فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
 

سترہویں فصل
جنگ صفین کا انجام
امام علیہ السلام مظہرصبر و استقامت تھے، آپ ابوسفیان کے بیٹے کی مخالفت کے مقابلے میں صلح کی ہر کوشش کی لیکن معاویہ کو ریاست طلبی نے اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ نمائندوں ، نصیحت کرنے والوں کے جانے کے بعد بھی بجائے اس کے کہ اس میں لوچ پیدا ہوتازیادہ سخت ہوگیا ، آخر کا ر امام علیہ السلام نے ارادہ کیاکہ مسلسل جنگ کریں اور اس سے زیادہ اپنا قیمتی وقت برباد نہ کریں اور اس کینسر کے جراثیم کو اسلامی معاشرہ سے ختم کریں۔
اسلامی معاشرے میں دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اگر اسلامی حکومت کسی گروہ کے ساتھ عہد ( بغیر کسی مزاحمت کے ) کرلے تو یہ عہد وپیمان محترم ہوتاہے مگر یہ کہ حاکم اسلامی کسی وجہ سے یہ احساس کرلے کہ ہمارا مقابل عہد وپیمان توڑدے گا اور خیانت کرے گا تو اس صورت میں وہ پہل کرسکتا ہے اور اپنے کئے ہوئے عہد وپیمان کو باطل قرار دے سکتا ہے اور جنگ کا آغاز کرسکتا ہے جیسا کہ قرآن مجید نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے، ارشاد قدرت ہے: '' واِ مّا تخافَنّ من قومٍ خیانةً فانبذ الیھم علیٰ سوائٍ اِنّ اللہ لایحبّ الخائنین'' (انفال ٥٨)'' اور اگر تمہیں کسی قوم کی خیانت (عہد شکنی) کا خوف ہو تو تم بھی برابر ان کا عہد ان ہی کی طرف سے پھینک مارو (عہد شکن کے ساتھ عہد شکنی کرو)خداہرگز دغا بازوں کو دوست نہیں رکھتا''۔
اسلام کایہ قانون، اصول اخلاقی اور عدالت کی رعایت کی حکایت کرتا ہے اور اسلام تو یہاں تک اجازت نہیں دیتا کہ بغیر بتائے ہوئے دشمن پر حملہ کیا جائے ، اگرچہ اس کی رفتارو گفتار سے خیانت کی علامتیں ظاہر ہوں۔
امام علیہ السلام نے صفین میں اس سے بھی زیادہ رعایتیں کیں ، جب کہ آپ کے اور معاویہ کے درمیان جنگ نہ کرنے کا عہد وپیمان نہ تھا بلکہ صرف ماہ محرم کا احترام تھا اور یہی سبب بنا کہ طرفین نے جنگ سے ہاتھ روک لیا اور صفین کا میدان چند دنوں تک سکون میں رہا اس کے باوجود صرف اس لئے کہ شام کے لوگ کہیں یہ نہ سوچیں کہ جیسے ہی محرم کا مہینہ ختم ہونے کے بعد پھر جنگ شروع نہیںہو گی ، آپ نے مرثد بن حارث کو حکم دیا کہ محرم کے آخری دن سورج ڈوبتے وقت شام کی فوج کے سامنے کھڑے ہو کر بلند آواز سے یہ اعلان کرے :
'' اے اہل شام ! امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے تمہیں مہلت دی اور جنگ کا حکم دینے میں صبر سے کام لیا تاکہ حق کی طرف واپس آجاؤ اور تمہارے سامنے قرآن مجید سے دلیل پیش کی اور تم لوگوں کو اس کی طر ف دعوت دی لیکن تم لوگوں نے سرکشی سے دوری اختیار نہیں کی اور حق کو قبول نہیں کیا ایسی صورت میں ہم نے ہر طرح کے امن وامان کو قطع کر دیاہے بے شک خداوند عالم خائنوں کو دوست نہیں رکھتا''۔(١)
مرثد کے ذریعہ امام علیہ السلام کا پیغام معاویہ کی فوج میں گونج گیا اور دونوں طرف کی فوج جوش میں آگئی اور دونوں گروہ اپنی اپنی فوجیں سنوارنے لگے اور سپہ سالار معین ہونے لگے امام علیہ السلام نے اپنی فوج کواس طرح ترتیب دیا:
سواروں پر عمار یاسر کو اور تمام پیادوں پر عبداللہ بن بدیل خزاعی کو افسر مقرر کیا اور پو رایت جنگ ہاشم بن عتبہ کے سپرد کیا پھر امام علیہ السلام نے فوج کو میمنہ اور میسرہ اور قلب لشکر میں تقسیم کیا یمنیوں کو فوج کی دا ہنی طرف اور ربیعہ قبیلے کے مختلف گروہ کو فوج کے بائیں طرف اور قبیلہ مُضر کے بہادروں کو جو اکثر کوفہ اور بصرہ کے تھے قلب لشکر میں معین کیا اور ان تینوں کوایک ایک کرکے سواروں اور پیادوں میں تقسیم کیا، میمنہ اور میسرہ کے سواروں کے لئے اشعث بن قیس اور عبداللہ بن عباس کو ، اور پیادہ میمنہ اور میسرہ کے لئے سلیمان بن صُرد اور حارث بن مرّہ کو معین فرمایا اور اس وقت ہرقبیلے کے پرچم کو ان کے سرداروں کے سپرد کیا، ابن مزاحم نے اپنی کتاب وقعہ صفین میں ٢٦ پرچم کا ذکر کیا ہے جو ہر قبیلہ کا تھا کہ تمام پرچم اٹھانے والوں اور ان کے قبیلے کا نام اگر تحریر کیا جائے تو بحث طولانی ہوجائے گی لہٰذا اس کے ذکر سے سے پرہیز کررہے ہیں (٢)معاویہ نے بھی اسی ترتیب سے اپنی فوج کو منظم کیا اور سپہ سالاروں اور پرچم اٹھانے والوں کو معین
_______________________________
(١)وقعہ صفین ص ٢٠٣۔٢٠٢،تاریخ طبری ج٣جزئ٦ ص ٥۔ کامل ابن اثیر ج٣ ص١٤٩۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٤ ص٢٥۔مروج الذھب ج٢ ص ٣٨٧ ( تھوڑے فرق کے ساتھ)
(٢)وقعہ صفین ص ٢٠٥۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٤ ص٢٦۔٢٤
کیاصبح جب سورج افق پر نظر آیا اور جنگ کا ہونا قطعی ہوگیاتو امام علیہ السلام اپنے سپاہیوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور بلندآواز سے فرمایا: ''لا تقاتلوھم حتیٰ یبدؤوکم ، فانکم بحمد اللّٰہ علی حجة وتَرکُکُم ایّاھم حتٰی یبدؤوکم حجّةأخری لکم علیھم فاذا قاتلتموھم فھزمتموھم فلاتقتلوا مدبراً ولاتجھروا علٰی جریحٍ ولا تکشفوا عورةً ولاتمثّلوا بقتیلٍ، فاذا وصلتم اِلٰی رِحالِ قومٍ فلاتھتکوا ستراً ولاتدخلوا داراًالّٰا باذنی ولا تأخذ وا شیئًا من اموالھم الا ما وجد تم فی عسکرھم ولاٰ تھبّجوا امراةً بأذیً وان شتمن أعراضکم وتنا ولنَ أمرائَ کُم وصُلحائَ کم فانھنّ ضعاف القویٰ والأنفس والعقولِ ولقد کنّٰا لنؤمِرُ بِالکفِّ عنھنَّ وانّھُنَّ لمشرکاتُ وان کان الرّجلُ لیتناولُ المرأة بالھراوةِ اوالحدیدِ فیعیرُ بِھٰاعقِبُہُ من بعدِہِ''(١)
'' جب تک وہ جنگ شروع نہ کریںتم ان سے نہ لڑنا ، خدا کا شکر کہ اس جنگ کے لئے تمہارے پاس حجت و دلیل ہے اور ان کو پہل کرنے کے لئے چھوڑ دینا ان پر دوسری حجت ہوگی اور جب ان لوگوں کو شکست دینا تو جو لوگ جنگ سے منہ موڑ کر بھاگیں ان کو قتل نہ کرنا، زخمیوں کو قتل نہ کرنا اور دشمن کو برہنہ نہ کرنا، ان کی لاشوں کو مُثلہ (ناک کان وغیرہ کاٹنا) نہ کرنا اور جب ان کی چھاؤنی اور قیام کی جگہ پہونچنا تو ان کی پردہ دری نہ کرنا اور کسی کے گھر میں بغیرمیری اجازت کے داخل نہ ہونا اور دشمنوں کے مال میں سے کوئی چیز نہ لینا ، مگر جو چیز تمہیں میدان جنگ میں ملے، عورتوں کو اذیت نہ دینا چاہے تمہیں جتنا بھی برا بھلا کہیں اور تمہارے افسروں کو گالیاں دیں کیونکہ وہ عقل وقدرت کے اعتبار سے کمزور ہیں ، وہ مشرک تھیں تو ہمیں حکم تھا کہ ان کی طرف ہاتھ نہ بڑھائیں اور جاہلیت کے زمانے میں اگر کوئی شخص کسی عورت پر عصا یا لوہے سے حملہ کرتاتھا تو یہ ایک ایسی توہین تھی کہ بعد میں اس کی اولادوں کی مذمت کی جاتی تھی''۔
امیر المومنین علیہ السلام نے جنگ ''جمل'' جنگ '' صفین '' اور جنگ ''نہروان''میں اپنے سپاہیوں کو
______________________
(١)وقعہ صفین ص ٢٠٤،٢٠٣۔تاریخ طبری ج٣ جزئ٦ ص ٦۔ کامل ابن اثیر ج٣ ص١٤٩۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٤ ص٢٦ ۔
درج ذیل چیزوں کی سفارش کی : '' عباداللّٰہ اتقواللّٰہ عزّوجلَّ ، غُضواالابصار وأخفضوا الاصوات وأقلّوأ الکلام و وَطّنوا أنفسکم علی المنازلة والمجادلةِ والمبارزةِ والمعانقةِ والمکاء مةِ واثبتوا واذکروا اللّٰہ کثیراً لعلّکم تفلحون ولا تنازعوا فتفشلوا وتذھبَ ریحُکُم وأصبروا ان اللّٰہ مع الصابرین''(١)
'' اے خدا کے بندو ، خدا کے قوانین کی مخالفت کرنے سے بچو ، اپنی آنکھوں کو نیچے کرو، اور
اپنی آوازوں کو کم کرو اور کم سخن بنو، اور اپنے کو جنگ اور دشمن سے دفاع اور اس سے مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ رکھو ثابت قدم اور مستحکم رہو اور خدا کا ذکر کرو تاکہ کامیاب ہوجاؤ ، اختلاف اور تفرقہ سے پرہیز کرو تاکہ سستی تم کو نہ گھیرے اور تمہاری عظمت وجلالت لوگوں کے درمیان سے ختم نہ ہو صبر کرو کیونکہ خداوند عالم صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے''۔
جی ہاں، امام علیہ السلام کی گفتگو ختم ہوئی اور آپ اپنے گیارہ فوجی سرداروں کے ساتھ دشمن کے سامنے کھڑے ہوئے امام علیہ السلام کی فوج کی صفیں اس طرح سے ترتیب دی گئی تھیں کہ قبیلہ کے لوگ جس میں سے کچھ عراق اور کچھ شام کے رہنے والے تھے میدان جنگ میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے، ابتداء میں جنگ کی آگ زیادہ شعلہ ور نہ تھی اور طرفین کو صلح اور جنگ بندی کی امید تھی ، سپاہیوں نے ظہر تک جنگ کی پھر حملہ کرنا چھوڑدیا لیکن پھر جنگ نے شدت پکڑ لی اور صبح سے رات تک بلکہ رات کے کچھ حصہ تک جنگ جاری رہتی (٢)۔

فوجی صف بندی
١ / صفر کو امام علیہ السلام کے لشکر سے مالک اشتر اور معاویہ کے لشکر سے حبیب بن مسلمہ اپنے دستے لے کر میدان جنگ میں آئے ، دن کے کچھ حصّوں میں جنگ ہوئی دونوں طرف کے لوگ مارے گئے پھر جنگ رک گئی اور دونوں اپنی اپنی قیامگاہ میں واپس آگئے(٣)۔
_______________________________
(١)وقعہ صفین ص ٢٠٤،٢٠٣۔تاریخ طبری ج٣، جزئ٦ ص ٦۔ کامل ابن اثیر ج٣ ص١٤٩۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٤ ص٢٦
(٢)،(٣)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٤ ص٣٠۔مروج الذھب ج ٢ص ٣٨٨،٣٨٧۔وقعہ صفین ص٢١٥،٢١٤۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٤ ص٣٠،٢٧
دوسرے دن امام کے لشکر سے ہاشم بن عتبہ سواروں اور پیادوں کے ساتھ اور معاویہ کے لشکر سے ابوالاعور سلی اپنے سواروں اور پیادوں کے ساتھ میدان میں آئے اور سواروںنے سواروں سے اور پیادوں نے پیادوں سے جنگ کی۔(١)
تیسرے دن امام کے لشکر سے عمار اور معاویہ کے لشکر سے عمرو عاص اپنے اپنے دستوں کے ساتھ میدان جنگ میں آئے اور دونوں کے درمیان بہت زبردست جنگ ہوئی۔(٢)
عمار نے شام کے لشکر کے سامنے جاکر بلند آواز سے کہا: کیا تم اس شخص کو پہچاننا چاہتے ہو جس نے خدا اور پیغمبر(ص)سے دشمنی اور عداوت کی اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کیا ہے اور مشرکوں کی پشت پناہی کی ہے؟ جب کہ خدا نے چاہا کہ اپنے دین کو ظاہر و آشکار کرے اور اپنے پیغمبرۖ کی مدد کرے تو اس نے فوراً ڈر اور خوف کی وجہ سے (نہ اپنی مرضی و خواہش سے) اپنے کو مسلمان ظاہر کیا اور جب پیغمبر اسلام(ص) اس دنیا سے چلے گئے تو وہ مسلمانوں کا دشمن اور ظالموں کا دوست ہوگیا۔ اے لوگو آگاہ ہوجاؤ کہ یہ شخص وہی معاویہ ہے اس پر لعنت بھیجو اور اسکے ساتھ جنگ کرنے کے لئے تیار ہوجاؤ وہ ایسا شخص ہے جو چاہتا ہے کہ خدا کے نور کو خاموش کردے اور خدا کے دشمنوں کی مدد کرے۔(٣)
ایک شخص نے عمار سے کہا کہ رسول اسلام(ص)نے فرمایا ہے کہ لوگوں کے ساتھ جنگ کرو تاکہ لوگ اسلام قبول کریں اور جب لوگ اسلام قبول کرلیں گے تو ان کے جان و مال محفوظ ہوجائیں گے۔
عمار نے اس کلام کی تصدیق کی اور کہا بنی امیہ نے شروع سے ہی اسلام قبول نہیں کیا تھا بلکہ صرف اسلام لانے کا ڈھونگ کررہے تھے، اور اپنے اندر کفر کو چھپائے تھے یہاں تک کہ ان
کے کفر نے اپنا دوست واحباب بنالیا۔(٤)
عمار نے اتنا کہنے کے بعد اپنے سواروں کے سپہ سالار کو حکم دیا کہ شامیوں کے سوار وںپر حملہ کرے اس نے حملہ کرنے کا حکم دیا لیکن شامی ان کے مقابلے میں جمے رہے اس وقت پیادوں کے افسر کو حملہ کرنے
_______________________________
(١)،(٢)،(٣) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٤ص٣٠۔ مروج الذہب ج٢ص٣٨٨۔٣٨٧ ۔ وقعہ صفین ص ٢١٥۔٢١٤۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٤ص٣٠۔٣٢٧۔
(٤) وقعہ صفین ص ٢١٦۔٢١٥ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٤ص٣١ ۔تاریخ طبری جزء ٦ص٧
کا حکم دیا چنانچہ اس نے حملہ کرنے کا دستور دیا اور امام علیہ السلام کے سپاہیوں نے ایک ہی حملے میں دشمن کی صفوں کو تہ بالاکردیا عمروعاص اپنی جگہ چھوڑکر صفوں میں روپوش ہوگیا۔
عمرو عاص ، نے ایسا حربہ استعمال کیا جو عمار استعمال کر چکے تھے، عما ر نے بنی امیہ کی فوج اور ان کے سرداروں کو کافر بتا کر دشمن کی صف میں ہلچل مچا دی تھی، اسی کے مقابلے میں عمر و عاص نے بھی ایک کالا کپڑا نیزے پر بلند کیا اور کہا کہ یہ وہی پرچم ہے جو پیغمبر اسلام نے ایک دن اس کے حوالے کیا تھا، جسے دیکھ کر لوگوں کی آنکھیں حیرت زدہ ہوگئیں اور سرگوشیاں شروع ہو گئیں، امام علیہ السلام فتنے کو روکنے کے لئے اپنے دوستوں کے پاس گئے اور کہا ! کیا تم لوگ جانتے ہو کہ اس پرچم کی کیا کہانی ہے؟ پیغمبر اسلامۖ ایک دن اس پرچم کو باہر لائے اور فوج اسلام کی طرف مخاطب ہوکر کہا: کون ہے جو اس کو اٹھائے اور اس کا حق ادا کرے؟عمروعاص نے کہا: کس طرح اس کا حق ادا ہوگا؟ پیغمبر اسلام(ص)نے فرمایا: مسلمانوں سے جنگ نہ کرے اور کافر کے مقابلے سے نہ بھاگے مگر اس کا اس نے یوں حق ادا کیا کہ کافروں سے بھاگا اور آج مسلمانوں کے ساتھ جنگ کررہا ہے۔
اس خدا کی قسم جس نے بیج کو شگافتہ کیا اور انسان کو پیدا کیا اس گروہ نے صدق دل سے اسلام
قبول نہیں کیا ہے بلکہ صرف اسلام کا تظاہر کیا ہے اور اپنے کفر کو چھپالیا ہے اور جب ان کے دوست و احباب مل گئے تو اپنے کفر کو ظاہر کردیا اور اپنی دشمنی پر واپس آگئے ۔اورصرف نماز کو ظاہراً ترک نہیں کیا(١)
چوتھے دن محمد حنیفہ اپنے لشکر کے ساتھ میدان میں آئے اور معاویہ کی فوج سے عبید اللہ بن عمراپنی فوج لے کر میدان میں آیا جنگ کے شعلے بھڑکے اور پھر دونوں فوجوں کے درمیان زبردست لڑائی ہوئی (٢) عبید اللہ نے محمد حنیفہ کے پاس پیغام بھیجوایا کہ اب ہم دونوں جنگ کرنے کے لئے میدان میں آئیں محمد بن حنفیہ میدان کی طرف بڑھے تاکہ ان کے ایک ایک فرد سے جنگ کریں ، امام علیہ السلام کو اس کی خبر ملی اور فوراً گھوڑے کو اپنے بیٹے کی طرف دوڑایا اور ان کو جنگ کرنے سے منع کیا اورپھر خود عبید اللہ کی طرف بڑھے اور کہاتو آگے بڑھ میں تم سے جنگ کروں گا، عبید اللہ یہ سن کر کانپنے لگا اور کہا: مجھے تمھارے ساتھ جنگ
______________________
(١) وقعہ صفین ص ٢١٦۔٢١٥۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٤ص١ ٣۔ تاریخ طبری ج ٣ جزئ٦ ص٧
(٢)مروج الذہب ج ٢ ص٣٨٨
کرنے کی ضرورت نہیں ہے پھر اپنے گھوڑے کو موڑ کر میدان جنگ سے چلا گیا اس وقت دونوں فوجیں پیچھے ہٹ گئیں ا ور اپنی اپنی چھاؤنی میںواپس آگئیں۔(١)
ماہ صفر ٣٨ھ کی پانچویں تاریخ اتوار کے دن دو دستے جن میں عراقیوں کی سرداری ابن عباس اور شامیوں کی سرداری ولید بن عقبہ کر رہے تھے میدان جنگ میں آئے اور دونوں کے درمیان زبردست جنگ ہوئی، ظہر کے وقت دونوں نے جنگ روک دی اور اپنے اپنے لشکر کے پاس واپس آگئے، ولید بن عقبہ نے
جب عبدالمطلب کی اولاد کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو: ابن عباس نے اسے جنگ کے لئے بلایا لیکن اس نے جنگ کرنے سے گریز کیا اور میدان چھوڑ کر چلا گیا۔(٢)
فوج شام کے افراد اسلامی تاریخ اور واقعات سے بے بہرہ تھے ورنہ ان کی فوج کی سپہ سالاری ایسے شخص کے ہاتھ میں نہ ہوتی جس کو قرآن نے 'فاسق' اور نابکار سے یاد کیا ہے ولید وہی شخص ہے جس کے بارے میں قرآن مجید کا ارشاد ہے''ان جاء کم فاسق بنباء فتبینّوا''(سورۂ حجرات ٦) یعنی اگر کو ئی فاسق خبر لائے تو اسکی چھان بین کرو۔(٣) یہ وہی شخص ہے جس کے بارے میں قرآن نے اس طرح توصیف کی ہے''اَفمن کان مومناً کمن کان فاسقاً لایستؤون'' (سورۂ سجدہ ١٨) یعنی کیا جو شخص مومن ہے وہ اسی طرح ہے جس طرح فاسق ہے؟ ہرگز یہ دونوں برابر نہیں۔(٤)
اس جنگ میں اگر چہ بہت سے افرادقتل ہوئے لیکن دونوں فوجیں بغیر کسی نتیجے کے اپنی اپنی چھاؤنی میں واپس آگئیں مگر امام علیہ السلام، عمار اور ابن عباس کی تقریروںسے شام کے لوگوں پر حقیقت واضح ہوگئی اور کم و بیش معاویہ کا جھوٹا اور بے بنیاد دعویٰ لوگوں پر ظاہر و روشن ہوگیا، یہی وجہ ہے کہ جنگ کے پانچویں دن شمر بن ابرہہ حمیری شام کے قاریوں کے کچھ گروہ کے ساتھ امام کے لشکر میں شامل ہوگیا ،ان لوگوں کا نور
_______________________________
(١) وقعہ صفین ص ٢٢٢۔٢٢١۔ کامل ابن اثیرج٣ص٥٠۔ تاریخ طبری ج ٣، جزئ٦ ص٧ ۔مروج الذہب ج ٢ ص٣٨٨۔
(٢) وقعہ صفین ص ٢٢٢۔٢٢١۔ کامل ابن اثیرج٣ص٥٠۔ تاریخ طبری ج ٣ جزئ٦ ص٧ ۔مروج الذہب ج ٢ ص٣٨٨۔
( ٣) تما م اسلامی مفسرین نے متفقہ طور پر لکھا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
(٤)اس آیت کے شان نزو ل کے متعلق، تفسیر الدر المنثورا ور برہان کی طرف رجوع کریں۔
کی طرف آنا تاریکی کی علامت تھی جو شام کی فوج پر چھائی ہوئی تھی اس سے معاویہ کو بہت بڑا دھچکا لگا ،اس کے تکرار سے سخت خوفناک تھا۔
عمرو عاص نے معاویہ سے کہا:تو چاہتا ہے کہ ایسے شخص سے جنگ کرے جو محمدۖ کا قریبی رشتہ دار ہے ، اسلام میں ثابت قدم اور استوار ہے، فضلیت و معنویت اور جنگ کے اسرار و رموز جاننے میں بے مثال ہے، محمدۖ کے خاص لوگوں میں سے ہے اوربہادر ساتھیوں ، قاریوں اور شریف ترین لوگوں کے ساتھ تم سے جنگ کرنے آیا ہے اور مسلمانوں کے دلوں میں اس کی ہیبت و بزرگی چھائی ہے،تو تجھ پر لازم ہے کہ شامیوں کو اہم جگہوں اور علاقوں میں معین کرو اور اس سے پہلے کہ جنگ کی مدت طولانی ہونے کی وجہ سے وہ افسردگی اور رنجیدگی کا احساس کریں ان لوگوں کولالچ دو اور جو چیز بھی بھولنا چاہو بھول جاؤ مگر یہ نہ بھولنا کہ تم باطل پرہو۔
معاویہ نے بوڑھے مکار سیاسی کی باتوں سے نصیحت لی اور سمجھ گیا کہ شامیوں کو میدان جنگ کی طرف مائل کرنے کا ایک طریقہ دین اور تقوی و پرہیزگاری کا اظہار کرنا بھی ہے اگرچہ ان کے دلوں میں اس کا کچھ اثر نہ ہو،یہی وجہ تھی کہ اس نے حکم دیا کہ ایک منبر بنایا جائے اور شام کے تمام سرداروں کو اپنے پاس بلایا اور منبرپر گیا اورپھر بڑے ہی رنجیدہ دل سے دین و مذہب کے لئے مگرمچھ کی طرح آنسو بہایا اور کہا:
اے لوگو : اپنی جانوں اور سروں کو میرے سپرد کردو ، سست نہ ہونا اور مدد کرنے میں کوتاہی نہ کرناآج کا دن خطرناک دن ہے حقیقت اور اس کی حفاظت کا دن ہے تم لوگ حق پر ہو اور تمھارے پاس دلیل ہے تم لوگ اس سے جنگ کررہے ہو جس نے بیعت کو توڑا ہے اور خون حرام بہایا ہے اور آسمان پر کوئی بھی اس کو معذور نہیں سمجھتا۔
پھر عمر و عاص منبر پر گیا اور معاویہ کی طرح سے تقریر کی اور پھر منبر سے اتر گیا۔ (١)
______________________
١۔ وقعہ صفین ص ٢٢٢۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٥ص١٨٠۔
امام علیہ السلام کی تقریر
امام علیہ السلام کو خبر ملی کہ معاویہ اپنے مکر و فریب کے ذریعے دین کا لبادہ پہن کرشامیوں کو جنگ کی
دعوت دے رہا ہے لہذا آپ نے حکم دیا کہ سب کے سب ایک جگہ جمع ہوجائیں ، راوی کہتا ہے کہ میں نے امام کو دیکھا جو اپنی کمان پر ٹیک لگائے ہیں اور پیغمبر(ص)کے دوستوں کو اپنے پاس جمع کیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ پیغمبر ۖکے تمام ساتھی ان کے ہمراہ ہیں پھر آپ نے خدا کی حمد و ثناء کی اور کہا:
اے لوگو! میری باتوں کو غور سے سنو اور اسے یاد کرلو۔ خود خواہی سر کشی کی وجہ سے ہے اورکبرو نخوت خود بینی سے اور شیطان تمھاراابھی کا دشمن ہے جو تمھیں باطل کا وعدہ دے رہا ہے ،آگاہ ہوجاؤکہ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے اسے برا بھلا نہ کہو اس کی مدد کرنے سے گریز نہ کرو، شریعت ودین ایک ہے اور اس کے راستے بھی ہموار ہیں جس نے بھی اس سے تمسک کیا وہ اس سے ملحق ہوگیا اور جس نے اسے ترک کیا وہ اس سے خارج ہوگیا اور جو بھی اس سے جدا ہوگا وہ نابود ہوجائے گااور جو شخص امین کے نام سے مشہور ہو اور خیانت کرے ، وعدہ کرے مگر خلاف ورزی کرے، بات کرے مگر جھوٹ بولے، وہ مسلمان نہیں ہے، ہم خاندان رحمت ہیں ہماری باتیں سچی اور ہمارے کردار سب سے اچھے ہیں پیغمبرۖ آخر الزمان ہم میں سے ہیں اور اسلام کی رہبری بھی ہمارے ہی پاس ہے،خدا کی کتاب کے قاری ہم ہی ہیں۔میں تمھیں خدا اور رسول(ص)کی طرف اور ان کے دشمنوں سے جہاد کرنے، اور اس کی راہ میںثابت قدم رہنے اور اس کی مرضی حاصل کرنے، نماز قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے ، اور خدا کے گھر کی زیارت کرنے،اور رمضان المبارک میں روزہ رکھنے ، اور بیت المال کواس کے اہل تک پہونچانے کی دعوت دیتا ہوں۔
یہ بھی دنیا کے لئے تعجب ہے کہ معاویہ اور عمرو عاص دونوں اس لائق ہوگئے کہ لوگوں کو دینداری کی طرف رغبت دلائیں! تم لوگ جانتے ہو کہ میں نے کبھی بھی پیغمبر (ص)کی مخالفت نہیں کی بلکہ وہ مقامات جہا ں پر بڑے بڑے بہادر پیچھے ہٹ گئے اور ان کے بدن خوف کے مارے کانپنے لگے میں نے اپنی جان کوپیغمبرۖ کے لئے سپر قرار دیااس خدا کا شکر جس نے ہمیں یہ فضلیت بخشی، پیغمبر (ص)کی روح پرواز کر گئی جب کہ ان کا سر میری آغوش میں تھا ، اور صرف تنہا میں نے ان کو غسل دیا اور مقرب ترین فرشتے آپ کے جسم اطہر کو اِدھر سے ادھر پلٹتے تھے، خدا کی قسم کسی بھی پیغمبر کی امت اس کی رحلت کے بعد اختلاف کا شکار نہ ہوئی مگر یہ کہ اہل باطل حق والوں پر غالب آگئے ۔(١)
جب امام علیہ السلام کی تقریر یہاں تک پہونچی تو ، بزرگ و باایمان اور وفادار دوست عمارنے لوگوں کی طرف نگا ہ کی اور کہا، امامۖ نے تم لوگوں کو آگاہ کردیا ہے کہ امت نے نہ تو شروع ہی میں صحیح راستہ اپنایا اور نہ ہی آخر میں صحیح راستہ اپنایا۔
ابن مزاحم کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ٦،صفر ٣٨ دو شبنہ کے دن شام کے وقت تقریر کی تھی اور آخر کلام میں تما م سپاہیوں سے مطالبہ کیا کہ فساد کو جڑ سے اکھاڑدیں۔ اسی وجہ سے ٧،صفر منگل کے دن تمام سپاہیوں کو ایک بڑے حملے کے لئے آمادہ کیا اور خطبہ ارشاد فرمایا جس میں جنگ کے اسرار و رموز کی تعلیم دی ۔(٢)
_______________________________
(١)،(٢)وقعہ صفین ص٢٢٤۔٢٢٣۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٥ص١٨٢۔١٨١