پندرہویں فصل
حضرت علی علیہ السلام کی میدان صفین کی طرف روانگی
کوفہ کی فوجی چھاؤنی مجاہدوں سے چھلک رہی تھی اور سب ہی اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھے ہوئے امام علیہ السلام کے ہمراہ چلنے کے لئے آپ کے حکم کے منتظر تھے۔ بالآخر امام علیہ السلام ٥ شوال ٣٦ ہجری بروز بدھ، چھاؤنی میں تشریف لائے اور سپاہیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
'' اس خدا کی حمد وثنا جب بھی رات آتی ہے تو پورے جہان میں تاریکی چھا جاتی ہے، اس خدا کی حمدوثناجس وقت ستارہ نکلے یا پوشیدہ ہوجائے اس خدا کی حمدوثناء کہ جس کی نعمتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں اور اس کی عطا کے مقابلے میں کوئی اجر وثواب اس کے برابر نہیں ہے۔
ہاں اے لوگو، ہم نے اپنی فوج کے کچھ لوگوں کو پہلے روانہ کردیا ہے (١) اور انہیں حکم دیا ہے کہ فرات کے کنارے اپنا پڑاؤ ڈالیں اور میرے حکم کے منتظر رہیں ، اب وہ وقت آپہونچا ہے کہ ہم دریا کو پار کریں اور ان مسلمانوں کی طرف روانہ ہوں جو دجلہ کے اطراف میں زندگی بسر کررہے ہیں اور ان لوگوں کو تم لوگوں کے ساتھ دشمن کی طرف روانہ کریں تاکہ تمہارے مدد گار رہیں ۔'' (٢)
''عقبہ بن خالد ''(٣) کو کوفہ کا حاکم بنایا ہے خود کو اور تم کو میں نے رہا نہیں کیا ہے ( یعنی اپنے
اور تمہارے درمیان میں نے کوئی فرق نہیں رکھا ہے )ایسا نہ ہو کہ کوئی جانے سے رہ جائے ، میں نے مالک بن حبیب یربوعی کو حکم دیا ہے کہ مخالفت کرنے والوں اور پیچھے رہ جانے والوں کو رہا نہ کرے مگر یہ کہ تمام لوگوں کو تمہارے ہمراہ کردے ۔(٤)
اس وقت معقل بن قیس ریاحی ، جو کہ بہت ہی بہترین اور غیور شخص تھا اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا:
_______________________________
(١) امام علیہ السلام نے ١٢ ہزار سپاہیوں کو زیاد بن نضر وشریح کی سپہ سالاری میں پہلے ہی روانہ کردیا تھا۔
(٢)نہج البلاغہ خطبہ٤٨، وقعہ صفین ص ١٣١ ( تھوڑے فرق کے ساتھ) امام علیہ السلام نے اس خطبہ کو کوفہ کی فوجی چھاؤنی ، کوفہ شہر کے باہر ٢٥ ،شوال ٣٧ ہجری کو بیان کیا تھا ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص ٢٠١۔
(٣)عقبہ بن عامر ، مروج الذھب ج٢ ص ٣٨٤
(٤)وقعہ صفین ص ١٣٢
خدا کی قسم ! کوئی بھی خلاف ورزی نہیں کرے گا مگر جو شک کی حالت میں ہو اور کوئی بھی مکر نہیںکرے گا مگر منافق، بہتر ہوتا آپ مالک بن حبیب یر بوعی کو حکم دیتے کہ مخالفت کرنے والے کو قتل کرڈالے۔
امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں کہا: جو ضروری حکم تھا وہ میں نے اسے دیدیا ہے اور وہ انشاء اللہ میرے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرے گا، اس وقت دوسرے لوگوں نے بھی چاہا کہ گفتگو کریں لیکن امام علیہ السلام نے اجازت نہیں دی اور اپنا گھوڑا طلب کیا اور جب آپ نے اپنا قدم رکاب پر رکھا تو اس وقت کہا '' بسم اللہ '' اور جب زین پر بیٹھے تو کہا ''سبحان الذی سخّر لنا ھذا وما کنّا لہ مقرنین وَ انا اِلیٰ ربّنا لمنقلبون '' (١) وہ خدا (ہر عیب سے ) پاک ہے جس نے اس (سواری )کو ہمارا تابعدار بنایا حالانکہ ہم تو ایسے (طاقتور) نہ تھے کہ اس پر قابو پاتے ، اور ہم کو تو یقینااپنے پروردگا رکی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ پھرآپ نے فرمایا:
اے خدا ،میں سفرکی پریشانیوں اور زحمتوں اور واپسی کے غم واندوہ کے ساتھ چلنے اور اہل وعیال ومال پر بری نظر رکھنے والوں سے تیری پناہ مانگتاہوں ،خدایا! تو سفر میں ہمارے ہمراہ اور اہل وعیال کے لئے نگہبان ہے اور یہ دونوں چیزیں تیرے علاوہ کسی کے اندر جمع نہیں ہوسکتیں ، کیونکہ جو شخص جانشین ہوگا وہ ساتھ میں نہیں ہوسکتا اور جو شخص ساتھ میں ہوگا وہ جانشین نہیں ہوسکتا۔
پھر آپ نے اپنی سواری کو بڑھایا جب کہ حر بن سہم ربعی آپ کے آگے آگے چل رہا تھا اور رجز پڑھ رہا تھا اس وقت کوفہ میں رہنے والوںکے سردار مالک بن حبیب نے امام علیہ السلام کے گھوڑے کی لگام پکڑی اور بہت ہی غمگین انداز سے کہا: اے میرے آقا! کیا یہ مناسب ہے کہ آپ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے جائیں اور ان لوگوں کو جہاد کے ثواب سے مالا مال کریں اور مجھے مخالفوں کو جمع کرنے کے لئے چھوڑ جائیں ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ لوگ جتنا بھی ثواب حاصل کریں گے تم ان کے ساتھ ثواب میں شریک ہوگے اور تمہارا یہاں رہنا ہمارے ساتھ رہنے سے زیادہ ضروری ہے ابن حبیب نے کہا:
_______________________________
(١)سورہ زخرف، آیت ١٣
''سمعاًو طاعة یا امیر المومنین'' (١)(آپ کا جیسا حکم ہو میں تہ دل سے قبول کروں گا)
امام علیہ السلام اپنے سپاہیوں کے ہمراہ کوفہ سے روانہ ہوئے اور جب کوفہ کے پل سے گزرے تو لوگوں کو مخاطب کرکے کہا: اے لوگو تم میں سے جو لوگ رخصت کرنے آئے ہیں یا ان کا قیام یہیں پر ہے وہ یہاں پر پوری نماز پڑھیں گے، لیکن ہم لوگ مسافر ہیں اور جوبھی ہمارے ساتھ سفر پر ہے وہ واجب روزہ نہ رکھے اور اس کی نماز قصر ہے پھر آپ نے ظہر دورکعت پڑھی اور پھر اپنے سفر کو جاری رکھا اور جب آپ ابو موسیٰ کے گھر کے پاس پہونچے جو کوفہ سے دوفرسخ کی دوری پرواقع ہے تو وہاں آپ نے دو رکعت نماز عصر پڑھی اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا:
کتنی بابرکت ہے خدا کی ذات جو صاحب نعمت وبخشش ہے کتنا پاکیزہ ومنزہ ہے خدا جو صاحب قدرت وکرم ہے خدا سے میری یہی دعا ہے کہ مجھے اپنی قضاء قدر پر راضی ، اپنی اطاعت و فرمانبرداری
پر کامیاب ، اپنے حکم پر متوجہ کرے کہ وہ دعاؤں کا سننے والا ہے۔ (٢)
پھر آپ اپنے سفر پر روانہ ہوئے اور '' ثرس '' نامی جگہ پر جوفرات سے نکلی ایک بڑی نہر کے کنارے واقع ہے اور یہ جو فرات سے نکلتی ہے اترے اور نماز مغرب ادا کی اس کے بعد خداکی اس طرح سے تعریف کی:
تمام تعریفیں اس خدا سے مخصوص ہیں جو رات کو دن میں اور دن کو رات میں تبدیل کرتاہے اس خدا کا شکر کہ جس وقت رات کی تاریکی پھیل جاتی ہے، تعریف اس خدا کی جب کہ ستارے نکل آتے ہیں یا ڈوب جاتے ہیں (٣)
آپ نے شب وہیں بسر کی اور نماز صبح پڑھنے کے بعد وہاں سے روانہ ہوئے جس وقت آپ '' قبہ قبین '' نامی جگہ پر پہونچے تو آپ کی نگاہیں لمبے لمبے کھجور کے درختوں پر پڑیں جو نہر کے کنارے لگے تھے اس وقت آپ نے قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی '' والنخل باسقات لّھا طلع نضید ''(٤)
_______________________________
(١)وقعہ صفین ص ١٣٤۔١٣٢
(٢)،(٣)وقعہ صفین ص ١٣٤۔١٣٢
(٤)سورہ ق آیت ١٠
اور لمبی لمبی کھجوریں جس کا بور باہم گُھتا ہوا ہے '' اپنے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے ہی آپ نے نہر کو پار کیااور یہودیوں کی عبادت گاہ کے پاس آپ نے آرام فرمایا(١)۔
سرزمین کربلا سے عبور
امام علیہ السلام جب کوفہ سے صفین کے لئے روانہ ہوئے تو سرزمین کربلاسے بھی گزرے ہرثمہ بن سلیم کہتا ہے:
امام علیہ السلام کربلا کی سرزمین پر اترے اور وہاں ہمارے ساتھ نماز پڑھی، جس وقت آپ نے نمازتمام کی اس وقت تھوڑی سی مٹی اٹھائی اور اسے سونگھا اور کہا ( اے خاک کربلا کتنی خوش نصیب ہے کہ تیرے ساتھ کچھ لوگ محشور ہوں گے اور بغیر حساب وکتاب جنت میں داخل ہوں گے)، پھر آپ نے اپنے ہاتھوں سے کچھ مقامات کی طرف اشارہ کیا اور کہا یہاں اور وہاں ، سعید بن وہب کہتے ہیں : میں نے امام علیہ السلام سے آپ کی اس سے کیا مرادہے ؟ آپ نے فرمایا: ایک عظیم خاندان اس سرزمین پر وارد ہوگا ،تم ہی میں سے ان لوگوں پر لعنت ہو ، ان لوگوں میں سے تم لوگوں پر لعنت ہو، میں نے کہا : آپ کے کہنے کا کیا مقصد ہے ؟ امام نے کہا تم لوگوں میں سے ان لوگوں پر لعنت جو ان لوگوں کوقتل کریں ، لعنت ہو تم لوگوں میں سے ان پر کہ ان کو قتل کرنے کی وجہ سے جہنم میں ڈالے جائیں گے۔(٢)
حسن بن کثیر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام کربلا کی سرزمین پر کھڑے ہوئے اور کہا: '' ذات کربٍ و بلائٍ '' ( یہ غم اور بلا کی زمین ہے ) اس وقت آپ نے اپنے ہاتھوں سے ایک خاص جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، یہ ان لوگوں کے قیام کی جگہ اور ان کی سواریوں کے ٹھہرنے کی جگہ ہے پھر ایک اور مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس جگہ پر وہ لوگ قتل کئے جائیں گے۔ پہلا راوی ،ہرثمہ کہتاہے کہ جنگ صفین کا معرکہ ختم ہوا اور میں اپنے گھر واپس آگیا اور اپنی بیوی سے جو کہ امام کی چاہنے والی تھی ان تمام باتوں کا ذکر کیا جو امام نے کربلا کی سرزمین پر بیان کیا تھا اور میں نے اس سے یہ بھی کہا کہ کس طرح سے امام غیب کی باتوں کو جانتے ہیں ؟ میری بیوی نے کہا مجھے چھوڑدو، کیونکہ امام، حق کے
_______________________________
(١) وقعہ صفین ص ١٣٥
(٢)وقعہ صفین ص ١٤٢۔١٤٠، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص ١٧٠۔١٦٩
علاوہ کچھ نہیں کہتے، وقت گذرتا گیاعبیداللہ بن زیاد ایک عظیم لشکر لے کر حسین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے روانہ ہوا اور میں بھی اسی لشکر میں تھا جس وقت ہم کربلا کی سرزمین پر پہونچے اس وقت ہمیں امام کی باتیں یاد آئیں اس بات سے میں بہت زیادہ غمگین ہوا میں فوراً تیزی کے ساتھ حسین ( علیہ السلام) کے خیمے کی طرف بڑھا اور ان کی خدمت میں پہونچ کر پورا واقعہ بیان کیا ، حسین (علیہ السلام) نے فرمایا: اچھا تم یہ بتاؤ کہ میرے ساتھ ہو یا میرے مخالف ہو؟ میں نے کہا کسی کے ساتھ نہیں ہوں ، میں نے اپنے اہل وعیال کو کوفہ چھوڑدیا ہے اور ابن زیاد سے ڈرتاہوں۔ آپ نے فرمایا: جتنی جلدی ہو اس سرزمین کو چھوڑ کرچلے جاؤ ، اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں محمد(ص) کی جان ہے جو شخص بھی آواز استغاثہ سنے گا اور میری مدد کو نہیں پہونچے گا خداوند عالم اسے جہنم کی آگ میں ڈال دے گا اس وجہ سے میں فوراً کربلا کی سرزمین سے روانہ ہوگیا تاکہ ان کی شہادت کا دن نہ دیکھ سکوں ۔(١)
امام علیہ السلام ساباط اور مدائن میں
امام علیہ السلام کربلا کے قیام کے بعد ساباط کے لئے روانہ ہوئے اورشہر بہر سیر پہونچے وہاں کسریٰ کے کچھ آثار باقی نہ تھے اس وقت آپ کے چاہنے والوں میں سے ،حربن سہم (٢) نے ابویعفر کایہ شعرتمثل کے طور پر پڑھا:
جَرَتْ ِ الریاحُ علیٰ مکان ِ دیارِھم فکانّما کانوا اعلیٰ میعادٍ
خزاں کی ہوائیں اس زمین پر چلیں جیسے وہ اپنے وعدہ کی جگہ پہونچ گئے ہیں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا : تم نے کیوں اس آیت کی تلاوت نہیں کی؟
'' کم ترکوا من جنات وعیونo وزروع ومقام کریمo ونعمة کانوا فیھا فاکھین o کذالک واورثنا ھا قوماً آخرین o فما بکت علیھم السماء والارض وما کانوا منظرینo ( دخان آیت ٢٥۔٢٩)'' وہ لوگ ( خدا جانے) کتنے باغ اور چشمے اور کھیتیاں اور نفیس مکانات
_______________________________
(١)وقعہ صفین ص ١٤١۔١٤٠، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص ١٦٩
(٢)بعض جگہوں پر '' حریز'' لکھاہے ، حاشیہ وقعہ صفین ص ١٤٢
اور آرام کی چیزیں جس میں وہ عیش وچین کیا کرتے تھے چھوڑگئے یوں ہی ہوا، اور ان تمام چیزوں کا دوسرے لوگوں کو مالک بنادیا تو ان لوگوں پر آسمان وزمین کو بھی رونا نہ آیا اور نہ انہیں مہلت ہی دی گئی ''
اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا : دوسرے لوگ بھی ان کے وارث تھے لیکن وہ لوگ ختم ہوگئے اور پھر دوسرے لوگ اس کے وارث ہوگئے یہ گروہ بھی اگر اس نعمت پر خدا کا شکر بجانہ لائے تو یہ نعمت الٰہی ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان سے سلب ہوجائے گی لہٰذا کفران نعمت سے بچو تاکہ بدبختی میں گرفتار نہ ہو پھر آپ نے حکم دیا کہ تمام سپاہی اس بلندی سے نیچے اتریں ، جس جگہ امام علیہ السلام نے قیام کیا تھا وہ مدائن سے بہت قریب تھی، امام علیہ السلام نے حکم دیا کہ '' حارث اعور''شہر میں یہ اعلان کرے کہ جو شخص بھی جنگ کرنے کی صلاحیت وقدرت رکھتا ہے وہ نماز عصر تک امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں پہونچ جائے، نماز عصر کا وقت ہوا اور طاقتور افراد امام کی خدمت میں حاضر ہوئے امام نے خدا کا شکر ادا کیا اور فرمایا:
'' میں جہاد میں شرکت سے مخالفت کرنے اور اپنے علاقے کے لوگوں سے جدا ہونے اور ظالم وجابر لوگوں کی زمین پر زندگی بسر کرنے پر بہت حیرت میں ہوں نہ تم لوگ اچھے کام کا حکم دیتے ہو اور نہ لوگوں کو برائیوں سے روکتے ہو''(١)
مدائن کے کسانوں نے کہا: ہم لوگ آپ کے حکم کے مطابق عمل کریں گے جو مناسب ہو آپ حکم دیں، امام علیہ السلام نے عدی بن حاتم کو حکم دیا کہ وہاں قیام کرے اور ان لوگوں کو لے کر صفین کی طرف روانہ ہو ، عدی نے وہاں تین دن قیام کیا پھر مدائن کے تین سو لوگوں کے ساتھ صفین کی طرف روانہ ہوا ور اپنے بیٹے یزید کو حکم دیا کہ تم یہاں ٹھہر جاؤ اور دوسرے گروہ کے ساتھ امام کے لشکر میں شامل ہونا، وہ چارسو آدمیوں کے ساتھ امام کے لشکر میں شامل ہوگیا(٢)۔
انبار کے کسانوں نے امام علیہ السلام کا استقبال کیا
امام علیہ السلام مدائن سے '' انبار'' کی طرف روانہ ہوئے، انبار کے لوگوں کو امام علیہ السلام کے سفر اور اس راستے سے گزرنے کے بارے میں معلوم ہوا لہٰذایہ لوگ امام کے استقبال کے لئے بڑھے،
______________________
(١)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٣ص٢٠٣۔٢٠٢،وقعہ صفین ص١٤٢
(٢)وقعہ صفین ص١٤٢۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٣ ص٢٠٣
ا مام علیہ السلام اور ان لوگوں کے درمیان بہت سی باتیں ہوئیں۔ جب یہ لوگ امام کے سامنے پہونچے تو اپنے اپنے گھوڑوں سے اتر ے اور آپ کے سامنے اچھلنے کودنے لگے ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا : یہ کیا کر رہے ہو اور ان جانوروں کو کیوں لائے ہو؟ ان لوگوں نے جواب دیا: ( ایرانی بادشاہوں کے زمانے سے)حکمرانوں کی تعظیم وتکریم کے اظہار کا طریقہ ہمارے ہاں یہی ہے اور یہ جانور ہم لوگوں کی طرف سے آپ کے لئے ہدیہ ہیں ہم لوگوں نے آپ اور آپ کے سپاہیوں کے لئے کھانا اور سواریوں اور جانوروں کے لئے چارے کابھی انتظام کیاہے ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: اپنے بزرگوں کی تعظیم کے لیے جو عمل انجام دیتے ہو خدا کی قسم! اس سے ان لوگوں کو فائدہ نہیں پہونچتااس سے اپنے کو زحمت ومشقت میں ڈالتے ہو ، دوبارہ یہ کام انجام نہ دینا جو جانور تم لوگ اپنے ساتھ لائے ہو اگر تم لوگ راضی ہو تو اس شرط پر قبول کروں گاکہ اس کی قیمت خراج میں محسوب ہواور جو کھانے پینے کی چیزیں ہمارے لئے لائے ہواسے ایک شرط پر قبول کروں گا کہ اس کی قیمت ادا کروں ۔
انبار کے لوگوں نے کہا: آپ قبول کرلیں ہم اس کی قیمت معلوم کریںگے پھر آپ سے لے لیں گے ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: ایسی صورت میں تم لوگ اصل قیمت سے کم لوگے۔
انبار کے لوگوں نے کہا: اے میرے امام ، عربوں کے درمیان ہمارے دوست واحباب ہیں کیا آپ ہم لوگوں کو ان کو ہدیہ وتحفہ دینے اور ان لوگوں سے ہدیہ وتحفہ قبول کرنے سے منع کررہے ہیں ؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: تمام عرب تم لوگوں کے دوست ہیں لیکن ہر آدمی شائستہ نہیں ہے کہ تمہارے قیمتی وسنگین تحفے کو قبول کرے اور اگر کوئی تم لوگوں سے دشمنی کرے تو مجھے اس سے آگاہ کرو۔
انبار کے لوگوں نے کہا: اے میرے آقا! ہمارے ہدیہ کو قبول فرمائیے ہم لوگوں کی خواہش وآرزو ہے کہ ہمارے ہدیہ کو قبول کرلیجیئے۔
امام علیہ نے فرمایا : تم پر افسو س ہے ہم تم سے زیادہ بے نیاز ہیں ، اتنا کہنے کے بعد امام علیہ السلام اپنے سفر پر روانہ ہوگئے اور ان لوگوں کو عدالت الٰہیہ کا درس دیا جو بہت زیادہ عرصہ سے عجم کے بادشاہوں کے ظلم وستم کا شکا ر تھے اور اس کے حاکموں کے ظلم وستم کو برداشت کررہے تھے(١)
امام علیہ السلام جب سفر کرتے کرتے ''الجزائر ''پہونچے تو '' تغلِب اور نمر'' کے قبیلے والوں نے امام علیہ السلام کا شاندار استقبال کیا۔
امام علیہ السلام نے اپنے تمام سپہ سالاروں میں سے صرف '' یزید قیس '' کو اجازت دیا کہ ان لوگوں کی لائی ہوئی غذا کو کھائے، کیونکہ وہ اسی قبیلے کا رہنے والا تھا۔
پھر امام علیہ السلام کا قافلہ '' رقّہ'' پہونچا اور فرات کے کنارے قیام کیا وہاں ایک راہب گوپھا گھر میں رہتا تھا جب اسے امام علیہ السلام کے آمد کی خبر ملی تو وہ آپ کی خدمت میں آیا اور کہا:مجھے اپنے آباؤ اجداد سے ایک صحیفہ وراثت میں ملا ہے جسے جناب عیسیٰ کے اصحاب نے لکھا ہے اور میں اسے اپنے ساتھ لایا ہوں تاکہ آپ کے سامنے اُسے پڑھوں ، پھر اس نے اس صحیفے کو پڑھا ( جس کی عبارت یہ تھی)
'' شروع کرتا ہوں خدا کے نام سے جو رحمٰن ورحیم ہے، وہ خدا جس نے گذشتہ زمانے کے تمام حالات کو معین کررکھا ہے اور لکھا ہے کہ ہم نے امیوں میں سے ایک کو اپنی پیغمبری کے لئے چنا ہے جو ان لوگوں کو قرآن و حکمت کی تعلیم دیتاہے اور سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتاہے اور لوگوں کے درمیان صدائے توحید بلند کرتاہے اور برے کو برائی سے سزا نہیں دیتا بلکہ معاف کردیتا ہے اس کے ماننے والے خدا کے مخلص اور فرماں بردار بندے ہیں جو عظیم منصبوں پر فائز ہونے اور زندگی کے نشیب وفراز پر بھی خدا کا شکر ادا کرتے ہیں ، ہر وقت ان کی زبانوں پر تسبیح وتہلیل کی آواز رہتی ہے ، خدا اسے دشمنوں پر کامیابی عطا کرتاہے جس وقت خدا اسے (پیغمبر)اپنے پاس بلالے گا تو ان کی امت دوگرہوں میں تقسیم ہوجائے گی لیکن دو بارہ پھر متحد ہوجائے گی اور کچھ دنوں تک اسی حالت پر باقی رہے گی لیکن پھر دو گروہوں میں تقسیم ہوجائے گی، اس کی امت سے ایک شخص اس فرات کے کنارے سے گزرے گا وہ ایسا شخص ہے جو نیکیوں اور اچھائیوں کا حکم دیتاہے اور برائیوں سے روکتا ہے صحیح فیصلہ کرتاہے اور فیصلہ کرتے وقت رشوت اور اجرت نہیں لیتا،دنیا
______________________
(١) نہج البلاغہ باب الحکم ، نمبر ١٣٦۔وقعہ صفین ص١٤٤۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص ٢٠٣
اس کی نگاہوں میں اس گرد وغبار سے بھی بدترہے جسے تیز ہوا کے جھونکے اڑاتے ہیں اور موت اس کی نگاہوں میں پیاسے انسان کی پیاس بجھنے سے بھی زیادہ محبوب ہے تنہائی میں وہ خدا سے ڈرتاہے اور ظاہری طور پر خدا کامخلص ہوتاہے خدا کا حکم جاری کرنے میں برا کہنے والوں کی سرزنش سے نہیں ڈرتا ، جو شخص بھی اس علاقہ کا اس پیغمبر سے ملاقات کرے اس پر ایمان لائے اس کی جزا میری مرضی اور بہشت ہے اور جو شخص بھی خدا کے اس صالح بندے کو پالے اور اس کی مدد کرے اور اس کی راہ میں قتل کیا جائے تو اس کی راہ میں قتل ہونے والا شہید ہے...۔
جب راہب اس صحیفے کو پڑھ چکا توکہا، میں آپ کی خدمت میں ہوں اور کبھی بھی آپ سے دور نہیں ہوؤنگا تاکہ جو چیز آپ تک پہونچے وہ مجھ تک بھی پہونچے امام علیہ السلام یہ حالت دیکھ کر رونے لگے اور فرمایا: خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے بھولنے والوں میں قرار نہیں دیا ، اس خدا کی تعریف جس نے مجھے اچھے اور نیک لوگوں کی کتابوں میں یاد کیا۔
راہب اس وقت سے امام علیہ السلام کے ہمراہ تھا اور جنگ صفین میں درجہ شہادت پر فائز ہوگیا امام علیہ السلام نے اس کے جنازے پر نماز پڑھی اور اسے دفن کیااور فرمایا '' ھذا منّا اھل البیت '' (یہ شخص ہمارے خاندان سے ہے ) اور اس کے بعد کئی مرتبہ اس کے لئے طلب مغفرت کیا۔(١)
امام علیہ السلام کا رقّہ میں قیام
امام علیہ السلام نے مدائن سے روانہ ہونے سے پہلے اپنے تین ہزار فوجیوں کو معقل بن قیس کی سپہ سالاری میں رقّہ کی طرف روانہ کیا (٢) اور اسے حکم دیا کہ موصل پھر اس کے بعد نصیبین کی طرف جائے اور رقّہ کی سرزمین پر قیام کرئے اور وہاں پر امام سے ملاقات کرئے اور خود امام بھی دوسرے راستے سے رقّہ کے لئے روانہ ہوئے گویا اس گروہ کو اس راستے سے بھیجنے کا مقصد اس علاقے میں حاکم کی حکومت اور موقعیت کو ثابت کرنا تھا ، لہٰذا آپ نے لشکر کے سپہ سالاروں کو حکم دیاکہ کسی سے بھی جنگ نہ کریں اور اپنے سفر میں ان
______________________
(١)وقعہ صفین ص١٤٨،١٤٧۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص٢٠٦، ٢٠٥
(٢) کامل ابن اثیر ج٣، ص ١٤٤۔ تاریخ طبری ج٣، جزء ٥ ص ٢٣٧
علاقوں کے لوگوں کو آرام واطمینان بخشیں اور اس راستے کو صبح اور شام میں طے کریں اور دوپہر اور رات کے پہلے حصے میں آرام کریں ( کیونکہ خداوندعالم نے رات کوآرام کرنے کے لئے پیدا کیا ہے ) خود اور اپنے سپاہیوں اور سواریوں کو راحت و آرام پہونچائیں، لشکر کے سپہ سالارنے امام کے حکم کے مطابق سفر طے کیا اور اس وقت رقّہ پہونچا جب امام علیہ السلام اس سے پہلے رقّہ پہونچ چکے تھے۔(١)
رقّہ سے معاویہ کے نام خط
امام علیہ السلام کے چاہنے والوں نے امام سے عرض کیا کہ آپ معاویہ کے نام خط لکھیں اور دوبارہ اپنی حجت کو اس پر تمام کریں ، امام علیہ السلام نے ان کی درخواست کو قبول کیا(٢) کیونکہ آپ چاہتے تھے کہ معاویہ کی نافرمانی اور سرکشی بغیر خوں ریزی کے برطرف ہوجائے جب کہ آپ جانتے تھے کہ حکومت وقدرت حاصل کرنے والوں پر نصیحت وموعظہ کا کوئی اثر نہ ہوگا ، جب امام علیہ السلام کا خط معاویہ کے پاس پہونچا تو اس نے جواب میں جنگ کرنے کی دھمکی دی (٣) اس وجہ سے امام علیہ السلام اپنے ارادے میں اورمحکم ہوگئے اور رقّہ سے صفین کی طرف جانے کا حکم دیدیا۔
_______________________________
(١)وقعہ صفین ص١٤٨۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص٢٠٨
(٢)(٣)امام کے خط کی عبارت اور جنگ صفین کے متعلق معاویہ کا جواب ص ١٥٠۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص٢١١۔٢١٠
پل بنا کر فرات سے گزرنا
اس وسیع وعریض فرات کو عبور کرنا امام علیہ السلام کے لئے بغیر کسی پل یا کسی کشتی کے مشکل امر تھا، امام علیہ السلام نے رقّہ کے لوگوں سے کہا کہ کوئی ایسا وسیلہ لائیں جس کے ذریعہ سے خود اور آپ کے تمام سپاہی فرات کو پار کرسکیں ، لیکن اس سرحدی شہر کے لوگ عراقیوں کے برخلاف مولائے کائنات سے کوئی الفت ومحبت نہیں رکھتے تھے لہٰذا پل نہیں بنایا، امام علیہ السلام نے شجاعت وقدرت کے باوجود ان کے انکار کرنے پر کوئی مزاحمت نہیں کی اور ارادہ کیا کہ اپنے سپاہیوں کے ہمراہ اس پل سے گزریں جو وہاں سے کچھ دور ''منبِج'' نامی مقام پر واقع ہے۔
اس وقت مالک اشتر نے بلند آواز میں اس قلعہ کو خراب کرنے کی دھمکی دی جس میں وہ لوگ پناہ
لئے ہوئے تھے، رقّہ کے رہنے والوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا مالک وہ شخص ہے جو اگر کوئی بات کہتا ہے تو اس پر عمل ضرور کرتاہے لہٰذا ان لوگوں نے فوراً پل بنانے کا اعلان کیا اور امام علیہ السلام کا پورا لشکر تمام سازوسامان کے ساتھ اُس پل سے گزرگیا اور سب سے آخر میں جس نے رقّہ کو چھوڑا وہ مالک اشتر تھے۔ (١)
امام علیہ السلام زمین شام پر
امام علیہ السلام نے فرات پار کرکے عراق کی سرزمین کو چھوڑدیا اور سرزمین شام پر قدم رکھا اور معاویہ کے ہر طرح کے شیطانی اور مزاحمتی حملوں کے مقابلے کے لئے اپنے دو بہترین وبہادر سپہ سالاروں ،زیاد بن نصر و شریح بن ہانی کو بالکل اسی انداز سے جیسے کہ کوفہ میں بھیجا تھا بطور ہر اول معاویہ کے لشکر کی طرف روانہ کیاوہ دونوں '' سور الرّوم '' نامی جگہ پر معاویہ کے سپاہیوں کے لشکر جس کا سپہ سالار ابو الاعور تھا روبرو ہوئے اور ان لوگوں نے کوشش کی کہ کسی بھی صورت سے دشمن کے اس سپہ سالار کو امام کا مطیع وفرمانبردار بنادیں، لیکن ان کی کوشش کامیاب نہ ہوسکی اور دونوں نے امام علیہ السلام کو فوراً حارث بن جمھان جعفی کے ہمراہ خط روانہ کیا اور امام علیہ السلام کے حکم کے منتظر رہے(٢)
امام علیہ السلام نے خط پڑھنے کے بعد فوراً مالک اشتر کو بلایا اور کہا زیاد اور شریح نے ایسا ایسا لکھا ہے جتنی جلدی ہوسکے اپنے آپ کو ان لوگوں تک پہنچادواور دونوں گرہوں کی ذمہ داری کو قبول کرلواورجب تک دشمن سے ملاقات نہ ہو اور ان کی گفتگو نہ لینا اس وقت تک جنگ شروع نہ کرنا مگر یہ کہ وہ لوگ جنگ کی ابتداء کریں ،دشمن پر تمہارا غصہ دشمن کی طرف آگے بڑھنے میں مانع نہ ہو مگریہ کہ کئی مرتبہ ان کی گفتگو سنو اور اپنی حجت کو ان پر تمام کردو، پھر حکم دیا: زیاد کو میمینہ اور شریح کو اپنے میسرہ سپرد کرنا اور خود قلب لشکر میں رہنا اور ہاں دشمن سے اتنا قریب نہ رہنا کہ وہ خیال کریں کہ جنگ شروع کرنا چاہتے ہو اور نہ دشمنوں سے اتنا دور
______________________
(١)وقعہ صفین ص١٥٤۔١٥١۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص٢١٢۔٢١١۔ تاریخ طبری ج٣ جزء ٥ ص ٢٣٨
(٢)وقعہ صفین ص١٥٤۔١٥١، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص٢١٣۔٢١١،تاریخ طبری ج٣ جزء ٥ ص ٢٣٨،کامل ابن اثیر ج ٣ ص١٤٤
رہنا کہ وہ تصور کریں کہ ڈر رہے ہو اسی طریقے پر باقی رہنا یہاں تک کہ میں تم تک پہونچ جاؤں(١) پھر امام علیہ السلام نے ان دونوں سپہ سالاروں کو یہ جواب لکھا اور مالک اشتر کی اس طرح تعریف کی''امابعد، فانی قدأمرت علیکما مالکاً فاسمعٰالہ واطیعاأمرہ فانّہ مِمّن لایخاف رھقہ ولاسقاطُہ ولابطوُہ عن ما الاسراع اِلیہ أحزم ولا اسراعہ الٰی ماالبط ء عنہ امثلُ وقد أمرتہ بمثل الّذی أمرتکما الّا یبدئُ القوم بقتال حتٰی یلقاھم فید عوھم ویعذر الیھم ان شاء اللّٰہ ''(٢)
دونوں سپہ سالاروں کو معلوم ہو کہ میں نے سپہ سالاری مالک اشتر کو سونپ دی ہے، ان کی باتوں کو سنو اور ان کے حکم کی اطاعت کرو ۔ کیونکہ وہ ایسا شخص نہیں کہ اس کی عقل ولغزش سے خوف کھائے اور وہ ایسا بھی نہیں ہے کہ جلد بازی میں سستی کرے یا بردباری کے وقت جلدی کرے اور اسے ان چیزوں کا حکم دیا ہے جن چیزوں کا تمہیں حکم دیا ہے کہ ہرگز دشمن کے ساتھ جنگ نہ کریں بلکہ انہیں حق کی طرف بلائیں اور حجت کو ان پر تمام کریں۔
مالک اشتر نے بہت ہی تیزی کے ساتھ اپنے کو اس مقام پر پہونچایا جہاں پر دونوں فوجیں آمنے سامنے موجود تھیں، فوج کو منظم کیا اس کے بعد اپنی فوج کے دفاع کے علاوہ کوئی اور کام انجام نہیں دیا اور جب شام کے سپہ سالارابو الاعور کی طرف سے حملہ ہوتا تھاتو اس کا دفاع کرتے تھے، سب سے تعجب خیز بات یہ ہے کہ مالک اشتر نے دشمن کی فوج کے سپہ سالار کے ذریعے معاویہ کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر جنگ کرنا چاہتا ہے تو خود میدان جنگ میں آئے تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کریں اور دوسروں کے خون اور قتل وغارت گری کاسبب نہ بنیں لیکن اس نے اس درخواست کو قبول نہیں کیا، یہاں تک کہ ایک دن آدھی رات کو معاویہ کی فوج بہت تیزی کے ساتھ پیچھے ہٹ گئی اور فرات کے کنارے ایک وسیع وعریض زمین پر پڑاؤ ڈالا اور امام کے سپاہیوں پر پانی بند کردیا۔(٣)
_______________________________
(١)،(٢)وقعہ صفین ص١٥٤۔١٥١، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص٢١٣۔٢١١،تاریخ طبری ج٣ جزء ٥ ص ٢٣٨،کامل ابن اثیر ج ٣ ص١٤٤
(٣)وقعہ صفین ص١٥٤،تاریخ طبری ج٣ جزء ٥ ص ٢٣٨
معاویہ کا صفین میں آنا
معاویہ کو خبر ملی کہ علی علیہ السلام نے سرزمین رقّہ پر موجود فرات کے اوپر پل بنایا اور خود اور اپنے پورے لشکر کو اس دریا سے پار کرایاہے ، معاویہ جس نے شام کے لوگوں کو پہلے ہی اپنا بنالیا تھا ، منبر پر گیا اور امام علی علیہ السلام کی فوج کی آمد کی خبر دی جو کوفیوں اور بصریوں پر مشتمل تھی ،اور ان کو جنگ کرنے اور جان ومال کے دفاع کے لئے بہت زیادہ رغبت دلائی، معاویہ کی تقریر کے بعد پہلے سے بنائے ہوئے منصوبے کے تحت اٹھے اور معاویہ کی تائید کی بالآخر معاویہ ان تمام لوگوںکے ہمراہ جن کے اندر جنگ کرنے کی صلاحیت تھی جنگ کے لئے روانہ ہوا(١)اور اپنی فوج کے کنارے جس کا سپہ سالار ابوالاعور تھا قیام کیا اور اسی جگہ کو اپنا محاذِ جنگ قرار دیااور ایک قول کی بنا ء پر چالیس ہزار آدمیوں کو فرات پر معین کیا تاکہ امام کے سپاہیوں کو فرات کی طرف آنے سے روک سکیں ۔(٢)
______________________
(١) ابن مزاحم نے (وقعہ صفین میں ) معاویہ کے سپاہیوں کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار لکھا ہے لیکن مسعودی نے (مروج الذھب، ج٣، ص ٣٨٤میں ) کہا ہے کہ جس قول پر لوگوں کا اتفاق ہے وہ پچاسی ہزار آدمی ہیں اور اسی طرح امام علی علیہ السلام کے سپاہیوں کی تعداد(وقعہ صفین ص ١٥٧) ایک لاکھ یا اس سے زیادہ لکھا ہے اور مروج الذھب میں٩٠ ہزار لکھا ہے ۔
(٢) وقعہ صفین ص١٥٧۔١٥٦
امام علیہ السلام کا سرزمین صفین پر ورود
زیادہ دن نہ گزرا تھا کہ امام علیہ السلام اپنے عظیم وشجاع سپاہیوں کے ہمراہ صفین پہونچے اور اپنی فوج کہ جس کے سپہ سالار مالک اشتر تھے سے ملحق ہوگئے۔
علی علیہ السلام نے سرزمین صفین پر اس وقت قدم رکھا جب دشمن نے ان کے سپاہیوں اور فرات کے درمیان اپنی عظیم فوج کا پہرہ بٹھا رکھا تھا اور امام کے سپاہیوں کو فرات تک پہونچنے سے روک دیا تھا، عبداللہ بن عوف کہتا ہے امام علیہ السلام کے سپاہیوں کے پاس پانی کا ذخیرہ بہت کم تھا اور ابوالاعور معاویہ کی فوج کے سپہ سالار نے نہر پر جانے کے تمام راستوں کو سواروں اور پیادوں سے بند کردیا تھا اورتیر چلانے والوںکو ان کے سامنے اور ان کے اردگرد نیزہ برداروں اور زرہ پہنے ہوئے لوگوں کو کھڑا کررکھا تھا جس کی
وجہ سے امام علیہ السلام کے لشکر میں پانی کی کمی ہونے لگی اور لوگ امام علیہ السلام کے پاس شکایتیں لے کر آئے۔(١)
امام علیہ السلام کا تحمل
ہر معمولی اور عام کمانڈر ایسی حالت میں تحمل وبرد باری کھودیتاہے اور فوراً حملہ کرنے کا حکم دے دیتاہے لیکن امام علیہ السلام جن کا پہلے ہی دن سے یہ مقصد تھا کہ جس طرح سے بھی ممکن ہو بغیر خونریزی کے ہی فیصلہ ہوجائے۔ اس وقت آپ نے اپنے ایک خاص رازدار صعصعہ بن صوحان (٢) کو بلایا اور کہا کہ تم بعنوان سفیر معاویہ کے پاس جاؤ اور اس سے کہو:
'' ہم لوگ اس علاقے میں آگئے ہیں اور ہمیں پسند نہیں کہ اتمام حجت سے پہلے جنگ شروع کریں اور تو پوری قدرت کے ساتھ شام سے باہر آگیا اور اس سے پہلے کہ ہم تجھ سے جنگ کریں تو نے جنگ کا آغاز کردیا میرا نظریہ ہے کہ تو جنگ سے باز آجاتا کہ میری دلیلوں کو غور سے سن سکے، یہ کا کون سابزدلانہ طریقہ ہے کہ تو نے ہمارے اور پانی کے درمیان اختیارکیا ہے، اس پہرے کو ہٹادے تاکہ میرے نظریہ کے بارے میں غورکر، اور اگر تو چاہتا ہے کہ یہی وضعیت رہے اور لوگ پانی کے لئے آپس میں جنگ کریں اور آخر میں کامیاب ہونے والاگروہ اس سے فائدہ اٹھائے تو اب مجھے کچھ نہیں کہنا ہے۔'' صعصعہ ، امام کے سفیر بن کر معاویہ کے خیمے میں داخل ہوئے جو لشکر کے درمیان میں تھا اور امام علیہ السلام کے پیغام کو معاویہ تک پہونچایا ، ولید بن عقبہ جیسے کور دل فرات پر قبضہ باقی رکھنے کے خواہاں تھے تاکہ امام کے لشکر والے پیاس کی شدت سے ہلاک ہوجائیں، لیکن سب سے بڑا سیاسی چالباز ، عمروعاص نے امیہ کے بیٹوں کے برخلاف معاویہ سے کہا فرات پر سے اپنا قبضہ ہٹالے اور جنگ کے دوسرے امور کی طرف غور کر ، اور ایک قول کی بناء پر اس نے کہا، یہ کام اچھا نہیں ہے کہ تو سیراب ہو اور علی پیاسے ہوں جب کہ ان کے پاس ایسے ایسے جانباز سپاہی ہیں جو فرات کی فکر میں ہیں یاتو اس پرقبضہ کرلیں گے یا اس راہ میں مر جائیں گے
______________________
(١)الامامة والسیاسة ج١ص ٩٤۔ تاریخ طبری ج٣ جزء ٥ ص ٢٣٩، کامل ابن اثیر ج٣ ص١٤٥۔ تاریخ یعقوبی ج٢ ص ١٨٧
(٢) طبری اور ابن قیتہ کے بقول امام علیہ السلام نے اشعث کو بھیجا تھا ۔ الامامة والسیاسة ج١،ص ٩٤۔ تاریخ طبری ج٣ جزء ٥ ص٢٤٠
اور تو جانتاہے کہ علی بہت بڑے بہادر ہیں اور عراق اور حجاز کے لوگ ان کے ہمرکاب ہیں ، علی اس مرد کا نام ہے کہ جب لوگوں نے فاطمہ کے گھر پر حملہ کیا تو انہوں نے کہا اگر چالیس افراد میرے ساتھ ہوتے تو حملہ کرنے والوں سے بدلہ لیتا ۔
جب کہ معاویہ امام کے سپاہیوں پر پانی بند کرکے اپنی پہلی کامیابی تصور کررہا تھا ۔ ایک شخص کہ جسے لوگ عابد ہمدانی کے نام سے جانتے تھے اور عمرو عاص کے دوستوں اور بہترین خطیبوں میں سے تھا ، اس نے معاویہ کی طرف رخ کر کے کہا سبحان اللہ ، اگر تم عراق کی فوج سے پہلے اس جگہ پہونچے ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم ان لوگوں پر پانی بند کردو ، خدا کی قسم اگر وہ لوگ تم سے پہلے یہاں آئے ہوتے تو تم پر کبھی پانی بند نہیں کرتے ، سب سے بڑا کام جو تم اس وقت انجام دے رہے ہو وہ یہ ہے کہ وقتی طور پر ان لوگوں کے لئے فرات کا پانی بند کر دیا ہے ،لیکن دوسرے موقع کے لئے آمادہ رہو کہ وہ لوگ اسی طرح سے تمہیں سزا دیں گے، کیا تم نہیں جانتے کہ ان کے درمیان ، غلام ، کنیز ،مزدور ، ضعیف وناتواں اور بے گناہ لوگ ہیں ؟
خدا کی قسم ، تمہارا سب سے پہلا ہی کام ظلم وستم ہے۔ اے معاویہ ، تونے اس غیر انسانی حرکت کی وجہ سے خوفزدہ اور مردد افراد کو جرأت وہمت دیدی اور وہ شخص جو تجھ سے جنگ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا تو نے ان کو جری کردیا(١)
معاویہ ، ان جگہوں کے برخلاف کہ جہاں پر وہ حلم وبردباری سے کام لیتا تھا اس زاہد ہمدانی پر سخت ناراض ہوا اور عمرو عاص سے اس کی شکایت کی ، اور عاص کے بیٹے نے بھی جو کہ اس کا دوست
تھا اس پر غضبناک ہوا، لیکن سعادت اور خوش بختی نے اس زاہد پر اپنا قبضہ کررکھا تھا اس نے معاویہ کے لشکر کے افق کو تاریکی میں دیکھا اور اسی رات امام علیہ السلام سے ملحق ہوگیا۔
_______________________________
(١)وقعہ صفین ص ١٦٠۔تھوڑے فرق کے ساتھ ،الامامة والسیاسة ج١ص ٩٤۔ تاریخ یعقوبی ج٢ ص ١٨٨۔تاریخ طبری ج٣ جزء ٥ ص ٢٤٠
حملہ کرنے اور قبضہ توڑنے کا حکم
پیاس کی شدت نے امام علیہ السلام کے جا نبازوں کونیم جان کردیاتھا جس کی وجہ سے امام علیہ السلام کو غم واندوہ نے اپنے گھیرے میں لے لیاتھاجب ، آپ قبیلہ '' مذ حج'' کی طر ف آئے توایک کو
ایک قصیدہ کے ضمن میں یہ کہتے ہوئے سنا :
أیمنعنا القومُ مائَ الفرات وفینا الرماحُ وفینا الحُجف(١)
کیاشام کی قوم ہم لوگوں کو فرات کے پانی سے روک دے گی جب کہ ہم لوگ نیزہ وزرہ سے لیس ہیں ؟ پھر امام علیہ السلام قبیلہ '' کِندہ'' کی طرف گئے تو دیکھا کہ ایک سپاہی اشعث بن قیس کے خیمے کے پاس جو اسی قبیلے کا سپہ سالار تھا کچھ شعر پڑھ رہا ہے جس کے پہلے دو شعر یہ ہیں:
لئِن لم یجلّ الا شعث الیوم کربةً من الموت فیھا للنفوس تعنّت
فنشرب من ماء الفرات بسیفہ فھبنا اناساًقبل کانوا فموّ توا(٢)
اگرآج کے دن اشعث نے سختی واذیت میں ڈوبے ہوئے انسانوں کو موت کے غم واندوہ سے دور نہ کیا تو ہم تلوار کے ذریعے فرات کے پانی سے سیراب ہوں گے، کتنا اچھا ہوتا کہ اے اشعث ایسے لوگوں کو ہمارے حوالے کرتے جو پہلے تھے اور اس وقت موت کی آغوش میں جارہے ہیں۔
امام علیہ السلام نے ان دوسپاہیوں کے اشعار سننے کے بعد جوفوجی چھاؤنی میں بلند آواز سے پڑھ
رہے تھے، اپنے خیمے میں آئے اچانک اشعث امام کے خیمے میں آیا اور کہا : کیا یہ بات صحیح ہے کہ شام کے لوگ ہمیں فرات کے پانی سے محروم رکھیں، جب کہ آپ ہمارے درمیان میں ہیں اور ہماری تلواریں ہمارے ہمراہ ہیں ؟ اجازت دیجیئے! کہ خدا کی قسم یا فرات پرسے قبضہ ہٹادیں یا اس راہ میں اپنی جان گنوادیں اور مالک اشتر کو حکم دیں کہ اپنی فوج کے ساتھ جہاں پر بھی آپ کا حکم ہو وہاں کھڑے ہو جائیں ، امام علیہ السلام نے فرمایا، تم کو اختیار ہے اس وقت آپ نے مالک اشتر کے لئے ایک جگہ معین کی تاکہ وہ وہاں اپنی فوج کے ساتھ موجود رہیں، پھر آپ نے اپنے عظیم لشکر کے درمیان مختصر سا خطبہ پڑھا اور یہ ایک ایسا ولولہ انگیز خطبہ تھا جس سے امام کے لشکر میں ایک ایسا سماں بندھ گیا کہ گویا ایک ہی حملہ میں معاویہ کے لشکر کو پچھاڑ دیں گے اور گھاٹ کو اپنے قبضے میں لے لیں گے، وہ خطبہ یہ ہے:
''قد استطعموکم القتال فأقرّواعلیٰ مذلّةٍ وتاخیر محلّة روّ واالسیوف من الدماء ترووُا من المائ، فالموت فی حیاتکم مقھورین والحیاة فی موتکم قاھرین۔ ألا
______________________
(١)،(٢) مروج الذھب ج٢ ص ٣٨٥۔ وقعة صفین ص ١٦٦۔١٦٤
واِنَّ معاویة قاد لُمةً من الغواة وعمّس علیھمُ الخبر حتٰی جعلوا نحورھم أغراض المنیّةِ'' (١)
معاویہ کی فوج نے اپنے اس کام (تم لوگوں پر پانی بند کرنے) کی وجہ سے تم لوگوں کو جنگ کی دعوت دی ہے اور اس وقت تم لوگوں کے سامنے دوراستے ہیں یا تو ذلت ورسوائی کے ساتھ اپنی جگہ پر بیٹھے رہو یا تلواروں کو خون سے سیراب کردو تاکہ تم پانی سے سیراب ہوجاؤ ، تمہارا ان سے دب جانا جیتے جی موت ہے اور غالب آکر مرنے میں زندگی ہے، آگاہ رہو کہ معاویہ گمراہوں کا ایک چھوٹا سا لشکر میدان جنگ میں زبردستی گھسیٹ لایا ہے اور حقائق سے انہیں اندھیرے میں رکھا ہے یہاں تک
انہوں نے اپنے گلوں کو تیروں اور شمشیروں (موت) کا نشانہ بنایاہے۔
اشعث نے اسی رات اپنے ماتحت سپاہیوں کے درمیان بلند آواز میں کہا جو شخص بھی پانی چاہتاہے یا موت ، اس سے ہمارا وعدہ صبح کے وقت ہے (٢)
پیاس کی شدت ایک طرف اور امام کا شعلہ بیاں خطبہ اور سپاہیوں کے ولولہ انگیز اشعار دوسری طرف ،یہ تمام چیزیں سبب بنیں کہ بارہ ہزار آدمیوں نے فرات پر قبضہ کرنے کے لئے آمادگی کا اعلان کردیا، اشعث اپنی عظیم فوج کے ساتھ اور مالک اشتر اپنے طاقتور اور بہادر سپاہیوں کے ہمراہ جو کہ سوار تھے دشمنوں کے سامنے کھڑے ہوگئے اور بجلی کی طرح ایک ایساحملہ کیا کہ جو فوج رکاوٹ بنی ہوئی تھی اور قدرت وطاقت میں اس سے دوگنی تھی اسے اپنے راستے سے ہٹا ڈالا، اس طرح سے کہ جو فوج گھوڑے پر سوار تھی ان کے گھوڑے کے پیروں کے نشان فرات میں بن گئے تھے، اس حملے میں مالک اشتر کے ہاتھوں ٧ اور اشعث کے ہاتھوں ٥ افراد مارے گئے اور جنگ کا نقشہ امام کے حق میں پلٹ گیا اور عظیم نہر فرات امام اور آپ کے دوستوں کے قبضہ میں آگئی، اس وقت عمر وعاص نے معاویہ کی طرف رخ کرکے کہا ، کیا سوچ رہے ہو اگر علی تمہارے جیسا کام کریں اور تم پر پانی بند کردیں؟
معاویہ، جو امام علیہ السلام کے اخلاقی ، روحانی عظمتوں سے واقف تھا، نے کہا :میں سوچ رہا ہوں
______________________
(١) نہج البلاغہ خطبہ ٥١۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص ٢٤٤
(٢) وقعہ صفین ص ١٦٦۔ الامامة والسیاسة ج١ ص٩٤
کہ وہ ہم پر پانی بند نہیں کریں گے، کیونکہ وہ دوسرے مقصد کے لئے یہاں آئے ہیں (١)
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ ابو سفیان کے بیٹے کے برے عمل (پانی بند کرنا) کے نتیجے میں امام علیہ السلام کا کیا عکس العمل تھا۔
_______________________________
(١) مروج الذھب ج ٢ ص ٣٨٧۔ ٣٨٦
عظیم قدرت کے باوجودانسانی اصول کی پابندی
امام علیہ السلام کے سپاہیوں نے فرات پر قبضہ کرنے کے لئے فوجی تکنک کا سہارا لیا اور کامیاب ہوگئے اور پوری فرات امام کے سپاہیوں کے قبضے میں آگئی اور معاویہ کے سپاہی فرات سے دور کردیئے گئے اور ایسی جگہ پر پناہ لی جہاں پر کھانے پانی کا انتظام نہ تھا اور شامیوں کے لئے ایسے حالات میں زندگی بسر کرنا ممکن نہ تھا اور بہت ہی جلد ان کے پاس موجود پانی کا ذخیرہ ختم ہوگیااور وہ مجبور تھے کہ تین راستوں میں سے کوئی ایک راستہ اختیار کریں۔
١۔ امام کے لشکر پر حملہ کریں اور دوبارہ فرات کو اپنے قبضہ میں لے لیں لیکن اپنے اندر اتنی جرأت وطاقت نہیں دیکھ رہے تھے۔
٢۔ پیاس کی شدت سے موت کا جام پی لیں اور صفین کو اپنی قبرستان بنالیں۔
٣۔ میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں اور شام اور اس کے اطراف میں بکھر جائیں۔
لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود فرات پر قبضہ نے شام کی فوج کے سرداروں خصوصاً معاویہ کو وحشت زدہ نہیںکیا کیونکہ وہ لوگ امام علیہ السلام کی جوانمردی، اخلاق اور اسلام اور اس کے اصولوں پر پابندی کے ساتھ عمل کرنے سے خوب واقف تھے اور وہ جانتے تھے کہ امام کبھی بھی اصل کو فرع پر اورہدف کو وسیلہ پر قربان نہیں کریں گے۔
اخلاقی اصولوں اور انسانی اقدار کی رعایت کا سرچشمہ ہر شریف النفس انسان کی ملکوتی روح ہوتی ہے ،ان اصول کا اظہار سارے مواقع پر مستحسن سمجھا جاتا ہے ،جنگ ،صلح تک محدود نہیں ہے بلکہ انسان کا دوسرے انسان کے رابطے سے مربوط ہے۔
اسلام کے سپاہیوں کو روانہ کرتے وقت پیغمبر اسلام (ص) کے پیغامات اور علی علیہ السلام کے جنگ صفین میں دیئے ہوئے پیغامات ، جس میں سے کچھ کا تذکرہ ہم کریں گے ایک حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ کبھی بھی انسانی اصولوں کو اپنے مقصد پر قربان نہیں کرنا چاہیے بلکہ سخت سے سخت موقع پر بھی اخلاقی اصولوں سے غفلت نہیں کرنا چاہیے۔
معاویہ کی فوج کے سرداروں کو امام علیہ السلام کے سپاہیوں کے توسط سے فرات پر قبضہ ہونے پر فکر مند نہ ہونے کی علت کو دو سیاسی چالبازوں ( معاویہ وعمروعاص) کی گفتگو سے جانا جا سکتا ہے۔
عمروعاص، معاویہ کے انسانیت سے گرے ہوئے کاموں کا بالکل مخالف تھا لیکن معاویہ نے برخلاف عقل کام کیا ، یہاں تک کہ امام علیہ السلام کے لشکر کا قبضہ فرات پر ہوگیا اور معاویہ کی فوج فرات سے کئی فرسخ دور ہوگئی، اس وقت یہ دونوں سیاسی و شیطانی نمائندے(معاویہ وعمر وعاص) آپس میں گفتگو کرنے کے لئے ایک جگہ جمع ہوئے، مضمون یہ تھا:
عمروعاص : کیا فکررہے ہو اگر عراقی تجھ پر پانی بند کردیں بالکل اسی طرح جس طرح تو نے ان پر پانی بند کیا؟ تو کیا پانی کو اپنے قبضے میں لینے کے لئے ان سے جنگ کروگے اسی طرح جس طرح وہ لوگ تجھ سے جنگ کرنے کے لئے اٹھے تھے؟
معاویہ : پچھلی باتوںکو چھوڑو، علی کے بارے میں کیا سوچ رہے ہو؟
عمروعاص : میرا خیال ہے جس چیز کو تو نے ان کے بارے میں روا رکھا وہ تمہارے بارے میں روا نہیں رکھیں گے کیونکہ ہرگز وہ فرات پر قبضہ کرنے کے لئے نہیں آئے ہیں۔(١)
معاویہ نے ایسی بات کہی کہ بوڑھا سیاسی ناراض ہوگیا اور اس نے اس کے جواب میں اشعار کہے اور اسے یاد دلایا کہ افق تاریک ہے اور ممکن ہے طلحہ وزبیر کی طرح مشکلوں میں گرفتار ہوجائیں۔(٢)
لیکن عمرو کا خیال بالکل صحیح تھا، امام علیہ السلام نے فرات پر قبضہ کرنے کے بعد دشمن کے لئے فرات کوآزاد
______________________
(١) الامامة والسیاسة ج١ ص٩٤۔ مروج الذھب ج ٢ ص ٣٨٦
(٢) وقعہ صفین ص ١٨٦
کردیا(١) اور اس طرح آپ نے ثابت کردیا کہ جنگ کے دوران اپنے بد ترین دشمن کے ساتھ بھی اخلاقی اصولوں کے پابند رہے اور معاویہ کے برخلاف اپنے مقصد کے حصول کے لئے غلط وسیلے کو اختیار نہیں کیا۔
فرات آزاد کرنے کے بعد
دونوں فوجیں تھوڑے سے فاصلہ پر آمنے سامنے تھیں اور اپنے اپنے سردار کے حکم کی منتظر تھیں ،لیکن امام علیہ السلام جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے چنانچہ کئی کئی مرتبہ آپ نے اپنے نمائندوں اور خطوط بھیج کر مشکل کو گفتگو کے ذریعے حل کرنا چاہا۔(٢) ربیع الثانی ٣٦ ہجری کے آخری دنوں میں اچانک '' عبید اللہ بن عمر '' مظلوم وبے گناہ ہرمزان کا قاتل امام علیہ السلام کے پاس آیا ، ہرمزان ایک ایرانی تھااور اس کے مسلمان ہونے کو خلیفہ دوم نے تسلیم کرلیا تھا اور اس کے اخراجات کے لئے کچھ رقم معین کررکھی تھی ۔(٣) جب حضرت عمر ابو لؤلو کے خنجر سے زخمی ہوئے اور سپاہیوں کو قاتل کا کوئی سراغ نہ ملا (٤)تو خلیفہ کے ایک بیٹے نے جس کا نام عبیداللہ تھا انسانی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قاتل کی جگہ بے گناہ ہرمزان کو قتل کردیا(٥)امام علیہ السلام نے بہت کوشش کی کہ عثمان کے دور حکومت میں عبیداللہ کو اس کی سزا (قصاص) مل جائے ( مگر سزا نہ ملی ) اور امام علیہ السلام نے اسی وقت خدا سے عہد کیا کہ اگر ہمارا تسلط ہوگیا تو اس کے متعلق خدا کے حکم
______________________
(١) کامل ابن اثیر ج٣ ص ١٤٥۔ تاریخ طبری ج٣ جزء ٥ ص٢٤٢۔ تجاب السلف ص ٤٧
(٢) مروج الذھب ج ٢ ص ٣٨٧۔ تاریخ طبری ج٣ جزء ٥ ص٢٤٢
(٣)بلاذری ، فتوح البلدان ص ٤٦٩
(٤)یہ بحث کہ عمر کے قتل کے بعد ابولؤلوپہ کیا گذری مورخین کے درمیان اختلاف ہے بعض کا کہنا ہے کہ اسے گرفتار کرکے قتل کردیاگیا( تاریخ برگزیدہ ص ١٨٤، تاریخ فخری ص١٣١) اور مسعودی کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے کو خود اسی خنجر سے قتل کرلیا جس سے عمر کو قتل کیا تھا( مروج الذھب ج٢، ص٣٢٩) لیکن مولف حبیب السیر کا کہنا ہے کہ شیعوں کے نظریہ کے مطابق وہ مدینہ سے بھاگ گیا اور عراق کی طرف چلا گیا اور بالآخر کاشان میں اس کی وفات ہوگئی ( حبیب السیر ج ١ جزء ٥ ص ٢٤۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣، ص ٦١۔ ،مروج الذھب ج٢ ص٣٩٥)
(٥)تاریخی یعقوبی ج٢، ص ١٦١۔ فتوح البلدان ص ٥٨٣۔ تجارب السلف ص ٢٣
کو جاری کریں گے (١) عثمان کے قتل کے بعد اور امام علیہ السلام کی خلافت حقہ کے بعد عبیداللہ قصاص(سزا) سے بہت ڈرا ہواتھا اور مدینہ سے شام کی طرف چلا گیا۔(٢)
اسی لئے عبیداللہ جنگ صفین کے موقع پر امام علیہ السلام کے پاس آیا اور طعنہ کے طور پر امام سے کہا خدا کا شکر کہ تمہیں ہرمزان کے خون کا بدلہ لینے اور مجھے عثمان کے خون کا بدلہ لینے والا قراردیا امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا مجھے اور تجھے میدان جنگ میں جمع کرے(٣) اتفاقاً جنگ اپنے شباب پر تھی کہ عبیداللہ امام کے سپاہیوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا(٤)۔
______________________
(١)امام علیہ السلام نے عبیداللہ سے کہا '' یا فاسقُ أما واللّٰہ لئِن ظفرتُ بک یوماً من الدھر لأضربنّ عنقک '' انساب الاشراف ج٥، ص ٢٤۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص ١٦١۔ مروج الذھب ج٢ ٣٩٥۔
(٢)مروج الذھب ج٢ ص٣٨٨۔
(٣)الاخبار الطوال ص ١٦٩ مطبوعہ قاہرہ ۔ وقعہ صفین ص ١٨٦۔
(٤)مسعودی کہتے ہیں : جنگ صفین میں عبیداللہ کو خود امام علیہ السلام نے قتل کیا تھا وہ مزید کہتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے اس پر ایسی ضربت ماری کہ جو زرہ لوہے کی وہ پہنے تھا وہ سب ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی اور تلوار کا وار اس کی ہڈیوں تک پہنچ گیا۔ مروج الذھب ج٢ ص ٣٩٥۔
|