اميرالمومنين عليہ السلام کا جہاد :
حق و عدالت کے قيام کے لئے جہاد کرنا آپکي زندگي کا ايک دوسرا پہلو ہے نبي پيغمبر اکرم صليٰ اللہ عليہ وآلہ وسلم نے جس روز سے رسالت کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھايا اسي وقت سے آپکے ساتھ ايک مومن و مخلص مجاہد (جو کہ ابھي جوان تھا) آپکے شانہ بشانہ موجود رہا اوروہ مومن مخلص جوان مجاہد علي عليہ السلام کے سوائ اورکوئي نہيں تھا۔پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي بابرکت زندگي کے آخري لمحات تک اميرالمومنين عليہ السلام اسلام کي حفاظت وبقاکے لئے لمحہ بھر کے لئے بھي غافل نہيں ہوئے اپني اس راہ ميں ۔کس قدر زحمتيں اٹھائيں،کس قدر اپني جان کے لئے خطرات مول لئے اور حق و عدل کے قيام کے ليے جدوجہد کي اور اسميں غرق رہے اور يہ کوئي ڈھکي چھپي بات نہيں ہے سب جانتے ہيں کہ جب کوئي ميدان ميں نہيں ٹکتا تھا
تب وہ ميدان ميں ثابت قدم ہو جاتے تھے، جب لوگ ميدان ميں اترنے سے کتراتے تھے اسوقت آپ ميدان ميں ڈٹ جاتے جب لوگ سختيوں سے فرار کرتے تو اسوقت آپ اپنے پورے وجود کے ساتھ سختيوں کا مقابلہ کرتے اور مجاہدين اسلام کو تسلي ديتے آپکے لئے زندگي کا معني و مفہوم يہي تھا کہ خدا نے جو قوت و طاقت جو صلاحتيں آپکو عطا کيں سب کو حفاظت دين اور اسلام کي بقائ کے لئے صرف کر ديں ۔جي ہاں: علي عليہ السلام کے قوت بازو اور انکے فولادي ارادے کي برکت سے آج حق زندہ ہے۔
اگر آج دنيا کے انسانوں کے لئے حق و عدل اہمیت رکھتے ہیں اور يہ مفاہيم دنيا ميں پائے جاتے ہيں اور روز بروز انکو تقويت ملتي جا رہي ہے تو يہ صرف اور صرف آپ ہي کي فداکاریوں کا نتيجہ ہے۔اگر علي ابن ابيطالب جيسي شخصيت نہ ہوتي تو آج انساني قدروں کا بھي کوئي نام لیوا نہ ہوتا انسان کے پاس تمدن(کلچر)،بلند اہداف اور کوئي اعليٰ مقصد بھي نہ ہوتا اور انسانيت ايک جنگلي حيوان و درندگي کي شکل ميں تبديل ہو چکي ہوتي ، بشريت بلند و عالي مقاصد کي حفاظت کے لئے آج اميرالمومنين عليہ السلام کي زحمتوں اور مشقتوں کي مرہون منت ہے اور يہ سب آپ کے جہاد کا اثر ہے۔
حکومت کے معني ميں تبديلي:
حکومت کے ميدان ميں آپکا ايک انوکھا انداز آپکي شخصيت کا ايک منفرد پہلو ہے۔جو اپنے وقت پر عظیم حکومت و قدرت اپنے ہاتھ ميں ليتا ہے اور ايک تھوڑي سي مدت حکومت ميں وہ کارہاي نماياں وہ ديرپا اثر چھوڑتا ہے کہ لکھنے والے، لکھتے رہيں ،اسکي تصوير کشي کرنے والے تصوير کشي کرتے رہيں اور مورخين قلم چلاتے رہيں پھر بھي جو کچھ لکھا جائے، کہا جائے يا اسکي تصوير کشي کي جائے کم ہے۔دوران حکومت آپکا طرز حيات خودکسي قيامت سے کم نہيں ہے اصلاً علي عليہ السلام نے حکومت کے معني ہي بدل کر رکھ ديے وہ مظہر حکومت الہي مسلمانوں کے درميان مجسم آيات قرآني،سراپا’’اشدائ علي الکفائ و رحمائ بينھم ‘‘(١)اور مجسمہ عدل مطلق تھے وہ فقيروں کو اپنے قريب رکھتے تھے ’ ’کان يقرب المساکين‘‘(٢)معاشرے کے پسماندہ اور دبے کچلے افراد کا خاص لحاظ رکھتے تھے اور جو لوگ
مال و ثروت کي وجہ سے خود کو ناحق بڑا اور بزرگ بنائے ہوئے تھے آپ انہيں خاک و مٹي کے برابر سمجھتے تھے آپکي نظر ميں جو شيئ قيمتي اور ارزشمند تھي وہ ايمان، تقويٰ،اخلاص و جہاد اورانسانيت تھي آپ نے اس حکومتي طرز تفکر کیساتھ پانچ٥ سال سے بھي کم حکومت کي، صدياں گذر رہي ہيں اور لکھنے والے اميرالمومنين عليہ السلام کي خوبیاں پيش کر رہے ہيں لکھنے والے لکھ رہے ہيں مگر پھر بھي ابھي تک بہت کم لکھا گيا ، اور اچھے اچھے اپني عاجزي ، ناتواني کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہيں۔
ولايت علي عليہ السلام سے تمسک:
دنيا ہميں علي عليہ السلام کا چاہنے والا سمجھتي ہے’’معروفين بتصديقنا اياّکم‘‘(١) اور دنيائے اسلام بھي ہميں ان لوگوں ميں شمار کرتي ہے جو علي بن ابي طالب عليہ السلام کي نسبت شديد محبت و موّدت اور انکي غلامي کا دم بھرتے ہیں اور تمام دنيا والے بھي ہمارے بارے ميں يہي خيال رکھتے ہيں۔لہذا ہم پر فرض ہے کہ انکے اس خيال کو يقين ميں تبديل کر ديں۔
ايک زمانہ تھا کہ جب اسي ملک ميں اگر کوئي اپني زبان سے يہ کلمات جاري کرتاتھا ’’الحمد اللہ الذي جعلنا من المتمّسکين بولايۃ اميرالمومنين و اولادہ المعصومين‘‘(٢)( ترجمہ:اس خدا کي حمد جس نے ہميں اميرالمومنين علي عليہ السلام اور انکي اولاد کي ولايت رکھنے والوں میں سے قرار دینا)‘‘تو بہت سے لوگ شک و ترديد کي نگاہ سے اسکو ديکھنے لگتے تھے، کہتے تھے کہ کیا ہم اس پر خدا کي حمد کریں کہ علي کے موالي ہیں ؟ کيا واقعاً يہ کلمات برحق ہيں؟البتہ انہيں شک کرنے کا حق بھي تھا، اسلئے کہ اسوقت اس ملک ميں امريکہ ، یہودیوںا ور دشمنان خدا کي ولايت و حکومت تھي لہذا ہميں کياحق تھا جو کہتے ’’الحمد اللہ الذي جعلنا من المتمّسکين بولايۃ اميرالمومنين و اولادہ المعصومين‘‘ اور اپني جگہ يہ بات بھي ہے کہ لوگوں کي اکثريت اپنے دل ميں انہيں کي محبت چھپائے ہوئے تھي اور انکي ولايت کے معتقد تھے۔
مگر ياد رکھيئے ولايت اس سے کہيں بڑھ چڑھ کر معني و مفہوم رکھتي ہے البتہ آج مملکت ايران کے لوگ حضرت علي عليہ السلام کي ولايت سے تمسک پر خدا کي حمد و ستائش کر سکتے ہيں کيونکہ ہمارا انقلاب، ہمارا پيغام سب کچھ راہ ولايت علي عليہ السلام ہي کا صدقہ ہے۔
..............
١۔فتح ٢٩۔
٢۔شرح ابن ابي الحديد،ح ١٨،باب٧٥،ص ٢٢٦۔
3۔زيارت جامعہ کبيرہ مفاتيح الجنان
4۔اقبال ۔ص ٤٦٤۔
|