دوسری فصل
مصر کی فتح اور محمد بن ابی بکر کی شہادت
عثمان کے قتل کے بعد شام کے علاوہ تمام اسلامی علاقے حضرت علی علیہ السلام کی حکومت میں شامل تھے ،امام علیہ السلام نے ٣٦ہجری اپنی حکومت کے پہلے سال قیس بن سعد بن عبادہ کو مصر کا حاکم مقرر کیا اور مصر روانہ کیا،(١) لیکن کچھ دنوں بعد امام علیہ السلام نے کسی وجہ سے انھیں اس منصب سے معزول کر کے اسی سال جنگ جمل کے بعد محمد ابن ابی بکر کو مصر کا حاکم معین کیا، اس سلسلے میں تاریخ نے امام علیہ السلام کے دوخط کا تذکرہ کیا ہے ایک خط حکومتی اعلان کے طورپر لکھا اور اُسے محمد بن ابی بکر کے ہاتھ میں دیا اور دوسرا جب آپ مصر میںمستقر ہوگئے تب روانہ کیا۔ دونوں خط کو مولف''تحف العقول'' نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے(٢)اسی طرح ابو اسحاق نے اپنی کتاب ''الغارات'' میںان دونوں خطوط کو نقل کیا ہے اور تحریر کیا ہے کہ پہلا خط یکم رمضان المبارک ٣٦ہجری کو لکھاگیاہے۔ دوسرا خط کتاب کے آخر میں تفصیل سے نقل ہوا ہے۔ امام علیہ السلام نے اس میں اسلام کے بہت سے احکام بیان کئے ہیں ۔ہم آئندہ دوسرے خط کے متعلق تفصیل سے بحث کریں گے اور یہ بھی بیان کرینگے کہ آخر کس طرح سے یہ خط معاویہ کے ہاتھ میں پہونچا اور پھر اس کے خاندان میں ہر شخص تک دست بہ دست یکے بعد دیگرے پھرتا رہا۔
امام علیہ السلام کے پہلے خط کا ترجمہ یہ ہے:
''خدا وند عالم کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے ،یہ فرمان خدا کے بندے علی امیر المومنین کی طرف سے محمد بن ابی بکر کے نام جب کہ انھیں مصر کی حکومت کی ذمہ داری سونپی ، میرا حکم ہے کہ تقوائے الھی اختیار کرو ، اس کی اطاعت خلوت و جلوت میںکرتے رہو،ظاہر و باطن میں اس سے ڈرو، مسلمانوں سے نرم مہربان اور بد کاروں سے سختی اور غصے سے پیش آئو ، اہل ذمہ کے ساتھ عدالت و مظلوموں کا حق دلواؤ اور ظالموں پر سختی کرو اور لوگوں کے ساتھ جتنا ممکن ہو عفو ودر گزر اور اچھائی سے پیش آئوکیونکہ خدا نیک لوگوں کو
_______________________________
( ١)تاریخ طبری ج٣،ص٤٦٢۔
( ٢) تحف العقول ص١٧٦،١٧٧۔
دوست رکھتا ہے اور برے لوگوں کو سزا دیتا ہے ۔
میں حکم دیتا ہو کہ محمد بن ابی بکر لوگوں کو مرکزی حکومت کی اطاعت و پیروی اور مسلمانوں اتحاد کی دعوت دیں کیو نکہ اس کام میں ان لوگوں کے لئے بہت زیادہ اجر و ثواب اور عافیت ہے جس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا اور نہ اسکی حقیقت و اصل کو پہچانا جاسکتا ہے۔
میں حکم دیتا ہوں کہ جس طرح سے زمین کا خراج (ٹیکس )پہلے لوگوں سے لیا جا تا تھا اسی طرح وصول کریں۔نہ اس میں کچھ کم کریں نہ اس میںکچھ زیادہ کریں اور پھر اسے مستحقین کے درمیان جیسے پہلے تقسیم ہوتا تھا تقسیم کریں ۔
میں حاکم کو حکم دیتا ہوں کہ لوگوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آؤ اور ان کے جلسوں میں سب کو ایک نظر سے دیکھو اور اپنوں اور پیرایوں میں حق کے لحاظ سے کوئی فرق نہ کرو ۔
میں اسے حکم دیتا ہو ں کہ لوگوں کے امور میں حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور عدالت کوقائم کرو، خواہشات نفسانی کی پیروی نہ کرو اور خدا کی راہ میں ملامتگروں کی ملامت سے نہ ڈرو کیونکہ خدا ان لوگوںکے ساتھ ہے جو متقی ہیںاور تمام لوگوں کی اطاعت پر اس کی اطاعت کو مقدم کریں،والسلام۔
یہ خط عبید اللہ بن ابی رافع کے ہاتھوں، جسے رسول خدا (ص)نے آزاد کیا تھا ،١رمضان المبارک ٣٦ ہجری کو لکھا گیا۔(١)
اس خط کی تاریخ جو قیس بن عبادہ کی معزولی سے قریب ہے اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ قیس کی حکومت بہت کم دنوں تک تھی کیونکہ امیر المومنین علیہ السلام ٣٥ ہجری کے آخر میں خلیفة المسلمین کے عنوان سے منتخب ہوئے اور یہ خط آپ کی حکومت کے آٹھ مہینے گزر جانے کے بعد لکھا گیا،جب یہ خط محمد بن ابی بکر کے ہاتھ میں پہونچا تو وہ مصر کے لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور تقریر کی اور امام علیہ السلام کا خط پڑھ کر لوگوںکو سنایا۔
محمد بن ابی بکر نے مصر سے اما م علیہ السلام کو خط لکھااور اس میں حرا م و حلال اور اسلامی سنتوں کے بارے میں سوال کیا اور حضر ت سے رہنمائی کی درخواست کی ۔انہوں نے اپنے خط میں امام علیہ السلام کو لکھا :
_______________________________
(١) الغارات ج ١،ص٢٢٤۔
''محمد بن ابی بکر کی طرف سے خدا کے بندے امیر المومنین علیہ السلام کے نام ،آپ پر درود و سلام ہو،وہ خدا کہ جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اس کا شکرگزار ہوں۔ اگر امیرالمومنین علیہ السلام مصلحت سمجھیں تو مجھے ایک ایسا خط لکھیں جس میں واجبات کا تذکرہ کریں اور اسلام کے قضاوتی احکام کو لکھیں کیونکہ کچھ جیسے میںلوگ اس مسئلے میں مبتلا ہیں ،خدا وند عالم امیر المومنین علیہ السلام کے اجر میں اضافہ کرے۔
امام علیہ السلام نے ان کے خط کے جواب میں قضاوت کے احکام ،احکام وضو، نماز کے (١) اوقات،امربالمعروف و نہی عن المنکر ، روزہ ،اعتکاف کے مسائل کے متعلق بہت سے مطالب کو تحریر کیا اور پھر نصیحت کے طورپر موت ،حساب اور جنت و جہنم کی خصوصیات کے متعلق مسائل تحریر کئے۔
مولف ِکتاب''الغارت'' نے امام علیہ السلام کے خط کی مکمل عبارت کواپنی کتاب میں تحریر کیاہے(٢)۔
ابواسحاق ثقفی لکھتے ہیں:
جب امام کا خط محمد بن ابی بکر کے پاس پہونچا تو ہمیشہ اس کو دیکھتے تھے اور اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے جس وقت عمر و عاص کے حملے میں محمد قتل ہوگئے تو وہتمامخطوط عمر وعاص کے ہاتھ میں پہ لگ گئے ، اس نے سب کو جمع کیا اور معاویہ کے پاس بھیج دیا۔ تمام خطوط کے درمیان اس خط نے معاویہ کو اپنی طرف زیادہ متوجہ کیا اور وہ اس میں بہت زیادہ غور و فکر کرنے لگا ،ولید بن عقبہ نے جب دیکھا کہ معاویہ بہت متعجب ہے تو اس نے کہا :حکم دو کہ اس خط کو جلا دیاجائے ،معاویہ نے کہا: خاموش رہ، اس کے بارے میں اپنا نظریہ پیش نہ کر، ولید نے معاویہ کے جواب میں کہا ،تو بھی اپنا نظریہ پیش کرنے کا حق نہیں رکھتا ،کیا یہ صحیح ہے کہ لوگ یہ سمجھ جائیں کہ ابوتراب کی حدیثیں تیرے پاس ہیں اور تو ان سیے درس حاصل کرتا ہے اور انھیں پڑھ کر فیصلہ کرتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر کیوں علی سے جنگ کر رہے ہو؟ معاویہ نے کہا: لعنت ہو تجھ ، پر مجھے حکم د ے رہا کہ ایسے علم کے خزانے کو جلا دوں ؟ خدا کی قسم اس سے زیادہ جامع، محکم ، واضح اور حقیقت پر مبنی علم میں نے آج تک نہیں سنا ہے۔ ولید نے اپنی بات دہرائی اور کہا:اگر علی کے علم اور قضاوت سے تجھے تعجب ہے تو کیوں اس سے جنگ کر رہے ہو؟ معاویہ نے کہا: اگر ابوتراب نے عثمان کو قتل نہ کیا ہوتا اور مسند
_______________________________
(ا)،(٢) الغارات ج ١، ص٢٢٤تا٢٥٠
علم پر بیٹھتے تو میں ان سے علم حاصل کرتا۔ پھر تھوڑی دیر خاموش رہا اور اپنے ساتھیوں پر نگاہ کی اور کہا: ہم ہرگز یہ نہیں کہیں گے کہ یہ خطوط علی کے ہیں، ہم تو یہ کہتے ہیں کہ یہ خطوط ابو بکر صدیق کے ہیں جو محمد کو وراثت میں ملے ہیں اور ہم اسی کے اعتبار سے فیصلہ کریں گے ۔اور فتوی دیں گے جی ہاں، امام علیہ السلام کے خطوط ہمیشہ بنو امیہ کے خزانوں میں تھے یہاں تک کہ حکومت عمر بن عبد العزیز کے ہاتھ میں آئی اور اس نے اعلان کیا کہ یہ خطوط علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی حدیثیں ہیں ۔
جب علی علیہ السلام کو مصر کی فتح اور محمد کے قتل ہوجانے کے بعد خبر ملی کہ یہ خط معاویہ تک پہونچ گیا ہے تو بہت زیادہ افسوس کیا۔عبد اللہ بن سلمہ کہتا ہے :امام علیہ السلام نے ہم لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہم نے آپ کے چہرے پر افسردگی کے آثار دیکھے ۔آپ ایسا شعرپڑھ رہے تھے جس میںگزشتہ باتوں پر افسوس تھا۔ہم نے امام سے پوچھا: اس سے آپ کا کیا مقصد ہے؟ امام نے فرمایا :میں نے محمد بن ابی بکر کو مصر کے لئے حاکم بنایا، اس نے مجھے خط لکھا کہ میں پیغمبر کی سنت سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتا لہذامیں نے اسے ایک ایسا خط لکھا جس میں رسولِ خدا کی سنت کی تشریح و وضاحت کی ،مگر وہ شھید ہوگیا اور خط دشمن کے ہاتھ لگ گیا۔
امام ـ کا والی اوربے طرف لوگ
مصر کے معزول محمد بن قیس کے زمانے میں کچھ لوگوں نے ان کی حکومت سے کنارہ کشی اختیارکرلی اور اپنے کو بے طرف تعارف کرایا(یعنی کسی بھی گروہ کے ساتھ نہیں ہیں) ۔جب محمد بن ابی بکر کی حکومت کو امہینہ گزرگیا تو انہوں نے بے طرف لوگوں کو دوکاموں میں اختیار دیا کہ یا تو حکومت کے ساتھ رہیں اور اس کی پیروی کرنے کا اعلان کریں، یا مصر کو چھوڑ کرچلے جائیں، ان لوگوں نے حاکم مصر سے کہا کہ ہمیں مہلت دیجئے تاکہ ہم اس کے بارے میں فکر کریں، لیکن حاکم نے ان کی باتوں کو قبول نہیں کیا ،وہ لوگ بھی اپنی بات پر اڑے رہے اور اپنا دفاع کرنے کے لئے تیار ہوگئے۔
حالات میںجنگ صفین شروع ہوگئی اور جب خبر ملی کہ امام علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان حکمین قرار دئے گئے ہیں اور دونوں فوجوں نے جنگ روک دی ہے تو اس گروہ کی جرأت حاکم پر اور زیادہ ہوگئی اور بے طرفی کی حالت سے نکل کر کھلم کھلا حکومت کی مخالفت کرنے لگے ۔حاکم نے مجبورہو کر دوآدمیوں بنام حارث بن جمہان اور یزید بن حارث کنانی کو بھیجا تاکہ ان لوگوں کو موعظہ و نصیحت کریں، لیکن یہ دونوں اپنا وظیفہ انجام دیتے ہوئے مخالفین کے ہاتھوں قتل ہوگئے،محمد بن ابی بکر نے تیسرے آدمی کو بھیجا اور وہ بھی اس راہ میں قتل ہوگیا۔
ان لوگوں کے قتل ہونے کی وجہ سے بعض لوگ بہت جری ہوگئے اور ارادہ کیاکہ شامیوں کی طرح ہم بھی عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے لوگوں کو دعوت دیں اور چونکہ مخالفت کا ماحول پہلے سے بنا ہوا تھالہذا دوسرے افراد بھی ان کے ساتھ ہوگئے نتیجہ یہ ہوا کہ سرزمین مصر ظلم وفساد کا شکار ہوگئی اور جوان حاکم، مصر کی حکومت پر صحیح طور پر قابو نہ پاسکا۔ امیر المومنین علیہ السلام مصر کے حالات سے باخبر ہوئے اور فرمایا صرف دو آدمی ہیں جو مصر میں امن و امان بحال کرسکتے ہیں ایک قیس بن سعد جو اس سے پہلے مصر کے حاکم تھے اور دوسرے مالک اشتر آپ نے یہ بات اس وقت کہی جب مالک اشتر کو سرزمین ''جزیرہ'' کا حاکم مقرر کرچکے تھے، قیس بن سعد ہمیشہ امام علیہ السلام کے ساتھ ساتھ رہتے تھے اور لیکن عراق میں جو فوج موجود تھی اس فوج میں اس کا رہنا ضروری تھا، اس لئے امام علیہ السلام نے مالک اشترکو خط لکھا وہ اس وقت عراق کی وسیع ترین سر زمین''نصیبین'' میں موجود تھے جو عراق اور شام کے درمیان واقع ہے ۔اس خط میں امام علیہ السلام نے اپنے اور مصر کے حالات کے بارے میں لکھا :''امابعد،تم ان لوگوں میں سے ہو جن کی مددو نصرت سے ہم دین کو مستحکم کرتے ہیں اور نافرمانوں کے تکبرکا قلع و قمع کرتے ہیں اور وحشناک راستوں کو صحیح کرتے ہیں ، نے محمد ابن ابی بکر کا مصر کو حاکم مقرر کیا تھا ، مگر کچھ لوگوں نے اس کی پیروی کرنے کے بجائے مخالفت کی اور وہ جوانی اور تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے ان پر کامیاب نہ ہوسکا ، جتنی جلدی ہو میرے پاس پہونچ جاؤ تاکہ جو کچھ انجا م دینا ہے اس کے بارے میں تحقیق کریں، اور کسی معتبر اور قابل اعتماد شخص کو اپنا جانشین معین کردو''۔
جب امام علیہ السلام کا خط مالک اشتر کو ملا تو انھوں نے شبیب بن عامر کو اپنا جانشین مقر ر کرکے امام علیہ السلام کی خدمت میں آگئے اور مصر کے ناگوار حالات سے آگاہ ہوئے۔ امام نے ان سے فرما یا جتنی جلد ی ممکن ہومصر جاؤ کیونکہ تمھار ے علاو ہ کسی کو اس کام کا اہل نہیں سمجھتا ۔میں تمھارے اند ر جو عقل اور درایت دیکھ رہا ہوں اس کی وجہ سے مجھے کسی چیز کی تاکید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اہم کاموں کی انجام دہی کے لئے خدا سے مدد طلب کرو اور سختی کو نرمی کے ساتھ استعمال کرو اور جتنا ممکن ہو خوش اخلاقی سے پیش آؤ اور جہاں پر صرف خشونت و سختی کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو وہاں اپنی طاقت کا استعمال کرو ۔
جب معاویہ کو خبر ملی کہ امام علیہ السلام نے مالک اشتر کو مصر کا حاکم بنایا ہے تو وہ گھبرا گیا کیونکہ وہ مصر کی حکومت پر قبضہ کرنا چاہتا تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ اگر مصر کی حکومت مالک کے ہاتھوں میں آگئی تو وہاں کے حالات محمد بن ابی بکر کے زمانے سے اس کے لئے اور بھی بدتر ہوجائیں گے۔ اس وجہ سے اس نے ایک طریقہ اپنایا اور خراج دینے والوں میں سے ایک شخصسے خراج کو معاف کرنے کا وعدہ کیا اور اس کے ذریعے سے مالک اشترکے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔مصر کے لوگوں نے اما م علیہ السلام سے درخواست کی کہ جتنی جلدی ہوسکے ایک دوسرا حاکم معین فرمائیں ۔امام علیہ السلام نے ان کے جواب میں لکھا:''خدا کے بندے علی امیر المومنین کی طرف سے مصر کے مسلمانوں کے نام، تم لوگوں پر سلام ، اس خدا کی تعریف جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں۔ میں نے ایسے شخص کو تمھاری طرف بھیجاہے جس کی آنکھوں میں خوف و ہراس کے دن بھی نیند نہیں، وحشت کے وقت ہرگز دشمن سے نہیں ڈر تا اور کفاروں کے لئے آگ سے زیادہ سخت ہے وہ مالک اشتر ،حارث کا بیٹا اور قبیلہ مذحج سے ہے، اس کی باتوں کو سنو اور اس کے فرمان کی جب تک حق باتیں کہے پیروی کرو، وہ خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جو کند نہیں ہوتی اور اس کی ضربت خطأ نہیں کرتی ،وہ اگر دشمن کی طرف جانے کا حکم دے تو فوراً روانہ ہوجاؤ اور اگر ٹھہرنے کا حکم دے تو ٹھہرجاؤ ، اس لئے کہ اس کا حکم میرا حکم ہے میں نے اسے تمھارے پاس بھیج کر تمھارے مفاد کو اپنے مفاد پر ترجیح دی ہے اس لئے کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں اور تمہارے دشمن کا سخت دشمن ہوں ۔(١)
امام علیہ السلام کا نیا نمائندہ اور حاکم لازمی ساز و سامان کے ساتھ مصر کے لئے روانہ ہوا اور جب ''قلزم'' (٢)نامی علاقے میں پہونچے جو فسطاط'' کی دو منزل کے فاصلہ پر ہے (٣) وہاں ایک شخص کے گھر میں قیام کیا اس شخص نے ان کی بڑی آؤ بھکت اور خاطر مدارات کی جس کی وجہ اس نے مالک اشتر کو
_______________________________
(١)نہج البلاغہ مکتوب نمبر ٣٨۔ الغارت ج١ ص٢٦٠۔
(٢) مصر کی طرف سے دریائے یمن کے کنارے ایک شہر ہے، قافلے وہاں سے مصر تک تین دن میں مسافت طے کرتے ہیں۔ (مراصد الاطلاع)۔
(٣) اسکندر یہ کے پاس ایک شہر ہے،(مراصد الاطلاع)۔
اپنے اعتماد میں لے لیا اور پھر شہد میں زہر ملا کر شربت بنایا اور مالک اشترکو پلادیا اسطرح سے خدا کی یہ تیز تلوار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نیام میں چلی گئی اور اپنی جان کو خدا کے حوالے کردیا ۔وہ ٣٨ ہجری میں سرزمین قلزم پر شہید ہوئے اور وہیں پر دفن ہوئے۔
یہ بات مسلم ہے کہ یہ میزبان کوئی معمولی شخص نہ تھا بلکہ پہچانا ہوا شخص تھا اسی وجہ سے مالک اشتر نے اس کے گھر میں قیام کیا،اسے مالک کے دشمن معاویہ نے پہلے ہی خرید لیا تھا۔(١)
بعض مؤرخین نے مالک اشتر کی شہادت کو تفصیل سے دوسرے طریقے سے لکھا ہے ،
جب معاو یہ کو یہ خبر ملی کہ امام نے مالک اشتر کو مصر کا حاکم معین کیا ہے تو اس نے ''قلزم'' کے ایک با رسوخ کسان سے کہا کہ جس طرح سے بھی ممکن ہو مالک کو قتل کردے اور جب مصر پر میرا قبضہ ہوجائیگا تو اس کے بدلے اسے مالیات (خراج)ادا کرنے سے معاف کردیگا معاویہ نے صرف اسی کام پر اکتفانہیں کیا بلکہ لوگوں کے جذبات کو قوت عطا کرنے اور یہ دکھانے کے لئے کہ وہ اور اس کے تمام پیر و خدا کی راہ میں قدم اٹھاتے ہیں شام کے لوگوں سے اس نے کہا کہ مسلسل مالک اشتر پر لعنت کریں اور خدا سے دعا کر یں کہ مالک کو نابود کردے کیونکہ اگر مالک قتل ہوگئے تو شام کے لوگوں کے لئے خوشی کا سبب ہوگا اور یہ سبب ہوگا کہ وہ لوگ اپنے رہبر پر زیاوہ اعتماد کریںگے۔
جب مالک اشتر ''قلزم'' پہونچے تو معاویہ کے خریدے ہوے خبیث نے مالک سے کہا کہ میرے گھر میں آرام کریں اور اپنے اعتماد کو مستحکم کرنے کے لئے کہا کہ تمام اخراجات کواپنے مالیات سے حساب کروں گا ،میزبان نے مالک کے گھر میں آنے کے بعد امام علیہ السلام سے اپنی دوستی و محبت کا اظہار کیا یہاں تک کہ اس نے مالک کے اعتماد کو حاصل کرلیا۔ اس نے مالک کے لئے دسترخوان بچھایا اور اس پر شہد کا شربت رکھا ۔ اس شربت میں اتنا زیادہ زہر ملا تھا کہ تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ مالک اشتر شہید ہوگئے۔
بہر حال جب معاویہ کو مالک اشتر کے قتل کی خبر ملی تو وہ منبرپرگیا اور کہا: اے لوگو ابوطالب کے بیٹے کے پاس دو مضبوط ہاتھ تھے جن میں سے ایک ہاتھ(عمار یاسر) جنگ صفین میں کاٹ دیا گیا اور دوسرا ہاتھ (مالک اشتر)آج کاٹ دیا گیا(٢)۔
_______________________________
(١)تاریخ ابن کثیر ج٧،ص٣١٣ (٢)۔ الغارت ج١، ص ٢٦٤ ، تاریخ طبری ج٧٢،۔ کامل ابن اثیرج ٣،ص٣٥٢۔
وہ موت جس نے بعض کو ہنسایا اور بعض کو رلایا
مالک اشتر کی شہادت پر شامیوں نے خوشی منائی کیونکہ وہ لوگ جنگ صفین کے سے ہی مالک اشتر سے کینہ رکھتے تھے لیکن جب انکی شہادت کی خبر امام علیہ السلام کو ملی تو آپ بے ساختہ بلند آواز سے رونے لگے اور فرمایا:''علیٰ مثلِکَ فَلْیَبْکِیْنَّ الْبَوا کِیْ یاٰ مالِکُ'' یعنی تمھارے جیسوں کے لئے عورتوں کو نوحہ و بکا کرنا چاہیئے ۔پھر فرمایا:''أین مثلُ مالک؟ یعنی مالک جیسا کوئی کہا ں ہے؟
پھر آپ منبر پر تشریف لے گئے اور تقریر فرمائی:
''ہم خدا کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جائیں گے تمام حمدو ثناخدا ہی کے لئے ہے کہ وہ اس دنیا کا پروردگار ہے۔ خدا یا! میں مالک کی مصیبت کا اجر تجھی سے چاہتا ہوں کیونکہ اس کی موت زمانہ کی سب سے بڑی مصیبت ہے ۔مالک پر خدا کی رحمتیں ہوں، اس نے اپنے عہدکو وفا کیا اور اپنی عمر کو ختم کیا اور اپنے رب سے ملاقات کی، ہم نے پیغمبر کے بعد باوجودیکہ اپنے کو آمادہ کر لیا تھا کہ ہر مصیبت پر صبر کریں گے ، اس حالت میں بھی یہی کہتے ہیں کہ مالک کی شہادت ایک بہت بڑی مصیبت ہے،(١)
فضیل کہتے ہیں:''جب مالک کی خبر شہادت حضرت علی علیہ السلام کو ملی تو میں آپ کی خدمت میں گیا ، دیکھا کہ بے حد اظہار افسوس کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں: خدایا! مالک کو بہترین درجہ عطا کر، واقعاً مالک کتنی اچھی شخصیت کے مالک تھے، اگر وہ پہاڑ تھے تو ایسا پہاڑ جس کی مثال نہیں اور اگر پتھر تھے تو بہت سخت پتھر ، خدا کی قسم ،اے مالک تمھاری موت نے ایک دنیا کو لرزہ براندام کردیا اور دوسری دنیا کو شاد و مسرور کردیا۔ مالک جیسوں کی شہادت پر عورتوں کونوحہ و بکا کرنا پڑھنا چاہیے، کیا کوئی مالک جیسا ہے؟
پھر آگے کہتے ہیں: علی علیہ السلام مسلسل اظہار افسوس کررہے تھے اور بہت دنوں تک آپ کے چہرۂ انور پر غم کے اثرات نمایاں تھے۔
_______________________________
(١) الغارت: ج١ ص ٢٦٤۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج٦،ص٧٧۔
امام علیہ السلام کا خط محمد بن ابی بکر کے نام
امام علیہ السلام نے جب مصر کی حکومت کی ذمہ داری محمد بن ابی بکر سے لیکر مالک اشتر کو سونپی تو محمد
کچھ ملول تھے جب محمد کے ملال کی خبر امام علیہ السلام کو ملی تو آپ نے محمد کو خط لکھا جس میں مالک اشتر کی شہادت کی خبر کے بعد ان کی دلجوئی فرمائی اورلکھا:
''مجھے خبر ملی ہے کہ مالک اشتر کو مصر اعزام کرنے کی وجہ سے تم رنجیدہ ہوگئے ہو لیکن میں نے اس کام کو اس لئے انجام نہیں دیا تھا کہ تم نے اپنی ذمہ داریوں میں غفلت یا کوتاہی کی ہے اور اگر میں نے تمھیں مصر کی حکومت سے معزول کیا ہے تو اسکے بدلے میں تمھیں کسی دوسری جگہ کا والی و حاکم قرار دوںگا جس کا چلانا کچھ مشکل اور سخت نہ ہوگا اور وہاں کی حکومت تمھارے لئے بہتر ہوگی،جس شخص کو میں نے مصر کی سرداری کیلئے چنا تھا وہ ہم لوگوں کے لئے خیر خواہ اور دشمنوں کے لئے بہت سخت تھا، خدا اس پر رحم کرے کہ اس نے اپنی زندگی بڑے آرام سے گذاری اور موت سے ملاقات کی جب کہ ہم اس سے راضی تھے، خدا بھی اس سے راضی ہواور اسے دوہرا ثواب عطا کرے ۔ اب اس وقت تم پر لازم ہے کہ دشمن سے جنگ کرنے کے لئے اپنی فوج کو شہر سے باہر بھیج دو اور وہیں پر پڑاؤ ڈال دواور عقل و خرد سے امور انجام دو اور جنگ کے لئے آمادہ ہوجاؤ، لوگوں کو خدا کی طرف آنے کی دعوت دو اور خدا سے مدد طلب کرو کہ وہ تمھارے اہم کاموں میں کافی ہے اور مصیبت کے وقت تمھارا مددگار ہے''۔(١)
محمد بن ابی بکر کا خط امام علیہ السلام کے نام
جب امام علیہ السلام کا خط محمد کو ملا تو انہوں نے امام علیہ السلام کو یہ خط لکھا:
''امیر المومنین علیہ السلام کاخط مجھے ملا اور اس کے مضمون سے آگاہ ہوا کوئی بھی شخص امیر المومنین کے دشمن پر مجھ سے زیادہ سخت اور ان کے دوستوں پر مجھ سے زیادہ مہربان نہیں ہے۔ میں نے شہر کے باہر پڑاؤ ڈالا ہے اور تمام لوگوں کو امان دیا ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ہم سے جنگ کرنے پر آمادہ ہیں اور ہم سے دشمنی کو ظاہر کررہے ہیں ۔ہر حال میں ،میں امیرالمومنین علیہ السلام کامطیع و فرماں بردار ہوں۔(٢)
_______________________________
( ا) الغارات ج١، ص٢٦٨۔
(٢)الغارات ج١، ص ٢٦٩۔
عمر و عاص کو مصر بھیجنا
معاویہ نے جنگ صفین ختم ہونے اور امیر المومنین علیہ السلام کی فوج میںخوارج کے ذریعہ اختلاف و تفرقہ ڈالنے کے بعد موقع غنیمت دیکھا کہ عمر وعاص کی سرداری میں اپنی فوج کو مصر روانہ کرے تاکہ مصر کو امیر المومنین علیہ السلام کے قبضے سے چھین لے ، اس نے یہ پُر خطر کا م انجام دینے کے لئے اپنی فوج کے بہت سے سرداروں کو دعوت دی اور ان میں عمروعاص ، حبیب بن مسلمہ فہری،بُسربن ارطاة عامری، ضحاک بن قیس اور عبد الرحمان بن خالد وغیرہ شامل تھے اور قریش کے علاوہ دوسرے افراد کو بھی مشورے کے لئے بلایا اور پھر اس نے مجمع کی طرف مخاطب ہوکر کہا :کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمھیں کیوں یہاں جمع کیا ہے؟
عمر و عاص نے اس کے راز کا پردہ فاش کرتے ہوئے کہا: تونے ہم لوگوں کو مصر فتح کرنے کے لئے بلایا ہے کیونکہ دہاں کی سرزمین بہت زرخیز ہے اور وہاں پر مالیات (خراج)بہت زیادہ ہے اور مصر کے فتح ہونے میں تمھاری اور تمھارے دوستوں کی عزت ہے۔
معاویہ، عمرو عاص کی تصدیق کرنے کے لئے اٹھا اور یاد دلایا کہ اس نے ابتدا میں عمر و عاص سے وعدہ کیا تھا کہ اگر علی پر میں نے فتح حاصل کر لی تو مصر کی حکومت اسے بخش دے گا، اس جلسہ میں بہت زیادہ گفتگو ہوئی اور بالآخر یہ طے پایا کہ مصر کے لوگوں کو، چاہے دوست ہوںیا دشمن بہت زیادہ خطوط لکھے جائیں دوستوں کو ثابت قدم رہنے اور مقابلے کا حکم دیا جائے اور دشمنوں کو صلح وخاموشی کا حکم دیا جائے یاجنگ کی دھمکی دی جائے، اس لئے معاویہ نے علی علیہ السلام کے دومخالفوں ، مسلمہ اور معاویہ کِندی کے نام خط لکھااور پھر عمروعاص کو ایک بڑی فوج کے ہمراہ مصر روانہ کیا۔ جب عمر و عاص مصرکی سرحد پر پہونچا تو عثمان کے چاہنے والوں نے اس کا استقبال کیا اور اس سے ملحق ہوگئے عمر وعاص نے وہیں سے مصر کے حاکم کے نام خط لکھا ''میں نہیں چاہتا کہ تم سے جنگ کروںاور تمھار ا خون بہاؤں،مصر کے لوگ تمھاری مخالفت پر متفق ہیں اور تمھاری پیروی کرنے سے پشیمان ہیں''۔
عمر و عاص نے اپنے اور معاویہ کے خط کو محمد کے پاس بھیجا ۔مصر کے حاکم نے دونوں خط پڑھنے کے بعد امام علیہ السلام کے پاس بھیج دیا اپنے خط میں شام کی فوج کے مصر کی سرحد پر پہونچنے کی خبر دی اور لکھا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ مصر کی حکومت آپ کے ہاتھ میں رہے تو میری مالی اور فوجی مدد کیجیے۔
امام علیہ السلام نے مصر کے حاکم کو مقابلہ کرنے کی تاکید کی
پھر محمد بن ابی بکر نے عمر و عاص اور معاویہ کے خط کا جواب دیا اور بالآخر مجبور ہوئے کہ لوگوں کو اکٹھا کر کے لشکر ترتیب دیں اور عمرو عاص کی فوج کے مقابلہ کے لئے جائیں۔
ان کی فوج کے اگلے دستہ میں دو ہزار آدمی تھے جس کی سرداری کنانہ بن بُشر کر رہے تھے اور خود بھی اس کے بعد دوہزار کی فوج لے کر اس کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔ جب مصر کی فوج کے اگلے دستہ نے شام کی فوج کا سامنا کیا شام کی فوج کو درہم برہم کردیا لیکن فوج کی کمی کی وجہ سے کمزور پڑگیا، کنانہ اپنے گھوڑے سے اترآئے اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک ایک کر کے دشمنوں سے جنگ کرنے لگے اور اس آیت کی تلاوت کرتے شہید ہوگئے:
''وما کان لنفسٍ أن تموت الاّٰ بِاذنِ اللّٰہ کتاباً مؤ جَّلاً ومَنْ یردْ ثوابَ الدُّ نیا نُؤ تِہِ منھا ومنْ یُردْ ثواب الا خِرة نُؤتِہِ مِنھا و سَنجِزی الشا کرِین'' (آل عمران :١٤٥)
''اور بغیر حکم خدا کے تو کوئی شخص مرہی نہیں سکتا وقت معین ہر ایک کی موت لکھی ہوئی ہے اور جو شخص (اپنے کئے کا) بد لہ دنیا میں چاہے تو ہم اس کو اس میں سے دیدیتے ہیں اور جو شخص آخرت میںبد لہ چاہے اسے اسی میں سے دینگے اور (نعمت ایمان کے) شکر کرنے والوں کو بہت جلد ہم جزائے خیر دیں گے''۔
محمد بن ابی بکر کی شہادت
کنانہ بن بشر کی شہادت کی وجہ سے شام کی فوج میں جرأت پید ا ہوگئی اور سب نے یہ طے کیا کہ آگے بڑھتے رہیں اور محمد بن ابی بکر کی چھائونی کی طرف جائیں ،جب ان کی چھائونی پر پہونچے تو دیکھا کہ محمد کے ساتھی مختلف جگہوں پر منتشر ہو گئے ہیں ، محمد خود مضطرت اور سرگرداںہیں یہاں تک کہ ایک کھنڈر میں پناہ حاصل کی، معاویہ بن حدیج محمد کی جگہ سے با خبر ہوا اور انہیں گرفتار کر لیا وہاں سے باہر لایا اور ''فسطاط'' نامی جگہ پر جہاں عمر و عاص کے فوجی تھے پہونچا دیا جب کہ عنقریب تھا کہ پیاس کی شدت سے مرجائیں۔
عبد الرحمن بن ابی بکر، محمد کا بھائی عمرو کی فوج میں تھا، اس نے فریاد بلند کی میں اس بات سے راضی نہیں ہوں کہ میر ے بھائی کو اس طرح قتل کرو اور عمر وعاص سے کہا کہ اپنی فوج کے سردارمعاویہ بن حدیج کو حکم دو کہ اس کے قتل کرنے سے باز آجائے، عمروعاص نے اپنے نمائندے کو ابن حدیج کی طرف بھیجا کہ محمد کو زندہ حوالے کرے لیکن معاویہ بن حدیج نے کہا: کنانہ بن بشر جو میرا چچا زاد بھائی تھا قتل ہوگیا محمد کو بھی ، زندہ نہیں رہنا چاہیے ،محمد جو اپنی قسمت دیکھ رہے تھے ،درخواست کی کہ مجھے پانی پلادو لیکن معاویہ بن حدیج نے بہانہ بنایا کہ عثمان بھی پیاسے قتل ہوئے تھے لہذا پانی نہیں دیا۔
اس وقت ابن حدیج نے محمد کو بہت برُی باتیں کہیںجنھیں تحریر کرنے سے پرہیز کررہے ہیں اور آخرمیں اس نے کہا: میں تمھاری لاش کو اس مردہ گدھے کی کھال میں رکھوں گا اور پھر جلادوں گا۔محمد نے جواب دیا :تم خدا کے دشمنوں نے اولیاء خدا کے ساتھ بار ہا ایسا معاملہ انجام دیا ہے، مجھے امید ہے کہ خدا ا س آگ کو میر ے لئے ایسے ویسی ہی اور باعافیت کردے گا جیسے ابراہیم کے لئے کیا تھا، اور اسے تمھارے اور تمھارے دوستوں کے لئے وبال بنادے گا اورخدا تجھے اور تیرے پیشوا معاویہ بن ابو سفیان اور عمر وعاص کو ایسی آگ میں جلائے گاکہ جب بھی چاہیں کہ خاموش ہو وہ اورشعلہ ور ہوجائے گا، بالآخر معاویہ بن حدیج کو غصّہ آیا اور اس نے محمد کی گردن اڑا دی اور ان کے جسم کو مردہ گدھے کے پیٹ میں ڈالدیا اور جلادیا۔
محمد بن ابی بکر کی شہادت نے دوآمیوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا، ایک ان کی بہن عائشہ تھیں جو ان کے حالات پر بہت روئیں، وہ ہر نماز کے آخر میں معاویہ ابن سفیان ،عمر و عاص اور معاویہ بن حدیج پربد دعا کرتی تھیں، عائشہ نے اپنے بھائی کے اہل و عیال کی کفالت کی ذمہ داری خود لے لی۔ اور محمد ابن ابی بکر کے بیٹے قاسم انہیں کی پرورش و کفالت میں پروان چڑھے اور دوسرے اسمأ بنت عمیس جو بہت دنوں تک جعفر ابن ابی طالب کی زوجہ تھیں اور جعفر کی شہادت کے بعد ابوبکر سے شادی ہوگئی اور انہیں سے محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے اور ابو بکر کے انتقال کے بعد علی علیہ السلام سے شادی کی اور ان سے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام یحییٰ تھا،یہ ماں جب اپنے بیٹے کی قسمت و شہادت سے باخبر ہوئی تو بہت زیادہ متاثر ہوئی لیکن اپنے غیظ و غضب کو قابو میں رکھا اور مصلائے نماز پر گئیں اور ان کے قاتلوں پر لعنت و ملامت کی ۔
عمر وعاص نے معاویہ کو خط کے ذریعے ان دونوں آدمیوں کی شہادت کے بارے میںخبر دی اور دوسرے سیاست بازوں کی طرح جھوٹ بولا اور اپنے کو بر حق ظاہر کیا اور کہا :ہم نے ان لوگوں کو کتاب و سنت کی طرف بلایا مگر ان لوگوں نے حق کی مخالفت کی اور اپنی گمراہی پر باقی رہے۔ با لآخر ان کے اور ہمارے درمیان جنگ ہوئی۔ ہم نے خدا سے مدد طلب کی اور خدا نے ان کے چہروں اور پشتوں پر ضرب لگائی اور ان سب لوگوں کو ہمارے سپرد کر دیا۔
حضرت علی علیہ السلام اور خبر شہادت محمد بن ابی بکر
عبد اللہ بن قعید روتا ہوا کوفہ میں داخل ہوا اور حضرت علی علیہ السلام کو محمد کی دردناک شہادت سے آگاہ کیا ۔امام نے حکم دیا کہ تمام لوگ اس کی بات سننے کے لئے جمع ہوں، اس وقت لوگوں سے فرمایا:''یہ نالہ و فریاد محمد اور تمھارے بھائیوں کا جو مصر میں تھے ۔ خدا کااور تمھارا دشمن عمر و عاص ان لوگوں کی طرف گیا اور ان پر غالب ہوگیا اور میں ہرگز یہ امید نہیں رکھتاکہ گمراہوں کا تعلق باطل سے اور ان کاسرکش حاکموں پر اس سے زیادہ ہو جتنا اعتماد تم لوگوں کا اعتقاد حق پر ہے ، گویا ان لوگوں نے مصر پر حملہ کرکے تم لوگوں کو پر حملہ کیاہے جتنی جلدی ممکن ہو ان کی مدد کے لئے جاؤ، اے خدا کے بندو! مصر خیر و برکت کے اعتبار سے شام سے بہتر اور مصر کے لوگ شام کے افراد سے بہتر ہیں ، مصر کو اپنے قبضے سے نہ جانے دو، اگر مصرتم لوگوں کے ہاتھ میں ہوگا تو تم لوگوں کے لئے عزت کا سبب ہوگا، اور دشمنوں کے لئے ذلت کا سبب ہوگا،جتنی جلدی ممکن ہو'' جرعہ''کی چھاؤنی پہونچ جاؤ تاکہ کل ایک دوسرے تک پہونچ جائیں۔
کچھ دن گزرنے کے بعد اور عراق کے سرداروں کے اما م علیہ السلام کے پاس آنے جانے کے بعد بالآخر مالک بن کعب کی سرداری میں دو ہزار فوج مصر کے لئے روانہ ہوئی۔(١)
امام علیہ السلام نے ابن عباس کو اپنے خط میں اس واقعہ کی خبر ان الفاظ میں دی:
''اما بعد، مصر پر دشمن کا قبضہ ہوگیا ہے اور محمد بن ابی بکر''(خدا ان پر رحمت کرے) شہید ہوگئے ،اس مصیبت کا اجر ہم اللہ سے مانگتے ہیں کتنا خیر خواہ فرزند،اور محنت کش عامل تھا (جونہ رہا)کیاسیف قاطع ، اور کیسا دفاعی ستون تھا(جوچل بسا) میں نے لوگوں کی بہت تشویق کی تھی کہ اس کی مدد کے لئے جائیں ، میں نے لوگوں کو در پردہ اور بر ملا ایک بار نہیں ،بلکہ بار بار حکم دیا کہ جنگ سے پہلے ان سے مدد کو پہنچ جائیں لیکن اکچھ لوگوں نے با دل نخواستہ آماد گی ظاہر کی اور کچھ لوگ جھوٹے بہانے بنانے لگے اور کچھ لوگ تو چپ چاپ بیٹھے ہی رہے اور مدد کے لئے نہ اٹھے، چنانچہ میں خدا سے یہی دعا کرتا ہوں کہ اے خدا!مجھے جلد از جلد ان
_______________________________
(١) الغارات ج ١، ص٢٨٢تا ٢٩٤۔
لوگوں سے نجات دیدے۔(١)
محمد بن ابی بکر کی شہادت حضرت علی علیہ السلام کے لئے بہت بڑا غم تھا، حضرت نے باچشم گریہ فرمایا:
''وہ میر ا بیٹا اور میرے بیٹوں اور میرے بھتیجوں کے لئے بھائی تھا۔(٢)
اور یہ بھی فرما یا:'' وہ مجھے عزیز و پسند تھا اور خود میں نے اپنی آغوش میں اس کی پرورش کی تھی''(٣)
جنگ صفین کے بعد اس طرح کے حادثات پے در پے ہوتے رہے اور عقلمند اور دور اندیش لوگ امام علی ـ کی حکومت کے زوال کی ،ان کے نادان ساتھیوں کی وجہ سے پیشین گوئی کرسکتے تھے۔اس وقت اما م علیہ السلام ایسے حالات سے گزررہے تھے کہ معاویہ کا شام پر قبضہ تھا اور مصر پر عمر وعاص نے قبضہ کر لیا تھا اور معاویہ کی طرف سے مرکزی حکومت کو ضعیف و کمزور کرنے کے لئے قاتل اور فسادی گروہ طرف سے قتل و غارت گری کررہے تھے ، تاکہ امن و سکون کو جڑ سے ختم کردیں، لیکن امام علیہ السلام کی تدبیر ایسے افسوسناک حالات پر قابو پانے کے لئے کیاتھی؟ اور آپ نے کس طرح سے مردہ دل عراقیوں سے فسادات کو ختم کرنے کے لئے مدد طلب کی؟ تاریخ کا کہنا ہے کہ امام علیہ السلام نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میںبہت ہی ولولہ انگیز تقریرفرمائی ، جس نے عراقیوں کے مردہ دلوں کو زندہ کردیا۔
_______________________________
(١) نہج البلاغہ مکتوب ٣٥۔
(٢) تاریخ یعقوبی ج٢، ص١٩٤۔
(٣) نہج البلاغہ مکتوب ٦٥ (مطبوعہ عبدہ)۔
امام علیہ السلام کا آخری خطبہ
نوفل بن فضالہ کہتے ہیں :امام علیہ السلام کی زندگی کے آخری دنوں میں ، جعدہ مخزومی نے پتھر کا ایک بلند چبوترہ امام علیہ السلام کے لئے بنایا، اور امام علیہ السلام اس پر تشریف لائے، آپ کا پیراہن اون کا بنا ہواتھا، اور نیام اورنعلین کجھور کی چھال کی بنی تھی اور کثرت ِ سجود کی وجہ سے پیشانی کا نشان یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اونٹ کے گھٹنے کا گھٹا، اور پھر آپ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:'' الحمدُ لِلّٰہ الذّی اِلیہِ مَصَائر الخلقِ و عواقِبُ الْامْرِ ، نَحمدُہُ عَلیٰ عِظیم اِحْسٰانِہ ونیِّربُرھٰا نِہِ و نَوامِیْ فَضْلِہِ وا مْتِنٰا نِہِ۔
اَیّھا النّاسُ: اِنّی قد بثثتُ لکم الموا عِظَ الّتی وَعَظَ الا نبیائُ بھا أ مَمَھُمْ وَادّیتُ اِلَیْکم ادت الا و صیائُ اِلیٰ مَنْ بعدَھُمْ وَ اَ دَّ بْتُکمْ بِسَوطِیْ فلَمْ تَسْتَقیمواوَحَدوتکم، بالزّ واجِرِ فلمْ تَسْتَو سِقُوْا. للّٰہ أ نتُمْ! اَتتَوقّعُونَ اماماً غَیْرِیْ یطأُ بِکم الطّرِیقَ و یرُشِدُ کُمُ السّبیل؟
… مٰا ضرّ اِخوانُنا الَّذینَ سُفِکت دِمائُ ھُم۔ وَھُمْ بصفیّنَ۔ الاّٰ یکونواُ الیومَ أحیائً ؟ یُسیغون الغصَصَ ویَشربونَ الرَّ نقَ ! قد.واللّٰہ .لقو ا اللّٰہ فَوَفَا ھُمْ اجورَھُمْ وَاَحَلَّھم دَارَ الْاَ من بَعْد خو فھِمْ.أین اخوانی الّذِینَ رَکبوُا الطریقَ و مَضَوا عَلیَ الحقَّ؟ اَینَ عمّار وایْنَ ابْنُ التیھان؟ واَینَ ذو الشّھادتین؟ واین نْظَر ائُ ھُمْ من اِخوا نِھِمُ الَّذِ یْنَ تَعاقَدواعَلیَ المَنِیَّةِ؟''
''تمام حمد اس خدا کے لئے ہے جس کی طرف تمام مخلوق کی باز گشت ہے اور ہر امر کی انتہا ہے، ہم اس کے عظیم احسان اور روشن برہان اور بڑھتے ہوئے فضل وکرم پر اس کی حمد کرتے ہیں۔
اے لوگو ، میں نے تمھیں اس طرح نصیحتیں کی ہیں جیسی انبیا اپنی امتوں کو کرتے رہے ہیں اور وہی باتیں تم تک پہونچائی ہیں جو اوصیا بعد والوں تک پہونچاتے رہے ہیں، میںنے اپنے تازیانہ سے تمہاری تادیب کی مگر تم سیدھے نہ ہوئے اور زجر و توبیخ سے تمھیں ہنکایا مگر تم لوگ یکجااور متحد نہ ہوئے ،خدا ہی تمہیں سمجھے، کیا تم میرے بعد کسی اور امام کے امیدوار ہو جو تمھیں سیدھی راہ پر چلائے اور صحیح راستہ دکھائے؟
ہمارے جن ساتھیوں کا خون جنگ صفین میں بہایا گیا انہیں کیا نقصان پہونچا وہ اگر آج زندہ نہیں ہیں کہ دنیا کے مصائب کے تلخ گھونٹ نوش کریں اور اس طرح کی ناگوار زندگی کا گندہ پانی پیئیخدا کی قسم انہوں نے اللہ سے ملاقات کی تواس نے انہیں پوری جزادی اور خوف و ہراس کے بعد انہیں امن و سلامتی کے گھر میں اتاردیا۔
میرے وہ بھائی کہاں ہیں جو سیدھی راہ پر چلتے رہے (اور اس دنیا سے )حق پر گزر گئے ، کہاں ہیں عمار؟ کہاں ہیں ابن تیہان ؟ کہاں ہیں ذوالشہادتین؟ اور کہاں ہیں ان کے ایسے دوسرے بھائی جو مرنے کا عہد کرچکے تھے؟
نوفل کہتے ہیں: اس کے بعد حضرت نے اپنا ہاتھ داڑھی پر پھیرااور بہت دیر تک زارو قطار روتے رہے اور پھر فرمایا:
''أوّہِ عَلیٰ اِخْوانِی الّذِین تَلو ا القرآنَ فاحکُموہُ وتَدَبِّروا الفَرضَ فا قٰا مُوُہ ،اَحْیُوا السُنَّةَ و أ ما تو البد عة. دُعُواْ لِلْجِھادِ فَا جَابُوْاوَ وثَقُوْا بالقَائِدِ فاتبعُوْہُ''
''آہ! میرے وہ بھائی جنہوں نے قرآن پڑھا (تو اپنے عمل سے) اسے مضبوط کیا ،اپنے فرض کو سوچا سمجھا اور اسے ادا کیا ، سنت کو زندہ کیا اور بدعت کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جب انہیں بلایا گیاتو انہوں نے لبیک کہی ،اپنے رہبر پر اعتماد رکھا تو اس کی پیروی کی۔
پھر آپ نے بلند آواز سے پکار کر فرمایا:''اَلْجھادَالجھادَ عبادَ اللّٰہ! ألاَ وَ اِ نّی مُعَسِْکر فِیْ یومی ھٰذا فَمَنْ أ رَادَ الرّ واحَ الیَ اللَّہ فَلیخْرُجْ''جہاد جہاد، اے خد ا کے بندو! آگاہ رہو کہ میں آج لشکر کو ترتیب دے رہا ہوں جو خدا کی طرف جانا چاہتا ہے وہ نکل کھڑا ہو۔(ا)
امام علیہ السلام کے اس ہیجان انگیز اور پر جوش کلام نے عراقیوں کے مردہ دلوں کو اس طرح زندہ کر دیا کہ تھوڑی ہی دیر میں چالیس ہزار (٠٠٠،٤٠) لوگ خدا کی راہ میں جہاد کرنے اور میدان ِ صفین میں جنگ کرنے کے لئے تیار ہوگئے ،امام علیہ السلام نے اپنے بیٹے امام حسین علیہ السلام اور قیس بن سعد اور ابو ایوب انصاری کے لئے پرچم تیار کیا اور ہر ایک کو دس دس ہزار کی فوج دے کر تیار ہونے کے لئے کہا اور دوسرے لوگو ں کو بھی مختلف تعدا د کے دستوں پر امیر مقرر فرما کر پرچم کے ساتھ تیار کیا لیکن افسو س کہ ایک ہفتہ نہ گزرنے پایا تھا کہ عبد الرحمن بن ملجم کی تلوار سے آپ شہید ہو گئے ۔
جب کوفہ کے باہر رہنے والے سپاہیوں کو اما م کی شہاد ت کی خبر ملی تو سب کے سب کوفہ واپس آگئے اور سب ہی کی حالت ان بھیڑ بکریوںکی طرح ہوگئی،جو اپنے محافظ سے محروم ہوگئی ہوں اور بھیڑئیے انہیں ہر طرف سے اچک لے جارہے ہوں۔
اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم امام علیہ السلام کی زندگی کے آخر ی ورق یعنی شہادت کا ماجرا بیان کریں۔
_______________________________
(١) نہج البلاغہ خطبہ ١٧٧ (مطبوعہ عبدہ)۔
|