فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
 

سولہویں فصل
آخری اتمام حجت

معاویہ کے پاس تین نمائندے بھیجنا
ربیع الثانی ٣٦ ہجری کے آخری ایام تھے، امام علیہ السلام نے تین اسلامی شخصیتوں ، انصاری ، ہمدانی اور تمیمی کو اپنے پاس بلایا اور ان لوگوں سے کہا کہ تم لوگ معاویہ کے پاس جاؤ اور اسے امت اسلامی کی اطاعت اور اس سے ملحق ہونے اور احکام الٰہی کی پیروی کرنے کی دعوت دو، تمیمی نے امام علیہ السلام سے کہا ، اگر وہ بیعت کے لئے آمادہ ہوجائے تو کیا مصلحت ہے کہ اسے انعام ( مثلاً ایک علاقہ کی حکومت) دے دیں ؟
امام علیہ السلام جو کسی بھی صورت میں اصول کی پامالی نہیں کرتے تھے ان لوگوں سے کہا '' أیتوہُ الأن فلا قوہ واحتجّوا علیہ وانظرومارأیہ '' یعنی اس وقت اس کے پاس جاؤ اور اس پر احتجاج کرواور دیکھو کہ اس کا نظریہ کیا ہے؟
وہ تینوں معاویہ کے پاس گئے اور معاویہ اور ان کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ درج ذیل ہے:
انصاری:دنیا تجھ سے چھوٹے گی اور تو دوسری دنیا کی طرف جائے گا وہاں تمہارے اعمال کا محاسبہ ہوگا اور اچھے برے اعمال کا بدلہ ملے گا ،تم کو خدا کا واسطہ کہ تم فتنہ وشر سے باز آجاؤ اور امت میں تفرقہ اور خونریزی مت کرو۔
معاویہ نے انصاری کی بات کاٹتے ہوئے کہا : تم اپنے بزرگ کو کیوں نصیحت نہیں کرتے؟
انصاری: حمد ہے خدا کی میرا بزرگ تمہاری طرح نہیں ہے وہ سابق الاسلام ،پیغمبرۖ کے قریبی رشتہ دار اور عظمت وفضیلت کے تاجدار ہیں۔
معاویہ : تم کیا کہہ رہے ہو اور کیا چاہتے ہو؟
انصاری: میں تجھے علی کی اطاعت کی دعوت دے رہا ہوں اوراس کے قبول کرنے میں تمہارے دین ودنیا کے لئے بھلائی ہے۔
معاویہ : اس صورت میں عثمان کے خون کا بدلہ لینے میں تاخیر ہوگی ، نہیں، رحمٰن کی قسم! میں ہرگز ایسا نہیں کرسکتا۔
اس وقت ہمدانی نے چاہا کہ کلام کرے لیکن تمیمی نے ان سے پہلے گفتگو شروع کردی اورکہا :
انصاری کو دیئے ہوئے جوابات سے تیرا مقصد معلوم ہوگیا اور تیرے ارادہ سے ہم لوگ بے خبر نہیں ہیں، لوگوں کو دھوکہ دینے اور ان کو اپنی طرف جذب کرنے کے لئے سوائے اس کے کوئی اور بہانہ نہیں ہے کہ تو یہ کہے کہ تمہارا خلیفہ مظلوم قتل ہواہے اور تم لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ ان کے قتل کا بدلہ لو اس آواز پر چند جاہل لوگوں نے تمہاری آواز پر لبیک کہا ہے جب کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ تم نے اپنے مقتول خلیفہ کی مدد کرنے میں تاخیر کی تھی اور اسی مقام کے حصول کے لئے تم نے ان کے قتل کو روا رکھاتھاایسا ہوسکتاہے کہ کچھ لوگ مقام ومنصب کی آرزو رکھتے ہوں مگر خدا ان کی آرزؤں کو پورا نہ کرے، اور تو ایساآرزو مند ہے کہ اپنی جس آرزوتک پہونچ جائے اس میں فلاح وبہبود نہیں ہے اگر تو اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوا تو عرب میں تجھ سے زیادہ کوئی بدبخت نہیں ہے اور اگر مقصد میں کامیاب ہوگیا تو آخرت کی روسیاہی کے سواء کچھ نہیں ہے،اے معاویہ خدا سے ڈر اور ہٹ دھرمی چھوڑ دے اور جو خلافت کا صحیح حقدار ہے اس سے جنگ نہ کر۔امام علیہ السلام کے نمائندوں کی منطقی اور استدلالی گفتگو نے معاویہ کو بوکھلا دیا اور اپنی پرانی روش کے برخلاف تلخ لہجے میں کہا:بیاباں نشین تم میرے پاس سے چلے جاؤاب ہمارے اور تمہارے درمیان تلوار ہی فیصلہ کرے گی۔
تمیمی: کیا تم ہمیں تلوار سے ڈرا رہے ہو ؟ بہت جلد ہی تلوار لے کر تمہاری طرف آرہے ہیں ، پھر تینوں نمائندے امام کی خدمت میں واپس آگئے اور تمام باتوں کے نتیجے سے امام علیہ السلام کو باخبر کیا۔(١)
_______________________________
(١) وقعہ صفین ص ١٨٨،١٨٧۔ تاریخ طبری ج٣ جزء ٥ ص٢٤٢۔ کامل ابن اثیر ج٣ ص ١٤٦

عراق وشام کے قاریوں کا اجتماع
صدر اسلام میں قاریان قرآن کا ایک خاص مقام تھا ان کا کسی طرف ہوناتمام مسلمانوں کا ان لوگوں کی طرف متوجہ ہونے کا سبب بنتا تھا،ایسے حالات میں جب کہ صلح وآشتی کی کوئی امید نہ تھی عراق وشام
کے قاری جن کی تعداد ٣٠ ہزار کے قریب تھی ایک خاص جگہ پر جمع ہوئے اور ان کے نمائندے مثلاً عبیدہ سلمانی ، علقمہ بن قیس ،عبداللہ بن عتبہ وعامر بن عبد القیس وغیرہ دونوں فوج کے سرداروں کے پاس کئی مرتبہ آئے گئے سب سے پہلے معاویہ کے پاس گئے اور اس سے گفتگو کی جو درج ذیل ہے :
نمائندے: تم کیا چاہتے ہو؟
معاویہ : عثمان کے خون کا بدلہ چاہتاہوں۔
نمائندے: کس سے بدلہ لو گے؟
معاویہ : علی سے۔
نمائندے : کیا علی نے ان کو قتل کیاہے؟
معاویہ : ہاں علی نے قتل کیاہے اور ان کے قاتلوں کو پناہ دی ہے۔
پھر وہ نمائندے امام علی علیہ السلام کی خدمت میں آئے او ر کہا کہ معاویہ آپ پر عثمان کے قتل کا الزام لگارہا ہے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم وہ جھوٹا ہے میں نے ہرگز اسے قتل نہیں کیا ہے۔
نمائندے پھر معاویہ کے پاس گئے اور امام علیہ السلام کی باتیں اسے بتائیں ۔
معاویہ : براہ راست وہ قتل میں شریک نہ تھے لیکن تھا اور لوگوں کو ان کے قتل پر ابھارا ہے ۔
امام علیہ السلام نے،معاویہ کی باتیںجاننے کے بعددوبارہ خلیفہ کے قتل میںہرطرح کی مداخلت کرنے سے انکار کیا۔
معاویہ نے امام علیہ السلام کے انکار کو دیکھ کر دوسری بات کہی، کہ اگر ایسا ہے تو عثمان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کریں یا ہمیں اجازت دیں کہ ہم خود انہیں گرفتار کریں۔
امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ایک ایسا قتل ، جو عمداً نہیں تھالہذا اس کا قصاص نہیں ہے کیونکہ ان کے قاتلوں نے قرآن سے ان کے قتل کے جائز ہونے پر دلیلیں پیش کی ہیں اور اس کی تاویل کی ہے اور ان کے اور خلیفہ کے درمیان اختلاف ہوگیا اورخلیفہ تمام قدرت کے باوجود قتل ہوگیا(اور بالفرض کہ یہ عمل صحیح نہیں تھا توبھی ایسا قتل ، قابل قصاص نہیں ہے)۔
جس وقت امام کے نمائندوں نے حضرت کے فقہی استدلال کو ( جوباب قضاء کے اصول میں سے ہے ) معاویہ کے سامنے نقل کیا اور اس نے اپنے کو شکست خوردہ دیکھا تو پھر اپنی گفتگو کو دوسرے طریقے سے شروع کیا اور کہا کیوں علی نے خلافت کو بغیر ہمارے اور جو لوگ یہاں ہیں کے مشورے کے اپنے لئے انتخاب کیا اور ہمیں اس سے محروم کیا؟
امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: لوگ مہاجر وانصار کے پیرو ہیں اور وہ دوسرے شہروں میں رہنے والے مسلمانوں کے ترجمان ہیں، ان لوگوں نے اپنی مرضی و آزادی اور صدق دل سے میری بیعت کی ہے اور میں ہرگز معاویہ جیسے لوگوں کو اجازت نہیں دوںگا کہ وہ امت مسلمہ پر حکومت کرے اور لوگوں پر ہمیشہ مسلط رہے اور ان کی کمر توڑدے (١)
معاویہ : تمام مہاجر وانصار مدینہ میں نہ تھے بلکہ ان میں سے کچھ شام میں رہتے تھے کیوں ان سے مشورہ نہیں کیا گیا؟
امام : امام کا انتخاب تمام مہاجرین و انصار جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں سے مربوط نہیں ہے، ورنہ انتخاب ہوہی نہیں سکتا بلکہ ان میں سے کچھ ہی لوگوں پر منحصر ہے یعنی ان لوگوں پر جنہوں نے صدر اسلام میں اپنی بہادری کا ثبوت پیش کیاہے اور '' بدری (جنگ بدر) '' کے نام سے مشہور ہیں اور ان تمام لوگوں نے میرے ہاتھ پہ بیعت کی ہے پھر آپ نے تمام قاریوں کی طرف رخ کرکے کہا: معاویہ تم لوگوں کو دھوکہ نہ دے اور تمہارے دین وجان کو تباہ نہ کردے۔
وضاحت : پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد حکومت اسلامی کے پھیلنے کی وجہ سے مہاجرین وانصار مختلف اسلامی ملکوں میں سکونت پذیر ہوگئے تھے اور اس زمانے میں کوئی ایسا وسیلہ نہ تھا جس کے ذریعے سب کو جمع کیا جاتا اور سب سے رائے ومشورہ لیا جاتا ، جس کے نتیجے میں حکومت کے نظام میں خلل واقع ہونے کے علاوہ کچھ نہ ہوتا، اسی وجہ سے کوئی اور صورت نہ تھی مگر یہ کہ مہاجرین وانصار کی اکثریت جو مدینہ میں سکونت پزیر تھی ان
_______________________________
(١)اس سلسلے میں امام علیہ السلام کی بہت عمدہ تعبیر ہے'' انماالناس تبع المھاجرین والانصار وھم شھود المسلمین فی البلاد علیٰ ولایتھم وأمردینھم فرضوا بی و بایعونی ولست أستحِلّ أن ادع ضرب معاویة یحکم علیٰ الامة ویرکبھم ویشقّ عصاھم'' وقعہ صفین ص ١٨٩۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٤ ص ١٦۔
پر اکتفاء کیا جاتا، اصولی طور پر صحیح نہ تھا کہ صرف مہاجرین وانصار کی رائے نافذ ہو، اور اگر تمام لوگوں سے مشورہ لینا ممکن ہوتاتو ان میں اور پیغمبرۖ کے دوسرے صحابہ میں جنہوں نے پیغمبرۖ کو دیکھا تھا اور آپۖ پرایمان لائے تھے لیکن ہجرت نہیں کی تھی کوئی فرق نہیں تھا ، تو پھر کس بنیاد پر خلیفہ کا انتخاب صحابہ کے اختیار میں ہوا اور دوسرے مسلمان اس مسئلہ میں اپنا نظریہ پیش کرنے کا حق نہیں رکھتے؟
اصل میں مسئلہ امامت، امام علیہ السلام کی نظر میں ایک تنصیصی ( نصّی ) مسئلہ تھا یعنی ضروری ہے کہ امام بھی پیغمبرۖ کی طرح خدا کی طرف سے معین ہو لہٰذا اگر اس مسئلہ میں امام علیہ السلام مہاجرین و انصار یا '' اصحاب بدر '' کے انتخاب کرنے کے متعلق کوئی بات کررہے ہیں تو یہ لوگوں کو قانع کرنے کے لئے اپنی حجت تمام کررہے تھے، انتخاب کے ذریعے امامت کو اختیار کرنے کے مسئلے کا جب کبھی تجزیہ کیا جائے گا تو ہرگز اس زمانے کے تمام مہاجرین و انصار یا تمام صحابہ یا تمام مسلمان کی رائے کو مورد بحث قرار نہیں دیا جا سکتاکیونکہ اس زمانہ میں لوگوں کے ایک دوسرے سے رابطے کے ذرائع بہت کم تھے اور مہینوں گزر تے تھے جب قاصد ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں پہونچتا تھا، اسی وجہ سے کوئی اور صورت نہ تھی مگر یہ کہ اسلام کی بزرگ وعظیم شخصیتوں یا امام علیہ السلام کی تعبیر کے مطابق '' اصحاب بدر'' پر اکتفاء کیا جاتا۔

ابتدائی جھڑپیں
ربیع الثانی، جمادی الاول اورجمادی الثانی کے مہینے صرف نمائندے اور پیغامات بھیجنے میں گزر گئے اور اس درمیان بہت سی جھڑپیں ہوئیں ( جن کی تعداد ٨٥ لکھی گئی ہے ) لیکن یہ جھڑپیں جنگ وجدال کا سبب نہیں بنیں، کیونکہ عراق وشام کے قاری اس درمیان میں واسطہ بنے تھے اور لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا کررہے تھے (١)
______________________
(١)وقعہ صفین ص ١٩٠۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٤ ص ١٨۔١٧

ابو امامہ و ابو الدرداء :
یہ دونوں بزرگ صحابی جنگ وجدال کو روکنے کے لئے معاویہ کے پاس گئے اور اس سے کہا: کیوں علی سے جنگ کررہے ہو؟ معاویہ نے اپنے اسی پرانے جواب کو جو اس نے کئی مرتبہ امام علیہ السلام اور آپ
کے نمائندوں کو دیا تھا دہرایا اور دونوں صحابیوں نے امام کے پاس آکر اس کا جواب سنایا ، امام علیہ السلام نے اس مرتبہ معاویہ کا جواب دوسرے انداز سے دیا اور وہ یہ کہ اپنے سپاہیوں کے درمیان یہ بات نشر کردی کہ معاویہ خلیفہ کے قاتلوں کا طلبگارہے، اچانک ٢٠ ہزار آدمی اسلحے سے لیس ہو کر اور وہ بھی اس طرح کہ ان کی آنکھوں کے علاوہ ان کے بدن کا کوئی حصہ دکھائی نہیں دے رہا تھا باہر آئے اور سب نے یہ کہا کہ ہم خلیفہ کے قاتل ہیں (١)۔
جب ان دونوں بوڑھے صحابیوں نے یہ منظر دیکھا تو انہوں نے دونوں گروہوں کو چھوڑ دیا تاکہ جنگ کے عینی شاہد نہ بنیں جب کہ ان لوگوں کے لئے بہتر تھا کہ حق کی تلاش کرتے اور اس کی حمایت کرتے، رجب ٣٦ کا مہینہ آپہونچا اور چھٹ پٹ حملے رک گئے ، معاویہ کو اس بات کو خوف تھا کہ قاریان قرآن جو دونوں فوج کے درمیان پڑاؤ ڈالے تھے علی کے لشکر سے نہ مل جائیں ، لہٰذا امام علیہ السلام کی چھاؤنی کو درہم برہم کرنے کے لئے اس نے چال چلی ، جس کی مثال اسلام کی جنگوں کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔
_______________________________
(١)وقعہ صفین ص ١٩٠۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٤ ص ١٨۔١٧

معاویہ کی طرف سے بند توڑنے کی افواہ
فرات کے گھاٹ پر قبضہ کرنے کے بعد جنگ کا نقشہ امام کے لشکر کے حق میں ہو گیا اسی طرح عراق وشام کے قاریان قرآن جو امام کی خدمت میں تھے ،امام کی منطقی اور عقلی گفتگو سن کر ان میں سے اکثر شامی قاری بھی آپ کی فوج میں داخل ہوگئے اور ان میں سے کچھ نے کنارہ کشی اختیار کرلی ، معاویہ نے اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ امام کا اخلاق سب پر حاوی ہوجائے، ایک چال چلی تاکہ جنگ کواپنے فائدے میں بدل دے۔
امام علیہ السلام کی فوج کی چھاؤنی صفین کے ڈھلان پر تھی اورمعاویہ کی چھاؤنی بلندی پر تھی، میدان کے کنارے ایک بند تھا جس سے فرات کا پانی روکا گیا تھا اچانک امام کے لشکر میں ایک دوسرے سے یہ خبر پھیل گئی کہ معاویہ چاہتا ہے کہ فرات کے بند کو توڑ کرپانی عراقیوں کی کی طرف بہادے، اس خبر کو
پھیلانے کا طریقہ یہ تھا کہ معاویہ کے حکم سے خفیہ طور پر ایک تیر امام کے لشکر کی طرف پھینکاگیا جس میں ایک خط تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ ، یہ خط خدا کے ایک نیک بندے کی طرف سے ہے، میری عرض ہے کہ معاویہ چاہتاہے کہ فرات پر بنے ہوئے بند کو توڑ دے تاکہ تم لوگوں کو غرق کردے جتنی جلدی ممکن ہو کوئی فیصلہ کرو احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو۔
یہ خط امام علیہ السلام کے ایک فوجی کے ہاتھ میں پڑا اس سے دوسروں کے ہاتھ میں جاتارہا یہاں تک کہ پوری چھاؤنی میں یہ خبر پھیل گئی اور شاید سب نے اس خط کو صحیح مان لیا اور جس وقت یہ خبر پھیلی اسی وقت عراق کے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے دوسو آدمیوں کو پھاوڑا ، نیزہ وغیرہ دیکر فرات کے گھاٹ پر بھیجا تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ واقعاً وہ بند توڑنا چاہتاہے۔
امام علیہ السلام، معاویہ کے مکروحیلہ سے واقف تھے لہٰذا اپنی فوج کے سپہ سالاروں سے فرمایا: معاویہ بندتوڑنے کی طاقت نہیں رکھتا، وہ تم لوگوں کو اپنے اس مکر وحیلہ سے مرعوب کرنا چاہتا ہے تاکہ تم لوگ اپنا قبضہ چھوڑ دو اور وہ دوبارہ فرات کو اپنے قبضہ میں لے لے۔
سپہ سالاروں نے کہا: ایسا نہیں ہے بلکہ وہ واقعاً توڑناچاہتاہے اور اس وقت کچھ لوگ بند کو توڑنے میں مصروف ہیں تاکہ پانی کا رخ ہم لوگوں کی طرف کر دیں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:اے عراقیو ، میری مخالفت نہ کرو۔
سپہ سالاروں نے کہا: خدا کی قسم ہم یہاں سے کوچ کریں گے اگر آپ رکنا چاہتے ہیں تو رک جائیں اس وقت سب چھاؤنی چھوڑکر چلے گئے اور ایک بلند جگہ پر پناہ لی ، امام علیہ السلام آخری فرد تھے جنہوں نے مجبوراً چھاؤنی چھوڑی ، لیکن زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ امام علیہ السلام کی بات صحیح ثابت ہوئی معاویہ نے بجلی کی تیز رفتاری سے امام علیہ السلام کی چھاؤنی پر قبضہ کرلیااور عراقی سپاہیوں کو حیرت میں ڈال دیا۔(١)
_______________________________
(١)وقعہ صفین ص١٩١۔ ١٩٠
مخالفت کی تلافی
امام علیہ السلام نے اپنے مخالف سرداروں کو اپنے پاس بلایا اور ان لوگوں کی ملامت کی۔
اشعث بن قیس نے اپنی مخالفت کی عذر خواہی کی اور کہا کہ اس شکست کی تلافی کریں گے چنانچہ مالک اشتر کی مدد سے شدید جنگ کرکے معاویہ کی فوج کو قبضہ کی ہوئی سرزمین سے تین فرسخ دور کردیا اور اس طرح اپنی مخالفت کے ذریعے ہوئی شکست کی تلافی کردی اور میدان پھر امام علیہ السلام کے قبضے میں آگیا اور پھر فرات کے پانی پر امام علیہ السلام کے سپاہیوں کا قبضہ ہوگیا۔
مگر اس وقت امام علیہ السلام نے اپنی کرامت وشجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً ہی معاویہ کے پاس پیغام بھیجا : ''انا لانکافیک بصنعِک ، ھلُمّ الی الماء فنحن وأنتم فیہ
سوائ '' میں تمہارے جیسا کام ہرگز نہیں کرسکتا ، اس پانی کی طرف آؤ ہم اور تم اس آسمانی نعمت میں برابر ہیں ۔اس وقت اپنی فوج کی طر ف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ہمارا مقصد پانی پر قبضہ کرنے سے زیادہ بزرگ ہے ۔(١)
ماہ رجب ٣٦ ہجری سے ذی الحجہ تک جنگی جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا اور دونوں فوجوں نے لاشوں کو ایک دوسرے کے حوالے اس خوف سے نہیں کیا کہ کہیں ایسا نہ ہوا کہ فوج حملہ کر بیٹھے لیکن ذی الحجہ میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے، امام علیہ السلام نے اس مہینے اپنے سپہ سالاروں مثلاً مالک اشتر، حجر بن عدی ، شبث تمیمی ، خالد دوسی ، زیاد بن نضر ، زیاد بن جعفر، سعید ہمدانی ، معقل بن قیس اور قیس بن سعد کو ان کے دستوں کے ہمراہ میدان میں روانہ کیا (٢) تمام سپہ سالاروں کے درمیان مالک اشتر سب سے نمایاں نظر آرہے تھے کبھی کبھی دن میں دو حملے ہوتے اور دونوں طرف کے لوگ مارے جاتے ، جس وقت محرم ٣٧ ہجری کا چاند فلک پر نمودارہوا دونوں فوجوں نے کہا کہ محرم الحرام کے احترام میں جنگ بند ہونا چاہیے اور نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں طرف سے نمائندے گفتگو کے لئے آنے لگے۔(٣)
_______________________________
(١)وقعہ صفین ص ١٦٥
(٢)تاریخ طبری ج٣ جزئ٥ ص ٢٤٣۔ کامل ابن اثیر ج٣ ص١٤٦
(٣)وقعہ صفین ص ١٦٥
٣٧ ہجری کے حادثات
محرام الحرام ٣٧ ہجری کا مہینہ ، پیغام اور نمائندے بھیجنے کا مہینہ تھا۔
امام علیہ السلام نے اس مہینے میں اہم شخصیتوں مثلاً عدی بن حاتم ، شِبث بن ربعی، یزید بن
قیس اور زیاد بن حفصہ کو معاویہ کے پاس بھیجا تاکہ شاید اس مدت میں اسے دوبارہ جنگ کرنے کے ارادے سے روک سکیں ، معاویہ اور ان لوگوں کے درمیان ہوئی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے:
عَدی بن حاتم : ہم اس لئے آئے ہیں کہ تمہیں ایسی چیز کی دعوت دیں جس کے ذریعے سے خداوند عالم ہماری امت کو متحد کردے گا اور مسلمانوں کا خون بہنے سے بچ جائے گا اور ہم تجھے اسلام کے فاضل اور اچھے فرد کی طرف دعوت دیتے ہیں ، لوگ اس کے پاس جمع ہوئے اور خداوندعالم نے اس کی ہدایت وراہنمائی کی اور کسی نے بھی اس کی بیعت کرنے سے انکار نہیں کیا مگر صرف تم نے اور جولوگ تمہارے ساتھ ہیں، ہم لوگوں کی تم سے التجا ہے کہ اس نافرمانی اور طغیانی سے بازآجا، اس سے پہلے کہ جنگ جمل جیسے حالات میں مبتلا ہو۔
معاویہ : تم لوگ مجھے دھمکی دینے اور مرعوب کرنے آئے ہو نہ کہ میری اصلاح کرنے! جو تم چاہتے ہو وہ بہت دور ہے میںحرب کا بیٹا ہوں اور کبھی بھی خالی مشکوں کو پیٹنے سے نہیں ڈرتا ( عرب اونٹوں کو بھگانے کے لئے خالی مشکوں کو پیٹتے تھے) خدا کی قسم ! تو ان لوگوں میں سے ہے جس نے عثمان کے قتل کرنے پر لوگوں کو ابھارا تھا اور تو خود ان کے قاتلوں میں سے ہے ، افسوس اے عدی، میں نے اُسے مضبوط ہاتھوں سے پکڑاہے۔
شبث بن ربعی وزیاد بن حفصہ:ہم صلح کرنے کے لئے تمہارے پاس آئے ہیں اور تو(ادب کو بالائے طاق رکھ کر) ہم لوگوں کے لئے قصہ بیان کررہا ہے بیہودہ باتوں کو چھوڑ دے اور ایسی باتیں کر جو ہمارے اور تمہارے دونوں کے لئے مفیدہو ں۔
یزید بن قیس: ہم پیغام پہونچانے اور پیغام لے جانے کے لئے آئے ہیں اور ہرگز موعظہ ونصیحت اور دلیل اور ایسے مسائل جو اتحاد واتفاق کے لئے سرمایہ ہیں چھوڑ نہیں سکتے، تم ہمارے امام کو پہچانتے ہوا ور مسلمان بھی انہیں پہچانتے ہیں کہ وہ کتنے عظیم و برتر ہیںاور یہ بات ہرگز تم سے پوشیدہ نہیں ہے اور متقی وپرہیز گار اور بافضیلت لوگ تجھے علی کے برابر شمار نہیں کرتے ، خدا سے خوف کر اور علی کی مخالفت نہ کر، کہ خدا کی قسم کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو علی سے زیادہ متقی وپرہیز گارہو اور علی جیسا تمام فضیلتوں کا مظہر ہو۔
معاویہ : تم لوگوںنے مجھے دو چیزوں کی دعوت دی ہے ، علی کی اطاعت اور اتحاد ، میں دوسرے کو قبول کروں گا لیکن ہرگز میں علی کی اطاعت نہیں کرسکتا ،تمہارے رہبر وحاکم نے ہمارے خلیفہ کو قتل کیا اور امت کو دو گروہوں میں تقسیم کردیا اور خلیفہ کے قاتلوں کو پناہ دیا ہے، اگر ان کا کہنا ہے کہ میں نے خلیفہ کو قتل نہیں کیا ہے تو میں بھی ان کی اس بات کو رد نہیں کروں گا لیکن کیا وہ انکار کرسکتے ہیں کہ خلیفہ کے قاتل ان کے دوست نہیں ہیں؟ وہ ان لوگوں کو ہمارے حوالے کردیں تاکہ میں ان سے بدلہ لے سکوں اس وقت میں اطاعت اور وحدت کے بارے میں تمہارا جواب دوں گا۔(١)
______________________
(١)تاریخ طبری ج٣ جزئ٥ ص ٣۔٢۔ کامل ابن اثیر ج٣ ص١٤٧۔وقعہ صفین ص ١٩٦،١٩٨۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٤ ص٢٢۔٢١

معاویہ کے جواب کی وضاحت
معاویہ اپنے احتجاجات میں ایک نظریہ پر قائم نہیں تھا،حالات کو دیکھ کر باتیں کرتا تھا۔کبھی امام علیہ السلام پر قتل کا الزام رکھتااور کسی صورت میں بھی اس سے انکار نہیں کرتالیکن اس گفتگو میں حضرت کو خون عثمان سے بری رکھا مگر یہی مسلسل کہتا رہا کہ امام نے خلیفہ کے قاتلوں کو اپنے پاس رکھا ہے جب کہ وہ اس طرح کا دعویٰ کرنے کا حق نہیں رکھتا تھا کیونکہ نہ تو وہ خلیفہ کا وارث تھا اور نہ مسلمانوں کا حاکم ، قاتلوں کو بار بار اپنے اختیار میں لینے کا اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ امام علیہ السلام کی فوج کے درمیان اختلاف پیدا ہوجائے ، وہ جانتاتھا کہ عراق ومصر وحجاز کے انقلابی لوگ خلیفہ کے حاکموں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن چکے تھے اور عثمان کے قتل کے بعد بہت زیادہ اصرار کرکے امام کے ہاتھوں پر بیعت کی ۔ یہی لوگ خلیفہ کے قاتل ہیں ( چاہے ان لوگوں نے خودقتل کیا ہے یا کسی کے ذریعے قتل کرایا ہے یا تبلیغ اور اپنی مرضی کے اظہار اور خوشحالی کے لئے اس قتل میں شامل رہے ہیں)ایسے عظیم گروہ کاسپرد کرنا پہلے تو ممکن نہ تھا بلکہ صرف اور صرف نظام حکومت کو ختم کرنے یا شورش برپا کرنے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
معاویہ نے اس گفتگو میں خلیفہ کے قاتلوں کی سپردگی کو مرکزی حکومت کی پیروی کرنے کے لئے
کافی سمجھا ،جب کہ دوسری جگہوں پر اس نے بہت اصرار کیا کہ ضروری ہے کہ حکومت مہاجرین و انصار کی شوریٰ جس کے افراد مختلف شہروں میں رہتے ہیں ان کی رائے ومشورہ سے طے ہو ،اس طرح کی ضدونقیض باتیں کرنا معاویہ کے ابن الوقت ہونے کی نشاندہی ہے۔
اب ہم معاویہ اور علی علیہ السلام کے نمائندوں کے درمیان ہوئی گفتگو کے سلسلہ میں بیان کر رہے ہیں۔
شبث بن ربعی : اے معاویہ ، تجھے خدا کی قسم، اگر عمار یاسر کو تیرے حوالے کریں تو کیا تو انہیں قتل کردے گا؟ ( عمار جس کے بارے میں پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایاہے ، اسے ظالم گروہ قتل کرے گا)
معاویہ : خدا کی قسم، اگر علی سمیہ کے بیٹے کو میرے حوالے کریں تو میں عثمان کے غلام نائل کے بدلے انہیں قتل کردوںگا ۔
شبث بن ربعی :آسمان کے خالق کی قسم ، تو نے عدالت سے کام نہ لیا اس خدا کی قسم جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے تم ہرگز سمیہ کے بیٹے کو قتل نہیں کرسکتے مگر یہ کہ سروتن میں جدائی ہوجائے اور زمین اپنی پوری وسعت وکشادگی کے ساتھ تجھ پر تنگ ہوجائے۔
معاویہ : اگر زمین مجھ پر تنگ ہوگی تو مجھ سے زیادہ تجھ پر تنگ ہوگی۔
یہاں امام علیہ السلام کے نمائندوں کی گفتگو ختم ہوگئی اور بغیر کسی نتیجے کے یاابوسفیان کے بیٹے کی فکر وتدبر پر کوئی اثر ہوتا نمائندے واپس آگئے ، معاویہ نے ان لوگوں میں سے زیاد بن حفصہ کو بلایا اور اس سے دوسرے انداز سے گفتگو کرنا چاہی وہ سوچ رہا تھا کہ شاید اس کے نظریہ اور فکر کو تبدیل کردے گا کیونکہ ان میں سے ہر ایک امام علیہ السلام کے چاہنے والوں میں سے بہت سے لوگوں کا نمایندہ تھا معاویہ نے اس سے کہا: علی نے قطع رحم کیاہے اور ہمارے امام کو قتل کرڈالا اور اس کے قاتلوں کو پناہ دیا ہے میں تجھ سے درخواست کرتاہوں کہ اپنے عزیزوں اور قبیلے والوں کے ساتھ میری مدد کرو اور میںتم سے عہد کرتاہوں کہ جنگ فتح کرنے کے بعد ان دو شہروں (کوفہ اور بصرہ) میں سے جس شہر کی حکومت چاہے گا تجھے دے دوں گا۔
زیاد بن حفصہ نے کہا: میں اس دلیل کی بنیاد پر جو خدا کی طرف سے میرے پاس ہے اور وہ نعمتیں جو مجھے نصیب ہوئی ہیں میں کبھی مجرموں کا محافظ ومددگار نہیں بن سکتا،یہ جملہ جو کہ موسیٰ بن عمران(١) کی گفتگو کا سرچشمہ ہے کہا اور معاویہ کو چھوڑ کر (امام کی خدمت میں) واپس آگیا۔
اس بزم میں عمرو عاص بھی موجود تھا معاویہ نے اس بوڑھے سیاسی سے کہا ہم نے ان میں سے جس سے بھی گفتگو کی سب نے بہترین جواب دیا سب کا دل مثل ایک آدمی کے ہے اور سب کی منطق ایک طرح کی ہے۔(٢)
______________________
(١)زیاد کے کلام کی عبارت یہ ہے '' اما بعد فانی علیٰ بیّنةٍ مِن رّبّی وبما أنعم علیَّ فلن اکون ظھیراً للمجرمین''۔
(٢)تاریخ طبری ج٣ جزئ٥ ص ٣۔ کامل ابن اثیر ج٣ ص١٤٨۔وقعہ صفین ص ١٩٩۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٤ ص٢٢۔

معاویہ کے نمائندے امام علیہ السلام کی خدمت میں
امام علیہ السلام کا بزرگ شخصیتوں کے بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ معاویہ اپنے ارادے کو بدل دے اور یہ مشکل گفتگو کے ذریعہ حل ہو جائے جب کہ معاویہ کا مقصد یہ تھا کہ جنگ میں تاخیر اور امام کے لشکر میں اختلاف اور انتشار ہوجائے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ علی (علیہ السلام) ہرگز اس جیسے لوگوںکے سامنے اپنے ارادے میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے۔
اس مرتبہ معاویہ نے تین آدمیوں '' حبیب، شرحبیل اور معن کو امام کے پاس بھیجا اور ان تینوں کی منطق وہی معاویہ کی منطق تھی ، گویا یہ لوگ معاویہ کی زبان تھے جو اس کی باتوں کو بغیر کسی کمی وزیادتی کے بیان کررہے تھے امام علیہ السلام اور ان تینوں کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ درج ذیل ہے۔
حبیب: عثمان ہدایت یافتہ خلیفہ تھااور آپ نے اس پر زیادتی کی اور اسے قتل کردیا اب اس وقت اس کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کردیجیئے تاکہ ہم انہیں قتل کردیں اور اگر آپ کا کہنا یہ ہے کہ میں نے اسے قتل نہیں کیا ہے تو حکومت چھوڑدیجیئے اور اسے شوریٰ کے حوالے کردیجیئے تاکہ لوگ جس کو چاہیں منتخب کریں اور وہ حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لے۔
حبیب کی گفتگو بے اساس تھی ، سب سے پہلے بغیر کسی گواہ کے امام علیہ السلام پر قتل کا الزام لگایا اور اپنے کو خلیفہ کے حق کا دفاع کرنے والا ثابت کیا، اور پھر امام علیہ السلام کے انکار کو قبول کررہا ہے اور ان
سے چاہتا ہے کہ وہ حکومت کی ذمہ داری چھوڑ دیں ! یعنی اس پوری گفتگو کا مقصد اس کا آخری جملہ تھا لہٰذا مام علیہ السلام نے سخت انداز میں اس کو جواب دیا: '' وما أنت لااُمّ لَکَ والولایة والعزل والدخول فی ھذا الأمر فانّک لستَ ھناک ولاٰ بأھل لذالک''تو حکومت سے دستبرداری کا مطالبہ کرنے والا کون ہوتا ہے ،جب کہ اس معاملہ میں دخل دینے کا تو اہل نہیں ہے۔
حبیب: خدا کی قسم ! جن حالات میں اپنے آپ کو دیکھا پسند نہیں کرتے ان میں اپنے کو ضرور دیکھیں گے۔
امام علیہ السلام : تیری کیا حقیقت ہے ! جا جتنے بھی سوار اور پیادہ ہیں لا، تو کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔
شرحبیل: میں بھی وہی بات کہنا چاہتا ہوں جو حبیب نے کہا ہے، کیا وہ جواب جو آپ نے اس کو دیا اس کے علاوہ کوئی جواب ہے جو مجھے دیں گے؟
امام علیہ السلام : کیوں نہیں، تمہارے لئے اور تمہارے دوست کے لئے دوسرا جواب بھی میرے پاس ہے، خداوند عالم نے پیغمبر کو چنا اور ان کے ذریعے سے لوگوں کو گمراہی سے نجات دی اور پھر انہیں اپنی بارگاہ میں بلالیا جب کہ آپ نے اپنی رسالت کو انجام دیا پھر لوگوں نے ابوبکر کو ان کی جانشینی کے لئے منتخب کیا اور ابوبکر نے بھی عمر کو اپنا جانشین بنایا۔۔ پھر عثمان نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اور لوگ ان کاموں کی وجہ سے جو انہوں نے انجام دیئے تھے ان سے ناراض ہوئے اور اس کی طرف حملہ آور ہوئے اور انہیں قتل کرڈالا، پھر میرے پاس آئے جب کہ میں ان لوگوں کے کاموں سے دور تھا،ان لوگوں نے بہت زیادہ اصرار کیا کہ میرے ہاتھوں پر بیعت کریں ، میں نے شروع میں قبول نہیں کیا لیکن ان لوگوں نے حد سے زیادہ اصرار کیا اور کہا امت آپ کے علاوہ کسی پرراضی نہیں ہے اور ہمیں خوف ہے کہ اگر آپ کے ہاتھوں پر بیعت نہ کریں تو دوگروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے، تب میں نے ان لوگوں کی بیعت قبول کرلی ، طلحہ وزبیر نے بھی میرے ہاتھوں پر بیعت کی لیکن بعد میں بیعت توڑ دی، پھر معاویہ میری مخالفت میں اٹھا ، وہ ایسا شخص ہے جسے نہ دین میں کوئی سبقت ہے اور نہ صحیح اسلام ہی میں کوئی درجہ حاصل ہے وہ آزاد کردہ اور آزاد کردا کا بیٹا ہے وہ بنی امیہ کے گروہ سے ہے وہ اور اس کے باپ ہمیشہ خدا ورسول کے دشمن رہے ہیں اور مجبوراً اسلام قبول کیاہے مجھے تم پر تعجب ہے کہ تم اس کے لئے فوج اکھٹا کررہے ہو اور اس کی پیروی کررہے ہو اور پیغمبرۖ کے خاندان کو چھوڑدیا ہے اور اہل بیت رسول کے ہوتے ہوئے تم نے دوسروں کی محبت اپنے دل میں بسالی ہے ۔ میں تمہیں خدا کی کتاب اور رسول خدا (ص) کی سنت اور باطل مردہ اور دین کی تمام نشانیوں کو زندہ کرنے کی دعوت دیتاہوں ، اور اپنے اور تمام مومن مرد، عورت کے لئے طلب مغفرت کرتا ہوں(١)۔
اگر شرحبیل (تمیم کا زاہد نما) خواہشات نفسانی کا اسیر نہ ہوتا اور اسلام کی تاریخ سے کچھ آگاہی رکھتا تو ضرور امام علیہ السلام کی باتوں کو قبول کرتالیکن چونکہ امام علیہ السلام کی عقلی باتوں کے سامنے اس نے اپنے کو عاجز وناتواں سمجھا اور غلط فکر رکھنے والوں کی طرح امام کے قول کو دوسرے طریقے سے سوچا لہذا کہنے لگا: عثمان کے قتل کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیا آپ گواہی دیں گے کہ وہ مظلوم مارا گیاہے ؟ اس طرح کا سوال ایک پیغام لانے والے کی زمہ داری سے خارج تھا اور جلسہ کو درہم برہم کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا ہدف نہ تھا، اس واقعے کے فیصلہ کے لئے عثمان کے قتل کی علتوں کی تحقیق وجستجو کی ضرورت ہے لہٰذا امام علیہ السلام نے اس کی تصدیق نہیں کی اور وہ لوگ بھی اسی بہانہ سے امام کے پاس سے چلے گئے اور کہا: جو بھی عثمان کی مظلومیت کی گواہی نہیں دے گا ہم لوگ اس سے بیزار ہیں ۔
امام علیہ السلام نے ان لوگوں کو اس آیت کا مصداق قرار دیا۔
انک لاتُسمعُ الموتیٰ ولا تُسمِعُ الصُّمَّ الدّعاء اذا ولّوا مُدْ بِرین وماأنت بِھادی العُمیِ عن ضَلالتھم اِن تُسمعُ الامَنْ یؤمنُ بأیاتنٰافھُم مسلمون(نمل ٨١،٨٠)
'' بے شک نہ تم مردوں کو ( اپنی بات) سنا سکتے ہو اور نہ بہروں کو اپنی آواز سنا سکتے ہو
( خاص کر) جب وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوں اور نہ تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے راہ پر لاسکتے ہو تم تو بس ان ہی لوگوں کو ( اپنی بات) سنا سکتے ہو جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں پھر وہی لوگ تو ماننے والے بھی ہیں ''۔
_______________________________
(١)تاریخ طبری ج٣ جزئ٦ ص ٤۔ کامل ابن اثیر ج٣ ص١٤٨١٤٩۔وقعہ صفین ص ٢٠٢،٢٠٠۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٤ ص٢٤،٢٢