شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علي عليہ السلام
 

علي عليہ السلام کي زندگي کے مختلف دور:
مختلف اسلامي شخصيتوں کے مابين تنہا يہ اميرالمومنين عليہ السلام کي ہي خصوصيت ہے جو اپني زندگي کے مختلف ادوار ميں مختلف حالات و شرائط ميں رہ کر اپنے بلند و عالي اہداف کے تحت جہاں کہيں بھي رہے اپنے پورے وجود کو صرف کر ديتے ہيں
آپ اميرالمومنين عليہ السلام کو مکہ ميں ايک سولہ ١٦ سالہ يا انيس١٩ سالہ جوان کي حيثيت سے فرض کريں يا مدينہ ميں وارد ہوتے وقت کہ (جب بھي آپ تقريباً ايک ٢٠ بيس سالہ جوان ہي ہيں) فرض کريں و ملاحظہ کريں گے کہ حقيقتا ً ايک جوان ہونے کي حيثيت سے آپ ہر زمانے کے جوانوں کے لئے بہترين نمونہ ہيں،جواني کي تمام خواہشات اور دينوي لذتوں سے دور ہیں ۔یہاں تک کہ وہ زيبائي و خوبصورتي جو اس دوران ايک جوان کي نظر ميں اہميت رکھتي ہے اس سے بھي لا تعلق ہيں اور بعثت نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کا جو عالي و بلند مرتبہ مقصد تھا وہي آپکا بھي ہدف ہے اس راستے ميں خود کو فدا کر دينے پر تلے ہوئے ہيں آپکي نگاہ ميں دنيا کي بقيہ چيزيں دوسرے درجہ کي حيثيت رکھتي ہيں۔يہ ايک جوان کے لئے نہايت اہميت رکھتي ہے کہ وہ دنيا کي لذتوں ، شيرينيوں کي طرف کوئي توجہ نہيں ديتا اور اپني ساري خوشياں راہ خدا ميں قربان کر ديتا ہے کيا اس سے بھي بلند کوئي شئي ہو سکتي ہے ؟
اس زمانے کونظر ميں رکھيں جبکہ آپ ايک پختہ کار کي حيثيت سے اپنے معاشرے کا ايک فرد شمار ہوتے ہيں اور آپکا اچھا خاصاسن ّ ہے شايد ہزاروں لوگوں نے خود پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي زبان سے آپکي تعريف و تمجيد سني ہوگي ميرا خيال ہے کہ کوئي بھي مسلمان محدّث ايسا نہيں ہوگا جس نے پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي زباني اميرالمومنين عليہ السلام کے علاوہ کسي اور کي اسقدر مدح و ستائش سني ہو البتہ ديگر صحابہ کے بھي فضائل نقل ہوئے ہيں مگر کميت و کيفيت کے لحاظ سے جو فضائل و مناقب اميرالمومنين عليہ السلام کے لئے تمام فرق اسلامي کے محدثين نے آنحضرت سے نقل کئے ہيں ميرے خيال ميںکسي اور کے بارے ميں نقل نہيں کئے ہيں۔مگر اسکے باوجود نہ تو آپ اس تعريف کي وجہ سے مغرور ہوتے ہيں نہ اپنے فرائض کي ادائيگي ميں لغزش کا شکار ہوتے ہيں جبکہ ايسي جگہ ايک انسان کے لئے مغرور ہونا يا خطا کرنا فطري امر ہے۔
تمام صحابہ نے آپکے بارے ميں سينکڑوں تعريفيں سنيں گويا امتحان دينے کا وقت آن پہنچا اور خلافت کا مسئلہ پيش آيا جو مسلمہ حقيقت ہے وہ يہ ہے کہ علي عليہ السلام مدعي خلافت تھے (في الحال مجھے حق و باطل يا پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي وصيت وغيرہ سے يہاں کچھ لينا دينا نہيں )ليکن جب آپ نے ديکھا کہ خلافت سے کنارہ کشي ہي اسلامي مصالح کے لئے ضروري ہے تو خود کو ميدان خلافت سے دور کر ليا يعني اميرالمومنين عليہ السلام حق بجانب ہوتے ہوئے بھي امت اسلامي کي مصلحت کے پيش نظر وقتي طوراپني ساري خوبیوں پر اپنے سارے محامد و محاسن کے باوجود خلافت سے کنارہ کش ہوگئے اور فرمايا’’ جب ميں نے ديکھا حالات بدتر ہو گئے ہيں اور دين اسلام کو خطرہ لاحق ہے توميں خلافت سے کنارہ کش ہو گيا‘‘
ايک مخلص سياستداں، ايک عظيم انسان جو کہ اپني خواہشات کے مطابق نہيں چاہتا کہ عمل کرے، اسکے لئے اس سے بڑھ کر واضح ،گويا اور حيرت انگيز انداز ميں اپنے نفس پر کنڑول اور کسطرح ہو سکتا ہے!؟ يہي شخصيت ايک دن حاکم اسلام ہو جاتي ہے لوگ چاہتے ہوئے يا نہ چاہتے ہوئے بھي اسے رياست اسلامي کے لئے انتخاب کرتے ہيں دوست ،دشمن،رقيب،حبيب يا آپکے ہاتھوں پر بيعت کرتا ہے يا پھر اپني مخالفت کا اظہار کرتا ہے (پانچ ، چھ لوگ ايسے بھي تھے جنہوں نے آپکے ہاتھ پر بيعت نہيں کي اور اعلان کيا کہ ہم آپکي مخالفت بھي نہيں کريں گے) بقيہ سب نے آپکے دست مبارک پر بيعت کي اور آپ ساري دنيائے اسلام کے حاکم و مولا ہو گئے، آپ تصور کر سکتے ہيں اس زمانے کي اسلامي دنيا کے کيا معني ہيں؟ يعني ہندوستان کي سرحدوں سے دريائے بحر احمر تک جس ميں عراق ،مصر ،شام، فلسطين اور ايران سب کے سب شامل ہيں شايد اس زمانے ميں آباد دنيا کا آدھا حصہ آپکي زير سلطنت ہے۔
اس وقت آپکي سادہ زيستي ،زہد و پارسائي جسکے بارے ميں آپ سنتے رہتے ہيں وہ اسي دوران حکومت سے تعلق رکھتي ہے يعني يہ زندگي کي لذتيں،عيش و عشرت، اور آسايش و آرام جو کسي بھي بڑے سے بڑے انسان کو اپني طرف کھينچ کر فرائض سے دور کر ديتا ہے اسميں سے کوئي بھي شئي لمحہ بھر کے لئے بھي اميرالمومنين عليہ السلام کے دل ميں شک و ترديد نہيں پيدا کر پائي ، نہ ہي اُنکے راستے سے انہيں ہٹا پاتي ہے۔
انہوں نے ثابت کر ديا کہ سارے گمراہي کے اسباب و وسائل ايک طرف اور انکي قوت ارادي اور اقتدار نفس ايک طرف۔عظمت و بزرگي اسے کہتے ہيں، يہ ہيں وہ چيزيں جو نسلوںکو انساني اجتماع اور پوري تاريخ بشريت کو اپنے مقابل خضوع و خشوع پر مجبور کرتي ہيں،اگر کوئي انصاف پسندي سے کام لے تو وہ اس جيسي شخصيت کے مدمقابل سر کشي نہيں کر سکتابلکہ سب کے قلوب خودبخود اسکے سامنے جھک جائيں گے۔
اگر کسي کے يہاں اميرالمومنين عليہ السلام کے اندر موجود صفات کا ايک کر شمہ بھي پايا جاتا ہو تو وہ اپنے نفس اور خواہشات پر غلبہ حاصل کر سکتا ہے۔حضرت امام خمیني ۲ ہمارے زمانے کي عظيم شخصيت جسے آپ نے ديکھا ہے دنيا کي بڑي اور عظيم شخصيتيں انکے سامنے اپني پستي کا احساس کرتي تھيں۔انکے نمائندگان چونکہ آپکے نام اور آپکي ياد ليکر جاتے تھے دنيا ميں کہيں بھي گئے دنيا کے بااقتدار سرکش حاکموں کو اپنے سامنے خضوع پر مجبور کر ديتے تھے اسلئے کہ حضرت امام خميني ۲ نے اميرالمومنين عليہ السلام کي خوبصورت اور زيباصفات والي ذات کا کچھ گوشہ اپني زندگي ميں عملي کر ليا تھا۔
البتہ ان تجليات کے بارے ميں جو کچھ ہم يہاں بيان کر رہے ہيں اپني جگہ عظيم ہيں مگر اميرالمومنين عليہ السلام کي لا متناہي ذات کے مد مقابل ايک قطرے کي طرح بہت کم اورحقير ہے ليکن خود آپکي شخصيت بہت عظيم ہے۔

اميرالمومنين عليہ السلام کي بزرگي و عظمت:
ميرے عزيزو:اميرالمومنين عليہ السلام کو اسطرح نہيں پہچانا جا سکتا کہ وہ کيا تھے انکي بلند و بالا شخصيت ان ناقص معیاروں کي بنياد پرآخر کس طرح سمجھي جا سکتي ہے؟ايک دن ايک صحابي امام سجاد عليہ السلام کي عبادتوں،رياضتوں اور زہدو پارسائي کو ديکھ کر حيرت کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ آپ عليہ السلام اتني زحمت برداشت نہ کريں! تھوڑا سا اپنے اوپر رحم کريں ، امام سجادعليہ السلام گريہ فرماتے ہوئے اس سے خطاب کرکے کہتے ہيں تم مجھے نہ ديکھو، ذرا اميرالمومنين عليہ السلام سے ميري ان عبادتوں کا موازنہ کرو تو تم کو معلوم ہوگا، کہ کہاں وہ ؟ اور کہاں ميں؟ ذرا ديکھيں تو سہي يہ امام سجادعليہ السلام ہيں خود آپکي شخصيت ايسي ہے کہ آپ تک لوگوں کي رسائي ناممکن ہے ،ميرا مقصد يہ نہيں ہے کہ کوئي عمل ميں آپ تک نہيں پہنچ سکتا ،نہيں بلکہ وہم و خيال تک آپکي عظمت و بزرگي کو چھونے سے عاجز ہیں۔آپکي ذات اس سورج کي مانند ہے کہ جسکي کرنوں کو ہم دور سے چمکتے ہوئے ديکھ سکتے ہيں مگر خود خورشيد تک نہيں پہنچ سکتے کچھ اسطرح سے امام سجادعليہ السلام کي شخصيت ہے مگر آپ جب حضرت اميرالمومنين عليہ السلام کي شخصيت کو ديکھتے ہيں تو ايسا لگتا ہے جيسے کوئي بچہ کسي بزرگ کو ديکھ رہا ہے يہ ہيں اميرالمومنين عليہ السلام اوريہ ہے انکي عظمت و بزرگي۔

حضرت کے ہمرزم ہوئے:
ميرے عزيزو! ايک نکتہ جسکا رابط ہم سب سے ہے ہم اسکي طرف توجہ کريں:آپکي پيروي اور اتباع تنہا زبان سے تو ہو نہيں سکتي ۔مثلاً آپ ميدان جنگ ميں اتر کر رٹ لگائيں کہ فلاں ہمارے سپہ سالار ہيں ميں ان سے محبت کرتا ہوں انہيں پسند کرتا ہوں اور وہي سپہ سالار آپکو فوجي ٹریننگ کے لئے بلائے اور آپ اپني جگہ سے نہ ہليں وہ آپکو دشمن پر حملہ کے لئے حکم دے مگر آپ اس سے رخ موڑ ليں.جبکہ انسان اپنے دشمن اور جسے وہ نا پسند کرتا ہے اس سے یہ رویہ اختیار کرتا ہے، اميرالمومنين عليہ السلام ہمارے مولا ہيں امام ہيں آقا و سردار ہيں ہم شيعوں کو انکي محبت پر ناز ہے اگر ہم لوگوں کے سامنے کوئي علي عليہ السلام کو انکي عظمت و بزرگي سے گھٹاتا ہے تو ہم اس سے بھي بغض و نفرت کرتے ہيں اسے ناپسند کرتے ہيں تو پھر انکي ولايت کا کچھ نہ کچھ اثر ہماري عملي زندگي ميں بھي نظر آنا چاہئيے۔
ميں آپ سے يہ نہيں کہتا کہ آپ اميرالمومنين عليہ السلام جيسے بنيئے خود حضرت امام سجادعليہ السلام بھي اس بات کے قائل ہيں کہ وہ اميرالمومنين عليہ السلام کي طرح عمل نہيں کرسکتے خود حضرت عليہ السلام نے عثمان بن حنيف سے فرمايا: ’’ الا و انکم لا تعدون علي ذالک‘‘تم ميري طرح نہيں ہو سکتے يہ تو بالکل واضح ہے ليکن تم سے يہ توقع ضرور ہے کہ ہمارے ہمرزم بنو ہمارے پائے رکاب ميں قدم رکھو اور ہمارے پيچھے پيچھے چلو اگر آپ اميرالمومنين عليہ السلام کي آواز سے آواز ملانا چاہتے ہيں تو ہميں انکے زمانہ حکومت کي دو٢خصوصيتوں کو اپنانا پڑیگا۔کہ جسکا تعلق ہمارے اور آپکے زمانے سے ہے اور ہم سے اور آپ سے اسکا ربط پايا جاتا ہے۔اور وہ ہے نمبر١۔اجتماعي عدالت و مساوات، نمبر٢۔دنيا کي نسبت بے توجہي اور اس سے دل نہ لگانا۔

اميرالمومنين عليہ السلام کي اجتماعي عدالت:
عزيزان گرامي: ان دونوں خصوصيتوں کو پرچم کي طرح اپنے ہاتھوں ميں ليکر معاشرے ميں عملي کرنے کي کوشش کريں عدالت اجتماعي کا مطلب يہ ہے کہ حکومت کا قانون يکساں طور پر معاشرے کے ايک ايک فرد کو زير نظر رکھے کسي کے ساتھ کوئي امتيازي سلوک نہ کرے، انسان ايک دوسرے سے مختلف قسم کا رابطہ رکھتا ہے جسکي بنائ پرآپس کے برتاؤ ميں بھي فرق آجاتا ہے اسلئے کہ کوئي کسي کا رشتہ دار ہے تو کوئي دوست ہے کسي سے جان پہچان ہے تو کسي سے نہيں ہے البتہ جو شخص بھي کسي بھي مقام يا منصب کا مالک ہے ، يہاں ميري مراد يہ ہے کہ قانون اسکے ہاتھ ميں ہے اس لئے کسي تفريق کے بغير، سب کو ايک نگاہ سے ديکھنا ضروري ہے۔ خصوصاً ايک اسلامي نظام حکومت ميں ہر ايک فرد کو يہ اطيمنان اور احساس ہونا چا ہیے کہ اسکے ساتھ قانون کي نگاہ نہيں بدلے گي، جو جسقدر زحمت ومشقت اٹھائے گا اسي لحاظ سے بہرہ مند بھي ہو گا، اگرچہ کچھ لوگ کاہل اور سست اور کام چور ہوتے ہيں جو کام چوري کرتے ہيں وہ اپنے نفس پر خود ظلم کرتے ہيں، کام کرنے ميں کوتاہي کرتے ہيں لہذا ان کا دوسرے لوگوں سے مسئلہ ہي يہاں جدا ہے يہاں عدالت اجتماعي کے معني يہ ہيں کہ بغير دليل کسي کو کسي پر ترجيح حاصل نہ ہو سب کے لئے ايک قانون ہو اور اميرالمومنين عليہ السلام نے يہ کام اپني حکومت ميں انجام ديا اور اسي کو عدالت اجتماعي کہتے ہيں۔
علي عليہ السلام سے دشمني کي بنياد يہي تھي، وہ نجاشي شاعر، جس نے اميرالمومنين عليہ السلام کے لئے اشعار کہے تھے، آپکے دشمنوں سے ٹکر لي تھي آپ کا محب تھا، دشمنوں کے مقابلے پر بھي علي عليہ السلام کا دامن نہيں چھوڑا ، ليکن جب وہي حرمت الہيٰ کو توڑتا ہے، ماہ مبارک رمضان ميں شراب پيتا ہے تو لوگوں کے اصرار کے باوجود،آپ فرماتے ہيں سب کچھ اپني جگہ درست، اسکي محبت قابل قدر اسکي دوستي اپنے مقام پر ليکن چونکہ اس نے حرمت الہيٰ کو توڑا ہے اسلئے اس پر حد خدا جاري ہوگي وہ بھي ناراض ہو کر آپ کو چھوڑ کر معاويہ کي طرف چلا گيا يعني اميرالمومنين عليہ السلام حدود خداوندي کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کرتے ہيں کہ گویااُنکي نگاہ ميں اہمیت صرف اور صرف قوانینِ الہيٰ ہے اور خدا سے ہٹ کر کوئي شئي ارزش و اہميت نہيں رکھتي۔
يہي اميرالمومنين عليہ السلام ہيں کہ جب ايک شخص چوري کرتاہے اور وہ آپکے سامنے پيش کيا جاتا ہے تو فرماتے ہيں تم کو قرآن کتنا ياد ہے اس نے سنا ديا تو فرمايا! ’’قد وھميت يدک لسورۃ البقرۃ،، تمہارے عمل کي بنياد پر تو تمہارا ہاتھ کاٹ دينا چاہئے تھا مگر اس سورہ مبارکہ بقرہ کي وجہ سے تيرے ہاتھ کو بخش ديا جاو پھر ايسي حرکت نہ کرنا۔
يہ کوئي بيجا امتياز نہيں ہے بلکہ قرآن کي وجہ سے آپ نے اسکے ساتھ يہ برتاو کيا۔اميرالمومنين عليہ السلام اقتدار اسلامي اور اصول وقوانین ِديني کے سامنے کسي کا کوئي لحاظ نہيں کرتے تھے وہاں محب ہونے کے باوجود اسکے فسق و فجور کي بنياد پر حدجاري کرتے ہيں اور يہاں قرآن کي بنياد پر اس چور کو معاف کر ديتے ہيں يہ ہیں اميرالمومنين عليہ السلام جو صد در صد الہيٰ معيار کي بنياد پر عمل کرتے ہيں يہ ہے آپکي عدالت، جس کسي نے بھي يہ کہا ہو مجھے يقيني طور پر معلوم نہيں يہ کس کا قول ہے ’’ قتل في محراب عبادتہ لشدّۃ عدلہ‘‘علي عليہ السلام محراب عبادت ميں اپني انصاف پسندي کي شدّت کي وجہ سے قتل کر دئے گئے ۔
مگر کہنے والے نے درست کہا ہے يعني عدالت اميرالمومنين عليہ السلام اثر ورسوخ رکھنے والوںاور صاحبان نفوذ کے لئے ناقابل برداشت تھي يہاں تک کہ اسي وجہ سے وہ لوگ انکے قتل کے درپے ہوگئے۔
اب ذرا ملاحظہ کريں آج کچھ لوگ کہتے ہيں کہ جناب آپ کس طرح اس اسلامي معاشرے ميں اسي عدالت کو برقرار کر سکتے ہيں جسکي وجہ سے علي آخر تک حکومت نہيں کر سکے! ميں کہتا ہوں جس قدر اسے عملي کرنا ممکن ہے ہمارا فرض ہے کہ اس اندازہ کے مطابق معاشرہ ميں اسے عملي کريں ہم کب کہتے ہيں اور يہ دعويٰ کرتے ہيں کہ با لکل عدل اميرالمومنين عليہ السلام کي طرح ہم عدل جاري کرنا چاہتے ہيں۔ہمارا تو يہ کہنا ہے کہ جس قدر بھي ايک مومن اس پر عمل کر سکتا ہے ، انجام دے کم از کم جتنا ہو سکتا ہے اسے تو ہاتھ سے نہ جانے ديا جائے۔
اگر يہي عدالت فرھنگ و تمدن (کلچر)کي صورت اختيار کرے اور عوام اُس کو سمجھ جائيں تولوگ خود بخود اسکو برداشت کريں گے۔ عدالت اميرالمومنين عليہ السلام سے عوام الناس خوشحال تھے محض صاحبان نفوذ کو برُا لگتا تھا وہ اس سے ناراض تھے اور اميرالمومنين عليہ السلام کو ان لوگوں نے يہ خود شکست دي اور معرکہ صفين پيش آيا ۔کہ جس میں حضرت عليہ السلام کو خون ِدل پينا پڑا اور اسکے بعد آپکو شہيد کر ديا گيا ان سب کي وجہ يہ تھي کہ عام لوگ اسوقت مسائل کو صحيح طور پر سمجھنے سے عاجز تھے اور اسکا صحيح تجزئيہ انکے بس سے باہر تھا۔
صاحبان نفوذ ومطلب پرست عام لوگوں کے ذہنوں پر غلبہ رکھتے تھے انہيں سوچنے کا موقع ہي نہيں ديتے تھے اسلئے ،درک و فھم پيدا کرنا چاہئيے لوگوں کي سياسي بصيرت ميں اضافہ کرنا چاہيے تاکہ ايک دن عدالت اجتماعي کو پورے معاشرے ميں جاري کيا جاسکے ۔