شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علي عليہ السلام
 

حکومتِ اميرالمومنين عليہ السلام کي دوسري خصوصيت:
آپ کي زندگي کا ايک دوسرا پہلو زہد و پارسائي ہے جس کے لئے خود ايک مفصل گفتگو کي ضرورت ہے، واقعاً اميرالمومنين عليہ السلام کا زہد عجيب و غريب ہے البتہ ميں نہيں بلکہ خود اميرالمومنين عليہ السلام فرماتے ہيں کہ ہم جيسے معمولي لوگوں سے اس قسم کے زہد و پارسائي کي توقع نہيں کي جاسکتي ، خود آنجناب تک نے يہ بات فرمائي ہے۔
اپنے(عہدہ صدارت) سے چند سال قبل ميں نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے عرض کيا تھا کہ ہم لوگوں سے اس زہد کا مطالبہ نہيں کيا گيا ہے کيونکہ ہم اس پر قدرت بھي نہيں رکھتے اس کے بعد ايک شخص نے مجھے خط لکھا کہ چونکہ آپ يہ صفت نہيں اپنانا چاہتے ہيں اس لئے کہتے ہيں کہ ہم لوگوں سے اس ( زہد علوي )کا تقاضا نہيں کيا گيا ہے! نہيں حقيقت ميں موضوع يہ نہيں کہ ميں چاہوں يا ميں کہوں بلکہ ہم جيسے لوگ اس سے کہيں حقير و کوچک ہيں کہ ان بلند مرتبہ صفات و محاسن علوي کو اپناسکيں ۔انسان تو بہت ضعيف و ناتواں ہے خود اميرالمومنين عليہ السلام نے بھي کبھي اپنے اھل وعيال پر اسے نہيں تھوپا، تنہا علي عليہ السلام تھے جو اس صفت کے حامل تھے حتيٰ خود امام حسن عليہ السلام و امام حسين عليہ السلام اپنے والد بزرگوار کي اس صفت ميں ان کے مانند نہيں تھے اور نہ ہي آپ کي ازواج ميں کسي کو يہ رتبہ حاصل ہو سکا،تاريخ ميں کہيں نہيں ملتا کہ آپ اپنے گھر ميں اس طرح سے زندگي گذارتے تھے يہ تو بس اميرالمومنين عليہ السلام کي زندگي کا خاصہ تھا۔اس طرح کہ حضرت کي غذا ايک تھيلي ميں مھر زدہ ہوتي تھي اور اسے آپ دسترخوان پر لا کر رکھتے اس ميں سے کچھ تناول فرماتے پھر اسي طرح سيل کر کے کسي محفوظ جگہ پر رکھ ديتے تھے گھر کے اندر آپ کي ايک عام زندگي تھي، آپ کي شخصيت حقيقتاً عام انسانوں کي سطح سے بلند و بالا ہے، کس کے اندر اتني قوت ہے جو آپ کي طرح زندگي گزار سکے؟ آپ کي زندگي ميں عجيب و غريب درس پوشيدہ ہے اور يہ اس لئے ہے تا کہ ہم لوگ زندگي گزارنے کے ليے صحيح سمت کو اپنے ليے معين کر سکيں ۔
ميں نے خود مرحوم علامہ طباطبائي ۲ سے سنا ہے ۔مجھے نہيں معلوم کہ آپ نے اسے کہيں لکھا بھي ہے يا نہيں ۔ آپ فرماتے ہيں امام جب کسي کو اپني طرف بلا رہے ہوتے ہيں تو اس کا مطلب ہے کہ جيسے کوئي پہاڑ کي چوٹي پرکھڑا ہو کر پہاڑي کے دامن ميں موجود لوگوں کو اپني طرف بلارہا ہو اور اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ وہ لوگ پہاڑي کي چوٹي پر چڑھ سکتے ہیں بلکہ بلانے والے کا مقصد يہ ہے کہ راستہ ادھر سے ہے، کوئي نشيب اور درے ميں نہ گر جائے ۔يعني اگر کوئي چلنا چاہتا ہے تو وہ ٹھيک راستے پر چلے، راستہ يہ ہے۔

زھد کي طرف قدم بڑھائیے:
برادران ايماني ! اميرالمومنين عليہ السلام کا فرمان ہے کہ کاروان سفر کو زہد کي طرف چلنا چاہيے۔اگر آج اسلامي جمہوريہ ايران ميں کہيں ہم يہ احساس کريں کہ زندگي کا رخ اشرافيت کي طرف ہے تو زندگي ميں يہ ايک انحراف ہے ، پھر اس سے راہ فرار نہيں ہے لہذا ہميں زہد اپنانا چاہيے ميرا مطلب يہ نہيں کي عالي ترين مرتبہ زہد کو ہم حاصل کر ليں جو اوليائ الہيٰ کا خاصہ رہا ہے، نہيں ميں يہ نہيں کہنا چاہتا، درجہ اول کے حکومتي عھدہ داران ،درجہ دو ٢ کے صاحبان منصب اور اس کے بعد والے سارے ذمہ داران و عہدہ داران مملکت اپني حدوتوانائي کے لحاظ سے زہد و پارسائي اختيار کریں يہاں تک کہ عوام الناس بھي اشرافيت کي طرف نہ جائيں وہ بھي پارسائي اختيار کريں۔ ايسا نہيں ہے کہ صرف ذمہ داران مملکت کو ہي زاہد و پارسا ہونا چاہيے ۔
ميں نہيں کہتا کہ حرام ہے مگر يہ حق مھر کي لمبي لمبي رقوم جو لڑکيوں کے عقد نکاح ميں قرار دي جا رہي ہيں، سراسر غلط اور ايک اسلامي معاشرے کے ليے بري ہيں کيونکہ انساني اقدار کو سونے چاندي اور سکوں کے زير سايہ لے آتي ہيں اس طرح انساني قدريں پامال ہو کر رہ جاتي ہيں۔جس کي ايک اسلامي معاشرے ميں کوئي حيثيت نہيں ہے۔
بعض لوگوں کا خيال ہے پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اسے حلال کيا ہے آپ اسے حرام قرار دے رہے ہيں تو آپ کي خدمت ميں عرض ہے کہ ہم بھي اسے حرام قرار نہيں دیتے ذرا ملاحظہ تو کيجيے ! کہ خودپيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے بھي اس حلال کو انجام نہيں ديا ہے، دوسري جانب پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اسے محدود بھي نہيں کر نا چاہا اور اسے محدود بھي نہيں قرار ديا اگر آپ کا جي چاہتا ہے تو جائيے ساري کمائي جہيز اور مہر پر خرچ کر ديجئے مگر بحث تو اس جگہ ہے کہ اخر يہ عمل عاقلانہ بھي ہے يا نہيں آپ کا يہ عمل اسلامي قوانين کے مطابق بھي ہے يا نہيں؟
آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اپني صاحبزادي فاطمہ زھرا عليہ السلام کو؛اميرالمومنين عليہ السلام نے اپني دو ٢ بيٹيوں کو اسي طرح خاندان پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اپني صاحبزاديوں کو ٢٥ اوقيہ يعني چاندي کي ايک مقدار جو اس زمانے ميں رائج تھي، پر ان کے شوہروں کے گھر رخصت کيا ہے، کہ دو ، تين سال قبل ميں نے آج کے لحاظ سے اس کا حساب کيا تھا تو يہ مقدار تقريباً ١٢ ہزار تومان(ايک ہزار روپے) کے معادل تھي ۔
اس طرح ذاتي زندگي ميں اشرافيت کا رواج ظواہرپرستي اور نمائش ايک غلط چیز ہے کبھي کبھي ممکن ہے لازم ہو کہ ايک عمومي جگہ کو اچھي طرح سجايا جائے ايک ميدان کو بہترين انداز سے خوبصورت رنگ و روپ ديا جائے تو ضرورت کے تحت يہ بات بري نہيں ہے مگر موضوع بحث ہماري اور آپ کي زندگي ہے اس ميں يہ چيز غلط ہے۔

حکمرانوں کو زہد کا سبق:
يہ اميرالمومنين عليہ السلام کي زندگي ہے کہ جس کي آپ لوگوں کو تعليم بھي ديتے تھے ايک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آپ کسي کوحاکم بنا کر کہيں بھيجنا چاہتے تھے تو اس سے خطاب کر کے فرمايا: کل نماز ظہر کے بعد تم ميرے پاس آو تم سے کچھ کہنا ہے، يہ آج بھي رائج ہے کہ اگرکسي کو حاکم بنا کر کہيں بھيجنا ہوتا ہے تو اسے بلا کر جو کچھ ضروري نصيحت وغيرہ کرنا ہوتي ہے اس سے وہ نصيحت کرتے ہيں۔ اس شخص کا بيان ہے کہ ميں دوسرے دن اسي چبوترے پر جسے اميرالمومنين عليہ السلام نے کوفے ميں قضاوت وغيرہ کے لئے انتخاب کيا تھا پہنچا،تو ميں نے ديکھا کہ حضرت کے سامنے ايک خالي پيالہ اور ايک کوزہ آب رکھا ہوا ہے تھوڑا وقت جب گذرا آپ نے اپنے خادم کو بلايا اور اس سے کہا کہ جا کر آپ کا تھيلا اٹھا لائے،ميں نے ديکھا تھوڑي دير بعد وہ ايک سيل بندتھيلي ہاتھ ميں حضرت کے پاس لے کر آيا، سوچا چونکہ حضرت نے مجھے امانت دار سمجھا ہے اس ليے وہ مجھے کوئي گرانقدر قيمت گوہر دکھاناچاہتے ہيںيا يہ کہ کوئي امانت ميرے حوالے کريں گے يا اس کے بارے ميں کوئي حکم فرمائيں گے۔وہ کہتا ہے حضرت نے اس کي سیل توڑي اور اس تھيلي کو اپنے سامنے رکھا ميں نے ديکھاا س میں کچھ مقدار ميں ’’ ستو‘‘ ہیں، آپ نے اپنے ہاتھ سے اس ستو کو پاني ميں ڈالا اور اسے تيار کيا اور دوپہر کا کھانا اسي سے تناول فرمايا مجھ سے بھي کھانے کے ليے کہا وہ کہتا ہے مجھے حيرت ہوئي عرض کي يا اميرالمومنين عليہ السلام ! آپ آخر اتني بڑي حکومت رکھتے ہوئے ايسا کيوں کرتے ہيں؟ گندم و جو اور دنيا کي نعمتيں آپ کي سلطنت عراق ميں کم نہيں ہیں پھر آپ ايسا کرتے ہيں؟ کيوں آپ نے اس تھيلي کو اس طرح سيل بند کيا تھا؟ ! حضرت عليہ السلام نے فرمايا ’’واللہ ما اختم عليہ بخلابہ‘‘(١) قسم بخدا ميں نے اس تھيلي کو بخل کي وجہ سے سيل بند نہيں کيا ہے تا کہ کوئي اس سے نہ کھا سکے’’ولکنّي اتباع قدئ مايکفيني‘‘(٢) فقط ميں اپني ضرورت پر اس سے استفادہ کرتا ہوں،’’لافاخاف ان نيقص فيوضع فيہ من غيرہ‘‘(٣) مجھے اس بات کا خوف تھا کہ کہيں کوئي اس ميں ميرے خريدے ہوئے ستو کے علاوہ کچھ ملا نہ دے ’’ و انااکرہ ان ادخل بطني الّا طيبا‘‘(٤) اور مجھے يہ بات پسند نہيں کہ طيب و طاھر غذا کے علاوہ کوئي اور شي ميرے شکم ميں داخل ہو۔ ميں پاک و پاکيزہ غذا کھانا چاہتا ہوں ، جسے خود اپنے زورِ بازو سے اوراپني کمائي سے حاصل کيا ہے کہ جس ميں کسي اور کا پيسہ نہ لگا ہو۔
حضرت عليہ السلام اپنے اس عمل سے اس ہونے والے حاکم کو سبق سکھاناچاہتے ہيں ۔ ذرا غور تو کيجئے آپ اس سے يہي بات مسجد ميں بھي کہہ سکتے تھے مگرنہيں، آپ نے ايسا نہيں کيا بلکہ اسے خود وہاں تک کھينچ لائے تاکہ يہ منظر بچشم خود ديکھ لے تاکہ اسے سمجھائيں کہ ديکھو تم کہيں کے حاکم بن کر جا رہے ہو کچھ لوگ تمہارے زير قدرت ہوں گے ان کے اموال ان کي جان ناموس کي حفاظت تمہاري ذمہ داري ہے کہيں تم اپنے آپ کو مطلق العنان حاکم نہ سمجھ بيٹھنا، توجہ رکھو، اس کے بعد فرمايا: ’’فايّان و تناول ما لم تعلم حلّۃ‘‘ (٥) مبادا جس چيز کے حلال ہونے کا تم کو علم نہيں ہے اسے کھانے لگو يا اُسے لے لواس لئے کہ تناول تنہا کھانے پينے ہي کو نہيں کہتے ، اس ليے جب تک تمہيں کسي چيز کے حلال ہونے کا پورا يقين نہ ہو جائے اسے قطعاً اپنے اختيار ميں نہ لو اور اسے ہرگز استعمال نہ کرو۔يہ ہے اميرالمومنين عليہ السلام کي زندگي کي کيفيت اور يہ ہے ان کا زہد اور ان کے زہد سے درس عمل ، ايک شخص کا بيان ہے کہ ميں نے (کسي جنگ يا کسي سفر ميں ) ديکھا حضرت استراحت کر رہے ہيں اور ايک نازک سي چادر ان کے جسم کے اوپر ہے جبکہ ٹھنڈک کي وجہ سے ان کا جسم کانپ رہا ہے، ميں نے کہا يا اميرالمومنين عليہ السلام آپ کيوں کانپ رہے ہيں؟ ہوا سرد ہے جسم پر کچھ اور ڈال ليجئے ۔ فرمايا ميں تمہارے اموال سے کچھ لينا پسند نہيں کرتا يہي چادر جو مدينہ سے لے کر آيا ہوں ميرے ليے کافي ہے!! يہ ہيں اميرالمومنين عليہ السلام کي حيات کے کچھ جھروکے ، وہ گويا پہاڑ کي چوٹي پر ہيں اور ہم جيسے لوگ بالکل نشيب ميں کھڑے ہيں لہذا اسي سمت ميں چليں جہاں وہ ہميں بلا رہے ہيں،يہ ہے اميرالمومنين عليہ السلام کي زندگي سے سبق کا مطلب المختصر جس قدر بھي ہم آپ کے مختلف پہلوؤں پر روشني ڈاليں،ہمارے ليے وہ سب کچھ سبق آموز ہے۔(٥)

غدير يعني اثبات فضائل و کمالات وحکومت و ولايت حضرت علي عليہ السلام :
احاديث متواترہ کے مطابق غدير کے دن نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے ذريعے جو عظيم مظاہرہ ہوا اُس کے مختلف پہلو تھے، ہر چند اميرالمومنين عليہ السلام کي فضيلت و بزرگي اس کا ايک پہلو ہے لوگ بھي آپ کے ان فضائل و کمالات کو جانتے تھے اور نزديک سے آپ کے وجود ميں اس کا مشاہدہ کرتے رہے تھے پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور در حقيقت مشيت الہيٰ بھي انھيں کمالات کو معتبر سمجھ رہي تھي لہذا انھيں اقدار کي بنياد پر نبي گرامي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے بعد ولايت و حکومت کي داغ بيل ڈالي گئي اور لوگوں کو يہ پتہ چل گيا کہ نبي کے بعد کي قيادت اور اسلامي حکومت بھي وہي اپنے ہاتھوں ميں لے سکتا ہے کہ جس کے اندر يہ سارے اقدار موجود ہوں اس ليے اس دن پيغمبر کو علي عليہ السلام کے فضائل بيان کرنے کي ضرورت نہيں تھي لوگ پہلے سے آپ کے فضائل و کمالات سے باخبر تھے ’’ابن ابي الحديد‘‘ کہتے ہيں:لوگوں کے ليے علي عليہ السلام کے فضائل اس قدر واضح تھے کہ مہاجرين و انصار ميں سے کسي کو اس بات ميں کوئي شک و شبہ ہي نہيں تھا کہ علي عليہ السلام ہي پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کیجانشين ہوں گے يعني لوگوں کے ليے خلافت و نيابت علي عليہ السلام ايک مسلّمہ حقيقت تھي، اور دوسري جگہوں پر خود رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے بھي اميرالمومنين عليہ السلام کے بارے ميں بہت کچھ ارشاد فرمايا تھا اس سلسلے ميں جوروايات ہم شيعوں کے اور اھل سنت کے توسط سے وارد ہوئيں ہيں وہ سب متواتر ہيں۔آپ کے فضائل شيعہ و سنّي دونوں نے تواتر سے نقل کئے ہیں اور يہ بات تنہا شيعوں سے مخصوص نہيںہے، يہاںتک کہ قديم مورخين ميں سے ايک مشہور مورخ ابن اسحاق (مشہور و معروف کتابِ سیرۃ کے مصنّف)نقل کرتے ہيں کہ ؛ايک دن پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اميرالمومنين عليہ السلام سے خطاب کر کے فرمايا: اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ لوگ تمہارے بارے ميں وہي کچھ کہيں جو عيسيٰ ابن مريم عليہ السلام کے ماننے والے ان کے بارے ميں کہہ رہے تھے تو تمہارے بارے ايسي باتيں ميں بيان کرتا کہ تم جہاں جہاں سے گذرتے لوگ تمہارے قدم کي خاک کو تبرک سمجھ کر اٹھاتے ميں نے تو نہيں ديکھا ہے البتہ ممکن ہے يہ روايت شيعوں سے بھي نقل ہوئي ہو اور کس قدر توجہ کے قابل ہے کہ خود ’’ابن ابي الحديد‘‘ ’’ابن اسحاق‘‘ سے يہ بات نقل کرتے ہيں يعني آج وہ لوگ جو پيغمبر اکرمصلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے ہاتھوںاميرالمومنين عليہ السلام کے بحیثیت خليفہ منصوب ہونے کے بھي قائل نہيں ہيں وہ لوگ آپ کے يہ فضائل نقل کر رہے ہيں۔
يہ خود غدير کي ايک ناقابل انکار حقيقت ہے يعني ان فضائل و کمالات کا اثبات اور يہ کہ يہي فضائل و کمالات ايک اسلامي معاشرے ميں حکومت کے ليے اقدار کي حيثيت رکھتے ہيں۔خود غدير کا يہ پہلو بہت اہميت کا حامل ہے اس ليے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ميں ازنظر وحي پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کيحکومت ايک ايسي حقيقت ہے جو اقدار کي تابعدار ہے کسي دوسري چيز کي تابع نہيں ہے جو اپني جگہ پر خود ايک اسلامي قانون اور (اصل) کي حيثيت رکھتا ہے۔

غدير کا دوسرا پہلو:
حديث غدير اور واقعہ غدير کا ايک دوسرا پہلو خود ولايت کا مسئلہ ہے يعني (نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي جانب سے) ’’من کنت مولاہ فھذا علي مولاہ‘‘(6) کے اعلان کے ذريعے حکومت کي ايک دوسري تعبير ہے کہ جب پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم حق حاکميت کو ايک فرد معين سے مخصوص کرتے ہيں تو اس کے ليے مولا کا لفظ استعمال کرتے ہيں اور اس ولايت کو اپني ولايت کے مساوي قرار ديتے ہيں اور خود يہي مفہوم جو ولايت کے اندر پايا جاتا ہے اپني جگہ نہايت اہميت رکھتا ہے يعني اسلام، ولايت کے اس مفہوم سے ہٹ کر( جو کہ ايک جمہوري مفہوم کے ساتھ تمام انسانوں کے حقوق کي رعايت کا ذمہ دار ہے)لوگوں کے ليے کسي اور حکومت کا قائل نہيںہے۔جو لوگوں کا حاکم اور ولي ہے ، وہ بحیثیت سلطان ايک مطلق العنان صاحب قدرت و حکومت کے عنوان سے نہيں پيش ہو ا ہے کہ وہ حاکم ہونے کي حيثيت سے جو چاہے کرے بلکہ اس کو اس حيثيت سے پيش کيا گيا ہے کہ وہ مسلمانوں کا سرپرست اور ولي امر مسلمين ہے اور اس کو يہ حق اس لحاظ سے ديا گيا ہے ، لہذا اسلام ميں حکومت ايک ايسي چيز ہے جس کا بادشاہت اور سلطنت سے ہر گز کوئي تعلق اور واسطہ نہيں ہے‘‘

جمہوري ترين حکومت:
اگر ولايت کا يہ مفہوم اور سرپرست اور والي اسلام کے ليے اسلام نے جو فرائض منصب کي شرائط رکھي ہيں اسے شگافتہ کريں۔تو اس باب ميں معصومين کے ارشادات وفرمود ات ميں بہت سے سبق ہيں اور اميرالمومنين عليہ السلام کے اس خط ميں جسے آپ نے مالک اشتر کے نام لکھا تھا بہت سي نصيحتيں اور اہم مضامين پائے جاتے ہيں ۔ اور ان سب کے مطالعے کے بعد ہميں يہ اندازہ ہوگا کہ جمہوري ترين حکومت اسي کو کہتے ہيں کہ جسے ہم آئمہ ہديٰ عليہم السلام اور اميرالمومنين عليہ السلام کے ارشادات و فرمودات اور ان کي سيرت ميں ديکھ رہے ہيں انساني تمدن و ثقافت ميں يعني طول تاريخ ميں سارے آزادي طلب انسانوں کي فرھنگ و ثقافت ميں کوئي ايسي چيز جو حکومت ميں بري سمجھي جاتي ہو۔ ولایت کے اس مفہوم ميں کہيں بھي نہیں پائي جاتي ۔
ولايت اسلامي، استبداد، خودسري، لوگوں کو نقصان پہنچانے کے ليے اقدام کرنا يا اپني من ماني کرنا وغيرہ وغيرہ جيسے معني سے کوسوں دور ہے البتہ ميرے کہنے کا مطلب يہ نہيںہے کہ کوئي شخص ولايت اسلامي کے نام سے ايسا کچھ نہيں کر سکتا ، ہر گز نہيں بلکہ منظور يہ ہے کہ جو اس راستے پر چلے گا اور اسلامي تعليم و تربيت کو حاصل کرے گا وہ ايسا نہيں کر سکتا وگرنہ نہ جانے کتنے ايسے لوگ ہيں جو اچھے اچھے ناموں کا ليبل لگا کر دنيا کے ہر برے کام کا ارتکاب کرتے رہے ہيں، البتہ اس سے بھي انکار نہيں کيا جا سکتا کہ ممکن ہے کوئي مغرب زدہ، اسلام سے بيگانہ شخص اسلام کي طرف کچھ ايسي نسبتيں دينے سے تکلف نہ کرے کہ جس کا اسلام سے کوئي بھي تعلق نہ ہو اور يہ فقط اس ليے کہ اس نے صحيح طور پر ولايت کا مفہوم نہ جانا ہے اور نہ اسے صحيح طور پر سمجھ سکا ہے۔
..............
١،٢،٣،٤،٥۔بحارالانوار ج ٤٠ ،ص ٣٣٥ ٥۔حديث ولايت ۔ج،٧، ص ٥٥
6۔بحارالانوار۔ج ٣٥،ص ٢٨٢