فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
 

چھٹاباب
جنگ نہروان کے بعد کے واقعات
اور
حضرت علی علیہ السلام کی شہادت

پہلی فصل
لوٹ مار، بدامنی اور دردناک قتل عام
جنگ نہروان کی ناگہانی آفت وبلا امام علیہ السلام کے استقلال اور آپ کے باوفا ساتھیوں کی ہمت سے ختم ہوئی اور اب وہ وقت آگیا کہ امام علیہ السلام سرکشوں سے اپنی فوج کی پاکسازی کے لئے دوسری مرتبہ اسلامی سرزمین پرامن اورراحت کوزندہ کریں ، اور معاویہ اورفریب خوردہ شامیوں کی خود غرضی کو ختم کردیں کیونکہ تمام فتنہ وفساد کی جڑ ابوسفیان کا بیٹا تھا۔
معاویہ نے عراق میں اپنے جاسوس معین کئے تھے تاکہ مسلسل ساتھ تمام واقعوں کی خبر اسے دیتے رہیں ، ان میں سے بعض جاسوس علی علیہ السلام سے پرانا کینہ اور بغض وحسد رکھتے تھے مثلاً ولید بن عقبہ بھائی عمارة بن عقبہ ، یہ دونوں بھائی جو بنی امیہ کے شجرۂ خبیثہ کی شاخوں میں سے تھے، ، چونکہ امام علیہ السلام نے اس خبیث خاندان کے بہت سے افراد پر زبردست اور کاری ضربیں لگائی تھیں اس لئے یہ لوگ امام علیہ السلام کی دشمنی کو اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے خصوصاً ولید کا باپ جنگ بدر میں علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوا تھا ، ولید وہی شخص ہے جس کو قرآن نے سورہ حجرات کی چھٹی آیت میں فاسق کہا ہے اورعثمان کی حکومت کے زمانے میں امام علیہ السلام نے اسے تازیانہ مارا اور شراب پینے کی وجہ سے اس پر حد جاری کی ، اس بنا پر کوئی تعجب نہیں ہے کہ اس کابھائی عمارہ کوفہ میں معاویہ کا جاسوس ہواور خود ولیدامام علیہ السلام کی تمام جنگوں میں معاویہ کو تشویق اور ترغیب دلانے والاہو۔
عمارہ نے معاویہ کو خط لکھا جس میں علی ـ کے ساتھیوں کے درمیان تفرقہ واختلاف اور نہروان کے واقعہ کو تحریر کیا اور لکھا کہ بہت سے قاریان قرآن اس جنگ میں علی اور ان کے دوستوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں، اس وجہ سے ان کے درمیان اختلاف اور نااتفاقی بڑھ گئی ہے۔ اس نے ایک مسافر کے ذریعہ خط کو شام روانہ کیا۔ معاویہ نے خط پڑھا اور دونوں بھائیوں کا شکریہ ادا کیا جن میں ایک موجود تھا اور دوسرا غائب تھا (١)۔
_______________________________
(١)شرح نہج البلاغۂ ابن ابی الحدید :ج٢ ص١١٤،١١٥ بحوالہ تاریخ۔
معاویہ نے بدامنی پھیلانے ، لوٹ مار کرنے اور امام علیہ السلام کے شیعوں کے قتل کے لئے مناسب موقع دیکھا ،اسی وجہ سے اس نے چند گروہ حجاز، یمن اور عراق کے علاقوں میں بھیج کر ذہنی و نفسیاتی جنگ کا آغاز کردیا وہ دھوکہ ،فریب ، بے گناہ افراد کا قتل ، عورتوں اور محتاجوں کا مال غارت وبرباد کرکے نہ صرف امام علیہ السلام کے ذہن سے شام کو شکست دینے کا خیال نکالنا چاہ رہا تھا دیا بلکہ عملی طور پر یہ ثابت کرنا چاہ رہا تھا کہ مرکزی حکومت اپنی سرحدوں کی حفاظت نہیں کرسکتی ہے۔
یہ سیاست جو حقیقت میں شیطانی سیاست تھی اس نے اپنا اثر دکھایا، معاویہ نے حضرت علی ـ حکومت کے حدود میں بہت سے سنگدلوں کو بھیج کر امام علی علیہ السلام کی حکومت کے ایک ہزار آدمیوں کو قتل کرادیااور ان سرکش و نافرمان حملہ کرنے والوں نے بچوں اور عورتوں پر بھی رحم نہیں کیا اور جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا ان لوگوں نے عبیداللہ بن عباس کے دو بچوں کا سر لوگوں کے سامنے قلم کردیا۔
امام علیہ السلام کی حکومت کا یہ دورتاریخ کا بہت غمگین اور درد ناک دور تھا البتہ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ امام علیہ السلام کے پاس دشمن کو نابود وبرباد کرنے کے لئے کوئی سیاسی تدبیر یا دوسرا طریقہ نہ تھا بلکہ جو چیز مشکل تھی وہ صرف مٹھی بھر فضول اور بہانے باز ، آرام طلب اور اس سے بھی بدتر وہ لوگ تھے ایسے سادہ لوح تھے کہ ہر کسی کی بات سن کر مان لیتے تھے، یہی وجہ تھی کہ امام علیہ السلام اپنے بلند وعالی ترین مقصد تک نہیں پہونچ سکے، تاریخ نے ان وحشیانہ حملوں کو بہت ہی دقیق ذکر کیاہے اورہم یہاں پر اسین حملوں کی ایک واضح تصویر پیش کررہے ہیں تاکہ معاویہ کا عہد وپیمان ،اسلامی اور انسانی اصولوں کی نسبت سے واضح ہوجائے۔

١۔ضحّاک بن قیس کی لوٹ مار
معاویہ کو خبر ملی کہ امیر المومنین شام کی طرف روانہ ہونے والے ہیں تاکہ دوبارہ جنگ کا آغاز کریں ، معاویہ نے اس سلسلے میں خطوط لکھے اور اپنے نمائندوں کو شام کے تمام علاقوں میں بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو خط کے مضمون سے آگاہ کریں، شام کا ایک گروہ عراق کی طرف جانے کے لئے تیار ہوگیا۔ حبیب بن مسلمہ نے ان لوگوں سے کہا : صفین سے آگے نہ بڑھنا کیونکہ ہم نے اسی جگہ پر دشمن غلبہ حاصل کیا تھا اور کامیاب ہوئے تھے لیکن عمروعاص نے رائے دی کہ معاویہ اپنی فوج کے ساتھ عراق کی سرزمین کے اندر تک گھس جائے کیونکہ یہ کام شام کے فوجیوں کو حوصلہ اور قوت عطا کرے گا اور اہل عراق کے لئے ذلت کا باعث ہو گا معاویہ نے اس کی بات مان لی مگر کہا: شام کے لوگ صفین سے آگے بڑھنا نہیں چاہتے ۔ ابھی اس موضوع پر گفتگو ہورہی تھی کہ فوج کہاں قیام کرے کہ اچانک خبر ملی کہ امام علیہ السلام اور خوارج کے درمیان بہت زبردست جنگ ہوئی ہے اور وہ اپنی فوج کے سرکشوں پر کامیاب ہوگئے ہیں اور لوگوں سے کہا ہے کہ شام کی طرف روانہ ہوں لیکن ان لوگوں نے مہلت طلب کی ہے ۔ پھر عمارة بن عقبہ بن ابی معیط کا خط پہونچا جس میں اس نے لکھا کہ علی علیہ السلام کے دوستوں میں تفرقہ واختلاف اور فوج کے قاریوں اور عابدوں نے ان کے خلاف فساد برپا کر رکھا ہے اور ان کے درمیان شدید جنگ اور ان کی سرکوبی کے باوجود اختلاف ابھی بھی باقی ہے۔
ایسے حالات میں معاویہ نے ضحّاک بن قیس فہری کی سرداری میں تین سے چار ہزار لوگوںکو چنا اور حکم دیا کہ کوفہ جائیں اور جن قبیلوں کے لوگ امام کے مطیع وفرماں بردار ہیں انہیںغارت و برباد کردیں اور یہ کام بہت تیزی کے ساتھ انجام دیں اس طرح سے کہ اگر کسی شہر میں بالکل صبح سویرے داخل ہوں تو اسی دن شام کو دوسرے شہر میں رہیں اور کہیں پر بھی قیام نہ کریں کہ اپنے مقابلے والوں سے جنگ کرنی پڑے بلکہ جنگ و گریز اور لوٹ مارکرتے ہوئے اپنے کام کو جاری رکھیں۔
ضحّاک چلتے چلتے '' ثعلبیہ '' دیہات پہونچا جو عراقیوں کے مکہ جانے کا راستہ تھا اس نے حاجیوں کے مال و سامان کو لوٹا اور پھر اپنا سفر جاری رکھا اور پھر عمروبن عمیس عبداللہ بن مسعود کے بھتیجے کے روبرو ہوا اور انہیںاور ان کے ساتھ بہت سے لوگوں کو قتل کردیا۔جب حضرت علی علیہ السلام کو ضحّاک کی لوٹ مار اور قتل وغارت گری کی خبر ملی تو امام علیہ السلام منبر پر گئے اور کہا: ''اے لوگو! ، بندہ صالح عمرو بن عمیس کی طرف جلدی جاؤ، اپنے دوستوں کی مدد کے لئے اٹھو جو دشمن کے حملے سے زخمی ہوئے ہیں ، روانہ ہو جائواور اپنے دشمن سے جنگ کرو اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کرو تاکہ دشمن اسے عبور نہ کرسکے ، ان لوگوں نے امام علیہ السلام کی تقریر کے مقابلے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی ،جب امام نے ان کی سستی اور ناتوانی کو مشاہدہ کیا تو فرمایا: ''خدا کی قسم !میں حاضر ہوں کہ تم لوگوں میں سے دس آدمیوں کو معاویہ کے ایک آدمی سے بدل لوں ، لعنت ہو تم پر کہ میرے ساتھ میدان میں آؤ اور مجھے بیچ میدان میں چھوڑدو اور بھاگ جاؤ ، خدا کی قسم میں بابصیرت موت سے ناخوش نہیں ہوں اور اس میں میرے لئے بہت بڑی آسائش ہے کہ تم سے اور تمہاری سختیوں سے نجات پاجائوں گا'' ۔(١)
امام علیہ السلام منبر سے اترے اور روانہ ہوگئے یہاں تک کہ آپ سرزمین '' غریبین'' پہونچے اور پھر حجر بن عدی کو چار ہزار فوج کا سردار بنایا اور ان کے لئے علم باندھا ، حجر روانہ ہوئے اور سرزمین '' سماوہ'' پہونچے اور مستقل ضحاک کی تلاش میں تھے یہاں تک کہ '' تدمر'' کے علاقہ میں اس کو پالیا۔ دونوں گروہوں کے درمیان جنگ شروع ہوگئی اور دشمن کی فوج کے ١٩ آدمی اور علی علیہ السلام کے دو آدمی مارے گئے ، ضحاک نے رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھایا اور بھاگ گیا اور صبح تک اس کا کوئی پتہ نہ تھا۔ ضحاک عراق سے بھاگنے کے بعد پیاس کی شدت سے جاں بلب ہوا ، کیونکہ جس اونٹ پر اس نے پانی رکھا تھا وہ راستے میں غائب ہوگیا لیکن بالآخر اس نے اطراف میں رہنے والوں سے پانی طلب کیا اور اپنی پیاس بجھائی ۔
امام علیہ السلام نے ضحاک کی لوٹ مار اورغارتگری پر ایک خطبہ دیا جس کا خلاصہ یہاں تحریر کررہے ہیں:''ایھا الناس، المجتمعةُ أبد انُھُم المختلفةُ أھوا ؤھُم کلَا مُکم یوھِی الصُّمَّ الصِّلابَ وفِعلکم یُطمِعُ فیکُم الاعداء َ تقولونَ فی المجالسِ: کَیتَ وکَیتَ فاذا جَائَ القتالُ قُلتُم حیدِی حیادٍ'' ،اے وہ لوگو! جن کے جسم یکجا اور خواہشیں مختلف ہیں تمہاری باتیں سخت پتھروں کو نرم کردیتی ہیں مگر تمہارا عمل تمہارے بارے میں دشمنوں کو لالچ دلاتا ہے اپنی مجلس میں بیٹھ کر کہتے ہو کہ یہ کرینگے وہ کرینگے اور جب جنگ کا وقت آجائے تو کہتے ہو ائے جنگ دور ہو، دور ہو ۔
''۔۔۔ أیّ دارٍ بعد دارِکم تمنعون؟ ومع ای اِمام بعدِی تقاتلون؟ المغرور واللّٰہ من أ غررتموہ و من فاز بکم فقد فاز واللّٰہ بالسَّھم الاخیبِ ومن رمیٰ بکم فقد رمیٰ بأفوق ناصِل '' ، '' اپنا گھر چھن جانے کے بعد کس کے گھر کی حفاظت کروگے؟ اور میرے بعد کس امام کے ساتھ رہ کرجہاد کروگے؟، خدا کی قسم جسے تم اپنے فریب میں مبتلا کرلو وہ دھوکہ میں ہے اور جو تمہارے ذریعہ کامیاب ہونا چاہے اس کے حصّے میں ناکام تیر آئے گا ( جس کا کوئی انعام نہ ہو) اور جس نے تمہارے ذریعہ تیر چلایا گا اس نے (گویا) شکستہ پیکان سے نشانہ لگایا''۔
_______________________________
(١) نہج البلاغہ خطبہ نمبر٧ ٩
خطبہ کے آخر میں فرماتے ہیں : '' القوم رجال أمثالُکم، أقولاً بغیرعلم ٍ ؟وغفلَة ً من غیرورعٍ ؟ وطمعاً فی غیرحقٍّ ''؟ (١)'' (دشمن )لوگ (شامی) بھی تمہارے ہی جیسے مرد ہیں ، کیا عقیدہ کے بغیر باتیں صحیح ہیں ؟تقوی کے بغیر غفلت صحیح ہے؟ کیا نا حق چیز میں طمع صحیح ہے ؟
امام علیہ السلام کے بھائی عقیل کو ضحاک کے حملہ کی خبر ملی اور مکہ سے آپ کے پاس ہمدردی کے طور پر خط لکھا اور خط کے آخر میں لکھا کہ اگر اجازت دیں تو اپنے بچوں کے ساتھ عراق آجاؤں اور اپنے بھائی کی خوشی اور غم میں شریک رہوں کیونکہ میں اس بات پر راضی نہیںہوں کہ حضرت کے بعد زندہ رہوں ، امام علیہ السلام نے اپنے بھائی کو جواب لکھا جوکہ آپ کا تاریخی خط ہے اور اس میں قریش کے حالات اور ان کے ظلم وستم کو اس انداز سے لکھا:
'' الا وان العرب قد اجمعت علیٰ حربِ اخیک الیوم اجماعَھا عَلیٰ حربِ رسول اللّٰہ قبل الیوم ۔ فاصبحوا قد جھِلوا حقّہ' وجَحدوا فضلہ وبادروہ العداوةونصبوا لہ الحرب وجھدو ا علیہ کلَّ الجحد وجرّوا اِلیہ جیش الاحزاب''(٢)، '' آج عرب نے تمہارے بھائی کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے عہد کر لیا ہے جیسا کہ اس سے پہلے پیغمبر سے جنگ کرنے کے لئے عہد وپیمان باندھا تھا۔ ان لوگوں نے تمہارے بھائی کے حق سے انکار کردیا ہے اور اس کی فضیلت کو نظر انداز کردیاہے اور دشمنی کرنے میں بہت جلدی کی اور پیغمبر کے زمانے میں اس کی سخت ترین محنت وں وکوششوں سے چشم پوشی کرلی ہے اور بالآخر احزاب کی فوج لے کر اس کے سامنے آگئے ہیں''۔امام ـ کایہ کلام اس بات کی حکایت کرتاہے کہ آپ معاویہ کے ساتھ جنگ کو پیغمبر کی ابوسفیان کے ساتھ جنگ کا سلسلہ سمجھتے ہیں۔ حقیقتاً جنگ احزاب عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے بہانے سے صفین میں دوبارہ برپا کی گئی۔
_______________________________
(١) نہج البلاغہ خطبہ نمبر ٢٩۔ الغارات ثقفی: ج٢، ص ٤١٦۔ تاریخ طبری: ج٤، ص ١٠٤۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج٢ ص ١١١تا١٢٥
(٢)الغارات ج٢، ص ٤٣١
٢۔ بُسر کو حجاز ویمن بھیجنا
امام علیہ السلام نے یمن کے ایک حصے کا والی عبیداللہ بن عباس کو بنایا تھا اور ایک دوسرے حصّے جند (١)کا والی سعید بن نمران کو بنایا تھا۔ یمن کے مرکزی علاقہ میں کچھ ایسے گروہ تھے جو عثمان اور عثمانیوں پیروی کرتے تھے اور حضرت علی علیہ السلام کی حکومت سے کوئی رغبت نہیں رکھتے تھے بلکہ ہمیشہ دھوکہ ،فریب اور فتنہ وفساد کی فکر میںرہتے تھے جب ان لوگوں کو خوارج کے حادثہ اور امام کی فوج میں اختلاف کی خبر ملی تو مخالفت کرنے لگے یہاں تک کہ سعید بن نمران کو جند کے علاقہ سے باہر نکال دیا، ایک گروہ جو فکر کے اعتبار سے عثمانی نہ تھا وہ بھی مالیات (ٹیکس) ادا نہ کرنے کی وجہ سے فسادیوں کے ساتھ مل گیا ۔
سعید بن نمران اور عبیداللہ ابن عباس نے مخالفین کے تما م حالات امام علیہ السلام کو دی۔ امام علیہ السلام نے کوفہ میں یمن کی ایک عظیم شخصیت یزید بن قیس ارحبی سے مشورہ کیا اور آخر میں یہ طے ہوا کہ فتنہ وفساد برپاکرنے والوں کو خط لکھیں اور ان لوگوں کو نصیحت کریں اور پھر دوبارہ مرکزی حکومت کی اطاعت وپیروی کے لئے دعوت دیں۔
امام علیہ السلام نے خط کو یمن کے ایک آدمی کے ہمراہ جو قبیلہ ہمدان سے تھا ان لوگوں کے پاس بھیجا، امام علیہ السلام کے قاصد نے آپ کا خط ایک بہت بڑے اجتماع میں لوگوں کو سنایا، خط کامضمون بہت تربیتی اور مؤثر تھا، لیکن مخالفین نے اطاعت وپیروی کو اس شرط پر قبول کرنے کا وعدہ کیا کہ امام عبیداللہ اور سعید کوبر طرف کر دیں۔
ادھر فساد کرنے والوں نے فرصت کو غنیمت جانا اور معاویہ کوچند اشعار پر مشتمل ایک خط لکھا اور اس سے درخواست کی کہ اپنا نمائندہ صنعاء اور جند روانہ کرے تاکہ اس کے ہاتھ پر بیعت کریں اور اگر اس کام میں تاخیر کی تو ہم لوگ علی علیہ السلام اور ان کے مشاور یزید ارحبی کی بیعت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
جب فتنہ وفساد کرنے والوں کا خط معاویہ کو ملا تو اس نے طے کہ یمن اور حجاز میں قتل وغارت گری،
_______________________________
(١) یمن اس وقت تین حصوں میں تھا ایک حصّہ حجاز پڑوس'' حضرموت'' اور مرکزی حصہ''، صنعاء '' اور سب سے دور کا علاقہ '' جندَ '' کے نام سے مشہور تھا ۔ مراصد الاطلاع، مادہ جند۔
بدامنی اور فساد کامزید ماحول پیدا کرے، اسی وجہ سے اپنی فوج کے سب سے سنگدل سردار بُسربن ارطاة کو اپنے پاس بلایا اور اس سے کہا کہ تین ہزار کا لشکر لے کر حجاز اور مدینہ جاؤ اور راستے میں جہاں بھی پہونچنا وہ اگر علی کے ماننے والے ہوں تو اانہیں خوب گالی گلوج دینا،سب کو میری بیعت کے لئے دعوت دینا ، بیعت کرنے والوں کو آزاد چھوڑدینا اور جو لوگ بیعت نہ کریں انہیں قتل کردینا اور جہاں بھی علی کے چاہنے والے ملیں انہیں قتل کردینا۔
معاویہ نے یہ خاص طریقہ استعمال کیا جب کہ وہ خود شام میں تھا اور علی علیہ السلام سے روبرو ہوکر جنگ نہیں کی لیکن اسی مقابلے کی جنگ کا نتیجہ حاصل کیا اور ولید بن عقبہ جیسے لوگ کہ جنہوں نے معاویہ کو امام علیہ السلام سے روبرو ہوکر جنگ کرنے کے لئے کہا تھا اسے بیوقوف اور احمق کہا اور وہ جانتا تھا کہ یہ لوگ سیاسی تجربہ میں ماہر نہیں ہیں ۔
ابن ابی الحدید نے اس سلسلے میں بہت عمدہ تبصرہ کیا ہے، وہ لکھتاہے :ولید امام علیہ السلام پر بہت غضبناک تھا کیونکہ جنگ بدر میں اس کے باپ کو مولائے کائنات نے قتل کیا تھا اور عثمان کی حکومت کے زمانے میں خود وہ امام کا تازیانہ کھا چکا تھا چونکہ اس نے بہت دنوں تک کوفہ پر حکومت کی تھی ، اورآمنے سامنے ہو کر اس وقت اپنی میراث کو حضرت علی کے ہاتھوں میں دیکھ رہا تھا لہذا علی علیہ السلام سے مقابلہ کرنے کے علاوہ کسی اور فکر میں نہ تھا۔ لیکن معاویہ ولید کے برخلاف دوراندیش تھا کیونکہ اس نے صفین میں امام علیہ السلام سے جنگ کرکے تجربہ کرلیا تھااور سمجھ گیا تھا کہ اگر اس جنگ میں قرآن کو نیزے پر بلند کرنے کا فریب نہ کیا ہوتا توعلی علیہ السلام کے ہاتھوں اپنی جان نہیں بچا سکتاتھا اور اگر دوبارہ ان سے جنگ کرتا تو ممکن تھا جنگ کے شعلوں میں جل کر راکھ ہوجائے ، اسی وجہ سے اس نے مصلحت سمجھی کہ بدامنی ، خوف و وحشت اور فساد بر پا کرکے حضرت علی کی حکومت کو کمزور کرے اور امام علیہ السلام کو مجبور اور ناتواں اسلامی ملک کی رہبری کے لئے ثابت کرے(ا)۔
_______________________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج٢ ص٨

بُسر کا سفر
بُسر تین ہزار لوگوں کے ساتھ شام سے روانہ ہوا اور جب دیر مردو کے پاس پہونچا تو اس میں سے چار سو لوگ بیماری کی وجہ سے مر گئے اور وہ ٢٦٠٠ آدمیوں کے ساتھ حجاز کی طرف روانہ ہوگیا۔ وہ جس آبادی سے بھی گزرتا لوگوں کے اونٹ کو زبردستی ان سے چھین لیتا ، اور خود اور اس کے فوجی اس پر سوار ہوتے تاکہ دوسری آبادی میں پہونچ جائیں پھر وہاں ان اونٹوں کو چھوڑ دیتے تھے اور اس دوسری آبادی کے اونٹوں کو لے لیتے تھے ۔ اسی طرح سے اپنا طولانی سفر طے کیا یہاں تک کہ مدینہ پہونچابُسر نے مدینے میں قدم رکھتے ہی وہاں کے لوگوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا اور عثمان کے قتل کا واقعہ چھیڑدیا اور کہا: تم سب عثمان کے قتل میں شریک ہو یا ان کی طرف سے بے توجہی اختیار کرکے انھیں ذلیل و خوار کئے ہو۔ خدا کی قسم ایسا کام کروں گا کہ عثمان کا پورا خاندان قلبی سکون محسوس کرے گا۔
پھر دھمکیاں دینا شروع کردیں اور لوگوں نے اس کے خوف کی وجہ سے حویطب بن عبد العزّی کے گھر میں پناہ لی جوکہ اس کی ماں کے شوہر(سوتیلے باپ) کا گھر تھا اور اس کے سمجھانے کی وجہ سے بُسر کا غصہ ٹھنڈا ہوا ۔ اس وقت سب کو معاویہ کی بیعت کی دعوت دی کچھ لوگوں نے اس کی بیعت کی لیکن اس نے صرف اس گروہ کی بیعت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مدینہ کے اہم افراد کو جو فکری اعتبار سے معاویہ کے مخالف تھے یا عراق میں علی علیہ السلام کے بہت زیادہ نزدیک تھے ان کے گھروں میں آگ لگادی زرارہ بن حرون، رفاعہ بن رافع اور ابو ایوب انصاری کا گھر جل کر راکھ ہوگیا ۔ پھر بنی مسلمہ کے سرداروں کو بلایا اور ان سے پوچھا : جابر بن عبداللہ کہاں ہے ؟ یااسے حاضر کرو یا قتل ہونے کے لئے تیار ہوجاؤ،اس وقت جابر نے پیغمبرا سلام (ص)کی بیوی ام سلمہ کے گھر میں پناہ لی تھی اور جب ام سلمہ نے پوچھا کہ کیا سوچ رہے ہو تو انھوں نے جواب دیا کہ اگر بیعت نہیں کروں گا تو قتل ہوجاؤں گا اور اگر بیعت کروں تو ضلالت وگمراہی میں مبتلا ہو جاؤں گا لیکن '' الغارات'' کے نقل کرنے کے مطابق جابر نے ام سلمہ کے مشورہ کے مطابق بیعت کرلی ۔
جب بُسر اپنی خرابکاریوں کو مدینہ میں انجام دے چکا تو پھر مکہ کی طرف روانہ ہوا تعجب یہ ہے کہ ابوہریرہ کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا ، اس نے مدینہ سے مکہ جانے میں بہت سے گروہوں کوقتل کیا ان کے مال واسباب کو لوٹ لیا اور جب مکہ کے قریب پہونچا تو امام علیہ السلام کے سردار قُثم بن عباس مکہ سے باہر چلے گئے ، بُسر نے مکہ میں قدم رکھتے ہی اپنے پروگرام کو جاری رکھا اور لوگوں کو گالی اور فحش دینے لگا اور سب سے معاویہ کی بیعت لی اور ان لوگوں کو معاویہ کی مخالفت کرنے سے ڈرایاکیا اور کہا: اگر معاویہ سے تم لوگوں کی مخالفت کی
خبر مجھ تک پہونچی تو تمہاری نسلوں کو ختم کردوں گا اور تمہارے مال کو برباد کردوں گا اور تمہارے گھروں کو ویران کردوں گا۔
بُسر کچھ دن مکہ میں رہنے کے بعد طائف چلا گیا اور اپنی طرف سے ایک شخص کو ''تبالہ '' روانہ کیا کیونکہ وہ جانتاتھا کہ وہاں حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ رہتے ہیں اور حکم دیا کہ بغیر کسی بات اور سوال وجواب کے سب کو قتل کردینا۔
بُسر کا نمائندہ '' تبالہ '' پہونچا اور اس نے سب کو باندھ دیا ، منیع نے اس سے درخواست کی کہ بُسر سے اس کے لئے امان نامہ لے آئے ، اس نے منیع کی درخواست قبول کرلی، قاصد طائف روانہ ہوا اور بُسر سے ملاقات کی اور اس سے امان نامہ مانگالیکن بُسر نے امان نامہ دینے میں اس قدر وقت لگایا کہ جب تک امان نامہ سرزمین تبالہ پہونچے سب کے سب قتل ہوجائیں۔ بالآخر منیع امان نامہ لے کر اپنی سرزمین پر اس وقت پہونچا جب کہ تمام لوگوں کوقتل کرنے کے لئے شہر کے باہر لاچکے تھے ۔ایک شخص کو وہاں آگے بڑھائے ہوئے تھے کہ اس کو قتل کریں لیکن جلاد کی تلوار ٹوٹ گئی ، سپاہیوں نے ایک دوسرے سے کہا : اپنی تلواروں کو نیام سے نکالو تاکہ سورج کی گرمی سے نرم ہوجائے اور اسے ہوا میں لہراؤ ،قاصد نے دور سے تلواروں کو چمکتے ہوئے دیکھا اور اپنے لباس کو ہلا کر اشارہ کیا کہ اپنا ہاتھ روک لیں شامیوں نے کہا: یہ شخص اپنے ساتھ خوشخبری لے کر آرہا ہے لہٰذا اپنا ہاتھ روک لو، قاصد پہونچ گیا اور امان نامہ کو سردار کے حوالے کیا اور اس طرح سے سب کی جان بچائی سب سے عمدہ بات یہ ہے کہ جس شخص کو قتل کے لئے حاضر کیا تھا اور تلوار ٹوٹنے کی وجہ سے اس کے قتل میں تاخیر ہوئی وہ شخص اس کا بھائی تھا۔
بُسر نے اپنا کام انجام دینے کے بعد طائف کو چھوڑدیا او رعرب کے مشہور سیاست باز مغیرہ بن شعبہ نے اُسے کچھ دور آکر رخصت کیا ، وہ یمن جاتے ہوئے راستے میں سرزمین '' بنی کنانہ '' پہونچا ۔ اسے خبر ملی کہ ''صنعاء میں امام علیہ السلام کے والی عبیداللہ بن عباس نے اپنے دو چھوٹے بچوں کوان کی ماں کے ساتھ وہاں چھوڑدیا ہے ، عبیداللہ نے اپنے بچوں کو بنی کنانہ کے ایک شخص کے سپر د کیا تھا ۔وہ شخص ننگی تلوا رلے کر شامیوں کے پاس آیا ، بُسر نے اس سے کہا: تمہاری ماں تمہارے غم میں بیٹھے ، میں تمہیں قتل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا بلکہ میں عبیداللہ کے بچوں کو مانگ رہا ہوں ، اس نے بُسر کو جواب دیا: میں ان لوگوں کی راہ میں جو میری حمایت میںہیں قتل ہونے کے لئے تیار ہوں ، یہ جملہ کہنے کے بعد شامیوں پر حملہ کیا اور بالآخر قتل ہوگیا، عبیداللہ کے چھوٹے بچوں کو قتل کرنے کے لئے لائے اور بہت ہی قساوت قلبی سے دونوں کو قتل کردیا ۔ بنی کنانہ کی ایک عورت نے فریاد بلند کی ، تم لوگ مردوں کو قتل کررہے ہو ، بچوں نے کیا غلطی کی ہے؟ خدا کی قسم چھوٹے بچوں کو نہ جاہلیت اور نہ ہی اسلام کے زمانے میں قتل کیا گیا ، خدا کی قسم وہ حکومت جو اپنی طاقت وقدرت بوڑھوں اور بچوں کو قتل کرکے ثابت کرتی ہے اور ناکارہ حکو مت ہے ، بُسر نے کہا: خدا کی قسم ہمارا ارادہ تھا کہ عورتوں کو بھی قتل کریں۔ اس عورت نے کہا: میں خدا سے دعا کرتی ہوں تو اس کام کو ضرور انجام دے۔
بُسر سرزمین کنانہ سے اور اپنے سفر کے درمیان نجران میں عبیداللہ بن عباس کے داماد عبداللہ بن عبد المدان کو قتل کردیا اور کہا: اے نجران کے لوگو اے عیسائیو! ، خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے ایسا کام کیا جس سے میں خوش نہ ہو تو میں واپس آجاؤں گااور ایسا کام کروں گا کہ تمہاری نسلیں ختم ہوجائیں گی، تمہاری کھیتیاں برباد اور تمہارے گھر ویران ہو جائیں گے۔
پھر اپنے سفر پر روانہ ہوگیا اور راستے میں ابوکرب جو امام علیہ السلام کے شیعوں اور ہمدان کے بزرگوں میں سے تھے ان کو قتل کردیا اور بالآخر سرزمین صنعاء پہونچا۔ امام علیہ السلام کے والی عبیداللہ بن عباس اور سعید بن نمران نے شہر کو چھوڑدیا اور عمر و ثقفی کو اپنا جانشین بنادیا تھا۔ عبیداللہ کے جانشین نے کچھ دیر تک مقابلہ کیالیکن آخر کارقتل ہوگیا خونریز بُسر شہر میں داخل ہوگیا اور بہت سے لوگوں کو قتل کرڈالا یہاں تک کہ وہ گروہ جو ''مآرب'' سے وہاں آیاتھا صر ف ایک آدمی کے علاوہ سب کو قتل کردیا۔ وہ نجات یافتہ شخص مآرب واپس چلا گیا اور کہا: میں ضعیفوں اور جوانوں کو باخبر کررہا ہوںکہ سرخ موت تمہارا تعاقب کررہی ہے۔
بُسر ،صنعاء سے ''جیشان '' نامی علاقے کی طرف گیا ۔اس علاقے کے سبھی لوگ امام علیہ السلام کے شیعہ تھے۔ بُسر اور ان کے درمیان جنگ شروع ہوئی اور بالآخر بہت زیادہ تلفات کے بعد مغلوب اور اسیر ہوگئے اور بہت ہی درد ناک طریقے سے شھید ہوئے ۔ وہ دوبارہ صنعاء واپس گیا اور سو آدمیوں کوپھر اس جرم میں قتل کیا کہ ان میں سے ایک عورت نے عبیداللہ بن عباس کے بچوں کو پناہ دی تھی ۔
یہ بُسر بن ارطاة کے ظلم وستم کا بدترین سیاہ ورق تھا جسے تاریخ نے ضبط کیا ہے ۔
جب بُسر کے ظلم وستم کی خبر حضرت علی علیہ السلام کو ملی تو آپ نے اپنے عظیم سردار جاریہ بن قدامہ کو دو ہزار کا لشکر دے کر بُسر کے ظلم وستم سے مقابلہ کرنے کے لئے حجاز روانہ کیا، وہ بصرہ کی طرف سے حجاز گئے اور یمن پہونچے اور بُسر کا پیچھا کررہے تھے یہاں تک کہ خبر ملی کہ وہ سرزمین '' بنی تمیم'' پر ہے۔ جب بُسر جاریہ کی آمد سے باخبر ہوا تو وہ ثمامہ کی طرف چلا گیا۔ جب لوگوں کو جاریہ کی آمد کی خبرہوئی تو بُسر کے راستے میں مشکلات کھڑی کردیں۔ لیکن وہ کسی طرح سے اپنی جان بچا کر شام پہونچ گیا اور اپنے سفر کی مکمل روداد معاویہ سے بیان کی ۔ '' اس نے کہا: کہ میں نے سفر کی آمد ورفت میں تمہارے دشمنوں کو قتل کیا ہے ، معاویہ نے کہا: تونے یہ کام نہیں کیاہے بلکہ خدانے کیا ہے !۔
تاریخ نے لکھا ہے کہ بُسر نے اس سفر میں ٣٠ ہزار لوگوں کو قتل کیا اور کچھ لوگوں کو آگ میں جلا دیا ۔ امیرالمومنین علیہ السلام ہمیشہ اس پر لعنت، ملامت کرتے تھے اورکہتے تھے: خدایا! اُسے موت نہ دینا جب تک اس کی عقل اس سے چھین نہ لینا ، خدایا !بُسر ،عمروعاص اور معاویہ پر لعنت کر، اور اپنے غیض وغضب کو ان پر نازل کر۔ امام علیہ السلام کی بددعا قبول ہوئی اور زیادہ دن نہ گذرا تھا کہ بُسر دیوانہ ہوگیا اور ہمیشہ کہتاتھا: مجھے ایک تلوار دیدو تاکہ میں لوگوں کو قتل کروں ، اس کے محافظین کو کچھ سمجھ میں نہ آیا تولکڑی کی ایک تلوار اس کے ہاتھ میں دے دی اور وہ مسلسل اس تلوار سے در و دیوار پر مارتا تھا یہاں تک کہ ہلاک ہوگیا۔
بُسر کا کام مسلم بن عقبہ کی طرح تھا جو اس نے یزید کے حکم سے مدینہ میں حرّہ نامی جگہ پر انجام دیا تھا ، حقیقت میں یہ باپ بیٹے ( معاویہ اور یزید) نہ صرف مزاج و ذہنیت کے اعتبار سے ایک تھے بلکہ ان عاملین بھی قساوت قلبی ، سنگدلی میں انھیں جیسے تھے اور ابن ابی الحدید کی تعبیر کے مطابق '' وَمَن اَشبَہَ اَبَاہُ فَمَا ظَلَمَ '' (١) ۔
اس حصّہ کے آخر میں امام علیہ السلام کاوہ خطبہ جو آپ نے بُسر کے بارے میں دیا، بیان کررہے ہیں '' بس کوفہ ہی میرے تصرف میں رہ گیا ہے اسی کے قبض وبسط کا اختیارمیرے ہاتھ میں ہے اور اے کوفہ !
_______________________________
(١)الغارات: ج٢ص ٦٢٨تا٥٩١، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج٢، ص٣۔١٨، تاریخ طبری ج٣، ص ١٠٦۔١٠٨، تاریخ یعقوبی :ج١، ص ١٨٦۔١٨٩، کامل ابن اثیر: ج٣، ص ٣٨٣۔ ٣٨٥
اگر توایسا اور تجھ میں بھی مخالفت کی آندھیاں چلتی رہیں تو خدا تیرا برا کرے گا۔ مجھے خبر ملی ہے کہ بُسر یمن پہونچ گیا ہے اور مجھے خدا کی قسم یہ اندیشہ ہے کہ لوگ تم پر قابض ہوجائیں گے اور تم پر حکم چلائیں گے اس لئے کہ لوگ باطل پر ہوتے ہوئے بھی متحد ہیں اور تم اپنے حق پر منظم نہیں ہو(بلکہ ) تم حق باتوں میں اپنے امام کی مخالفت و نافرمانی کرتے ہو اور وہ باطل میں اپنے امیر کی اطاعت کرتے ہیں وہ اپنے ساتھی (معاویہ) کے ساتھ امانت داری کا حق ادا کرتے ہیں اور تم اپنے امام کی امانت میں خیانت کرتے ہو وہ اپنے شہروں میں امن وامان رکھتے ہیں اور تم شورش و فسادکرتے رہتے ہو ، اگر میں تم میں سے کسی کو لکڑی کے ایک پیالہ کا امین بنادوں تو ڈرتا ہوں کہ اسے دستہ سمیت لے کر بھاگ جائے گا، اے اللہ! کوفہ کے لوگوں سے میرا دل تنگ ہوگیا ہے اوران کا بھی دل مجھ سے تنگ ہو گیا ہوں۔ میں ان سے اُکتاگیا ہوں ،اور یہ مجھ سے اکتا چکے ہیں۔ تو اب ان کے بدلے میں ان سے بہتر لوگ مجھے عطا کردے اور میرے بدلے میں کوئی برا حاکم انہیں دیدے۔خدایا! ان کے دلوں کو ( اپنے غضب سے ) اس طرح پگھلادے جیسے پانی میں نمک گھولا جاتاہے ۔خدا کی قسم، میرا دل تو یہ چاہتاہے کہ کاش مجھے تمہارے عوض بنی فراس بنی غنم کے ایک ہزار سوار مل جائیں '' (١)۔
_______________________________
(١) نہج البلاغہ: خطبہ ٢٥۔

٣۔ سفیان بن عوف کی لوٹ مار
سفیان بن عوف غامدی کو معاویہ کی طرف سے حکم ملا کہ ایک لشکر کے ساتھ فرات کی طرف جائے تاکہ '' ہیت '' نامی شہر جائے جو '' انبار'' شہر کے پاس ہے اور پھر وہاں سے انبار جائے ۔ اگر راستے میں کوئی مقابلہ کرے تو اس پر حملہ کرے اور انہیں غارت کردے اور اگر راستے میں کسی نے مزاحمت نہ کی تولوٹ مار کرتا ہوا شہر انبار تک جاتے اور اگر وہاں پر بھی کوئی لشکر وغیرہ نہ ہو تو مدائن تک جاتے اور پھر وہاں سے شام واپس آجاتے اورہر گز ایک لمحہ کے لئے بھی کوفہ کے قریب نہ جاتے،پھر معاویہ نے اس سے کہا : اگر تم نے انبار اور مدائن کو برباد کردیا تو گویا تم نے کوفہ کوبرباد کردیا ہے اور تمہارا یہ عمل عراق کے لوگوں کو مرعوب کردے گا اور ہمارے چاہنے والوں کو خوش کردے گا اور جو لوگ ہماری مدد کرنے سے خوف زدہ ہیں وہ ہماری طرف آجائیں گے۔ سفر کے راستہ میں اگر تمہارا کوئی موافق نہ ہوتو اسے قتل کردینا اور دیہاتوں کو ویران کردینا
اور ان کے مال واسباب کو مال غنیمت سمجھنا کیونکہ ان لوگوں سے مال غنیمت لینا ان لوگوں کو قتل کرنے کی طرح ہے اور یہ کام دلوں کو جلا کر راکھ کردے گا ۔
سفیان کہتا ہے: میں شام کی چھاؤنی میں گیا ، معاویہ نے تقریر کی اور لوگوں کو میررے ساتھ جانے کے لئے دعوت دی کچھ ہی دیر میں چھ ہزار لوگ ہمارے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوگئے میں فرات کی طرف روانہ ہوگیا اور ہیت نامی جگہ پر پہونچا ۔وہاں کے لوگ میری آمد سے باخبر ہوگئے اور فرات کو عبور کرگئے اور میں نے بھی فرات کو عبور کیا لیکن کسی سے ملاقات نہ ہوئی ۔پھر میں '' صندودائ'' پہونچا وہاں کے لوگ بھی مجھے دیکھ کر بھاگ گئے تو میں نے ارادہ کیا کہ انبار کی طرف جاؤں وہاں کے دوآدمیوں کو میں نے قید کرلیا اوران لوگوں سے پوچھا کہ علی کے لشکر میں کتنے فوجی ہیں؟انہوں نے جواب دیا: وہ لوگ پانچ سو آدمی تھے لیکن ان میں سے کچھ لوگ کوفہ گئے ہیں اور ہمیں نہیں معلوم کہ کتنے لوگ باقی بچے ہیں شاید تقریبادوسو لوگ باقی بچے ہوں۔ میں نے اپنے فوجیوں کوگروہ گروہ کیا اور انہیں تھوڑی تھوڑی دیر بعد انبار بھیجا تاکہ شہر میں ایک ایک آدمیوں سے جنگ کریں لیکن جب میں نے دیکھا کہ یہ کام زیادہ مؤثر نہیں ہے تو دوسو فوجیوں کو پیادہ روانہ کیا اور ان لوگوںسوار فوجیوںسے مدد کی ۔ اس طرح امام کی فوج کے تمام افراد منتشر ہوگئے اور اس کا سردار ٣٠ لوگوں کے ساتھ قتل ہوگیا ۔پھر میں نے جو کچھ انبار میں تھا اسے برباد کردیا اور شام واپس آگیا ۔ جب معاویہ کے پاس پہونچا تو پورا ماجرا بیان کیا ، اس نے کہا: میں نے تمہارے بارے میں یہی گمان کیا تھا ۔ زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ عراق کے لوگ خوفزدہ ہوگئے اور گروہ گروہ شام کی طرف ہجرت کرنے لگے۔(١)
علی علیہ السلام کو خبر ملی کہ سفیان انبار میں داخل ہو گیا ہے اور آپ کے والی حسان بن حسان کو قتل کردیا ہے ۔حضرت غصّے کے عالم میں گھر سے باہر آئے اور نخیلہ چھاؤنی گئے اور لوگ بھی آپ کے پیچھے پیچھے آئے، امام علیہ السلام ایک بلند جگہ پر گئے خدا کی حمدو ثناکی اور پیغمبر پر درود بھیجا پھر آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا:
'' اے لوگو! جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جسے خدا نے اپنے خاص دوستوں کے لئے کھولا ہے اور یہ پرہیز گاری کا لباس اللہ کی مستحکم زرہ اور دشمنوں سے بچنے کے لئے مضبوط سپر ہے اور جو شخص متنفّر ہوکر اسے چھوڑدیتا ہے خدا اسے ذلت وخواری کا لباس پہنا دیتاہے اور امتحان کی ردا اُڑھا دیتاہے اور بدنامیوں اور رسوائیوں کے ساتھ اسے ٹھکرادیا جاتاہے اور اس کے دل پر بے عقلی کا پردہ ڈال دیا جاتاہے اور جہاد کے شرف وفضیلت کو ضائع کرنے کی وجہ سے اس کا حق اس سے پھیر لیا جاتاہے اُسے ذلت میں کر دیا کیا جاتا ہے اور انصاف سے محروم کردیا جاتاہے …دیکھو !بنی غامد کے آدمی (سفیان بن عوف ) کی فوج انبار میں داخل ہو گئی ہے اور حسان بن حسان بکری کو قتل کر دیا ہے اور تمہارے فوجیوں چھاؤنی سے نکال دیاہے۔
مجھے خبر ملی ہے کہ اس فوج کا کوئی شخص مسلمان اور ذمّی عورت کے گھر گھس گیا اور اس کی پازیب ، کنگن ، گلے کا ہار اور گوشوارے اتارلئے اور ان کے پاس اس سے حفاظت کا کوئی ذریعہ نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ انا للہ پڑھیں اور رحم و کرم کی درخواست کریں ، پھر یہ لوگ لوٹ کا مال لے کر شام چلے گئے ان میں سے نہ تو کئی زخمی ہوا اور نہ کسی کا خون بہا۔ اب اگر اس کے بعد کوئی مسلمان اس غم میں مر جائے تو اسیکی ملامت نہیں کی جاسکتی ہے بلکہ میرے نزدیک وہ اس کا حقدار ہے پس کس قدر حیرت ہے کہ خدا کی قسم ان لوگوںکا اپنے باطل پر اتفاق کرلینا اور تمہارا حق سے منتشر ہوجانا ،یہ(تمہارا کرتوت) دل کو مردہ کر دیتا ہے اوررنج و غم کو بڑھادیتا ہے ، تمہارا برا ہو، اور حزن وغم میں مبتلا رہو… جب میں گرمی کے موسم میں ان کی طرف بڑھنے کے لئے حکم دیتاہوں تو تم کہتے ہو بہت سخت گرمی ہے اتنی مہلت دیجئے کہ گرمی کی شدت کم ہوجائے اور جب میں سردی کے موسم میں ان کی طرف بڑھنے کے لئے کہتا ہوں تو تم کہتے ہو ابھی شدید ٹھنڈک پڑ رہی ہے اتنی مہلت دیجئے کہ سردی ختم ہو جائے یہ سب سردی اور گرمی (جنگ سے) بھاگنے کے بہانے ہیں جب تم سردی اور گرمی سے بھاگتے ہو تو تلوار کودیکھ کر پہلے ہی بھاگ کھڑے ہوگے، اے مردوں کی شکل وصورت والے نامردو، تمہاری فکریں بچوں جیسی اور عقلیں پردہ نشین دلہن کی طرح ہیں ، کاش میں نے نہ تمہیں دیکھا ہوتا اور نہ پہچانتا ہوتا'' (٢)
عراق کے لوگوں کے دل میں خوف و وحشت پیدا کرنے کے لئے معاویہ نے صرف ان تینوں کو ہی نہیں بھیجا تھا بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی ایسی کارستانیوں کے لئے بھیجا تھا ، مثلاً نعمان بن بشیر انصاری کو حکم دیا
_______________________________
(١)الغارات: ج٢ ص ٤٦٤سے ٤٧٤تک ۔ تاریخ طبری: ج٤، ص ١٠٣
(٢)نہج البلاغہ جطبہ ٢٧
کہ '' عین التّمر'' پر ،جو شہر فرات کے غرب میں واقع ہے حملہ کرے اور اسے برباد کردے۔(١) اور یزید بن شجرہ رہاوی کو حکم دیا کہ مکہ جائے اور وہاں کے لوگوں کے مال واسباب کو برباد کردے۔(٢) بالآخر یہ سازشیں اپنے نتیجہ پر پہونچ گئیں اور عراقیوں کے دل میں زبردست خوف وہراس بیٹھ گیا۔ البتہ یہ تمام غم انگیز واقعات جنگ نہروان کے بعد رونما ہوئے کہ ایک طرف سے داخلی مشکلات نے اور دوسری طرف سے خارجی مشکلات نے عراق کے لوگوںکو خصوصاً امام کے چاہنے والوں کو سخت مشکل میں ڈال دیا تھا۔ اے کاش یہ ناگوار حادثے یہیں ختم ہوجاتے لیکن دوسرے حادثوں نے بھی علی علیہ السلام کو سخت رنجیدہ کردیا اور آپ کے دل کو ملول کردیا۔اب انھیں واقعات کو تحریر کررہے ہیں ۔
_______________________________
(١)الغارات ج٢، ص ٤٤٥
(٢)الغارات ج٢، ص٠٤ ٥