فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
 

تیئیسویں فصل
خوارج کی مخالفت کی وجہ اور اس کی وضاحت
امام علیہ السلام سے خوارج کی مخالفت کی وجہ اور معاویہ کی مخالفت کی وجہ میں بہت فرق تھا، معاویہ نے عمر کی خلافت کے وقت سے ہی شام کی حکومت کی خود مختاری کے لئے مقدمات فراہم کرتے تھے اور خودکوشام کامطلق العنان حاکم (ڈکیٹیٹر) سمجھتا تھا۔ عثمان کے قتل کے بعد جب اسے خبر ملی کہ امام علیہ السلام شام کی حکومت سے اس کو بر طرف کرنا چاہتے ہیں تو وہ مخالفت کرنے کے لئے اٹھ گیا پہلے تو طلحہ وزبیر کو ورغلایا پھر جنگ صفین برپاکر کے امام علیہ السلام کے مقابلے میں آگیا اور پھرمنحوس سیاست کے ذریعہ قرآن کو نیزہ پر بلند کر کے امام علیہ السلام کے لشکر میں اختلاف وتفرقہ پیدا کر دیا اور بالآخر امام علیہ السلام اسی اختلاف کی وجہ سے قربان ہوگئے۔
لیکن خوارج ظاہر بین تھے اور آج کی اصطلاح میں خشک مقدس تھے اور اپنی جہالت ونادانی اور سطحی فکر ونظر اور اسلام کے اصول و مبانی سے واقفیت نہ رکھنے کی وجہ سے امام علیہ السلام کی مخالفت کرنے لگے، اورکھوکھلے اور بے بنیاد علل و اسباب گڑھ کر خدا کے چراغ ہدایت کے مقابلہ میں آگئے اور اس الٰہی چراغ کوخاموش کرنے کے لئے ہزاروں پاپڑ بیلے یہاں تک کہ خود کو ہلاک کرنے کے لئے بھی تیار ہو گئے۔
معاویہ اور خوارج کے درمیان اسی فرق کی وجہ سے امام علیہ السلام نے ان پرفتح وکامیابی حاصل کرنے کے بعد فرمایا: '' لاٰ تقاتلوا الخوارجَ بعدی، فلیسَ مَن طَلبَ الحقَّ فأخطاٰ ہ کَمَن طلب الباطل فادرکَہ''' (ا)، خبردار میرے بعد خوارج کو قتل نہ کرنا کیونکہ جو حق کا طالب ہے اور اسے حاصل کرنے میں کسی وجہ سے اس سے غلطی ہوجائے وہ اس شخص کے مثل نہیں ہے جس نے باطل کو چاہا اور اسے پا
بھی لیا۔( یعنی معاویہ اور اس کے اصحاب)
خوارج کی مخالفت کے تمام عوامل و اسباب کی تحقیق اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ یہ لوگ ، شامیوں کے برخلاف ہرگز جاہ ومنصب اور حکومت کے طلبگار نہ تھے بلکہ ایک خاص کج فکری اور ذہنی پستی
______________________
نہج البلاغہ خطبہ ٥٨ (عبدہ)۔
ان پرمسلط تھی ۔ یہاں ہم خوارج کے اہم ترین اعتراضات نقل کررہے ہیں۔

١۔دین پر لوگوں کی حکومت
وہ لوگ ہمیشہ یہ اعتراض کررہے تھے کہ کس طرح سے ممکن ہے کہ دومخالف گروہ کے دو آدمی اپنے اپنے سلیقے کے اعتبار سے مسلمانوں کی تقدیر کو اپنے ہاتھ میں لیں اور اپنی رائے کو مسلمانوں کے معین شدہ رہبر کی رائے پر مقدم کریں ، دین اور مسلمانوں کا مقدر اس سے بلند وبرتر ہے کہ لوگ اپنی ناقص عقلوں سے ان کے اوپر حکومت کریں ۔وہ لوگ مستقل کہہ رہے تھے: '' حکم الرجال فی دین اللّٰہ '' یعنی علی نے لوگوں کو دین خدا پر حاکم قرار دیاہے۔
یہ اعتراض اس بات کی حکایت کرتاہے کہ وہ لوگ حکمین کے فیصلے کے قبول کرنے کے شرائط سے باخبر نہ تھے اور ان لوگوں نے خیال کیا کہ امام علیہ السلام نے ان دونوں کو مسلمانوں کی قسمت معین کرنے کے لئے آزاد چھوڑدیا ہے کہ جس طرح چاہیں ان کے لئے حکم معین کریں۔ امام علیہ السلام نے اس اعتراض کے جواب میں فرمایا:''اِنا لم نحکّم الرجالُ وانّما حکّمنٰا القرآنَ، ھذا القرآن انّما ھو خطّ مستور بین الدَّفتین لا ینطقُ بلسانٍ ولابدَّلہ من ترجمان ، وانما ینطق عنہ الرجالُ ، ولمّٰا دَعانَا القَومُ اِلیٰ ان نُحکَّم بیننَا القرآن لم نَکُنِ الفریقَ المتولّ عن کتاب اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ ، وقد قال اللّٰہ سبحانہ: '' فان تنازعتم فی شیئٍ فَردَّ وہُ اِلَی اللّٰہ والرّسول ِ ''فرُدُّہُ اِ لٰی اللّٰہ أن نَحکُمَ بکتابِہِ ، وردّہُ اِلَی الرّسول اَن ناخذ بسنّتِہِ ، فاذا حُکِمَ بالصّدق فی کتابِ اللّٰہ فنحن أحقُّ الناس بہِ وان ُحکِمَ بسنةِ رسول اللّٰہ (ص) فنحن أحقُّ الناس وَ اَولاَ ھُم بِھا۔(١)
ہم نے لوگوں کو نہیں بلکہ قرآن کو حَکَم مقرر کیا ہیاور یہ قرآن دودفتیوں کے درمیان لکھی ہوئی کتاب ہے جو زبان سے نہیں بولتی اس کے لئے ترجمان ضروری ہے اور وہ ترجمان آدمی ہی ہوتے ہیں جو قرآن کی روشنی میں کلام کرتے ہیں جب قوم (اہل شام ) نے ہم سے خواہش کی کہ ہم اپنے اور ان کے درمیان قرآن مجید کو حکم قرار دیں تو ہم ایسے لوگ نہ تھے کہ اللہ کی کتاب سے منحرف ہوں حالانکہ خداوند عالم فرماتا ہے: ''اگر
______________________
(١)نہج البلاغہ: خطبہ ١٢١.
تم کسی بات میں اختلاف کرو تو خدااور رسول کی طرف اسے پھیر دو'' ۔خدا کی طرف رجوع کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اس کی کتاب کو حَکَم مانیں اور رسول کی طرف رجوع کرنے کے یہ معنی ہیں کہ ہم ان کی سنت کو اختیار کریں ، پس اگر سچائی کے ساتھ کتاب خدا سے حکم حاصل کیا جائے تو اس کی رو سے لوگوں میں سب سے زیادہ ہم اس کے حق دار ہیں اور اگر سنت رسول کے مطابق فیصلہ کیا جائے تو ہم سب سے زیادہ اس کے اہل ہیں ۔
امام علیہ السلام ایک دوسرے خطبہ میں اسی جواب کو دوسری عبارت میں بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں : '' دونوں حَکم کو اس لئے مقرر کیا گیا تھا کہ وہ انہیں چیزوں کو زندہ کریں جنہیں قرآن نے زندہ کیا ہے اور جن چیزوں کو قرآن نے ختم کیا ہے انہیں یہ بھی ختم کر دیں (حق کو زندہ اور باطل کو نابود کردیں) اور قرآن کا زندہ کرنا اس پر اتفاق کرناہے اور اسے ہلاک کرنا اس سے دوری اختیار کرنا ہے پس قرآن اگر ہمیں ان (شامیوں )کی طرف کھینچ لے جائے تو ہم ان کی پیروی کریں گے اور اگر وہ انہیں ہماری طرف کھینچ لائے تو انہیں ہماری پیروی کرنی چاہیے ، تمہارا برا ہو، میں نے اس بات میں کوئی غلط کام تو نہیں کیا نہ تمہیں دھوکہ دیا ہے اور نہ کسی بات کو شبہہ میں رکھا ہے ۔(١)
______________________
(١)نہج البلاغہ خطبہ ١٢٣،١٧.

٢۔ وقت کا تعیین
خوارج کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ کیوں فیصلہ کرنے والوں کے لئے وقت معین ہوا ہے اور یہ طے پایا ہے کہ دونوں (عمروعاص اورابوموسیٰ )غیر جانب دار علاقہ (دومة الجندل) میں ماہ رمضان ختم ہونے تک اختلاف کے بارے میں اپنی اپنی رائے پیش کردیں اور یہ کام میدان صفین ہی میں اس دن کیوں نہیں انجام دیا گیا جس دن قرآن کو نیزہ بر بلند کیا گیا تھا؟!
حقیقتاً اس طرح کے اعتراضات کیا ان کی جہالت پر دلالت نہیں کرتے ؟ کیا ایسا عظیم فیصلہ ، اوروہ بھی اس وقت دونوں گروہ کا ہاتھ کہنی تک ایک دوسرے کے خون میں ڈوبا ہواتھا، کوئی آسان کام تھا کہ ایک دو دن کے اندر فیصلہ ہوجاتا اور دونوں گروہ اُسے قبول کرلیتے؟ یا اس کے لئے صبر وضبط کی ضرورت تھی تاکہ جاہل کی بیداری اور عالم کے استحکام کا امکان زیادہ پیدا ہو جائے اور امت کے درمیان صلح کا ذریعہ اور زیادہ
فراہم ہوجائے۔
امام علیہ السلام اس جواب کے اعتراض میں فرماتے ہیں : '' وَاماقَو لکم:لم جعلت بینکم و بھینم أجلاً فی التحیکم؟فانما فَعَلتُ ذالک لِیتبیّّنَ الجَاھِلُ ویتثبّتَ العالم ولَعلَّ اللّٰہ اَن یصلحَ فی ھذہِ الھُدنَةِ أمرھذہ الامةِ '' (١)اب تمہارا یہ کہنا کہ آپ نے اپنے اور ان کے درمیان تحکیم کی مہلت کیوں دی تو میں نے یہ موقع اس لئے دیا کہ جاہل تحقیق کرے اور عالم ثابت قدم ہوجائے ، اور شاید خداوند عالم اس مہلت کے ذریعے اس امت کے حالات کی اصلاح فرمادے۔
______________________
(١) نہج البلاغہ خطبہ ١٢١

٣۔ حاکمیت انسان اور حاکمیت خدا کے انحصار سے تارض
خوارج نے امام علیہ السلام سے مخالفت کے زمانے میںآیة '' لاحکم الّا لِلّٰہ '' کا سہارا لیا اورحضرت کے کام کو نص قرآن کے خلاف شمار کیا اور یہ نعرہ لگایا: ''لاحکم الّا لِلّٰہ لا لَکَ و لا لِاَصحابک یا علُّ''یعنی حاکمیت خدا سے مخصوص ہے نہ کہ تم سے اور نہ تمہارے ساتھیوں سے اور یہ نعرہ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے قرآن سے اقتباس ہے جو سورہ یوسف آیت نمبر ٤٠ اور ٦٧ میں وارد ہوا ہے اور اس کا مفہوم توحید کے اصول میں شمار ہوتاہے اور اس بات کی حکایت کرتاہے کہ حاکمیت اور فرمانروائی ایک حقیقی اور اصل حق ہے جو خدا سے مخصوص ہے اور کوئی بھی انسان اس طرح کا حق دوسرے انسان پر نہیں رکھتا۔ لیکن خدا میں حاکمیت کا منحصر ہونا اس چیز کے منافی نہیں کہ کوئی گروہ ایک خاص ضوابط کے ساتھ جن میں سب سے اہم خداکی اجازت ہے دنیا پر حکومت کرے ، اورخدا کی حاکمیت کی تجلی گاہ ہوجائے اور کوئی بھی عقلمند انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ اجتماعی زندگی، بغیر حکومت کے ممکن ہے ، کیونکہ وظائف و فرائض کاانجام دینا، اختلافات کا حل ہونا اور لڑائی جھگڑے کا ختم ہوناوغیرہ یہ تمام چیزیں ایک حکومت کے سایہ میں انجام پاسکتی ہیں ۔
اما م علیہ السلام نے جب ان کے نعرہ کو سنا تو فرمایا ، ہاں یہ بات صحیح ہے کہ حکومت کاحق صرف خدا کو ہے لیکن اس حق کی بات سے باطل مراد لیا جا رہا ہے: '' کلمة حقٍ یراد بھا الباطل، نعم انّہ' لاحکم الّٰا لِلّٰہ ولکن ھولائِ یقولون لا امراة الا لِلّٰہ وانَّہ لابُدَّ لِلنَّاسِ مِن اَمیرٍ بّرٍ او فاجر یعمل فی
امرتہ المومن ویستمتع فیھا الکافر ''(١)
''بات حق ہے مگر اس سے مراد باطل لیا جارہاہے ہاں بے شک حکم خدا ہی کے لئے ہے لیکن یہ لوگ تو کہتے ہیںکہ امیر (حاکم) بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہے حالانکہ لوگوں کے لئے ایک نہ ایک امیر (حاکم ) کا ہونا لازم ہے نیکو کار ہویا فاسق وفاجر ، تاکہ اس حکومت میں مومن عمل (خیر ) کرے اور کافر اس میں اپنے پورے پورے حقوق حاصل کرے ''۔
اگر حکومت نہ ہوتو امن اور چین نہیں ہوگا اور ایسی صورت میں نہ مومن اپنے کار خیر میں کامیاب ہوسکے گا اور نہ کافر دنیاکی زندگی سے فیضیاب ہوسکے گا اور اگر حقیقت میں مقصد، حکومت کا تشکیل نہیں دینا ہے تو اس صورت میں پیغمبراسلام(ص) اور شیخین کی حکومت کی کس طرح توجیہ کریں گے؟
خوارج اپنے عقیدہ و عمل میں ہمیشہ کشمکش میں مبتلا تھے ، ایک طرف سمجھتے تھے کہ اجتماعی زندگی ایک با اثر مدیر اور رہبر کے بغیر ممن نہیں ہے اور دوسری طرف اپنی کج فہمی کے زیر اثر ہر طرح کی حکومت کی تشکیل کو حاکمیت خدا کے انحصار کے خلاف سمجھتے تھے ۔
اس سے بھی تعجب خیز بات یہ ہے کہ یہ کہ خوارج نے خود اپنے کام کے آغاز میں اپنے گروہ کے لئے حاکم کا انتخاب کیا ! طبری لکھتاہے : ماہ شوال ٣٨ ہجری میں خوارج کے کچھ گروہ عبداللہ بن وہب راسبی کے گھر جمع ہوئے اور عبداللہ نے اپنی تقریر میں کہا: یہ بات شائستہ نہیں ہے کہ لوگ خدا پر ایمان لائیں اور حکم قرآن کو تسلیم کریں اور دنیا کی زندگی ان لوگوں کی نظر میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے زیادہ باعث مشقت ہو ، پھر اس کے بعدحرقوص بن زہیر اور حمزہ بن سنان نے بھی گفتگو کی، اور تیسرے نے اپنے کلام کے آخر میں کہا :فولوا أمرکم رجلاً فانہ لابد لکم من عمادٍ وسنادٍ ورایة تحفون بھا وترجعون الیھا۔(٢)
تم کسی شخص کو اپنا امیر اور حاکم بنائو اس لئے کہ تمہارے لئے ایک ستون ، معتمد اور جھنڈا ضروری ہے جس کے پاس آئو اور رجوع کرو۔
______________________
(١)نہج البلاغہ خطبہ ٤٠
(٢) تاریخ طبری ج٦، ص ٥٥
حکمیت، آخری امید
مسلمانوںکے درمیان ،جنگ صفین سے پہلے اور اس کے بعد بہت سے ایسے بنیادی مسائل تھے کہ جن کے حل کا ایک طریقہ ایسے فیصلہ کرنے والوں کا انتخاب کرنا تھا جوحقیقت بینی کے ساتھ مسائل کی دقیق اور بہترین تحقیق کریں اور پھر ان کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کریں۔ وہ مسائل یہ تھے:
١۔ عثمان کا قتل ۔
٢۔ امام کے دوستوں پر خلیفہ کے قتل کا الزام ۔
٣۔ معاویہ کا دعویٰ کہ وہ عثمان کے خون کا ولی ہے ۔
بنیادی طور پر یہی مسائل تھے جس کی بنا پرجنگ صفین ہوئی اور ان مشکلوں کے حل کے لئے دو راستے تھے: پہلاراستہ یہ کہ دونوں فریق اپنے اختلافی مسائل کو مہاجرین اور انصار کے ذریعہ چنے ہوئے امام کے پاس پیش کریں اور وہ ایک آزاد شرعی عدالت میں خداکے حکم کو ان کے بارے میں جاری کریں اور یہ وہی راہ تھی جس کے بارے میں امام علیہ السلام نے صفین سے پہلے تاکید کی تھی اور اپنے خط میں معاویہ کو لکھا تھا: '' قد اکثرت فی قتلة عثمان فادخل فیمادخلَ فیہ النّاسُ ثمّ حاکمَ القومَ الیّ أن احملک وایّا ھم علی کتابِ اللّٰہ ''(١) اور تم نے عثمان کے قاتلوں کا باربار ذکر کیا ہے اور جس دائرہ اطاعت میں لوگ داخل ہوچکے ہیں تم بھی (بیعت کرکے) داخل ہوجاؤ پھر میری عدالت میں ان لوگوں کا مقدمہ پیش کرو تاکہ میں کتاب خدا کے مطابق تمہارے اور ان کے درمیان فیصلہ کروں۔
دوسراراستہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو ایک صلح پسند عدالت میں بھیج دیا جائے تاکہ وہاں منصف مزاج اورحقیقت پسند قاضی مشکل کا حل تلاش کریں اور فیصلہ کرتے وقت اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی اور واقعی مصلحتوں سے چشم پوشی نہ کریں اور عمروعاص جیسے لوگوں کی ہر طرح کی بن الوقتی اور مفاد پرستی سیاور ابو موسیٰ جیسے لوگوں کے کینہ وبغض سے دو رہوں ، ایسی عدالت میں امام علیہ السلام اپنے حقیقی مقصد تک پہونچ سکتے تھے اور مشکلات کا حل وفیصلہ کرسکتے تھے۔
خلیفہ کا قتل بہت پیچیدہ مسئلہ نہ تھا ۔ اس کے عوامل و اسباب کئی سالوں پہلے سے وجود میں آ چکے تھے
______________________
(١)نہج البلاغہ مکتوب نمبر٦٤
اور روز بروز بڑھتے ہی جا رہے تھے یہاں تک کہ دبائو اور گھٹن کی شدت صالحین پر ظلم وستم اورمصلحین پر سختی و شکنجہ دھماکے (قت ) کا سبب بن گیا یہ ایسا دھماکاتھا جسے علی علیہ السلام بھی روک نہیں سکے اور خلیفہ کو قتل سے بچانہیں سکے۔
معاویہ اورمقتول خلیفہ کے ہواخواہوں کے دعوے کے لئے ضروری تھا کہ اُسے شرعی عدالت میں
پیش کیا جاتا اورحق وباطل میں تمیز پیدا کی جاتی ۔ دنیا کی کسی بھی جگہ مقتول کے خون کا بدلہ لینے کے لئے لشکر کشی جائز نہیں سمجھی جاتی،تو پھر تقریباً ٦٥ ہزار انسانوں کے قتل کا جواز کیے ہو سکتا ہے ؟
'' دومة الجندل '' کی عدالت میں اگرصحیح طریقہ سے فیصلہ ہوتا تو ان تمام مسائل کی صحیح چھان بین ہوتی اور مسلمانوں کا وظیفہ ان واقعات کے بارے میں واضح ہوجاتا. مگر افسوس ، اس عدالت میں جس چیز کے بارے میں بحث نہیں ہوئی وہ اختلاف کی جڑیں اور بنیادیں تھیں۔ عمروعاص اپنے رقیب ( ابوموسیٰ) کی عقل و رائے کو سلب کرنے کی فکر میں تھا تاکہ امام علیہ السلام کو خلافت سے معزول کرنے کے لئے اس کو راضی کرلے اورمعاویہ کی خلافت نافذ کر دے اور ابوموسیٰ اس فکر میں تھا کہ اپنے ہمفکروہم خیال عبداللہ بن عمر کو خلافت تک پہونچادے کیونکہ اس کا ہاتھ دونوں طرف میں سے کسی ایک کے خون سے آلودہ نہ ہوا تھا ۔ جب عدالت کے نظریہ کا اعلان ہوا تو علی علیہ السلام نے اسے قانونی و اصولی طور پر قبول نہ کیا اورفرمایا: فیصلہ کرنے والوں نے اپنے عہد وپیمان کے خلاف عمل کیا ہے اور ارادہ کیا کہ اپنی فوج کو منظم کر کے معاویہ سے جنگ کنے کو روانہ ہوںلیکن خوارج کے حادثہ نے معاویہ کا پیچھا کرنے سے روک دیا۔

فساد کو جڑ سے ختم کرنا
خوارج کے ساتھ امام علیہ السلام کا برتائو بہت ہی نرم اورلطف و مہربانی سے پُر تھا اور آپ جب بھی ان کو خطاب کرتے تھے تو صرف محبت ، نصیحت اور ہدایت وراہنمائی کرتے تھے اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز آپ سے نہیں سنی گئی ، حضرت نے بالکل اس باپ کے مثل جو چاہتا ہے کہ اپنے عاق اور سرکش بیٹے کوصحیح راستے پر لائے ان لوگوں سے برتائو کرتے تھے،ان کے حقوق کوبیت المال سے ادا کرتے تھے ، مسجد اور اس کے اطراف میں ان کے ظلم وستم اورشوروغل کرتے تھے، پرواہ نہ کی اور آپ کی پوری کوشش یہ تھی کہ اس گروہ کو مسخّر اور قابو میں کر کے معاشرے میں اتحاد کوواپس لے آئیں اور شام کے سرطانی غدّہ کو جڑ سے ختم کردیںکیونکہ خوارج بھی اسی کی پیداوار تھے ، اور صفین کا عہد وپیمان بھی امام علیہ السلام کو یہ حق دے رہا تھا کیونکہ عہدنامہ کی عبارت میں یہ بات لکھی گئی تھی کہ اگر حکمین نے قرآن وسنت کے برخلاف فیصلہ کیا تو امام علیہ السلام اپنے پہلے اصل منصب پر باقی رہیں گے(١)۔
اما م علیہ السلام نے لوگوں کو یہ بات واضح کرنے کے لئے بہت سی تقریر یں کیں کہ معاویہ سے دوبارہ جنگ صفین کے عہد نامہ کی خلاف ورزی نہیں ہے بلکہ اس کے مطابق تو جنگ دوبارہ ہونا چاہیے تاکہ دشمن کا خاتمہ ہوجائے ۔ آپ اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں :'' وقد سبق استثناؤنا علیھما فی الحکم بالعدل والعمل بالحقّ سوء رأیھماوجور حکمھما ، والثّقةُ فی ایدینا بانفسنا حین خالفا سبیل الحق وآتیٰا بما لایعرف من معکوس الحکمِ '' (٢)،ہم نے تو ان کی غلط رائے اور ناروا فیصلوں سے پہلے ہی ان سے شرط کرلی تھی کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے اور حق پر قائم رہنے میں بدنیتی اور ناانصافی کو دخل نہ دیں گے ، اب جب کہ انہوں نے راہ حق سے انحراف کیاہے اور طے شدہ قرار داد کے برعکس حکم لگایا ہے تو ہمارے ہاتھ میں ان کا فیصلہ ٹھکرادینے کے لئے ایک مستحکم دلیل اور معقول وجہ موجود ہے۔
امام علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کی نظر میں شجرہ خبیثہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور فساد کے غدہ کو نکال باہر کرنے کے علاوہ کچھ نہ تھا او ر ان لوگوں کی پوری سعی وکوشش یہی تھی لیکن اچانک تاریخ نے ورق پلٹا اور یہ واقعہ اس فکرونظر کے برخلاف ہوگیا اور معاویہ سے جنگ کے بجائے، خوارج سے جنگ ایک قطعی مسئلہ کی صورت میں چھڑ گئی، اب اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ آخر کون سی چیز سبب بنی کہ امام علیہالسلام کے صبروتحمل کا جام لبریز ہوگیا اورآپ کو ان لوگوں سے جنگ کرنے پر مجبور کردیا۔ اس مسئلہ کی علت کو دومندرجہ ذیل باتوں سے معلوم کرسکتے ہیں :
______________________
(١)عہد نامہ کی عبارت یہ تھی : وان کتاب اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ بیننا عن فاتحتہ الیٰ خاتمتہ ، نحیی ما احیی القرآن ونمیت ماأمات القرآن ۔ فان وجد الحکمان ذالک فی کتاب اللّٰہ اتبعناہ وان لم یجداہ اخذا بالسنة العادلة وغیر المفرقة۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٢ص٢٣٤
(٢)نہج البلاغہ (عبدہ) خطبہ ١٧٢
١۔ خبر ملی کی خوارج عبداللہ بن وہب راسبی کے گھر جمع ہوئے ہیں اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے عنوان سے جنگ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اسی مقصد کے لئے بصرہ میں موجود اپنے ہمفکروں کو خط لکھا ہے اور ان لوگوں کو دعوت دی ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو خوارج کی چھاؤنی '' خیبر'' کے پاس نہروان پہونچ جائیں ، بصرہ کے خوارج نے بھی اپنی آمادگی کا اعلان کردیاہے۔(١)
٢۔دومة الجندل کے قاضیوں کے فیصلے نے ، کہ جس میںنہایت بے حیائی سے امام علیہ السلام کو ان کے منصب سے معزول اور معاویہ کو ان کی جگہ پر منصوب کیا گیا تھا، امام علیہ السلام کوعمومی افکار کے واضح کرنے پر مجبورکیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام علیہ السلام کوفہ کے منبر پر تشریف لائے اور خدا کی حمدو ثنا کے بعد فرمایا:'' نیک، خیرخواہ اورصاحب علم وبصیرت شخص کی مخالفت حسرت وشرمندگی کاسبب ہے ، میں مسئلہ حکمیت اور ان دونوں آدمیوں کی قضاوت کے بارے میں منفی نظریہ رکھتا تھا لیکن تم لوگوں نے میرے نظریہ کو قبول نہیں کیا اور ان دونوں کو حاکمیت کے لئے معین کر دیا اور ان لوگوں نے اپنے عہد وپیمان کے برخلاف جس چیز کو قرآن نے مردہ کیا تھا اسے زندہ کردیا اور جس چیز کو قرآن نے زندہ کیا تھا اسے مردہ کردیا اور اپنے خواہشات نفس کی پیروی کی اور بغیر دلیل اور حجت کے حکم جاری کردیا ، اسی وجہ سے خدا وپیغمبر اور مومنین ان دونوں قاضیوں سے بری ء الذمہ ہیں ،جہاد کے لئے آمادہ اور شام چلنے کے لئے تیار ہوجاؤ ، اور دوشنبہ کے دن نخیلہ کی چھاؤنی کے پاس جمع ہوجاؤ، خدا کی قسم ! میں اس گروہ (شامیوں ) سے جنگ کروں گا ، اگرچہ ہمارے لشکر میں میرے علاوہ کوئی بھی باقی نہ رہے''۔
٣۔ امام علیہ السلام نے سوچا کہ جتنی جلدی ممکن ہو کوفہ چھوڑ کر صفین پہونچ جائیں ، آپ کے بعض دوستوں نے آپ سے کہا کہ بہتر ہے کہ خوارج جو ہمارے راستے سے دور ہوگئے ہیں انہیں بھی جنگ میں شریک ہونے کے لئے دعوت دیں ، اس وجہ سے امام علیہ السلام نے خوارج کے سرداروں کے پاس خط لکھا اور یاد دہانی کی کہ عمروعاص اورابوموسیٰ نے گناہ کیا ہے اور کتاب خدا کی مخالفت کی ہے اور اپنے خواہشات کی پیروی کی ہے نہ سنت پر عمل کیا ہے اور نہ ہی قرآن پر ، خدا اور اس کا رسول اور مومنین ان کے کرتوت سے بری ء الذمہ ہیں ، جب میرا خط تمہارے پاس پہونچے تو میری طرف آنے میں جلدی کرو تاکہ مشترک دشمن
سے جنگ کرنے کے لئے ایک ساتھ چلیں ۔
_______________________________
(١) الامامة والسیاسة ج١، ص ١٣٢
٤۔ امام علیہ السلام کا خط خوارج کے لئے ذرہ برابر بھی مؤثر ثابت نہ ہواان لوگوں نے حضرت کی درخواست کو رد کردیا۔ اس وجہ سے امام علیہ السلام ان لوگوں سے مایوس ہوگئے اور ارادہ کیا کہ ان لوگوں کا انتظار نہ کریں اور جتنے سپاہی موجود ہیں یا آنے والے ہیں ان کے ساتھ صفین کی طرف جائیں، پھر آپ نے بصرہ کے حاکم ابن عباس کے پاس خط لکھا اور ان سے مدد طلب کی، جب امام علیہ السلام کا خط بصرہ کے حاکم کے پاس پہونچا تو انہوں نے لوگوں کے درمیان اس خط کو پڑھ کر سنایا مگر افسوس کہ صرف پندرہ سو آدمیوں نے اخنف بن قیس کی سرداری میں امام علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہی۔ ابن عباس فوج کی اقلیت پر بہت رنجیدہ ہوئے اور لوگوں کے مجمع میں بہترین تقریر کی اور کہا: '' امیر المومنین علیہ السلام کا خط میرے پاس آیا ہے اور اس میں مجھے حکم دیا ہے کہ لوگوں کو میرے پاس جنگ میں شرکت کرنے کے لئے روانہ کرو لیکن صرف پندرہ سو (١٥٠٠) لوگ جہاد کے لئے آمادہ ہیں جب کہ سرکاری رجسٹر میں ساٹھ ہزار آدمی کا نام درج ہے ۔جلدسے جلد روانہ ہوجاؤ اور عذر اور بہانہ سے پرہیز کرو اور جو شخص بھی اپنے امام کی دعوت کی مخالفت کرے گا بہت زیادہ شرمندہ ہوگا ۔ میں نے ابوالاسود کو حکم دیا ہے کہ تم لوگوں کی روانگی کا پروگرام ترتیب دیں۔
ابوالاسود اور دوسرے افراد کی تمام تر کوششوں کے باوجود صرف اٹھارہ سو (١٨٠٠) لوگ پہلے گروہ سے ملحق ہوئے اور بالآخر تین ہزار دوسو (٣٣٠٠) افراد پر مشتمل ایک لشکر کوفہ کے لئے روانہ ہوا ، امام علیہ السلام بصرہ کی فوج کی کمی پر بے حد رنجیدہ ہوئے اور کوفہ کے لوگوں کے درمیان آپ تقریر کرنے کے لئے اٹھے اور ان لوگوں کو مخاطب کرکے کہا:اے کوفہ کے لوگو! تم لوگ حق کے امور میں میرے بھائی اور میرے دوست ہو میں تم لوگوں کی مدد سے ،جوحق سے منھ موڑے گا اسے سرنگوں کردوں گا۔ مجھے امید ہے کہ تم لوگ اس راہ میں حق کے پاسدار اور ثابت قدم رہو گے ، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بصرہ سے صرف تین ہزار دوسو لوگ ہمارے پاس آئے ہیں۔ تم لوگوں پر لازم ہے کہ خلوص کے ساتھ اوردھوکہ ، فریب و خیانت سے دور رہ کر میری مدد کرو، اور قبیلے کے بزرگ اور سردار اپنے رشتہ داروں اور خاندان والوں کو خط لکھیںاور ان سے کہیں کہ جو لوگ جنگ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں وہ اس جنگ میں شرکت کریں ۔
بڑی شخصیتیں مثلاً سعد بن قیس ہمدانی ، عدی بن حاتم ، حجر بن عدی اور قبیلوں کے بزرگ افراد نے امام کے فرمان کو دل وجان سے قبول کیا اور اپنے اپنے قبیلوں کو خط لکھا ، اور اس طرح چالیس ہزار (٠٠٠،٤٠) بہادر جنگجو اور سترہ ہزار (١٧٠٠٠) نوجوان اور آٹھ ہزار (٨٠٠٠) غلام کوفہ میں داخل ہوئے اور بصرہ کا لشکر بھی اسی میں شامل ہوگیا اور ایک قابل دید اور دشمن شکن لشکر امام علیہ السلام کے پرچم تلے جمع ہوگیا۔
کچھ لوگوں نے امام علیہ السلام سے بہت زیادہ اصرار کیا کہ معاویہ سے جنگ کرنے سے پہلے خوارج کے معاملے کو ختم کردیں ، لیکن امام علیہ السلام نے ان کی درخواست پر توجہ نہ دی اور فرمایا: ان لوگوں کو چھوڑ دو اورایسے گروہ کی طرف چلو جو چاہتے ہیں کہ زمین پر ستمگروں کے بادشاہ رہیں ، اور مومنین کو اپنا غلام بنائیں ، اس وقت فوج کے ہر گوشہ سے آواز بلند ہوئی اور لوگوں نے امام سے کہا :آپ جہاں بھی مصلحت سمجھیں ہمیں بھیج دیں کیونکہ ہم سب کا دل ایک آدمی کے دل کی طرح ہے اور آپ کی نصرت و مدد کے لئے تڑپ رہا ہے۔
٥۔ایسے حساس حالات میں خبر پہونچی کہ خوارج نے عبداللہ بن خباب کو نہر کے کنارے بھیڑ کی طرح ذبح کردیا ہے اور صرف اتنے ہی پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ ان کی بیوی کوبھی قتل کردیا ہے اور ان کے شکم سے بچہ نکال کر اسے بھی ذبح کردیا ہے۔
ابن قتیبہ '' الامامة والسیاسة '' میں اس بارے میں لکھتے ہیں :جب خوارج عبداللہ کے سامنے آئے تو ان سے کہا: تم کون ہو؟ انہوں نے کہا خدا کا مومن بندہ ہوں۔ ان لوگوں نے کہا: علی کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے ؟ انہوں نے کہا: وہ امیرالمومنین اور خدا اوراس کے رسول پر سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں ۔ ان لوگوں نے کہا: تمہارا نام کیا ہے ؟ انہوں نے کہا ، عبداللہ بن خباب بن الارّت ۔ ان لوگوں نے کہا: تمہارا باپ پیغمبر کا صحابی ہے ؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ ان لوگوں نے کہا: ہم نے تمہیں ناراض کیا ہے ؟ کہا : ہاں ان لوگوں نے کہا۔ وہ حدیث جو کہ تم نے اپنے باپ سے اور انہوں نے پیغمبر سے سنی ہے ہمارے لئے نقل کرو ۔ انہوں نے کہا: میرے باپ نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایاہے:'' میرے بعد ایسا فتنہ برپا ہوگا کہ مومن کا دل اس میں مرجائے گا ، رات کو باایمان سوئے گا اور دن میں کافر ہوجائے گا ''۔ان لوگوں نے کہا :ہم لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ یہ حدیث تم سے سنیں قسم ہے تمہیں اس طرح قتل کریں گے کہ آج تک اس طرح کسی کو قتل نہیں کیا ہے اور پھر فوراً ہی ان کے ہاتھ پیر باندھ دیئے اورانہیںان کی حاملہ بیوی کے ساتھ کھجور کے درخت کے پاس لائے ۔اس وقت ایک کھجور پیڑ سے گری اور خوارج میں سے ایک شخص نے اُسے منھ میں رکھ لیا فوراً ہی اس کے ہم خیالوں نے اعتراض کیاکہ لوگوں کے مال کو بغیر اجازت یا بغیر قیمت دیئے ہوئے کھارہے ہو؟ اس نے فوراً کھجور منھ سے نکال دی اور پھینک دیا! اور اسی طرح ایک عیسائی کا سور وہاں سے گزررہا تھا جو کسی خوارج کے تیر سے اس وقت دوسروں نے اعتراض کیا کہ تمہار ایہ کام زمین پر فساد کرنا ہے لہٰذا اس کے مالک سے لوگوںنے رضایت طلب کی ۔پھر عبداللہ کو جنہیں باندھ رکھا تھا نہر کے کنارے لائے اور بھیڑ کی طرح ذبح کردیا اور صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ ان کی بیوی کوبھی قتل کردیا اور ان کے شکم کو چاک کرکے بچے کے سر کو بھی کاٹ دیا ، اور پھر بھی اتنے ہی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ تین اور دوسری عورتوں کو بھی قتل کردیا جن میں سے ایک صحابیہ تھیں جن کا نام ام ّ سنان تھا(١)۔
خباب بن الارّت ، عبداللہ کے والد ، اسلام کے سابقین میں سے تھے اور قریش کے شکنجوں کے نشانات ان کے بدن پرآخر وقت تک موجودتھے۔ وہ امام علیہ السلام کے صفین سے کوفہ پہونچنے سے پہلے ہی انتقال کرگئے اورامام علیہ السلام صفین سے آنے کے بعد ان کی قبر پر گئے اور ان کے رحمت کی اور تعریف کی۔
مبرّدنے اپنی کتاب '' کامل '' میں عبداللہ کے دردناک قتل کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب قاتل نے انہیں پکڑا تو عبداللہ نے کہا : میں تم سے درخواست کرتاہوں کہ جس چیز کو قرآن نے زندہ کیا ہے اسے زندہ کرو اور جس چیز کو مردہ کیاہے اسے ماردو، پھر عبداللہ کی روایت ان کے والد کے واسطے پیغمبر سے نقل کرنے کے بعدمبرد لکھتے ہیں:خوارج نے کھجور کے مالک سے درخواست کی کہ اس کی قیمت لے لے، اس نے کہا کہ میں نے اس پیڑ کی کھجور کے استعمال کو تم لوگوں کے لئے بخش دیاہے لیکن ان لوگوں نے قبول نہیں کیا اورکہا کہ تم کو اس کی قیمت لینا پڑے گی ، اس وقت ایک عیسائی نے فریاد بلند کی کہ تم لوگ ایک مسلمان کا خون بہانے سے نہیںڈرتے لیکن ایک پھل کھانے سے پرہیز کرتے ہو جب کہ اس کے مالک
______________________
(١) الامامة والسیاسة: ص١٣٦۔
نے رضایت بھی دیدی ہے ؟! (١)
٦۔ امیرالمومنین علیہ السلام جب عبداللہ کے قتل سے باخبر ہوئے تو حارث بن مرّہ کو خوارج
کی چھاؤنی بھیجا تاکہ واقعہ کی حقیقت معلوم کریں جب حارث ان کے پاس پہونچے تاکہ واقعہ کا صحیح پتہ لگائیں تو ان لوگوں نے تمام اسلامی اورانسانی اصولوں کے برخلاف انہیں قتل کردیا۔ امام علیہ السلام پر سفیر کے قتل ہونے کی وجہ سے بہت اثرہوا ۔اس موقع پر کچھ لوگ امام علیہ السلام کے پاس پہونچے اور کہا : کیا یہ صحیح ہے کہ ایسے خطروں کے باوجود ہم شام جائیں اور اپنے بچوں اور عورتوں کو ان کے پاس چھوڑدیں؟
______________________
(١) الکامل: ص ٥٦٠، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج٢، ص٢٨٢۔

عبداللہ کے قاتلوںکی تنبیہ
عبداللہ کے قتل سے جو وحشت اور رعب پیدا ہوا اس نے امام علیہ السلام کو آمادہ کیا کہ جہالت اور بدبختی کو جڑ سے ختم کردیں ، اسی وجہ سے آپ نے ارادہ کیا کہ حروراء یا نہروان جائیں جب امام روانہ ہونے لگے تو اس وقت آپ کے دوستوں میں سے ایک شخص نے جو علم نجوم میں ماہر تھا ، علی علیہ السلام کو اس وقت سفر کرنے سے منع کیا اور کہا: اگر اس وقت آپ نے سفر کیا تو بہت سخت مشکل میں گرفتار ہوں گے امام علیہ السلام نے اس کی بات پر توجہ نہیں دی اور ان مسائل میں علم نجوم سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں تنقید کرتے ہوئے فرمایا: نجوم کو جنگل کی تاریکیوں اور دریاؤں میں راہنمائی کے لئے استعمال کرو ، قضاء الہی سے امام علیہ السلام کو عظیم کامیابی ملی۔ امام علیہ السلام کوفہ سے کچھ ہی دور ہوئے تھے کہ آپ کے ساتھیوں میں سے ایک شخص دوڑا دوڑا آیا اور کہااے امیرالمومنین !بشارت دیجئے کہ خوارج کا گروہ آپ کے سفر سے آگاہ ہوگیا اور بھاگ گیا اور نہر عبور کرچکا ہے ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم نے اپنی آنکھوں سے لوگوں کو نہر عبور کرتے دیکھا ہے ؟ اس نے کہا: ہاں ، امام نے اُسے تین مرتبہ قسم دی اور اس نے تینوں مرتبہ قسم کھا کر کہا: میں نے خوارج کو پانی اور پل پر سے گزرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: '' واللّٰہ ما عبروہ ولن یعبروہ وانّ مصارِعَھم دون النّطفة والذی خلق الحبّة وبرئَ النسمة لن یبلغوا الا ثلاث ولا قصر
بوازِن ''(١)خدا کی قسم ان لوگوں نے دریا کو عبور نہیں کیا ہے اور عبور کربھی نہیں کرسکتے ، ان کا مقتل دریا کے کنارے ہے۔ اس خدا کی قسم جس نے دانوں کو چاک کیا اور انسانوں کو پیدا کیا وہ لوگ '' اثلاث '' اور'' قصربوازن'' بھی نہیں پہونچ پائیں گے۔
اس شخص کی دو آدمیوں نے اور بھی تائید کی لیکن امام علیہ السلام نے ان کی باتوں کو قبول نہیں کیا اور امام کس طرح سے قبول کرتے کیونکہ پیغمبر معصوم (ص) نے آپ کو خبر دی تھی کہ تین گروہ سے تمہاری جنگ ہوگی ؟ دوگروہوں سے جنگ ہوچکی تھی اور تیسرا گروہ پیغمبر کے قول میں ذکر شدہ نشانیوں کے مطابق یہی گروہ تھا ۔ اس وقت ایک جوان شک وشبہ میں پڑ گیا اور سوچنے لگاکہ عینی شاہدوں کی بات مانے یا امام علیہ السلام کی غیبی باتوں کو صحیح مانے ، آخر اس نے فیصلہ کیا کہ اگر امام علیہ السلام کی بات کے برخلاف ثابت ہوا تو ان کے دشمن سے مل جائے گا۔
امام علیہ السلام گھوڑے پر سوار ہوئے اور آپ کی فوج بھی پیچھے پیچھے چلی، جب خوارج کی چھاؤنی پر پہونچے تو پتہ چلا کہ ان لوگوں نے نیام کو توڑ ڈالا ہے اور گھوڑوں کو چھوڑدیا ہیاور جنگ کے لئے تیار ہیں اس وقت وہ سادہ لوح نوجوان امام علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور اپنے برے خیال کے متعلق امام سے معافی مانگی۔
تاریخ بیان کرتی ہے کہ امام علیہ السلام مدائن سے گزر کر نہروان پہونچے اور انہیں پیغام دیا کہ عبداللہ اور اس کی بیوی بچے کے قاتل کو ہمارے حوالے کریں تاکہ ان کا قصاص لیں۔ خوارج نے جواب دیا ہم سب نے مل کر انہیں قتل کیا ہے اور ان کے خون کو حلال سمجھا ہے۔ امام علیہ السلام ان کے نزدیک پہونچے اور فرمایا:
'' اے (سرکش)گروہ میں تم کو متنبّہ کررہا ہوں کہ ایسا نہ ہوکہ کل امت اسلامی تم کو لعنت کا
مستحق قراردے اور بغیر کسی واضح دلیل کے دریا کے کنارے قتل کردیئے جاؤ۔
… میں نے تم لوگوں کو مسئلہ حکمیت قبول کرنے سے منع کیا اور میں نے کہا تھا کہ بنی امیہ کو نہ دین
______________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٢، ص٢٧٢''مضارعھم دون النطفةواللّٰہ لایفلت منھم عشرةولا یھلک منکم عشرة''خطبہ ،٥٨
سے محبت ہے اور نہ قرآن ہی چاہتے ہیں۔ میں ان لوگوں کو بچپن سے لے کر اس وقت تک کہ وہ بڑے ہوئے ہیں خوب پہچانتاہوں ، وہ لوگ بد ترین بچے اور بدترین لوگ ہیں ۔لیکن تم لوگوں نے میری بات غور سے نہیں سنی اور میری مخالفت کی اور میں نے ایسے ہی دن کے لئے دونوں قاضیوں سے عہد وپیمان لیا کہ جو کچھ قرآن نے زندہ کیاہے اُسے زندہ کریں اور جس چیز کو ختم کیا ہے اسے ختم کر دیں اب جبکہ دونوں نے قرآن و سنت کے برخلاف حکم کر دیا ہے ہم اپنے پہلے ہی قول اور طریقے پر باقی ہیں (١)
'' خوارج کے پاس امام علیہ السلام کی معقول اور محکم گفتگو کے جواب میں بے ہودہ باتوں کی تکرار کے علاوہ کچھ نہیں تھااور اصرار کررہے تھے کہ مسئلہ حکمیت قبول کرنے کی وجہ سے ہم سب کافر ہوگئے ہیں اور ہم نے توبہ کی ہے آپ بھی اپنے کفر کا اعتراف کیجیے اور توبہ کیجئے، اس صورت میں ہم آپ کے ہمراہ ہیں اور اگر ایسا نہیں کیا تو ہم کوچھوڑ دیجیے اور اگر جنگ کرنا چاہتے ہیں تو ہم جنگ کے لئے تیار ہیں ''۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا رسول اسلام پر ایمان اور ان کی رکاب میںجہاد کرنے کے بعد اپنے کفر پر گواہی دوں ؟ کیا مسئلہ حکمیت قبول کرنے کی وجہ سے تم لوگوں نے اپنی تلواروں کو کاندھوں پر رکھا ہے اور انھیں لوگوں کے سروں پر مارنا چاہتے ہو اور لوگوں کا خون بہانا چاہتے ہو ؟یہ تو کھلا ہوا گھاٹاہے۔
______________________
(١) شرح نہج البلاغہ خطبہ نمر ٣٦ کی طرف رجوع کریں

آخری اتمام حجت
امام علیہ السلام ان کے ساتھ گفتگو کرنے سے مایوس ہوگئے اور اپنی فوج منظم کرنے لگے فوج کے میمنہ کا سردار حجر بن عدی کواور میسرہ کا سردار شبث بن ربعی کو بنایا اور ابو ایوب انصاری کوسواروں کاسردار اور ابو قتادہ کو پیادہ چلنے والوں کا سردار بنایا ۔اس جنگ میں امام علیہ السلام کے ساتھ آٹھ سو صحابی شریک تھے اسی وجہ سے آپ نے ان لوگوں کا سردار قیس بن سعد بن عبادہ کو بنایا اور خود میںتھے پھر سوار لوچگوں میں ایک پرچم بلند کیا اور ابو ایوب انصاری کو حکم دیا کہ بلند آواز سے کہیں کہ واپسی کا راستہ کھلا ہواہے اور جو لوگ اس پرچم کے سایہ میں آجائیں گے ان کی توبہ قبول ہوجائے گی اور جو شخص بھی کوفہ چلا جائے یا اس گروہ سے الگ ہوجائے وہ امن وامان میں رہے گا ، ہم تم لوگوں کا خون بہانا نہیں چاہتے اس وقت ایک گروہ پرچم کے نیچے
آگیا اور امام علیہ السلام نے ان کی توبہ قبول کرلی ۔(ا) بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ خوارج میں سے ایک ہزار لوگوں نے واپسی کا راستہ اختیار کر لیا اور پرچم کے سایہ میں آگئے ۔خوارج کے بعض سردار جو امام علیہ السلام کی طرف آگئے ان کے نام یہ ہیں ، مسعر بن فدکی ، عبداللہ طائی ، ابومریم سعدی، اشرس بن عوف اور سالم بن ربیعہ۔ حقیقت میں صرف عبداللہ بن وہب راسبی کے علاوہ ان کے ساتھ کوئی بھی سردار نہ بچا(٢)۔
طبری لکھتے ہیں کہ امام علیہ السلام کی فوج میں اس گروہ کے شامل ہونے کے بعد خوارج کی فوج میں کل دو ہزار آٹھ سو (٢٨٠٠) سپاہی بچے،(٣) اور ابن اثیر نے ان کی تعداد ایک ہزار آٹھ سو (١٨٠٠)لکھی ہے ۔
امام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ جب تک دشمن جنگ شروع نہ کرے تم لوگ جنگ شروع نہ کرنا۔ اسی وقت خوارج میں سے ایک شخص بڑھا اور امام علیہ السلام کے ساتھیوں پر حملہ کیا اور تین آدمیوں کو قتل کردیا ، اب امام علیہ السلام نے اپنے حملہ سے جنگ شروع کی اور اپنے پہلے ہی حملے میں اس شخص کو قتل کردیا اور پھر اپنے فوجیوں کو حملہ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: خدا کی قسم تم لوگوں میں دس آدمی کے علاوہ کوئی قتل نہیں ہوگا اور ان میں سے صرف دس آدمی کے علاوہ کوئی زندہ نہیں رہے گا(٤)۔
اس وقت عبداللہ بن وہب راسبی میدان میں آیا اور کہا : اے ابوطالب کے بیٹے !تم سے اس وقت تک جنگ کروں گا جب تک تمہیں قتل نہیں کردو یا تم مجھے قتل کر دو ۔ امام علیہ السلام نے اس کا جواب دیا: خدا اسے قتل کرے کتنا بے حیا شخص ہے وہ جانتاہے کہ میں تلوار اور نیزہ کا دوست ہوں۔ اور فرمایا کہ وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوگیا ہے اور جھوٹی امید میرے خلاف باندھے ہے۔ پھر ایک ہی حملہ میں اسے قتل کرکے اس کے دوستوں سے ملحق کردیا(٥)۔
اس جنگ میں بہت کم وقت میں امام علیہ السلام کو کامیابی مل گئی، امام علیہ السلام کے بہادر سپاہیوں
______________________
(١)الاخبار الطوال ص٢١٠۔
(٢)مقالات اسلامیین ج١، ص ٢١٠۔
(٣)کامل ابن اثیر ج٣،ص ٣٤٦۔ تاریخ طبری ج٤،ص ٦٤ ۔
(٤) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٢، ص٢٧٣،٢٨٢
(٥)الامامة والسیاسة ص١٣٨
نے داہنے بائیں سے اور خود امام علیہ السلام نے قلب لشکر سے اپنے بدترین وذلیل دشمن پر حملہ کیااورکچھ ہی دیر میں خوارج کے بے جان جسم زمین پر پڑئے ہوئے نظر آئے ۔اس جنگ میں تمام خوارج قتل ہوگئے ، صرف نو آدمی باقی بچے تھے جن میں دو شخص خراسان میں، دو شخص عمّان میں، دو شخص یمن میں، دو شخص جزیرہ عراق میںاورایک شخص نے '' تلّ موزن '' میں پناہ لی ، اور وہیں زندگی بسر کرنے لگے اور خوارج کی نسل کو باقی رکھا(١)۔
امام علیہ السلام جنگ کے بعد ان کے مردہ جسموں کے درمیان کھڑے ہوئے اور بہت ہی افسوس کرتے ہوئے فرمایا:''بؤساً لکم ، لقد ضرَّ کم من غرَّکم ، فقیل لہ' من غرّھم یا امیرالمومنین ؟ فقال: الشیطانُ المضلُّ والا نفسُ الامّارة بالسُّوئِ غرّتھم بالامانیّ وفسحت لھم بالمعاصی ووعدتھم الا ظھار فأ فتحمت بھم النّار''(٢)تمہارے لئے بدبختی ہو ، جس نے تم لوگوں کو دھوکہ دیا اس نے تمہیں بہت بڑا نقصان پہونچایا۔ لوگوں نے پوچھا :کس نے انہیں دھوکہ دیاہے ؟ آپ نے فرمایا:گمراہ کن شیطان اور سر کش نفسوں نے ان لوگوں کو لالچ دے کر دھوکہ دیا اور نافرمانی کی راہوں کو ان کے لئے کھول فیا اور انہیں کامیابی کا وعدہ دیا اور بالآخر ان لوگوں کو جہنم کی آگ میں جھونک دیا۔
امام علیہ السلام کے دوستوں نے سمجھا کہ خوارج کی نسل ختم ہوگئی ہے لیکن امام علیہ السلام نے ان کے جواب میں فرمایا:''کلّا ، واللّٰہ انّھم نطففی اصلاب الرجال وقرارات النساء ، کلّما نَجَمَ منھم قرن قُطِعَ حتٰی یکون آخرھم لصوصاً سلّابین ''(٣)نہیں ایسا ہرگزنہیں ہے ، خدا واہ ہے کہ وہ لوگ بصورت نطفہ مردوں کے صلب میں اور عورتوں کے رحم میں موجود ہیں اور جب بھی ان میں سے کوئی سرنکالے گا (حکومتوں کی طرف سے اسے) کاٹ دیا جائے گا ( اور دوسرا سروہیں پر نکل آئے گا) یہاں تک کہ آخر میں صرف چور اور لٹیرے ہو کر رہ جائیں گے ۔
______________________
(١) کلمات قصار نمبر ٣١٥۔
(٢) کشف الغمہ ج١، ص ٢٦٧۔
(٣) نہج البلاغہ خطبہ نمبر ٥٩۔
پھر آپ نے فرمایا: میرے بعد تم لوگ خوارج سے جنگ نہ کرنا کیونکہ تمہارا اصلی دشمن معاویہ ہے اور میں نے امن وامان کی حفاظت کے لئے ان لوگوں سے جنگ کی ہے ان میں سے بہت کم لوگ بچے ہیں اوروہ جنگ کرنے کے لائق نہیں ہیں ۔
امام علیہ السلام نے جنگی غنائم میں سے اسلحہ اور چوپایوں کو اپنے فوجیوں کے درمیان تقسیم کردیا اور ان کے سامان زندگی، کنیزوں اور غلاموں کو ان کے وارثوں کو واپس کردیا ۔ پھر اپنی ہماری تلواریں ٹوٹ گئی ہیں اور تیر ختم ہوگئے ہیں ، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ کوفہ واپس چلیں اپنی قوت میں اضافہ کریں پھر آگے بڑھیںفو ج میں آئے اور فوجیوں کی جواں مردی کی تعریفیں کیں اور فرمایا اسی وقت صفین کی طرف بڑھنا ہے تاکہ فتنہ کو جڑ سے ختم کر دیا جائے مگر فوجیوں نے کہا ہم تھک گئے ہیں ان لوگوں نے واپس جانے پر اتنا زیادہ اصرار کیاکہ امام علیہ السلام کو افسوس ہوا اور مجبوراً آپ ان لوگوں کے ساتھ نخیلہ کوفہ کی چھاؤنی پر واپس آگئے ۔ وہ لوگ دھیرے دھیرے کوفہ چلے جاتے تھے اور اپنی بیوی بچوں سے ملتے تھے اور زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ چھاؤنی پر کچھ ہی لوگ باقی بچے ۔ اتنے کم سپاہیوں کے ساتھ شامیوں سے جنگ کرنا ممکن نہ تھا۔

فتنۂ خوارج کے خاتمہ کی تاریخ
سرزمین صفین پر امام علیہ السلام کے اوپر خروج کرنے کی فکر ماہ صفر ٣٨ ہجری میں پیدا ہوئی اور زمانے کے ساتھ ساتھ کتاب خدا کے حکم کی مخالفت شدید ہوتی گئی ، کوفہ کے خوارج ماہ شوال ٣٨ کو عبداللہ بن وہب راسبی کے گھر جمع ہوئے اور اس کے ہاتھ پر بیعت کی اورکوفہ چھوڑنے کا ارادہ کیا اوروہاں سے'' حروراء ''اور پھر '' نہروان '' چلے گئے ۔ امام علیہ السلام نے اپنے شام کے پروگرام کو مجبوراً بدل کر خوارج سے جنگ کرنے کا ارادہ کیا اور مؤرخین کے نقل کرنے کے مطابق ٩ صفر ٣٨ ہجری کو فساد کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔(١)
______________________
(١) تاریخ طبری ج٣، س٩٨ ۔والخوارج