذا اخضيت ھذہ من ھذہ‘‘ لہذا سب کو اس دن کا انتظار تھا اور خود بارہا حضرت نے بھي اس سلسلے ميں فرمايا تھا ’’ محمد بن شھاب زھري‘‘ روايت کرتے ہيں کہ ’’ کان اميرالمومنين ستتيع قاتلہ‘‘ يعني آپ عروس شہادت کو گلے لگانے کے لئے بے تابانہ انتظار کر رہے تھے تا کہ يہ شقي آئے اور اپنا کام تمام کر دے گويا آپ کے ليے لمحات کند پڑ گئے تھے اور وقت کي گھڑي بمشکل کٹتي دکھائي ديتي تھي دائماً زبان پر بس يہي تھا ’’متي يکون اذا خضيت ھذِہ من ھذا‘‘ گھر کے تو فرد فردکو معلوم تھا خود حضرت اس گھڑي کا شدّت سے انتظار کر رہے تھے ،مگر يہ حادثہ اس قدر عظيم تھا کہ گھر ميں ايک تہلکہ مچ گيا،حضرت کو مسجد سے اٹھا کر گھر لايا گيا،ميں نے بحارالانوار ميں ايک روايت ديکھي ہے کہ حضرت کبھي بے ہوش ہو جاتے تو کبھي ہوش ميں آتے تھے آپ کي بيٹي ام کلثوم يہ حالت ديکھ کر گريہ و زاري کر رہي تھيں کہ ايک مرتبہ حضرت نے اپني آنکھيں کھوليں اور فرمايا:’’ ميري بيٹي ام کلثوم رو کر اپني جان ہلکان اور میرا جگر چھلني مت کرو ’’لا تعزيني يا ام کلثوم فانک لو ترّين ما اريٰ لم تبک‘‘اس ليے کہ جو ميں ديکھ رہا ہوں اگر تم بھي ديکھتيں تو تمہاري يہ حالت نہ ہوتي’’ ان الملائکۃ من السّموات السّبع بعضھم خلف بعض والنبيّون يقولون النطلق ياعلي‘‘ فرمايا: فرشتے ساتوں آسمانوں سے ايک کے پيچھے ايک مسلسل چلے آرہے ہيں اور ميرے سامنے انبيائ و فرشتگان الہيٰ کا جم غفير ہے جو مجھ سے خطاب کر کے کہہ رہے ہیں ’’پيارے علي آجاو ہماري طرف اس ليے کہ جو تمہاري حالت بنائي گئي ہے اس سے يہاں آجانا ہي تمہارے لئے بہتر ہے ’’ فما آمامک خيرلک ممّا انت فيہ ‘‘(١)

علي ان کے لئے بددعا کر و! !
ميں نے آج شہادت اميرالمومنين عليہ السلام کي مناسبت سے آپ کي خدمت ميں پيش کرنے کے لئے ايک حديث لکھي ہے کہ بعد از شہادت اميرالمومنين يا ضربت لگنے کے دوسرے دن امام حسن عليہ السلام کي زباني نقل ہے،کہ آپ نے فرمايا:ميں واقعہ بدر کي برسي سے کچھ دنوں قبل اپنے بابا جان سے محو گفتگو تھا کہ انھوں نے مجھ سے فرمايا :’’ ملکتني عيناي‘‘ نماز صبح کے بعد ميري آنکھ ذرا لگ گئي تھي کہ خواب ميں رسول خدا کو ديکھا تشريف لائے ہوئے ہيں’’ فسخ لي رسول اللہ فقلت يا رسول اللہ ‘‘ آپ کي امت نے کيا کيا ستم ميرے اوپر نہيں ڈھائے ،کس قدر دشمني و گمراہي انھوں نے آپ کے بعد اپنائي،’’فقال لي ادع عليھم ‘‘ تو انھوں نے مجھ سے فرمايا۔ علي عليہ السلام اب مدارات(معاف کرنے اور چھوڑ دینے) کا وقت ختم ہوگيا،خدا سے تم ان کے لئے بددُعا کرو۔
اميرالمومنين نے جو بدعا کي وہ يہ ہے’’ فقلت اللم ابدلني بھم من ھو خير منھم‘‘ ميں نے بارگاہ الہيٰ سے درخواست کي ،پروردگارا! مرے ليے ان سے بہتر لوگوں کو قرار دے اور ان کے ليے ايسے افراد کو بھيج دے جو بد ترين لوگ ہوں،بس ايک دن کے فاصلہ سے حضرت عليہ السلام نے جو يہ دعا کي تھي مستجاب ہوگئي اور انيسويں کي صبح کو دنيائے اسلام تاريخ کي عظيم شخصيت کے غم ميں سوگوار ہو گئي آپ کا فرق مبارک دو پارہ ہو گيا اور فضا اس فريادِ ’’تھدّ مت واللہ ارکان الھديٰ‘‘ (قسم بہ خدا ہدايت کي بنياديں منھدم ہو گئيں )سے گونج اٹھي علي عليہ السلام لوگوں کے درميان سے اٹھ گئے اور شہادت علي عليہ السلام کے بعد دنيائے اسلام نے جو جو سختياں جھيليں وہ سب تاريخ ميں محفوظ ہیں، يہي کوفہ کن کن سختيوں
سے گذرا اسي کوفہ پر حجاج جيسا درندہ مسلط ہوا،يہي کوفہ ہے جس پر اموي سلاطين اميرالمومنين کي شہادت کے بعد،يک بعد ديگري آتے رہے اور اس پر قبضہ جمائے رکھا،يہ لوگوں کي ناشکري ہي کا نتيجہ تھا جس کي وجہ سے کوفہ کو ان سخت و دشوار مسائل سے دوچار ہونا پڑا۔
لاحول ولا قوۃ الّا بااللہ العلي العظيم

دعائيہ کلمات:
خدايا :تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ تجھے علي بن ابي طالب عليہ السلام کي طےّب و طاہر روح کا واسطہ کہ ہم سب کو علي بن ابي طالب عليہ السلام کے شيعہ اور پيرووں ميں سے قرار دے۔زندگي کے دشوار گذار امتحانوں اور نشيب و فراز ميں کاميابي و کامراني عطا کر اور بصيرت و صبر کي توفيق دے۔
خدايا: مسلمان قوم کو سارے تجربوں ميں کاميابي عطافرما اور دشمنان اسلام کو مغلوب و محکوم اور ذليل و رسوا کر دے۔
پروردگارا: قوم و ملت کي اصلاح کو فساد ميں بدلنے والے پوشيدہ ہاتھوں کو قطع کر دے ۔
خدايا! قوم کے ايک ايک فرد کے دلوں کو اخوت و برادري ،محبت و اتحاد کي گرمي عطا کر اور ان صفات سے قلوب کومنور فرما دے۔
پروردگارا ! بطفيل محمد وآل محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم انقلاب اسلامي کے بلند و بالا اہداف کي راہ ميں موجود ساري رکاوٹوں کو قوم سے دور کر دے، ہمارے معاشرے کو مکمل اسلامي معاشرہ بنا دے،اسے ايمان و اسلام ميں پختہ تر کر دے ہمارے دل، ہماري جانيں ہماري روح و فکر و اخلاق کو اس طرح بنا دے جس طرح علي عليہ السلام کو پسندہے۔
ميرے مالک؛ ہميں ،ہمارے مرحومين کو اور ہمارے والدين کو بخش دے۔
پروردگارا: حضرت امام خمیني ۲ کو اپنے اوليائے خاص کے جوار ميں جگہ دے شہدا راہ خدا کي پاکيزہ ارواح کو اعليٰ عليين ميں شمار کر۔
خدايا:انقلاب کے جانثاروں اور جانبازوں کو جہاں کہيں بھي ہوں اپنے لطف و رحمت کے سائے ميں جگہ دے ۔(2)

والسلام عليکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
..............
١۔خطبات نماز جمعہ،تہران ،مورخہ۔١٨١٠١٣٧٧ ش
2۔خطبات نماز جمعہ تہران ۔مورخہ ١٢١١٧٥ش

دعاے کميل کے چند منتخب جملے
يٰاِلٰھ وَرَبّ وَسَيِّدِ وَمَوْلاَٰ،لِآَِّ الْاُمُورِِلَيْکَ آَشْکُو،وَلِمٰامِنْھٰاآَضِجُّ
خدايا۔ پروردگارا۔ ميرے سردار۔ميرے مولا! ميں کس کس بات کي فرياد کروں اور کس کس کام کے لئے آہ وزاري اور
وَآَبْک،لِآَليمِ الْعَذٰابِ وَشِدَّتِہِ،آَمْ لِطُولِ الْبَلاٰئِ وَ مُدَّتِہِ،فَلَئِنْ صَيَّرْتَنلِلْعُقُوبٰاتِ مَعَ
گريہ وبکا کروں ،قيامت کے دردناک عذاب اور اس کي شدت کے لئے يا اس کي طويل مصيبت اور دراز مدت کے لئے کہ اگر تونے
آَعْدَائِکَ،وَجَمَعْتَ بَيْن وَ بَيْنَ آَہْلِ بَلاٰئِکَ،وَفَرَّقْتَ بَيْنِ وَبَيْنَ آَحِبّٰائِکَ
ان سزاوں ميں مجھے اپنے دشمنوں کے ساتھ ملاديا اور مجھے اہل معصيت کے ساتھ جمع کرديا اور ميرے اوراپنے احبائ اور
وَآَوْلِيٰائِکَ،فَھَبْنِِ يٰاِلٰھ وَسَيِّدِ وَمَوْلاَٰ وَرَبِّ،صَبَرْتُ عَلٰي عَذٰابِکَ فَکَيْفَ
وليائ کے درميان جدائي ڈال دي ۔تو اے ميرے خدا۔ميرے پروردگار ۔ميرے آقا۔ميرے سردار! پھر يہ بھي طے ہے کہ اگر ميں
آَصْبِرُعَلٰي فِرٰاقِکَ،وَھَبْنِ صَبَرْتُ عَلٰي حَرِّ نٰارِکَ فَکَيْفَ آَصْبِرُ عَنِ النَّظَرِِلٰي
تيرے عذاب پر صبر بھي کر لوں تو تيرے فراق پر صبر نہيںکر سکتا۔اگر آتش جہنم کي گرمي برداشت بھي کر لوں تو تيري کرامت نہ ديکھنے کو
کَرٰامَتِکَ،آَمْ کَيْفَ آَسْکُنُ فِي النّٰارِ وَرَجٰائِ عَفْوُکَ۔
برداشت نہيں کر سکتا ۔بھلا يہ کيسے ممکن ہے کہ ميں تيري معافي کي اميد رکھوں اور پھر ميں آتش جہنم ميں جلاديا جاوں ۔
فَبِعِزَّتِکَ يٰا سَيِّد وَمَوْلٰاَ اُقْسِمُ صٰادِقاًلَئِنْ تَرَکْتَننٰاطِقاً،لَآَضِجَّنَّ ِلَيْکَ بَيْنَ
تيري عزت و عظمت کي قسم اے آقاو مولا! اگر تونے ميري گويائي کو باقي رکھا تو ميں اہل جہنم کے درميان بھي
آَھْلِھٰاضَجيجَ الْآمِلينَ،وَلَآَصْرُخَنَّ ِلَيْکَ صُرٰاخَ الْمُسْتَصْرِخينَ،وَلَآَبْکِيَنَّ عَلَيْکَ بُکٰائَ الفاقدين،
اميدواروں کي طرح فرياد کروں گا۔اور فرياديوں کي طرح نالہ و شيون کروں گااور ’’عزيز گم کردہ ‘‘کي طرح تيري دوري
،وَلَاُنٰادِيَنَّکَ آَيْنَ کُنْتَ يٰاوَلَِّ الْمُوْمِنينَ،يٰاغٰايَۃَ آمٰالِ الْعٰارِفينَ،يٰا غِيٰاثَ
پر آہ وبکا کروں گا اور تو جہاں بھي ہوگا تجھے آوازدوں گا کہ تو مومنين کا سرپرست، عارفين کا مرکز اميد،فرياديوں کا فريادرس۔
الْمُسْتَغيثينَ،يٰاحَبيبَ قُلُوبِ الصّٰادِقينَ،وَيٰا ِلٰہَ الْعٰالَمينَ۔
صادقين کا محبوب اور عالمين کا معبود ہے۔
آَفَتُرٰاکَ سُبْحٰانَکَ يٰاِلٰھ وَ بِحَمْدِکَ تَسْمَعُ فيھٰاصَوْتَ عَبْدٍ مُسْلِمٍ سُجِنَ فيھٰا
اے ميرے پاکيزہ صفات ،قابل حمد وثنا پروردگار کيا يہ ممکن ہے کہ تواپنے بندہ مسلمان کو اس کي مخالفت کي بنا پر جہنم ميں
بِمُخٰالَفَتِہِ،وَذٰاقَ طَعْمَ عَذٰابِھٰا بِمَعْصِيَتِہِ ،وَحُبِسَ بَيْنَ آَطْبٰاقِھٰا بِجُرْمِہِ وَجَريرَتِہِ وَھُوَ يَضِجُّ
گرفتار اور معصيت کي بنا پر عذاب کا مزہ چکھنے والااور جرم و خطا کي بنا پر جہنم کے طبقات کے درميان کروٹيں بدلنے والا بنادے
ِلَيْکَ ضَجيجَ مُوَمِّلٍ لِرَحْمَتِکَ،وَيُنٰاديکَ بِلِسٰانِ آَھْلِ تَوْحيدِکَ،وَيَتَوَسَّلُ
اور پھر يہ ديکھے کہ وہ اميد وار ِرحمت کي طرح فرياد کناں اور اہل توحيد کي طرح پکارنے والا ،ربوبيت کے وسيلہ سے التماس
ِلَيْکَ بِرُبُوبِيَّتِکَ۔
کرنے والا ہے اور تو اس کي آواز نہيں سنتا ہے۔
يٰامَوْلاَٰ،فَکَيْفَ يَبْقٰي فِ الْعَذٰابِ وَھُوَيَرْجُوْمٰاسَلَفَ مِنْ حِلْمِکَ،آَمْ کَيْفَ تُوْلِمُہُ
خدايا تيرے حلم و تحمل سے آس لگانے والا کس طرح عذاب ميں رہے گا اور تيرے فضل وکرم سے اميديں وابستہ
النّٰارُوَھُوَيَآْمُلُ فَضْلَکَ وَرَحْمَتَکَ،آَمْ کَيْفَ يُحْرِقُہُ لَھيبُھٰاوَآَنْتَ تَسْمَعُ صَوْتَہُ وَتَرٰي
کرنے والا کسطرح جہنم کے الم ورنج کا شکار ہوگا۔جہنم کي آگ اسے کس طرح جلائے گي جب کہ تواس کي آواز کو سن رہا ہو
مَکٰانَہُ،آَمْ کَيْفَ يَشْتَمِلُ عَلَيْہِ زَفيرُھٰاوَآَنْتَ تَعْلَمُ ضَعْفَہُ،آَمْ کَيْفَ يَتَقَلْقَلُ بَيْنَ آَطْبٰاقِھٰا
ور اس کي منزل کو ديکھ رہا ہو،جہنم کے شعلے اسے کس طرح اپنے لپيٹ ميں ليں گے جب کہ تو اس کي کمزوري کو ديکھ رہا ہوگا۔
وَآَنْتَ تَعْلَمُ صِدْقَہُ،آَمْ کَيْفَ تَزْجُرُہُ زَبٰانِيَتُھٰاوَھُوَ يُنٰاديکَ يٰارَبَّہُ،آَمْ کَيْفَ يَرْجُوفَضْلَکَ
وہ جہنم کے طبقات ميں کس طرح کروٹيں بدلے گا جب کہ تو اس کي صداقت کو جانتا ہے ۔ جہنم کے فرشتے اسے کس طرحجھڑکيں گے
فعِتْقِہِ مِنْھٰافَتَتْرُکُہُ فيھٰا،ھَيْھَاتَ مَاذٰلِکَ الظَّنُّ بِکَ،وَلاَالْمَعْرُوفُ مِنْ
جبکہ وہ تجھے آواز دے رہا ہوگا اور تو اسے جہنم ميں کس طرح چھوڑ دے گا جب کہ وہ تيرے فضل و کرم کا اميدوار ہوگا ،ہر گزتيرے بارے
فَضْلِکَ،وَلامُشْبِہ? لِمٰاعٰامَلْتَ بِہِ الْمُوَحِّدينَ مِنْ بِرِّکَ وَآِحْسٰانِکَ۔
ميں يہ خيال اور تيرے احسانات کا يہ انداز نہيں ہے ۔تونے جس طرح اہل توحيد کے ساتھ نيک برتاو کيا ہے اس کي کوئي مثال نہيں ہے۔
فَبِا لْيَقينِ آَقْطَعُ لَوْلاٰمٰاحَکَمْتَ بِہِ مِنْ تَعْذيبِ جٰاحِديکَ،وَقَضَيْتَ بِہِ مِنْ ِخْلاٰدِ
ميں تويقين کے ساتھ کہتا ہوں کہ تونے اپنے منکروں کے حق ميں عذاب کا فيصلہ نہ کرديا ہوتا اور اپنے دشمنوں کوہميشہ جہنم
مُعٰانِديکَ لَجَعَلْتَ النّٰارَکُلَّھٰابَرْداًوَ سَلاٰماً،وَمٰاکٰانَ لِآَحَدٍ فيھٰامَقَرّاًوَلاٰمُقٰاماً،لٰکِنَّکَ
ميں رکھنے کا حکم نہ دے ديا ہوتا تو ساري آتش جہنم کو سرد اور سلامتي بنا ديتا اور اس ميں کسي کا ٹھکانا اور مقام نہ ہوتا۔
تَقَدَّسَتْ آَسْمٰاوُکَ آَقْسَمْتَ آَنْ تَمْلَآَھٰا مِنَ الْکٰافِرينَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنّٰاسِ آَجْمَعينَ،وَ آَنْ
ليکن تونے اپنے پاکيزہ اسمائ کي قسم کھائي ہے کہ جہنم کو انسان و جنات کے کافروں سے پُر کرے گا اور معاندين کو اس ميں
تُخَلِّدَ فيھٰاالْمُعٰانِدينَ،وَآَنْتَ جَلَّ ثَنٰاوُکَ قُلْتَ مُبْتَدِئاً،وَتَطَوَّلْتَ بِالِْنْعٰامِ مُتَکَرِّماً،آَفَمَنْ
ہميشہ ہميشہ رکھے گا۔اور تونے ابتداہي سے يہ کہہ ديا ہے اور اپنے لطف و کرم سے يہ اعلان کر ديا ہے کہ ’’مومن
کٰانَ مُوْمِناًکَمَنْ کٰانَ فٰاسِقاً لاٰيَسْتَوُوْنَ۔
اور فاسق برابر نہيں ہوسکتے‘‘۔