فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
 

تاریخ دہراتی ہے
یہ واقعہ بذات خود بے مثال نہیں ہے بلکہ جنگ صفین میں کم وبیش اس طرح کا واقعہ ہوا ہے جس میں بعض کی طرف ہم اشارہ کررہے ہیں۔
١۔ نعیم بن صہیب بَجلی عراقی قتل ہوا اس کاچچازاد بھائی نعیم بن حارث بَجلی جو شام کی فوج میں تھا ، اس نے معاویہ سے اصرار کیا کہ اپنے چچازاد بھائی کی لاش کو کپڑے سے چھپادے، لیکن اس
نے اجازت نہیں دی اور بہانہ بنایا کہ اسی گروہ کے خوف سے عثمان کو رات میں دفن کیا گیا لیکن بَجلی شامی نے کہا یا تو یہ کام انجام پائے گایا تجھے چھوڑ دوں گا اور علی کے لشکر میں شامل ہوجاؤں گاآخرکار معاویہ نے اسے اجازت دی کہ اپنے چچا زاد بھائی کے جناز ے کو دفن کردے۔(١)
٢۔ قبیلۂ ازد کے دو گروہ آمنے سامنے تھے ان دونوں قبیلوں میں سے ایک قبیلے کے سردار نے کہا سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ایک ہی قبیلہ کے دو گروہ ایک دوسرے سے مقابلے کے لئے آمادہ ہیں۔ خدا کی قسم، ہم اس جنگ میں اپنے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ پیر کاٹنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کر سکتے اور اگر یہ کام انجام نہ دیا تو ہم نے اپنے رہبر اور قبیلے کی مدد نہیں کی، اور اگر انجام دیں تو اپنی عزت کو برباد اور اپنی زندگی کی لو کو خاموش کردیا ہے۔( ٢)
٣۔ شامیوں میں سے ایک نے میدان ِ میں قدم رکھا اور جنگ کی دعوت دی ،عراق کا ایک شخص اس سے مقابلہ کرنے کے لئے مید ان میں آیا اور دونوںنے زبردست حملے کئے بالآخر عراقی نے شامی کی گردن پکڑی اور اسے زور سے زمین پرپٹک دیا اور اس کے سینے پر بیٹھ گیا جس وقت اس نے خودشامی کے چہرے سے نقاب اور سر سے ٹوپی اتاری تو دیکھا کہ اس کا اپنا بھائی ہے! اس نے امام علیہ السلام کے دوستوں سے کہا کہ امام علیہ السلام سے کہو کہ اس مشکل کو حل کریں۔ امام علیہ السلام نے حکم دیا کہ اُسے آزاد کردو لہٰذا اس نے آزاد کردیا اس کے باوجود وہ دوبارہ معاویہ کی فوج میں شامل ہوگیا۔(٣)
_______________________________
(١)وقعہ صفین ص٢٥٩۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج٥ص٢٠٧۔ تاریخ طبری ج ٣جزئ٦، ص١٤،کامل ابن اثیرج ٣ص١٥٤۔
(٢) وقعہ صفین ص٢٦٢۔ تاریخ طبری ج ٣،جزئ٦، ص١٥۔شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج٥،ص٢٠٩۔
(٣)وقعہ صفین ص٢٧٢۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج٥ص٢١٥۔
٤۔ معاویہ کی فوج سے ایک شخص بنام ''سوید'' میدان میں آیا اور مقابلے کے لئے للکارا امام علیہ السلام کی فوج سے قیس میدان میں آئے، جب دونوں نزدیک ہوئے تو ایک دوسرے کو پہچان گئے اور دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے رہبر و پیشوا کی طرف آنے کی دعوت دی، قیس نے امام علیہ السلام سے اپنی محبت و ایمان کو اپنے چچازاد بھائی سے بیان کیااور کہا،وہ خدا کہ جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے اگر ممکن ہوتا تو اس تلوار سے اس سفید خیمے(معاویہ کا خیمہ) پر اتنا زبردست حملہ کرتا کہ صاحب خیمہ کا کوئی آثار باقی نہ رہتا۔(١)

شمر بن ذی الجوشن امام علیہ السلام کی رکاب میں
تعجب کی بات (ایسی حیرت و تعجب جس کی کوئی انتہاء نہیں ہے) یہ ہے کہ شمر جنگ صفین میں امام علیہ السلام کے ہمراہ تھا، اور میدان جنگ میں''ادھم''نام کے ایک شامی نے اس کی پیشانی پر سخت ضربت لگائی جس سے اس کی ہڈی ٹوٹ گئی،وہ بھی بدلہ لینے کے لئے اٹھا اور شامی پر تلوار سے زبردست حملہ کیا، مگر کوئی فائدہ نہ ہوا، شمر اپنی توانائی واپس کرنے کے لئے اپنے خیمے میں پانی پیا اور ہاتھ میں نیزہ لے لیا پھر میدان میں آگیا اس نے دیکھا کہ شامی اسی طریقے سے اپنی جگہ پر کھڑا ہے، اس نے شامی کو مہلت نہ دی اور اپنا نیزہ اس کے اوپر اس طرح مارا کہ وہ گھوڑے سے زمین پر گر گیا اور اگر فوج شام سے لوگ اسکی مدد کو نہ پہونچتے تو اسے قتل کردیتا اس وقت شمر نے کہا یہ نیزہ کی مار اس حملہ کے مقابلے میں ہے۔(٢)
______________________
(١)وقعہ صفین ص٢٦٨۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج٥ص٢١٣۔
(٢)تاریخ طبری ج ٣جزئ٦، ص١٨۔شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج٥ص٢١٣۔

شہادت پر فخر و مباہات
شہادت اور اللہ تعالیٰ سے عشق و محبت پر مومنین اور قیامت پر ایمان و اعتقاد رکھنے والے ہی افتخار کرتے ہیں اورمقد س مقصد کے تحت جنگ کرتے ہیں اور یہ افتخار اور فخرو مباہات ایک ایسی ثقافت ہے جو دوسری قوموں میں نہیں ، شہادت سے عشق و محبت قیام و جہاد کے لئے ایک بہترین محرّک اور علت ہے، شہید اپنی چند روزہ زندگی کو ابدی زندگی سے اسی عقیدے کی بنا پر تبدیل کرتا ہے اور پھر وہ اپنے مقصد کے پیش نظر کسی کو نہیں پہچانتا ہے۔
جنگ صفین کے زمانے میں ایک دن فوج شام کے قبیلۂ بنی اسد کا ایک بہادر سپاہی میدان میں آیا اور جنگ کے لئے بلایا عراقی فوجی اس بہادر کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے اچانک ایک ضعیف شخص بنام''مقطّع عامری'' اٹھا تاکہ بنی اسد کے اس شخص سے لڑنے کے لئے میدان میںجائے،لیکن جب امام علیہ السلام متوجہ ہوئے تو اسے میدان جنگ میں جانے سے منع کردیا، ادھر اس شامی بہادر کی ھَلْ مِنْ مبارز کی بلند آواز نے لوگوں کے کانوں کوبہرا کر دیا تھا۔ ادھر ہر مرتبہ و ہ ضعیف جو شہادت کا عاشق تھا اپنی جگہ سے مقابلے کے لئے اٹھتا تھا لیکن امام اُسے منع کردیتے تھے، اس ضعیف نے عرض کیا اے میرے مولا، اجازت دیجیے کہ اس جنگ میں شرکت کروں تا کہ شہید ہو جاؤں اور بہشت کی طرف جاؤں یا اسے قتل کردوںاور اس کے شرّ سے آپ کو امان دوں ، امام علیہ السلام نے اس مرتبہ اسے اجازت دی اور اس کے حق میں دعا کی۔
اس دلیر اور بہادر کے عاشقانہ حملے نے اس بہادر شامی کے دل میں ایسا رعب پیدا کر دیا کہ اسے بھاگنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ اور اتنا دور ہوگیا کہ خود کو معاویہ کے خیمے کے پاس پہونچا دیا لیکن اس بوڑھے مجاہد نے اس کا وہاں تک پیچھا کیا اور جب اس کو نہ پایا تو اپنی جگہ پر وآپس آگیا۔ اور جب علی علیہ السلام کی شہادت ہوگئی اور لوگوں نے معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کی تو معاویہ نے مقطّع عامری کو تلاش کرایا اور اسے اپنے پاس بلایا،مقطّع جب کہ پیری اور ضعیفی کی زندگی بسر کر رہے تھے معاویہ کے پاس آئے۔
معاویہ:بھائی ، اگر تم ایسی حالت میں(بہت بڑھاپا اور ضعیفی میں ) میرے پاس نہ آئے ہوتے تو ہرگز میرے ہاتھ سے نہ بچتے (یعنی قتل کردیتا)
عامری:میں تجھے خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ مجھے قتل کردے اور ایسی ذلت کی زندگی سے مجھے نجات دیدے اور خدا کی ملاقات سے نزدیک کردے۔
معاویہ: میں ہرگز تمھیں قتل نہیں کروں گا بلکہ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔
عامری: تیری حاجت کیا ہے؟
معاویہ: میری حاجت ہے کہ میں تمھارا بھائی بنوں۔
عامری: میں خدا کے لئے تجھ سے پہلے ہی جدا ہوچکا ہوں اور اسی حالت پر باقی ہوں تاکہ خدا وند عالم قیامت کے دن ہم لوگوں کو اپنے پاس بلائے اور ہمارے اور تمھارے درمیان فیصلہ کرے۔
معاویہ: اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردو۔
عامری: میں نے اس سے آسان درخواست کو ٹھکرادیا تو پھر یہ درخواست کہا ں (قبول کرسکتا ہوں)
معاویہ: مجھ سے کچھ مال لے لو۔
عامری: مجھے تمھارے مال کی ضرورت نہیں ہے۔(١)

ایک فوجی حکمت عملی
دسویں دن یا اس کے بعد جب کہ عراقیوں اور شامیوں کی سواروںکے درمیان گھمسان کی
جنگ ہو رہی تھی، امام علیہ السلام کی فوج کے ایک ہزار آدمیوں کا شامیوں نے محاصرہ کر لیا اور ان لوگوں کا رابطہ آپ سے منقطع ہوگیا اس وقت امام علیہ السلام نے بلند آواز سے فرمایا، کیا کوئی نہیں ہے جو خدا کی رضاخریدے اور اپنی دنیا کو آخرت کے بدلے بیچ دے؟ عبدالعزیز کا لے گھوڑے پر سوار اور زرہ پہنے ہوئے آنکھ کے علاوہ بدن کا کوئی حصّہ نظر نہیں آرہا تھا امام علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا آپ جو بھی حکم دیں گے اسے انجام دوںگا، امام علیہ السلام نے اس کے لئے دعا کی اور کہا: فوج شام پر حملہ کرو اور خود کو گھیرے ہوئے لوگوں تک پہونچا دو اور جب ان کے پاس پہونچنا تو کہنا کہ امیر المومنین نے تمھیںسلام کہا ہے اور کہا ہے کہ تم لوگ اس طرف سے تکبیر کہو اور ہم اس طرف سے تکبیر کہتے ہیں اور تم لوگ اس طرف سے اور ہم اس طرف سے حملہ کریں تاکہ محاصرہ کو ختم کردیںاور تم لوگوں کو آزادی مل جائے۔
امام علیہ السلام کے بہادر سپاہی نے فوج شام پرزبردست حملہ کیا اور اپنے کو محاصرہ ہوئے لوگوں تک پہونچایااور امام علیہ السلام کا پیغام پہونچایا، لوگ امام علیہ السلام کا پیغام سن کر بہت خوش ہوئے اور اس وقت تکبیر و تہلیل کی آوازاور دونوں طرف سے جنگ شروع ہوگئی اور محاصرہ ختم ہوگیا اور محاصرہ ہوئے لوگ امام علیہ السلام کے لشکرسے مل گئے۔ شامیوں کے آٹھ سو لوگ مارے گئے اورجو بچے وہ پیچھے ہٹ گئے اور جنگ وقتی طور پر رک گئی۔ (٢)
_______________________________
(١)۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج٥ص٢٢٤،٢٢٣۔ وقعہ صفین ص ٢٧٨۔
(٢) شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج٥ص٢٤٣۔ وقعہ ٔ صفین ص ٣٠٨۔
شدیدجنگ کے دوران سیاسی ہتھکنڈے
امور جنگ کے ماہرین نے امام علی علیہ السلام کی فوج کے اجتماعی حملے کو ابتدأ ہی میں دیکھ کر یہ
سمجھ گئے تھے کہ جنگ میں اما م کے لشکر کو کامیابی ملے گی، کیونکہ وہ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ ہر دن جنگ کے حالات امام علیہ السلام کے حق میں جارہے ہیں اور معاویہ کی فوج نابودی اور موت کی طرف جا رہی ہے۔ یہ کامیابی ان علتوں کی بنأ پر تھی جس میںسے بعض کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں:
١۔ سب سے بڑے سردار کی شائستہ اور مدّبرانہ رہبری ،یعنی حضرت علی علیہ السلام ،اور اسی صحیح نظام ِ رہبری کی وجہ سے معاویہ کی فوج تقریباً اما م کے لشکر سے دوگنی تھی، قتل ہوئی (جنگ صفین کے واقعات نقل کرنے کے بعد دونوں فوج کے مرنے والوں کی تعداد تحریر کی جائے گی)
٢۔ امام علیہ السلام کی بے مثال شجاعت و بہادری کہ دنیا نے آج تک ایسا بہادر نہیں دیکھا، ایک دشمن کے قول کے مطابق، علی علیہ السلالم نے کسی بھی بہادر سے مقابلہ نہیں کیا مگر یہ کہ زمین کو اس کے خون سے سیراب کردیااس سور ما کی بنا پر عراقیوں کے سامنے سے بڑے بڑے شر ہٹا لئے گئے اور دشمنوں کے دل میں زبردست رعب بیٹھ گیا اور میدان جنگ میں ٹھہرنے کے بجائے بھاگنے کو ترجیح دیا۔
٣۔ امام علیہ السلام کی فوج کا آنحضرت کی فضیلت،خلافت،تقویٰ اور امامت برحق پر ایمان وعقیدہ رکھنا، جن لوگوں نے نص الہٰی کو رہبری کا ملاک سمجھااور جنہوں نے انصارو مہاجرین کے انتخاب کو معیار خلافت جانا، وہ سب کے سب امام علیہ السلام کے پرچم تلے حق و عدالت کے ساتھ باطل و سرکش سے جنگ کرنے آئے تھے، جب کہ معاویہ کی فوج کی حالت کچھ اورہی تھی،اگرچہ کچھ خلیفہ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے معاویہ کے ساتھ آئے تھے اور ان کے لئے تلوار چلا رہے تھے مگر بہت زیادہ لوگ مادیت کی لالچ اور دنیا طلبی کے لئے اس کے ہمراہ آئے تھے اور ان میں سے بعض گروہ امام علیہ السلام سے دیر ینہ بغض وعداوت کی وجہ سے یہاں آئے تھے اور یہ حقیقت کسی بھی مؤرخ سے پوشیدہ نہیں ہے۔
٤۔ امام علیہ السلام کی فوج میں مشہور و معروف اور امت اسلامیہ کی محبوب شخصیتوں کا موجود ہونا، وہ عظیم شخصیتیں جنہوں نے پیغمبر اسلام (ص)کے ہمرکاب ہو کر بدر، اُحد ،حنین میں جنگیں کی تھیں اور پیغمبرۖ نے ان کی سچائی اور پاکیزگی پر گواہی دی تھی، ان لوگوں میں چند کا نام قابل ذکر ہے مثلاً عمار یاسر، ابوایوب انصاری،قیس بن سعد، حُجر بن عدی اور عبد اللہ بن بدیل ، جنہوں نے معاویہ کی فوج کے بہت سے خود غرض لیکن سادہ لوح سپاہیوں کے دل میں شک و تردید پیدا کر دی تھی، یہ علتیں اور دوسری چیزیں سبب بنیں کہ معاویہ اور اس کی دوسری عقل عمرو عاص نے اپنی شکست کو قطعی سمجھااور اس سے بچنے کے لئے سیاسی حربے چلنے لگا تاکہ امام علیہ السلام کی فوج کی کامیابی کو کسی بھی صورت سے روک سکے، اور وہ سیاسی حربہ، علی علیہ السلام کی فوج کے سرداروں سے خط و کتابت اور ان لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے اور امام کی فوج میں تفرقہ و اختلاف کرنے کا تھا۔
١۔ جنگ صفین میں امام علیہ السلام کی فوج میںسب سے وفادار ربیعہ والے تھے اگرچہ قبیلۂ مُضَر والے اپنی جگہ سے ہٹ گئے لیکن قبیلہ ربیعہ والے پہاڑ کی طرح اپنی جگہ پر موجو د رہے. جب امام علیہ السلام کی نظر ان کے پرچموں پر پڑی تو آپ نے پوچھا کہ یہ پرچم کس کے ہیں لوگوں نے کہا یہ پرچم ربیعہ کے ہیں اس وقت آپ نے فرمایا: ''ھِیَ رایات عَصَمَ اللّٰہ أھلھاو صبَّر ھم و ثبّتَ اَقْدامھم''(١)
''یعنی یہ سب خدا کے پرچم ہیں خدا ان کے مالکوں کی حفاظت کرے اور انہیں صبر عطا کرے اور یہ ثا بت قدم رہیں''
امام علیہ السلام کو خبر ملی کہ اسی قبیلے کا ایک سردار خالد بن معمّر، معاویہ سے قریب ہوگیا ہے اور اس کے اور معاویہ کے درمیان ایک خط یا متعد د خطوط لکھے جاچکے ہیں تو امام علیہ السلام نے فوراً اس کواور قبیلہ ربیعہ کے بزرگوں کو طلب کیا اور ان سے فرمایا:اے قبیلہ ربیعہ کے لوگو ،تم لوگ میرے چاہنے والے اور میری آواز پر لبیک کہنے والے ہو، مجھے خبر ملی ہے کہ تمھارے سرداروں میں سے کسی ایک نے معاویہ کے ساتھ خط و کتابت کی ہے اور پھر خالد کی طرف نگاہ کی اور کہا : اگر تمھارے متعلق جو باتیں ہم تک پہونچی ہیں اگر وہ سچی ہیں تو میں تمھیں بخش دوں گا اور امان دوں گا لیکن شرط یہ ہے کہ عراق اور حجاز یا ہر وہ جگہ جہاںپر معاویہ کی حکومت و قدرت نہیں ہے وہاں جا کر زندگی بسر کرو اور اگر وہ چیزیں جو تمھارے متعلق ہم تک پہونچی ہیں جھوٹی ہیں تو ہمارے دھڑکتے ہوئے دل کواپنی مطمٔن قسم کے ذریعے آرام پہونچاؤ،اس نے اسی وقت سب
______________________
(١)تاریخ طبری ج ٣جزء ٦ ص١٩،٨١۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج٥ص٢٢٦،٢٢٥۔
کے سامنے قسم کھائی کہ ہرگز ایسا نہیں ہے اس کے دوستوں نے کہا اگر یہ بات سچی ہوگی تو اسے قتل کردیں گے اور انہیںمیں سے ایک شخص زید بن حفصہ نے امام علیہ السلام سے کہا خالد کی قسم پر آپ کوئی چیز بطور ضمانت رکھئے تاکہ آپکے ساتھ خیانت نہ کرے(١)
تمام قرأین سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام علیہ السلام کی فوج میں وہ معاویہ کی طرف سے خصوصی نمائندہ تھا اور کامیابی کے وقت یہاں تک کہ اس موقع پر کہ عنقریب تھا کہ لوگ معاویہ تک پہونچیں اور اس کے خیمے میں اسے گرفتار کرلیں ،خالد نے فوج کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا اور پھر اپنے کام کی توجیہ پیش کرنے لگا اس سلسلے میں چند باتوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔
امام علیہ السلام نے میسرہ قبیلہ ربیعہ کے سپرد کیا تھا اور اس کی سرداری عبداللہ ابن عباس کے ہاتھوں میں تھی، امام علیہ السلام کا میسرہ معاویہ کے میمنہ کے مقابلے میں تھا اور اس کی ذمہ داری شام کی مشہور ترین شخصیتیں ذوالکلاع حمیری اورعبیداللہ بن عمر کے ہاتھوں میں تھی قبیلہ حمیر، ذوالکلاع کی سرداری میں اور عبید اللہ نے سواروں اور پیادوں کے ساتھ امام علیہ السلام کے میسرہ پر شدید حملہ کیا لیکن زیادہ مؤثر ثابت نہ ہوا دوسرے حملے میں عبیداللہ بن عمر فوج کے بالکل آگے کھڑا ہوا اور شامیوں سے کہا عراق کے اس گروہ نے عثمان کو قتل کیا ہے اگر ان لوگوں کو شکست دیدیا تو تم نے انتقام لے لیا اور علی کو نابود کردیا ۔ اس حملے میں بھی ربیعہ کے لوگوں نے ثابت قدم رہتے ہوئے اپنا دفاع کیا اور کمزوروناتواں لوگوں کے علاوہ کوئی بھی پیچھے نہ ہٹا۔
امام علیہ السلام کی فوج کے تیز بین لوگوں نے بتا دیاکہ جس وقت خالد نے امام علیہ السلام کی فوج کے کچھ لوگوں کو پیچھے ہوتے دیکھا تو وہ بھی ان کے ساتھ پیچھے ہونے لگا اور چاہا کہ اپنے اس عمل سے امام کی فوج کے ثابت قدم سپاہیوں کو پیچھے ہٹنے کے لئے آمادہ کرے لیکن جب اس نے ان لوگوں کی ثابت قدمی دیکھی تو فوراً ان لوگوں کی طرف واپس چلا گیا اور اپنے فعل کی توجیہ کرنے لگا اور کہا: میرے پیچھے ہٹنے کا مطلب یہ تھا کہ جو لوگ بھاگ رہے تھے ان کو تم لوگوں کی طرف واپس پلٹا دوں۔(٢)
______________________
(١) تاریخ طبری ج ٣جزء ٦ ص١٩،٨١۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج٥ص٢٢٦،٢٢٥۔
(٢)تاریخ طبری ج ٣ جز ٦ ص ١٩۔ کامل ابن اثیر ج٣ ص ١٥٦
ابن ابی الحدید لکھتے ہیں :
اسلامی مؤرخین مثلاً کلبی اور واقدیمی کا نظریہ ہے کہ خالد نے جان بوجھ کر دوسرے حملے میں پیچھے ہٹنے کا حکم دیا تھا تاکہ میسرہ میں امام کی فوج شکست کھاجائے کیونکہ معاویہ نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ اگر امام کی فوج پر اس نے کامیابی حاصل کرلی تو جب تک خالد زندہ رہے گا خراسان کی گورنری اسے دے دے گا۔(١)
ابن مزاحم لکھتے ہیں :
معاویہ نے خالد سے وعدہ کیا تھا کہ اگر اس جنگ میں کامیابی ملی تو خراسان کی گورنری اس کے ہاتھ میں ہوگی، خالد معاویہ کے دھوکہ میں آگیا مگراس کی آرزو پوری نہ ہوسکی کیونکہ جب معاویہ نے حکومت کی ذمہ داری سنبھالی تو اسے خراسان کاگورنر تو بنادیا لیکن اس سے پہلے کہ معین شدہ جگہ پر پہونچتا آدھے ہی راستے میں ہلاک ہوگیا۔(٢)
شام کی فوج عبید اللہ ابن عمر کے وجود پر افتخار کرتی تھی اور کہتی تھی کہ پاکیزہ کا بیٹا ہمارے ساتھ ہے اور عراقی محمد بن ابو بکرپرافتخار کرتے تھے اور اسے طیب بن طیب(اچھا اور اچھے کا بیٹا) کہتے تھے۔
جی ہاں، بالآخرشام کی فوج حمیرا اور امام کی فوج ربیعہ کے درمیان زبردست جنگ کی وجہ سے دونوں طرف کے بہت زیادہ افراد مارے گئے اور سب سے کم نقصان یہ تھا کہ امام علیہ السلام کی فوج سے پانچ سو سپاہی جب کہ وہ سر سے پیر تک اسلحوں سے لیس تھے اور ان کی آنکھوں کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا میدان جنگ میں آئے اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں معاویہ کی فوج کے سپاہی ان سے مقابلے کے لئے میدان میں آئے پھر دونو ں گروہوں کے درمیان زبردست جنگ ہوئی اور دونوں فوجوں میں سے کوئی ایک بھی اپنی چھاؤنی میں واپس نہیں گیا اور سب کے سب مارئے گئے۔
دونوں فوجوں کے دور ہوتے وقت سروں کے ٹیلوں میں سے ایک سر نیچے گرا جسے''تل الجماجم'' کہتے ہیں، اور اسی جنگ میں ذوالکلاع جو معاویہ کا سب سے بڑا محا فظ تھا اور قبیلۂ حمیر کو معاویہ
_______________________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٥ ص ٢٢٨
(٢) وقعہ صفین ص ٣٠٦
کی جان کی حفاظت کے لئے آمادہ کرتا تھا خندف نامی شخص کے ہاتھوں ماراگیا اور حمیریان کے درمیان عجیب خوف وہراس پیدا ہوگیا۔(١)
٢۔ عبید اللہ بن عمر نے جنگ کے شدید ترین لمحات میں شیطنت اور تفرقہ ایجاد کرنے کے لئے کسی کو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا اور ان سے ملاقات کرنے کی درخواست کی امام حسن علیہ السلام نے امام کے حکم سے اس سے ملاقات کی، گفتگو کے دوران عبید اللہ نے امام حسن علیہ السلام سے کہا ، تمھارے باپ نے پہلے بھی اور اس وقت بھی قریش کا خون بہایا ہے کیا تم اس بات کے لئے آمادہ ہو کہ ان کے جانشین بنو، اور تمھیں مسلمانوں کے خلیفہ کے عنوان سے پہچنوائیں؟امام علیہ السلام نے بہت تیز اس کے سینہ پر ہاتھ مارا اور اس وقت علم امامت کے ذریعے عبید اللہ کے ذلت سے مارے جانے کی اُسے خبر دی اور کہا آج یا کل تو مارا جائے گا۔ آگاہ ہوجا کہ شیطان نے تیرے بُرے کام کو تیری نظر میں خوبصورت بنا کر دکھایا ہے، راوی کہتا ہے کہ وہ اسی دن یا دوسرے دن چار ہزار سبز پوش سپاہیوں کے ساتھ میدان میں آیا اور اسی دن قبیلہ ہمدان سے تعلق رکھنے والے ہانی بن خطاب کے ہاتھوں مارا گیا۔(٢)
٣۔معاویہ نے اپنے بھائی عتبہ بن سفیان کوجو فصیح وبلیغ تقریر کرنے والا تھا اپنے پاس بلایا اور کہاکہ اشعث بن قیس کے ساتھ ملاقات کرو، اور اسے صلح اور سازش کے لئے دعوت دو، وہ امام علیہ السلام کی فوج میں آیا اور بلند آواز سے پکارا ، لوگو اشعث کو خبرکردو کہ معاویہ کی فوج کا ایک شخص تم سے ملاقات کرنا چاہتا ہے، اس نے کہاکہ اس کا نام پوچھو اور جب سے خبر دی کہ وہ عتبہ بن سفیان ہے تو کہا وہ جو ان خوش کلام ہے اس سے ملاقات کرنا چاہیے عتبہ نے جب اشعث سے ملاقات کی تو اس سے کہا:اگر معاویہ علی کے علاوہ کسی اور سے ملاقات کرتاتو تم سے کرتاکیونکہ تم عراقیوں اوریمنیوں میں سب سے بزرگ ہو اور عثمان کے داماد اور اس کے زمانے میں حاکم تھے تم اپنے کو علی کی فوج کے دوسرے سپہ سالاروں سے برابری نہ کرو، کیونکہ اشتر وہ ہے جس نے عثمان کو قتل کیا اور عدی حاتم وہ ہے جس نے لوگوں کو قتل عثمان پر ورغلایا اور سعید بن قیس وہی ہے جس کی دیت ،امام علی نے اپنے ذمہ لی ہے اور شریح اور زحربن قیس خواہشات نفس کے علاوہ کوئی دوسری چیز
______________________
(١) وقعہ صفین ص ٣٠٦
(٢) وقعہ صفین ص ٢٩٧ ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٥ ص ٢٣٣ ۔
کی فکر نہیں کرتے تم نے نمک حلالی کرتے ہوئے عراق والوں کا دفاع کیا اور تعصب کی وجہ سے شامیوں سے جنگ کیا ، خدا کی قسم ،کیا تم جانتے ہو کہ ہمارا اور تمھارا کام کہا ں تک پہونچ چکا ہے ، میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ علی کو چھوڑ دو اور معاویہ کی مدد کرو، میں تجھے اس راہ کو اختیار کرنے کی دعوت دے رہا ہوں جس میں میرا اور تمھار ا دونوں کا فائدہ ہے۔
تاریخ کابیان ہے کہ اشعث، خفیہ طور پر معاویہ سے رابطہ رکھے تھا اور موقع کی تلاش میں تھا کہ جیسے بھی ممکن ہو جنگ کی کامیابی کو معاویہ کی طرف موڑ دے، اس نے پہلے تو اپنے جواب میں امام علیہ السلام کی تعریف کی اور عتبہ کی گفتگو کو ایک ایک کرکے رد کیا، لیکن آخر میں جنگ کو ختم کرنے کے لئے اشارة موافقت کر لی اور کہا تم لوگ مجھ سے زیادہ زند گی گزارنے اور باقی رہنے میں محتاج نہیں ہو میں اس سلسلے میں فکر کروں گا اور خدا نے چاہا تو اپنے نظریہ کا اعلان کروں گا۔
جب عتبہ معاویہ کے پاس واپس پہونچا اور اس سے پورا ماجرا بیان کیا تو معاویہ بہت خوش ہواور کہا اس نے اپنی نظر میں صلح کا اعلان کردیاہے۔(١)
٤۔ معاویہ نے عمر و عاص سے کہا، علی کے بعد سب سے مشہور و معروف شخضیت ابن عباس کی ہے اگر وہ کوئی بات کہے تو علی اس کی مخالفت نہیں کریں گے، ، جتنی جلدی ہو کوئی تدبیرکروکیونکہ یہ جنگ ہم لوگوں کو ختم کردیگی، ہم ہرگز عراق نہیں پہونچ سکتے مگر یہ کہ شام کے لوگ نابود ہوجائیں ۔
عمر و عاص نے کہا: ابن عباس دھوکہ نہیں کھا سکتے اگر اس کو دھوکہ دے دیا تو علی کو بھی دھوکہ دے سکتے ہو، معاویہ کے بے حد اصرار پر عمر و عاص نے ابن عباس کو خط لکھا اور خط کے آخر میں کچھ شعر بھی
لکھا، جب عمروعاص نے اپنا خط او ر اپنا کہا ہواشعر معاویہ کو دکھایا تو معاویہ نے کہا''لاٰ أریٰ کتابک علیٰ رقّةِ شعرِک'' یعنی تیراخط تیرے شعر کے پائے کا نہیںہے!
دھوکہ بازوں کے سردار نے اس خط اور اشعار میں ابن عباس اور ان کے خاندان کی تعریف اور مالک اشتر کی برائی کی تھی اور آخر میں یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر جنگ ختم ہوگئی تو ابن عباس شوریٰ کے ایک ممبر ہوگے جس کے ذریعے سے امیر اور خلیفہ معین ہوگا، جب یہ خط ابن عباس کو ملا تو انہوں نے امام علیہ السلام کو
______________________
( ١)وقعہ صفین ص٤٠٨ ۔
دکھایا اس وقت امام نے فرمایا۔ خدا وند عالم عاص کے بیٹے کو موت دے، کیسا دھوکہ دینے والا خط ہے جتنی جلدی ہو اس کاجواب لکھو اور اس کے شعر کے جواب کے لئے اپنے بھائی سے شعر لکھواؤ کیونکہ وہ شعر کہنے میں ماہرہے۔
ابن عباس نے خط کے جواب میں لکھا:
میں نے عربوں کے درمیان تجھ جیسا بے حیا نہیں دیکھا اپنے دین کو بہت کم قیمت میں بیچ دیا اور دنیا کو گناہگاروں کی طرح بہت بڑی سمجھا، اور ریاکاری کے ذریعے تقویٰ نمایاںکرتا ہے، اگر تو چاہتا ہے کہ خدا کو راضی کرے ،تو سب سے پہلے مصر کی حکومت کی ہوس اپنے دل سے نکال دے اور اپنے گھر واپس چلاجا، علی اور معاویہ ایک جیسے نہیں ہیں جس طرح سے عراق اور شام کے لوگ برابر نہیں ہیں، میں نے خدا کی مرضی چاہی ہے اور تو نے مصر کی حکومت ، اور پھر ان اشعار کو جو ان کے بھائی فضل نے عمر وعاص کے اشعار کے وزن پر کہے تھے اس خط میں لکھا اور امام علیہ السلام کو خط دکھا یا ۔ امام علیہ السلام نے کہا اگر وہ عقلمند ہوگاتو تمھارے خط کا جواب نہیں دے گا۔
جب عمرو عاص کو خط ملا تو اس نے معاویہ کو دکھایا اور کہا تو نے مجھے خط کی دعوت دی لیکن نہ تجھے کوئی فائدہ ہوا اور نہ مجھے فائدہ ہوا، معاویہ نے کہا: علی اور ابن عباس کا دل ایک ہی جیسا ہے اور
دونوں عبدالمطلب کے بیٹے ہیں۔(١)
٥۔ جب معاویہ نے احساس کیا کہ علی کے سپاہی پہلے سے کچھ زیادہ آمادہ ہوگئے ہیں اور محاصرہ تنگ ہوگیا ہے اورقریب ہے کہ،شکست کھا جائیں تو اس نے خود براہ راست ابن عباس کو خط لکھا اور یا د دلایا کہ یہ جنگ بنی ہاشم اور بنی امیہ کے درمیان بغض وعداوت کی بھڑکتی ہوئی چنگاری ہے اور انہیں اس کام کے انجام سے ڈرایا، اس خط میں اس نے ابن عباس کو لالچ دلائی اور کہا : اگر لوگ تمھارے ہاتھ پر بیعت کریں تو ہم بھی تمھار ی بیعت کرنے کے لئے تیار ہیں۔
جب ابن عباس کو خط ملا تو آپ نے ٹھوس او ر دندان شکن جواب معاویہ کو لکھا ، ایسا جواب کہ معاویہ اپنے
_______________________________
(١) وقعہ صفین ص٤١٤۔٤١٠ (تھوڑے فرق کے ساتھ اور دونوں خطوط کے اشعارکے بغیر)۔ الامامة السیاسةج١ص٩٩۔٩٨
خط لکھنے پربہت شرمندہ ہوا اور کہا یہ خود میر ے کام کا نتیجہ ہے اب ایک سال تک اُسے خط نہیں لکھوں گا۔(١)

عمار اور باغی گروہ
یاسر کا گھرانہ اسلام کے عظیم گھرانے میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے آغاز اسلام میں ہی پیغمبر اسلام (ص)کی دعوت پر لبیک کہا اور اس راہ میں زبردست مصائب و آلام برداشت کیایہاں تک کہ یاسر اور ان کی بیوی سمیہ نے خدا کی راہ میں ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کے ظلم و ستم سے اپنی جان دیدی۔
ان دونوں کے جوان بیٹے عمار مکہ کے جوانوں کی سفارش اور نئے قوانین سے ظاہری اظہار بیزاری کرنے سے نجات پاگئے خداوند عالم نے عمار کے اس فعل کو اس آیت میںقرار دیا ہے:
''اِلّٰا مَنْ اُکرِ ہ و قلبُہ مطمئن بالایمان'' (سورۂ نحل آیت ١٠٦)
مگر وہ شخص کہ جو (کفر کہنے پر) مجبور ہوجائے جب کہ اس کا قلب ایمان سے مطمئن ہے۔
جس وقت عمار کے واقعات اور ان کے کفر ظاہر کرنے کی خبر پیغمبر (ص)کو ملی تو آپ نے فرمایا: ہرگزنہیں بلکہ عمار کا پورا وجود ایمان سے سرشار ہے اور توحید ان کے گوشت و خون میں رچ بس گئی ہے اسی وقت عمار وہاں پہونچ گئے جب کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے پیغمبر اسلام ۖنے ان کے آنسوؤں کو صاف کیااور کہا کہ اگر دوبارہ ایسی مشکل پیش آئے تو اظہار برائت کرنا۔(٢)
صرف یہی ایک آیت نہیں ہے جو اس بزرگ صحابی کی شان میں نازل ہوئی بلکہ مفسرین نے دواور آیتوں کو لکھا ہے جو ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے (١) وہ پیغمبر اسلام کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آپ کے ہم رکاب رہے اور تمام غزوات اور بعض سریوں میں شرکت کی اور پیغمبر(ص)کے انتقال کے بعد، اگرچہ خلافت ِوقت سے راضی نہ تھے مگر خلافت کی مدد کرنے میں اگر اسلام کا فائدہ ہوتا تو مدد کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے۔
پیغمبر اسلام (ص)نے مدینہ آنے کے بعد سب سے پہلے جو کام انجام دیا وہ مسجد کی تعمیر تھی، عمار
_______________________________
(١)آیتیں اَمّنْ ھو ٰقانتٔ آنأ اللیل ساجد اوقائماً یحذرالآخرة (زمر، ٩) ولا تطرد الذین ید عون ربّھم بالغداوة والعشی۔ اس سلسلے میں تفسیر قرطبی۔کشاف۔درالمنثور۔تفسیررازی کی طرف رجوع کریں۔
(٢)وقعہ صفین ص٢١٦۔٢١٤ ۔ الامامة السیاسة ج١ص١٠٠
نے مسجد بنانے میں سب سے زیادہ زحمت برداشت کی اکیلے کئی لوگوں کا کام انجام دیتے تھے ، اسلام سے عشق سبب بناکہ لوگ انہیں ان کی طاقت سے زیادہ کام لیں، ایک دن عمار نے ان لوگوں کی پیغمبر سے شکایت کی اور کہا ان لوگوںنے مجھے مار ڈالا ہے، پیغمبر اسلام(ص)نے اپنا تاریخی بیان دیا جو تمام حاضرین کے دل میں اتر گیا، آپۖ نے فرمایا:''انک لن تموتَ حتیٰ تقتُلک الفئة الباغیةُ النّٰا کِبَةُعنِ الحقّ یکونُ آخِر زادِک من الدّنیٰا شَر بةُلَبن''(١)
''تمھیں اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک تجھے باغی اور حق سے منحرف گروہ قتل نہ کرے دنیا میں تمہارا آخری رزق ایک پیالہ دودھ ہے''۔
یہ بات پیغمبر (ص)کے تما م صحابیوں میں پھیل گئی اور پھر ایک سے دوسروں تک منتقل ہو گئی، اسی دن تمام مسلمانوں کی نظر میں عمار ایک خاص مقام کے حامل ہوگئے پیغمبر اسلام (ص)نے مختلف مواقع پر بھی آپ کی تعریف کی، جنگ صفین میں امام علیہ السلام کی فوج میں عمار کے شامل ہونے کی خبر نے معاویہ کی دھوکہ کھائی ہوئی فوج کے دلوں کو لرزا دیا، اور بعض لوگ اس بات کی تحقیق کرنے لگے۔
______________________
(١)یہ حدیث جس میں پیغمبر(ص)نے غیب کی خبر دی ہے محدثین اور مؤرخین نے اسے نقل کیا ہے اور سیوطی نے اپنی کتاب خصائص میں اس کے تو اتر کی تصریح کی ہے ،اور مرحوم علامہ امینی نے الغدیر(ج٩ص٢٢،٢١) میں اس کی سندوں کو ذکر کیا ہے ۔ تاریخ طبری ج ٣ جزء ٦ص٢١۔ کامل ابن اثیرج ٣، ص١٥٧ کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

عمار کی تقریر
جب عمار نے چاہا کہ میدان جنگ میں جائیں تو امام علیہ السلام کے دوستوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اسطرح سے گفتگو شروع کی:اے خدا کے بندو ، ایسی قوم سے جنگ کرنے کے لئے اٹھو ، جو ایسے شخص کے خون کا بدلہ لینا چاہتی ہے جس نے خود اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور خدا کی کتاب کے خلاف حکم دیا اور اسے صالح گروہ ، نہی عن المنکر اور امر با لمعروف کرنے والوں نے قتل کیا ہے لیکن وہ گروہ جس کی دنیا اس کے قتل کی وجہ سے خطرے میں پڑگئی تھی، ان لوگوں نے اعتراض کیا اور کہا کہ کیوں اسے قتل کر دیاتو اس کا جواب دیاگیا کہ وہ اپنے برے کاموں کی وجہ سے مارا گیاہے، ان لوگوں نے کہا عثمان نے کوئی برا کام نہیں کیا ہے جی ہاں! ان لوگوں کی نظر میں عثمان نے براکام انجام نہیں دیا ، تمام دینار ان کے ہاتھ میں تھے وہ سب کھا گئے اور ہضم
کرگئے ، وہ عثمان کے خون کا بدلہ لینا نہیں چاہتے بلکہ وہ دنیا کی لذتوں سے آشنا ہیں اور اسے دوست رکھتے ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اگر ہمارے ہاتھوں گرفتار ہوئے تو دنیا کی وہ لذ ت و آرام و آسایش سے محروم ہوجائیں گے۔
بنی امیہ کا خاندان اسلام قبول کرنے میں آگے نہ تھا کہ وہ رہبری کے لایق ہوتا، انہوں نے لوگوں کو دھوکہ دیا اور ''ہمارا ا مام مظلوم مارا گیا'' کا نعرۂ لگایا تا کہ لوگوںپر ظلم و ستم کے ساتھ حکومت و سلطنت کرے، یہ ایک ایسا بہانہ ہے جو ان لوگوں کی طرف سے ہواہے جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں اور اگر ایسا دھوکہ اور فریب انجام نہ دیتے تو دو آدمی بھی ان کی بیعت نہ کرتے اور ان کی مددکے لئے نہ اٹھتے۔ (١)
عمار تقریر ختم کرنے کے بعد میدان میں آئے اور ان کے ساتھی بھی انکے پیچھے پیچھے تھے، جب عمر و عاص کے خیمے پر نگاہ پڑی تو بلند آوا ز سے کہا تو نے اپنے دین کو مصر کی حکومت کے بدلے بیچ دیا ،لعنت ہو تجھ پر یہ پہلی مرتبہ تو نے اسلام پر وار نہیں کیاہے، اور جب آپ کی نگاہ عبید اللہ بن عمر کے خیمے پر پڑی تو پکار کر کہا: خدا تجھے نابو د کرے تو نے اپنے دین کو خدا اور اسلام کے دشمن کی دنیا کے بدلے بیچ دیا ہے، اس نے جواب دیا میں شہید مظلوم کے خون کا بدلہ لینا چاہتا ہوں عمار نے کہا تو جھوٹ بول رہا ہے خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ تو ہرگز خدا کی مرضی نہیں چاہتا اگر تو آج مارا نہ گیا تو کل ضرور مارا جائے گا، سوچ لے کہ اگر خدا وند عالم اپنے بند وں کو ان کی نیت کے مطابق جزاء و سزا دے تو تیری نیت کیاہے(٢)
اس وقت جب کہ ان کے چاروں طرف علی علیہ السلام کے دوست جمع تھے، کہا خدا وندا تو جانتا ہے کہ اگر مجھے معلوم ہو کہ تیری مرضی اس میں ہے کہ اس دریا میں کود جاؤ ںتو کود جاؤنگا اگر مجھے معلوم ہو کہ تیر ی مرضی اس میں ہے کہ تلوار کی نوک کو اپنے سینہ پر رکھوں اور اتنا جھکوں کہ پشت کے پار ہو جائے تو میں اس سے بھی دریغ نہیں کرونگا، خدا یا میں جانتا ہو ں اور مجھے آگا ہ بھی کیا ہے کہ آج کے دن وہ کام جس سے تو سب سے زیادہ راضی ہوگا وہ اس گروہ کے ساتھ جہاد کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اگر مجھے معلوم ہو تا کہ
_______________________________
(١) کامل ابن اثیرج ٣ ص١٥٧ ۔ وقعہ صفین ص٣١٩۔ تاریخ طبری ج ٣ جزء ٦ص٢١
(٢) وقعہ صفین ص٣٣٦۔ اعیان الشیعہ ج١ ص٤٩٦ مطبوعہ بیروت لبنان۔
اس عمل کے علاوہ کوئی اور کام ہے تو اس کو ضرور انجام دیتا۔(١)
_______________________________
( ١) تاریخ طبری ج ٣ جزء ٦،ص٢١ ۔ کامل ابن اثیرج ٣ ص١٥٧ ۔ وقعہ صفین ص٣٢٠۔

امام کی فوج میں عمار کے ہونے کا اثر
عمار کی شخصیت اور اسلام میں ان کی خدمات ایسی چیز نہ تھی جو اہل شام سے پوشیدہ ہوتی۔ ان کے بارے میں پیغمبر اسلام کی حدیث شہرت پاچکی تھی اور جو چیز شام کے لوگوں سے کچھ پوشیدہ تھی وہ اما م علیہ السلام کی فوج میں عمار کا شریک ہونا تھا، جب عمار کی امام علیہ السلام کی فوج میں احتمالاً شرکت کی خبر معاویہ کے فوج میں پھیلی تو جو لوگ معاویہ کی جھوٹی اور مسموم تبلیغ کی وجہ سے اس کی فوج میں داخل ہوئے تھے وہ چھان بین کرنے لگے ، انھی میں سے ایک یمن کی مشہور و معروف شخصیت ذوالکلاع کی تھی جس نے حمیر ی قبیلے کے بہت سے آدمیوں کو معاویہ کے لشکر میں شامل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی، اب اس کے دل میں حقانیت کا نور چمک گیا وہ چاہتا تھا کہ حقیقت کو پالے، لہٰذا اس نے ارادہ کیا کہ ابونوح کے ساتھ ، جو کہ حمیر قبیلے کا سردار تھااور کوفہ میں رہتا تھا اور اس وقت امام علیہ السلام کی فوج میں شامل تھا اس سے ملاقات کرے، اسی لئے ذوالکلاع نے معاویہ کی فوج میں سب سے آگے کھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا :میں ابو نوح حمیری جو کلاع قبیلے کا ہے سے بات کرناچاہتا ہوں ۔
ابونوح یہ آواز سن کر اس کے سامنے آیا اور کہا،تم کون ہوں،اپنا تعارف کراؤ؟
ذوالکلاع : میں ذوالکلاع ہوں میر ی التجا ہے کہ میر ے پاس آؤ۔
ابونوح :میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں جو تنہا تمھارے پاس آؤں ،مگر اپنے گروہ کے ہمراہ جو میرے اختیا ر میں ہے ۔
ذوالکلاع : تم خدا اور اس کے رسول اور ذوالکلاع کی پنا ہ میں ہو، میں چاہتا ہوں کہ تم سے ایک موضوع کے سلسلے میںگفتگو کرو ں،لہٰذا تم اکیلے میرے پاس آؤ،اور میں بھی تنہا تمھار ے پاس آؤنگا اور دونوں صفوں کے درمیان گفتگو کریں ، دونوں اپنی اپنی صف سے نکلے اور صفوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری ہوا۔
ذوالکلاع : میں نے تمھیں اس لئے بلایا ہے کہ میں نے پہلے (عمربن خطاب کے زمانے میں)
عمرو عاص سے ایک حدیث سنی ہے ۔
ابونوح : وہ حدیث کیا ہے؟
ذوالکلاع : عمروعاص نے کہا کہ رسول ِ خدا (ص)نے فرمایا ہے کہ ! اہل عراق اور اہل شام ایک دوسرے کے مقابلے میں جمع ہونگے، حق اور ہدایت کرنے والا ایک طرف ہے اور عمار بھی اسی طرف ہوگا۔
ابونوح : خدا کی قسم عمار ہمارے ساتھ ہیں۔
ذوالکلاع : کیا ہم سے جنگ کا مکمل ارادہ ہے
ابونوح : ہاں کعبہ کے رب کی قسم ! کہ وہ تمھارے ساتھ جنگ کے لئے ہم سے زیادہ مصر ہیں اور خود میرا ارادہ یہ ہے کہ کاش تم سب لوگ ایک آدمی ہوتے اور میں سب کا سر کاٹ دیتا اور سب سے پہلے میں تمھارا سر قلم کرتا جب کہ تو میرا چچا زاد بھائی ہے۔
ذوالکلاع : کیوں ایسی آرزو تمھار ے دل میں ہے جب کہ میں نے اپنی رشتہ داری کو ختم نہیں کیا اورتمہیں اپنی قوم کا سب سے قریبی شخص جانااور میں نہیں چاہتا کہ تمھیں قتل کروں۔
ابونوح : خدا نے اسلام کی وجہ سے ایک رشتہ ختم کردیا ہے اور جو افراد دور تھے ان کو قریبی عزیز بنا دیا تم نے اور تمھارے دوستوں نے ہمارے سا تھ معنوی رشتہ کو ختم کر دیا ہے ہم حق پر ہیںاور تم باطل پر ہو سردارِکفر اور اور اس کے لشکر کی مدد کر رہے ہو۔
ذوالکلاع : کیا تم شام کی فوج کے درمیان میرے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہو؟ میں تمھیں امان دے رہا ہوں کہ اس راہ میں قتل نہیں کئے جاؤ گے او ر نہ تجھ سے کوئی چیز لی جائے گی۔ اور نہ بیعت کے لئے مجبور ہوگے بلکہ مقصد یہ ہے کہ عمروعاص کو آگاہ کردو کہ عمار، امام علی علیہ السلام کے لشکر میں موجود ہیں۔شاید خداوند عالم دونوں لشکروں کے درمیان صلح و آشتی کا ماحول پیدا کردے۔
ابونوح :میں تمھارے اور تمھارے دوستوں کے مکر و فریب سے خوف محسوس کر رہا ہوں۔
ذواکلاع :میں اپنی بات کا ضامن ہوں۔
ابونوح نے آسمان کی طرف رخ کرکے کہا ، خدا یا تو بہتر جانتا ہے کہ ذوالکلاع نے مجھے امان دیا ہے اور جو کچھ میرے دل میں ہے تو اس سے باخبر ہے ، میر ی حفا ظت فرما، اتنا کہنے کے بعد ذوالکلاع کے ساتھ معاویہ کی فوج کی طرف گئے اور جب عمروعاص اور معاویہ کے خیمے کے پاس پہونچے تو دیکھا کہ دونوں ،لوگوں کو جنگ کے لئے تیار کر رہے ہیں۔
ذوالکلاع نے عمرو عاص کو متوجہ کر تے ہوئے کہا کیا تو ایک سچے اور عقلمند انسان سے عمار یاسر کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہے؟
عمروعاص : یہ کون آدمی ہے؟
ذوالکلاع نے ابونوح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ میرا چچا زادبھائی اورکوفہ کا رہنے والا ہے، عمرو عاص نے ابونوح سے کہا میں تمھارے چہرے پر ابوتراب کی نشانیاں دیکھ رہا ہوں۔
ابونوح : میرے چہرے پرمحمد (ص)اور ان کے دوستوں کی نشانیاں ہیں اور تیرے چہرے پر ابوجہل و فرعون کی نشانیاں ہیں۔ اس وقت معاویہ کی فوج کا ایک سردار ابوالاعور اٹھا اور اپنی تلوار کھینچ کر کہاکہ اس جھوٹے کے چہرے پر ابوتراب کی نشانیاں ہیں میں اس کو قتل کروں گا، اس میںکیسے اتنی جرأت پیدا ہو گئی کہ ہمارے درمیان ہوتے ہوئے بھی ہمیں گالی دے رہا ہے۔
ذوالکلاع نے کہا: خدا کی قسم ، اگر تم نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو میں تجھے تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔ یہ میرا چچازاد بھائی ہے اور میری امان میں وہ اس صف میں داخل ہوا ہے، میں اسے اس لئے لایا ہوںکہ تم لوگ عمار کے بارے میں سوال کرو کہ جس کے متعلق مستقل جنگ و جدال کررہے ہو۔
عمر وعاص : میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ سچ بولنا کیاعمار یا سر تمھاری فوج میں ہیں۔
ابونوح : میں جواب نہیں دوں گا مگر یہ کہ اس سوال کی وجہ سے آگاہ ہو جاؤں ، جب کہ پیغمبر ۖکے بہت دوست ہمارے ساتھ ہیںاور سب کے سب تمھارے ساتھ جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔
عمرو عاص :میں نے پیغمبر (ص)سے سنا ہے کہ عمار کو ظالم وستمگر گروہ قتل کرے گا اور عمار کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ حق سے دور ہو ں جہنم کی آگ ان پرحرام ہے۔
ابونوح :اس خدا کی قسم جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں و اللہ وہ ہمارے ساتھ اور وہ تم لوگوں سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہیں۔
عمر وعاص : وہ ہم سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں؟!
ابونوح : ہاں ، قسم اس خدا کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں انہوں نے جنگ جمل میں مجھ سے کہا کہ ہم اصحاب جمل پرکامیاب ہوں گے اور کل تجھ سے کہا کہ اگر شامی ہمارے اوپر حملہ کریں گے اور ہمیں سرزمین''ہجر'' پر دوڑائیں گے تب بھی ہم جنگ سے باز نہیں آئیں گے۔ کیو نکہ ہم جا نتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں اور وہ باطل پر ہیں اور ہمارے قتل ہونے والے جنت اور ان کی فوج سے قتل ہونے والے جہنم میں ہوں گے۔
عمروعاص: کیا تم ایسا کر سکتے ہوکہ میں عمار سے ملاقات کرسکوں؟
ابونوح : میں نہیں جانتا ، لیکن میں کوشش کروں گا کہ ملاقات ہوجائے اس کے بعدان لوگوںسے جدا ہوئے اور امام علیہ السلام کے لشکر میں جہاں عمار یاسر تھے وہاں پہونچے اور اپنی پوری داستان شروع سے آخر تک انہیں سنائی اور کہا کہ بارہ آدمیوں پر مشتمل ایک گروہ جس میں عمروعاص بھی ہے آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔
عمار، ملاقات کرنے کے لئے تیار ہوگئے، اور پھر ایک گروہ جس میں سب کے سب سوار تھے امام علیہ السلام کی فوج سے روانہ ہوئے اور عوف بن بشر عمار سے رخصت ہوئے اور خود کو فوجِ شام کے پاس پہونچایا اور بلند آواز سے کہاعمر وعاص کہاںہے؟ لوگوں نے کہا یہاں ہے، عوف نے عمار کی جگہ بتائی، عمرو عاص نے درخواست کی کہ عمار شام کی طرف روانہ ہوں، عوف نے کہا کہ تمھارے مکروفریب سے وہ مطمئن نہیں ہیں، پھر یہ طے پایا کہ دونوں آدمی فوجوں کے تھوڑے فاصلے پر گفتگوکریں،اور دونوں کی فوج حمایت کرے، دونوں گروہ معین جگہ کے لئے روانہ ہوئے لیکن احتیاط کو مد نظر رکھا اور وہاں اترتے وقت اپنے ہاتھوں کو تلواروں پررکھا، عمرو نے عمار کو دیکھتے ہی بلند آواز سے کلمہ شہادتین سے گفتگو شروع کیا تاکہ اسلام سے اپنی الفت و محبت کا اظہار کرے لیکن عمار اس کے دھوکہ میں نہیں آئے اور سخت لہجہ میں کہا، خاموش ہوجاتونے پیغمبر کی زندگی اور ان کے مرنے کے بعد بھی اسے (اسلام کو)چھوڑدیا اور اس وقت نعرہ بلند کررہاہے؟ عمر و عاص نے بے حیا ئی سے کہا، عمار ہم ان باتوں کے لئے نہیں آئے ہیں میں نے اس فوج میں تمھیں سب سے زیادہ مخلص پایا ہے اور میں نے سوچا کہ تم سے معلوم کروں کہ ہم سے جنگ کیوںکررہے ہو جب کہ خدا، کتاب اور قبلہ دونوں کا ایک ہی ہے، عمار نے مختصر گفتگو کے بعد کہا پیغمبرۖ نے ہمیں خبر دی ہے کہ عہد و پیمان(جمل) توڑنے اور حق سے منحرف ہونے والوں سے جنگ کروں گا اور میں نے عہدو پیمان توڑ نے والے سے جنگ کی اور تم وہی حق سے دور ہونے والے ہو۔ لیکن میں نہیں جانتا دین سے خارج ہونے(نہروان) والوں کو درک کر سکوں گایا نہیں پھر عمر و کی طرف رخ کرکے کہا، اے عقیم !تو جانتا ہے کہ پیغمبر نے علی کے بارے میں کہا ہے : ''مَنْ کُنْتُ مولاَ ہ فَعِلیّ مولاَ ہ اللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالاہُ وعٰادِ مَن عَادَاہُ'' (جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں پرودگار ان کے دوست کو دوست اور ان کے دشمن کو دشمن رکھ) دونوں کی گفتگو عثمان کے قتل کی گفتگو کے بعد ختم ہوگئی اور دونوںایک دوسرے سے جدا ہو کر اپنے اپنے قیام کی جگہ واپس آگئے۔(ا)
اس ملاقات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو چیز عمر وعاص نہیں چاہتا تھا وہ عمار کا امام علیہ السلام کی فوج میںشریک ہوناتھا ۔ کیونکہ وہ علی علیہ السلام کی فوج کے سرداروں کو بہت اچھی طرح پہچانتا تھا،لہٰذا عمار کی منطقی و عقلی باتوں کے مقابلے میں جنگ و جدال و اختلاف کی باتیں کرنے لگا اور عثمان کے قتل کی باتیںکرنے لگا تاکہ ان سے اقرار کرالے کہ خلیفہ کے قتل میں شامل تھے، اور اس طرح سے بے خبر شامیوں کو حملہ و شورش کے لئے آمادہ کرے، البتہ معاویہ او ر عمر وعاص کے لئے بہتر ہوا کہ ذوالکلاع عمار سے پہلے قتل ہوگیا ،کیونکہ اگر وہ عمار یاسر کی شہادت کے بعد زندہ ہوتا تو عمرو عاص اپنی بے ہودہ گفتگو کی بنیاد پر اسے دھوکہ نہیں دے سکتا تھا اور خود وہ شام کی فوج کے درمیان اور معاویہ و عمرو عاص کے لئے بہت بڑی مشکل بن جاتا۔ لہٰذا ذوالکلاع کے قتل ہونے اور عما ر یاسر کی شہادت کے بعد عمرو عاص نے معاویہ سے کہا میں نہیں جانتا کہ دونوں میں سے کس کے قتل پر خوشی مناؤں ،ذوالکلاع کے قتل پر یاعمار یاسر کی شہادت پر؟ خدا کی قسم اگر ذوالکلاع، عمار یاسر کے قتل کے بعد زندہ ہوتا تو تمام شامیوں کو علی علیہ السلام کی فوج میں داخل کردیتا۔(٢)
______________________
( ١) دقعہ صفین ص٣٣٦،٣٣٢۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج٨ص٢٢۔١٦۔
(٢) کامل ابن ثیرج٣ص١٥٧۔

جنگ صفین میں امام علیہ السلام کی بہادری
امام علیہ السلام پوری فوج کے سردارتھے،آپ ، معاویہ اور عمر وعاص جیسے سرداروں کی طرح نہ تھے
کہ سب سے امن کی جگہ ، اور فوج کے بڑے بڑے طاقتوروں کی حفاظت میں رہتے اور خطرے کے وقت بھاگ جاتے ، بلکہ آپ نے اپنی سرداری کو فوج کے مختلف علاقوں میںگھوم کر نبھایا اور مشکل سے مشکل لمحوں میں بھی اپنے سپاہیوں سے آگے آگے جنگ اور زبردست حملوں میں کامیابی آپ کے مبارک اور طاقتور ہاتھوں سے ہوتی تھی۔
اب ہم امام علیہ السلام کی بہادری کے چند نمونے یہاں ذکر رہے ہیں:
ان واقعات کی تفصیلات ابن مزاحم کی کتاب وقعہ صفین اور تاریخ طبری میں موجود ہے دلچسپی رکھنے والے قارئین ان کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

امام علیہ السلام تیروں کی بارش میں
امام علیہ السلام کی فوج کین میمنہ کا نظام عبد اللہ بن بدیل کے مارے جانے کی وجہ سے درہم برہم ہو گیا، معاویہ نے حبیب بن مسلمہ کو بچی ہوئی فوج کی سر کوبی کے لئے میمنہ پر معین کردیا ادھر اما م علیہ السلام کے میمنہ کی فوج کی سرداری سہیل بن حنیف کو ملی لیکن یہ نئی سرداری بھی بے نتیجہ ثابت ہوئی میمنہ کے حیران و پریشان فوجی قلب لشکر سے ملحق ہوگئے جس کی رہبری خود امام علیہ السلام کررہے تھے، اس مقام پر تاریخ نے قبیلۂ ربیعہ کی تعریف اور قبیلۂ مضر کے بھاگنے اور ان کے خوف وہراس کے متعلق تذکرہ کیا ہے، امام علیہ السلام نے ایسے حالات میں قدم آگے بڑھایا اور خود میدان جنگ میں آئے۔
جنگ صفین کے خبر نگار زید بن وہب کا کہنا ہے کہ میں نے خود امام علیہ السلام کو تیروں کی بارش میں دیکھا کہ دشمن کے تیر آپ کی گردن اور شانے سے گزر رہے تھے، امام علیہ السلام کے بیٹوں کو خوف محسوس ہوا کہ امام علیہ السلام دشمن کے شدید باراں میں زخمی نہ ہوجائیں لہٰذا امام علیہ السلام کی مرضی کے بر خلاف سپر کے طور پر ان کے اطراف کھڑے ہوگئے لیکن امام علیہ السلام ان لوگوں کی خواہش کے بر خلاف آگے بڑھتے ہی رہے اور دشمن کو پچھاڑتے رہے اچانک امام کے بالکل سامنے آپ کے غلام کیسان اور ابوسفیان کا غلام احمر لڑتے لڑتے آگئے اور بالآخر کیسان قتل ہوگئے۔ ابو سفیان کا غلام اپنی کامیابی پر غرور کرتے ہوئے برہنہ تلوار کے ساتھ امام کی طرف آیا لیکن امام علیہ السلام نے پہلے ہی حملے میں اس کی زرہ کے دستہ پر ہاتھ ڈالا اور اسے اپنی طرف کھینچا اور پھر اٹھایا اور پوری طاقت سے اُسے زمین پر اسطرح پٹکا کہ اسکا شانہ اور بازوٹوٹ گیااور پھر اسے چھوڑ دیا اس وقت امام حسین علیہ السلام اور محمد حنیفہ نے اپنی تلوار سے اس کی زندگی کا خاتمہ کردیا اور امام کے پاس واپس گئے ، امام نے اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام سے کہا، اپنے بھائیوں کی طرح اس کے قتل میں کیوں شریک نہ ہوئے۔
امام نے جواب دیا''کَفیانی یٰا امیر المومنین'' یعنی وہ دونوں بھائی کافی تھے،
زید بن وہب کہتے ہیں ، امام علیہ السلام جتنا شام کے لشکر سے قریب ہوتے تھے اپنی رفتار کو بڑھاتے تھے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے اس خوف سے کہ کہیں معاویہ کی فوج امام علیہ السلام کا محاصرہ نہ کر لے اور آپ کی زندگی خطرے میں نہ پڑ جائے ، حضرت سے کہا تھوڑا سا ٹھہر جائیں تو آپ کے وفادار ، ثابت قدم قبیلہ ربیعہ کے ساتھی آپ تک پہونچ جائیں۔ امام علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے جواب میں فرمایا:''ان لا بیک یوماً لَنْ یَعْدوہ ولاٰ یُبطِیُٔ بَہِ عنہ السّعُ ولاٰ یُعجلُ بہ اِالیہ المش اَنّ اباکَ واللّٰہِ لاٰ یُبالِی وَقَعَ عَلیَ الموتِ اَوْوُقِعَ الموتُ علیہ''(١)
''تمھارے باپ کی موت کے لئے ایک دن معین ہے جو آگے نہیں بڑھے گا،توقف سے نہ تو پیچھے ہٹے گا ، تمھارے باپ کو یہ خوف نہیں ہے کہ وہ موت کا استقبال کریں یا موت خود ان کا استقبال کرے''۔
ابو اسحاق کہتے ہیں:اما م علیہ السلام جنگ صفین کے دوران اپنی فوج کے سردار سعید بن قیس کے پاس سے گزرے جب کہ امام علیہ السلام کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا نیزہ تھا، اس نے امام علیہ السلام سے کہا کہ آپ کو ڈر نہیں لگتا کہ دشمن سے اتنا قریب ہونے کی وجہ سے اچانک ان کے ہاتھوں قتل ہوجائیں ؟ امام علیہ السلام نے اس کے جواب فرمایا،''انّہ لیس من احدٍ الاّٰ عَلَیْہِ مَن اللّٰہِ حَفِظَة یحفظونِہ مِنْ ان یَتَرَدّیٰ فی قَلیِبٍ أویَخِرَّ علیہ حائط اَوْ تصیبہ آفة، فاذا جَأ الْقَدر خَلوْ بینَہ و بَینَہ''(٢)
''کوئی شخص نہیں ہے مگر یہ کہ خدا کی طرف سے اس پر محافظ ہے کہ اگر وہ کنویںمیں گر جائے یا دیوار کے نیچے دب جائے یا اس پر آفت آجائے تو وہ اس کی حفاظت کرے گا اور جب قدرت کا لکھا ہوا وقت
پہونچ جائے گا تو وہ خود اپنی سر نوشت کو پہونچ جائے گا''۔
______________________
(١) وقعہ صفین ص ٢٥٠،٢٤٨۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٥ ص ٢٠٠،١٩٨، تاریخ طبری ج ٣ جز ٦ ص١١،٠ ١ ۔ کامل ابن اثیر ج٣ ص ١٥٢،١٥١۔
(٢) وقعہ صفین ص ٢٥٠۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٥ ص ١٩٩۔
معاویہ کے غلام حریث کا قتل
شام کی فوج میں سب سے بڑا بہادر معاویہ کا غلام حریث تھا ، وہ کبھی کبھی معاویہ کا کپڑا پہن کر جنگ کرتا تھا اور جو لوگ اِ سے نہیں پہچانتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ معاویہ جنگ کررہا ہے۔
ایک دن معاویہ نے اسے بلایا اور کہا علی سے جنگ نہ کرو اور اپنے نیزے سے جس کو چاہو مارو، وہ عمرو عاص کے پا س گیا اور اس سے معاویہ کی بات بتائی، عمروعاص (چاہے اس کی جو بھی نیت رہی ہو) نے معاویہ کی بات کو غلط بتایا اور کہا اگر تو قرشی ہوتا تو معاویہ کی خواہش و آرزو یہی ہوتی کہ تو علی کو قتل کردے کیونکہ وہ نہیں چا ہتا کہ یہ افتخار کسی غیر قرشی کو نصیب ہو لہٰذا اگر تجھے موقع ملے تو علی پر بھی حملہ کر،اتفاقاً امام علیہ السلام اسی دن اپنے سوار لشکر کے سامنے میدان میں آئے ، حریث نے عمر و عاص کی گفتگو پر عمل کرتے ہوئے امام علیہ السلام کو جنگ کی دعوت دی، امام علیہ السلام رجز پڑھنے کے بعد آگے بڑھے اور جنگ شروع کی اسی وقت ایک ضربت اس پر لگائی اور اسے دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا،جب معاویہ کے پاس خبر پہونچی تو وہ بہت زیادہ متاثر ہوا اور عمرو عاص کی مذمت میں کہ اسے دھوکہ دیا ہے بہت سے شعر کہے جس کے دوشعر یہ ہیں :
حریث الم تعلم وجھلک ضائر
بان علیاً للفوارس قاھر
وان علیاً لم یبارزہ فارس
من الناس الا اقصدتہ الاّٰ ظافِرُ
حریث(اے میرے شکست کھائے ہوئے بہادر) کیا تو نہیںجانتا تھا کہ علی تمام بہادروں سے زیادہ بہادر اور کامیاب ہیں علی سے کوئی بھی بہادر جنگ کے لئے نہیں اٹھا مگر یہ کہ ان کے حملے غلط نہ ہوئے اور اسے ختم کردیا،حریث کے قتل ہونے کی وجہ سے معاویہ کی فوج میں خوف پھیل گیا ایک دوسرا بہادر بنام عمر و بن الحصین میدان جنگ میں آیا تاکہ امام علیہ السلام سے اسکا بدلہ لے، لیکن ابھی حضرت کے سامنے بھی نہ آیا تھا کہ امام علیہ السلام کی فوج کے ایک سردار بنام سعید بن قیس کے ہاتھوں مارا گیا۔(١)
_______________________________
(١) وقعہ صفین ص ٢٧٣،٢٧٢۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٥ ص ٢١٦،٢١٥۔ الاخبار الطول ص ١٧٦۔
امام علیہ السلام نے معاویہ کو جنگ کی دعوت دی
ایک دن امام علیہ السلام میدان میں آئے اور دونوں صفوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور چاہا کہ آخری مرتبہ معاویہ پر حجت تمام کریں۔
امام علیہ السلام:معاویہ.معاویہ.معاویہ.!
معاویہ نے اپنے مخصوص محافظوں سے کہا جاؤ اور مجھے ان کے مقصد سے آگاہ کرو
محافظ:اے ابو طالب کے بیٹے کیا کہہ رہے ہیں؟
امام علیہ السلام: میں چاہتا ہوں کہ اس سے بات کروں،
محافظ:محافظوں نے معاویہ سے کہا علی تم سے بات کرنا چاہتے ہیں، اس وقت معاویہ، عمروعاص کے ساتھ میدان میں آیا اور امام کے سامنے کھڑا ہوگیا،امام علیہ السلام نے عمر وعاص کو نظر انداز کرتے ہوئے معاویہ کی طرف رخ کرکے کہا تجھ پرلعنت ہو کیوں ہمارے درمیان لوگ ایک دوسرے کو قتل کریں؟ اس سے بہتر ہے کہ تو میدان میں آ،تاکہ ایک دوسرے سے جنگ کریں اور ہم میںسے جوبھی کامیاب ہو، وہ لوگوں کے امور کی ذمہ داری سنبھالے۔
معاویہ: عمر وعاص اس بارے میں تیرا کیا نظریہ ہے؟
عمروعاص: علی نے انصاف کے بات کہی ہے اگر تو نے منھ پھیر لیا تو تیرے خاندان کے دامن پر ایسا داغ لگے گاکہ جب تک عر ب اس دنیا میں زندہ رہیں گے اس وقت تک نہیںدھلاجاسکے گا۔
معاویہ: عمرو میرے جیسا ہرگز تیرے دھوکہ میں نہیں آئے گا کیونکہ کوئی بھی بہادر و شجاع علی سے جنگ کرنے نہ اٹھا مگر یہ کہ زمین اس کے خون سے سیراب ہوگئی یہ جملہ کہنے کے بعد دونوں اپنی فوج کی طرف واپس چلے گئے،
امام علیہ السلام بھی مسکرائے اور اپنی فوج کی طرف واپس آگئے،معاویہ نے عمرو کی طرف رخ کرکے کہا، تو کتنا نادان اور بھولا ہے اور پھر کہا کہ مجھے گمان ہے کہ تیری یہ درخواست واقعی نہ تھی بلکہ تو مذاق
کر رہا تھا (١)

شہید کے بیٹے کی بہادری
ہاشم مِر قال، امام علیہ السلام کی فوج کے بہادر اور طاقتور سردار تھے اور اسلام کی عظیم جنگوں میں ان کی روشن اور عمدہ کارکردگی کسی سے پوشیدہ نہیں تھی، ممکن تھا کہ ان کی شہادت کی وجہ سے امام علیہ السلام کے لشکر میں بے ادبی پیدا ہوجائے، لیکن ان کے بیٹے کے شعلہ ور خطبے نے حالات کو تبدیل کردیا اور ا س کی راہ پر چلنے والوں نے اسے اور بھی مصمم بنا دیا، اس نے اپنے باپ کے پرچم کو ہاتھ میں لیا(١) اور راہ حق و حقیقت کے جانبازوں کی طرف رخ کرکے کہا:''ہاشم خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ تھا جس کے لئے ایک دن معین تھااور اس کے کارنامے الہی دفتر میں محفوظ ہیں، اس کی موت آگئی اور وہ خدا کہ جس کی مخالفت نہیں کرسکتے اس نے اسے اپنی طرف بلالیااور اس نے بھی موت کا جام پی لیا اور پیغمبرۖ کے اس چچازاد بھائی کی راہ میںجہاد کیا جو آپ پر سب سے پہلے ایمان لایا اور خدا کے قوانین لوگوں سے زیادہ خبر رکھنے والا، اور خدا کے دشمنوں کا سخت مخالف ہے ، وہ دشمنان خدا جنہوںنے خدا کے حرام کو حلال بناتے ہیں اور لوگوں کے درمیان ظلم و ستم کے ساتھ حکومت کرتے ہیں او ر شیطان ان لوگوں پر کامیاب ہوگیا اور ان کے برے کاموں کو انکی نظر میں خوبصورت بنا کر دکھایا ہے۔
تم پر ان لوگوں سے جہاد کرنا واجب ہے جنہوں نے پیغمبر کی سنت کی مخالفت کی ہے اورحدودالہی(سزاؤں) کو جاری نہیںکیا اور خدا کے دوستوں کی مخالفت کے لئے اٹھ گئے ہیں، اس دنیا میں اپنی پاکیزہ جانوں کو خدا کی راہ میں قربان کرو تاکہ آخرت میں بلند ترین مقام پر فائز ہو( اس کے بعد کہا) ''فَلوْلم یکن ثواب ولا عقاب ولا جنّة ولاٰ نار لکان القتال مع عل أفضل مِنَ الْقتَال مَعَ معاویةَ بن آکِلَةِ الا کباٰدِ وَکیف وأنتم ترجُونَ مٰا ترجُونَ'(٣)اگر بالفرض، ثواب و عذاب نہ ہو،
______________________
(١) وقعہ صفین ص ٢٧٥،٢٧٤۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٥ ص ٢١٧،٢١٧۔ الاخبار الطول ص ١٧٧،١٧٦، تاریخ طبری ج٣ جزء ٦ ص ٢٣ ۔ کامل ابن اثیرج ٣ص١٥٨ (تھوڑے فرق کے ساتھ)
(٢) الاخبار الطول ص ١٧٤۔مروج الذہب ج٢ص٣٩٣۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٨ ص ٢٩۔
(٣) وقعہ صفین ص ٣٥٦۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٨ص٢٩۔
جنت و جہنم نہ ہو، تو کیا علی کے رکاب میں رہ کر معاویہ جگر خوار کے بیٹے کے ساتھ جنگ کرنا بہتر نہیں ہے اور کیوں ایسا نہ ہو کیونکہ تم لوگ امید وار ہو اس چیز کے جس کی امید رکھتے ہو۔
ابھی شہید کے بیٹے کی شعلہ ور گفتگو ختم نہ ہوئی تھی کہ ابو طفیل صحابی جو امام علیہ السلام کے مخلص شیعوں میں سے تھا ہاشم کے متعلق اشعار کہے جس کا صرف پہلا شعر یہاں نقل کررہے ہیں:
یَا ھاشمَ الخیرِ جزیتَ الجنّة
قَاتلْتَ فی اللّٰہ عدوَّ السنّة (١)
(خدا کے بہترین بندے ہاشم تیری جزا جنت ہے اور تم نے اللہ کی راہ میں سنت الہی کے دشمنوں سے جہاد کیا۔رضوی)

لومڑی، شیر کے پنجے میں
جنگ کی شدت نے معاویہ کی فوج کے لئے زمین تنگ کر دی تھی اور جنگ چھیڑنے والوں نے لوگوں کی زبان کو بند کرنے کے لئے مجبور ہوئے کہ خود بھی میدان میں جائیں ، عمرو عاص کا ایک دشمن حارث بن نضرَ تھا اگر چہ دونوں ایک ہی مزاج کے تھے لیکن ایک دوسرے کے مخالف تھے حارث نے اپنے شعر میں عمر وپر اعتراض کیا کہ وہ کیوں خود علی کے ساتھ جنگ میں شرکت نہیں کرتا فقط دوسروں کو میدان میں روانہ کرتا ہے، اس کے اشعار شام کی فوج کے درمیان منتشر ہو گئے عمر و مجبور ہوا کہ ایک ہی بار صحیح میدان جنگ میں امام علیہ السلام کے روبروہوا، لیکن میدان سیاست کی لومڑی نے میدان جنگ میں بھی مکر وفریب سے کام لیا جب امام علیہ السلام کے مقابلے میں آیا تو حضرت نے اسے مہلت نہیں دی اور نیزے کے زور سے اسے زمین پر گرادیا عمر و نے جو امام کی جواں مردی سے آگاہ تھا فوراًبرہنہ ہوکر اپنی جان بچائی امام نے اپنی آنکھوں کو بند کرلیا اور اس کی طرف سے منھ پھیر لیا۔(٢)
_______________________________
(١) وقعہ صفین ص ٣٥٩۔
(٢) وقعہ صفین ص٤٢٣۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٦ ص٣١٣۔ اعیان الشیعہ ج١ص٥٠١ ۔

عمروعاص اور مالک اشتر آمنے سامنے
میدان جنگ میں مالک اشتر کی بہادری نے معاویہ کی آنکھوں میںنیند حرام کردی تھی، لہٰذامروان بن حکم کو حکم دیا کہ کچھ لوگوں کی مدد سے مالک اشتر کو قتل کردے مگر مروان نے اس ذمہ داری کو قبول نہیں کیا اور
کہا: تمھارا سب سے قریبی ساتھی عمروعاص ہے کہ جس سے تو نے مصر کی حکومت کا وعدہ کیا ہے بہتر ہوتا کہ اس ذمہ داری کو اس کے کاندھوں پر ڈالتا، وہ تمھارا رازدار ہے نہ کہ میں، اس پر تونے اپنا لطف وکرم کیا ہے اور مجھے محروموں کے خیمے میں جگہ دی ہے، معاویہ نے مجبور ہو کر عمر و عاص کو یہ ذمہ داری سونپی کہ کچھ لوگوں
کے ساتھ مالک اشتر سے جنگ کرے، کیونکہ ان کی بے مثال بہادری اور جنگی تدبیروں نے شامیوں کی فوج کی صفوں کو درہم برہم کردیا تھا،عمروعاص جو مروان کی باتوں سے باخبر تھا مجبوراً ذمہ داری کو قبول کیا لیکن مگس کہاں اور سمیرغ (بہت بڑا پرندہ)کی عظمت کہاں؟عمروعاص جب مالک اشتر کے سامنے آیا تو اس کا بدن لرزرہا تھا لیکن میدان سے بھاگنے کی بد نامی کوبھی قبول نہیں کیا، دونوں طرف سے رجزکا سلسلہ ختم ہوا، اوردونوں نے ایک دوسرے پر حملہ کیا، عمرو پر جب مالک اشتر نے حملہ کیاتو پیچھے ہٹ گیا اور مالک اشتر کے نیزے سے اس کے چہرے پر خراش پڑگئی، عمرونے اپنی جان کے خوف سے اپنے چہرے کے زخم کابہانہ بنایا اور ایک ہاتھ سے گھوڑے کی لگام اور دوسرے ہاتھ سے اپنے چہرے کو پکڑا اور بہت تیزی سے اپنی فوج کی طرف بھاگ گیا اس کے میدان سے بھاگنے کی وجہ سے معاویہ کے سپاہیوں نے اعتراض کرناشروع کردیا کہ کیوں ایسے ڈرپوک اور بے غیرت انسان کو ہمارا امیر بنایا ہے۔(١)
_______________________________
(١) وقعہ صفین ص٤٤٠٤٤١۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٨ ص٧٩۔

پرہیز گار نوجوان اور دنیا طلب بوڑھا
جنگ کے دنوں میں ایک دن مالک اشتر نے عراقیوں کے درمیان بلند آواز سے کہا، کیا تمھارے درمیان میں کوئی ایسا ہے جو اپنی جان کو خدا کی مرضی کے بدلے بیچ دے ؟ایک نوجوان اثال بن حجل میدان میں گیا، معاویہ نے ایک بوڑھے کو جس کا نام بھی حجل تھا میدان جنگ میں اس کے مقابلے کے لئے بھیجا دونوں ایک دوسرے پر نیزے سے حملہ کررہے تھے اور اسی حالت میں اپنا حسب و نسب بھی بیان کررہے تھے اچانک انہیں معلوم ہوا کہ وہ باپ اوربیٹے ہیں اس لئے وہ دونوں گھوڑے سے اترے اور ایک دوسرے کے گلے لگ گئے باپ نے بیٹے سے کہا اے میرے لال دنیا کی طرف آجا! بیٹے نے کہا اے بابا آپ آخرت کی طرف آجائیے یہی آپ کے لئے بہتر ہے اگر میں دنیا کو طلب کروں اور شامیوں کی طرف جاؤں تو آپ مجھے اس کام سے روکیںآپ علی اور ان مومن اور صالح دوستوں کے بارے میں کیا کہتے
ہیں؟ بالآخر یہ طے ہوا کہ دونوں اپنی اپنی جگہ واپس چلے جائیں۔(١)وہ جنگ جس کی بنیاد عقیدہ سے دفاع ہو اس میں ہرطرح کا رشتہ ، سوائے دینی رشتہ کے، سب بیکار ہے۔

شام کے سپاہیوں کی بزدلی
ابرہہ معاویہ کی فوج کا ایک سردار تھا ، جو معاویہ کی زیادہ فوج کے مارے جانے کی وجہ سے بہت غمگین تھا، اس نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ شامی معاویہ کی خواہشات نفسانی کا شکار ہوئے ہیں اور غصبی حکومت کی حفاظت کرنے کے لئے ایسی و حشتناک جنگ کر رہے ہیں، اسی وجہ سے شام میں رہنے والے یمنی لوگوں کے درمیان اس نے بلند آواز میں کہا: افسوس ہے تم لوگوں پر۔ اے یمن کے لوگو، اے لوگو جو خود کو فنا کرنا چاہتے ہو، ان دونوں آدمیوں (علی ور معاویہ) کو ان کے حال پر چھوڑ دو تاکہ آپس میں جنگ کریں اور ان میں سے جو بھی کامیاب ہو، ہم اس کی پیروی کریں، جب ابرہہ کی باتیں امام علیہ السلام تک پہونچی تو آپ نے فرمایا: بہت اچھی بات کہی ہے جب سے میں شام کی سرزمین پر آیا ہوں ایسی بات نہیں سنی ہے، اس خبر کے پھیلنے کی وجہ سے معاویہ بہت خوف زدہ ہوااور خود فوج کی آخری صف میں گیا اور اپنے اردگرد رہنے والوں سے کہا ابرہہ کی عقل زائل ہو گئی ہے جبکہ یمن کے تمام لوگوں نے مل جل کر کہا ابرہہ عقلمندی ، دینداری اور بہادری میں سب لوگوں سے اچھاہے۔
ٰایسے حالات میں شام کی فوج کو حوصلہ دینے کے لئے عروۂ دمشقی میدان جنگ میں گیا اور پکار کر کہا: اگر معاویہ نے علی سے جنگ کرنے سے منھ موڑا ہے تو اے علی میرے ساتھ جنگ کرنے کے لئے تیار ہوجاؤ۔ امام علیہ السلام کے دوستوں نے چاہا کہ اس کو اس مقابلے(اس کے کمینہ پن کی وجہ سے) سے روکیں، لیکن اما م علی علیہ السلام نے قبول نہیں کیا اور فرمایا، معاویہ اور عروہ دونوں میری نظر میں برابر ہیں، اتنا کہنے کے بعد اس پر حملہ کیا اور سے ایک ہی وار میں دو ٹکڑوں میں اس طرح تقسیم کردیا کہ دونوں ٹکڑے ادھر اُدھر گر گئے دونوںفوجیں امام علی علیہ السلام کے اس زبردست وار سے لرز اٹھیں، اس وقت امام علیہ السلام نے لاش کے دونوں ٹکڑوں سے کہا: اس خدا کی قسم جس نے پیغمبر اسلام (ص)کو پیغمبری کے لئے چنا، آگ کو دیکھا اورپشیمان ہوگئے،اس وقت عروہ کا چچا زاد بھائی اس کا انتقام لینے کیلئے میدان میں آیا اور امام علی علیہ السلام
______________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٨ ص٨٢۔ وقعہ صفین ص٤٤٣۔
سے جنگ کرنے کا خواہا ںہوا ، اور وہ بھی امام کی تلوار کے وار سے عروہ کے پاس پہونچ گیا۔(١)
_______________________________
(١) وقعہ صفین ص٤٥٥۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٨ ص٩٤۔

تاریخ اپنے کو دہراتی ہے
امام علیہ السلام کی بے مثال بہادری کے سامنے فوج شام کا دل بیٹھنے لگا، معاویہ جو پہاڑ کی چوٹی سے تمام حالات کا مشاہدہ کر رہا تھا ، بے اختیار شام کے لوگوں کی مذمت کرنے لگا اورکہا:برباد ہوجاؤ، کیا تمھارے درمیان کوئی ایسا نہیں ہے جو ابو الحسن کو جنگ کے وقت یا حملہ کرکے یاجب دونوں فوجیں ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں اور گرد و غبار انہیں چھپا دیتا ہے، ایسے وقت قتل کردے؟ ولید بن عتبہ جو معاویہ کے پاس کھڑا تھا اس نے معاویہ سے کہا، تو اس کام کو انجام دینے میں سب سے زیادہ بہتر ہے ، معاویہ نے کہا،علی نے مجھے ایک با رجنگ کی دعوت دی لیکن میں ہرگز ان کے مقابلہ میں میدان میں نہیں جاؤں گا کیونکہ فوج سردار کی حفاظت کے لئے ہے، آخر اس نے بُسر بن ارطاة کو امام علیہ السلام سے مقابلے کرنے کی تشویق و ترغیب دلائی اور کہا ، اس سے جب گرد و غبار ہو اس وقت جنگ کرو، بُسر کا چچازاد بھائی جو ابھی ابھی حجاز سے شام آیا تھا اس نے بُسر کو اس کام سے روکا لیکن چونکہ بُسر نے معاویہ سے وعدہ کر لیا تھا اس لئے میدان جنگ کی طرف روانہ ہوگیا، جب کہ اس کا پورا بدن لوہے سے چھپا ہوا تھا، اس نے علی علیہ السلام کو جنگ کی دعوت دی امام علیہ السلام کے نیزے کے وارنے اسے زمین پر گرادیا اور اس نے بھی عمر و عاص کی طرح اپنی شرمگاہ سے لباس ہٹا دیا اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے اس کا پیچھا نہیں کیا۔

صلح کے لئے معاویہ کا اصرار
صفین میں جنگ کے طولانی ہونے اور فوج شام سے بہت زیادہ سپاہی مارے جانے کی وجہ سے معاویہ نے ارادہ کیا کہ جس طرح سے بھی ممکن ہو،امام علیہ السلام کو صلح ودوستی اور جنگ ختم کرنے اور دونوں فوجوں کو ان کے اصلی مرکز پر واپس جانے کے لئے تیار کرے اور اس کام کو ایک خاص طریقے سے شروع کیا کہ جس میں سے تین اہم راستے یہ تھے۔
ا۔ اشعث بن قیس سے گفتگو
٢۔ قیس بن سعد سے گفتگو
٣۔ اما م علیہ السلام کو خط لکھنا
لیکن امام علیہ السلام کی فوج کے مستحکم ایمان و عقیدہ کی بنا پر اس کا یہ پروگرام بے نتیجہ ثابت ہوا یہاں تک کے مسئلہ ''لیلة الہریر'' پیش آگیا اور قریب تھا کی معاویہ کی پوری فوج معدوم ہوجائے لیکن معاویہ کا فریب و دھوکا اور عراقیوں کا سادہ لوح ہونا شام کے جاسوسوں کا امام علیہ السلام کی فوج میں کام کرنا،حالات کو شام کی فوج کے حق میں لے گیاہم یہاں معاویہ کی ملاقاتوں اور گفتگوؤں کو ذکر کر رہے ہیں:
ا۔معاویہ نے اپنے بھائی عتبہ بن ابو سفیان کو جو بہتر ین خطیب تھا اپنے پاس بلایا اور یہ ذمہ داری سونپی کہ اشعث بن قیس جو امام کی فوج میں کافی نفوذ رکھتا تھا، سے ملاقات کرے اور اس سے درخواست کرے کہ طرفین سے جو باقی ہیں ان پر رحم کرے،عتبہ فوج کے بالکل سامنے آیااور وہیں سے اس نے اپنا تعارف کرایا پھر اشعث کو بلایا تاکہ معاویہ کا پیغام اس تک پہونچائے اشعث نے اسے پہچان لیا اور کہا کہ وہ فضول آدمی ہے اس سے ملاقات کرنا چاہیے عتبہ کے پیام کا خلاصہ یہ تھا کہ اگربنا یہ ہوتی کہ معاویہ، علی کے علاوہ کسی اور سے ملاقات کرتا تو صرف تجھ سے ملاقات کرتا کیونکہ تو عراق کے لوگو ں کا سردار اور اہل یمن کے بزرگوں میں سے ہے اور عثمان کا داماد اور اس کا کارمند تھا تیرا مسئلہ مالک اشتر اور عدی بن حاتم سے جدا ہے، اشتر عثما ن کا قاتل اور عدی اس کام کی طرف رغبت دلانے والا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ علی کو چھوڑ دو اور معاویہ کی مدد کو پہونچو بلکہ تجھے جوافراد باقی بچے ہیں ان کہ حفاظت کے لئے بلا رہا ہوں اس میں تمھارے اور میرے لئے مصلحت ہے۔
اشعث نے اس کے جواب میں امام علیہ اسلام کی بہت زیادہ تعریف و تکریم کی اور کہا عراق اور یمن میں سب سے بزرگ علی ہیں لیکن اپنے کلام کے آخر میں ایک سیاسی کے مثل اس نے صلح کی درخواست قبول کر لی اور کہا کہ تمھاری ضرورت باقی بچے لوگوں کی حفاظت کے لئے ہم سے زیادہ نہیں ہے جب عتبہ نے اشعث کی باتوں سے معا ویہ کو باخبر کیا تو اس نے کہا ''قَدْ جَنَحَ لِلسَّلمِ'' صلح کے لئے آمادگی ظاہرکی ہے۔(١)
______________________
(١)وقعہ صفین ص٤٠٨۔ شرح نہج البلاغہ ابن اابی الحدید ج٨ص٦١۔ الا مامة و السیاسة ج ١ ص١٠٢۔ اعیان الشیعہ ج ١ ص٥٠٣۔
٢۔ پیغمبر اسلام (ص)کے اصحاب جو مہاجرین اور انصار میں سے تھے امام علیہ السلام کے اطراف میں جمع تھے، انصار میں سے صرف افراد نعمان بن بشیر اور مسلمہ بن مخلّد نے معا ویہ کا ساتھ دیا، معاویہ نے نعمان بن بشیر سے کہا کہ امام علیہ السلام کے بہادر سردار قیس بن سعد سے ملاقات کرو اور اس کو اپنی طرف راغب کرکے صلح کے مقدمات کو فراہم کرو اس نے جب قیس سے ملاقات کی تو دونوں فوجوں کوجو نقصا ن پہونچے تھے اس کو بیان کیا اور کہا:''أخذتِ الحربُ مِنّٰا و منکم مارأ یتم فاتّقُو االلّٰہ فِیْ البقیّةِ''جنگ نے ہم سے اور تم سے وہ چیزیں لے لی ہیں جوتم دیکھ رہے ہو، لہٰذاجو باقی بچے ہیں ان کے لئے خدا سے ڈرو(اور ان کے بارے میں کچھ فکر کرو)۔
قیس نے نعمان کے جواب میں معاویہ اور علی علیہ السلام کے ساتھیوں کے حالات بیا ن کیے اور کہا ہم نے پیغمبر (ص)کے زمانے میں خوش و خرم ہو کر دشمن کے نیزہ وتلوار کاجواب دیا اور حق کامیاب ہوگیا اگر چہ کافر اس کام سے ناراض تھے ۔ اے نعمان یہ لوگ جو معاویہ کہ مدد کر رہے ہیں وہ تھوڑے سے آزاد کئے ہوئے اور بیابانوں میں رہنے والے اور یمنی لوگ ہیں جو معاویہ کا دھوکہ کھائے ہوئے ہیں علی کی طرف دیکھو کہ ان کے اطراف میں تمام مہاجرین و انصار اور تابعین جمع ہیں اور ان سب سے خدا راضی ہے لیکن معاویہ کے اطراف میں تمھار ے اور تمھارے دوست (مسلمہ بن مخلّد) کے علاوہ کوئی نہیں ہے اور تم میں سے کوئی ایک بھی نہ جنگ بدر میں تھا اور نہ ہی احد میں اور نہ ہی اسلام کے لئے تم لوگوں کی خدمات ہیں اور نہ ہی تم لوگوں کے بارے میں کوئی آیت نازل ہوئی اگر ان چیزو ں کے برخلاف تم نے قدم بڑھایا تو اس کے پہلے تمھارے باپ نے بھی یہی کام کیا تھا۔(١)
٣۔ ان سب ملاقاتوں کا مقصد صرف اور صرف صلحا ور سازش تھی لیکن معاویہ کا مقصد پورا نہ ہوا اس وجہ سے وہ مجبو ر ہوا کہ امام علیہ السلام کو خط لکھے اور اس میں ایسی چیز کی درخواست کرے جس کی اس نے سرکشی و نافرمانی کے پہلے ہی دن درخواست کیا تھا یعنی شام کی حکومت اسے دیدیں بغیر اس کے کہ اطاعت
______________________
(١) اس سے مراد سقیفہ کا واقعہ ہے جس میں نعمان کے باپ بشیر نے صرف اس وجہ سے کہ اس کے چچا زاد بھائی قیس کے باپ یعنی سعد بن عبادة تک خلافت نہ پہونچے اٹھا اور ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کی اور انصار کے اتحاد کو توڑدیا،شرح نہج البلاغہ ابن اابی الحدید ج٨ص٨٧،وقعہ صفین ص٤٤٨،الا مامة و السیاسة ج ١ ص٩٧۔
اور بیعت اس کی گردن پر ہو اور اس وقت کہا ہم سب عبد مناف کے بیٹے ہیں اور ہم میں کوئی بھی ایک دوسرے پر فضلیت نہیں رکھتا مگر وہ شخص جو عزیز کو خوار و ذلیل اور آزاد کو غلام نہ کرے ۔
امام علیہ السلام نے اپنے منشی ابن ابی رافع کو بلا یا اورا سے حکم دیا کہ اس کا جواب اس طرح لکھوجیسے کہ میں لکھوارہا ہوں،امام علیہ السلام کے خط کی عبارت نہج البلاغہ مکتوب نمبر ١٧ کے ضمن میں تحریر ہے۔ (١)
______________________
(١) اس خط کی عبارت جو کہ نہج البلاغہ میں تحریر ہے اور یہ عبارت جو کہ اخبار الطوال ص١٨٧،اور الا مامة و السیاسة ج ١ ص١٠٤،١٠٣۔ اور وقعہ صفین ص٤٧١۔ میں ہے فرق ہے۔