تاریخ اسلام سے مثالیں
تاریخ اسلام میں رسول اکرم(ص )کی ذات کے ساتھ مسلمانوں کی شدید محبت اور شیدائی کی واضح اور بے نظیر مثالیں ہم دیکھتے ہیں۔ بنیادی طور پر انبیاء (ع) اور فلسفیوںکے مکتب کے درمیان فرق یہی ہے کہ فلسفیوں کے شاگرد صرف متعلم ہیں اورفلسفی ایک معلم سے بڑھ کر کوئی نفوذ نہیں رکھتے۔ لیکن انبیاء (ع) کا نفوذایک محبوب کے نفوذ کی قبیل سے ہے۔ ایسا محبوب جس نے محب کی روح کی گہرائیوں تک راہ پائی اور اس پر قبضہ کر رکھاہے اور اس کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر اس کی گرفت ہے۔ رسول اکرم(ص) کے عاشقوں میں سے ایک ابوذر غفاری ہےں۔ پیغمبر(ص) نے تبوک (مدینہ کے شمال میں سو فرسخ اور شام کی سرحدوں کے قریب) کی طرف کوچ کرنے کاحکم دیا۔ بعض لوگوں نے حیلہ تراشی کی اور منافقین کام خراب کرنے لگے۔ (مسلمان) فوجی ساز و سامان سے خالی اور راشن کی ایسی تنگی اور قحط کا بھی شکار ہیں کہ کبھی کئی آدمی ایک خرما پر گزارہ کرتے تھے، لیکن سب خوش اور زندہ دل ہیں۔ عشق نے انہیںطاقتور بنا رکھا اور رسول اکرم(ص) کے جذبے نے انہیں قدرت عطا کر رکھی ہے۔ ابوذر نے بھی اس لشکر کے ساتھ تبوک کی جانب کوچ کیا ہے۔ راستے میں سے تین آدمی یکے بعد دیگرے واپس چلے گئے۔ جو بھی واپس چلا جاتا، پیغمبر اکرم(ص) کو اس کی اطلاع دی جاتی اور ہر بار پیغمبر(ص) فرماتے:
اگر اس میں کوئی نیکی ہے تو خدا اسے واپس بھیجے گااور اگر ا س میں کوئی نیکی نہیںہے تواچھا ہوا چلا گیا۔
ابوذر کا کمزور اور لاغر اونٹ مزید چل نہ سکا۔ لوگوں نے دیکھا کہ ابوذر بھی پیچھے رہ گیا ہے۔ یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! ابوذر بھی چلاگیا۔آپ (ص)نے پھر وہی جملہ دہرایا:
اگر اس میں کوئی نیکی ہے تو خدا اسے واپس بھیجے گااور اگر ا س میں کوئی نیکی نہیںہے تواچھا ہوا چلا گیا۔
فوج اپنا راستہ چلتی رہی اور ابوذر پیچھے رہ گیاتھا، لیکن بغاوت نہیں بلکہ اس کا جانور چلنے سے رہ گیا۔ اس نے جتنی کوشش کی اس نے حرکت نہیں کی۔ وہ چند میل پیچھے رہ گیا ہے۔ اس نے اپنا اونٹ چھوڑ دیا، اپنا سامان کاندھے پر اٹھایا اوراس گرم ہوا میں پگھلا دینے والی ریت پر چلنا شروع کر دیا۔ پیاس ایسی تھی کہ اسے مارے ڈالتی تھی۔ اس نے ایک ٹیلے پر پہاڑ کی اوٹ میں دیکھا کہ درمیان میں بارش کاپانی جمع ہے۔ اس نے چکھا اور اسے بہت ٹھنڈا اور میٹھا پایا۔ اپنے آپ سے کہا: میں اسے اس وقت تک نہیں پیوں گا جب تک میرے محبوب اور اللہ کے رسول(ص) اسے نہ پی لیں۔ اس نے اپنی مشک بھرلی، اسے بھی کاندھے پر اٹھایا اور مسلمانوں کی طرف دوڑا۔
لوگوں نے دور سے ایک سایہ دیکھا اور کہا: اے اللہ کے رسول(ص)! ہم ایک سائے کو دیکھ رہے ہیں جو ہماری طرف آرہا ہے۔ فرمایا یقیناً ابوذر ہوگا۔ وہ اور قریب آیا۔ جی ہاں ابوذر ہی تھے۔ لیکن تھکاوٹ اور پیاس سے ان کے پاؤں لڑکھڑا رہے ہیں یہاں تک کہ وہ پہنچے اور پہنچتے ہی گر پڑے۔ پیغمبر(ص) نے فرمایاا: اسے جلد پانی دو۔ اس نے ایک دھیمی آواز میں کہا: پانی میرے ساتھ ہے۔ پیغمبر (ص) نے فرمایاا: پانی ہے اور تو پیاس سے ہلاک ہونے والا ہے؟جی ہاں اے اللہ کے رسول (ص)! میں نے پانی چکھا تو مجھے شرم آئی کہ اپنے محبوب اور اللہ کے رسول (ص) سے پہلے میں اسے پی لوں !(١)۔ سچ ہے۔کیا دنیا کے کس مکتب میں ایسی شیفتگی،بے قراری اور قربانی ہم دیکھتے ہیں؟!
دوسری مثال
ایسے بیقرار عاشقوں میں سے ایک بلال حبشی بھی ہےں۔ قریش مکہ انہیں ناقابل برداشت شکنجوں میں ڈالتے اور چلچلاتی دھوپ میں تپتے ہوئے پتھروں پر لٹا کر انہیں ایذا پہنچاتے اور انہیں بتوں کانام لینے اور بتوں پر ایمان اور محمد (ص) سے بیزاری کا اعلان کرنے کے لیے کہتے۔ مولانارومی نے مثنوی کی جلد ششم میں اس کی داستان تعذیب بیان کی ہے اور انصاف کی بات یہ ہے کہ مولانارومی کا یہ بھی شاہکار ہے۔ کہتا ہے کہ حضرت ابوبکر انہیں مشورہ دیتے تھے کہ اپنی عقیدت کو پوشیدہ رکھیں لیکن ان میں پوشیدہ رکھنے کی تاب نہ تھی کہ عشق سرے سے سرکش اور خونی ہوتا ہے:
تن فدائی خار می کرد آن بلال خواجہ اش می زد برائی گوشمال
بلال اپنے جسم کو کانٹوں پر قربان کرتا تھا اس کا مالک اس کو سزاکے طور پر مارتا تھا
کہ شرا تو یاد احمد می کنی بندہئ بد مکر دین منی
تو کیوں احمد کو یاد کرتا ہے (اور کہتا) میرا غلام ہو کر میرے دین سے انکار کرتا ہے
می زد اندر آفتابش اور بہ خار اور ''احد،، می گفت بھرافتخار
وہ اسکو دھوپ میں کھڑا کرکے کانٹوں سے مارتا لیکن وہ فخر کے ساتھ ''احد،، پکارتا
-----------------------------------------------------------
١) بحار الانور جلد ٢١، ص ٢١٥۔٢١٦ طبع جدید
تاکہ صدیق آن طرف برمی گذشت! آن ''احد،، گفتن بہ گوش اور برفت
یہاں تک کہ صدیق (حضرت ابوبکر) اس طرف گذرا اور ''احد،، کہنے کی آواز اس کے کانوں تک پہنچی
بعد از آن خلوت بدیدش پندداد کز جہو دان خفیہ می دار اعتقاد!
پھر تنہائی میں (صدیق نے) اس کو مشورہ دیا کہ ان یہودیوں سے اپنا ایمان پوشیدہ رکھو
عالم السّر است پنہاں دار کام گفت کردم تو بہ پیشت ای ہمام
وہ (خدا ) رازوں کاجاننے والا ہے اپنا مقصد پوشیدہ رکھ اس نے کہا اے حضرت میںنےآپ کی نصیحت سے پہلے توبہ کی ہے
توبہ کردن زین نمط بسیار شد عاقبت از توبہ او بیزار شد
اس طری میری توبہ بہت ہوگئی ہے اورآخرکار وہ پشیمانی سے بیزار ہوا
فاش کردا، اسپردتن را در بلا کای محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ای عدوّ توبہ ہا
اپنے ک فاش کردیا اورجسم کو مصیبت کےسپرد کہاے محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) اے پشیمانیوں کے دشمن
ای تن من وی رگ من پر ز تو توبہ را گنجا کجا باشد در او
میرا یہ جسم اور اسکے ہر رگ میں تو ہی تو ہے اس میں پشیمانی کی گنجائش کہا ہے؟
توبہ رازین پس زردل بیرون کنم ازحیات خلد توبہ چون کنم؟
میں نے پشیمانی کو اس کے بعد اپنے دل سے باہر نکال پھینکا ہے میں ابدی زندگی سے کیوں پشیمان ہو جاؤں؟
عشق قہا راست و من مقہور عشق چون قمر روشن شدم از نور عشق
عشق قہار ہے اورمیںعشق کا مقہور میں عشق کے نور سے چاند کی طرح روشن ہوا ہوں
برگ کاہم در گفت ای تند باد من چہ دانم تا کجا خواہم فتاد
اے ہوائے تند میں تیرے ہاتھ میں ایک تنکے کی طرح ہوں مجھے کیا خبر کہ (بالآخر) میں کہاں گر پڑوں گا
گر ہلالم ور بلا لم می دوم مقتدی بر آفتابت می شوم
میں ہلال ہوں یا بلال تیرے آفتاب کی اقتدا میں دوڑتا ہوں
ماہ را باز فتی و زاری چہ کار در پی خورشید پوید سایہ وار
چاند کو غم وزاری سے کیا کام (وہ تو) سایہ کی طرح سورج کی پیچھے دوڑتا ہے
عاشقان در سیل تند افتادہ اند برقضای عشق دل بنہادہ اند
عاشق طوفانوں میں کود پڑے ہیں اور اپنے آپ کو عشق کے رحم و کرم پر چِھوڑ دیا ہے
ہمچو سنگ آسیا اندر مدار روز و شب گردان و نالان بی قرار
وہ چکی کے پاٹ کی طرح گھومتے ہیں دن رات نالہ کرتے اور بے قرار ہیں
ایک اور مثال:
اسلامی مورخین صدر اسلام کے ایک مشہور تاریخی حادثے کو ''غزوۃ الرّجیع،، اور جس دن یہ حادثہ ہوا اس کو ''یوم الرّجیع،، کا نام دیتے ہیں وہ ایک سننے والی اور دلکش داستان ہے قبیلہئ ''عضل،، اور ''قارۃ،، جن کی ظاہراً قریش کے ساتھ رشتہ داری تھی اور مکّہ کے قرب و جوار میں رہتے تھے ان کے کچھ لوگوں نے ہجرت کے تیسرے سا ل رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا! ''ہمارے قبیلے کے کچھ لوگ مسلمان ہوگئے ہیں، آپ مسلمانو ںکی ایک جماعت کو ہمارے درمیان بھیج دیجئے تاکہ وہ ہمیں دن کے معنی سمجھائیں۔ ہمیں قرآن کی تعلیم دیں اور اسلام کے اصول و قوانین ہمیں یادکرائیں۔،،
رسول اکرم نے اپنے اصحاب سے چھ اشخاص کو اس مقصد کے لیے ان کے ہمراہ بھیجا اور جماعت کی سرداری مرثد ابن ابی مرثد کو یا کسی ارو شخص کو جس کا نام عاصم بن ثابت تھا، سونپی۔ رسول خد کے بھیجے ہوئے لوگ اس گروہ کے ساتھ جو مدینہ آیا تھا، روانہ ہوگئے، یہاں تک وہ ایک مقام پر جو قبیلہئ ہذیل کی جائے سکونت تھا، پہنچے اور وہاں اتر گئے۔ رسول خد کے صحابی ہر طرف سے بے خبر آرام کر رہے تھے کہ اچانک قبیلہئ ہذیل کے ایک گروہ نے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ ان پر ننگی تلواروں کے ساتھ حملہ کردیا۔ معلوم ہوا کہوہ گروہجو مدینہ آیا تھا یا تو شروع سے ہی دھوکہ دینے کا ارادہ رکھتا تھا یا جب وہ اس مقام پر پہچنے تو لالچ میں پڑ گئے اور اپنی بدل ڈالا۔ بہرحال یہ ظاہر ہے کہ انہوں نے قبیلہ ہذیل کے ساتھ مل کر سازش کی اور ان کا مقصد ان چھ مسلمانوں کو گرفتار کرنا تھا۔ رسول کے صحابی جوں ہی معاملے سے آگاہ ہوئے تیزی سے اپنے ہتھیاروں کی طرف لپکے اور اپنے دفاع کے لیے تیار ہوگئے۔ لیکن ہذیلیوں نے قسم کھائی کہ ہمارا مقصد تمہیں قتل کرنا نہیں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ تمہیں قریش مکہ کے حوالہ کریں اور ان سے کچھ پیسے لے لیں، ہم اب بھی تمہارے ساتھ معاہدہ کرتے ہیں کہ تمہیں قتل نہیں کریں گے۔ عاصم ابن ثابت سمیت ان میںسے تین افراد نے یہ کہہ کر کہ ہم مشرک کے ساتھ معاہدے کی رسوائی قبول نہیں کریں گے۔ ان سے جنگ کی اور مارے گئے لیکن دوسرے تین افراد زید بن دئنہ ،خبیب بن عدی اور عبد اللہ ابن طارقنے کمزوری دکھائی اور ہتھیار ڈال دیئے۔ ہذیلیوں نے ان تین افراد کو مضبوط رسی سے باندھا اور مکہ کی طرف چل دیئے۔ مکہ کے نزدیک پہنچ کر عبداللہ بن طارق نے اپنے ہاتھ کی رسی سے چھڑا لیے اور تلوار کی طرف بڑھائے۔ لیکن دشمن نے موقعہ نہ دیا ارو اس کو پتھر مار کر ہلاک کردیا۔ زیداور خبیب مکہ لے جائے گئے اور ہذیل کے دو قیدیوں کے بدے میں جو اہل مکہ کے پاس تھے ان کو فروخت کردیا اور چل دیئے۔ صفوانابن امیہ قرشی نے زید کو اس شخص سے خرید لیا جس کے قبضے میں وہ تھا تاکہ بعد یا احد میں مارے جانے والے اپنے باپ کے خون کا انتقال لیتے ہوئے اسے قتل کرے۔ لوگ اس کو قتل کرنے کے لےے مکہ سے باہر لے گئے قریش کے لوگ جمع ہوگئے تاکہ ماجرا دیکھ لیں۔ زید کو لوگ قتل گاہ لے گئے۔ وہ مردانہ وار آگے بڑھا اور ذرا بھی نہ گھبرایا۔ ابو سفیان بھی تماشہ دیکھنے والوں میں شامل تھا اس نے سوچا کہ ان حالات میں زید کی زندگی کے آخری لمحات سے فائدہ اٹھانا چاہےے شاید وہ اس (زید) سے کوئی اظہار ندامت و پشیمانی یا رسول اکرم کی نسبت کسی نفرت کا اظہار کراسکے۔ وہ آگے بڑھا اور زید سے کہا:
''تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تو یہ پسندنہیں کرتا کہ اس وقت تیری جگہ محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہوتا اور ہم اس کی گردن اڑا دیتے اور تو آرام سے اپنے بیوی بچوں کے پاس چلا جاتا؟،،
زید نے کہا ''خدا کی قسم میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے پاؤں میں کوئی کانٹا بھی چبھے اور میں آرام سے اپنے گھر میں بیوی بچوں کے پاس بیٹھا رہوں۔،،
حیرت سے ابو سفیان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ دوسرے قریشیوں کی طرف منہ کرکے کہا:
''خدا کی قسم میں نے کسی کے دوستوں کو اس سے اس قدر محبت کرتے ہوئے نہیں دیکھا جس قدر محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے دوست اس سے محبت کرتے ہیں۔،،
تھوڑی دیر کے بعد خبیب ابن عدی کی باری آئی اس کو بھی لوگ پھانسی دینے کے لیے مکہ سے باہر لے گئے وہاں اس نے لوگوں سے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت چاہی لوگوں نے اجازت دے دی اس نے انتہائی خصوع و خشوع کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی اس کے بعد لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
''خدا کی قسم اگر یہ تہت نہ آتی کہ تم کہو گے کہ موت سے ڈرتا ہے، تو زیادہ نماز پڑھتا۔،،
لوگوں نے خبیب کو تختہ دار کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا۔ عین اسی لمحے خبیب بن عدی کی مکمل روحانیت میں ڈوبی ہوئی دلنواز صدا، جس نے سب کو متاثر کیا اور ایک گروہ نے تو خوف خدا سے اپنے آپ کو زمین پر گرا دیا، سنی گئی۔کہ وہ اپنے خدا سے مناجات کر رہا تھا:
اللھم انا قد بلغنا رسالۃ رسولک فبلغہ الغداۃ ھا یصنع بنا، اللھم احصھم عدوا وا قلتھم بدرا و لا تغادر منھم احدا۔
''خدا ہم نے تیرے رسول کی طرف سے عائد ذمہ داری پوری کردی ہے میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ آج صبح انہوں نے ہمارے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس سے اس (رسول) کو آگاہ کردے خدایا ان تمام ظالموں کو اپنی نظر میں رکھ اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردے اور ان میں سے کسی کو باقی نہ رکھ۔،،
ایک مثال اور:
جیسا کہ ہم جانتے ہیں احد کے واقعات مسلمانوں کے لیے غم انگیز صورت میں انجام کو پہنچے ستر مسلمان جن میں پیغمر کے چچاجناب حمزہ بھی شامل ہیں، شہید ہوگئے۔ ابتداء میں مسلمان فتحیاب ہوئے بعد میں ایک گروہ کی بد نظمی سے، جو رسول خد کی طرف سے ایک ٹیلے کے اوپر متعین تھا، مسلمان دشمن کے شکنجوں کا نشانہ بنے۔ ایک گروہ مارا گیا اور ایک گروہ منتشر ہوگیا اور تھوڑے سے ہی لوگ رسول اکرم کے گرد باقی رہ گئے۔ آخرکار اسی چھوٹے سے گروہ نے دوبارہ فوج کو جمع کیا اور دشمن کو مزید پیش قدمی سے روکا۔ خاص طور پر یہ افواہ کہ رسول اکرم شہید کردیئے گئے، مسلمانوں کے زیادہ تر پراگندہ ہونے کا سبب بنی مگر جوں ہی انہوں نے سمجھا کہ رسول اکرم زندہ ہیں ان ک روحانی
---------------------------------------------------------
١) سیرۃ ابن ہشام جلد دوم، ص ١٧٩۔١٧٣
قوت لوٹ آئی۔
کچھ زخمی عاقبت سے بالکل بے خبر زمین پر پڑے تھے۔ زخمیوں میں سے ایک سعد ابن ربیع تھا جس کو بارہ گہرے زخم لگے تھے۔ اسی اثنا میں بھاگ جانے والے مسلمانوں میں سے ایک سعد کے پاس پہنچا جبکہ سعد زمین پر پڑا ہوا تھا ارو اس سے کہاکہ میں نے سنا ہے پیغمبر مارے گئے ہیں۔ سعد نے کہا کہ:
''اگر محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) مارے گئے ہیں تو محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کا خدا تونہیں مارا گیا، محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کا دین بھی باقی ہے تو کیوں بیکاربیٹھا اور اپنے دین کا دفاع نہیں کررہا۔،،
ادھر رسول اکرم اپنے اصحاب کو جمع کرکے ایک ایک صحابی کو پکار رہے تھے کہ یہ دیکھیں کون زندہ ہے اور کون مارا گیا ہے؟ سعد ابن ربیع کو نہ پایا پوچھا کون ہے جو جائے اور مجھِے سعد ابن ربیع کے بارے میں کوئی صحیح اطلاع پہنچائے؟ انصر میں سے ایک نے کا میں حاضرہوں۔ جب انصاری پہنچا تو سعد کی زندگی کی مختصر رمق باقی تھی انصاری نے کہا کہ اے سعد مجھے پیغمبر نے بھیجا ہے کہ میں ان کو اطلاع دوں کہ تو زندہ ہے یا مرگیا؟ سعد نے کہا پیغمبر کو میرا سلام پہنچا دو اور کہہ دو کہ سعد مرنے والوں میں ہے کیونکہ اس کی زندگی کے چند لمحات سے زیادہ باقی نہیں ہیں پیغمبر سے کہہ دو کہ سعد نے کہا ہے:
''خدا تمہیں وہ بہترین جزا دے جو ایک پیغمبر کے لیے سزاوار ہے۔،،
اس کے بعد انصاری سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میری طرف سے تمام برادران انصار اصحاب پیغمبر کو بھی ایک پیغام پہنچا دو۔ کہہ دو کہ سعد کہتا ہے:
''خدا کے نزریک تمہارے پاس کوئی عذر نہ ہوگا کہ تہمارے پیغمبر صلعم کو کوئی گزند پہنچے اور تمہارے جسموں میں جان باقی ہو۔،،(١)
------------------------------------------------
١) شرح ابن ابی الحدید۔ چاپ بیروت ج سوم، ص ٥٧٤ و سیرۃ ابن ہشام جلد دوم، ص ٩٤
صدر اسلام کی تاریخ کے صفحات اس قسم کی شیفتگی ، عشق اور حسین واقعات سے پر ہیں۔ پوری انسانی تاریخ میں کوئی ایسا شخص نہیں پایا جاتا جو رسول اکرم کی طرح اپنے دوستوں، ہمعصروںاور اپنے بیوی بچوں کا محبوب و مراد ہو اور اس قدر وجدان کی گہرائیوںسے اسے چاہا ہو۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں کہتا ہے:
''کوئی بھی رسول اکرم کی باتیں نہیں سنتا مگر یہ کہ ان کی محبت اس کے دل میں گھر کر جاتی اور اس کا دل ان کی طرف مائل ہوجاتا اسی لیے قریش مسلمانوں کو مکہ میں قیام کے دور میں ''صباۃ،، (دیوانے) کہا کرتے تھے اور کہتے تھے:
نخاف ان یصبوا لو لید بن المغیرۃالی دین محمد
ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں ولید ابن مغیرہ محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے دین کو دل نہ دے بیٹھے
ولئن صبا الولید و ھو ریحانۃ قریش لیصبون قریش باجمعھا
اگر ولید جو قریش کا گل سرسبد ہے دل دے بیٹھا تو تمام قریش دل دے بیٹھیں گے۔ وہ کہا کرتے : اس کی باتوں میں جادو ہے اور شراب سے زیادہ مست کرنے والی ہیں وہ اپنے بچوں کو ان کے پاس بیٹھنے سے منع کرتے تھے کہ مبادا ان کی باتیں اور ان کی پرکشش شخصیت ان کواپنی طرف جذب کرلے۔ جب بھی پیغمبر کعبہ کے گرد حجر اسماعیل میں بیٹھ کر بلند آواز میں قرآن پڑھتے یا خدا کا ذکر کرتے تو وہ اپنے کانوں میں اپنی انگلیاں ٹھونس لیتے تاکہ سن نہ سکیں اور کہیں ان کی باتوں کے جادو میں نہ آئیں اوران کی طرف جذب نہ ہوں۔ وہ اپنے سروں کو کپڑے سے ڈھانپ لیتے اور چہروں کو چھپا لیتے کہ کہیں ان کی پرکشش جبین ان کو اپنی گرفت میںنہ لے۔ اسی لیے اکثر لوگ ان کی باتین سنتے ہی اور ان کی جھلک دیکھتے ہی اور ان کے الفاظ کی حلاوت چکھتے ہی اسلام لے آئے۔،،(١)
-----------------------------------------------------
١) شرح نہج البلاغہ جلد دوم، چاپ بیروت، ص ٢٢٠
اسلام کے تاریخی حقائق میں سے ایک جوہر، جو صاحب نظر، انسان شناس محقق، اور ماہر عمرانیات کو حیرت میں ڈالتا ہے وہ انقلاب ہے جو اسلام نے جاہل عربوں میں برپا کیا۔
معمول کے مطابق اور معمول کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ایسے معاشرے کی اصلاح کے لیے طویل عرصے کی ضرورت ہوتی ہے یہاں تک کہ رذائل میں پختہ پرانی نسل ختم ہو جائے اور ایک نئی نسل کی بنیاد رکھی جائے لیکن جذب و کشش کے اثر کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ ہم نے کہا ہے، (عشق) آگ کے شعلوں کی طرح مفاسد کی جڑوں کو جلا کر رکھ دیتا ہے۔
رسول خد کے اکثر صحابی آنحضرت سے عشق کرتے تھے اور یہ ہوائے عشق ہی ہے کہ طویل راستے ایک مختصر عرصے میں طے کئے اور ایک تھوڑی سی مدت میں اپنے معاشرے کو بدل کر رکھ دیا۔
پر و بال ماکمند عشق اوست موکشا نش می کشد تا کوی دوست
اس کے عشق کی کمند ہمارے پر و بال ہیں یہ ہمیں کوئے دوست کی طرف کھینچتا ہے
من چگو نہ نور دارم پیش و پس چون نباشد نور یارم پیش و پس
میں کس طرح اپنا گردو پیش روشن کرسکتا ہوں جب تک گردو پیش میرے دوست کی روشنی نہ ہو
نور او دریمن و یسر و تحت و فوق برسرو برگردنم چون تاج و طوق
اس کی روشنی ہی دائیں بائیں اور اوپر نیچے ہے وہی میرے سرکا تاج اور گلے کا طوق ہے
علی علیہ سلام کی محبت قرآن و سنت میں
گذشتہ بحثوں میںمحبت کی تاثیر اور اس کی قدر و قیمت واضح ہوگئی اور ضمناً یہ بھی معلوم ہوا کہ پاک طینت لوگوں کے ساتھ ارادت خود منزل نہیں بلکہ اصلاح اور تہذیب نفس کا ایک ذ ریعہ ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اسلام اور قرآن نے ہمارے لےے کسی محبوب کا انتخاب کیا ہے یا نہیں؟
قرآن سابقہ پیغمبروں کی بات نقل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ انہوں (انبیائ) نے ہمیشہ یہ کہا ''ہم لوگوں سے کوئی معاوضہ نہیں چاہتے ہمارا اجر صرف خدا پر ہے۔،، لیکن پیغمبر خاتم سے خطاب کرتا ہے:
قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربیٰ
(٤٢:٢٣)
''کہدو میں تم سے کوئی اجر رسالت نہیں مانگتا مگر میرے اقرباء سے محبت۔،،
یہ ایک سوال کا مقام ہے کہ کیوں سارے پیغمبروں نے کسی اجر کا مطالبہ نہ کیا اور نبی اکرم نے اپنی رسالت کا اجر طلب کیا اور لوگوں سے اپنے اقرباء کی محبت بطور اجر رسالت چاہی؟ قرآن خود اس سوال کا جواب دیتا ہے:
قل ماسئلتکم من اجر فہو لکم ان اجری الا علی اللہ۔ (٣٤:٤٧)
''کہہ دو جو اجر میں نے مانگا ہے وہ ایسی چیز ہے جس میں تمہارا اپنا فائدہ ہے، میرا اجر سوائے خدا کے کسی پر نہیں ہے۔،،
یعنی جو کچھ میں نے بہ عنوان اجر رسالت چاہا ہے اس کا فائدہ تمہیں پہنچے گا نہ کہ مجِھے، یہ دوستی خود تمہاری اصلاح اور تکامل کے لےے ایک کمند ہے اس کا نام ''اجر،، ہے لیکن در حقیقت ایسی بھلائی ہے جو میں تمہارے لیے تجویز کررہا ہوں۔ اس اعتبار سے کہ اہلبیت اور اقرباء پیغمبر وہ لوگ ہیں جو آلودگی کے قریب نہیں پھٹکتے اور ان کا دامن پاک و پاکیزہ ہے۔
طہارت و پاکیزگی کا خزینہ:
ان کے ساتھ عشق و محبت کا نتیجہ حق کی اطاعت اور فضائل کی پیروی کے علاوہ اور کچھ نہیں اور ان کی محبت ہی ہے ج واکسیر کی طرح ماہیت تبدیل کرتی اور کامل بناتی ہے۔ ''قُربیٰ،، سے مراد جو بھی ہو یہ بات مسلم ہے کہ علی علیہ سلام اس کا واضح ترین مصداق ہےں، فخرالدین رازی کہتا ہے:
زمخشری نے کشاف میں روایت کی ہے ''جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! وہ قرابت دار جن کی محبت ہم پر واجب ہے، کون ہیں؟ فرمایا علی علیہ سلام و فاطمہ اور ان کے بچے۔،،
اس روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ چار نفر ''اقربائ،، پیغمبر ہیں اور لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ ان کے ساتھ محبت ارو ان کا احترام کیا کریں اور اس مطلب پر چند پہلوؤں سے استدلال کیا جاسکتا ہے:
1 آیت ''الا المودۃ فی القربیٰ،،
2 اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر فاطمہ کو بہت زیادہ چاہتے تھے اور فرماتے تھے ''فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے وہ مجھے آزار پہنچاتا ہے جو اسے آزار پہنچائے،، اور علی علیہ سلام و حسنین کوبھی دوست رکھتے تھے، جیسا کہ اس سلسلے میں بہت سی متواتر روایات پہنچی ہیں، پس ان کی محبت ساری امّت پر فرض (١) ہے کیونکہ قرآن فرماتا ہے:
''واتبعوہ لعلکم تھتدون ۔ (اعراف نمبر ١٥٨)
یعنی ''پیغمبر کی پیروی کرو تاکہ تم راہ ہدایت پا جاؤ۔،،
اور پھر فرماتا ہے:
''ولقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ
(سورہئ احزاب آیت نمبر ٢١)
''تمہارے لیے اللہ کے رسول کی ذات میں بہترین نمونہ ہے۔،،
یہ سب (آیات) دلیل ہے کہ آل محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ___ جو علی علیہ سلام و فاطمہ اور حسنین ہیں، کی محبت تمام مسلمانوں پر واجب (٢) ہے۔ علی علیہ سلام کی محبت اور دوستی کے سلسلے میں پیغمبر سے اور بھی بہت سی روایات ہم تک پہنچی ہیں:
1 ابن اثیر نقل کرتا ہے پیغمبر نے علی علیہ سلام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاا:
''اے علی علیہ سلام خدا نے تم کو ایسی چیزوں سے زینت دی ہے کہ اس کے بندوں کے نزدیک ان سے زیادہ محبوب اور کوئی زینت نہیں ہے
------------------------------------------------------
١) پیغمبر کی ان سے محبت شخصی پہلو نہیں رکھتی یعنی صرف اس لیے نہیں ہے کہ مثلاً آپ کی اولاد یا اولاد کی اولاد ہے اور یہ کہ ان کی جگہ اگر اور لوگ ہوتے توپیغمبر ان کو چاہتے بلکہ پیغمبر اس لیے ان کو دوست رکھتے تھے کہ وہ مثالی افراد تھے اور خدا ان کو دوست رکھتا تھا ورنہ پیغمبر کی اور بھی اولاد تھی جن سے نہ خود ان کو اس طرح کی محبت تھی اور نہ امّت پر اس طرح فرض ہے۔
٢) التفسیر الکبیر فخر الدین رازی۔ ج ٢٧، ص ١٦٦، چاپ مصر
دنیا سے کنارہ کشی نے تجھے اتنا سکون دیا کہ نہ تو دنیا کی کسی چیز سے بہرہ مند ہوتا ہے اور نہ وہ تجھ سے، تجھے مساکین کی محبت بخشدی، وہ تیری امامت پر خوش ہیں اور تو ان کی اطاعت و پیروی پر خوشحال ہے وہ شخص جو تجھ کو دوست رکھتا ہے اور تیری دوستی میں سچا ہے اور افسوس ہے اس پر جو تجھ سے دشمنی رکھتا ہے اور تیرے خلاف جھوٹ بولتا ہے۔،،(١)
2 سیوطی روایت کرتا ہے کہ پیغمبر نے فرمایاا:
''علی علیہ سلام کی دوستی ایمان ہے اور اس کی دشمنی نفاق،،(٢)
3 ابو نعیم روایت کرتا ہے کہ پیغمبر نے انصار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاا:
''کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ دکھاؤں کہ اگر تم نے اس کو مضبوطی سے تھام لیا تو میرے بعد ہر گز گمراہ نہیں ہوگے؟ انہوں نے کہا: کیو ںنہیں اے اللہ کے رسول!
فرمایا!
یہ علی علیہ سلام ہیں ان سے محبت کرو جس طرح مجھ سے محبت کرتے ہوئے اوراس کا احترام کرو جس طرح میرا احترام کرتے ہو کیونکہ خدا نے جبرئیل کے ذریعہ مجئے حکم دیا ہے کہ یہ بات تمہیں بتادوں۔،،(٣)
-------------------------------------------------
١) ساد الغابہ، ج ٤، ص ٢٣
٢) کنز العمال جمع الجوامع سیوطی، ج ٢، ص ١٥٦
٣) حلتہ الاولیائ، ج ١،ص ٦٣۔ اس سلسلے میں روایات بہت زیادہ ہیں اور ہم نے اہلسنت کی کتابوں میں نوے سے زیادہ ایسی روایات دیکھی ہیں جن کا موضوع علی علیہ سلام کی محبت اور دوستی ہے اور کتب شیعہ میں یہی بہت زیادہ روایات آئی ہیں اور مجلسی مرحوم نے بحار الانوار ج ٣٩، چاپ جدید میں ''حبّ و بغض امیر المومنین،، کے بارے میں ایک باب رکھا ہے اور اس باب میں ١٢٣ روایات نقل کی گئی ہیں۔
نیز اہل سنت نے پیغمبر اکرم سے کئی روایتیں نقل کی ہیں کہ ان روایتوں میں علی علیہ سلام کے چہرے کی طرف دیکھنا اور علی علیہ سلام کی فضیلت بیان کرنے کو عبادت قرار دیا گیا ہے۔
1 محب طبری حصرت عائشہ سے روایت کرتا ہے انہوں نے کہا:
''میں نے اپنے باپ کو دیکھا کہ علی علیہ سلام کی چہرے کی طرف بہت زیادہ دیکھتے میں نے کہا بابا جان! میں دیکھتی ہوں کہ آپ علی علیہ سلام کے چہرے کی طرف بہت زیادہ دیکھتے ہیں؟ انہوں نے کا اے میری بیٹی! میں نے پیغمبر خاد سے سنا ہے کہ فرمایاا ''علی علیہ سلام کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔،،(١)
2 ابن حجر حضرت عائشہ سے روایت کرتا ہے کہ پیغمبر نے فرمایاا:
''میرا بہترین بھائی علی علیہ سلام ہے اور بہترین چچا حمزہ ہے اور علی علیہ سلام کا ذکر اور اس کی فضیلت بیان کرنا عبادت ہے۔،،(٢)
علی علیہ سلام لوگوں میں خدا و رسول کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں اور لازمی طور پر بہترین محبوب ہیں۔
انس ابن مالک کہتا ہے:
ہر روز انصار کے بچوں میں سے ایک پیغمبر کے کاموں کو انجام دیا کرتا تھا، ایک روز میری باری تھی امّ ایمن نے ایک بھنا ہوا پرندہ پیغمبر کی خدمت میں پیش کیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول اس پرندے کو میں نے خود پکڑا ہے اور آپ کی خاطرپکایا
---------------------------------------------------
١) الریاص النصرۃ ج ٢، ص ٢١٩ اور تقریبا ٢٠ روایات اسی موضوع پر ہم نے دیکھیں جو کتب اہل سنت س نقل کی گئی ہیں۔
٢) الصواعق المحرقہ ص ٧٤ اور اس موضوع پر پانچ اور روایات اہل سنت کی مختلف کتابوں سے نقل کی گئی ہیں۔
ہے۔ حضرت نے فرمایاا خدایا! اپنے محبوب ترین بندے کو بھیج دے کہ وہ میرے ساتھ مل کر یہ مرغ کھائے۔ اسی اثناء میں دروازہ کھٹکھٹایا گیا پیغمبر نے فرمایاا انس دروازہ کھول! میں نے اپنے دل میں کہا خدا کرے یہ کوئی انصاری ہو لیکن میں نے دروازے کے پیچھے علی علیہ سلام کو دیکھا، میں نے کہا کہ پیغمبر ایک کام میں مشغول ہیں اور واپس آکر اپنی جگہ کھڑا ہوگیا۔ دوبارہ دروازہ کھٹکھٹایا گیا پیغمبر نے فرمایاا دورازہ کھول دو۔ میں پھر دعا کرتا تھا کہ کوئی انصاری ہو۔ میں نے دورازہ کھولا دوبارہ علی علیہ سلام تھے۔ میں یہ کہہ کر کہ پیغمبر کام میں مشغول ہیں واپس آگیا اور اپنی جگہ کھڑا ہوگیا۔ دروازہ پھر کھٹکھٹایا گیا پیغمبر نے فرمایاا: جاؤ او ردروازہ کھول دو اور اس کو گھر میں لے آؤ تو پہلا شخص نہیں ہے جو اپنی قوم سے محبت کرتا ہے وہ انصاری نہیں ہے۔ میں گیا اور علی علیہ سلام کو گھر لے آیا اور انہوں نے پیغمبر کے ساتھ بھنا ہوا پرندہ کھالیا۔ میں گیا۔ (مستدرک الصحیحین ج ٣، ص ١٣١۔ یہ واقعہ مختلف انداز میں اٹھارہ سے زیادہ طریقوں سے اہلسنت کی معتبر کتابوں میں نقل کیا گیا ہے)
جاذبہئ علی علیہ سلام کا راز
دلوں میں علی علیہ سلام کی دوستی اور محبت کی رمز کیا ہے؟ محبت کا راز آج تک کوئی کشف نہیں کرسکا ہے یعنی اس کا کوئی فارمولا نہیںبنایا گیا اور کہا جاسکتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو ایسا ہوگا اور ایسا ہوا تو ایسا، لیکن ایک راز ہے ضرور۔ مےحبوب میں ایسی کوئی چیز ضرور ہے جس کا حسن چاہنے والے کی نظر کو خیرہ کردیتا ہے اور اس کو اپنی طرف کھینچتا ہے جاذبہ ارو محبت کو بلند سطح پر عشق کہا جاتا ہے علی علیہ سلام دلوں کے محبوب اور انسانوں کے معشوق ہیں۔ کیوں؟ کس لحاظ سے؟ علی علیہ سلام میں کونسی غیرمعمولی چیز ہے کہ عشق کے جذبات کو ابھارتی اور دلوں کو اپنا شیدا بناتی ہے۔ علی علیہ سلام کیونکر ابدی زندگی کا انداز لیے ہوئے ہمیشہ کے لیے زندہ ہیں؟ دل کیوں علی علیہ سلام کی طرف کھینچتے ہیں اور ان کو اصلاً مردہ نہیں محسوس کرتے بلکہ زندہ پاتے ہیں؟
یہ بات مسلم ہے کہ ان کی محبت کا اثاثہ ان کا جسم نہیں ہے کیوں کہ ان کا جسم اس وقت ہمارے درمیان نہیں ہے ار ہم ان کو محسوس نہیں کرتے اور پھر علی علیہ سلام کی محبت ہیرو پرستی کی قسم سے نہیں ہے جو ہر قوم میں موجود ہے۔ یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ علی علیہ سلام کی محبت اخلاقی اور انسانی خوبیوں کے ساتھ محبت کی وجہ سے ہے اور علی علیہ سلام سے محبت انسانیت سے محبت ہے۔ یہ درست ہے کہ علی علیہ سلام انسان کامل کا مظہر ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ انسان انسانیت کی اعلیٰ مثالوں کو دوست رکھتاہے لیکن اگر علی علیہ سلام ان تمام انسانی فضائل کے حامل ہوتے جوکہ وہ تھے وہ حکمت، وہ علم، وہ فدا کاریاں، وہ ایثار، وہ تواضع و انکساری، وہ ادب، وہ ادب، وہ لطف و محبت، وہ ضعیف پروری، وہ عدالت، وہ حریت پسندی، وہ احترام انسانیت، وہ شجاعت، وہ مروت و مرادنگی جو دشمن کی نسبت تھی اور بقول مولوی:
در شجاعت شیرِ ربّا نسیتی در مروت خود کہ داند کیستی؟
تم شجاعت میں شیر خدا ہو لیکن نہ معلوم مروت میں کیا ہو؟
وہ سخاوت اور جود و کرم ۔۔۔ اگر علی علیہ سلام یہ تمام (صفات) رکھتے جیسا کہ رکھنے تھے اور رنگ الہی نہ رکھتے، تو مسلماً اس قدر مہر و محبت پیدا کرنے والے نہ ہوتے جیسے کہ آج ہیں۔ علی علیہ سلام اس اعتبار سے محبوب ہیں کہ خدا کے ساتھ ان کا تعلق ہے۔ ہمارے دل غیر شعوری طور پر پوری گہرائی کے ساتھ حق کے ساتھ پیوستہ ہیں اور چونکہ علی علیہ سلام کو حق کی عظیم نشانی اور صفات حق کا مظہر سمجھتے ہیں، اس کے ساتھ عشق کرتے ہیں۔ در حقیقت عشق علی علیہ سلام کے پیچھے حق کے ساتھ روح کا وہ رشتہ ہے جو ہمیشہ فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے اور چونکہ فطرت جاودانی ہے، علیج کی محبت بھی جاوداں ہےٍ۔
علی علیہ سلام کے وجود میں روشن پہلو بہت زیادہ ہیں لیکن جس چیز نے علی علیہ سلام کو ہمیشہ درخشندہ اور تاباں قرار دے رکھا ہے وہ ان کا ایمان اور اخلاص ہے اور یہی ہے جس نے ان کو جذبہئ الہیٰ دے دیا ہے۔
علی علیہ سلام کی فداکار اور دلدادہ خاتون سودئ ہمدانی نے معاویہ کے سامنے علی علیہ سلام پر درود بھیجا اور ان کی شان میں کہا:
صلے الالہ علی روح تضمنہا قبرفا صبح فیہ العدل مدفونا
قد حالف الحق لا یبغی بہ بدلا فصار بالحق و الایمان مقرونا
''اس وجود پر خدا کی رحمت ہو جس کو مٹی نے لے لیا اور اس کے ساتھ عدل بھی دفن ہوگیا اس نے حق کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ اس کا کوئی نعم البدل نہ ہو پس حق اور ایمان کے قریب ہوا۔،،
''صعصعہ بن صوحان عبدی،، بھی علی علیہ سلام کے عاشقوں میں سے ایک تھا وہ ان چند لوگوں میں سے ایک تھا جنہوں نے اس رات علی علیہ سلام کی تدفین میں شرکت کی تھی۔ حضرت کو دفن کرنے اوران کے جسم مبارک کو خاک کے اندر چھپانے کے بعد صعصعہ نے اپنا ایک ہاتھ اپنے سینے پر مارا اور دوسرے ہاتھ سے سر میں مٹی ڈالتے ہوئے کہا:
''تجھے موت مبارک ہو! تیری جائے پیدائش پاک تھی۔ تیرا صبر طاقتور اور تیراجہاد عظیم۔ تو نے اپنی فکر پر غلبہ پالیا اور تیری تجارت منافع بخش رہی۔،،
تو اپنے پیدا کرنے والے کا مہمان ہوا اور اس نے تجِھے خوشی سے قبول کیا اور اس کے فرشتے تیرے گرد جمع ہوگئے۔ پیغمبر کی ہمسائیگی میں جاگزیں ہوا اور خدا نے تجھے اپنے قریب جگہ دی اور تو اپنے بھائی مصطفیٰ کے درجہ کو جا پہنچا اور اس نے جام لبریز سے تجھے سیراب کیا۔
ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ہم تیری پیروی کریں اور تیری روش پر عمل کریں تیرے دوستوں کو دوست اور تیرے دشمنوں کو دشمن رکھیں اور تیرے دوستوں کے ساتھ محشور ہوں۔
تو نےوہ پالیا جو دوسرے نہ پاسکے اور وہاں پہنچا جہاں دوسرے نہ پہنچ سکے تو نے اپنے بھائی کے سامنے جہاد کیا اور دین حدا کے لیے شایان طریقے سے قیام کیا یہاں تک کہ تو نے سنتوں کو برپا کیا اور خرابیوں کی اصلاح کی اور ایمان و اسلام منظم ہوگیا تجھ پر بہترین رحمتیں ہوں۔
تیرے وسیلے سے مؤمنوں کی پیٹھ مضبوط ہوئی اور راہیں روشن ہوگئیں اور سنتیں قائم ہوگئیں کسی نے بھی اپنے اندر تیری رفعتوں اور فضیلتوں کو جمع نہ کیا۔ تونے پیغمبر کی نداپر لبیک کہی اور ایسا کرنے میں اوروں پر سبقت حاصل کی تو اس کی مدد کےلئے لپکا اور اپنی جان سے اس کی حفاظت کی۔ خوف و خطر کے موقعوں پر اپنی شمشیر ذوالفقار کے ساتھ تو نے حملے کئے اور ظالموں کی کمر توڑ دی۔ کفر اور شرک کی بنیادوں کو مسمار کردیا اور گمراہوں کو خاک و خون میں لٹا دیا پس مبارک ہو اے مؤمنوں کے سردار۔
تو سب لوگوں سے زیادہ پیغمبر کے قریب تھا، تو ہی وہ پہلا شخص ہے جس نے اسلام قبول کیا، تو یقین سے سرشار، دل محکم اور سب سے زیادہ فدا کاری کرنے والا تیرا حصہ نیکی میں سب سے زیادہ تھا، خدا ہمیں تیری مصیبت کے اجر سے محروم نہ کرے اور تیرے بعد ہمیں رسوا نہ کرے۔
''خدا کی قسم تیری زندگی نیکیوں کی کنجی تھی اور شر کے یے قفل اور تیری موت ہر شر کے لےے کنجی اور ہر خیر کے لیے قفل ہے۔ اگر لوگ تجھے قبول کر بیٹھے ہوتے تو زمین اور آسمان سے ان پر نعمتوںکی بارش ہوتی لیکن انہوں نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کو منتخب کیا۔،،(١)
جی ہاں! لوگوں نے دنیا کو منتخب کیا اور وہ علی علیہ سلام کے عدل اور عز م کی تاب نہ لا سکے اور آخر کار ایسے ہی لوگوں کی آستین سے جمود اور عصبیت کے ہاتھ باہر نکل آئے اور علی علیہ سلام کو شہید کردیا۔
علی علیہ السّلام دوست اور چاہنے والے ایسے دیوانوں کے سلسلے میں جنہوں نے ان کی محبت کی راہ میں سردیا ہے اور جو سولی پر لٹکائے گئے، اپنا کوئی نظیر نہیں رکھتے تاریخ اسلام کے صفحات کو ان شگفتہ، خوبصورت اور حیرت انگیز کارناموں پر فخر ہے زیاد ابن ربیہ اس کا بیٹا عبداللہ، حجاج ابن یوسف متوکل عباسی اور ان سب سے بڑھ کر معاویہ ابن ابی سفیان جیسے لوگوں کے مجرم اور ناپاک ہاتھ کہنیوں تک انسانیت کے ان سپوتوں کے خون سے آلود ہیں۔
-----------------------------------------------------------
١) بحار الانوار جلد ٤٢، ص ٢٩٥۔٢٩٦ چاپ جدید
|