شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علي عليہ السلام
 

خوارج کون تھے؟
ميں خوارج کے سلسلہ سے بہت زيادہ حساس ہوں،ماضي ميں ان کے بارے ميں کافي مطالعہ بھي کيا ہے انھيں خشک مقدس سے تعبير کيا جاتا ہے۔ليکن تعبير غلط ہے خوارج اس قسم کے لوگ نہيں ہیں اس لئے کہ جو خشک و مقدس مآب ہو گا وہ گوشہ نشيني کي زندگي بسر کرے گا اسے کسي سے کيا لينا دينا، کہاں يہ اور کہاں خوارج؟ خوارج تو فسادي تھے، قتل و غارت کرتے تھے، شکم پارہ پارہ کرتے تھے اور چوري چکاري بھي ان کا ايک معمول کاکام تھا، آخر ان کے بارے ميں يہ کيسے مشہور کر ديا ہے کہ خشک مقدس مآب تھے۔اگر وہ گوشہ نشين بھي ہوتے تو پھر اميرالمومنين عليہ السلام کو ان سے کيا مطلب ہوتا وہ تو انھيں ہاتھ بھي نہ لگاتے؟خوارج سے جنگ کے دوران ميں عبداللہ بن مسعود کے ساتھيوں نے اميرالمومنين عليہ السلام سے کہا ’’لا لک ولا عليک‘‘ نہ تو اس جنگ ميں آپکے ساتھ ہيں نہ آپکے خلاف،اب خدا جانے کہ خود عبداللہ بن مسعود بھي انہيں کہنے والوں ميں سے ہيں يا نہيں مجھے کچھ ايسا ہي لگتا ہے کہ وہ خود بھي اس قول ميں شريک تھے اور اميرالمومنين عليہ السلام سے کہا اگر آپ کفار و اھل روم وغيرہ سے جنگ کرنے جائيں تو ہم بھي آپ کے ساتھ ساتھ ہيں ليکن اگر آپ مسلمانوں ’’اھل بصرہ و اھل شام‘‘ سے لڑنے کے ليے جائيں گے تو پھر نہ ہم آپ کے ساتھ لڑيںگے نہ آپ کے خلاف جنگ کريں گے۔اب ذرا بتائيں اميرالمومنين عليہ السلام ان لوگوں کے ساتھ کيا سلوک انجام ديں؟
کيا اميرالمومنين عليہ السلام نے ان کو موت کے گھاٹ اتار ديا؟ ھر گزنہیں، حتيٰ آپ ان کے ساتھ بد اخلاقي سے بھي پيش نہيں آئے۔ خود ان لوگوں نے آپ کے سامنے پيشکش کي کہ ہميں سرحدوں کي پاسباني کے ليے بھيج ديں،اميرالمومنين عليہ السلام نے قبول کر ليا اور ان کو سرحدوں کي نگہباني پر لگا ديا، بعض کو خراسان کي طرف بھيج ديا يہي ربيع بن خثيم ،جو مشہد ميں خواجہ ربيع سے شہرت رکھتے ہيں ،جيسا کہ نقل کرتے ہيں انھيں افراد ميں سے ايک ہيں ۔اميرالمومنين عليہ السلام نے ان مقدس مآب لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ ديا ۔ يہ دراصل جھل مرکب کا شکار تھے يعني ايک غلط ديد کي بنائ پر دائرہ دين کو نہايت تنگ سمجھتے تھے اور پھر اس تنگ نظري کے ساتھ عمل بھي کرتے تھے اس راہ ميں چوري بھي کرتے تھے قتل و غارت سے بھي انھيں دریغ نہيں تھا اور جنگ و جدال بھي کرتے تھے: البتہ جو ان کے سردار اور رئيس تھے وہ اپنے آپ کو پيچھے رکھتے تھے، اشعث بن قيس اور محمد بن اشعث جيسے لوگ ہميشہ مورچے کے پيچھے پيچھے دکھائي ديتے تھے اور ان کے آگے آگے کچھ جاھل نادان ، ظاھر بين تھے جن کے ذہن غلط باتوں سے پرُ ہيں اور ان کے ہاتھ ميں تلوار بھي تھي انھيں آگے آگے بڑھا ديا گیااور يہ لوگ آگے بڑھ بھي گئے وہ تلوار چلاتے تھے ، قتل کرتے تھے مارے بھي جاتے تھے ابن ملجم کے بارے ميں کوئي خيال نہ کرے کہ يہ کوئي عقلمند آدمي تھا بلکہ يہ ايک احمق آدمي تھا جس کا ذہن اميرالمومنين عليہ السلام کے خلاف بھر ديا گيا تھا وہ کافر ہو گيا تھا اسے علي عليہ السلام کے قتل کے ليے کوفہ بھيجا گيا، اتفاقاً اس ماموريت کے ساتھ ايک عشقيہ حادثہ بھي پيش آگيا اور وہ اپنے اس ناپاک ارادے ميں اور مصمّم ہو گيا يہاں تک کہ وہ خيانت انجام دي ۔ تو خوارج اس قسم کے لوگ تھے جو بعد ميں بھي اسي طرح سے رہے۔

خوارج کے ايک فرد سے حجاج بن يوسف کا مناظرہ:
آپ جانتے ہيں کہ حجاج بن يوسف ايک نہايت سفاک، اور قسي القلب خونخوار حاکم تھا جس کے ظلم اور بربريت کي مثال نہيں ملتي شايد صدام حاکم عراق(جو اب معزول کر ديا گيا ہے) کي طرح تھا اتفاقاً وہ بھي عراق پر حکومت کر رہا تھا ! البتہ صدام کي ظالمانہ روش ترقي يافتہ ہے! اس کے پاس قتل و شکنجے کے جدید اسباب وسائل ہيں اور اس کے پاس نيزہ ، شمشير تيغ و تير جيسي چيزيں نہيں ،حجاج بن يوسف کے اندر کچھ خصوصيتيں بھي تھيں مثلاً اس کا شمارفصحائ و بلغائ ميں ہوتا تھا کہ الحمداللہ موجودہ حکّام ان کمالات سے بھي عاري ہيں!۔
اُس نے منبر سے جو خطبے پڑھے ہيں جاحظ نے ’’البيان والتبين‘‘ ميں اسے نقل کيا ہے، وہ حافظ قرآن تھا مگر ايک خبيث النفس انسان بھي تھا عدل و انصاف اور پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور اھل بيت عليھم السلام کا دشمن بھي تھا ايک عجيب آدمي! انھي خوارج ميں سے کسي ايک کو حجاج کے پاس ليکر آئے حجاج اس کے بارے ميں پہلے سے جانتا تھا کہ وہ حافظ قرآن ہے لہذا اس سے سوال کيا:’’آجمعت القرآن‘‘ قرآن کو جمع کر رکھا ہے؟ اس کي مراد تھي کہ کيا قرآن کو اپنے ذھن ميں يونہي جمع کر رکھا ہے، اگر آپ اس کے تيز و تند جوابات پر توجہ کريں تو آپ لوگوں کو اس کي طبيعت اور مزاج کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ اس نے جواب ديا؛ ’’آصفرقاً کان فاجمعہ‘‘مگر قرآن پھیلاتھاکہ ميں اسے جمع کرتا؟ جب کہ وہ (خارجي) اس کے مقصد سے واقف تھا مگر اسے جواب نہيں دينا چاہتا تھا۔
حجاج اپني تمام شدّت و قساوت کے باوجود اسے برداشت کر رہا تھا اور پھر کہا’’ آفتحفظہ‘‘ کيا قرآن حفظ کرتے ہو؟ اس نے جواب ديا ’’آخثيتُ فرارہ کا حفظہ‘‘ کيا اس بات کا خوف تھا کہ وہ کہيں فرار نہ کر جائے جو اسے محفوظ کر ليتا؟ ايک اورجواب اسنے سنا! اسنے پوچھا’’ما تقول في اميرالمومنين عبدالمالک‘‘ عبدالمالک بن مروان کے بارے ميں تمہارا کيا خيال ہے عبدالمالک بن مروان خبيث جو اموي خليفہ تھا، اس خارجي نے کہا ’’لعنہ اللہ ولعنک معہ‘‘ خدا اس کے ساتھ تم پر بھي لعنت کرے! ذرا ديکھيں يہ وہ لوگ تھے جو بغير کسي تکلف، بالکل صراحت کے ساتھ،شدت پسندي سے گفتگو کرتے تھے، حجاج غصہ دباکرکہتا ہے تو مارا جاے گا لہذا يہ بتاو کہ تم خدا سے کس حالت ميں ملاقات کرو گے؟اس نے جواب ديا’’ القيٰ اللہ بعملي و تلقاہ انت بدمن‘‘ ميں خدا سے اپنے اعمال کے ساتھ ملوںگا اور تو ميرے خون کے ساتھ خدا سے ملاقات کرے گا ! آپ ذرا ملاحظہ تو کريں ، اس جيسے افراد کا مقابلہ کوئي آسان کام نہيں ہے اگر ايک عام آدمي انھيں ديکھے گا تو ان کا گرويدہ ہو جائيگا، ايک بے بصيرت اگر ان کے اعمال و افعال کو ديکھے تو پھر انھي کا ہو جائے گا، جيسا کہ خود حضرت اميرالمومنين عليہ السلام کے زمانے ميں بھي ايسے اتفاقات ہوئے۔

جنگ نہروان:
ايک روايت کے مطابق، جنگ نہروان کے زمانے ميں ايک دن اميرالمومنين عليہ السلام اپنے ايک صحابي کے ساتھ چہل قدمي کر رہے تھے، وہيں کہيں نہروان کے قريب، نيمہ شب ميں تلاوت قرآن کي آواز سنائي دي، کوئي ايک درد ناک، آواز ميں خوبصورت انداز سے قرآن پڑھ رہا تھا، جوصحابي اميرالمومنين عليہ السلام کے ساتھ تھا کہنے لگا کاش ميں اس کے بدن کا ايک بال ہوتا، کيونکہ سوائے بہشت کے اس شخص کا کوئي ٹھکانا ہو ہي نہيں سکتا، حضرت نے تقريباً اس جيسا جملہ ارشاد فرمايا تھوڑا صبر کرو اس قدر جلدي فيصلہ نہ کرو،اور يہ واقعہ گزر گيا یہاں تک کہ نہروان کي جنگ چھڑ گئي۔اس جنگ ميں يہي، شدت پسند، بد زبان ،متعصب غصہ ور خارجي، ہاتھ ميں تلوار ليے مسلح ہو کر اميرالمومنين عليہ السلام کے مقابلے ميں آگيا،حضرت عليہ السلام نے فرمايا جو ميدان سے چلا جائے يا اس علم کے نيچے پناہ لے لے گا ميں اس سے جنگ نہيں کروںگا اور آپ کے اس اعلان پر کچھ آئے بھي ليکن تقريباً چار ہزار ٤٠٠٠ لوگ رہ گئے پھر آپ عليہ السلام نے اس جنگ ميں ان تمام لوگوں کو تہہ تيغ کر ديا اور لشکرکے دس ١٠ لوگ ہي زندہ بچے بقيہ سب کے سب قتل ہو گئے، اس جنگ ميں اميرالمومنين عليہ السلام فاتح قرار پائے جب کہ اس ميں بہت سے مقتولين اہل کوفہ تھے يا کوفہ کے قرب وجوار کے رہنے والے تھے۔ وہي لوگ جو صفين و جمل ميں حضرت کے ساتھ ہم رزم رہ چکے تھے اور اس کے بعد ان کے ذہن بھٹک گئے تھے زمين پر ان کے لاشے يونہي بکھرے ہوئے تھے اور حضرت ايک خاص کيفيت کے ساتھ ان کے درميان ميں قدم زني فرما رہے تھے ، اس کے باوجودکہ وہ سب مر چکے تھے مگر حضرت ان سے،حکمت کي ايک تہہ اپنے اندر سموئے ہوئے گفتگو فرمارہے تھے اس کے بعد ايک مقتول کے قريب پہنچے اور فرمايا اسے ذرا پلٹو: آپ نے اسپر ايک نگاہ ڈالي اور اس صحابي سے کہ جو ايک شب ان کے ساتھ چہل قدمي کر رہا تھا خطاب کر کے فرمايا! کيا تم اس مقتول کو پہچانتے ہو؟ اسنے کہا نہيں يا اميرالمومنين عليہ السلام !فرمايا! يہ وہي شخص ہے اس رات کو اسطرح دردناک انداز ميں تلاوت قرآن کر رہا تھا اور تم تمنّا کر رہے تھے کہ کاش تم اس کے جسم کا ايک بال ہوتے ! وہ اس طرح سوزو گداز سے تلاوت قرآن کر رہاتھا مگر قرآن مجسم( علي عليہ السلام ) سے لڑنے کیلئے آيا تھا علي ابن ابي طالب عليہ السلام نے ايسے لوگوں سے جنگ کي اور انہيں قلع قمع کيا،البتہ خوارج مکمل طور پر قلع قمع نہيں ہوئے ۔اور ہميشہ ايک محکوم اقليت کي حيثيت سے باقي رہے۔وہ معاشرہ پر تو مسلط نہيں ہو سکے مگر ان کا مقصد اس سے کہيں زيادہ وسيع اور آگے کا تھا جو پورا نہيں ہو سکا۔

استقامت کے ليے بصيرت لازمي ہے:
ميںہميشہ سے تکرار کرتا رہا ہوں کہ اگر کوئي قوم حالات کا تجزئيہ و تحليل کرنے کي صلاحيت کھو بيٹھے تو وہ شکست کھا جائيگي، اصحاب امام حسن عليہ السلام تجزئیے کي صلاحيت سے محروم تھے وہ يہ نہيں سمجھ سکے تھے کہ ماجرا کيا ہے اور ان کے ساتھ کيا چال چلي جا رہي ہے، (اسي طرح) اصحاب اميرالمومنين عليہ السلام بھي حالات کو نہيں سمجھتے تھے کہ جنہوں نے آپ کو خون دل پينے پر مجبور کيا ،وہ سب کے سب آپ کے دشمن نہيں تھے، ليکن اس ميں سے بہت سے ايسے تھے جيسے خوارج، جو پوري طرح واقعات کو سمجھنے سے قاصر تھے ان کے اندر تجزيہ و تحليل کي قوت مفقودتھي ايک بد جنس ايک ناکارہ شخص ادھر ادھر نکل آتا تھا اور لوگوں کو ايک طرف کھيچ ليتا تھا، سنگ ميل کو کھو بيٹھتے تھے اور راستے سے بھٹک جاتے تھے، راستہ چلتے وقت ہميشہ سنگ ميل پر نظر رکھني چاہيے اگر سنگ ميل نظروں سے اوجھل ہو گيا تو ياد رکھيئے بہت جلد راستے سے بھي بھٹک جائيں گے۔
اميرالمومنين عليہ السلام فرماتے تھے ’’ولا يحمل ھذا العلم الا اھل البصر و الصبرہ‘‘(7) سب سے پہلے بصيرت، ہوشمندي، ہوشياري ، تجزئيہ وتحليل اور فھم و درک کي صلاحيت حاصل کرنا پھر اس کے بعد صبرو استقامت سے کام لينا چاہيے جو واقعات پيش آرہے ہيں اس سے بہت جلد دل برداشتہ نہ ہو، حق کا راستہ بہت دشوار گذار راستہ ہے۔
دنيا کے سارے ظالمين اور طاقتور آئے اور کچھ نہ کچھ باطل کے لشکر ميں انہوں نے اور اضافہ ہي کيا طول تاريخ اور ہمارے زمانے ميں بھي سارے شيطان صفت انسان آئے اور اس باطل کے بند کو (جو اميرالمومنين عليہ السلام اور بندگان خدا کے راستہ ميں حائل تھا)کواور قوت بخشي جب کہ حق انسانوں کے راستے ميں حائل اس بند اور اس ٹيلے کو ہٹا دينا چاہتا ہے جو خود اپني جگہ کوئي آسان کام نہيں ہے بلکہ ايک مشکل امر ہے جو صبر و تحمل کے ساتھ ساتھ سعہ صدر اور اپني روحاني قوت کي طرف رجوع کرنے کے علاوہ اپنے اندروني چشمے کے ابلنے کا مطالبہ کرتا ہے، تاکہ انسان حق کي ڈگر پر چل سکے،البتہ راہ حق پر چلنے کي کوشش زندگي کو لذيذ بنا ديتي ہے، ايک ايسي زندگي جس ميں ظلم و زيادتي، زور و زبردستي نہ ہو، کوئي چيز الگ سے اس پر تھوپي نہ جائے ايک ايسي زندگي جس ميں انسان کے اعمال پر شيطان کا بسيرا نہ ہو، بلکہ اس کي زندگي روحانيت اورمعنویت سے لبريز ہو۔
..............
١۔الاصول من الکافي ،ج ٢،ص ١٩۔
٢،٣،٤،٥،٦، نہج البلاغہ خطبہ ٣
7۔ نہج البلاغہ،خطبہ ١٧٣