اٹھارہویں فصل
اجتماعی حملے کا اغاز
جنگ صفین شروع ہوئے آٹھ دن گزر گئے اور چھٹ پٹ حملے اور بہادر سرداروں کی رفت و آمد سے کوئی نتیجہ نہ نکلا ، امام علیہ السلام اس فکر میں تھے کہ کس طرح سے نقصان کم ہو اور ہم اپنے مقصد تک پہونچ جائیں آپ اس بات سے بھی مطمئن تھے کہ محدود جنگ قتل و غارت گری کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں رکھتی اسی وجہ سے آپ نے ماہ صفر کی آٹھویں رات (شب چہار شنبہ) کو اپنے اصحاب کے درمیان تقریر فرمائی:
''اس خدا کا شکر کہ اگر اس نے کسی چیز کو شکست دی تو اسے مستحکم نہیں کیا اور جس چیز کو مستحکم کر دیا اُسے شکست نہیں ہو سکتی، اگر وہ چاہتا تو اس امت سے دو آدمی یا پوری امت اختلاف نہیں کرتی،اور کوئی شخص بھی کسی بھی امر میں جو اس سے مربوط ہے اختلاف نہیں کرتا ، اور مفضول ،فاضل کے فضل وکرم سے انکار نہیں کرتے، تقدیر نے ہمیں اس گروہ کے سامنے کھڑا کر دیا ہے ۔
سب کے سب خدا کی نگاہوں اور اس کے حضور میں ہیں اگر خدا چاہتا تو عذاب کے نزول میں جلدی کرتا ، تاکہ ستمگروں کو جھٹلا سکے، اور حق کو آشکار کرے اس نے دنیا کو کردار کا گھر اور آخرت کو اجرو ثواب کا گھر قرار دیا تاکہ بدکاروں کو ان کے برے کردار کہ وجہ سے عذاب اور اچھے لوگوں کو ان کے اچھے کردار کی وجہ سے اجر و ثواب دے، آگاہ ہوجاؤ اگر خدانے چاہا تو کل د شمن سے مقابلہ ہوگا لہذا اس رات خوب نماز پڑھو اور بہت زیادہ قرآن پڑھو، اور خدا وند عالم سے ثابت قدمی اور کامیابی کی دعا کرو اور کل دشمنوں سے احتیاط اور پوری بہادری کے ساتھ لڑنا ،اور اپنے کام میں سچے رہو۔
امام علیہ السلام نے یہ باتیں کہیں اور وہاں سے چلے گئے پھر امام علیہ السلام کے تمام سپاہی تلوار و نیزہ وتیر کی طرف گئے اور اپنے اپنے اصلحوں کو صحیح کرنے لگے۔(١)
امام علیہ السلام نے آٹھ صفر بدھ کے دن حکم دیاکہ ایک آدمی شام کی فوج کے سامنے کھڑا ہو اور
______________________
(١)وقعہ صفین ص ٢٢٥۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٥ص١٨٢۔ تاریخ طبری ج ٣ جزئ٦ ص٨٫ ٧ ۔ کامل ابن اثیرج٣ص١٥٠۔
عراق کی فوج کی طرف سے جنگ کا اعلان کرے۔
معاویہ نے بھی امام علیہ السلام کی طرح اپنی فوج کومنظم کیا اور اسے مختلف حصّوں میں تقسیم کردیا،اس کی فوج حمص، اردن اور قنسرین کے لوگوں پر مشتمل تھی اور معاویہ کی جان کی حفاظت کے لئے شام کے لوگوں نے ضحاک بن قیس فہری کی سرپرستی میں ذمہ داری لی اور اس کو اپنے حلقے میں لے لیا ، تاکہ دشمن کو قلب لشکر ، جہاں معاویہ کی جگہ تھی پہونچنے سے روک سکیں۔
معاویہ نے جس انداز سے فوج کو مرتب کیا تھاوہ عمرو عاص کو پسند نہ آئی اور اس نے چاہا کہ معاویہ کی فوج کو منظم کرنے میں مدد کرے لہذااسے وہ وعدہ یاد دلایا جو دونوں نے آپس میں کیا تھا، (یعنی فتح و کامیابی کے بعد مصر کی حکومت اس کی ہوگی)عمرو نے کہا: حمص کی فوج کی سرداری میرے سپر د کرو اور ابوالاعور کو ہٹادو ۔ معاویہ اس کی اس فرمائش پربہت خوش ہوا اور فوراً ایک شخص کو حمصیوں کے پاس بھیجا اور پیغام بھیجوایا کہ عمرو عاص جنگ کے امور میں تجربہ رکھتا ہے جو ہم اور تم نہیں رکھتے ، میں نے اسے سواروں کا سردار بنایا ہے لہذا تم دوسرے علاقے میں جاؤ۔
عمرو عاص نے حکومت مصر کی امید میں اپنے دونوں بیٹوں عبداللہ اور محمد کو بلایااور اپنے تجربہ اور اپنے اعتبار سے فوج کو منظم کیا اور حکم دیاکہ زرہ پہنے ہوئے سپاہی فوج کے آگے اور جو زرہ
نہیں پہنے ہیں وہ فوج کے پیچھے کھڑے ہوں، اور پھر اپنے دونوں بیٹوں(١) کو حکم دیا کہ فوج کے درمیان معائنہ کریں اور فوج کے نظم و ترتیب کا خاص خیال رکھیں اسی پراکتفاء نہیں کیا بلکہ خود فوج کے درمیان ٹہلنے لگااور اس کے نظم و ترتیب پرنگاہ رکھی اور اسی طرح معاویہ فوج کے درمیان منبر پر بیٹھ گیااور اس کی حفاظت کی ذمہ داری یمن کے لوگوں نے لی اور حکم دیا کہ جو شخص بھی منبر کے نزدیک ہونے کا ارادہ کرے فوراً اسے قتل
______________________
(١) یہاں اس بات کی یاددہانی کرناہے کہ عمر و عاص کے دونوں بیٹے ظاہری طور پرزاہد نما تھے.جو ابتداء میں باپ کو ابوسفیان کے بیٹے کی حمایت سے روک رہے تھے لیکن اس وقت ان کے سچے اور گہرے دوست ہیں یہ واقعہ ہمیں اس مثال کی یاد دلاتا ہے جوعربی اور فارسی(اور اردو ، رضوی) زبان میں رائج ہے۔(ھل تلد الحیة الاالحیة) یعنی کیا سانپ کا بچہ سانپ کے علاوہ ہو سکتا ہے ۔یافارسی کی مثال، عاقبت گرک زادہ گرک شود۔گرچہ با آدمی بزرگ شود۔ بھیڑیئے کا بچہ بھیڑیا ہوگا اگرچہ وہ آدمی کے ساتھ ہی کیوں نہ بڑاہوا ہو۔
کردینا۔(١) جب بھی جنگ کا مقصد قدرت اور حاکمیت ہوگا تو اس وقت اپنی حفاظت کے لئے گروہ کا انتظام ہوگا ،لیکن اگر ہدف اور مقصد معنوی ہوگا تو ہدف کی خاطر اگر جان بھی دینی پڑے تو کوئی پرواہ نہیں ہوگی لہذا نہ تو کسی نے امام کی حفاظت کی ذمہ داری لی بلکہ امام علیہ السلام سیاہ رنگ کے گھوڑے پر سوار حکم دیتے تھے اور فوج کی رہبری بھی کر رہے تھے اور اپنے بلند نعروں سے شام کے بہادروں کو لرزہ براندام(تھرتھرانا) کر دیتے تھے اور اپنی تیز تلوار سے لوگوں کو دور کرتے تھے۔
رہبری کے طریقے میں اختلاف، مقصد کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہے اور شہادت کا طلب کرنا آخرت پر ایمان اور اس کی حقانیت پر اعتقاد رکھنا ہے، جب کہ موت سے خوف اور دوسروں کو اپنی جان کی حفاظت کے لئے قربان کرنا دنیاوی زندگی سے محبت والفت اور ماوراء مادہ سے انکار کرنا ہے اور حیرت کی بات تویہ ہے کہ عمروعاص کے بیٹے نے ان چیزوں کا اعتراف بھی کیا اور امام علیہ السلام
کی فوج کے بارے میں یہ کہا''فان ھوٰلائِ جاؤوا بخطّةٍ بلغت السمائ'' یہ لوگ آسمانی ہدف لے کر میدان میں آئے ہیں اور شہادت سے خوف نہیں رکھتے ۔
عاص کے بیٹے کی معاویہ کے ساتھ خیرخواہی اور مدد اس سے محبت و الفت اور فتح و کامیابی کی بناپر نہ تھی بلکہ وہ ہرطرف سے اپنے فائدے کے لئے اسے کامیابی سے ہمکنار کرانا چاہتا تھااورمعاویہ سے اظہار نظر اور مشورہ کرکے اکثر اسے یاد دلاتا تھا اور جوباتیں ان دونوں کے درمیان ہوئیں وہ اس حقیقت کو بیا ن کرتی ہیں۔
معاویہ:جتنی جلدی ہو فوج کی صفوں کومنظم کرو۔
عمر وعاص:اس شرط کے ساتھ کہ میری حکومت میرے لئے ہو۔
معاویہ،اس خوف سے کہ عمروعاص اما م کے بعد اس کا رقیب نہ ہوجائے فوراً پوچھا کون سی حکومت؟کیا حکومت مصر کے علاوہ دوسری چیز چاہتا ہے؟
عمرو عاص نے جوپرانا سیا ستبازا اور غیر متقی سوداگرتھانے اپنے چہرے پر تقوے کا ماسک لگاکر کہا کیا
______________________
(١)وقعہ صفین ص ٢٢٦۔ شرح نہیج البلاغہ ابن الحدیدج٥ص١٨٢۔
مصر، جنت کے عوض ہو سکتا ہے؟ کیا علی کو قتل کرکے عذاب جہنم کی مناسب قیمت جس میںہر گز آرام نہیں ہوگا ،ہوسکتی ہے؟
معاویہ نے اس خوف سے کہ کہیں عمرو کی بات فوج کے درمیان پھیل نہ جائے اس سے کہا ذرا آہستہ آہستہ، تیری گفتگو کوئی اور نہ سن لے۔
جی ہاں،عمروعاص مصر کی حکومت کی آرزو میں شام کے لوگوں کی طرف متوجہ ہوا اورکہا:
اے شام کے سردارو، اپنی صفوں کو مرتب کرو اور اپنے سروں کو اپنے خدا کو ہدیہ کر دو، اور خدا سے مدد طلب کرو اور خدا کے دشمن اور اپنے دشمن سے جنگ کرو ان لوگوں کو قتل کرو تاکہ خدا ان لوگوں کو قتل کرے اور انھیں نابود کردے ۔(١)
اور اُدھر جیسا کہ گزر چکا ہے اس دن امام علیہ السلام نے ایک گھوڑا طلب کیا لوگ آپ کے لئے(شبرنگی) گھوڑا لائے جو طاقت کی وجہ سے مسلسل کود رہاتھا اور دو لگاموں سے کھینچا جاتا تھا۔ امام علیہ السلام نے اس کی لگام اپنے ہاتھ میں لی اور اس آیت کی تلاوت فرمائی :
''سبحان الذی سخّرلنا ھذا وماَ کُنّٰا لہ مقرنین وانّااِلیٰ ربّنا لمنقلبون'' ''پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لئے آمادہ کیا جسکی ہمارے پاس طاقت و قدرت نہ تھی اور سب کے سب اس کی بارگاہ میں واپس جائیں گے''۔(زخرف ١٣ )
پھر آپ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا اور کہا:
''اللّٰھم اِلیک نُقِلَتِ الاقدامُ وأُ تْعِبَتِ الا بدانُ و أ فضتِ القلوبُ و رفعتِ الأ یدی و شُخِصَتِ الأ بصار.........اللّٰھم انّا نشکُوٰ ألیکَ غیبة نبیّنٰا وکثرةعدوّنا وتشتّت أ ھوا ئنٰا.ربنّا افتح بیننٰا وبینَ قومِنٰابالحقِّ وَ اَنتَ خیر الفاتحِینَ (٢)
خدا یا: تیری ہی طرف قدم اٹھتے ہیں اور بدن رنج وغم میں گرفتار ہوتے ہیں اور دل تیری طرف متوجہ
ہوتے ہیںاور ہاتھ بلند ہوتے ہیں اور آنکھیں کھلی رہتی ہیں........خدایا:ہم اپنے پیغمبر کے نہ رہنے کا شکوہ
______________________
(١)،(٢) وقعہ صفین ص٢٣١،٢٣٠۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج٥ص١٧٦
اور دشمنوں کی زیادتی اور اپنی آرزؤوں کے بکھرنے کاتیری بارگاہ میں شکوہ کرتے ہیں خداوندا ہمارے اور اس قوم کے درمیان حقیقی فیصلہ کر کیونکہ تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
بالآخر ٨صفر بدھ کے دن باقاعدہ حملے کا آغاز ہوا اور صبح سویرے سے را ت تک حملے ہوتے رہے اور دونوں فوجیں بغیر کسی کامیابی کے اپنی اپنی چھاؤنی میں واپس آگئیں۔
جمعرات کے دن امام علیہ السلام نے نما ز صبح تاریکی میں پڑھی اور پھر دعاپڑھنے کے بعد خود
حملہ شروع کیا ، آپ کے ساتھی بھی چاروں طرف سے جنگ کرنے لگے۔(١)
حملے سے پہلے اما م علیہ السلام نے جو دعا پڑھی اس کا کچھ حصہ یہ ہے۔
''ان اظھرتنٰا علیٰ عدوّنا فجنبنا الغ و سدِّ دنٰا للحقِّ،واِن اظھر تَھُم علینٰا فَارزُقنا الشّھٰا دَة وَ اعصِِِِِِِِِِِِِم بقیَّةَ أصحابی مِنَ الفتنة''(٢)
''پروردگار ! اگر ہمیں اپنے دشمنوں پر کامیاب کیا تو ہم سب کو ظلم و ستم سے دور رکھ اور ہمارے قدموں کو حق کے راستے پر چلا، اور اگر وہ سب ہم پر کامیاب ہوئے تو ہم لوگوں کو شہادت نصیب فرمااور جو ہمارے دوست باقی بچیں انہیں فتنہ سے محفوظ رکھ''
امام علیہ السلام کے لشکر کے سرداروں کی شعلہ ور تقریریں
فوج کے بزرگوں اور سرداروں کی تقریریں بہت بڑی تبلیغ کا کام کرتی ہیں بسا اوقات، ایک فوج کی تقریر دشمن کو نابود اور خود اپنے لئے کامیابی کے مقدمات فراہم کر دیتی ہے، اسی وجہ سے ، جمعرات ٩ صفر اجتماعی حملے کے دوسرے دن امام علیہ السلام کی فوج کی بزرگ شخصیتوں نے تقر یریں کیں ، امام کے علاوہ عبد اللہ بن بدیل(٣) سعید بن قیس(٤) (ناصرین کے علاقہ میں) اور مالک اشتر جیسی بزرگ
_______________________________
(١)تاریخ طبری ٣، جزء ٦ص٨۔ کامل ابن اثیرج ٣ص١٥١
(٢) وقعہ صفین ص٢٣٢
(٣) وقعہ صفین ص٢٣٤۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ٥ص١٨٦
(٤)وقعہ صفین ص٣٤٧۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ٥ص١٨٨
شخصیتوں(١) نے تقریر کی اور ہر شخص نے ایک خاص طریقے سے امام علیہ السلام کی فوج کو شامی دشمن کی فوج پر حملہ کرنے کی تشویق دلائی، اسی درمیان بہت سے واقعات رونما ہوئے جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
١۔ کون ہے جو اس قرآن کو اپنے ہاتھ میں لے؟
علی علیہ السلام قبل اس کے کہ جنگ کا آغاز کرتے اتمام حجت کے لئے اپنے سپاہیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: کون ہے جو اس قرآن کو اپنے ہاتھوں میں لے اور ان شامیوں کو اس کی طرف دعوت دے؟ سعید نامی نوجوان اٹھا اور اس نے ذمہ داری لی امام علیہ السلام نے دوسری مرتبہ پھر اپنی بات دہرائی اور پھر و ہی نوجوان اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا اے امیرالمومنین میں حاضر ہوں، اس وقت علی علیہ السلام نے قرآن اس کے حوالے کیا وہ معاویہ کی فوج کی طرف روانہ ہوا ان لوگوں کو خدا کی کتاب اور اس پر عمل کرنے کی دعوت دی، تھوڑی دیر بھی نہ گذری تھی کہ دشمن کے ہاتھوں شھید ہوگیا(٢)
_______________________________
(١)وقعہ صفین ص ٢٤١۔٢٣٩۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ٥ص١٩١۔١٩٠
(٢)وقعہ صفین ص ٢٤٤۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ٥ص١٩٤
٢۔ دوحُجر کی جنگ:
حُجر بن عدی کندی ان شخصیتوں میں سے ہیں جو پیغمبر کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور ان کے ذریعے مسلمان ہوئے اس کے بعد علی علیہ السلام کے مخلصوں اور ان دفاع کرنے والوں کی صف میں تھے بالآخر اسی راہ میں اپنی جان دے دی معاویہ کے ظالم جلادوں کے ہاتھوں امام علیہ السلام کے کچھ مخلصوں کے ہمراہ ''مرج عذرائ'' (جو شام سے ٢٠ کلومیڑ دوری پر واقعہ ہے) میں قتل ہوگئے اور تاریخ نے انھیں ''حُجر الخیر'' کے نام سے یاد کیا جبکہ ان کے چچا حُجر بن یزید کو تاریخ نے ''حُجر الشّر'' کے نام سے یاد کیا ۔
اتفاق سے اس دن یہ دونوں حُجر جو کہ آپس میں قریبی عزیز بھی تھے میدان جنگ میں روبرو
ہوئے، مبارزہ کی دعوت حُجر الشّر کی طرف سے شروع ہوئی اوراس وقت جبکہ یہ دونوں اپنے اپنے نیزوں سے جنگ کرنے میں مصروف تھے معاویہ کی فوج سے ایک شخص خزیمہ، حُجر بن یزید کی مدد کیلئے دوڑا اور حُجر بن عدی پر نیزہ مارا اس موقع پر حُجر کے کچھ ساتھیوں نے خزیمہ پر حملہ کیا اور اسے قتل کر دیا لیکن حجر بن یزید
میدان چھوڑ کربھاگ گیا۔(١)
٣۔ فوج شام کے میسرہ پر عبداللہ بن بدیل کا حملہ
عبد اللہ بن بدیل خزاعی امام علیہ السلام کے لشکر کے بلند پایہ افسر تھے وہ پیغمبر اسلامۖ کا جلیل القدر صحابی اور نفس کی پاکیزگی اور بہادری اور زبردست جنگ کرنے والوں میں مالک اشتر کے بعد مشہور تھے۔
میمنہ کی فوج کی ذمہ داری انھی کے ہاتھ میں تھی اور میسرہ کی سرداری عبد اللہ بن عباس کے ذمہ تھی، عراق کے قاری عمار یاسر، قیس بن سعد او رعبداللہ بن بدیل کے بارے میں ہوے (٢)
عبد اللہ ، حملہ شروع کرنے سے پہلے اپنے دوستوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا : معاویہ نے ایسے مقام و منصب کا دعویٰ کیا ہے جس کا وہ اہل نہیں ہے، مقام ومنصب کے حقیقی وارثوں سے لڑائی کے لئے اٹھا ہے اور باطل اور غلط دلیلوں کے ساتھ حق سے لڑنے آیا ہے ،اس نے عربوں(بدو) اور مختلف لوگوں کو ملا کر فوج تشکیل دی ہے اور گمراہی کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔یہاں تک کہنے کے بعد کہا:
''وأنتم واللّہ علیٰ نورٍ من ربّکم وبرھان مبین، قاتلواالطغاةَ الجفاةَ ولا تخشوھُم وکیفَ تخشَونَھم وفی أید یکم کتاب من ربّکم ظاھر منور۔۔۔ و
قدقاتلتھُم مع التبیُّ واللّہ مٰا ھم فی ھٰذہِ بأزکیٰ ولاٰ أ تقٰی ولاٰأبَرّ ،قُو مواُ اَلیٰ عدوِّ اللّٰہ وعدوِّکم''(٣)
خدا کی قسم ٫ تم لوگ خدا کے نور کے سایۂ میں اور روشن دلیل ہو۔ اس جفا کار اور سرکش کے ساتھ جنگ کرو سے خوف نہ کرو، اس سے کیوں ڈرو جب کہ تمھارے ہاتھ میں خدا کی کتاب ہے جو واضح اور سب کی نظر میں مقبول ہے تم نے پیغمبرۖ کے ساتھ اس سے جنگ کی ہے خدا کی قسم ان کا حال ماضی سے بہتر نہیں ہے، اٹھو اور خدا کے دشمن اور اپنے دشمن سے جنگ کرنے کے لئے روانہ ہوجاؤ ۔
_______________________________
(١)وقعہ صفین ص٢٤٣ ۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدید ج٥ص١٩٦۔١٩٥
(٢)کامل ابن اثیرج ٣ ص ١٥١
(٣) وقعہ صفین ص٢٣٤ ۔ تاریخ طبری ج ٣جزء ص٩۔ کامل ابن اثیرج٣ص١٥١ (تھوڑے فرق کے ساتھ)
میمنہ کی سرداری عبد اللہ کے حوالے تھی اس کے باوجود انہوں نے دو زرہ پہنی اور دو تلواریں (دونوں ہاتھوںمیں ) لیں اور حملہ شروع کردیا اور پہلے ہی حملہ میں معاویہ کی فوج کو راستے سے ہٹادیا اور حبیب بن مسلمہ جوفوج شام کے میسرہ کا سردار تھا،کے لشکر کو شکست دیدی ،ان کی پوری کوشش یہ تھی کہ خود کو معاویہ کے خیمے تک پہونچا دیں اور اس ام ّالفساد کو درمیان سے ختم کردیں معاویہ کے تمام نگہبان جنہوں نے اپنی جان قربان کرنے کا عہد کیا تھا، پانچ صف کی صورت میںیا بقولے پانچ دیوار کی طرح اس کے اطراف میں محاصرہ کئے ہوئے تھے اور ان کو بڑھنے سے روک رہے تھے لیکن یہ دیواریں بہت بڑی مشکل نہ بنیں، بلکہ ایک کے بعد ایک گرتی رہیں عبدا للہ کا حملہ بہت زبردست تھالیکن اس سے پہلے کہ خود کو معاویہ کے خیمہ تک پہونچاتے قتل کر دئیے گئے۔(١)
اس سلسلے میں جریر طبری نے اپنی ''تاریخ'' میں ابن مزاحم (مؤلف وقعہ صفین) سے زیادہ تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، وہ لکھتا ہے:عبداللہ دشمن کی فوج کے میسرہ کے ساتھ جنگ کرنے میں مشغول تھا اور مالک اشتر بھی میمنہ پر حملہ کر رہے تھے، مالک اشتر جو کہ زرہ پہنے ہوئے تھے اپنے ہاتھ میں ایک یمنی ڈھال نما لوہے کا ٹکڑا لئے ہوئے تھے جب اس کو جھکاتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ اس سے پانی برس رہا ہے اور جب اسے اونچا کرتے تھے تو اس کی چمک سے آنکھیں خیرہ ہو جاتی تھیں۔انھوں نے اپنے حملے میں میمنہ کو تہ وبالا کردیا اور ایسے مقام پر پہونچے جہاں عبد اللہ بن بدیل قاریوں کے گروہ جن کی تعداد تقریباً تین سو،(٢) کے آس پاس تھی موجود تھے، انہوں نے عبد اللہ کے دوستوں کو میدان میں ڈٹا ہوا پایا مالک اشتر نے ان کے اطراف سے دشمنوں کو دور کیا وہ لوگ مالک اشتر کو دیکھ کر خوش ہوئے اور فوراً امام کے حالات دریافت کئے اور جب ان لوگوں نے جواب میں سنا کہ امام علیہ السلام صحیح و سالم ہیں اور میسرۂ میں اپنی فوج کے ساتھ جنگ کرنے میں مصروف ہیں تو شکرخدابجالائے۔
ایسی حالت میں عبد اللہ نے اپنے کم ساتھیوں کے باوجود بہت زیادہ اصرا ر کیا کہ آگے بڑھیں، معاویہ کے نگہبانوںکو قتل کرنے کے بعد خود معاویہ کو قتل کردیں،لیکن مالک اشتر نے انہیں پیغام دیا کہ آگے
______________________
(١) وقعہ صفین ص٢٤٨
(٢)ابن مزاحم نے وقعہ صفین میں ان کی تعداد سو آدمی لکھی ہے۔
نہ بڑھیںاور جس جگہ پر ہیں وہیں ٹھہرے رہیں اور اپنا دفاع کریں۔(١) لیکن ان کا خیال تھا کہ وہ ایک بجلی کی طرح تیز حملے سے نگہبانوں کو ختم کرکے معاویہ تک پہونچ جائیں گے، اسی وجہ سے وہ آگے بڑھتے رہے اور چونکہ دونوں ہاتھوں میں تلوار لئے تھے اپنے دوستوں کے ہمراہ حملہ شروع کردیا اور جو بھی سامنے آتا تھا ایک ہی حملے میں اس کا کام تمام کردیتے تھے اور اس قدر آگے بڑھے کہ معاویہ کو مجبوراً اپنی جگہ بدلنی پڑی۔(٢)
عبد اللہ کے حملے کی خوبی یہ تھی کہ وہ نگہبانوں سے لڑتے وقت٫٫ یالثارات عثمان،، کا نعرہ بلند کر رہے تھے اس نعرے سے ان کا مقصد ان کا وہ بھائی تھا جو اسی جنگ میںمارا گیا تھا لیکن دشمنوں نے اس سے دوسری چیزسمجھا اور بہت تعجب میں پڑے تھے کہ عبد اللہ کس طرح سے لوگوں کو عثمان کے خون کا بدلہ لینے کی دعوت دے رہے ہیں۔!
بالآخر نوبت یہاں تک پہونچی کہ حقیقت میں معاویہ کو اپنی جان خطرے میں نظر آئی اور کئی مرتبہ اپنی میمنہ کی فوج کے سردار حبیب بن مسلمہ کے پاس پیغام بھیجا کہ مدد کو پہونچے لیکن حبیب کی ساری کوششیں بے کار ہوگئیں۔ اور عبد اللہ کو ان کے مقصد تک پہونچنے سے روک نہ سکا ،معاویہ کے خیمے سے وہ بہت کم فاصلے پر تھے معاویہ نے جب کوئی سبیل نہ دیکھی تو نگہبانوں کو حکم دیا کہ ان کے اوپر پتھر مارو اور ان سے جنگ کرو، اور یہ طریقہ مؤثر واقع ہوااور نگہبانوں نے پتھر مار کر عبد اللہ جن کے ہمراہ بہت کم لوگ تھے زخمی کر دیا اور وہ زخمی ہوکر زمین پر گر پڑے ۔(٣)
جب معاویہ نے اپنی جان کو خطرے سے باہر پایا توخوشی سے پھولے نہیں سمایااورعبداللہ کے سراہنے آیا، ایک شخص جس کا نام عبد اللہ بن عامر تھا اور معاویہ کے قریبی لوگوں میں سے تھا اپنے عمامہ کو عبد اللہ کے چہرے پر ڈال دیا اور اس کے لئے دعائے رحمت کی، معاویہ نے بہت اصرار کیا کہ اس کا چہرہ کھول دے مگر اس نے نہیں کھولا کیونکہ وہ اس کا دوست تھا، معاویہ نے اس سے وعدہ کیا کہ میں اِسے مُثلہ
_______________________________
(١)کامل ابن اثیرج٣ص١٥٣
(٢)تاریخ طبری ج ٣جزئ٦ص١٠۔کامل ابن اثیرج٣ص١٥٢،١٥١۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدید ج٥ص١٩٦
(٣)وقعہ صفین ص ٢٤٦۔٢٤٥
(جسم کے ٹکڑے کاٹنا) نہیں کروں گا، اس وقت اُسے امام کے بہادر سردار کا چہرہ دیکھنا نصیب ہوا،جیسے ہی معاویہ کی نگاہ عبد اللہ کے چہرے پر پڑی اس نے برجستہ کہا:
''ھذاواللّٰہ کبشُ القومِ.وربِّ الکعبةِ اللّٰھمّ اَظْفِرْنْیِ بالْاَشْتَرِ النّخعِی والْاَ شْعَتِ الْکِنْدِیْ'' (١)
''خدا کی قسم ، وہ اس گروہ کا سب سے بڑا ہے خدایا مجھے اور دو بڑے بہادروں، مالک اشتر نخعی اور اشعث کنِدی پر کامیابی عطا فرما''۔
اس وقت عبد اللہ کی بے مثال بہادری و شجاعت پر عدی بن حاتم کا قصیدہ پڑھاجس کا پہلا
شعر یہ تھا۔
''أخا الحربِ اِن عضّتْ بہ الحربُ عضّھٰا.وان شمّرَتْ عن سَا قِھٰا الحربُ شمَّرا'' (٢)
''مرد جنگجو(بہت زیادہ جنگ کرنے ولا)وہ ہے کہ اگر جنگ نے اُسے دانت دکھایا تو وہ بھی اسے دانت دکھائے اور اگر آستین اوپر اٹھائے تو وہ بھی آستین اوپر کرے''۔
جنگ، لیلة الہریر تک
ْْْْْْْامام علیہ السلام کے چاہنے والوں اور معاویہ کے طرفداروں کے درمیان واقعی جنگ ماہ صفر ٣٨ ھ سے شروع ہوئی اور ١٣،صفر(٣)کو دوپہر تک جاری رہی، تاریخ لکھنے والوں نے اس ابن جریر طبری نے اپنی کتاب میں صلح کی تاریخ ١٣ صفر لکھی ہے اور لیلة الہریر کو جمعہ کے دن لکھا ہے۔(ص٢٤) لیکن چونکہ جس دن صفر کا مہینہ شروع ہوا تھا وہ بدھ کا دن تھا اور اس اعتبار سے لیلة الہریر ١٧ صفر کو ہونا چاہیے(ماہ صفر کی تیسری شب جمعہ) اور اگر مراد دوسری شب جمعہ ہو تو اس صورت میں لیلة الہریر ١٠صفر کو ہوناچاہیے نہ کہ ١٣ صفر کو ،مگر یہ کہا جائے لیلةالہریر کے آدھے دن سے صلح نامہ لکھے جانے تک تین دن تک دونوں فوجوں
______________________
(١)،(٢)، تاریخ طبری ٣ جزء ٦ص١٦َ،١٣۔وقعہ صفین ص٢٤٦۔ کامل ابن اثیرج ٣ص١٥٤۔١٥٣،شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج٥ص١٩٧۔ مروج الذہب ج٢ص٣٩٨۔
(٣) تاریخ طبری ج ٣جلد٦ص٣١۔
میں لڑائی ہوتی رہی اور تیسرے دن صلح نامہ مکمل ہوا لیکن ظاہراً جو ابن مزاحم کی کتاب وقعہ صفین میں تحریر ہے وہ یہ ہے کہ جنگ دسویں دن کے بعد بھی جاری رہی۔
مہینے کی شب پندرہویںکو ''لیلة الہریر'' کے نام سے یا د کیاہے ، عربی لغت میں ''ہریر'' کے معنیٰ کتوں کا تیز اوردردناک آواز میں بھونکنا ہے، کیونکہ معاویہ کی فوج اس رات امام علیہ السلام کی فوج کے حملے سے ایسے ہی چلا رہی تھی جیسے کتے چلاتے ہیں ،عنقریب تھا کہ معاویہ اور امویوں کی حکومت کا تختہ پلٹ جائے کہ اچانک عمروعاص نے دھوکہ اور فریب کے ساتھ اور امام کی فوج کے درمیان تفرقہ پیدا کرکے اس خونی اور سرنوشت ساز جنگ اور اس کو روک دیا بالآخر١٧،صفر جمعہ کے دن واقعہ ''حَکمیّت''تک پہونچا اور جنگ وقتی طور پر روک دی گئی۔
جنگ صفین کے حادثات لکھنے والے مؤرخین نے دس دن تک حالات کو ترتیب سے لکھا ہے۔(١) لیکن اس کے بعد کے حالات و حادثات کی ترتیب بدل گئی، تاریخ لکھنے والوں کو چاہیے کہ اپنے ذوق تاریخ شناسی کی روشنی میں واقعات کو ترتیب دیں ہم بھی ان چند دن میں ہوئے واقعات کو لیلة الہریرتک اپنے انداز سے تحریر کر رہے ہیں۔
______________________
(١) مروج الذہب ج٢ص٣٩٠۔٣٨٧۔
دسویں دن کا حادثہ
دسویں صفر کا سورج طلوع ہوا اور اپنی روشنی کو صفین کے میدان پر ڈالا جو خون کے تالاب کی طرح ہوگیاتھا ،شہادت کے عاشق اور امام علیہ السلام کے چاہنے والے یعنی ربیعہ قبیلے والے امام کے اطراف میں جمع تھے اور امام کا محاصرہ کئے ہوئے تھے، ان کے سرداروں میں سے ایک سردار اٹھا اور کہا ''من یبایعٰ نفسہُ علی الموتِ و یشری نفسہُ للّٰہ؟ کون ہے جو مرنے کے لئے بیعت کرے اور اپنی جان کو خداکے لئے بیچ دے ؟ اس وقت سات ہزار لوگ کھڑے ہوئے اور اپنے سردار کے ہاتھ پر بیعت کی اور کہا ،ہم اتنا آگے بڑھیںکہ معاویہ کے خیمے میں داخل ہوجائیں اور پیچھے پلٹ کر بھی نہ دیکھیں۔
ان کی محبت و الفت کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ان میں سے ایک شخص نے اٹھ کر کہا ''لیس
لکم عُذرفیِ العربِ اِن اصیب عِلیّ فیکم، ومنکم رجُل حتّیٰ''۔یعنی عربوںکے سامنے تم لوگ ذلیل ورسوا ہو جاؤگے اگر تم میں سے ایک آدمی بھی زندہ رہا اور امام علیہ السلام کو کوئی آسیب پہونچا جب معاویہ نے ''ربیعہ'' کی بہادری اور موعظہ و نصیحت کو دیکھا تو برجستہ اس کے منھ سے تعریفی جملے نکل پڑے اور یہ شعر پڑھا۔
اِذَاقُلتَ قد وَلّتْ ربیعةُ أقبلَتْ کتائبُ منھم کالجِبالِ تجالد
اگر کوئی کہے کہ قبیلۂ ربیعہ نے میدان میں اپنی پشت دکھائی، تو اچانک ان میں سے کچھ گروہ پہاڑ کی طرح جنگ کرنے کیلئے تیار ہو جائیں گے۔(١)
میمنہ کی فوج میں ترمیم
ربیعہ کی بہادری کے مقابلے میں قبیلۂ مضر نے بہت زیادہ وفاداری نہیں کی اور امام علیہ السلام کی میمنہ کی فوج اپنے سردار عبد اللہ بن بدیل کے قتل ہونے کی وجہ سے اور قبیلۂ مضَر کے افراد کے میدان سے بھاگنے کی وجہ سے شکست سے دوچار تھی، اس طرح سے کہ اس فوج کے سپاہی قلب لشکر سے جا ملے کہ جس کی سرداری خود امام علیہ السلام کررہے تھے۔ امام علیہ السلام نے میمنہ کی فوج میں بہتری اور سدھارکے لئے سہل بن حنیف کو اس فوج کا سردار بنا یا، لیکن حبیب بن مسلمہ کی سرداری میں شام کی فوج کے ہجوم نے میمنہ کے نئے سردار کو اتنی مہلت نہ دی کہ فوج کو منظم و مرتب کرتا، امام علیہ السلام جب قبیلۂ مضَر کی بد نظمی سے
باخبر ہوئے تو فوراً مالک اشتر کو اپنے پاس بلایا اور انہیں حکم دیا کہ یہ گروہ جس نے اسلامی روش کو بھلادیا ہے اس سے کہو ''این فرار کم من الموت الذی لن تعجزوہ الیٰ الحیاة الّتی لا تبقیٰ لکم؟''کیو ں ایسی موت سے بھاگ رہے ہو جس کے مقابلے کی قدرت نہیں رکھتے اور جو زندگی ختم ہونے والی ہے اس کی طرف بھاگ رہے ہو ؟
مالک اشتر، میمنہ میں شکست کھا تے ہوئے لوگوں کے درمیان کھڑے ہوکر امام علیہ السلام کا پیغام پہونچانے کے بعد جوش وولولے والی تقریر میں کہا: ''فان الفِرار فیہ سلب العزّ والغلبة علیٰ الفَیئِ
______________________
(١)شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج٥ص٢٤٢،٢٤١۔ وقعہ صفین ص٣٠٦
وذِلَُّ الحیاة و المماتِ و عار الدنیا والاخرة وسخط اللّٰہ وألیم عقابِہِ''
''میدان جہاد سے فرار کرنا اپنی عزت کو برباد کرنا اور بیت المال کوا پنے ہاتھوں سے گنوا دینااور حیات و زندگی میں ذلت، اور دنیا و آخرت میں ننگ و عار، خدا کا قہر و غضب اور اس کا درد ناک عذاب ہے''۔
پھر فرمایا: اپنے دانتوں کو ایک دوسرے پر مضبوطی سے دبا لو اور اپنے سر کے ساتھ دشمن کے استقبال کے لئے بڑھواتنا کہنے کے بعد آپ نے میمنہ کی فوج کو منظم کیا اور خود حملہ شروع کر دیااور میسرۂ میں معاویہ کی فوج جو امام علیہ السلام کی میمنہ فوج کے مقابل تھی ، اسے پیچھے بھگا دیا یہاں تک کہ معاویہ کے قلب لشکر میں پہونچ گئے۔(١)
شکست کے بعد میمنہ کی فوج کا مرتب ہونا امام علیہ السلام کی خوشحالی کا سبب ہوا، اسی وجہ سے آپ نے ان لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا ''فألان فاصبر واانزلت علیکم الَسّکینة وثبّتکم اللّٰہ بالیقین ولیعلم المنھزم بأنّہ مُسخِط لِرَبّہِ و مُوْبقنفسہ، وَفی الْفِرارِ مُوجَدَة اللّٰہِ عَلَیْہِ والذّلّ اللازمُ أوِالعارُالباقی،(٢)
''اس وقت صبر و سکون سے رہو کیونکہ ثبات اور آرام تمھارے لئے خداکی طر ف سے آیا اور تمھیں یقین کے ساتھ قائم رکھا اور جو لوگ شکست کھاچکے ہیں (میدان جنگ میںثابت قدم نہ رہے )وہ جا ن لیں کہ انہوں نے خود کو خدا کے غیظ و غضب اور بلاؤں میں گرفتار کیا ہے اور میدان جنگ سے بھاگنے والے پر خدا کا قہر اور ذلت ہوگی''۔
_______________________________
(١)شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج٥ص١٩٨،١٩٧۔ وقعہ صفین ص٢٥٠۔ تاریخ طبری ٣، جزء ٦،ص١٢
(٢)۔ تاریخ طبری ٣، جزء ٦ص١٤
قاتل کا گریہ
مأرب ایک شہر ہے جو شمال میں شرق صنعا کے پاس ہے وہ اس عظیم نہر جو ٥٤٢سے ٥٧٠ کے درمیان منہدم ہوئے بہت مشہور ہے، یمن کے قبیلے والوں نے اسی نہر کی برکت سے کافی ترقی کی اوروہ بہت اچھی کھیتی کرتے تھے ، مشہور طوفان،''عرم'' کے اثر سے نہر منہدم ہوئی جس کے بعد لوگ وہاں سے
جزیرہ کے اِدھر اُدھر چلے گئے اور اس میں سے اکثر لوگ شام ،اردن ،فلسطین چلے گئے ،لیکن اپناقبیلہ چھوڑنے کے باوجود لوگ اپنے کو اسی قبیلے سے منتسب کرتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قبیلہ ازد، مضَر، کنِدہ، قضاعہ اور ربیعہ کے لوگ عراق میں اور اسی قبیلے کے کچھ لوگ شام ،اردن اور فلسطین میں زندگی بسر کررہے ہیں۔
فوج کو منظم کرتے وقت امام علیہ السلام کی سیاست یہ تھی کہ جس قبیلے کے لوگ بھی عراق میں زندگی بسر کررہے تھے تو دوسرے افراد کے سامنے وہی قبیلے کے لوگ کھڑے ہوں ، جو عراق کے علاوہ دوسری جگہوں پر زندگی بسر کر رہے تھے کیونکہ ممکن ہے کہ یہ آمنے سامنے کا مقابلہ بہتر ثابت ہو اور شدید خونریزی نہ ہو۔(١)
ایک دن ''خثعم'' کے عبد اللہ نامی شامی سردارنے خثعم عراق کے رئیس سے ملاقات کرنے
کی خواہش ظاہر کی، اور تھوڑے وقفہ کے بعد اس سے ملاقات ہوئی، شامی نے عرض کیا کہ خثعم قبیلے کے دونوں گروہ جنگ نہ کریں ، اور آئندہ کے لئے فکر کریں، دونوں فوجوں میں سے جو بھی کامیاب ہوئی ہم اس کی پیروی کریں ،لیکن ان دونوں سرداروں کی باتوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا کیونکہ عراقیوں میں سے کسی نے بھی اس کی باتوں پر توجہ نہیں دی،اور کوئی بھی راضی نہیں ہوا کہ امام علیہ السلام سے اپنی بیعت اٹھا لے،لہٰذا دونوں گروہوںمیں آمنے سامنے سے ایک ایک کر کے جنگ شروع ہوگئی ، وہب بن مسعود خثعمی عراقی، نے اپنے برابر کے شخص کو شامیوں میںسے قتل کر ڈالا اور اسی کے مقابلے میں خثعم شام کے ایک شخص نے عراق کے خثعمی پر حملہ کر دیا اور ابوکعب کو قتل کر دیا لیکن قتل کرنے کے فوراً بعد مقتول پر رونا شروع کردیا اور کہا میں نے معاویہ کی پیروی کرنے کی وجہ سے تجھے قتل کیا ہے جب کہ تو میرا قریبی عزیز تھا اور لوگوں سے زیادہ میں تم کو چاہتا تھا خدا کی قسم میری سمجھ میں نہیںآرہا ہے کہ کیا کروں، سوائے یہ کہ شیطان نے ہم لوگوں کو گمراہ کردیااور قریش نے ہمیں اپنا آلٰہ قرار دیدیا ہے اور ایک ہی قبیلے کے دوگروہوں کی آپسی جنگ میں ٨٠ لوگ دونوں طرف کے مارے گئے اور جنگ تمام ہوگئی۔(٢)
______________________
( ١)معجم البلدان ج٥ص٣٥،٣٤
(٢) وقعہ صفین ص٢٥٨،٢٥٧۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج٥ص٢٠٥،٢٠٤۔
|