اخلاص حضرت علي عليہ السلام :
علي ابن ابي طالب (عليہ الصلوۃ والسلام) کے سلسلہ ميں جو کچھ بھي کہا جائے کم ہے اسلئے کہ آپکي آفاقي شخصيت ذہن ميں سمانے اور بيان کے دائرے سے خارج ہے مجھ جيسے لوگ آپ کي تہہ در تہہ شخصيت کے بارے ميں کسي ايک پہلو کو بھي بيان کرنے سے عاجز ہے مگر چونکہ آپ نمونہ عمل ہيں اسلئے ہميں آپکو اپني بساط و توانائي کے اعتبار سے پہچاننا بھي ضروري ہے۔
ممکن نہيں کوئي علي عليہ السلام کي سدرہ نشين شخصيت تک اپني کمتر فکر ڈال سکے اسلئے کہ يہ بات ہمارے ديگر بزرگ آئمہ علیھم السلام نے ہم سے کہي ہے ايک روايت جس ميں امام باقرعليہ السلام اميرالمومنين عليہ السلام کے زھد و عبادت اور ديگر خصوصيات کو بيان کرنے کے بعد فرماتے ہيں:’’وما اطاق عملہ منّا احد‘‘(١)
ہم میںسے کوئي بھي آپ جيسے عمل کو انجام دينے کي طاقت نہيں رکھتا يعني :حتي خود امام صادق ، امام باقر عليہ السلام اور ائمہ ہديٰ بھي جہاں اميرالمومنين عليہ السلام پہنچے ہوئے ہيں نہيں پہنچ سکتے ۔اس روايت کے مطابق امام نے آگے فرمايا: ’’وان کان علي بن الحسين عليہ السلام لينظر في کتاب من کتب علي عليہ السلام (٢)ايک دن آپکے والد حضرت علي بن الحسين اميرالمومنين عليہ السلام کي کسي کتاب کو ديکھ رہے تھے۔ يقينا يہ کتاب آپکي زندگي کا دستورالعمل تھا جس کے مطابق آپنے اپني زندگي گذاري تھي۔
کہ ايک مرتبہ پڑھتے پڑھتے ’’فيضرب بہ الارض‘‘(٣)اسے زمين پر رکھ ديا اور پھرفرمايا’’و يقول من يطيق ھذا؟‘‘(٤) کون ہے جو اسقدر عمل انجام دے سکتا ہو؟ يعني امام سجاد عليہ السلام جو کہ سيد العابدين اور زين العابدين ہیں اميرالمومنين عليہ السلام کي عبادتوں اور زہد و پارسائي کے مقابلے ميں خود کو عاجز سمجھتے ہيں ،خود اميرالمومنين عليہ السلام نے عثمان بن حنيف کو اس خط ميں لکھا’’الا وانّکم لا تقدرون علي ذالک‘‘ (٥)جسطرح ميں عمل کر رہا ہوں تم اسطرح نہيں کر سکتے واقعيت بھي يہي ہے جو کچھ تاريخ نے اميرالمومنين عليہ السلام کے بارے ميں ہم تک عبادت و رياضت کے بارے ميں نقل کيا ہے آدمي جب اسپر نظر ڈالتا ہے تو پھر انسان کو اپني ناتواني کااحساس ہونے لگتا ہے۔
اس بنياد پر موضوع سخن يہ نہيں کہ ہمارا معاشرہ مثل علي عليہ السلام ہو جائے بلکہ موضوع گفتگو يہ ہے کہ معاشرے کے افراد کو کس راستے کي طرف لے جایا جائے مخصوصاً ايک اسلامي حکومت کے سربراہوں کو کون سا راستہ اپنانا ہوگا اور زندگي کس نمونے کے مطابق گذارنا ہوگي يہ ہے گفتگو کا مقصد اور يہ ہے راستہ....
علي عليہ السلام بام عروج پر:
ذات علي(عليہ السلام) کچھ ايسے عناصر کا مجموعہ ہے کہ اگر ايک بلند مرتبہ انسان وہاں تک پہنچنا بھي چاہے تو نہيں پہنچ سکتا اور انکي عظمتوں کے سامنے گھٹنے ٹيکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔دنياسے لاتعلقي ،خواہشات ولذائذ سے بے پروائي اور دنيا کي زرق برق چيزوں سے دوري جہاں ايک عنصر ہے، آپکا پيکراں علم جسکے بارے ميں بہت سے مسلمان دانشمنداور تمام بزرگان شيعہ اس پر متفق ہيں کہ نبي اکرمصلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے بعد علم و دانش ميں علي عليہ السلام کے علاوہ کوئي اور نہيں ہے يہ آپ کي شخصيت کا ايک دوسرا پہلو ہے اور مختلف ميدانوں ميں آپ کي فداکاري اور جانثاري کا انوکھا انداز بھي انہيں عناصر کا ايک جز ہے ۔
وہ چاہے ميدان سياست ہو يا ميدان سير وسلوک يا کوئي اور ميدان ۔آپکي عبادتوں کا طريقہ اپني جگہ پر ايک جداگانہ عنصر ہے ، عدل و مساوات کي جو مثال آپ نے قائم کي ہے وہ خود عدالت اسلامي کي مکمل تفسير ومجسم کي حيثيت سے آپکے تہہ در تہہ وجود کا ايک اور عنصر ہے۔معاشرے کے مختلف طبقات جيسے فقير،غلام وکنيز،بچے عورتيں وغيرہ کے ساتھ آپکا نرمي سے پيش آنا ان سے محبت ،اور پسماندہ ،دبے کچلے لوگوں کے ساتھ بھي محبت کا برتاوآپکي زندگي کا ايک اور نماياں پہلو ہے۔
ہروہ ترقي جو آپکي زندگي کے مختلف مراحل ميں نظر آتي ہے وہ بھي انہيں عناصر کا ايک جز ہے فصاحت و بلاغت حکمت و دانائي يہ سب کے سب اپني اپني جگہ آپکے مجموعہ عناصر کے اجزائ ميںسے ہیں جن کا شمار کرنا بھي مشکل ہے۔ چھٹي صدي ہجري کے ہمارے ايک بزرگ عالم جناب قطب راوندي آپکے زہد کے سلسلہ ميں فرماتے ہيں: جس وقت کوئي شخص علي عليہ السلام کي ان باتوں کو جو انہوں نے زہد کے بارے ميں ارشاد فرمائي ہيں ديکھتا ہے اور وہ يہ نہيں جانتا کہ علي ابن ابي طالب عليہ السلام نے يہ فرمايا ہے (يعني ايک ايسا انسان جو اپنے زمانے ميں دنياکے ايک بڑے حصے پر حکمراني کر رہا تھا)توا سے شک و شبہ بھي نہيں ہوتا کہ يہ کلام ايک ايسے شخص کا ہے جسکا کام ہي فقط عبادت وبندگي تھا’’لايشک انّہ کلام من لا شغل لہ بغير العبادۃ‘‘’’ولا حظّ لہ في غيرالزّھادۃ‘‘ اور بجز زہد و پارسائي انکا کوئي اور شيوہ ہي نہيں تھا ’’وھذا من مناقبہ العجيبۃ التي جمع جھاتين الاضداد‘‘ اور يہ ہیں آپ کے وہ حيرت انگيز مناقب جو آپکي شخصيت ميں متضاد صفتوں کو يکجا کرتے ہیں۔
اخلاص اور جوہر عمل :
ميں آج جس نکتہ کي طرف آپکي توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ ہے اميرالمومنين عليہ السلام کا اخلاص عمل:ہم کو چاہئيے کہ اس صفت کو اپنے روزمرہ کے کاموں کا جوہر قرار ديں جيسا کہ يہي صفت علي ابن ابي طالب عليہ السلام کي زندگي کي روح رہي ہے يعني آپ اپنے کاموں کو فقط اور فقط خدا کي خوشنودي کے لئے انجام ديتے تھے اور آپ اپنے کسي بھي عمل سے سوائے قربۃالي ا? اور خدائي فرض کے اور کوئي مقصد نہيں رکھتے تھے۔
ميرے خيال ميں علي عليہ السلام کي ذات ميں يہ ايک حقيقت ايسي ہے جو اپني جگہ پر بنيادي حيثيت کي حامل ہے۔اميرالمومنين عليہ السلام نے اپنے بچپنے سے اپني جواني کي عمر تک آغوش نبيصلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے جب کہ آپ نے اسلام کو تمام سختيوں اور مشقتوں کے بدلے اپني جان کے بدلے خريدا تھا جگہ جگہ پر اس خلوص کا ثبوت ديا۔
انہوں نے ايک محترمانہ آسايش و آرام اور اشرافيت کو کہ جو کسي قرشي زادہ کي عيش و عشرت کے لئے ميسرتھي صرف خداکے لئے نظرانداز کر ديا اور تيرہ سال کي مدّت حيات ميں پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے شانہ بشانہ کفر کے خلاف جنگ کرتے رہے اور اسکے بعد شب ہجرت حضرت عليہ السلام کے بستر پر سوئے کہ اگر کوئي آپکے اس کا رنامہ پر غور و فکر کرے تو اسے پتہ چلے گا کہ آپ نے اس ايک عظيم فداکاري کا ثبوت ديا ہے کہ جسے ايک انسان پيش کر سکتا ہے يعني يقيني اور حتمي طور پر موت کے مقابل تسليم ہوجانا ۔اور موقع پر صرف پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے اتنا ہي پوچھا کہ کيا ميرے سونے سے آپ بچ جائيں گے تو حضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا:ہاں ميں بچ جاؤں گا تو آپ نے عرض کي، تو میرا سونا حتمي ہے ۔
اس جگہ پر وہ عيسائي مصنف کہ جنکي نگاہ اسلامي اور شيعي بھي نہيں ہے اور ہمارے دين سے بھي خارج ہيں اميرالمومنين عليہ السلام کے بارے ميں کہتے ہيں ’’اميرالمومنين عليہ السلام کا يہ عمل تنہا سقراط کے اس عمل سے ہي قابل موازنہ ہے جو معاشرے کي مصلحت کے لئے خود اپنے ہاتھوںسے زہر کا پیالہ پي ليتا ہے‘‘ يعني اس شب ميں مسلم جانثاري عمل اور اخلاص تھا۔نہ جانے کتنے حکمراںہیںجو ایسے موقع پر فائدہ اٹھانے کي فکر کرتے ہيں اپنے لئے سوچتے ہيںليکن آپ ايسے موقع پر خود پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي جان بچانے کي فکر ميں ہيں۔
فقط رضائے الہيٰ:
غزوات پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو ديکھئے جنگ احدميں کہ جب چند انگشت شمار لوگوں کے علاوہ بقيہ سبھي فرار کر گئے تو اسوقت اميرالمومنين عليہ السلام نے آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے دفاع کيا۔جنگ خندق پر نظر ڈالئے جہاں سارے مجاہدين عمروبن عبدود کے مقابلے سے ہٹ گئے اور آپ آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے باربار اس سے مقابلہ کے لئے اجازت طلب کرتے ہيں اسي طرح جنگ خيبر ہو يا آيہ برآت کي تبليغ،رحلت پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے بعد سقيفہ نبي ساعدہ ميں جانشيني کا مسئلہ ہو یا پھر خليفہ دوم کي وفات کے بعد شوريٰ کي تشکيل کا مرحلہ ہر ہر جگہ پر اميرالمومنين عليہ السلام نے فقط خوشنودي خداکو پيش نظر رکھا اور اسلام اور مسلمانوں کے حق ميں الہي چيز کا انتخاب فرمايا جو انکے لئے مفيد تھي اور رضائے الٰہي کا سبب تھي اور کہيں بھي آپ نے اپني ’’انا‘‘ کو درميان ميں نہيں آنے ديا۔آپکي خلافت ظاہري کا زمانہ ہو يا ٢٥ سال تک آپکي خانہ نشيني ، خلفائ کي امداد کے لئے آپکا جانا ہو يا پھر اپني خلافت ظاہري کے دوران مختلف احزاب کے مقابل اپنے موقف کا اظہار يا اس جيسے ديگر اور مقامات، پر وہي علي ہيں جسے خدا پسند کرتا ہے، اور رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اسکا انتخاب کرتا ہے، خدا کا ايک خالص اور مخلص بندہ، اور يہي وہ خصوصيت ہے کہ جسکا ايک ذرہ ہي سہي مگر ہم اپني زندگي اور عمل ميںاسکو جگہ ديں اور ہم يہ صفت علي عليہ السلام سے سيکھ ليں اسلئے کہ اسوقت يہي خصوصيت اسلام کي ترقي کا سبب بني تھي اور آج اگر اسي صفت کا ايک چھوٹا سا حصہ بھي کسي انسان ميںپيدا ہو جائے تو وہ اسلام اور مسلمين کے لئے ايک مفيد عنصر بن سکتا ہے۔
حضرت علي عليہ السلام سے اخلاص آموزي:
ہم لوگوں نے عظيم انقلاب اسلامي کے دوران اپني آنکھوں سے لوگوں کي زندگي ميں اس خلوص نيت کا مشاہدہ کيا ہے اور جو کچھ کارنامے ہونا تھے وہ ہوئے ،قائد انقلاب اسلامي امام خميني ۲ اس اخلاص عمل کا مظہر تھے اور انکے ہاتھوں جو کچھ ہونا تھا وہ ہوا انہوں نے اسلام کے مقابلہ ميں ساري دنيا کو جھکا ديا اور دشمنان دين کو پيچھے ہٹنے پر مجبور کر ديا آج بھي ايران کي قوم و ملت اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ چاہے وہ مر د ہوں يا عورت سب کے سب خصوصاً ہم سب ذمہ داران حکومت جس قدر جس کي ذمہ دارياں بڑھتي جائيں گي۔اسي خلوص نيت کے محتاج ہوجائيںگے يہاں تک کہ اسي اخلاص کي مدد سے اس بوجھ کو منزل مقصود تک پہنچا ديں۔ امير المومنين عليہ السلام نہج البلاغہ ميں ارشاد فرماتے ہيں : ’’ولقد کنّا مع رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نقتل اباتنا وانباتنا و اخواننا واعمامنا لا يزيدنا ذالک الاّ ايمانا و تسليما ومضيّا ولي اللقم و صبرا وعلي مضض الالم‘‘(6)۔ہم لوگ خلوص نيت کے ساتھ رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے پائے رکاب ميں اپنے خاندان و گھرانے والوں سے لڑ رہے ہوتے تھے، ’’فلمّا رآي اللہ صدقنا انزل بعد وّنا الکبت وانزل عليناٰ النّصر‘‘(7)
تو جس وقت خدا نے ہمارے اس مخلصانہ عمل کو ديکھا ہمارے دشمن کو سرکوب کر ديا اور ہميں فتح و ظفر سے سرفراز فرمايا: پھر آپ ارشاد فرماتے ہيںکہ اگر ہمارا يہ عمل نہ ہوتا اور ہم لوگ اس طرح اخلاص نہ رکھتے ہوتے ’’ماقام للدّين عمود ولا اخضرَّ للايمان عود‘‘ ايمان کي ايک ٹہني بھي سر سبز و شاداب نہ ہوتي اور آج دين کا کوئي ستون بھي اپني جگہ محکم و استوار نہ دکھائي ديتا يہ انہيں مسلمانوں کے خلوص دل اور انکي صداقت کي ہي برکتيں تھيں کہ روح زمين پر آج ايک اسلامي معاشرہ پھلتا پھولتا نظرآ رہا ہے اور يہ ترقياں انھيں کي زحمات کا نيتجہ ہيں يہ اسلامي تمدّن اور يہ عظيم تاريخي تحريک بھي آج اسي کا نتيجہ ہے، ہماري قوم دنيا کے سارے مسلمانوں عراق کي عوام انکے سربراہوں اور ان تمام لوگوں کو جو دنيا کے کسي بھي گوشہ و کنا ميں اسلام کي باتيں کرتے ہيں ان سب کو علي ابن ابي طالب عليہ السلام سے ہي اخلاص کا سبق حاصل کرنا ہوگا ۔
حضرت عليہ السلام کي شہادت کي وجہ سے ستون ہدايت منہدم ہو گيا:
آج انيسويں ماہ رمضان ہے حضرت عليہ السلام کے سر اقدس پر ضربت لگنے سے اہل کوفہ کا کيا حال ہوا، خدا ہي جانے وہ آپکا لوگوں کے درميان محبوب چہرہ، وہ بزرگ انسان، وہ عدل مجسم،وہ آپکي ولولہ انگيز صدا وہ آپکا ضعفائ اور دبے کچلے لوگوں پر شفقت کرنے والا مہربان ہاتھ،اشقيائ کے مد مقابل غيض و غضب کرنے والا انسان ، اس پانچ سال کي مدت ميں اہل کوفہ و اہل عراق اور جو لوگ مدينہ سے ہجرت کر کے حضرت کے پاس آئے تھے، خود کو کوفہ ميں يا کوفہ سے باہر ديگر ميدانوں ميں ان لوگوں نے علي عليہ السلام کو کچھ اسي طرح پايا تھا اور ان سے مانوس ہو چکے تھے اسلئے نہيں کہا جا سکتا کہ جب ان لوگوں نے يہ سنا کہ اميرالمومنين عليہ السلام کے سر مبارک پر ضربت لگي ہے تو انکا کيا حال ہو ا؟ پس ميں قائد انقلاب اسلامي امام خمیني ۲ کي وفات سے قبل آپکي بيماري کي کيفيت کو ذرا سا اس وقت کي کيفيت سے تشبيہ کر رہا ہوں آپ جانتے ہيں کہ جس وقت حضرت امام خمیني ۲ کي بيماري کي خبر ايران ميں پھيلي تو لوگوں کا کيا جوش و ولولہ اور کيا غوغہ تھا بس ايک قيامت ايک حشر بپا تھا لوگ ہر طرف دعائيں کر رہے تھے ، آنکھيں رو رہي تھيں۔لگتا ہے آج کوفہ کي بھي ايسي حالت تھي(8)
..............
(١،٢،٣،٤)۔بحارالانوار ج ، ٤،ص ٣٤۔
٥ ۔ نہج البلاغہ نامہ ٤٥۔
۶۔۷۔نہج البلاغہ خطبہ ٥٦۔
۸۔حديث ولايت ،ج ٧، ص١٥۔١٠
|