معاشرے میں محبت کی قوت
اجتماعی نقطہئ نظر سے محبت کی قوت ایک عظیم اور مؤثر قوت ہے۔ بہترین معاشرہ وہ ہے جو محبت کی قوت سے چلایا جائے۔ حاکم اور منتظم لوگوں سے اور لوگ حاکم اور منتظم سے محبت کرتے ہوں۔
حکمران کی محبت حکومت کی زندگی کے ثبات اور اس کی پائداری کا ایک عظیم عامل ہے اور جب تک محبت کا عنصر نہ ہو کوئی رہنما کسی معاشرے کی رہبری اور لوگوں کی قانونی نظم و ضبط کے تحت تربیت نہیں کر سکتا یا بہت مشکل سے کر سکتا ہے، اگرچہ وہ اس معاشرے میں عدل و مساوات کو جاری و ساری بھی کرے۔ لوگ صرف اس وقت تک قانون کی پابندی کرتے ہیں جب تک وہ یہ دیکھتے ہیں کہ حکمران کو ان سے محبت ہے اور یہی محبت ہے جو لوگوں کو پیروی اور اطاعت پر آمادہ کرتی ہے۔ قرآن پیغمبر (ص) سے خطاب کرتا ہے کہ تم لوگوں کے درمیان نفوذ حاصل کرنے اورمعاشرے کو چلانے کے لیے ایک عظیم قوت رکھتے ہو:
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَ اسْتَغْفِرْلَہُمْ وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرٍ(١)
آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تند خو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے، پس ان سے درگزر کرو اور ان کے لیے طلب مغفرت کرو اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کرو۔
--------------------------------------------
(١) ٣ آل عمران : ١٥٩
یہاں پر پیغمبر (ص) کی طرف لوگوں کی رغبت کی وجہ اس مہر و محبت کو قرار دیا گیا ہے جو لوگوں کی نسبت پیغمبر اکرم (ص) عام فرماتے تھے۔ پھر یہ حکم دیا جاتا ہے کہ ان کی بخشش کے لیے استغفارکی جائے اور ان کے ساتھ مشورہ کیا جائے۔ یہ سب محبت اور دوستی کی علامتیں ہیں۔ جس طرح کہ نرمی، برداشت اور تحمل سب محبت اور احسان کے پہلو ہیں۔
اوبہ تیغ حل چندین خلق را
اسنے حلم کی تلوار سے اتنے لوگوں کو سدھارا
وا خرید از تیغ ، چندین حلق را
جبکہ لوہے کی تلوار اتنے ہی گلے کاٹتی
تیغ حلم از تیغ آہن تیز تر
حلم کی تلوار لوہے کی تلوارسے زیادہ تیزہے
بل ز صد لشکر، ظفر انگیز تر(١)
بلکہ سو لشکر سے زیادہ فتح کرنے والی ہے
------------------------------------------------------
(١) مثنوی معنوی
اور پھر قرآن فرماتا ہے:
وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَ لَا السَّیِّئَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہ، عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہ، وَلِیٌّ حَمِیْمٌ . (١)
اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتیں۔ آپ (بدی ) کو بہترین طریقے سے دفع کریں تو آپ دیکھ لیں گے کہ آپ کے ساتھ جس کی عداوت تھی وہ گویا نہایت قریبی دوست بن گیا ہے
بہ بخش ای پسر کاد میزادہ مید
اے میرے بیٹے معاف کر دے
بہ احسان تو ان کرد، وحشی بہ قید
کہ آدمی کو احسان سے اور درندے کو جال سے شکار کیا جا سکتا ہے
عدو را بہ الطاف گردن بہ بند
دشمن کو مہربانی کے ذریعے جھکا دے
کہ نتوان بریدن بہ تیغ این کمند(٢)
کہ یہ کمند تلوار سے نہیں کاٹی جا سکتی
امیر المومنین علیہ السلام مالک اشتر کو مصر کی گورنری پر مقرر کرنے کے بعد لوگوں کے ساتھ روش کے ضمن میں یوں ہدایت فرماتے ہیں:
----------------------------------------------------------
(١) ٤١ فصلت: ٣٤ (٢) سعدی، بوستان
و اشعر قلبک الرحمۃ للرعیۃ و المحبۃ لہم و اللطف بہم ... فاعطہم من عفوک و صفحک مثل الذی تحب ان یعطیک اللہ من عفوہ و صفحہ (١)
اپنے دل میں لوگوں کے لیے محبت و ہمدردی اور مہربانی کا جذبہ بیدار کر... اپنے عفو و درگزر سے انہیںاس طرح فائدہ پہنچا جس طرح تو چاہتا ہے کہ خداوند عالم اپنے عفو و درگزر سے تجھے فائدہ پہنچائے۔
حکمران کے دل کو ملت کے ساتھ محبت و ہمدردی کا گھر ہونا چاہیے۔ صرف طاقت اور زور کافی نہیں ہے۔ طاقت اور زور کے ساتھ لوگوں کو بھیڑوں کی طرح ہنکانا تو ممکن ہے لیکن ان کی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کر کے ان سے کام لینا ممکن نہیں ہے۔ نہ صرف یہ کہ قدرت و زور کافی نہیں ہے بلکہ انصاف کا اجراء بھی اگر روکھے طریقے سے ہو توکافی نہیں ہے۔ حکمران کا ایک مہربان باپ کی طرح دل سے لوگوں کو دوست رکھنا اور ان سے ہمدردی جتانا ضروری ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ (حکمران) ایک جاذب اور دل موہ لینے والی شخصیت کا مالک ہو تاکہ لوگوں کی محبت، ہمت اور ان کی عظیم انسانی صلاحیتوں کو آگے بڑھا سکے اور ان سے اپنے ہدف کی خدمت کاکام لے سکے۔
------------------------------------------------------
(١)نہج البلاغہ، نامہ ٥٣
تہذیبِ نفس کا بہترین وسیلہ
عشق و محبت کے باب میں گزشتہ مباحث صرف مقدمہ تھیں اور اب ہم آہستہ آہستہ نتیجے تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ ہماری اہم ترین بحث ... جو در حقیقت ہماری اصل بحث ہے، یہ ہے کہ اولیاء کے ساتھ عشق و محبت اور نیکو کاروں کے ساتھ دوستی رکھنا بذاتِ خود ہدف ہے یا تہذیب نفس، اصلاحِ اخلاق اور انسانی فضائل اور رفعتوں کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔
عشق حیوانی میں، عاشق کی تمام تر نظر اور توجہ معشوق کی صورت، اعضاء کے تناسب اور اس کی جلد کے رنگ اور رعنائی پر ہوتی ہے۔ یہ ایک کشش ہے جو انسان کو اپنی طرف کھینچتی اور مجذوب بناتی ہے۔ لیکن اس کشش سے جی بھر جانے کے بعد یہ آگ پھر نہیں بھڑکتی، بلکہ سرد پڑ جاتی اور (بالآخر) بجھ جاتی ہے۔ لیکن عشق انسانی، جیساکہ ہم نے پہلے کہا ہے، حیات اور زندگی ہے، اطاعت کرانے اور پیروکار بنانے والا اور یہ عشق ہے جو عاشق کو معشوق کے ہمرنگ بناتا ہے اور وہ کوشش کرتا ہے کہ وہ معشوق کا ایک جلوہ ہو اور اس (معشوق) کی روش کا ایک عکس ہو۔ جس طرح کہ خواجہ نصیر الدین طوسی شرح اشارات بو علی میں کہتے ہیں:
و النفسانی ھوالذی یکون مبدئہ مشاکلۃ نفس العاشق لنفس المعشوق فی الجوھر و یکون ا کثر عجابہ بشمائل المعشوق لانھا آثار صادرۃ عن نفس... و ھو یجعل النفس لینۃ شیقۃ ذات و جد و رقۃ منقطعۃ عن الشواغل الدنیویہ (١)
روحانی عشق وہ ہے جس کی بنیاد عاشق اور معشوق کی ذات میں ہمرنگی پر ہو۔ عاشق کی زیادہ تر توجہ معشوق کی روش اور اس کے (دل) سے ظاہر ہونے والے تاثرات پر رہتی ہے۔ یہ وہ عشق ہے جو روح کو نرم، پر شوق اور سرشار بنا دیتا ہے۔ (یہ روح میں) ایسی رِقت پیدا کر دیتا ہے جو عاشق کو دنیوی آلودگیوں سے بیزار کردیتی ہے۔
محبت مشابہت اور ہمرنگی کی طرف لے جاتی ہے اور اس کی طاقت چاہنے والے کے اپنے محبوب کے ہمرنگ ہونے کا سبب بنتی ہے۔ محبت ایک ایسے برقی تار کی مانند ہے جو محبوب کے وجود سے چاہنے والے کو متصل کر دیتا ہے اور محبوب کی صفات کو اس میں منتقل کر دیتا ہے اور یہی مقام ہے جہاں محبوب کا انتخاب بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اسی لیے اسلام نے دوست تلاش کرنے اور دوست بنانے کے موضوع میں سخت اہتمام کیا ہے اور اس ضمن میں بہت سی آیات اور روایات وارد ہوئی ہےں۔ کیونکہ دوستی ہمرنگ بنانے والی،(محبوب کو)خوبصورت جتانے والی اور (اس کے عیوب سے) غافل کر دینے والی ہوتی ہے۔ جہاں (محبت) اپنا پرتو ڈالتی ہے (عاشق) کو عیب ہنر اور خار، گل و یاسمن نظر آتا(٢) ہے۔ بعض آیات و روایات میں ناپاک اور آلودہ لوگوں کی ہم
----------------------------------------------------------------
(١) شرح اشارات، ج ٣، ص ٣٨٣ طبع جدید
(٢) عشق کی چند خامیاں بھی ہیں۔ ان خامیوں میں سے ایک یہ ہے کہ عاشق، معشوق کے حسن میں اتنا غرق ہو جاتا ہے کہ اس کی خامیوں سے غافل ہو جاتا ہے۔ حب الشئی یعمی و یصم یعنی کسی شئی کی محبت (آدمی کو) اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔ و من عشق شیأا اعشی بصرہ و امرض قلبہ۔ (نہج البلاغہ)
یعنی جو کسی چیز سے عشق کرتا ہے تو اس کی آنکھیں ناقص ہو جاتی ہیں اور دل مریض ہوتا ہے۔
سعدی گلستان میں کہتا ہے: ''ہر شخص کو اپنی عقل کامل اور اپنا بچہ خوبصورت نظر آتا ہے۔،،اس منفی اثر سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی جو ہم نے متن میں پڑھی ہے کہ عشق کا نتیجہ ہوش و ادراک کا حساس ہوجانا ہے۔ ہوش کی حساسیت اس اعتبار سے ہے کہ (عشق)انسان کو کاہلی سے نکالتا اور ' 'امکان '' کو ''عمل '' تک پہنچاتا ہے۔ لیکن عشق کا منفی اثر یہ نہیں ہے کہ آدمی کو کاہل بناتاہے، بلکہ (یہ ہے کہ) آدمی کو غافل بنا دیتا ہے ۔ کاہلی کا مسئلہ غفلت سے الگ ہے۔ اکثر اوقات کم عقل لوگ متوازن جذبات کے نتیجے میں کم غافل ہوتے ہیں۔ عشق، فہم کو تیز تر کرتا ہے لیکن توجہ کو یک جہت اور یکسو کر دیتا ہے اور اسی لیے متن میں کہا گیا ہے کہ عشق کی خاصیت یکسو کر دینا ہے اور یہی یکسوئی اور ارتکاز ہے جس کی وجہ سے خامی پیدا ہوجاتی ہے اور دوسرے امور کی طرف توجہ میں کمی آجاتی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر، عشق نہ صرف عیب کو چھپاتا ہے بلکہ عیب کو حسن کا جلوہ بھی دیتا ہے۔ کیونکہ عشق کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ جہاں اس کا پرتو پڑ جائے اس جگہ کو خوبصورت بنا دے۔ حسن کے ایک ذرے کو آفتاب، بلکہ سیاہ کو سفید اور ظلمت کو نور کا جلوہ دیتا ہے اور بقول وحشی:
اگر در کاسہئِ چشمم نشینی!
اگر تم میری آنکھوں میں بیٹھ جاؤ
بجز از خوبیئ لیلیٰ نہ بینی
تو لیلیٰ کے حسن کے علاوہ اور کچھ نہ دیکھو گے
اور اس کی وجہ ظاہراً یہ ہے کہ عشق علم کی طرح نہیں ہے جو سو فیصد معلوم کے تابع ہو۔ عشق کا داخلی اور نفسیاتی پہلو اس کے خارجی اور ظاہری پہلو سے زیادہ (شدید) ہے یعنی عشق کا میزان حسن کے میزان کے تابع نہیں ہے بلکہ زیادہ تر عاشق کی استعداد اور اس کی صلاحیت کے میزان کے تابع ہے۔ در حقیقت عاشق ایسی صلاحیت اور مادے کا حامل اور راکھ کے اندر (پوشیدہ) ایسی آگ (آتش زیر خاکستر) ہے جو بہانہ اور موقعہ کی تلاش میں پھرے اور جوں ہی کوئی موقعہ ملے اور اتفاق ہاتھ آئے۔ (اگرچہ) ابھی اس اتفاق کا راز معلوم نہ ہوا، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ عشق کی کوئی دلیل نہیں ہوتی، وہ داخلی قوت اپنا اثر دکھانے لگتی ہے اور اپنی توانائی کے حساب سے (محبوب کے لیے) حسن بناتا (مقرر کرتا) ہے نہ کہ اس حساب سے جتنا محبوب کے اندر حُسن ہے۔ یہی بات ہے جسے ہم متن میں پڑھتے ہیں کہ عاشق کی نظر میں معشوق کا عیب، ہنر اور خار، گُل و یاسمن ہے۔
نشینی اور دوستی سے سخت منع کیا گیا ہے اور بعض آیات و روایات میں نیک دل لوگوں کے ساتھ دوستی کرنے کی دعوت دی گئی ہے ۔ ابن عباس نے کہا کہ ہم پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں حاضر تھے ۔ لوگوں نے پوچھا کہ بہترین ہمنشین کون ہے؟حضور(ص) نے فرمایا:
من ذکرکم باللّٰہ رؤیتہ، و زادکم فی علمکم منطقہ، و ذکرکم بالآخرۃ عملہ۔ (١)
وہ جس کا دیدار تمہیں خدا کی یاد دلائے، جس کی گفتار تمہارے علم میں اضافہ کرے اور جس کا کردار تمہیں آخرت اور قیامت کی یاد دلائے ۔
انسان، نیکو کار اور پاک طینت لوگوں کی محبت کی اکسیر کا محتاج ہے کہ محبت کرے اور پاک طینت لوگوں کی محبت اسے اپنا ہمرنگ و ہم شکل قرار دے۔
------------------------------------------------------------
(١)بحار الانوار جلد ١٥، کتاب العشرہ ص ٥١ طبع قدیم
اصلاح اخلاق اور تہذیب نفس کے لیے مختلف طریقے تجویز کئے گئے ہیں اور گوناگوں مشرب (نظریات) پیدا ہو گئے ہیں۔ جن میں سے ایک سقراطی مشرب ہے۔ اس مشرب کے مطابق انسان کو چاہیے کہ اپنی اصلاح کے لیے عقل اور تدبیر کا راستہ اختیار کرے۔ انسان پہلے پاکیزگی کے فوائد اور پراگندہ اخلاق کے نقصانات پر مکمل یقین (ایمان) پیدا کرے، اس کے بعد عقل و منطق کے سہارے ایک ایک مذموم صفت کو تلاش کرے۔ اس شخص کی طرح جو اپنی ناک کے بال ایک ایک کر کے اکھیڑتا ہے یا اس کسان کی طرح جو اپنے کھیت سے غیر ضروری گھاس ایک ایک کرکے نکالتا ہے یا اس شخص کی طرح جو اپنی گندم سے ریت اور مٹی صاف کرنا چاہتا ہے اور یوں اپنے خرمن وجود کو پاک کرے۔ اس طریقے کے مطابق آدمی کو صبر، دقت اور سوچ سمجھ کر اخلاقی برائیوں کو تدریجاً زائل کرنا چاہےے اور یوں آلودگیوں سے اپنے وجود کا سونا پاک کرنا چاہےے اور شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ عقل کے لیے اس کام سے عہدہ برآ ہونا ممکن نہیں ہے ۔
فلسفی چاہتے ہیں کہ منطق اور طریق کار (Methodology) کے زور سے اخلاق کی اصلاح کی جائے۔ مثلاً وہ کہتے ہیں: عفت و قناعت لوگوں کے درمیان انسان کی عزت و وقار بڑھانے کا سبب ہیں اور حرص و لالچ ذلت اور پستی کا موجب ہیں یا وہ کہتے ہیں کہ علم قدرت اور طاقت کا موجب ہے۔ علم ایسا ہے علم ویسا ہے..۔ خاتم ملکِ سلیمان است علم۔ علم ایک ایسا چراغ ہے انسان کی راہ میں کہ جو راہ کو چاہ (کنویں) سے روشن کر دیتا ہے اور یا وہ کہتے ہیں کہ حسد اور بدخواہی روحانی بیمایاں ہیں۔ اجتماعی نقطہئ نظر سے ان کے برے نتائج نکلتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
شک نہیں ہے کہ یہ راستہ صحیح راستہ ہے اور یہ ایک اچھا ذریعہ ہے۔ لیکن سوال کسی دوسرے ذریعے کے مقابلے میں اس ذریعے کی قدر و قیمت کا ہے۔ مثلاً جس طرح ایک گاڑی اچھا ذریعہ ہے لیکن اسے ہوائی جہاز کے مقابلے میں دیکھنا چاہیے کہ اس وسیلے کی قدر و قیمت کیا ہے۔
ہمیں اس سے بحث نہیں ہے کہ رہنمائی کے نقطہئ نظر سے عقل کی قدر و قیمت کیا ہے یعنی اس نقطہئ نظر سے کہ اخلاقی مسائل کی واقعیت میں، عقلی اصطلاح میں استدلال (منطق) کس حد تک صحیح اور مطابق ہے اور یہ کہ (کس حد تک) خطا اور اشتباہ نہیں ہے۔ ہم اس قدر کہتے ہیں کہ اخلاقی اور اصلاحی فلسفے کے بے حد و بے شمار مکاتبِ فکر ہیں اور منطقی نقطہئ نگاہ سے یہ مسائل ابھی بحث اور اختلاف کی حد سے آگے نہیں بڑھے ہیں اور یہ پھر بھی ہم جانتے ہیں کہ اہل عرفان کلی طور پر کہتے ہیں:
پای استدلالیان چوبین بود
پای چوبین سخت بی تمکین بود
منطقیوںکے پاؤں لکڑی کے ہیںاور لکڑی کے پاؤں سخت بے اعتبار ہوتے ہیں۔
ہماری بحث فعلاً اس پہلو سے نہیں ہے بلکہ اس میں ہے کہ ان وسائل کے نتیجے کا وزن کیا ہے؟
اہل عرفان اور ارباب سیروسلوک عقل و منطق کی بجائے محبت و ارادت کا راستہ اختیار کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: '' ایک انسان کامل کو تلاش کرو اور اس کی محبت و عقیدت کو دل کی گہرائیوں میں بٹھا لو کہ یہ عقل و منطق کی راہ کے مقابلے میں زیادہ بے خطر ہے اور سریع تر بھی۔ '' موازنے کے مقام پر دو ذریعے قدیم دستی اور جدید مشینی اوزار کی مانند ہیں۔ دل سے اخلاقی برائیوں کو زائل کرنے میں محبت و عقیدت کی تاثیر ویسی ہے، جس طرح دھات پر کیمیائی مواد کا اثر ہوتا ہے۔ مثلاً ایک نقاش حروف کے کناروں کو تیزاب کے سہارے دور کرتا ہے۔ ناخن، چاقو کی نوک یا اس طرح کی کسی اور چیز سے نہیں۔ لیکن اخلاقی برائیوں کی اصلاح کے لیے عقل کی قوت کا اثر بالکل اس طرح ہے کہ ایک شخص فولاد کے ریزے، مٹی میں سے اپنے ہاتھوں سے الگ کرنا چاہتا ہو۔ یہ کس قدر تکلیف اور زحمت کا کام ہے؟ اگر اس کے ہاتھ میں ایک طاقتور مقناطیس ہو تو ممکن ہے کہ ایک ہی گردش میں وہ ان تمام ریزوں کو الگ کر لے۔ محبت و عقیدت کی قوت مقناطیس کی طرح تمام صفات رذیلہ کو یکجا کرکے دور پھینک دیتی ہے۔ اہل عرفان کے عقیدے میں پاک طینت اور کامل لوگوں کی محبت و عقیدت ایک خود کار آلے کی طرح خود بہ خود برائیوں کو یکجا کرتی اور پھر باہر گرا دیتی ہے۔ مجذوبیت کی حالت اگر اس مقام تک پہنچ جائے تو یہ بہترین حالت ہے اور یہی ہے جو روح کو صاف کرتی اور عظمت بخشتی ہے۔
جی ہاں! جو اس راہ پر چلے ہیں وہ محبت کی قوت سے اخلاق کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں اور وہ عشق و ارادت کی قدرت پر بھروسہ کرتے ہیں۔ تجربہ نشاندہی کرتا ہے کہ روح پر جتنا اثر نیک طینت لوگوں کی صحبت اور ان کی عقیدت و محبت سے پڑتا ہے اتنا اثر اخلاقیات کی سینکڑوں کتابیں پڑھ کر بھی نہیں ہو سکتا۔ مولوی نے محبت کے پیغام کو نالہئ نے (بانسری کی آواز) سے تعبیر کیا ہے وہ کہتا ہے:
ہمچونی زہری و تریاقی کہ دید؟
نے کی طرح کس نے زہر اور تریاق کو چکھا؟
ہمچونی دمساز و مشتاقی کہ دید؟
نے کی طرح کون دمساز اور مشتاق ہے ؟
ہرکرا جامہ ز عشقی چاک شد
شادباش ای عشق خوش سودایئ ما
او زِ حرص و عیب کلی پاک شد
ای طبیب جملہ علّتہائی ما(١)
-----------------------------------------------------
(١) ترجمہ گزر چکا ہے۔ مثنوی معنوی
کبھی ہم ایسے بزرگوں کو دیکھتے ہیں جن کے عقیدت مند ان کے راستہ چلنے، لباس پہننے، رویئے اور طرز گفتگو تک میں ان کی تقلید کرتے ہیں۔ یہ اختیاری تقلید نہیں بلکہ خود بخود اور فطری ہے۔ محبت و عقیدت کی قوت ہے جو عاشق کی تمام رگ و پے میں سرایت کر جاتی ہے اورہر لحاظ سے اسے محبوب کا ہمرنگ بنا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان کو اپنی اصلاح کے لیے کسی مرد حق کے پیچھے پھرنااور اس سے عشق کرناچاہیے تاکہ صحیح معنوں میں اپنی اصلاح کر سکے۔
گر در سرت ہوای وصال است حافظا
باید کہ خاک در گہِ اہل ہُنر شوی
حافظ اگر تجھے وصال (محبوب حقیقی) کی تمنا ہے تو کسی اہل ہنر کی درگاہ کی خاک بننا چاہیے۔
عشق سے پہلے کوئی شخص عبادت یا اچھا عمل کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو پھر بھی سستی اس کے ارکان ہمت میں راستہ پا جاتی ہے لیکن جب محبت و ارادت اس کے وجود میں آ گئی تو وہ سستی اور آرام طلبی رخصت ہو جاتی ہے اور اس کا ارادہ پختہ اور ہمت بلند ہو جاتی ہے ۔
مہرخوباں دل و دین از ہمہ بی پروا برد
رخ شطرنج نبرد آنچہ رخ زیبا برد
محبوب کی محبت نے دل اور دین سب سے بے پرواہ کر دیا۔ شطرنج نے نہیں بلکہ خوبصورت چہرہ یہ چیزیں لے اڑا۔
تومپندار کہ مجنون سرِ خود مجنون شد
از سمک تا بہ سماکش کشش لیلیٰ برد (١)
من بہ سرچشمہئ خورشید نہ خود بردم راہ
ذرّہئ ای بودم و عشق تو مرا بالا برد
میں خود سے آسمان پہ نہیں پہنچا ہوں۔میں تو ایک ذرہ تھا لیکن تیرے عشق نے مجھے اونچا کیا۔
خم ابروی تو بود و کف مینوی توبود
کہ درین بزم بگردید و دل شیدا برد(٢)
یہ تیرے ابرو کا خم اور تیرا نرم ہاتھ ہی تو ہے جو اس محفل میں آیا اور دل لے گیا۔
----------------------------------------------------------
(١) ترجمہ گزر چکا ہے (٢)علّامہ طباطبائی
تاریخ ایسے بزرگوں کا پتہ دیتی ہے کہ کامل لوگوں کے ساتھ عشق و عقیدت نے، کم از کم عقیدتمندوں کے خیال میں، ان کے جسم و جان میں انقلاب پیدا کیا ہے۔ مولانا رومی بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہیں۔ ابتداء میں وہ اس قدر پرسوز اور پرجوش نہیںتھے۔ ایک عالم تھے لیکن سرد مہری اور خاموشی کے ساتھ اپنے شہر کے ایک گوشے میں تدریس میں مشغول تھے۔ جس دن شمس تبریزی سے واسطہ پڑا اور ان کی عقیدت نے دل و جان میںجگہ بنائی،ان کو دگر گوں کر دیا۔ ان کے وجود میں ایک آگ بھڑک اٹھی، گویا ایک گولہ تھا جو بارود کے ذخیرے پر جا پڑا اور شعلے بھڑکنے لگے۔ وہ خود اشعری مسلک رکھنے والے ایک شخص ہیں لیکن ان کی مثنوی بے شک دنیا کی بزرگ ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس کے تمام اشعار ایک طوفان اور ایک تحریک ہیں۔ انہوں نے ''دیوان شمس '' اپنے محبوب کی یاد میں لکھا ہے۔ مثنوی میںبھی کثرت سے انہیں یاد کرتے ہیں۔ مثنوی مولانا رومی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مطلب بیان کرتے کرتے جونہی ''شمس '' کی یاد آتی ہے تو ان کی روح میں ایک سخت طوفان اٹھتا ہے اور ان کے وجود میں طوفانی لہریں پیدا ہو جاتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
این نفس جان دامنسم برتافتہ است
بوی پیراہان یوسف یافتہ است
اس جان نے میری روح کوجلا ڈالا ہے (جس طرح) اس نے پیرہن یوسف کی خوشبو پائی ہے
کز برائی حق صحبت سالہا
باز گو رمزی ازان خوش حالہا
سالہا سال کی صحبت کی خاطران خوش کن لمحات کا راز دھرا دے
تا زمین و آسمان خندان شود
عقل و روح و دیدہ صد چندان شود
تاکہ زمین اور آسمان خوش ہوجائے ۔عقل، روح اور آنکھیں سو گنا بڑھ جائیں
گفتم ای دور اوفتادہ از حبیب
ہمچو بیماری کہ دور است از طبیب
میں نے کہا اے وہ جو دوست سے دور ہے ۔اس بیمار کی طرح جو طبیب سے دور ہے۔
من چہ گویم یک رگم ہشیار نیست
شرح آن یاری کہ او را یار نیست
میں کیا کہوں میری کوئی رگ ہوش میں نہیں ہے۔ اس دوست کی باتیں جو اپنے دوست کو کھوچکا ہے۔
شرح این ہجران و این خون جگر
این زمان بگذار تا وقت دگر
اس فراق اور اس خون جگر کی باتیں۔ اس وقت بھول جا کسی اور وقت تک۔
فتنہ و آشوب و خونریزی مجو
بیش ازین از شمس تبریزی مگو(١)
فتنہ، مصیبت اور خونریزی مت چاہو۔ اس سے زیادہ شمس تبریزی کے بارے میں مت بولو۔
اور یہ (صورت حال)حافظ کے اس قول کا مکمل مصداق ہے:
بلبل از فیض گل آموخت سخن ورنہ نبود
این ہمہ قول و غزل تعبیہ در منقارش(٢)
یہاں سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ کوشش اور کشش یا فعّالیت اور انجذاب کو ساتھ ساتھ ہونا چاہیے، جذبے کے بغیر کوشش سے کوئی کام نہیں بنتا۔ جس طرح کوشش کے بغیر صرف کشش کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
--------------------------------------------------
(١) مثنوی معنوی (٢) ترجمہ گزر چکا ہے
|