کتاب:- شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علي عليہ السلام
مصنف:- سيّد علي حسيني خامنہ اي
ماخذ:- shiastudes.com
مقدمہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
چاروں طرف گردوغبار پھيلا ہوا تھا۔کچھ دير بعد جب غبار چھٹا تو ديکھا کہ علي عليہ السلام کے ہاتھ ميں عمرو بن عبدود کا سر ہے صرف يہي نہيں بلکہ اگر تاريخ کے کچھ اوراق پلٹائيں گے تو پھر علي عليہ السلام کے ہاتھ ميںکبھي مرحب کااور کبھي عنتر کا اور کبھي کسي اور کا سر نظر آئے گا۔
کوئي سوچ بھي نہيں سکتا کہ جو اتنا بہادر اور نڈر سپاہي ہوگا وہ تاریخ کے کچھ اوراق پلٹنے کے بعد ساري ساري رات عبادت اور نماز ميں کھڑا ہوا نظر آئے گا۔يہي شخص جب منبر رسول(ص) پر بيٹھ کر ظاہري طور پر حکومت کو اپنے ہاتھ ميں ليتا ہے تو انصاف اور عدالت کي وہ مثال قائم کرتا ہے کہ جس پر ہر نبي اور دنيا کا ہر بادشاہ آج تک انگشت بدنداں ہے۔
اگر بات صرف يہاں تک محدود ہوتي تو شايد ميں چپ رہتا ليکن جب علي عليہ السلام حاکم اسلامي ہونے کے باوجودراتوں کو يتيموں کي خدمت کرتے ہوئے نظر آتے ہيں تو يہ دنيا کي پہلي اور آخري مثال ہے۔
يہي مر د ميدان جب جملصفين اور نہروان کے ميدان ميں دشمنوں کے سامنے آتا ہے تو جيتنے کے بعد اس کے چہرے پر فتح کي لالي نہيں بلکہ مسلمانوں کا خون بہنے کا افسوس ہے۔
علمي ميدان ميں جہاں تک نظر دوڑائيں گے علي عليہ السلام ہي علي عليہ السلام نظر آئے گا۔چاہے علم نحو ہوچاہے علم تفسيرہوچاہے علم فقہ ہوچاہے علم فلسفہ ۔جس طرف بھي جائيں گے جائے پناہ سوائے علي کے اور کوئي نہيں پائیں گے۔ علي عليہ السلام جس جگہ پيدا ہوئے وہ خانہ کعبہ ہے اور جس جگہ اس دنيا کو فزت و رب الکعبہ کہہ کر ظاہري طور پر آنکھ بند کي وہ مسجد کوفہ ۔کعبے سے زيادہ مقدس جگہ کا مجھے نہيں پتہ اور مسجد کي محراب ميں شہادت سے بڑے رتبے کا بھي مجھے علم نہيں ہے۔
ميںبہت زيادہ لکھ گيا۔اگر ايک مفکر کا قول نقل کر ديتا تو بات شروع ہونے سے پہلے ہي ختم ہو جاتي۔ندائے عدالت اسلامي کا مصنف مسلمان نہ ہوتے ہوئے بھي لکھتا ہے کہ ’’ميں چاليس سال صرف اس کوشش ميں رہا کہ کسي بھي کتاب سے علي عليہ السلام کي ايک غلطي يا ايک خامي تلاش کرلوں۔ليکن چاليس سال کي تحقيق اور مطالعے کے بعد بھي ميں وہيں کھڑا ہوں جہاں چاليس سال پہلے تھا‘‘
يہ کتاب جو آپ کے ہاتھوں ميں ہے کسي پیشاور مصنف کي لکھي ہوئي نہيں ہے بلکہ يہ ايک ايسے شخص کے خطبات کا گلدستہ ہے جو نام کا بھي علي ہے ، اورکام و پيروي ميں بھي علي کا صحيح جانشين ہے جي ہاں آپ نے صحیح پہچانا نائب بر حق امام زماں(عج) حضرت آیت العظميٰ سید علي حسیني خامنہ اي دامت برکاتہ۔يہ آپ کے ان خطبوں کے چند ٹکڑے ہيں کہ جن کي للکار سن کر امريکہ کے وہائٹ ہاؤس سے ليکر اسرائيل کے ايوانوں تک سب پر لرزہ طاري ہو جاتا ہے۔
اس کتاب کي خاص بات يہ ہے کہ علي عليہ السلام کي زندگي کے اُن پہلوؤں پر روشني ڈالي گئي ہے کہ جن پر بہت کم کام ہوا ہے اور اتفاقاً آج کل کے معاشرے ميں اس کي بہت ضرورت ہے۔انتہائي مشکل سياسي مسائل کو تحليل کر کے نہايت سادہ زبان ميں بيان کيا گيا ہے۔جو آج کل کے تمام سياستدانوں بلکہ زندگي کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے انسان کے ليے مشعل راہ ہے۔يہ کتاب توليٰ، تبريٰ،عبادت اور تبليغ دین کا چھوٹا سا مجموعہ ہے۔
آخر ميں مرکز حفظ و نشر آثار ولایت کے صدر حجۃ الاسلا م والمسلمين مولانا سید باقر مہدي رضوي صاحب کا شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے يہ کتا ب ترجمہ کرواکے آل جموں و کشمير شيعہ ايسوسي ايشن کے حوالے کي۔اور حجۃ الا سلام والمسلمين مولانا عمران رضا انصاري صاحب نے اس کتاب کو چھاپنے کي ذمہ داري کو قبول فرمايا۔خدا ان کي توفيقات ميں اضافہ فرمائے۔اور ہم سب کو علي عليہ السلام کي طرح زندگي گزارنے کي اور ان کے نقش قدم پر چلنے کي توفيق عطا فرمائے۔
سيد بلال حيدر کاظمي
مصادف با ١٣۔رجب المرجب۔١٤٢٦ھ
معارف علوم اسلامي۔شعبہ حوزہ علميہ قم
|